نارنگی بادشاہزادی کا عجیب قصہ

نارنگی بادشاہزادی کا عجیب قصہ

Nov 7, 2024 - 20:47
 0  3
نارنگی بادشاہزادی کا عجیب قصہ
نارنگی بادشاہزادی کا عجیب قصہ


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت تھا قصہ نارنگی بادشاہ عزادی بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا بڑا جلیل القدر شہنشاہ تھا بہت بڑی مملکت تھی مملکت کی سرحدیں چاروں سمتوں میں میلوں تک فھیلی ہوئی تھی آل عشان فوج تھی سیکڑوں ہاتھی گھوڑے اور لاکھوں فوجی ہر طرح سے تربیت یافتہ کسی پڑوستی راجہ کو سر اٹ


خزانہ زر و جوہر سے بھرا ہوگا تھا ملک میں خوشحالی تھی بادشاہ منصف مجاز عادل اور رہندل اور ریایا پربر اور مطمئن گرز ہر طرف چین سکون اور اطمینان تھا بادشاہ کے تین بیٹے تھے تینوں بہدور اقلمند اور مدبر تھے بادشاہ بڑے بیٹے کو ولی اہد مقرر کر چکے تھے فلحال وہ فوج کا سپا سالار تھا منجنا بیٹا مفتو علاقوں کا گورنر تھا لیکن چھوٹے بیٹے کو ابھی کوئی ذمہ دار


باب کا دلارہ، ماں کی آنکھوں کا تارہ، بھائیوں کا لڑلا، شہزادہ خاور ابھی تک سب سے نازن ام کا حقدار بنا بیٹھا تھا اتنے لڑ پیار نے زدی اور خود سر بنا دیا تھا جس چیز کی زد کرنے بیٹھ جاتا، اسے پورا کروا کے ہی دم لیتا جو سودہ سر میں سمجھاتا، اسے ہر حال میں حاصل کر لیتا یوں تو شہزادوں کے لیے یہ بڑی معاملی سی باتیں ہیں جہاں اس قدر دولت سروط، امارت باد شہد اور سب سے ب


ناز نکھر اٹھانے کے لیے نہ صرف پورا خاندان بلکہ پوری مملكت تیار ہو تو زد اور خود سریتو ناغزیر ہو ہی جاتی ہے ویسے شہزاد خاور میں کوئی کمی نہ تھی خوبصورتی میں یکتا وجاحت میں لاسانی زہنت میں سب سے بڑھ کر علم و حنر میں ماہر بہت دوری میں شیر بولند حمت و دلیر گرز شہزادوں میں داستان کو جتنی خوبیوں گناتے ہیں وہ سب شہزاد خاور میں موجود تھی دونوں بڑے بھائیوں کی


بھاؤ جے ناز نقرے بھی اٹھاتی اور ساتھ ساتھ مزہاں تانے دینے سے بھی باز نہ آتی کہ دیکھتے ہیں تم کون ہور پری بیہ کر لاتے ہو تمہاری دلہن تو عرش سے اتر کر آئے گی تمہاری نظروں میں نہ کوئی شہزادی جچتی ہے اور نہ کسی کا کام تمہیں پسند آتا ہے بادشاہ اور ملکہ کو مہل میں جشن برپا کرنے کا بڑا شوق تھا مہل میں ہر وقت کسی نہ کسی جشن کی تیاری چل رہی ہوتی کبھی بہر کا جشن ہے تو کبھی


کبھی موسم سرما کی آمد منائی جا رہی ہے تو کبھی تیوہاروں کا زور ہے محل میں ہر مذہب و ملت کے تیوہار دھوم دھام سے منائے جاتے محل میں ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہوا کرتی تھی اس روز محل میں جشن نوروز کی تیاری تھی ملکہ علیہ نے انتظام کی قل ضمیداری اپنی دونوں بہنوں پر ڈال دی تھی


ایک کے سپروڈ مہل کی سجاوٹ تھی تو دوسری کے ذم میں کھانے پکوانے کا انتظام تھا دونوں دلہنے اپنی اپنی خواسوں اور کنیزوں کے ساتھ جی جان سے لگی ہوئی تھی کیوں کہ بادشاہ سلامت نے اعلان کیا تھا کہ جس دلہن کا انتظام زیادہ اچھا ہوگا اسے سچے موٹیوں کا وہ ہر دیا جائے گا جو چین کے بادشاہ نے توفتن بھیجا تھا اور جس کا ہر موٹی فاختہ کے اڑے کے برابر تھا


جشن کا وقت ہوا دربار خاص میں بادشاہ اور ملکہ کی تشریف آوری ہوئی بڑی دلہن نے جس طرح ایوان خاص کی تزیین و آرائش کی تھی وہ ملکہ علیہ کو بے ہت پسند آئی تھی انہوں نے دل کھول کر بڑی دلہن کی تاریفیں کی اور یقین دلائے کہ موتیوں کا انمول ہر انھی کے حصے میں آئے گا جب دسترخان بچایا گیا تو بادشاہ بے ساختہ دات دینے پر مجبور ہو گئے ایک ایک بش ایسی لذیز تھی کہ بادشاہ کے پاس ت


اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ انعام کی حقدار تو منجلی دلہن ہے جب بادشاہ اور ملکہ میں بحث چڑھ گئی اور کوئی حل نظر نہیں آیا تو چھوٹے شہزادے کو بلایا گیا کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے گا بادشاہ اور ملکہ کو منظور ہوگا شہزادہ خاور کے سامنے جب مقدمہ پیش ہوا تو اس نے پہلے با نظر غائر عیبان کی سجاوٹ کا موائنہ کیا پھر دسترفان کی ہر ڈش چکھی اور ہر چیز میں ایب نکال دیئے


سجاوٹ کی تاریف کی تو یہ بھی جتا دیا کہ یہاں اگر ایسا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا اسی طرح کھانے میں تاریف کے ساتھ تنقید بھی کر دی کہ اس میں میٹھا زرا سے کم ہوتا تو باتھی کچھ اور ہوتی بادشاہ اور ملکہ کو شہزادی کی بات میں وزن نظر آیا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نایا موتیوں کا ہار اس مرتبہ کسی کو نہیں دیا جائے گا اس کے وجہے دونوں دلہنوں کو ہیرے کے ہر تحفتن انام کے طور پر دے دی گئے


ہیروں کے ہر کے شہزادیوں کے پاس کوئی کمی نہیں تھی ان کی نظر تو موتیوں کے اس ہر پر تھی جو بے مثال تھا دونوں بھاؤجیں جل بھن کر کوئلہ ہو گئی یہ سب چھوٹے شہزادے کی وجہ سے ہوا تھا انہوں نے دیور کو خوب تانے دیئے بڑی بھابی بولی اب یہ لے کے آئیں گے نارنگی باد شہزادی جو بے ایب ہو گی تب ہم دیکھیں گے وہ کیا کرتی ہے شہزادہ خاور نے پوچھا یہ نارنگی باد شہزادی کون ہے


منجلی بھابی بولی ہمیں کیا پتہ سُنا ہے بڑی حسینہ محجبینا ہے اس جیسی تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوئی شہزادہ نے پوچھا وہ کہاں رہتی ہے؟ بڑی بھابی جلی بھنی بیٹھی تھیں بولی ہمیں کیا معلوم ایسی ہی بے ایپ کی چاہت ہے تو خود ہی تلاش کر لو اب تو شہزادہ پر زد سوار ہو گئی شادی کروں گا تو نارنگی بات شہزادی سے ورنہ ساری عمر کوارہ رہوں گا اٹوٹی خٹوٹی لے کر پڑ گیا


جب تک نارنگی بادشہزادی کا پتہ نہیں معلوم ہوگا میں کھانا نہیں کھاؤں گا سارے محل میں ہنگامہ ہو گیا کہ شہزادے نے زد میں آکر کھانا پینا چھوڑ دیا ہے وہ بھی ایک ایسی زد کے لیے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے بادشہ اور ملکہ کو خبر ہوئی تو دونوں پریشان ہو گئے معلوم کروائے کہ یہ شوشا چھوڑا کس نے تھا تو دونوں دلہنوں کا نام آیا ان کے شوہروں نے انہیں ڈاٹ پلائی ساس ساسور الگ ناراض دونوں


بہت وار دیور کو سمجھایا کہ بھیا ایسی کوئی شہزادی نہیں ہے ہم نے یوں ہی سنی سنائی کہہ دی تھی لیکن شہزادہ خاور تس سے مس نہیں ہوا کوئی بات ہوا میں نہیں ہوتی جب نام لیا جاتا ہے تو کہیں نہ کہیں ہوگی ضرور اب تو جب تک نارنگی باد شہزادی کی تلاش کر کے نہ لیاوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا خیر ماہ باب کے کہنے سننے سے کھانا تو کھا لیا لیکن ساتھ ہی یہ قسم بھی کھائی


کہ جب تک نارنگی بادشہزادی کی خبر نہ مل جائے گی میں محل میں واپس نہیں آوں گا ماباب نے پیار سے سمجھایا بھائیوں نے ڈاڈ ڈپٹ کی بھابیوں نے معافی مانگی یار دوستوں نے زد کے نتائج سے آگا کیا لیکن شہزادی کے سر پہ تو جیسے بھوت سوار تھا رخصتِ سفر باندا گوڑے کی زین کو عشرفیوں سے لبریس کیا اور تنی تنہا نکل کھڑا ہوا شہروں شہروں ملکوں ملکوں گھومتا


لوگوں سے سنگل لیتا لیکن کہیں نارنگی بادشہزادی کا نام سننے کو نہیں ملا اسی دھن میں پابا رقاب تھا کہ ایک دن جنگل میں شام ہو گئی دور دور بستی کے آسار نہیں تھے ناچار کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں رات گزار سکے چلتے چلتے گھنے جنگل میں داخل ہو گیا چاروں طرف طرح طرح کے جانوروں کے بولنے کی آوازیں سن کر دل دہلا جا رہا تھا کہیں لکڑ بگا کہکاہ لگاتا کہیں شیر دہارتا کہ


کہیں اُلو چیختے۔ شہزادہ اللہ کا نام لے کر چلا جا رہا تھا کہ دور درختوں کے جھنڈ کے درمیان روشنی نظر آئی۔ شہزادہ کو امید کی قرن دکھائی دی۔ آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جھوپڑی میں ایک فقیر صاحب آنکھے بند کیئے عبادت میں مسروف ہیں۔ ایک شیر ببر ان کی خدمت میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔ شہزادہ جھوپڑی میں داخل ہوا تو شیر اٹھ کر باہر چلا گیا اور دروازے پر بیٹھ گیا


تمام رات یوں ہی گزر گئی تھکاہارہ شہزادہ مٹی کی دیوار سے ٹیک لگا کر نا جانے کپ سو گیا صبح آنکھ کھلی تو دیکھا فکیر صاحب نماز پڑھ رہے تھے شہزادہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا باہر نکلا تو دیکھا پاس ہی ساف پانی کا جھرنا بہ رہا تھا شہزادہ نے بھی بزو کیا اور فکیر صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا سلام پھر کر فکیر صاحب پ


شہزادہ بھی وہیں بیٹھا رہا اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ وہی راد والا شیر مومے کچھ جنگلی فل لیے آیا اور فکیر صاحب کے سامنے رکھ دئیے پھر پانی کا ڈول مومے دبا کر لے گیا اور جھرنے سے ٹھنڈا میتھا پانی پھر کر لایا فکیر صاحب نے آنکھے کھولی اور مسکرہ کر شیر کے سر پر ہانٹ پیرا اور کہا جاؤ اب تم بھی کچھ کھا پی آو شیر نے سر جھکایا اور جھوپڑی سے باہر


شہزادہ نے حکم کی تامل کی اور اٹھ کر ان کے سامنے آ بیٹھا سیپ کے برابر سائز کے چار فل تھے فقیر صاحب نے دو فل شہزادے کو دیئے اور دو خود کھائے ایسے شیری اور خوش ضائقہ فل شہزادہ نے اپنی سندگی میں کبھی نہیں کھائے تھے فل کھا کر فقیر صاحب نے پانی پیا اللہ کا شکریہ عدہ کیا اور شہزادے سے پوچھا ہاں میاں اب بتاؤ تم کیوں دربدر ہو راج پاٹ چھوڑ کر کیوں بھٹک رہے ہو


شہزادہ نے دست بستہ عرض کیا حضور آپ تو سب جانتے ہیں آج تک جو بھی ٹھان لیا ہے اسے پورا کیا ہے ابکے آپ عزت رکھ لیجئے فکیر صاحب نے چند منٹ کو آنکھ بند کی پھر گھبرا کر آنکھ کھول دیں میاں یہ بچپنہ چھوڑو بادشاہ کے بیٹے ہو سختیوں کے آدھی نہیں ہو زدہ چھوڑو اور حسی خوشی واپس جاؤ تمہارے والدین تمہارے لیے پرشان ہیں


شہزادہ نے کہا حضور بادشاہ کا بیٹا ہوں زبان کا پکا ہوں جو مو سے نکل گیا وہ نکل گیا اب تو نارنگی بادشاہ زادی کو لے کر ہی محل میں قدم رکھوں گا ورنہ آپ کی خدمت میں زندگی بزار دوں گا فقیر صاحب مسکرائے بہت زدی ہو جانتے بھی ہو کہ نارنگی بادشاہ زادی کون ہے اور اس کا یہ نام کیوں پڑا ہے شہزادہ نے کہا میں کچھ بھی نہیں جانتا صرف یہ جانتا ہوں کہ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا


فکیر صاحب نے کہا سنو نارنگی بادشہزادی ایک عظی مشان بادشاہ کی نیحائت حسین و جمیل بیٹی تھی ایک مرتبہ شہزادی اپنی سہلیوں کے ساتھ مہل کے جھروکے سے ساپ کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ ناغہ سپیرے کی نظر شہزادی پر پڑھی اور وہ ہزار جان سے اس پر آشک ہو گیا سپیرہ شہزادی کے عشق میں اس قدر بےحواص ہواس ہوا کہ اپنی اوقات بھول گیا اور بادشہ کے دربار میں شہزادی کا ہاتھ مانگن


بادشاہ نے ایک گریب سپیرے کے مو سے ایکلوطی لادلی شہزادی کے رشتے کی بات سنی تو گسے سے بےقابو ہو گئے اور سخت بے عزت کر کے سپیرے کو دربار سے باہر فکروا دیا سپیرہ جادوگر بھی تھا اس نے بادشاہ سے اپنی بے عزت کا بدلہ لینے کی تحانی اس نے شہزادی کو جادو کے زور سے چڑیا بنا دیا اور اس کے تین حصے کر کے تین نارنگیوں میں قید کر دیا ایک میں شہزادی کا جسمے چڑیا کی شکل میں ایک میں اس کی اق


تینوں نارنگیاں شہر تلسمات کے باگ میں ایک پیڑ پر لٹکا دیں اول تو اس پیڑ تک پہنچنا بہت مشکل کام ہے اگر کوئی پہنچ بھی جائے تو تینوں نارنگیاں توڑ لے اور پیچھے ملکر دیکھے بغیر واپس آئے کسی پانی کے کنارے تینوں نارنگیاں ایک ساتھ کھولی جائیں تاکہ تینوں چڑیاں مل کر ایک جان ہو جائیں پھر انہیں پیاس لگے گی جیسے ہی وہ پانی پیے گی لڑکی بن جائے گی اگ


اور صرف وہی شخص اسے دوبارہ لڑکی کے روپ میں لازکتا ہے جس نے اسے پہلی وار لڑکی بنائی تھا حادثہ کے بعد اگر پندرہ دن کے اندر وہ دوبارہ لڑکی نہ بن سکی تو فر تین حصے ہو کر نارنگیوں میں قید ہو جائے گی فقیر صاحب کے مو سے ساری تفصیل سن کر شہزادہ خابر چکرا گیا لیکن ہمت نہیں ہاری اس نے کہا حضور اب جو بھی ہو ناکام لوٹنا تو میری سر شطمیں نہیں ہیں کہ کر آیا ہوں کہ نارنگی باد شہزادی کو لے کر آؤں گا


اب اگر خالی ہاتھ تنہا لوٹا تو محل میں بڑی بیزتی ہو جائے گی بھاؤ جے الک تانہ دے دے کر ناک میں دھم کر دیں گی آپ بس مجھے باگِ تلہثمات کا پتہ بتا دی رہے اور کوئی ایسی چیز دے دی جیے جو مسیبت میں میری مدد کرے فقیر صاحب نے شہزادے کو اپنے خادم شیر کا ایک بال دیا اور کہا اسے اپنے پاس سمحل کر رکھو جب کوئی ایسی مسیبت سامنے آئے جس سے نکلنا تمہیں نامم


سر سے بلند کرنا مسیبتیں خود با خود تم سے دور ہو جائیں گی مشرق کی سمت میں سیدھے چلے جاؤ ایک ماہ کی قڑی مسافت کے بعد تمہاری منزل تمہارے سامنے ہوگی لیکن یاد رکھنا باگے تلثمات میں چاہے کچھ دیکھو کچھ سنو پیچھے ملکر مد دیکھنا ورنہ پتھر کے بن جاؤ گے اب جاؤ میری عبادت میں خلل مد ڈالو اتنا کہہ کر فقیر صاحب نے فر آنکھے بند کر لی اور شیر آک


یہ اشارہ تھا کہ اب شہزادہ خاور کو رکھست ہونا چاہیے چلانچے شہزادہ نے فکیر صاحب کی قدم بوسی کی شیر کو سلام کیا اور کٹیا سے باہر نکل آیا ہلکی ہلکی صبح کی دھوپ چاروں طرف فیلی ہوئی تھی سبزے کی مہک اور پرندوں کی چہکار ماحول میں گھلی ملی تھی شہزادہ نے جھرنے کے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور پاس کے درکتوں پر لگے کچھ فل توڑ کر اپنے جھولے میں ڈالے


دنبار کے خانے پانی کا انتظام کیا اور اللہ کا نام لے کر مشرق کی طرف نکل کھڑا ہوا دنبار سفر کرتا اور رات کو کسی بستی یا سہرہ میں آرام کر کے اپنی تھکان اتارتا ایک مہا کی مسافت کے بعد ایک گھنے جنگل میں پہچا جنگل اتنا گھنا اور محیب تھا کہ وہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہچتی تھی لمبے لمبے پیڑ اوپر جا کر اس طرح مل گئے تھے کہ روشنی کی کرن نیچے نہیں آ سکتی تھی


شاید کبھی کسی آدمزاد نے قدم رکھنے کی حمد بھی نہ کی ہو کئی دن اسی اندیر جنگل میں جھاڑیوں کو ہٹا تا، راستہ بنا تا باالآخر ایک عظی مشان باک کے دروازے پر جا پہنچا باک کیا تھا؟ ایک تلسمی جال تھا زمررت کے دراختے یاقود اور نیلم کے فول ہیرے کی کلیاں، گھاس پر اس کی جگہ آبدار موطیوں کا فرش بچا ہوا فبواروں سے گلاب اور کیورا اولتا ہوا راستے میں سونے کی زنجی


شہزادہ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہی باگی تلسمات ہے منزل سامنے تھیں لیکن خطروں سے بھری تھیں شام اتر آئی تھی شہزادہ نے تی کیا کہ وہ اگلی صبا کو ہی باگ میں قدم رکھے گا رات کو وہاں جانا مناسب نہ ہوگا رات تو یوں ہی ایسے میں اپنے ساتھ ہزاروں طرح کے خوف اور بسوسی لے کر آتی ہے ایک عجیب بات یہ تھی کہ اتنے گھنے جنگل میں شہزادہ کو ایک بھی جنگلی جانور نہیں ملا تھا یہ بھی شای


گرز شہزادے نے ایک درخت کے نیچے زمین ساف کی اور چادر بچھا کر لیٹ گیا دل پر ایک عجیب سا خوف تاری تھا نینت کا دور دور پتہ نہیں تھا ساری رات کروٹیں لیتے گزر گئی پتہ بھی کھڑکتا تو یوں لگتا گویا قیامت آ گئی ہو اسی کشم کشم سبہ ہو گئی شہزادے کے تھیلے میں کچھ باسی پھل پڑے تھے جو جنگل میں داخل ہونے سے پہلے ایک بستی سے خریدے تھے وہی کھا کر پانی پییا اور الل


باک کے دروازے کو ہاتھ لگایا تو چنگاریاں نکلنے لگی ان سے بچ کر آگے بڑھا تو سونے کی زنجیریں سنہرے سانپوں میں بدل گئی تھوڑی دیر تک تو ان سے بچ کر چلا آخر وہ زنجیریں پاؤں میں اس طرح لپٹ گئی کہ قدم اٹھانا مشکل ہو گیا آزادی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو فقیر صاحب کا دیا ہوا شیر کا بال نکالا اور چھٹکی میں پکڑ کر سر سے بولند کیا ساری زنجیریں پدبا پدھ پو


تو ترہ ترہ کی پرہول آوازوں سے باگ گونجنے لگا شہزادہ خاور بلند آواز سے کلمہ پڑتا ہوا پڑتا رہا کہیں زمین پر بکرے ہوئے موتیوں پر پاؤں پڑ جاتا تو وہ کیڑے مکودوں میں بدل جاتے اور اس کے پاؤں میں چمٹ جاتے بہ مشکل ان سب سے بچتا بچاتا باگ کے وسط میں پہچا کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑے سے گول ہاؤز کے بیچ میں ایک نارنگی کا درخت لگا ہے جس میں تین نارنگیاں لٹک رہ


شہزادہ نے وہ اجلت قدم اگے بڑھائے لیکن فبواروں سے ابلتا ہوا گلاب اور پیولے کا پانی چنگاریوں میں بدل گیا اور ہوز کا پانی آگ کے بڑھکتے ہوئے شولوں میں بدل گیا شہزادہ گھبرا کر پیچھے ہٹا ناچار شہر کا بال لکال کر سر سے بولند کیا چنگاریاں پانی بن گئی اور آگ کے شولے تھنڈے پڑ گئے شہزادہ خاور آگے بڑھا اور بسم اللہ کہ کر نارنگیاں تولنے شروع کی


نارنگیوں پر ہاتھ ڈالنا تھا کہ سارا باگ ازدہوں کی فنکار کی آوادوں سے گونجنے لگا درختوں کی ہر شاکھ سانپوں کے پھنوں میں بدل گئی اس کے ساتھ ہی پکڑ لو باند لو جانے نہ پائے کی آواز ہے کان پھاڑے دے رہی تھی لیکن شہزادی نے کلمہ پڑھتے ہوئے دل کو مذبوط کیے ہوئے ملے بغیر تینوں نارنگیاں توڑ لے اور پلٹ کر واپس بھاگا


آوازیں پیچھا کرتی رہیں لیکن شہزادہ گنگا بہرہ بن گیا اور باک کے دروازے کے باہر پہنچ کر ہی دم لیا۔ اچانک جنگل چڑیوں کی چہکار سے گونجنے لگا۔ شہزادہ کے حواز درست ہوئے تو اس نے تینوں نارنگیوں کو سمحل کر اپنے جھولے میں رکھا اور جھولہ کمر سے بانت کر واپسی کے لیے گھولے کو اڑ لگائی تاکہ جلد سے جل جنگل سے باہر نکل جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کوئی اور مسیبت کلے پڑ ج


ایک مہ کے اندر شہزادہ اپنی مملکت میں داخل ہو گیا اب اسے اتمینان تھا کہ ہر مسیبت سے بچ کر نکل چکا ہے اپنا ملک پھر اپنا ملک ہوتا ہے اب شہزادی کو کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے سوچا کہ کافی لمبا عرصہ گزر چکا ہے نارنگیوں میں بند جانبر بھی پیاسے ہوں گے اب شہزادی کو قید سے نجاد دلوہ دینی چاہیے سامنے ہی ایک جھرنہ بہ رہا تھا اس کے کنارے ایک بڑا سا سائیدار در


شہزادی نے بسم اللہ کر کے تینوں نارنگیاں کھول دیں چھوٹی چھوٹی تین سفید چڑیاں نکلیں اور مل کر ایک نسبتن بڑی چڑیاں بن گئیں چڑیاں بولی پانی پانی شہزادی نے فورا ہاتھ کے کٹورے میں جھیل سے پانی بھر کر چڑیاں کو پیش کیا پانی پینا تھا کہ چڑیاں ایک نیحائتی حسین و جمیل لڑکی میں تبدیل ہو گئی شہزادی نے کہا شہزادے تمہارا بہت شکریہ تم نے مجھے ایک


شہزادہ تو ایسا لاسانی حسنے دیکھ کر جیسے بھت میں بدل گیا تھا بڑی دیر تک تو روبے حسنے سے مو سے بات ہی نہیں نکلی شہزادی نے اس کا کندہ الائیا شہزادے کہاں کھو گئے مجھے فوراً محل میں لے چلیئے کہیں میں کسی اور مسیبت میں نہ پڑ جاؤ شہزادہ جیسے حوش میں آ گیا شہزادی تم واقعی بہت حسین ہو تمہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ میں نے چھے مہا تمہاری تلاش میں جو صوبتیں


لیکن میں تمہیں اس طرح نہیں لے جا سکتا محل یہاں سے بہت دور ہے اور تم نے مناسب لباس بھی نہیں پہن رکھا ہے میں ابھی تمہارے لیے کسی سواری کا انتظام کرتا ہوں پھر تمہیں لے جاؤں گا میری بھابیوں کی تو تمہیں دیکھ کر بولتی ہی بند ہو جائے گی تم اتنی دیر اس پیڑ کی شاکھ پر پتوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ میں ابھی گیا اور ابھی آیا شہزاد خابر نے شہزادی کو پیڑ پر چڑھانے میں مدد کی اور خود کس


شومی قسمت اسی وقت وہاں ایک کمہارن اپنا گھڑا لے کر پانی بھرنے آئی اس نے پانی میں نارنگی شہزادی کا اکس دیکھا تو دھوکا کھا گئی بڑے ناس سے بولی افو! میں کس قدر خوبصورت ہوں لوگ یوں ہی مجھے کالی موٹی کہ کر چڑاتے ہیں میرا اصلی روپ تو کسی نے دیکھا ہی نہیں ہے اصلی روپ تو اس پانی میں نظر آتا ہے بولی بھالی شہزادی اوپر سے بولی بہن یہ تمہارا روپ نہیں میری پرچ


کمہارن نے اوپر نظر کی تو آخر خیرہ ہو گئی تو کون ہے؟ جن ہے کہ پری ہے اور یہاں کیوں بیٹھی ہے؟ شہزادی نے کہا نہیں بہن میں جن یا پری نہیں ہوں میں بھی تمہاری طرح آدمزاد ہوں میں شہزادی ہوں جسے ایک جادوگر نے قید کر رکھا تھا شہزاد خواور نے مجھے رہائی دلوائی ہے اب شہزادے میرے لیے سواری کا انتظام کرنے گئے ہیں تاکہ مجھے محل میں لے جائے کمہارن بولی تو اوپر کیوں بیٹھی ہو نی


دو گھڑی باتیں کریں گے اتنے میں تمہارا شہزادہ بھی آجائے گا معصوم شہزادی پیر سے نیچے اتر آئی اور مکار کمہارن نے دھوکے سے اسے پانی میں دھکا دے دیا پانی میں گرنا تھا کہ شہزادی پھر سے چڑیا بن کر اڑ گئی ہر رافا کمہارن درخت پر چل کر اسی جگہ بیٹھ گئی جہاں شہزادی بیٹھی ہوئی تھی اتنے میں شہزادہ خاور سواری لے کر آ گیا اور آواز دی شہزادی نی


کبھارندھم سے نیچے کود آئی شہزادہ تو اسے دیکھ کر ہراد رہ گیا کہا وہ نازو کے اندام حسینہ اور کہا یہ کالی موٹی بھیسی جیسی لڑکی موٹے موٹے اودے رنگ کے ہوٹ پکوڑے جیسی ناغ چھوٹی چھوٹی آلی ترچی آنکھیں بھدے موٹے ہاتھ پاؤ شہزادہ چکرا کر رہ گیا شہزادی کہا ہے اور تم کون ہو اس نے ڈپٹ کر پوچھا


کمہارن نے فورا آنکھوں میں مگر مچ کے آنسو بھر کر کہا شہزادے تم اتنی جلدی اپنی شہزادی کو بھول گئے میں ہی تو وہ شہزادی ہوں جسے تم نے جادوگر کے قبضے سے رہائی دلائی تھی مخمسے میں تھا علچ کر بولا یہ تمہاری صورت کو کیا ہوا کمہارن بولی میں کیا کروں تمہاری شہر کی حوہ ہی ایسی ہے حوہ لگنی تھی کہ میرا رنگ روب جل گیا اور بدن فول گیا شہزادہ بڑے چکر میں فس گیا کرے


سواری لینے جا رہا تھا کہ راستے میں اسے اپنا خادم مل گیا تھا اس نے خادم سے کہلوا دیا تھا کہ محل میں جا کر کہہ دینا کہ میں نارنگی بادشہزادی کو لے کر آ رہا ہوں وہاں سب منتظر ہوں گے اس موٹی بھینس کو محل میں لے جائے تو کس مو سے لوگ ہسی اڑائیں گے اور بھاؤ جیتو نا تکا بند کر دیں گی آخر شہزادے نے تحقیقہ کہ اسے بادشہ کے محل میں جانے کے بجائے اپنے شکار محل میں لے جائے گا اور پ


اس نے ایسا ہی کیا شہزادی بنی کمہرن کو شکار مہل میں پہنچایا اور تاکیت کی کہ خبر دار کسی کنیز کے سامنے بھی نہ آئے کمرہ بند کر کے بیٹھے ورنے یہ شادی نہیں ہوگی کمہرن تو ہر حال میں شہزادی کی ملکہ بننا چاہتی تھی اس نے وعدہ کیا کہ کسی کو اپنی جھلک بھی نہیں دکھائے گی وہاں سے شہزادہ اپنے والد کے مہل پہنچا اسے اتنے عرصے بعد دیکھ کر ماباب کے دلوں کو ٹھ


بھاؤ جے نارنگی باد شہزادی کے دیکھنے کے اشتہاک میں مری جا رہی تھی شہزادے کو اکینے دیکھ کر پچاسو سوال کر ڈالے شہزادی کہاں ہے؟ اسے ساتھ کیوں نہیں لائے؟ کہاں چھوپا آئے ہو؟ شہزادے نے بہانہ کیا بھابی دراصل نارنگی باد شہزادی ایک جادوگر کی قید میں تھی میں نے اس سہر کو ٹوڑا ہے اس سہر کو ٹوڑنے کی شرد یہ ہے کہ ہماری شادی کے ایک مہبات تک شہز


اور نہ ہی شادی سے پہلے کوئی اسے دیکھے ورنہ وہ فرسے سہر میں گرفتار ہو جائے گی اب آپ لوگ شادی کی تیاریہ کیجئے تاکہ جلدی سے جلدی نارنگی شہزادی کو دیکھ سکیں بھاؤجوں کے اشتیار پر اوسی پڑ گئی بہرحال محل میں شہزادہ خابر کی شادی کی تیاریہ زور شور سے شروع ہو گئیں لیکن شہزادہ اپت بڑی کشم کشمے فسا ہو گئ تھا کرے تو کیا کرے نارنگی شہزادی کے نام پ


وہ کسی طور پر تیار نہیں تھا لیکن کرے تو کیا کرے؟ کیسے اس جنجال سے نکلے؟ شہزادی کی ہدایت کے مطابق کمہرن ابھی تک کنیزوں کے بھی سامنے نہیں آئی تھی دوسری طرف بھاؤجوں کی جذبائے شوق کا یہ حال تھا کہ وہ قریت کر ہر ایک سے پوچھتی تھی آیا کسی نے نارنگی باد شہزادی کی جھلک دیکھی ہے کہ نہیں؟ اسی تقو دومے شادی کا دن آگیا سہر کی شرطوں کے مطابق نکاح شکار مہل میں ہی ہوگا


اور قاضی صاحب پردے کے پیچھے سے دلہن سے منظوری لیں گے لیکن شادی سے پہلے کی دولہ والوں کی تمام رسمیں شاہی محل میں ہوں گی شہزادہ بیچارہ اپنی اقل کے مطابق اس کوشش میں تھا کہ کم سے کم فلحال دلہن کو کوئی نہ دیکھ سکے بات کی بعد میں دیکھی جائے گی اس دن دولہ والوں کی یہاں مہندی کی رسم تھی محل مہمانوں سے بھرا تھا باورچی خانے میں طرح طرح کے خانے پک رہے تھے


بھاؤجوں نے شہزاد خابر کی چھوٹی انگلی پر مہنڈی لگائی اور بھاری نیگ بسول کیا یہ رسم سالیوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن خابر کی تو کوئی سالی ہی نہیں تھی اسی لیے بھاؤجوں نے اپنے ارمان پورے کر لئے رسم کے بعد خابر باہر اپنے دوستوں میں آکر بیٹھا دسترخان بچ چکا تھا شہزادہ خابر اہباب کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھا تو دیکھا کہ دسترخان پر کباب نہیں ہے اس نے فورا خادم کو کباب


ادھر باورچی خانے میں عجب ہی ماجرہ تھا ایک چھوٹی سی چڑیا آکر روشن دان میں بیٹھ گئی تھی اس نے باورچی سے پوچھا باورچی جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں باورچی نے حیرانی سے بولتی چڑیا کو دیکھا اور بولا معلوم ہیں آج شہزادہ خاور کی مہندی کی رسم ہیں دعوت کے لیے کباب بنا رہا ہوں چڑیا بولی باورچی جی آپ تھک گئے ہوں گے سانے کا وقت ہے سو جائیے باورچی کباب طبی


اتنے میں نوکر کباب لےنے آیا چلہ گر بولا وہاں شہزادے کبابوں کا انتظار کر رہے ہیں اور یہاں یہ بابرچی سو رہا ہے چڑیا بولی تم بھی تکے ہو بھائی تم بھی سو جاؤ وہ نوکر بھی سو گیا کبابوں کو دیر ہو رہی تھی شہزادے نے ایک کے بعد ایک کئی خادموں کو بھیجا لیکن چڑیا نے سب کو سلا دیا


آخر شہزادہ گسے میں لال پیلا ہوتا ہوا خود باورچی خانے میں آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ تبے پر کواب جل کر کوئلہ ہو گئے ہیں باورچی اور باقی سبھی خادم پڑے سو رہے ہیں اس سے پہلے کہ شہزادہ کچھ بولتا چڑیا اُل کر شہزادی کی کلای پر آبیٹھی اور بولی پانی پانی شہزادہ تو چڑیا کو دیکھ کر نہال ہو گیا فوراً کٹورہ بھر کر پانی چڑیا کے سامنے رکھا پانی پیتے ہی چڑیا


شہزادی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے پوچھا شہزادی تم کہاں چلی گئی تھی تمہیں کیا حادثہ پیش آیا پرشانیوں نے میری تو جان ہی نکال لی تھی شہزادی نے کہا شہزادے وقت نہیں ہے اس سے پہلے کہ کوئی اور آجائے مجھے فوراً شکار مہل میں لے چلئے وہاں جو بیٹھی ہے وہ دراصل کمہارن ہے جس نے دھوکے سے مجھے پانی میں دھکا دے دیا تھا شہزادہ پچھلے دروازے سے شہزادی


وہاں کمہارن رانی بننے کے خواب سجائے بیٹھی تھی شہزادے نے کہا جی چاہتا ہے کہ اس کی گردن تن سے جدہ کر دوں لیکن میں یہاں خون خرابہ نہیں کرنا چاہتا نارنگی شہزادی بولی شہزادے اسے فلحال مہل کے تہ خانے میں ڈال دیجئے اس کا فیصلہ بعد میں کریں گے فلحال آپ مہل میں واپس جائیں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے اور وہاں سوانے والوں پر تھوڑا پانی چڑک دیجئے گا وہ جاگ ج


شہزادہ نے ایسا ہی کیا کمہرن کی چوٹی پکڑ کر اس اتحانے میں ڈال دیا اور خود واپس مہل میں آ گیا شہزادہ خوشی سے فولہ نہیں سما رہا تھا اب تک وہ مارے باندھے رسموں میں شریف ہو رہا تھا لیکن اب پورے دل کی خوشی کے ساتھ ہر رسم میں شامل ہوا اگلے دن شادی تھی دھوم دھام سے شادی ہوئی نکاح شکار مہل میں ہوا کسی نے بھی دلہن کی صورت نہیں دیکھی حالا کہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی


لیکن ایک مرتبہ شہزادہ جو جھوٹ بول چکا تھا اسے نبانا بھی تو تھا محل میں سب کو ایک ماہ پورا ہونے کا انتظار تھا جب نارنگی بادشہزادی کے مو دکھائی کی رسم ادھا کی جائے گی بھاوجہ مارے اشتیار اور تھوڑے سے حسد کے مری جا رہی تھی


انہوں نے بادشاہ اور ملکہ سے کہا کہ ہم لوگ دلہن کو ابھی دیکھ نہیں سکتے لیکن اس کے سگڑپن اور سلیقے کا امتحان تو لے ہی سکتے ہیں آپ کھانہ پکانیں کشیدہ کاری اور سلایے کے مقابلے کروائے آپ کی تینوں بہنوں ان میں حصہ لیں تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ آپ کی نئی دلہن کتنے پانی میں ہے بادشاہ اور ملکہ کو تو یوں بھی تقریبیں برپک کرنے کا شوق تھا اگلے دن بادشاہ نے ملکہ سے کہا آپ کھانہ پک


ہم فیصلہ کریں گے کہ سب سے اچھی مٹھائی کس نے بنایی ہے؟ بادشاہ کو میٹھے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ تینوں بہنگوں کے پاس بادشاہ کا پیغام پہنچایا گیا۔ اب بڑی دونوں بھاؤجوں کو بیچینی ہونے لگی کہ معلوم کروائیں چھوٹی دلہن کیا بنا رہی ہے۔ ہم بھی ویسی ہی مٹھائی بنائیں گے۔ انہوں نے کنیزوں سے کہا معلوم کر کے آؤ۔ نارنگی شہزادی کنیزوں کے سامنے بھی بڑا گھنگٹ نک


دلہن بیگم آپ کون سی مٹھائی بنائیں گی؟ شہزادی نے کہا میں تو کرے لے کی برفی بناؤں گی ہمارے ہاتھوں وہی کھائی جاتی ہے کنیزوں نے آکر دونوں بڑی بھاؤڑوں کو خبر دے دی ہرس کی ماری دونوں بولی ہم بھی کرے لے کی مٹھائی بنائیں گے اور ایسی بنائیں گے کہ چھوٹی دلہن مقابلہ ہار جائیں گی دونوں اپنی اپنی کنیزوں کے ساتھ کرے لو پر پل پڑیں دیروں میوے، زافر


کڑوہٹ کہاں جاتی دوسری طرف نارنگی شہزادی نے بادام کی بہت خوش ذائقہ اور خوبصورت مٹھائی تیار کی مٹھائی کو مور کی شکل میں ڈھالا کھانے کے رنگوں اور سونے چاندے کی ورکوں سے سجایا اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کروا دیا بادشاہ اور ملکا تو مٹھائی کی شکل دیکھ کر ہی گربیدہ ہو گئی جبکہ بڑی بہنوں نے کرلے کی کڑوہٹ دور کرنے کے چکر میں اتنا بھونا اور اتنی لعوزیات ڈال


تو ان دونوں کے بنائے ہوئے کریلے کے کڑوے حلوے کے مقابلے میں چھوٹی دلہن کی مٹھائی لا جواب تھی بادشاہ اور ملکہ دونوں نے چھوٹی دلہن کو اینام بھیجوائے دونوں بڑی بہنگیں اور جل گئیں کتنی چالاک ہے ہمیں دھوکے میں رکھا اور خود اینام جیت لیا اس کے بعد کشیدہ کاری کا مقابلہ تھا ملکہ نے ایک ایک رمال تینوں بہنگوں کو بھیجوائے دیا کہ اسے بہترین طریقے پر کار کر بادشاہ کی


دونوں بڑی بھاؤجوں کے سر پر پھر ہرس کا بھوت سوار ہوا پھر کنیزوں کو بھیجا معلوم کرو چھوٹی دلہن کس طرح کشیدہ کاری کریں گی کنیزے پھر سنگن لےنے پہنچ گئیں دلہن بیگم آپ کسی کشیدہ کاری کریں گی نارنگی بادشہزادی بولی ہمارے ہاتھوں کانٹوں سے کڑھائی کرنے کا رواز ہے ہم لوک سوئی کا استعمال نہیں کرتے کانٹوں میں سوراہ کر کے اس سے کشیدہ کاری کرت


وہ دونوں بھی اپنے اپنے محل میں کانٹوں سے کڑھائی کی تیاریاں کرنے لگیں ان کا خیال تھا یہ کوئی خاص قسم کی کشیدہ کاری ہوگی چھوٹی اب کے انعام نہ جیت پائے ادھر نارنگی شہزادی نے سوی دھاگے سے نیحائت نفیس گل بوٹے بنائے اور ان میں ملکہ اور بادشاہ کا نام بھی گلاب کے فولوں سے سجا کر لکھ دیا ادھر بڑی بہنوں نے کانٹوں سے چھیت چھیت کر رشم کے رمال کا ناس کر دیا بادشاہ اور ملکہ کے


ظاہر ہے چھوٹی دلہن کا رمال یہاں بھی بازی لے گیا ملکہ کو حیرت ہوئی کہ ان کی بڑی بہنوںیں بھی کافی سگڑ تھیں پھر اب کیا ہو گیا انہیں کیا پتہ تھا کہ حرسو حوس نے ان کی اقل پر پردہ ڈال دیا تھا وہ اپنے پیروں پر خود ہی کلھاڑی مار رہی تھی چھوٹی دلہن کی چالا کی اور اپنی بے بکوفی پر بک جھک کر بیٹھی رہی برسات کا موسم تھا محل میں ساون کا میلا ہونے والا تھا


ملکہ نے کہلوایا کہ ساون کے جشن کے دن چھوٹی دلہن کی مو دکھائی کی جائے گی لیکن پہلے سلائی کا مقابلہ ہوگا تینو بہویں اپنے ڈیزائن کیے اور سلے ہوئے لباس پہن کر جشن میں آئیں گی یہ آخری مقابلہ ہوگا جس کے بعد نایا موٹیوں کا ہار کسی ایک بہو کو انام میں دیا جائے گا تینو شہزادیوں کے محل میں گوئیہ بوٹے کھل گئے تھے بہترین کپڑے اور بہترین کاری گری کا مظاہرہ کر


دونوں بڑی بھاؤجوں کو پھر قرآن ہوئی کہ معلوم کروائے کہ چھوٹی دلہن کیسا لباس بنا رہی ہے پھر کنیزوں کو بھید لینے کیلئے بھیجا گیا ان کی تفتیش کے جواب میں چھوٹی دلہن نے رازداری سے بتایا کسی سے کہنا مات میں تو ایک انوخہ لباس تیار کر رہی ہوں ہمارے ہاں تقریبوں کے موقع پر کاغذ کا لباس پہنایا جاتا ہے میں تو رنگ بیرنگے کاغذوں کا بڑا خوبصورت لباس تیار کروں گی


بڑی بھوجوں کو اتلاع دے دی دونوں حرس اور مقابلے کے جذبے میں اس طرح اندی ہو رہی تھی کہ اکل اٹھا کر گویت تاک پر رکھ دی تھی انہوں نے ریشم اور زر وفت کے تھان اٹھا کر ایک طرف رکے اور رنگ بے رنگے ہرے لال نیلے پیلے کاغزوں کی کترنوں کو جول کر لباس کی تیاری میں جھٹ گئی ادھر چھوٹی دلہنہ موسم کے لحاظ سے سرق اور سبز ریشم اور زر وفت کو ملا کر نحائطی


اس کا لباس بہت ہی جازب نظر تھا جشنے کے دن محل کے باگ میں سجا بٹ کی گئی تھی فولوں سے گوندھے ہوئے جھولے نششت کے لیے لگائے گئے تھے بادشاہ اور ملکہ کے لیے بھی فولوں سے سجا تخت بچھا ہوگا تھا بادشاہ اور ملکہ کی تشریف آبری کے بعد بہویں آنا شروع ہی پہلے بڑی دلہن کاغس کا کوسِ قذا کے رنگوں کا مزحہ کا خیز لباس پہن کر پالکی سے اتریں پھر منجلی دلہن بھی کا


سب سے آخر میں نارنگی بالشہزادی اپنے حسین اور نفیس لیواز میں پالکی سے اُتری اس کے حسنے کے سامنے چان سورج بھی پھیکے پڑھ رہے تھے ملکہ اور بالشہ نے پہلی مرتبہ اپنی چھوٹی بہو کو دیکھا تھا دونوں نہال ہو گئے ملکہ نے بڑھ کر گلے سے لگا لیا اور بالشہ نے نایا موٹیوں کا ہار چھوٹی دلہن کے گلے میں ڈال دیا وہ نارنگی شہزادی کے حسنے کے ساتھ سلی کے کی بھی کائل ہو گئ


کہ وہ کیوں اپنی کنیزوں کی باتوں میں آ گئی اسی وقت بارش شروع ہو گئی ان دونوں کے کاغذی لباس ان کے جسموں سے چپک کر پھٹھنے لگے دونوں فورا اپنے اپنے محلوں کو بھاگیں اور قائدے کا لباس پہن کر واپس آئیں نارنگی شہزادی نے بڑی بھابیوں کو عدب سے سلام کیا اور کہا آپ دونوں میری بڑی ہیں میں ہمیشہ آپ کا احترام کروں گی آپ کو مجھ سے ہرس کرنے کی کیا ضرورت تھی آپ تو خود ہی صورت اور سیرت میں


یاد رکھئے ہرس و حبس ہمیشہ انسان کو شرمندہ کرتی ہے اس ہار پر ہم تینوں کا برابر کا حق ہے نارنگی شہزادی نے شہزاد خاور سے کہے کر اس ہار کو تڑبا کر ہیروں اور یاکوت کے امتجاز سے تین ہار بنوائے اور اپنی دونوں بڑی بھابیوں کو ایک ایک ہار پیش کر دیا ان دونوں کے دل سے تمام بغز و کینہ ڈھل گیا اور سب ہسی خوشی ملجل کر رہنے لگیں



What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow