شہزادی حسن آباد اور ووڈ کٹر کی دلچسپ کہانی

حسناباد، ایک خوبصورت شہزادی کی داستان، ظالم بادشاہ کے خلاف اس کی جدوجہد، اور مشکلات کے سامنے محبت اور حوصلے کی طاقت کو دریافت کریں۔ یہ کہانی خوبصورتی، بہادری، اور انصاف کی ہے

Dec 28, 2024 - 22:12
 0  14
شہزادی حسن آباد اور ووڈ کٹر کی دلچسپ کہانی
شہزادی حسن آباد اور ووڈ کٹر کی دلچسپ کہانی

پیارے دوستو کسی زمانے کی بات ہے کسی جگہ ایک ظالم باشا حکومت کرتا تھا اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام حسناباد تھا وہ بے ہت خوبصورت تھی حسن و رنائی میں نہ چاند اس کی برابری کر سکتا تھا نہ سورج چاند اس کے چہرے سے مات کھاتا تھا تو سورج اس کی آنکھوں سے

بہت سے ملگوں سے لڑکی کے لئے شادی کے بہغام آتے لیکن بادشاہ سب کو ساف جواب دے دیتا حسنا باد کی ماہ غریب آدمی کی بیٹی تھی اور بادشاہ اپنی بیوی کو ہر وقت یہ کہہ کر تانے دیتا رہتا تھا کہ تم ایک بادشاہ کی بیوی ہونے کے ناتے اچھا کھاتی پیتی اور اچھا پہنتی ہو اگر کسی غریب کی بیوی ہوتی تو روٹی کے بدلے مٹی جبایا کرتیں حسنا باد کی ماہ بچاری بادشاہ کی تانے س


ایسے موقعوں پر لڑکی اپنی ماں سے کہتی امی جان آپ ہرگز کسی امیر آدمی سے شادی نہ کی جیے گا میری شادی کسی غریب سے ہی کر دیجیے گا قسمت نے ساتھ دیا تو میں خود اپنے شہور کو بادشاہ بنا دوں گی میں اس کو اپنے باپ کی جگہ دخت پر بٹھا دوں گی اور اس سے سبھی غریبوں کا بھلا ہوگا ایک دن بادشاہ اپنے دخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک قواہ کہیں سے اڑکھا آیا

اور کڑکی کے سامنے کے درخت پر بیٹھ کر زور زور سے کاؤں کاؤں کرنے لگا بادشاہ نے فوراً اپنے سلعہ کاروں کو جما کیا اور ان سے پوچھا یہ کوا کیا کہتا ہے سلعہ کار بڑی دیر تک سوچتے رہے اور پھر انہوں نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت اس کی بولی ہماری سمجھ میں نہیں آئی یہ ٹھہرا ایک کوا اور ہم انسان شاہد اس کو کچھ تفریح کرنے کی سوجی ہے بس اسی لئے کاؤں کاؤں کر ر

جلات، بادشاہ نے آگ بگولہ ہو کر جلات کو آواز دی اسی وقت جلات سیاہ گدوں کی طرح آم وجود ہوئے اور ایک آواز میں بول اٹھے کس کی موت آئی ہے ہم پلک جبکتے میں اس کا سرتن سے جدہ کر دیں گے بادشاہ نے حکم دیا ان سب کو لے جا کر گردنے کار دو اتنے میں حسنا باد دور کر باب کے پاس آئی اور اس نے کہا ابا جان اگر آپ کے سوال کا جواب میں دے دوں تو کیا آپ ان کو چھوڑ دیں گے


بادشاہ بولا ہاں اگر تم نے جواب دے دیا تو میں ان کو چھوڑ دوں گا اسنا بات بولی تو سنئیے یہ کوا کہتا ہے کہ جو شہور کو اثمان پر اٹھا دے وہ بیوی ہے اور جو اس کو مٹی میں ملا دے وہ بھی بیوی ہے یہ سن کر بادشاہ کو اتنا غصہ آیا اتنا غصہ آیا کہ اس کے سرکا ایک ایک بال سوئی کی طرح کھڑا ہو گیا اس نے گرجتے ہوئے اپنی بیٹی سے کہا


کیا تیرا مطلب یہ ہے کہ میرا سارا سکھ چین تیری ما کی بدولت ہے جو ایک کنگال کی بیٹی ہے کیا بکواز کرتی ہے میں تج کو زندان میں ڈالو آ دوں گا تاکہ سب لڑکیاں اس سے سبک سیکھیں چنانچہ بازشاہ نے حسناباد کو زندان میں ڈال دیا اور اپنے سلعہ کاروں کو چھوڑ دیا اس کے بعد وہ ایک مہینے تک مو کالا کیے اداز اداز خیالوں میں گرق اندر بیٹھا رہا ایک دن اس کے بڑے بزیر نے اس کو سمجھایا


جہاں پنا آپ یہ اندر ہی اندر نہ بیٹھے رہیں ذرا اپنا دل بھیلانے کی کوشش کریں آئے کہیں شکار کھیلنے چلتے ہیں وزیر عظم کے مشورے پر اپنے تمام سلعکاروں اور وزیروں کو ساتھ لے کر شکار کھیلنے کے لئے نکل کھڑا ہوا شکاری سات دن تک شکار کی تلاش میں گھومتے پھیرے لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا بادشاہ کو بہت دکھ ہوا وہ لوگ چلے جا رہے تھے


کہ کچھ دوری پر ایک دریا دکھائی دیا وہ چلتے ہوئے اس کے کنارے پر آئے تو دیکھا ایک سفید ریش بوڑا کنارے پر بیٹھا ہے وہ پانی سے چھوٹے چھوٹے پتھر نکالتا ہے اور ان پر کچھ لکھ کر پھر پانی میں ڈال دیتا ہے بادشاہ نے اس سے پوچھا اے بوڑے تم کون ہوں اور یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو بوڑا بولا میں گریب آدمی ہوں بلا میں بادشاہ سے کیسے بولوں بادشاہ


میرے سوال کا جواب دو ورنہ آپ بھی تلوار سے تمہارے دو ٹکڑے کر دوں گا بوڑا بولا میں لوگوں کی قسمتیں بتا رہا ہوں بادشاہ بولا اچھا تو یہ بتاؤ کہ میری سرکش بیٹھی کی کیا قسمت ہے بوڑے نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر کر کنکر نکالے اور ان کو دیکھتے ہوئے بولا ایک ملک میں جس کا نام شہر جرجان ہے ایک بہادر نوجوان رہتا ہے وہ ایک غریب چرواہے کا بیٹا ہے


اس گریبنوں جوان کے ساتھ تمہاری بیٹی کی شادی ہوگی بادشاہ نے جس کا چیرہ غصے سے سرکھ ہو گیا تھا بولا اس ملک تک کتنے دنوں کا راستہ ہے بوڑے نے جواب دیا اگر کسی اچھے گھوڑے پر سفر کیا جائے تو اٹھارہ مہینے لگیں گے گھر لوٹنے پر بادشاہ تین دن تک یہی سوچتا رہا کہ کیا کیا جائے تاکہ میری بیٹی صدنا چرواہے کو نہ ملے اس کو بھوک کو مار ڈالوں

بڑے وزیر کو بادشاہ کے اس سیاہ منصوبے کا پتہ چل گیا اس کو لڑکی پر رحمہ آ گیا چنانچہ رات کو اس کو زندان سے نکال کر اپنے گھر لے آیا اگلے دن اس نے بڑھئی کو بلایا اور اس کو بہت سارے پیسے دیئے اور بولا ایک ایسا سندوق بنا دو جس کے اندر کسی طرح پانی نہ جا سکے سندوق بن کر تیار ہو گیا تو وزیر نے حسنا بادھ سے کہا بیٹی آو اس سندوق میں لیٹ جاؤ


میں چالیس دنوں کی خرائق رکھ کر سندوق کو دریہ میں ڈال دوں گا تمہارے قسمت میں جینا لکھا ہے تو بے حال جی ہوگی بادشاہ کی تلوار سے یا زندان میں پڑے پڑے مر جانے سے کہیں اچھا ہے کہ تم کہیں بھیڑھ بکریہ چرایا کرو لڑکی سندوق میں بیٹھ گئی وزیر نے سندوق بند کر کے آدھی رات کے وقت اس کو دریہ میں ڈال دیا سندوق دریہ میں تین مہینوں تک بہتا رہا لڑکی نے ایک ایک دن کی خرائق

چار چار دن میں کھا کر اپنے آپ کو کسی طرح زندہ رکھا۔ ایک ملط میں کارا شاہ نام کا ایک بادشاہ تھا، وہیں ایک بوڑا آدمی بھی رہتا تھا جس کے بہت سارے پوتے تھے لیکن گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ پہاڑی جنگل سے بادشاہ کے لیے لکڑیاں کٹھ کر کے لایا کرتا تھا۔ وہ ایک دن اپنے کناڑی کاندے پر رکھے اور رسی کمر کے گید لپیٹے لکڑیاں جمع کرنے کے لیے شہر


اس نے لکڑیوں کا گتھہ جمع کر لیا تھا اور واپس جانے ہی والا تھا کہ اسے شدید پیاس محسوس ہوئی۔ پاس ہی ایک دریا بیتا تھا۔ وہ لکڑیوں کا گتھہ وہیں چھوڑ کر پانی پینے کے لیے دریا پر آیا اور کیا دیکھتا ہے کہ دریا میں کنارے کنارے ایک سندوق بیتا چلا آ رہا ہے۔ وہ فورا پانی میں اترا اور سندوق کو کھیشتاوہ کنارے پر لے آیا۔ اس نے چاروں طرف سے خوب دیکھا بھالا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔


کہ اس کو کس طرح کھولا جائے۔ تب اس نے اپنی کلاری سے سندوق کے ڈھکن میں ایک سراکھ بنایا اور اندر جھاکا تو وہاں ایک نیائیت حسین لڑکی لیٹی ہوئی نظر آئی۔ بورا دنگ رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ شاید کسی سوداگر کی بیٹی ہوگی۔ باب کے ساتھ سفر پر نکلی ہوگی۔ جہاز ڈوب گیا ہوگا اور سندوق پانی کے اوپر رہ گیا ہوگا۔ چنانچہ بورے نے لڑکی کو آواز دی اے لڑ


حسنا بار نے اندر سے جواب دیا کہ میں زندہ ہوں اور اٹھ کر بیٹھ گئی بوڑا سوچنے لگا اب کیا کیا جائے اگر سندوق کو چھوڑ کر لکڑیاں محل میں لے جاؤں گا تو مجھے ان کے اوز بادشاہ سے بیس پیسے سے زیادہ نہیں ملیں گے اور لکڑیوں کو چھوڑ دوں اور سندوق کو اٹھا کر محل میں لے جاؤں گے تو اس کا بھی کچھ نہیں ملے گا بہتر ہے کہ سندوق کو بازار میں لے جا کر بیج دوں آخر کس کو پتہ چلے گا کہ اس کے


یہ تہ کر کے بوڑا سندوق کو لے کر بازار پہچا وہ ابھی بازار میں داخل ہی ہوا تھا کہ کارا شاہ ادھر آ نکلا اور اس کو دیکھ لیا اس نے کڑک کر بوڑے سے پوچھا لکڑیاں کہاں ہیں؟ میری لکڑیوں کی فکر نہ کر کے تم کسی کے ہاں چوری کرنے گئے اور سندوق اٹھا لائے ہو یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی طلوار کھینچ لی اور اس سے بوڑے کو دو ٹکڑے کر ڈالے پھر اس نے اپنے نوکنوں کو حکم دیا


کہ سندوق کو اٹھا کر محل میں لے چلو محل میں سندوق کو کھولا گیا تو حسناباد کا حسن دیکھ کر باشا اس پر لٹو ہو گیا اور اس لڑکی سے بولا کہ مجھ سے شادی کرلو حسناباد رو پڑی اس نے اپنے آپ سے کہا میں تو کسی غریب سے شادی کرنے کا عہد کر چکی ہوں اب کیا کروں پھر اس نے باشا سے کہا آپ مجھے چالج دنوں کی محلت دیجئے


میں تین مہینے دقھ صندوق کے اندر پڑی پڑی تنگ آ گئی ہوں تھک بھی گئی ہوں اب زرا آرام کرلوں لڑکیوں کے ساتھ کھیل لوں مگر کارا بازشاہ نے دانت پیس کر کہا اگر تم نے ابھی اسی وقت مجھ سے شادی نہ کی تو میں تم کو مار ڈالوں گا حسنا بال نے گرگرہ کر بازشاہ سے عرس کی تو پھر کم از کم تین دنوں کی چھٹی دے دی جیے تمہارے آرام اور تفریح کے لئے ایک ہی دن کافی ہے کارا شاہ نے


اور حسناباد کو چھوڑ دیا چند کنیزوں کو اس کے ساتھ کر دیا اور ان کو تاکید کر دی کہ وہ اس پر برابر نگا رکھیں ایک لمحے کے لیے بھی اس کو اپنی آنکھوں سے اوجل نہ ہونے دیں حسناباد لڑکیوں سے گریوی باشا کے باگ میں آئی باگ کے اس طرف دریہ بہتا تھا حسناباد نے لڑکیوں سے کہا چلو چلکا دریہ میں نہائیں وہ سب دریہ کے کنارے آ گئیں حسناباد جو ہی پانی میں اتری


ایک حیبت ناعمچلی چانے کہاں سے آنکھلی اور لڑکی کو نکل کر پانی میں پھر کہیں غائب ہو گئی تمام کنیزے دوری ہوئی مہل میں آئی اور باشا کو اس حادثہ کی اطلاع دی یہ خبر سنتے ہی کاراشا کرا اٹھا اس نے اپنا تاج، سونے کی پیٹی شاہی لباس سب کچھ اتار کر فرش پر پھینک دیا اور مہل چھوڑ کر شہر سے نکل کر بیا بانوں کی طرف چلا گیا اب شہر جرجان کا حال سو رہیے


ایک دن دریہ کے کنارے ایک نو جوان چرواہ بھیڑھ بھکریہ چرا رہا تھا کچھ ماہی گیر دریہ میں جال ڈال کر مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے چرواہ نے ماہی گیروں کو اپنا دھکڑا سناتے ہوئے کہا میرے باپ اور میں دونوں بھوکے ہیں شہر جا کر روٹی لانے کی کوئی صورت نہیں ہے باپ بیمار ہے اور میں یہاں بھیڑھ بھکریوں کو چرانے میں مصروف ہوں میں ان کو چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتا تم لوگ مجھے کو


میں اسے لے جا کر اپنے باپ کو کھلا دوں گا۔ مہی گیر بولے اس بار جال میں جو کچھ بھی آئے گا وہ تمہارا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا جال کھیچا تو کیا دیکھتے ہیں اس میں ایک بہت بڑی مچھلی پھسی ہے۔ انہوں نے وہ مچھلی چرواہے کو دے دی۔ چرواہے نے اس کو اٹھانا چاہا تو وہ اسے اٹھانا سکا۔ اتنی وزنی تھی وہ مچھلی نوجوان پانچ بیلوں کی مدد سے اسے کھیچتا ہوا اس کو ا


مچلی کو اپنے باپ کے پاس چھوڑ کر وہ خود پھر اپنی بھیڑ بگروں کے پاس لوٹا بھورا مچلی کو پا کر بہت خوش ہوا اس نے چوری سے اس کا پیٹ چیرا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ایک لڑکی پڑھی ہوئی ہے بھورے نے لڑکی کے مو میں پانی کے کترے ٹپکائے لڑکی کو ہوش آ گیا اور اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں وہ اٹھکھڑی ہوئی اور بھورے کو جھک کر سلام کیا اور پھر بھورے سے پوچھا


بابا آپ کیا کام کرتے ہیں؟ بھوڑا بولا بیٹی میں ایک چرواہا تھا اب بھوڑا ہو گیا ہوں اب یہ کام میرا بیٹا کرتا ہے یہ سن کر لڑکی بے ہت خوش ہوئی اور جو سے بول اٹھی میری مراد پوری ہو گئی بابا اگر آپ کہے تو میں آپ کے بیٹے سے شادی کرلوں میری ما بھی ایک غریب گھرانے کی بیٹی تھیں بھوڑا بولا شادی کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہے کوئی بات نہیں


جب میں اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہوں تو لوگوں کو دعوت دینے کی کیا ضرورت ہے؟ بھوڑے نے اسی دن حسناباد کے ساتھ اپنے بیٹے کا نکا پڑھوا دیا نکا کے اگلے دن حسناباد نے اپنے سر کے بال ایک نمال تلے چھپا لئے اور آستی نے چڑا کر گھر کے کام کاج میں چھٹ گئی وہ دیکچی کے پاس آئی تو دیکھا کہ دیکچی پر مہل کی اتنی موٹی تیج جم گئی تھی کہ اس کے دونوں کندے ایک دوسرے سے ملتے مل


باقی برتنوں کا بھی یہ ہی حال تھا حسنا بار نے خروج خروج کر مانج مانج کر ان سب کو چمکا دیا پھر اس نے گر کے آنگل میں جھارو دے کر اسے ساف سترا کر دیا سمیلے کپڑے دھو ڈالے یہ سب دیکھ کر بوڑے کا دل دن کی طرح روشن ہو گیا وہ اٹھ کر اپنی بہو کے پاس آیا اور بڑی محبت سے بولا جگ جگ جیو بیٹی میں بوڑا ہو چکا ہوں مجھ سے گھر گرستی کا کوئی کام نہیں ہوں پاتا اور میرا


سبہ ہوتے ہی چلا جاتا ہے اور اندھیرا ہوتے گھر لوڑتا ہے لیکن ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ تم ہمیں مل گئی یہ دیکھ کر کہ تم اتنی مہنت کرتی ہو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ تمہاری کچھ مدد کروں مجھے بھی کوئی کام بتاؤ حسنا باد نے اپنے کان کی ایک بالی اتاری اور اس کو بوڑے کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی آپ اس کو بازار لے جائئے کوئی اس کا دام پوچھے تو کہہ دیجئے گا


تم خود ایمانداری سے کچھ دے دو وہ جتنا دے اس کو اتنے میں ہی بیجھ دینا بورا بالی کو لے کر بازار پہنچا این اسی وقت بڑے بڑے سوداغر بازار میں مال خریدنے آئے ہوئے تھے ایک سوداغر نے دیکھا ایک بورا ایک نیحائیت خوبصورت بالی کو ہاتھ میں لئے کھڑا ہے اس نے بورے کے پاس آ کر پوچھا بابا اس کے کیا دام ہے بورا بولا آپ خود ایمانداری سے کچھ دے دیجئے سود


ایک سندوقچی سونے سے بر کر بوڑے کو دیتے ہوئے پوچھا یہ کافی ہے یا کچھ اور دوں؟ بوڑے نے جواب دیا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ خود ایمانداری سے کچھ بھی دے دی جیے سوداگر نے ایک تھیلی بھر سونہ دیا اور ساری دولت کو لات کر گھر لے جانے کے لیے اپنے گدے کو بھی دے دیا بوڑے نے دل میں سوچا یہ میرا مزاق اڑا رہا ہے کیا؟ اچھا میں بھی اس کو اب اس سے بک سکائے دیتا ہوں


اس کا سارا سونا گدے پر لات کر لے چلتا ہوں پھر یہ میرے پیچھے بھاگتا پھیرے گا یہ سوچ کر اس نے سارا سونا گدے پر لادا اور چل دیا ادھر صدہ گرھ سوچ رہا تھا کہ کاش ایک ایسی ہیبالی مل جائے تو میں یہ جورہ اپنے بادشاہ کو دے کر سات اکلیم کا خرچا اور بات جما کرنے کا ٹھیکہ لے لوں گا بوڑے نے سارا سونا گھر لائے کر اپنی بہو کے ہوالے کر دیا اگلے دن حسنا


اپنے دوسرے کان کی بالی بھی اتار کر اپنے سسر کو دی اور بولی اسے بھی بیچ آو بوڑا بالی کو لے کر پھر بازار پہنچا پھر اسی سدارگرم نے اس کے پاس آ کر پوچھا بابا اس کے کیا دام ہے؟ بوڑا بولا میں اس کو تمہارے ہاتھ نہیں بیچوں گا پچھلی دوان تم نے میرا خون مزاک اڑایا تھا سدارگرم بولا اچھا تو پھر آپ میرے ساتھ میرے گھر چلئے وہ بوڑے کو لے کر اپنے گھر لے


اس نے سونے سے بھری دو سندوقچیاں بوڑے کو دے دیں یہ ہی نہیں اس نے بوڑے کو ایک ایمدی چوگہ بھی پہلائیا اور گدے بھی دے دیئے پھر اس نے پوچھا بابا آپ کا گھر کہاں ہے؟ بوڑے نے سوچا اگر میں اپنا گھر بتا دوں گا تو یہ جا کر مجھ کو لوٹ لے گا چنانچہ اس نے جواب دیا میرا کوئی گھر نہیں ہے گھر آکر بوڑے نے سارا سونہ اپنی بہو کو دے دیا حسنا بعد نے


یہ ساری دورت اندر جاگر چھپا دی اور پھر اس نے اپنے سوسل اور شہور سے کہا اب آپ لوگ جاگر مزدوروں کو لے آئیے ہم یہاں ایک شہر تعمیر کرائیں گے وہ جاگر شہر سے مزدور کو لے آئے حسناباد نے ان سب سے کہا آپ لوگ سب گھر جاگر اپنے اپنے بیوی بچوں کو بھی لے آئے وہ سب جاگر اپنے بیوی بچوں کو لے آئے تو شہر کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا حسناباد کی ہدایت پر راج مزد


سب سے پہلے ایک لمبی چوری دیوار بنانا شروع کی تمام مصدوروں کو ان کے بال بچوں کو روز کھانا کھلایا جاتا اور کچھ پیسے بھی دیئے جاتے حسنا باد نے ان سب کو اچھے اچھے کپڑے بھی بنوائی دئیے حسنا باد کی فیاضی کا حال سن کر ہر طرف سے اور بھی مصدور آنے لگے وہ سب کی آو بغت کرتی سب کو کھانا کھلاتی کپڑے بنوائے کر دیتی پاس سے گزرنے والے راگیر پوچھتے


یہ دیوار کون بنوارہا ہے؟ اس کو چرواہے کی بیوی بنوارہی ہے مصدور جواب دیتے اور پوچھنے والوں سے کہتے کام کرنا ہو تو تم بھی آجاؤ یہاں تمہیں اچھے مصدوری ملے گی کانے پینے اور پہننے کو بھی ملے گا پندرہ دن کے اندر اندر پانچ ہزار خاندانوں کے لوگ وہاں جمع ہو گئے انہوں نے تین مہینوں کے اندر اندر اتنی زمین کے گرد دیوار کھڑی کر دی


جس کی لمبائی اور چڑائی دس دنوں میں تیہ ہونے والے راستے کے برابر تھی۔ اس دیوار میں بارہ دروازے بنائے گئے اور ہر دروازے پر حسناباد کے تصویر لگا کر نیچے لکھ دیا گیا اس شہر کا نام حسناباد ہے جس کو روٹی کپڑے کی ضرورت ہو وہ یہاں آکر نوکری کر لے ایک سال کے اندر اندر پچھتر ہزار خاندان آکر بس گئے حسناباد نے ہر خاندان کو ڈالان


اور کھٹڑی سمید الگ الگ مکان بنا دیا شہر کے ایک دروازے پر پچھے سپائی کھڑے کر دئیے اور ان کو حکم دیا جو آدمی دیر تک میری تصویر کو دیکھتا رہے اس کو پکڑ کر میرے پاس لایا کرو اس نئے شہر کی شورت جرجان کے باشا تک پہنچ گئی وہ آگ بگولہ ہو گیا اور گرج کر بولا اس ملک میں وہ کون ہے جس کو میری عظمت اور سروت پر ہاتھ اٹھانے کی جرد ہوئی


یہ کون میری جاگیروں میں شہر آباد کر رہا ہے؟ اس کی جان کی خیر نہیں۔ میں ابھی جاگر اس کا سرطن سے جدہ کیا دیتا ہوں۔ بادشاہ شہر اسناباد پہنچا اور دروازے پر پہرے داروں کو دیکھ کر ان سے پوچھا یہ شہر کس نے بنوائی ہے؟ پہرے داروں نے جواب دیا جس کی یہ تصویر ہے یہ اسی نے بنوائی ہے اور انہوں نے دروازے پر لگے ہوئی اسناباد کی تصویر کی طرف اشارہ کیا جب ہم آپ کے ہاں نوکری کرتے تھے


تو آپ ہمارے بال بچوں کی فگر کرنا تو درکنار خود ہم کو بھی پیٹ بھرنے کو کھانے کو نہیں دیتے تھے اور حسناباد نہ صرف ہماری بلکہ ہمارے بال بچوں کی بھی خوب بچی طرح پرورش کر رہی ہے وہ ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتی اور ہمارے بچوں کو پڑھاتی بھی ہے ہمارے بہت سے بچے طرح طرح کے اُنہار سیکھ گئے ہیں بادشاں نے حسناباد کی تصویر دیکھی تو اس پر آشک ہو گیا وہ شہن میں داخل ہوا

اور مہل میں پہچا حسناباد کے سپایاں نے اس کو آکر اطلاع دی شہر جرجان کا بازشاہ آیا ہے اس نے یہ خواہیز ظاہر کی ہے کہ آپ اس کی بیوی بن جائیں یہ سن کر حسناباد کو غصہ آ گیا اور اس نے ہدایت دی کہ بازشاہ کو اندر لایا جائے جب بازشاہ اندر آیا تو حسناباد نے اس سے پوچھا ارے بازشاہ بتاؤ تو سئی تمہاری کتنی بیویاں ہیں میری چالس بیویاں ہیں


بادشاہ نے اکڑھ کر جواب دیا چالس بیویاں ہیں اور ابھی بھی کچھ ارمان باقی ہیں حسناباد نے تند سے کہا بادشاہ تو جل ہی گیا اور کڑھ کر بولا چھاہ تم مجھے تانے بھی دینی لگیں گداگر تیری یہ حمد یہ کہہ کر اس نے اپنی طلوار کھنچ لی لیکن حسناباد کے نوکر دور کر آئے اور بادشاہ کو پکڑ لیا انہوں نے بادشاہ کے ہاتھ پانوزنجیروں سے جکڑ دئیے


اور لے جا کر اسے زندان میں ڈال دیا۔ بادشاہ کا حشر دیکھ کر ملک کے باشندے بہت خوش ہوئے۔ ان کے نمائندے حسناباد کے پاس آئے اور اس سے گزارش کرنے لگے کہ شہر جرجان کا انتظام چلانے کے لئے آپ اپنے ذمہ لے لیں۔ حسناباد اس پر راضی ہو گئی۔ چند مہینے گزر گئے ایک دن ایک درویش شہر حسناباد کے دروازے پر آیا اور وہ حسناباد کی تصویر دیکھ کر رو پڑا۔


پہرے دار اس کو پکڑ کر ملکہ حسناباد کے باس لے چلے حسناباد کڑکی میں سے دیکھ کر ہی اس کو پہچان گئی یہ بادشاہ کارا شاہ تھا جو حسناباد کو اپنی بیوی بنانے کے لیے بیتاب تھا اور اس کو ارام اور تفریح کے لیے صرف ایک دن کی مولد دی تھی حسناباد تخت پر بیٹھ گئی اور اپنے چیرے پر نقاب ڈال لیا کارا شاہ کو اندر لایا گیا تو حسناباد نے اس سے پوچھا درویش تم کیوں رو


درویش بولا آپ میری حکیر سی جان بخش دیں تو عرص کروں حسناباد بولی ہاں کہو میں نے آپ کی جان بخشی درویش بولا مجھے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی اس کا نام حسناباد تھا آج اس شہر کے دروازے پر میں نے اس کی دصویر دیکھی حسناباد بولی وہ لڑکی خود کہاں ہے درویش بولا وہ نہانے گئی تھی اور دریہ میں ڈوب گئی


مجھے تو یہ ہی بتایا گیا تھا لیکن اگر پتا چلا کہ اس نے مجھے دھوکا دیا ہے، کنیزے کو رشوت دے کر بھاگ گئی ہے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ میں اس کو جنگلی گھوڑوں کی دم سے بندوا کر بےعبان میں چھوڑ دوں گا تاکہ وہ اس بدماش کو کانٹوں پر اس طرح گسیٹتے پھریں کہ ایک ایک کانٹے پر اس کے جسم کا ایک ایک ٹکڑا رہ جائے۔


بادشاہ کارا نے سوچا کہ یہ میری وہی حسنا باد تو نہیں ہے اور اس نے کپنوں کے اندر چھوپی ہوئی اپنی طلوار نکال لی اور اس کو حسنا باد کے سر کے اوپر کر کے گرشتے ہوئے بولا اپنا مو مت کھولو میں تمہاری صورت دیکھنا نہیں چاہتا لیکن نوکر دور کر آئے اور کارا شاہ کو پکڑ کر زندان میں ڈال دیا گیا اس کے بعد حسنا باد نے اپنے بڑے وزیر کو بھلا لیا اور اس سے بولی تم زرا گن کر دیکھو


کہ ہمارے فوج میں کتنے سپاہی ہیں۔ وزیر نے حساب لگایا اور پتا چلا کل ملا کر 7 لاک گھر سوار اور پیادے ہیں۔ حسناباد نے وزیر کو حدائت کی ان سب کو سفر کے لئے تیار کر لو۔ چالج دنوں میں فوج سفر کے لئے تیار ہو گئی پھر حسناباد اپنے چرواہے شور کے حمراء اور اپنی فوج کو ساتھ لئے ہوئے اپنے باپ کی سلطنت کی طرف چل پڑی۔ سہران اور بیابانوں سے گزرتی


پہاڑوں اور دریاؤں کو پیار کرتی، فوج چلتی رہی، آگے بڑھتی رہی۔ فوج چلتی رہے اور آپ زراہ اصناباد کے ظالم باب کا حال سنیئے۔ ایک دن اس نے خواب میں دیکھا، ایک چیل کہیں سے اڑھکر آئی اور اس کو اٹھا کر اوپر لے گئی۔ آسمان اور زمین کے بیچ پہنچ کر چیل رک گئی اور اس نے باشا سے کہا، تُو میرا گلام بن جا، ورنہ میں تیری گردن توڑ دوں گی۔


میرا تخت و تاج لے لو، میری سلطنت اور میرا خزانہ لے لو، میری جان بخش دو۔ چیل نے چواب دیا تیری دولت اور سلطنت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں میں تو تیری بیٹی حسناباد کا خون پینا چاہتی ہوں۔ اپنی بیٹی کا نام سن کر بادشاہ رو پڑا اتنے میں اچانک پہاڑ کے پیچھے سے حسناباد نمودار ہوئی اس کے ہاتھ میں ایک طلوار تھی حسناباد نے آکر اپنی طلوار سے


چیل کے دو ٹکڑے کر دئیے ہاتھ بڑھا کر اپنے باپ کو کمر سے پکڑ لیا اور آجتہ سے نیچے لائ کر زمین پر رکھ دیا ابا جان اگر مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے تو مجھے معاف کر دیجئے بادشاہ کی چیکھ نکل گئی اور وہ جاک گیا صبح کو اس نے سلائکاروں اور وزیروں کو بلا لیا اور ان سے بولا اگر تم میرے خواب کی تابیر نہیں بتا سکتے تو تم میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا


بڑے وزیر نے کھڑے ہو کر کہا اگر آپ میری چان بچ دیں تو میں آپ کے خوابوں کی تابیر بتا دوں گا بادشاہ گرج کر بولا ہاں بتاؤ بڑا وزیر بولا جس چیل نے آپ کو اٹھا لیا تھا وہ کوئی دشمن ہے جس وقت وہ ہمارے ملک پر قبضہ کر کے آپ کو قیدی بنالے گا اس وقت آپ کی بیٹی آکر آپ کو ازاد کرالے گی لیکن آپ کا تختوت آج کسی دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے گا بادشاہ گرج کر بولا


جھوٹ! میری سرکش بیٹی کو دو خاک میں ملے کافی عرصہ بھی چکا ہے تم ضرور مجھے ڈرائ کر چین آرام سے محروم کرنا چاہتے ہو میں تم کو زندان میں ڈلو آ دوں گا تاکہ میری بیٹی کے ساتھ تم بھی وہیں مرکب جاؤ بادشاہ نے جلادوں کو بلا کر اپنے بڑے وزیر کو زندان میں ڈلو آ دیا لیکن اسی دن سے بادشاہ اپنا چین اور آرام بالکل کھو بیٹھا وہ راتوں کو ڈر کے مارے سو نہیں پاتا تھا


رات بر اپنے بستہ پر لوڑتا رہتا یا پھر اپنی خواب گا کے اندر ادھر ادھر گھومتا پھرتا بالکل اسی طرح جس طرح کوئی زخمی جانمر جھاڑیوں میں درستے تڑپتا پھرتا ہو ایک ہفتے کے بعد ایک ایلچی اس کے پاس آ پوچا اس نے آتے ہی اعلان کیا شہر جرجان کا بادشاہ اپنا لشکر لے کر ہملا کرنے آ رہا ہے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر لگ کر اور سر جھکا کر اس کا استقبال کرو


اگر تم نے اپنی مرضی سے اپنی سلطنت کو اس کے حوالے نہ کیا تو پشتہ ہوگے ہمارے بازشاہ نے تمہارے لئے سلام اور انام بھیجا ہے یہ کہہ کر ایلچی دور کر بازشاہ کے پاس گیا اور اس کے مو پر زور سے ایک تھپڑ مار دیا وہ معافی مانگتا ہوا اپنے تخت کے بیچے چھپ گیا ایلچی چلا گیا تو اس نے تھر تھر کھاپتے ہوئے اپنے وزیر سے کہا ایلچی کا یہ حال ہے تو بھلا اس بازشاہ کے سپاہی کیسے ہوں گے؟


اب کیا کیا جائے کوئی مشورہ دو ہم آپ کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتے وزیروں نے جواب دیا ہم چاہے اچھا کہیں یا برا ہر صورت میں آپ ہم کو قتل کر دیں گے آپ بڑے وزیر کو زندان سے نکالیں وہ انام و کرام لے کر شہر جرجان کے بازشاہ کے پاس جائے پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا بازشاہ نے بڑے وزیر کو زندان سے نکالا اور اسے بولا تم ابھی شہر جرجان کے بازشاہ کے پاس چلے جاؤ


اور دورے تہرے ہو کر اس کو سلام کرو وہ اگر کہہے تو میری سلطنت اسے دے دو کل والے تھپر سے میرا گال ابھی تک دکھ رہا ہے اگر اس نے کہا کہ باشا کی جان لوں گا تو میں درویش کا ڈنڈا لے کر شہر سے نکل جاؤں گا میں ایسا کوئی دوسرا تھپر بالکل بڑھاش نہیں کر سکتا وزیر ہس پڑا اور باشا سے بولا جب میں نے آپ کے خوابوں کی تابیر بتائی تھی تو آپ کو غصہ آ گیا تھا اب بتائیے


میں نے سچ کہا تھا کہ جھوٹ اب دشمن آئے گا وہ آپ کو کسی جنگلی گھوڑے کی دم سے بان کر گھوڑے کو بیا بانوں کی طرف ہاںک دیکھا گھوڑے کو کانٹوں پر گھسیڈتا پھرے گا اور آپ ایک کھٹے کی موت مر جائیں گی بادشاہ کیچڑ میں پھسے ہوئے گدے کی طرح گردن جھکائے چپ رہ گیا بڑا وزیر کیمتی سوگات لے کر چل پڑا راستے میں اس نے شہر ججان کے بادشاہ کے نام ایک خط لکھ


اپنے علچی کے ہاتھ بیج دیا وہ خط حسناباد کو مل گیا خط پڑھنے کے بعد حسناباد نے بڑے وزیر کو اپنے پاس تلب کیا وزیر نے اندر آ کر بہت جکھ کر سلام کیا اور بیٹھ گیا اس نے ادھر ادھر نظر ڈالی تو دیکھا سامنے بادشاہ بیٹھا ہے یہ حسناباد کا شور چروہا تھا اس کے تخت کے آسپاس سپاہی بادشاہ کے اشارے کے منتظر ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور تخت کے ایک طرف


کوئی مو پر نکاب ڈالے بیٹھا ہوا تھا اے بڑے وزیر اس نکاب والے شخص نے کہا تمہیں اکیلے ہماری چھاؤنے میں آتے ہوئے ڈھر نہیں لگا یہاں تمہاری ہمایت کرنے والا کوئی نہیں اگر میں تم کو مار ڈالوں تو بڑے وزیر نے حسناباد کی آواز کو پہچان لیا اس نے فوراً چواب دیا جس کو خود ہی موت کے مو سے بچایا ہو کوئی اسے کیوں ڈرے تب حسناباد نے اپنے مو کا نکاب اٹھا د


اور اٹھ کر وڑے وزیر کے پاس آئی اور وزیر سے بولی اے میرے محسن، اے نیک دیل انسان، آپ ہی کی بدورت میں آج تک زندہ ہوں اگر میں اپنے باپ کی سلطنت آپ کے حوالے کر دوں تو کیا آپ اس کو ادل و انصاف سے چلا پائیں گے؟ ارے بیٹی میں تو اب بوڑا ہو چکا ہوں وڑے وزیر نے جواب دیا اگر تم نے یہ مملكت میرے حوالے کی تو میں اسے اس شخص کے حوالے کروں گا


جو میرے سامنے تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ حسنا باد اپنی فوج کو لے کر شہن میں داخل ہوئی، بادشاہ کی تلاش کی جانے لگی لیکن وہ کہیں بھی نہ ملا۔ وہ تو ڈر کے مارے اسی دن باق کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد کسی نے بھی اس کو نہیں دیکھا۔ حسنا باد اپنے چرواہ شہور کے ساتھ مل کر ملک پر حکومت کرنے لگی۔ جتنے بے گناہ زندان میں پڑھے ہوئے تھے، اس نے ان سب کو ازاد کر دیا۔ ان میں سے کافی لو


اس نے مختلف شہروں کا حاکم مقرر کر دیا اس طرح حسناباد اپنی مرادے پا گئیہ

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow