لکدھرے اور شہزادی کی تین شرٹون کا عجیب قصہ

لکدھرے اور شہزادی کی تین شرٹون کا عجیب قصہ

Dec 22, 2024 - 11:17
 0  4
لکدھرے اور شہزادی کی تین شرٹون کا عجیب قصہ


کسی زمانے میں کسی جگہ ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا اس کے ایک جوان بیٹی تھی بہت سے ملکوں سے شہزادے اور بزیرزادے اس سے شادی کرنے آتے لیکن شہزادی ان میں سے کسی کو بھی پسند نہ کرتی ایک دن بادشاہ نے بیٹی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا میری پیاری بیٹی میری آنکھوں کا نور میرے دل کا سلور میں سب بادشاہوں کو اطلاع دے چکا ہوں کہ میری بیٹی کی لیے بر چاہیے اب تک کتنے ب

مگر تم نے ان سب کو ٹھکرہ دیا ہے اس کی آخر وجہ کیا ہے تم چاہتی کیا ہو شہزادی نے جواب دیا ابا جان میں اس آدمی سے شادی کروں گی جو تین جھوٹ بولے اور ہر جھوٹ میں چالیس جھوٹ ہوں اور اس روانی سے بولے کہ دل کو مول ہے بادشاہ نے ہر طرف اپنے ڈھنورچیوں کو بھیجا جو اعلان کرتے فرے بادشاہ اس آدمی سے اپنی بیٹی کی شادی کرے گا جو تین جھوٹ بولے اور ہر جھوٹ میں چالی

ہر طرف سے شادی کے امیدوار آنے لگے اور دربار میں حاضر ہو کر اپنے گڑے ہوئے جھوٹے قصصے سنانے لگے بادشاہ نے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں کو اپنے دربار میں جمع کیا اور ان سے کہا اگر کوئی سچ مچ جھوٹ بولے تو تم لوگ کہنا کہ یہ جھوٹ ہے اور کوئی سچ بولے تو کہنا کہ سچ ہے لیکن اگر تم لوگوں نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتایا تو تمہارے سر تن سے جدہ کروہا کے تمہاری ساری جائدات لٹو دوں گا

مقابلہ شروع ہوا بادشاہ کا دامات بننے کا ارادہ رکھنے والے سب باری باری اپنا جھوٹ سنانے لگے ہر دفعہ جب کوئی اپنا جھوٹ سنا چکتا تو بادشاہ اپنے دانشمندوں سے پوچھتا یہ جھوٹ ہے یا سج اور ہر دفعہ دانشمند لوگ جواب دیتے بادشاہ عالم دنیا میں ایسا ہوتا ہے کتنے ہی بادشاہ اور بادشاہ زادے آئے اور اپنا ایسا مو لے کر واپس لوٹ گئے اسی شہر


جو پہڑی جنگلوں سے لکنیاں ایک ہٹک کر کے لاتا اور ان کو بیچ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دفعہ وہ لکنیاں ایک ہٹک کرنے پہل پر جا رہا تھا کہ اچانک بادشاہ کے ڈھنورچیوں کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا کہ جو کوئی تین جھوٹ بولے گا جن میں سے ہر ایک میں چالیس جھوٹ ہوں گے وہی شہزادی کا خواوند بنے گا۔ واہ یہ رہی بات چلو جھوٹ بولے دیتے ہیں اس نوجوان نے اپنے آپ سے کہا اور شاہی د

وہ مہل کے دروازے پر پہنچا تو چوکیدار اس پر پل پڑے اور اس کو دتکارنے لگے ارے تو حکیر ناچیز گدہگر گلے سڑھے بھکاری تو یہاں کہاں سے آ گیا چل ہٹ یہاں سے اپنا راستہ ناپ نوجوان نے پہرداروں سے کہا مجھے بادشاہ سے کچھ عرض کرنا ہے ارے تو گدہگر بادشاہ سے کیا خاک عرض کرے گا چل چل دور ہو جائے یہاں سے نوجوان نے دونوں ہاتھ بانکر کہا مجھے بادشاہ سے یہ عرض کرنا ہے

کہ میرے مالک کے پاس دو سو بھیڑے ہیں جن کو وہ بادشاہ کی نظر کرنا چاہتا ہے یہ سنتے ہی پہرے داروں میں سے ایک دورکر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا بادشاہ سلامت کوئی حقیر و فقیر آدمی آیا ہے کہتا ہے کہ میرے مالک کے پاس دو سو بھیڑے ہیں جن کو وہ بادشاہ کی نظر کرنا چاہتا ہے بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو یہاں لے آو نوجوان کو بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا بادشاہ نے پوچھا اے حقیر بندے

غریب نوجوان نے کہنا شروع کیا بادشاہ سلامت اجازت پاؤں تو ارس کرو میں ایک گریب اور نہ توہی ایتیم ہوں میں اپنے ماں باپ کی ایک اکیلی اولاد ہوں میرے بھائی سب کے سب مر گئے اور ہم صرف تین بھائی زندہ رہ گئے ہم تینو بھائیوں نے نہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھا اور نہ ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے اچانک ہماری ملاقات ہو گئی اور ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا دیکھتا کیا ہوں کہ ہ

دوسرے کا بغیر آستینوں کا اور تیسرے کا بغیر دامن کا جیسا کہ کہتے ہیں اندھا اندھے کو اندھے میں پہچانے ہم آپس میں مل گئے ایک دوسرے سے گھل مل گئے اور مل کر چلے بغیر راستے پر پاؤں رکھے اور بغیر راستے سے باہر آئے ہم چلتے گئے ایک جگہ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ زمین پر تین سکے پڑے ہیں ان میں سے دو بالکل گھسے پٹے ہیں اور تیسرے پر مہر غایب ہے ج

اس کو ہم نے اٹھا لیا اور آگے چل پڑے چلتے گئے چلتے گئے بہت دور نکل گئے پھر چلتے گئے چلتے گئے اور ایک نشیب میں اتر گئے دیکھا نالے میں چارے میں کام آنے والی تین چھوٹی مچلیاں پڑھی ہیں دو تو بلکل بے جان ہے اور تیسری مری ہوئی ہے ہم نے مری ہوئی چھوٹی مچلی کو اٹھا کر اس چبگے کے دامن میں رکا جس میں دامن تھا ہی نہیں اور آگے چل پڑے چلتے چلتے ایک جگہ پہن

سامنے تین مکان کھڑے ہیں ان میں سے دو اوپر سے کھلے ہوئے ہیں اور تیسرا بغیر دیواروں کا ہے جو مکان بغیر دیواروں کا تھا ہم اس کے اندر چلے گئے وہ تین دیک پڑے تھے دو تو چھلنی جیسے تھے اور تیسرا کا پیندہ غایب تھا ہم نے مری ہوئی ننی مچلی کو اس دیکھ میں ڈالا جس میں پیندہ نہیں تھا اور پھر ادھر ادھر لکڑیاں تلاش کرنے لگے لیکن لکڑی وکڑی کچھ نہ م

ہڈیا تو پوپک گئیں لیکن گوشت کچا کا کچا رہ گیا ہم نے ڈٹ کر گوشت کھایا ہمارے پیٹ بھر گئے اتنے پول گئے کہ جب ہم نے باہر نکلنا چاہا تو دروازے سے نہ نکل سکے دیوار میں ایک درار مل گئی اس سے ہو کر ہم باہر آئے اور آگے چل پڑے راستے پر ہم چلتے گئے چلتے گئے اور ایک لک ودک سہرہ میں پہنچے اچانک ہم نے دیکھا کہ سامنے گھاس کے اندر خربو

اس کی ایک شاکھ سے ہم نے بغیر کاتے ایک ڈنڈا بنالیا اور یہ ڈنڈا خرگوش کے بچے کو کھیچ کر مارا وہ تین کلعوازیاں کھا کر گر پڑا ہم نے اس کو پکڑ لیا اور کاتا تو اس میں چھے من گوش اور اتنی ہی چربی نکلی گوشت تو ہم نے پکایا نہ سکھایا وہیں بیٹھ کر کھا لیا لیکن پیٹ نہیں بھرہ ہم بھوکے کے بھوکے رہ گئے میرے دونوں بھائی مجھ پہ ناراض ہو گئے اور لوٹ کر چل

میں نے لانگ بوٹ جیسے چمڑے کے پاتابے اتارے اور ان پر چربی کی مالش کرنے لگا ساری چربی چمڑے کا ایک ہی پاتابے کھا گیا اور دوسرا بغیر مالش کے رہ گیا میں بہت تک گیا تھا پڑھ کر سو گیا اچانک شور اور دھکم دھکا کی آواز سنائی دی اور میں چوک کر اٹھ بیٹھا دیکھتا کیا ہوں کہ میرے دونوں پاتابے آپس میں لڑ رہے ہیں میں نے دونوں کے موہ پر ایک ایک گھوسہ مارا اور پھر پڑھ کر سو گیا

آدھی رات کے وقت سردی سے میری آنکھ کھل گئی دیکھتا کیا ہوں کہ میرا چُگہ جس کو اڑھ کر میں سویا تھا غایب ہے پتہ چلا کہ میرے اس پاتابے نے جس پر چربی کی مالش کی ہوئی تھی میرے اوپر سے چُگہ کو کھیچ کر اپنے آپ کو اس میں لپیٹ لیا اور سو گیا ہے اور وہ پاتابہ جس پر مالش نہیں ہوئی تھی روٹ کر چلا گیا ہے میں نے مالش کیے ہوئے پاتابے کو جگایا اس کو اپنے پاؤں میں ڈالا چُگہ کو پہن کر اوپر سے پٹک

چکے کے دامن کو جو تھا ہی نہیں اٹھا کر کمر میں ٹھوس لیا اور اپنے گھر کو چلا جب میں گھر سے گیا تھا تو وہاں میری ماہ اور ایک مرگا دونوں رہ گئے تھے اب باپس آکر دیکھتا ہوں کہ وہاں نہ ماہ ہے اور نہ ہی مرگا اچانک اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو پتہ چلا کہ میرے جو ایک پاتبہ رہ گیا تھا وہ بھی گائب ہو چکا ہے مجھے بڑا دوپ ہوا سوچا یہ کیسی مسئبت ہے ان کو اب کہاں تلاش کروں


پریاد لے کر آپ کی بارگاہ میں آیا دروازے پر آپ کی نوکر کھڑے تھے انہوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اتنا کہ کر غریب نوجوان نے اپنا سر جھکا لیا اور چپ ہو گیا اس کی باتیں سن کر بادشاہ کو بڑا تاججب ہو گیا اور اس نے اپنے دانشمندوں کی طرف دیکھا دانشمند لوگ سب اٹھکھڑے ہوئے جھک جھک کر آدھا بجھا لائی اور ایک زبان ہو کر بولے بادشاہ سلامت اس کتیا کے پلنے نے جو کچھ کہا ہے وہ سب جھونٹ ہے س

اپنے مالک کی بھیجی ہوئی بھیڑوں کے بارے میں بھی یہ شاید یہی کہے گا کہ وہ گم ہو گئی ہے۔ بادشاہ دفتن نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے گرچ کر بولا، کہاں ہیں بھیڑیں بتا؟ بادشاہ سلامت اجازت پاؤں تو عرض کروں۔ نوجوان نے کہنا شروع کیا، جب آپ کے نوکروں نے مجھے اندر نہ آنے دیا تو میں بہت اداز ہو گیا اور اپنی ماہ مرگے اور چربی سے مالش کیا ہوئے پاتا بے کی تلاش میں چل پڑا۔ چلتے چلتے ایک گ

دیر تک لوگوں سے پونچتاچ کرتا ڈھونڈتا فرا آخر کسی طرح مرگا مل گیا وہ ایک زمیدار کے خیط میں حل چلا رہا تھا ہم دونوں نے سلام علائقہ کیا اور گلی ملے معلوم ہوا کہ چھے مہینے تک برابر معنط کرنے کے بعد مرگے نے بوریاں سینے کی ایک سوئی کمائی ہے اور اس کو بھی مالک اپنے پاس رکھے ہوئے ہے میں نے لڑ جگڑ کر اس سے وہ سوئی حاصل کر لی پھر میں نے مرگے سے کہا چلو گھر چلیں

میں چھے مہینے کے لیے بھرتی ہوا ہوں تین مہینے گزر چکے ہیں اور تین مہینے باقی ہیں مدد پوری ہو جائے گی تو میں اپنی وجرت لے کر خود گھر آ جاؤں گا میں نے سوئی کو لے لیا اور مرگے کو وہے چھوڑ کر گھر روانہ ہو گیا واپس آ کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرا مکان غایب ہے میں اتنا اداز ہوا اتنا اداز ہوا کہ کیا بتاؤں اپنی بولی ماہ اور مالش کیے ہوئے پاتاوے کی تلاش میں پھر نکل پڑا ایک ٹیلے


ایک پہڑی پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھا تو بھی نظر نہ آئے مایوس ہو کر نیچے اتر آیا میرے پاس جو سوئی تھی اس کو میں نے زمین میں گار دیا اور اس پر چڑھ کر ادھر ادھر نظر دولائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری بوڑی ما سیر دریہ کے کنارے پر بیٹھی کپڑے دھو رہی ہے میں نے سوئی اٹھا لی اور چل پڑا کتنے ہی ٹیلوں اور پہاڑوں پر سے گزر کر بال آخر اپنی ما کے پاس پہن

میں نے ماں سے کہا چلیئے گھر چلیں ماں نے کہا نہیں میں ابھی گھر نہیں چلوں گی اپنی وجرد بسول کر کے آؤں گی میں نے تین سال تک نوکری کر کے تین مہینوں کی روٹی کمائی ہے اب تین مہینے اور باقی رہ گئے ہیں یہ مدد پوری کر کے میں خود ہی گھر آ جاؤں گی تم اکیلے ہی چلے جاؤ میں نے اپنے معتے پر ایک چپت ماری اپنے چگہ کے دامن کو جو تھا ہی نہیں پٹکے میں ٹھوس لیا اور واپس چل پڑا

تھوڑی دور پہنچا تو دیکھا کہ دریا کا پانی کھیل گیا ہے اور دریا پر جو پل تھا اس کو بھا کر لے گیا ہے چل چلاتی دھوپ پھیلی ہوئی تھی مجھے بڑی پیاس لگی تھی پانی پینے گیا تو دیکھا کہ دریا کا پانی جم گیا ہے میں نے برف کو توڑنا چاہا لیکن پتھریلی زمین پر کوئی پتھر نہیں ملا جس سے میں برف کو توڑ سکتا لاچار ہو کر میں نے اپنے سر سے برف کو توڑا گڑے میں اپنا سر ڈال کر او

چلتے چلتے مجھے اچانک اپنی سوئی یاد آ گئی میں واپس دریا کے کنارے گیا جا کر دیکھتا ہوں کہ سوئی وہاں نہیں ہے میں بہت اداز ہو گیا کہ میرے پاس لے دے کے یہ ہی ایک چیز تھی اب وہ بھی مجھ سے چھن گئی اداز اور پریشان میں اپنی ماں کے پاس واپس گیا تب تک ان کی نوکری کی مدد پوری ہو چکی تھی انہوں نے اپنے مالک سے کہا کہ میری مدد پوری ہو گئی ہے میری اجرت دے دو میں چلتی ہوں مال

تجھے اب اجرت بھی دینی پڑے گی یہ کہہ کر اس نے میری ماہ کے زور سے ایک مکہ جو مارا تو بیچاری نے وہیں گر کر دم توڑ دیا ہائے یہ کیا مسیبت بھری زندگی ہے میں نے بہت اداز ہو کر سوچا اور اپنی فریاد لے کر آپ کی بارگاہ میں آیا لیکن آپ کے نوکروں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اتنا کہہ کر نوجوان نے اپنی گردن جھکا لی اور خاموش ہو گیا بادشاہ کو اور زیادہ تاجیب ہوا اور اس نے پھر اپنے دان

دانشمندوں میں سے ایک جو سب سے زیادہ دانشمن تھا کھڑا ہو گیا اور زمین تک جھکر کہا بادشاہ سلامت اس کتیہ کے پلے کی باتوں پر یقین نہ کیجئے گا اس ذلیل کی ایک ایک بات جھوٹ ہے سفید جھوٹ آپ اس سے بھیڑوں کا تقاضی کیجئے یہ شاید کہے گا کہ وہ چوری ہو گئیں بادشاہ سلامت آپ کی اجازت پاؤں تو کچھ ارز کروں نوجوان نے پھر کہنا شروع کیا جب مجھ کو اندر نہیں جانے دیا گیا تو میں نے سوچ

چلو چل کر میں خود ہی اس ظالم کی خبل لوں یہ سوچ کر میں واپس اس امیر آدمی کے پاس پہنچا جس نے میری ماں کو مار ڈالا تھا پہنچتے ہی میں چیخ کر کہنے لگا بڑیا کی وجرت دے دو تم نے اس کا خون کیا ہے اس کے خون کی قیمت ادا کرو یہ کہتے ہوئے میں نے اس ظالم کو گربان سے پکڑ دیا اور کھیجتا ہوئے باہر سڑک پر لے آیا لوگ جمہ ہو گئے اور انہوں نے جھگڑا میری حق میں تی کر دیا اس ظالم نے مجھے ا

میں اس گدھے پر سوار ہو کر اپنے گھر کو چلا چلتا رہا چلتا رہا اور ایک جگہ میں نے دیکھا کہ سامنے سے اوٹوں اور گھوڑوں کے چالیس کافلے آ رہے ہیں کافلوں کے سردار نے پکار کر مجھ سے کہا اے گدھے والے تمہارے گدھے کی پیٹ کی کھال چھل گئی ہے نیچے اتر جاؤ اس کی پیٹ کا کفلہ ٹھیک کر دو میں فورا گدھے پر سے اتر پڑا اور دیکھا کہ گدھے کی پیٹ پر واقعی زکم پڑ گیا ہے

اے شخص اس کی دوا کیا ہے؟ اس نے ایک اکروت میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا اس اکروت کو جلا کر اس کی راک گدھے کے زکم پر لگا دینا ٹھیک ہو جائے گا میں نے اکروت کو جلا کر اس کی راک زکم پر لگائی اور پھر گدھے کی پیٹ کو دوبارہ کپڑے سے ڈھاپنے کو ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گدھے کی پیٹ پر اکروت کا ایک پودا اگایا ہے وہ پودا دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا سا درخت بن گیا دیکھتے

اور آنگ جھپکتے میں وہ فل پکھ کر تیار ہو گئے اب کیا کیا جائے؟ میں نے سوچا اگر درکھت پر چڑھ کر اس کو ہلانے لگوں تو گدے کی پیٹ کو خراب کر ڈالوں گا بہتر یہی ہے کہ اکروٹوں کو پتھر مار مار کر گراہوں یہ تی کر کے میں نے گدے کو ایک ایسی جگہ لے جا کر کھڑا کر دیا جہاں پتھر وتھر کچھ نہیں تھا میں نے آستی نے چڑھائی اور پتھر اکروٹ کے درکھت پر پھیکھنے لگا پھیک

اور نہ ہی کوئی اکھوٹ پھر بھی میں مایوس نہ ہوا اور پتھر فیکتا چلا گیا بال آخر سارے پتھر ختم ہو گئے اب مجھے خود اس کے اوپر چڑھنا پڑے گا میں نے سوچا اور یہ سوچ کے درخت کے اوپر چڑھ گیا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک لمبا چونہ باگ ہے اور اس کے سیرے پر ایک نالہ ہے جو ایک دل ربا آہنگ میں گیت گاتا ہوا بہ رہا ہے واہ تربوز اگانے کیلئے کیا اچھا باگ ہے میں نے خوش ہو کر سوچا

دیکھتے ہی دیکھتے ایسے تربوز تیار ہو گئے کہ کیا کہنے اتنے بڑے بڑے کہ کوئی دونوں ہاتھ فیلا کر بھی ان کا آہتہ نہیں کر سکتا میں نے ایک تربوز توڑ لیا نالے کے کنارے بیٹھ گیا اور ابھی چھری کی نوک کو تربوز میں گاڑا ہی تھا کہ تربوز تلعق سے پھٹ گیا اور چھری میرے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کے اندر گر گئی میں اس کو اٹھانے کیلئے جھکا تو خود بھی تربوز کے اندر گر گیا میں بہت دیر ت

دفتن مجھے ایک آدمی مل گیا میں نے اس سے پوچھا ساہب آپ نے راستے پر کہیں کوئی چھری تو نہیں دیکھی ارے آپ کو کسی چھوٹی سی چھری کی تلاش ہے اس آدمی نے کہا یہاں ہم تو چالیس کافلے تھے اور ہر ایک کافلے میں چالیس اوٹ تھے جانے وہ سب کہاں گم ہو گئے بادشاہ سلامت اسی مسئیبت کا قصہ سنانے کے لیے میں آپ کی بار گاہ میں حاضر ہوں اتنا کہہ کر گریب نوجوان نے اپنا سر جھکا لیا اور چھو

بادشاہ سوچ میں پڑ گیا اس کے دانشمندوں میں سے ایک اٹھ کر کھڑا ہوا اور بہت ہی جکھ کر آداب بجہ لانے کے بات کہنے لگا بادشاہ سلامت اپنے خزانے سے دو چار سکت دے دلائ کر اس کتے کے پلے کو چلتا کیجئے شہزادی دروازے کے پیچھے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھی وہ فوراً اپنے باپ کے پاس آئی اور کہنے لگی اس نے میری تینوں شرطیں پوری کر دی ہے غریب ہے تو کیا ہوا میں اس کے ساتھ ہی

غریب نوجوان نے جھک کر بادشاہ کی تازم کی اور پھر کہا بادشاہ سلامت میں کتنے ہی سالوں دق پہاڑی چرہ گاہوں میں اپنے مالک کی بھیڑھ بکنیاں چرا تا رہا ہوں اس مہنت کی عوز میں اسے مجھے دو سو بھیڑھیں دینی تھی لیکن اس نے بھیڑھیں مجھے نہیں دی اور مجھ کو نکال دیا عزیرہ کرم آپ اس آدمی سے میری دو سو بھیڑھیں دلا دیجئے میں ان کو شادی کے دہیز میں دوں گا بادشاہ نے بڑی دھوم دام سے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow