ایران کا سوداگر کی ایک دلچسپ کہانی
وہ بہت مالدار تھا اس کی تجارت ملک روم، آسام، روس، برما وغیرہ میں ہوتی تھی ہر قسم کی چیز ایک ملک سے دوسرے ملک کو بھیجتا تھا اس صوداکر کو پروردگار نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اطاقی تھی لڑکے کی عمر پانچ سال اور لڑکی کی عمر تین سال دی خدا کی قدرت عجیب ہے بادشا کو فقیر اور فقیر کو بادشا منا دیتا ہے جب انسان کا وقت خراب ہوتا ہے
اسلام علیکم دوستوں
وہ بہت مالدار تھا اس کی تجارت ملک روم، آسام، روس، برما وغیرہ میں ہوتی تھی ہر قسم کی چیز ایک ملک سے دوسرے ملک کو بھیجتا تھا اس صوداکر کو پروردگار نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اطاقی تھی لڑکے کی عمر پانچ سال اور لڑکی کی عمر تین سال دی خدا کی قدرت عجیب ہے بادشا کو فقیر اور فقیر کو بادشا منا دیتا ہے جب انسان کا وقت خراب ہوتا ہے
تو سونا چھونے سے خاک ہو جاتا ہے۔ سوداگر خرشید ایک دن اپنے مکان میں بیٹھا تھا کہ خبر ملی کہ اس کا جہاز غرک ہو گیا اور اس کے املے کے لوگ بھی ڈوب گئے یہ خبر سن کر اسے سخت افسوس ہوا مگر اس نے سبر کیا چند دنوں کے بعد پھر نئے چالیز جہاز بنا کر ملک برما کو روانہ کیے اور خود مکان پر ہی رہا تھوڑے ہی دنوں بعد خبر ملی کہ وہ جہاز بھی ڈوب گئے
اس خبر کے ملتے ہی سوداگر خرشید کو بڑا رنچ ہوا سر پیٹنے لگا اس کا سارا دھن جاتا رہا یہاں تک کہ بچارا بالکل کنگال ہو گیا ایک وقت کھاتا تو دوسرے وقت فاکا کرتا اس کے دوست احباب اکارب بھی اس کی خستہ علی دیکھ کر مو پھیر گئے جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو بھیک مانگنے لگا جو بھیک ملتی اسے خود کھاتا اور بچوں کو کھیلا تا اور اللہ کا شکر ادا کرتا
اس طرح کچھ دن گزر گئے ایک دن بھیک مانگ کر شام کو گھر آیا تو اس کا دل بہت رنجیدہ ہوا اپنی بیوی سے کہنے لگا خدا نے کیا دن دکھائے ہیں دن بھر بھیک مانگنا پڑتا ہے اور پیٹ بھرنا دشوار ہو رہا ہے شہر کی بات سن کر بیوی نے کہا میری بات اگر آپ قبول کریں تو میں کہوں اگر اللہ نے چاہا تو حالات پھر سے سازکار ہو جائیں گے بیوی نے کہا آپ جو کچھ شہر سے مانگ کر لاتے ہیں
اس میں تھوڑا تھوڑا کر کے روزانہ جمع کیجئے پھر کوئی تدبیر بتاؤں گی سوداگر نے اس کی بات مان لی اور جو مانکر لاتا اس میں سے کچھ کات کر جمع کرتا گیا چند دیروں بعد اس نے بہمشکل اس زمانے کے حساب سے دو روپے جمع کر لئے بیوی نے کہا اب ان دو روپوں کے منہاری کے سمان لا دو سوداگر نے یہ سمان لا دیئے وہ اپنے تروازے پر منہاری کی دکان لگا کر بیٹھ گئی سوداگ
وہ روزانہ بھیک مانگ کر لاتا اسی سے کسی طرح گزارا کرتا اور بیوی جو کچھ سودہ بیجتی اسے پونجی میں اضافہ کرتی اس طرح چند روز میں کچھ مال جمع کیا تو اس نے اپنے شوہر سے کہا اب آپ بھیک مانگنا چھوڑ دیں اور بازار میں کوئی دکان کرایا پر لے کر اسے کر لیں اگر اللہ چاہے گا تو کچھ نفہ ہوگا اور مسیوت کے دن ختم ہو جائیں گے یہ سن کر سودہگر فوراً اللہ کا نام لے کر بازار گیا
اور کرایا پر ایک دکان لے کر کھول دی چند دنوں میں اللہ کی محرمانی ہوئی کہ اس کا کاروبار بہت بڑھ گیا اور اب بازار کے تمام دکاندار اس سے مال لے کر بیچنے لگے اس کا کاروبار پھر پہلے کی طرح ہو گیا اور اسی طرح اس کاروبار پر پھر روم، مصر اور برما وغیرہ سے ہونے لگا اور پھر تمام ملکوں میں اس کا نام مشہور ہو گیا ایران میں ایک ایسا مکان بنوائیا کہ بادشاہ کا محل بھی شرما جا دا
اور ایک مسافر خانہ ایسا بنوائیا کہ تین دن بلا عزر یہاں رہے اور کھائے پیئے اس نے کئی مدرس سے بنوائے کر اچھے اچھے آلموں کو رکھا تاکہ تعلیم دیا کریں اپنے لڑکے اور لڑکی کو تعلیم دینے کے لئے ایک استاد رکھا چند روز میں لڑکا اور لڑکی پڑھ لکھ کر ہوشیار ہو گئے لڑکے کا نام چانسار اور لڑکی کا نام مہر فروز تھا مہر انگیز گیا تھی چاند کا ٹکڑا جو دیکھتا وہی
مہر انگیز تھی تو کم عمر مگر اس کا دل ہر دم اللہ پاک کی طرف مشغول رہتا وہ ہر وقت نماز روزہ اور قرآن شریف پڑھنے میں لگی رہتی مہر انگیز کو دیکھ کر اس کا استاد سوچتا کہ یہ مہ پیک کر نجانے کس کے ہاتھ لگے گی خدا دل کا ارمان مٹا دے ایک دن اس نے سوچا کہ اس صوداگر کو کسی تدبیر سے دوسرے ملک سہر کرنے کو بھیج دیا جائے اور پھر مہر انگیز کے ساتھ ایشو عشرت کی جائے
کچھ دن گزرے تو استاد نے سوداگر سے کہا آپ کے لڑکے پر لکھر ہوشیار ہو گئے لہٰذا اب آپ اسے ملک ملک جہازوں پر تجارت کے کام میں لگائیں ہر بادشاہ امیر سے ملایں اور تجارتی طریقے سکھا دیں تجارت کے گر سکھائیں اور اس کے بعد اس کے لڑکے اور لڑکی کسی اچھے خاندان میں شادی کر دیں اس کے بعد حج بیت اللہ سے فارغ ہو جائیں اور خود اللہ کی یاد میں زندگی گزاریں
صدہگر نے سوچا کہ مولوی صاحب نے بہت اچھی باتیں کی ہے لہٰذا جانسار کو تجارتی کام ضرور سکھا دینا چاہیے اور دوسرے ہی دن صدہگر گیارہ جہاز تیار کر کے ترہ ترہ کا مال لادا اور جانسار کو لے کر سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مولوی صاحب کو سب کر نگران بنا دیا اور تمام نوکروں کو حکم دیا کہ مولوی صاحب جو حکم کرے اسے بجا لانا تمہارا فرض ہوگا ورنہ سخت سزا دی جائے گی
پھر اپنی بیٹی مہر انگیز سے کہنے لگا بیٹی ہم تو سفر پر جا رہے ہیں تمہارے استاد جو حکم دے ان سے ماننا ہم چند دن میں واپس آجائیں گے یہ کہا کر بندرگاہ میں آئے اور جہاز پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اب استاد نے سوچا کہ خدا دل کا ارمان پورا کرے گا یہ سوچ کر ایک دن نہا دھو کر عمدہ لباس زیب تن کر کے مہل کی طرف چلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مہر انگیز اپنے کمبرے میں بیٹھی
تلاوتِ قرآنِ پاک کر رہی ہے اور خدا کی قدرت کی سوچ میں مشغول ہے استاد کو دیکھ کر مہرنگیز با عدب اٹھ کر تازیم بجھا لائی اور کہا کیا حکم ہے استاد جی ارز کیجئے بندی سر آکھوں سے کیا لائے گی مولوی نے کہا اے گل رو تیرے مو کو دیکھ کر دل میں افسوس ہوتا ہے کہ اس کھلے ہوئے گل کا کسی بھی بھور نے رس نہیں چکھا اس سے میری طبیعت لہراتی ہے اے ماہ پیکر چلو ہم دونوں
پلنگ پر ایشو عشرت کریں اور اپنے دل کے ارمان نکالیں یہ بات اس ملون کی سن کر مہر انگیز بڑی تاجم میں پڑی اور سوچنے لگی یہاں پربردگار یہ کیسا استاد ہے جس سے میں نے علم حاصل کیا اور آج یہ کفر کی بات کرتے ہیں یا خدا یہ کیا آفت میرے سر پر آن پڑی ہے مہر انگیز استاد کو بولی کہ آپ ذرا خدا کا خوف کریں کیا ضعیفی میں آپ کی اکل خراب ہو گئی
زبان سمال کر بات کیجئے آپ میرے والد کی جگہ ہیں اگر آپ نے پھر ایسی بات کہی تو اسی خنجر سے اپنی جان دے دوں گی اتنی بات کو سنتے ہی استاد نے کہا اے مغلانی جس دن سے یہ محطاب صورت دل میں بسی ہے اس دن سے شب و روز یہ دل بیتاو رہتا ہے اس سے اب جو بھی اذر کرو مکر بچنا مشکل ہے محرف روز استاد کی یہ بات سن کر دل میں خیال کرنے لگی کہ اس کے اوپر اس وقت شیطان سوار ہے
اگر میں اس کے خلاف کوئی بات کروں گی تو یہ کافر میری عزت میں ڈھبا لگا دے گا اس لئے اس سے کوئی بات کہ کر وقت پھیر دیا جائے پھر اللہ کوئی راہ نکال دے گا یہ سوچ کر محرف روز بولی اے حزرت ابھی آپ اتنا بیکرار کیوں ہوتے ہیں ذرا سبر کیجئے اور رات میں تشریف لائیے ذرا بے خوف ہو کر حسرت نکالیئے بندی آپ کی تابدار ہے
مہرف روز کی یہ باتیں سن کر استاد جی پارہ پارہ ہو گئے اور بولے کہ بہتر ہے مگر میری بات کے خلاف نہ جانا، رات میں دس بجے آوں گا اتنا کہ کر استاد جی واپس چلے گئے ادھر مہرف روز اس کے جانے کے بعد خدا کا شکر ادا کرنے لگی اور دل میں دعا کی کہ یا اللہ! اب تو ہی اس بلا سے میری نجات کر اب جب رات کو موزی آئے تو تو ہی میری مدد کرنا مہرف روز بلک بلک کر دعایں مانگنے لگی
اس کا رونا سن کر سنطری جو پہرے پر تھا نزدیک آیا اور کہنے لگا اے بیٹی ایسی کیا حفت تجھ پر آن پڑی جو اس طرح بلک بلک کر رو رہی ہو پہرے دار کی یہ بات سن کر وہ بولی میرے استاد جی آج رات دس بجے میرے پاس آنے والے ہیں اگر آئے تو انہیں روک دینا اگر زبردستی کریں تو دھکا دے کر باہر کر دینا یہ کہہ کر چند اچھرفیاں پہرے داروں کو دیں اور کہا خوب ہوشیار رہنا
ورنہ اگر کوئی ویسی بات میرے ساتھ ہو گئی تو تم لوگ سزاوار ہو گئے یہ سن کر پہردار نے کہا بیٹھی فکر مد کرو اس کے بعد مہر افروز کمرے میں چلی گئی اور پہردار اپنا پہرہ دینے میں مشکل ہو گیا جب رات ہوئی تو مولوی صاحب یعنی استاد جی بالوں میں خزاب لگائے پھر اتر ملا اور مہر افروز کے کمرے کی طرف چل پڑے جب کمرے کے اندر داخل ہونا چاہا تو فورا پہردار بولا
کہ کون ہے جو کمرے میں داخل ہونا چاہتا ہے؟ استاد نے کہا ہم ہیں تمہیں پوچھنے سے کیا مطلب؟ کیا تم کو میرا خوف نہیں؟ پیردار بولا کہ آپ سیدھے یہاں سے واپس لڑ جائیں یہ سن کر استاد بولے میں تمہیں سخت سزا دوں گا اتنا سنتے ہی پیردار نے گردن میں ہار ڈال کر دھکا دے کر مولوی صاحب کو دور کر دیا اس بےزتی کے بعد استاد جی اپنے مکان پر آگئے اور دل میں بولے کہ یہ ساری کارستانی مہر افروز ہ
اب میں اسے مزہ چکھاؤں گا اس کے بعد استاد نے سوداغر خرشید کو ایک خط لکھا آکاہِ محرمان جناب خرشید آداب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب سے آپ تشریف لے گئے ہیں تب سے آپ کی خیریت کا طلبگار ہوں دیگر احوال یہ ہے کہ آپ مجھے نگہبان مقرر کر گئے آپ کے حکم کے مطابق تابداری کر رہا ہوں ایک بات کا تابدار کے دل میں ذرا شک گزرا ہے لیکن غصہ میں لحاظ ہوتا ہے
وہ یہ کہ مہر انگیز کا دل ایشو عشرت کی طرف مائل ہے اس نے شرمہ و ہیا کو بلائے تاک رکھ کر ایک مشہوب کے ساتھ میل ملاقاتوں کا جام پی رہی ہے فکت آپ کا تابیدار اس کے بعد مولوی صاحب نے یہ خط کاسد کو دے کر کہا کہ اسے صودہگر کے پاس لے جاؤ کاسد خط لے کر منزل در منزل تے کرتا ہوا صودہگر کے پاس پہنچا
اور بعد تسلیم کے خط اسے دے دیا سوداگرن نے خط پڑا اور بیوی اور لڑکے کو سنایا اور غصے میں آگ بگولہ ہو کر بولا کہ میری بیٹھی نے مجھے ذلیل کر ڈالا میری عزت تار تار کر دی اب میں ایران میں کسی کو مو دکھانے کے قابل نہیں رہا اس کے بعد بیٹے سے بولا تم فورا جاؤ اور محر افروز کا سر کلم کر کے اس کے خون میں اپنا رمال تر کر کے میرے پاس لاو
تب ہی مجھے چین آئے گا۔ یہ سن کر مہر افروز کا بھائی جانسار فوراً چل پڑا اور پانچ دنوں میں ایران جا پہنچا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ اس نے سوچا کہ پہلے چھپ کر دیکھا جائے کہ مہر افروز اس وقت کس شغل میں مسروف ہے؟ یہ سوچ کر دھیرے دھیرے مکان میں پہنچا۔ اس وقت پہردار سو رہے تھے۔ پھر تلوار میان سے نکال کر مہر افروز کے کمرے کی طرح بڑھ گیا۔ جب قریب
قرآن شریف پڑھ رہی ہے یہ دیکھ کر جانسار کہنے لگا کہ یا حدا یہ کیا ماجرہ ہے میں کیا کروں وہ یہی کھڑا سوچ رہا تھا کہ محرف روز کی نظر اپنے بھائی پر پڑھی اور فورا اٹھکھڑی ہوئی اور آنکھوں سے آنسوں کا دریاب ہاتھو بھولی کہ بھائیہ کیا بات ہے کہ آپ اکیلے آدھی رات میں آئے ہیں ہمارے والدین وغیرہ کو کہاں چھوڑائے اور تلوار میان سے باہر کیوں ہے اگر مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہے تو مجھ سے پوچھا جائیں
پھر چاہیں تو میرا سر کلم کر دیں اتنی بات سنکر جانسار نے تلوار میان میں رکھ لی اور سوچنے لگا کہ بہن کو کس علظام میں قتل کروں اس کے بعد جانسار مہل سے باہر آیا اور کہاروں سے کہہ کر کہ جب مرغ ازان دے جب مرغ بانگ دے تو تم لوگ پالکی لے کر روانہ ہو جانا اس کے بعد جانسار مہل میں آیا اور جب ایک پہر رات باقی رہ گئی تو کہار پالکی لے کر پہنچے
جانسار نے اپنی بہن محرف روز کو پالکی میں سوار کیا اور خود گھوڑے پر بیٹھ کر پالکی کے ساتھ روانا ہوا اتنی تیزی سے یہ لوگ چلے کہ ایران کی سرد چھوڑ کر صبہ ہونے سے پہلے ایک بیابان جنگل میں جا پہنچے جہاں انسان کا بالکل گزارہ نہیں تھا ہر طرف ویرانی ہی ویرانی جدر نظر اٹھاؤ ادھر بھالو شیر ہی نظر آتے کہاروں نے یہیں پالکی روک دی اس کے بعد جانس
وہاں سے رخصت کر دیا اور تاقید کی کہ یہ بات کسی سے مطہ کہنا کہاروں کے جانے کے بعد جانیسار نے ایک ہرن مار کر اس کے خون میں اپنے رومال کو تر کیا اور اپنے باپ کے پاس جا پہنچا اور خون سے بھرہ رومال باپ کو پیش کیا اور اسے بتایا کہ میں نے بہن کو قتل کر دیا ہے خون بھرا رومال دیکھ کر صداکر مطمئن ہو گیا کہ بلا تل گئی اس کے بعد اپنی بیوی سے کہا کہ اب ہم لوگ ابنے وطن واپس چلنا چاہیے
اس کے بعد جہاز پر مالوز باب لادا اور ایران روانہ ہو گیا چند دنوں میں وہ اپنے شہر میں پہنچ گیا اور ایشو آرام سے رہنے لگا ادھر محر افروز کو کہاڑوں نے اور بھائی نے اکیلا جنگل میں چھوڑ دیا تو محر افروز کچھ دیر انتظار کرنے لگی پھر سوچنے لگی کہ یا اللہ اب یہ پالکی کیوں نہیں اٹھائی جا رہی اس کے بعد اس نے پردہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی مگر نہ تو اس کا بھائی تھ
یہ دیکھ کر بچاری محرف روز رونے لگی اور سوچنے لگی کہ ہو نہ ہو یہ ساری کارستانی میرے استاد کی ہے اسی نے میرے بھائی کو بہکایا ہے اور اللہ سے فریاد کرنے لگی کہ یا اللہ ابھی تو ہی ان آفتوں سے مجھے بچائیو محرف روز دعائیں کرتی اور روتی جاتی اس کا رونا دیکھ کر جنگلی جانور بھی رونے لگے غرض اس نے سبر سے کام لیا اور جنگل کے پھل پھول کھا کر دن گزارنے لگی
اسی طرح پانچ برس پید گئے بدن کے لباس کے چیتھرے ہو گئے یہ حالت دیکھ کر مہرفروز نے دل میں کہا کہ یا خدا اب تو بدن چھپانے کو بھی کچھ نہ رہا یا اللہ! اب اس زندگی سے موت بہتر ہے اس کے بعد ایک درخت کے اوپر جا کر بیٹھ رہی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک جوان ہاتھ میں تیر کوان لیے اس طرف چلا رہا ہے مگر کافی دوری پر ہے اسے دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا
کہ آج ایک انسان تو دکھائی دیا اتنے میں وہ نوجوان درخت کے پاس آ گیا تو دیکھا کہ ایک پالکی ٹوٹی پھوٹی پڑی ہے اور زنانہ لباس پھٹے پرانے ڈھرے ہیں یہ دیکھ کر سوچنے لگا کہ اس جنگل میں یہ چیزیں کہاں سے آ گئیں معلوم ہوتا اس پالکی میں جو تھی اسے جانوروں نے کھا لیا اس کے بعد اس جوان نے نظر اوپر اٹھائی تو دیکھا کہ درخت پر کوئی بیٹھا ہے مگر یہ نہ سمجھ پایا کہ یہ انسان ہے ی
اس نے تیر نکال کر جیسے ہی نشانہ باندھنا شروع کیا کہ مہر افروز چلائی بھائی خدا کے واسطے رحم کریں میں کوئی جانور نہیں ہوں ایک زمانے کی ستائی ہوئی لڑکی ہوں یہ سن کر نوجوان نے ہاتھ رکھا اور پوچھا کہ تم کون ہو یہاں کیوں آئی ہو مہر افروز بولی میں اپنی کہانی کیا بیان کروں جو کہ درد سے بھری ہے جوان نے کہا اچھا تو تم نیشے اترو تو وہ بولی کہ میں بے پردہ ہوں کس طرح نیشے آؤ
یہ سن کر جوان نے اپنی چادر اوپر پھینگ دی اور بولا اس چادر کو پہن کر نیچے آ جاؤ مہرفروز نے چادر بندن پر اڑی اور نیچے اترائی جوان نے جو غور سے دکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک نہائی تی حسین دوشیزہ ہے اس نے پوچھا کون ایسا ظالم ہے جس نے تمہیں اس بیابان میں لا کر چھوڑ دیا
مہر افروز بولی کہ پہلے آپ اپنا حال بیان کیجئے نوجوان نے کہا کہ میں ملک افغانستان کے بادشاہ کا لڑکا ہوں میرے والد کا نام فردوس ہے اور میرا نام شہزادہ فرق ہے مجھے شکار کا شوق ہے میں نے اپنے والد سے ایک سو جوان ساتھ لے کر نکلا دن بھر شکار کرتا اور رات کو اپنے آدمیوں کے ساتھ ایک جگہ حرام کرتا صبح ہوتے ہی ڈیرہ اکھاڑ کر دوسری طرف چلا جاتا
ایک دن کا ذکر ہے کہ خوبصورت ہرن دکھائی دیا میں نے اس ہرن کے پیچھے اپنے گھوڑے دوڑایا مگر ہرن تیزی سے بھاک نکلی میں بھی اس کے پیچھے بھاکتا گیا مگر ہرن نظروں سے اوجل ہو گئی تو مجبورا ہم لوگ اپنے خیمے کی طرف چل پڑے مگر رات ہو چکی تھی اس لئے راستے کا صحیح اندازہ نہیں ملا یہاں تک کہ رات بید گئی مگر خیمے کا پتہ نہیں چلا صبح ہو جانے کے بعد می
میں بھی بھٹکتے بھٹکتے ادھر آ گیا اور آج پانچ سال سے یہ مسیبت جھیل رہا ہوں مہر انگیز بولی سبحان اللہ آپ بے گناہ ہیں اس بندی سے خطا ہوئی تو ماف کیجئے گا شہزادہ بولا کہ اے گل بدن اس کم ترین کو اپنا غلام جانو میں آپ کے اس محتابی پہشانے کو دے کر بیتاب ہو رہا ہوں مہر افروز بولی میں بھی اپنے دل میں یہی قیفیت پا رہی ہوں لیکن اب اس بیابان سے ہم لوگ نکل چلیں
پھر ہم لوگ آپس میں نکاح کر لیں گے۔ یہ سن کر شہزادہ بولا کہ تمہارا کہنا درست ہے۔ چلو اب راستہ تلاش کریں اور وہ دونوں چل پڑے۔ اس طرح چلتے چلتے ایک دن اپنے لشکر میں شہزادہ پہنچ گیا۔ شہزادے کو دیکھ کر تمام لوگ خوش ہوئے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شہزادہ تمام سپاہیوں کو لے کر اپنے شہر کی طرف چل دیا۔ جنگل میں چلتے چلتے شہزادہ اس جگہ جا پہنچا جہاں اس نے ہرن کا
شہزادہ اس جگہ پہنچ کر خوش ہوا کہ اب اپنے شہر کے قریب پہنچ گیا ہے اس جگہ ان لوگوں نے قیام کیا اور خدا کا شکر ادا کیا اور کھا پھی لینے کے بعد یہ لوگ پھر آگے بڑے جب شہزادہ اپنے شہر میں داخل ہوا تو وہاں کے لوگ اسے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھے کہ پانچ سال بعد شہزادہ آخر گھر پہنچ گیا ہے یہ خبر سن کر بادشاہ مہل سے باہر آیا اور بیٹے کو دیکھ کر گلے لگایا اور پھر مہل میں لے کر آیا
تو شہزادہ کی ماہ بیٹے کا بوسہ لے نے لگی اس کے بعد بہت سی خوشیاں منائ گئیں شہزادہ کی ماہ نے مہرف روز کو دیکھا تو بولی بیٹا یہ چان سے سورت ناظنین کہاں سے مل گئی یہ کون ہے ماہ کی بات سن کر شہزادہ بولا ماہ یہ لڑکی مجھے بیابان جنگل میں ملی ہے اور مجھے یہ بہت پسند ہے لہٰذا آپ اس کے ساتھ ہی میری شادی کر دیجئے اگر شادی نہ ہوئی تو میرا آرام اور سکون حرام ہو جائے گا
تو بادشاہ کو ناقوار گزرہ اور شہزادے کو بلا کر کہا کہ بیٹا ذرا ہوش کرو جس لڑکی کو تم جنگل بھی آبان سے اٹھا کر لایا ہو نا جانے کون ہے جن ہے پری ہے یا کچھ اور نا جانے کون ہے بعد شادی کے تم کو یہ کہاں اڑا لے جائے اور پھر تیری ما و میں دونوں رو رو کر جان دے دیں گے تو کیا تم یہ پسند کرو گے تمہاری شادی کسی بادشاہ کی لڑکی سے کر دی جائے گی تم ایک بادشاہ کے لڑکے ہو
اگر یہ بات دوسرے بادشاہوں کو معلوم ہوئی تو ہم لوگوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی اپنے باپ کی یہ باتیں سن کر شہزادہ بولا کہ ابا حضور اس وقت شرموں ہےہ کو چھوڑ کر آپ سے کہنا پڑتا ہے کہ یا تو اس کے ساتھ میرا نکاح کیا جائے یا اس کٹارے سے اپنی جان دے دوں یہ بات سن کر بادشاہ مجبور ہو کر رزمند ہو گیا اور بعد ازاں تربار میں وزیروں اور عمرہ کو حکم دیا کہ شادی کا سمان تیار کیا جائے
یہ خبر جان کر تمام درباری خوش ہوئے اور شادی کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئیں پھر تمام شہریوں کو دعوت اے آم دی گئی اور شادیانے بجنے لگے اور پھر شہزادہ فرق کی شادی محر افروز سے ہو گئی اور دونوں عیش و عشرت کے ساتھ رہنے لگے دونوں میں دن بدن محبت بڑھنے لگی ایک دوسرے کو دیکھے بنا ایک بل بھی نہیں رہ سکتے تھے ایک سال کی مدت پوری ہوئی تو ایک فرزند پیدا ہوا یعنی ایک بیٹا ہوا
نہائیت جمیل اور خوبصورت بادشاہ نے اس خوشی میں نوکروں کو خلط ادا کی غریبوں میں روپے تقسیم کیے لڑکا نازو نام میں پلنے لگا جب اس کی عمر 3 سال کی ہوئی تو پروردگار نے اسے دوسرا بیٹا ادا کیا اب دونوں کی پرورش ہونے لگی بادشاہ اور بیگم دونوں کے ساتھ کھیلتے اور خوش ہوتے ایک دن کا ذکر ہے کہ شہزادہ فروق اپنے دونوں لڑکوں کو لے کر باب کے پاس دربار میں گیا
بادشاہ نے دونوں پہتوں کو اپنے پاس بٹھایا اور دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ لڑکے پریزاد ہیں کیا؟ بہتر ہے کہ اس سے زیادہ پیار و محبت نہ کیا جائے کیونکہ اس کی ماہ جب اپنے پریستان کو یاد کرے گی تو دونوں کو لے کر چلی جائے گی اور پھر ہاتھ نہ آئے گی شہزادہ فرق سے بادشاہ نے پھر یہ باتیں کہیں تو اس نے کہا ابہ حضور آپ ابھی تک غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس کا پریوں سے کوئی تعلق نہیں اس کا ہر کام انسانوں ج
باتیا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور پھر سب خوش خوش رہنے لگے ایک دن کا ذکر ہے کہ شہزادہ اور مہر افروز دونوں محل میں سو رہے تھے جب آدھی رات گزری تو مہر افروز اچانک اٹھ کر بیٹھ گئی اور رونے لگی اس کے رونے کی وجہ سے شہزادہ بھی جاگ گیا اور پوچھا کہ آخر تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟ مہر افروز بولی کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے ہیں
اور خوشی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں شہر ایران میں میرے باپ کی جیسی حکومت اور عزت تھی اسی طرح ہے اور نوکر چاہ کر سب تجارت میں ہاتھ بٹا رہے ہیں یہ دیکھی رہی تھی کہ خواب سے بیدار ہو گئی اور اب مجھے اپنے ماباپ کی یاد ستا رہی ہے اس لئے بندی کی گزارش ہے کہ محربانی کر کے آپ مجھے ملک ایران میں میرے ماباپ کے پاس لے چلئے جب تک وہاں نہ جاؤں گی دل کا رنجو ملال نہ مٹے گا
یہ سن کر شہزادہ بولا کہ بس اتنی سی بات کے لیے یہ پریشانی ہے میں کلی سب کو تمہیں ایران لے چلوں گا اس کے بعد دونوں نے بات چیت کر کے رات گزار دی اگلی سب کو شہزادہ اپنی بیوی کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا اور ایران جانے کی خواہش ظاہر کی اور محر افروز کے خواب دیکھنے کی بات بتائی شہزادے کی بات سن کر بادشاہ بہت پریشان ہوا اور پھر شک میں مبتلا ہوا
کہ اس کی بیوی اب اسے پرستان لے جانا چاہتی ہے یہ خیال کر کے شہزادہ سے کہا بیٹا اس کے جال میں پھس کر نقصان اٹھاؤ گے اور تمہاری جدائی میں ہم اور تمہاری ما رو رو کر مر جائیں گے پھر ما نے بھی سمجھایا کہ اگر تمہاری بیوی جانا چاہتی ہے تو اسے رخصت کر دو مگر تم مد جاؤ یہ سن کر شہزادہ سوچنے لگا کہ اب میرے والدین ضعیف ہو چکے ہیں انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں
اور ان کے ساتھ کوئی مصیبت پیش آ گئی تو میں مو دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا اور تمام لوگ لانت ملامت کریں گے اس لیے اپنے وزیر کے حمراء اسے بھیج دیں یہ سوچ کر شہزادہ نے وزیر کو بلا کر کہا میری بیوی کے ساتھ شہر ایران جاؤ اور وہاں ایک مہینہ رہ کر اپنے حمراء پھر لے آؤ گے یہ خیال رہے کہ راستہ حوشیاری سے تحقرنا وزیر نے کہا اے شہزادہ میں آپ کا تابدار رہوں گا آپ کے ہر حکم کی ت
میں آپ کی بیگم کو بہت آرام کے ساتھ ایران پہنچاؤں گا اور پھر ساتھ ہی واپس لاوں گا اس کے بعد وزیر نے جانے کے لیے تمام اسباب کا انتظام کیا اور پچاس جوان اور راستے کا خرچ لے کر شہزادے کی بیوی دونوں بچوں کو پالکی میں سوار کر کے روانہ ہو گیا پہاڑ دریا و جنگلوں کا سفر تیگ کرتا ہوا جب شہر ایران کی سرد میں یہ لوگ پہنچے تو ایک میدان ملا سارا دن چلنے پر بھی یہ میدان ختم نہ ہوا
شام ہو گئی تو وزیر نے پڑھاؤ ڈالنے کا حکم دیا حکم پاتے ہی تمام سپاہی اپنے اپنے کام میں لگ گئے اور خیمے گار دیئے گئے مہر افروز اپنے خیمے کے باہر دونوں بچوں کو لیے کرسی پر بیٹھی ہوا کھا رہی تھی کہ یکا یک وزیر کی نظر مہر افروز کے چہرے پر پڑی تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ ناظنین جس کی خوبصورتی پر چان بھی شرما جائے اگر اس گ
تو یہ زندگی بیکار ہے جب آدھی رات گزری تو وزیر مہر افروز کے خیمے میں آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ پلنگ پر لیٹھی جاگ رہی ہے وزیر کو دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی اور بولی آپ کے اتنی رات کو میرے پاس آنے کی وجہ کیا ہے وزیر بولا کہ پیاری آپ کے حسنوں جمال کو دیکھ کر میرا دل بیکرار ہے اس لئے خاکسار کے دل کے ارمان پورے کر دیں تو بڑی محرمانی ہوگی
نہیں تو یہ بچارہ ذات کھو دے گا وزیر کی یہ بات سن کر محرف روز کھانپ اٹھی اور دل میں خدا کو یاد کرنے لگی کہ یا خدا اس وقت تو ہی مدد دینے والا ہے اس طرح خدا کو یاد کر کے وزیر سے بولی کہ آپ کو میں اپنے سوسر کی طرح سمجھتی ہوں اور آپ کی زبان پر یہ بات زیب نہیں دیتی آپ اپنے ارادے سے باز آئیں ورنہ انجام برا ہوگا یہ سن کر وزیر بولا کہ بگڑنے سے کچھ کام نہ ہوگا اس وقت تم میری ما تحتی
میں جو چاہوں کا کروں گا اگر تم نے عزر کیا تو تمہارے بیٹوں کو مار دوں گا بھلا بورا سوچ لو ورنہ پھر تمہیں پشتانا پڑے گا مہرف روز نے یہ سن کر کہا جان رہے یا نہ رہے لیکن برے کام کو ہرگز نہ کروں گی یہ سن کر وزیر بھڑک اٹھا اور طلوار نکال کر لڑکے کو پکڑ کے بولا اب بھی میری بات مان لو ورنہ سر کلم کر دوں گا اس کا مہرف روز بولی کہ جو رب کو منظور ہوگا وہ ہی ہوگا
اتنا سن کر وزیر نے ایک ہاتھ ایسا مارا کہ لڑکے کا کام تمام ہو گیا وزیر پھر بولا اب بھی میری بات مان جاؤ ورنہ دوسرے لڑکے کو بھی مار ڈالوں گا اور پھر تجھے بھی زندہ نہ چھونوں گا محرف روز نے جواب دیا کہ اگر خدا پاک کی محرمانی ہو تو میرا کچھ نہیں بگار سکتا تُو اے نمک حرام وزیر خیال رکھ تیرا دوزخ میں بھی ٹھکانہ نہ ہوگا وزیر بولا کہ کیا تجھے لڑکے
کہ جس خدا نے دیا اسی نے لے لیا پھر اس کا کیا غم یہ سن کر وزیر نے دوسرے لڑکے کو بھی ہلا کر دیا اور محر افروز کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو محر افروز نے سوچا کہ اب اس ظالم سے بھی وہی سلوک کیا جائے جو استاد کے ساتھ کیا تھا یہ سوچ کر بولی وزیر صاحب معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری اقل بگڑ گئی ہے اتنا بے سبرہ کیوں ہو رہے ہو
اور لڑکوں کو تم نے مار ڈالا تو اس کا رنج نہیں جب ہم دونوں ایک دوسرے کے ہو لیں گے تو خدا ہمیں بہت سے لڑکے دے گا اس لئے اب ایک کام کرو یہ پوشاک اتار کر شہانہ پوشاک پہن کر آو اور پھر میرے ساتھ احشو اشرت کرو یہ باتیں سن کر وزیر کے دل میں سبر آیا کہ سوچا کہ اس پوشاک میں شاہ کا نوکری کہل ہوں گا بہتر ہے کہ پوشاک کو تبدیل کر کے آو یہ سوچ کر چل دیا اُدھر وزیر پوشاک
تو ادھر محرف روز نے سوچا کہ اب اس کمبخت سے عزت بچنا مشکل ہے لہٰذا یہاں سے بھاک چلنا چاہیئے آگے جو خدا کو منظور ہوگا وہ ہوگا اتنا سوچ کر محرف روز خیمہ سے نکل کر ایک طرف چل دی وزیر شہانہ لباس پہن کر خوشی میں لہراتا جب خیمے میں پہنچا تو محرف روز کو نہ پا کر سخت پریشان ہوا ہر طرف تلاش کیا مگر نہ ملی تو اس نے سوچا کہ وہ دھوکہ دے کر بھاک گئی ہے اس نے دغا د
مگر رات کے اندھیرے میں اسے کہاں تلاش کروں گا؟ اگر سپائیوں کے ساتھ یہ سب حال معلوم ہوا تو بادشاہ کو خبر مل جائے گی اور مجھے میرے بال بچوں کے ساتھ سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور مجھے میرے بال بچوں کے ساتھ ہی سولی پر چڑھا دیا جائے گا اس لئے اپنے ساتھیوں کو جگہ کر یہ کہا جائے کہ یہاں آفت آنے والی ہے لہذا جلد خیمیں اکھاڑ کر یہاں سے چل دینا چاہیئے یہ سوچ کر سپائیوں کو
اور چلو ورنہ اجنبی کے پھندے میں پھس جائیں گے کیونکہ بیوی محرف روز اپنے بچوں کو لے کر پرستان کی طرف اڑ گئی ہے بادشاہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ یہ کوئی پریزاد ہے مگر شہزادہ نہیں مانا سپاہیوں نے حکم کے مطابق اسی وقت خیمیں اکھاڑے اور اپنے ملک کی طرف روانہ ہو گئے کئی دن کے بعد افغانستان واپس پہنچے وزید بادشاہ کے پاس پہنچا اور عدب سے سلام کیا پھر تازیم بجھ
بادچہ نے پوچھا مہرف روز کو ایران پہنچا آئے وزیر بولا جہاں پناہ ایک عیرت انگیز بات ہو گئی ہے ہم لوگ یہاں سے منزلیں تے کرتو ایک میدان میں پہنچے اور شام ہو گئی تو خیمیں گار دئیے اور تمام سپائی کھانہ بنانے اور پہرہ دینے میں مسوف رہے مہرف روز اپنے خیمہ میں بچوں کے ساتھ آرام کرنے گئی جب کھانہ تیار ہوا تو کھا پی کر ہم لوگ سو رہے کچھ سپائی پہرے پر رہے
جب سبہ ہوئی تو سارا لشکر چلنے کے تیاری کرنے لگا اور جب مہرف روز کے خیمہ میں اطلاع دینے گیا تو دیکھا کہ خیمہ خالی ہے نہ بچے ہیں نہ اس کی ماہ مہرف روز ہر طرف تلاش کیا مگر کہیں پتہ نہ چلا لاچار واپس لوٹ آیا مالوم ہوتا ہے کہ بی بی صاحبہ کا تعلق پریستان سے ہے اور وہ اڑ کر پریوں کے دیس واپس چلی گئی ہیں یہ بات بادشاہ کے دل میں پوری طرح اتر کری بولے کہ ہاں مجھے پہلے ہی
اسی وقت بادشاہ نے شہزادہ کو بلا کر کہا کہ بیٹا اچھا ہوا کہ تم نہ گئے ورنہ وہ تم کو بھی اڑا کر لے جاتی شہزادہ کو افسوس ہوا لیکن وزیر کی بات پر اسے یقین نہ آیا اور اس نے کہا ابہ حضور مجھے شہر سے جانے کی اجازت دی جائے میں پتہ لگا کر آؤں گا بادشاہ نے اجازت دے دی اور شہزادہ لشکروں پیادہ کے ساتھ اور تمام ضروری اشیا لے کر سفر کو نکلا اب ادھر محر افروز کا حال سنیں
یہ جب خیمہ سے رات میں بھاگی تو خدا کو یاد کر کے چلتی رہی اور صبوکے ایک طلاب کے کنارے پر پہنچی تو وزو کر کے نماز ادا کی اور دعائیں مانگی کہ یا پروردگار میری مصیبتوں کو تو ہی دور فرما دے اس کے بعد وہاں سے روانہ ہوئی اور شام کو ایک گاؤں میں جا پہنچی دیکھا کہ ایک آدمی بھیڑوں کو چرا کر اپنے گھر واپس ہو رہا ہے اس نے کہا کہ بابا
اس غریب لڑکی کو اپنے گھر میں پنہ دے دو محربانی ہوگی رات گزار کر سبو چلی جاؤں گی مجھے شہر ایران جانا ہے بھیڑ والے نے اس کی طرف دیکھا تو خیال کیا کہ یہ کسی امیر کی بیٹی ہے اور مسیوت میں گرفتار ہے لہٰذا اس کی مدد کرنی شاہیے اس بات کو سوچ کر بولا کہ بی بی جی تم کوئی بات کے فکر نہ کرو میرے ساتھ چلو تم کو کسی قسم کی تقلیف نہ ہونے پائے گی یہ کہہ کر اسے اپ
اور اس کو کھلا پلا کر سونے کے لیے ایک اچھی جگہ دے دی مہرف روز کی ساری رات ارام سے گزر گئی سب اٹھ کر نماز سے فارح ہو کر بھیڑ والے کو بلا کر اپنے سارے زیورات اتار کر دے دیئے اور خود ایران کی راہ لی بھیڑ والا انعام پاکر بہت خوش ہوا اور اپنی بیوی کو بلا کر کہا کہ میں تیلی لی یہ زیورات لے کر آیا ہوں تمہیں پسند ہے؟ یہ دیکھ کر بیوی بولی کہ یہ کہاں سے لے آئے ہو اس نے سب ب
اس کی بیوی نے کہا کہ جس عورت کا زیور ہے اب اسی عورت کو لا کر اپنے گھر رکھو یہ سنتے ہی شہور نے ایک لات ماری اور کہا حرامزادی تُو نکل جا دیکھ میں ابھی اس کو لاتا ہوں اور اپنی بیوی بنائے کر رکھوں گا اور تُوچ کو اپنے مکان سے باہر کر دوں گا اتنا کہہ کر وہ شہر ایران کی طرف دوڑا ادھر محر افروز جنگل تے کرتی شام کو ایک دریا کے کنارے پہنچی اور سوچنے لگی کہ دریا کس طرح پار کیا
ایک جگہ اسے ناؤ دکھائی دی خیویہ یعنی ملہ سے محرف روز نے کہا کہ اسے پار کر آ دے اس نے جواب دیا کہ رات میں ہم ناؤ یعنی کشتی نہیں کھلتے محرف روز بولی اگر مجھے یہ دریا پار کر آ دے گا تو میں تجھے انعام دوں گی یہ سن کر فورا اس نے دریا پار کروا دیا اور محرف روز نے اپنی شال اسے انعام میں دے دی شال پاکر وہ ملہ بہت خوش ہوا محرف روز ایران کی سرط پر آ گئی
اُدھر وہ ملہ یعنی خیویہ یہ شعل اپنی بیوی کو لا کر دینے لگا اور کہا کہ آج ایک عورت کو اس دریا سے پار کروایا تو اس نے مجھے انعام دیا ہے یہ سنکر اس کے بیوی بولی اگر تم اس کو اپنے گھر لے آتے تو ساری مسئیبت دور ہو جاتی یہ سنکر ملہ اسی وقت محرف روز کی تلاش میں چل دیا
اُدھر محر افروز کئی منزلیں تیقرتی شہر ایران پہنچی اس وقت رات کے بارہ وجہ تھے چاروں طرف سپاہی پہرہ دے رہے تھے اس لئے شہر کے اندر جانے کا موقع نہیں ملا رات ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گزاری جب صبہ ہوئی تو نماز سے فارح ہو کر زنانہ لباس اتار کر مردانہ لباس پہنا اور شہر میں داخل ہو کر اپنے صوداغر باپ کے مسافر خانے میں پہنچی اور ایک دربان سے بولی کہ میں ایک غریب
یہاں نوکری کرنے کی غر سے آیا ہوں اگر آپ اپنے صداجر کے پاس مجھے نوکری دلاتے ہیں تو محرمانی ہوگی یہ سنکر دربان بولا کہ تمہارا نام کیا ہے اس نے کہا مبارک ہے پھر پوچھا کہ تم کام کیا کرتے ہو اس نے کہا جو بھی کام کہیں گے وہ کروں گا دربان بولا ٹھیک ہے تم آج سے کام کرو تم کو کھانا کپڑا اور بارہ آنا مہینہ ملا کرے گا یہ سنکر لڑکی نے منظور کر لیا
محرف روز یعنی آدمی کے بھیس میں مبارک کے طور پر کام کرنے لگا وہ عشیاری سے رہتا تاکہ کوئی پہچان نہ لے اب ادھر خیال کیجئے کہ بھیڑ والا اور ملہ محرف روز کو تلاش کرتے ہوئے شہر ایران پہنچے ان دونوں کی آفس میں باتیں ہونے لگیں بھیڑ والے نے پوچھا کہ بھائی تم کس کے فراق میں گھوم رہے ہو ملہ نے ساری بات بتا دی یہ کہہ کر ملہ نے پوچھا تم اپنا حال بیان کرو
تب بھیڑ والے نے بھی اپنا واقعہ بیان کر دیا اس کے بعد دونوں نے سلاح کی اب مسافر خانہ میں چلیں کل شہر میں تلاش کریں گے اور یہ لوگ مسافر خانہ میں پہنچے ان دونوں کو دیکھ کر محرف روز سوچنے لگی کہ یہ لوگ کس لئے یہاں آئے ہیں بہررل وہ اور حشاہ ہو گئی چند دن گزرے کے شہزادہ فرخ بھی اسی مسافر خانہ میں آہ پہنچا شہزادے کو دیکھ کر مبارک یعنی محرف روز بہت خوش ہوئی اور خدا کا شک
مبارک نے کہا کہ ایک قصہ میں نے افغانستان میں سنا ہے جو بہت ہی خوشکوار ہے مگر یہ قصہ میں اسی وقت کہوں گا جب آپ سوداگر خرشید ان کی بیگم ان کا لڑکہ دربان مولوی صاحب اور تین نئے آنے والے مسافر یہ تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے
تو آپ کو یہ قصہ سناؤں گا۔ یہ جواب سن کر دربار نے کہا اچھا کل یہ قصہ سنانا میں کل ان سب کو بلانے کا انتظام کروں گا دوسرے دن مسافر خانہ کا دربان صوداگر کے پاس گیا اور کہا حضور میرے یہاں ایک نوکر مبارک نام کا آیا ہے وہ ایک نئے طرز کا قصہ سنانا چاہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ میں جن آدمیوں کے سامنے قصہ کہوں ان میں آپ اور بیگم صاحبہ
مولوی صاحب اور تین نئے مسافر یہی لوگ ہوں اگر آپ منظور کریں تو حاضر کرو صوداگر قصہ سننے کا شوکین تھا اس نے اجازت دے دی اور نوکروں سے محفل سجانے کو کہا جب محفل سج گئی تو مسافر خانے کا دربان مبارک اور تین نئے مسافروں کو لے کر حاضر ہوا مبارک نے جن آدمیوں کے سامنے قصہ سنانے کو کہا تھا وہی لوگ محفل میں بیٹھے اور مبارک نے قصہ کہنا شروع کیا
مبارک کا محرف روز مبارک نے کہا یہ قصہ افغانستان میں سنا ہے آپ لوگ بھی سنے شہر ایران میں ایک سوداگر تھا خدا پاک نے اسے بہت دولت اور سروت سے نوازہ تھا اس کے پاس بے شمار نوکر چاکر تھے گویا ایک بادشاہی تھی پھر خدا کی مرضی ایسی ہوئی کہ اس کا معلص باب بات کی بات میں غائب ہو گیا اور اتنا بیاروں مددکار ہو گیا کہ بھیک مانگنے لگا
خدا نے اسے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اطاقی تھی لہٰذا بھیک جو ملتی وہ اخراجات کے لئے ناکافی ہوتی۔ ایک دن رنجیدہ ہو کر اپنی بیوی سے کہا کہ اب میں اس طرح کی زندگی سے جان دی دینا بہتر سمجھتا ہوں۔ بیوی نے اسے سمجھایا اور چند دنوں میں دو روپے جمع کیے اور اس کے کچھ مال مگوا کر اپنے دروازے پر فروخت کرنے لگی۔ خدا نے اس میں نفہ بخشا۔ اس طرح جب پونجی زیادہ ہو گئی تو اس نے صدا
کہ اب تم بازار میں جا کر دکان کھلو اور سردار نے ایک ودکان بازار میں کرلی اتنا سننے کے بعد صدہگر نے کہا کیا اس صدہگر کو تم پہشانتے ہو مبارک نے کہا حضور نہیں یہ سن کر صدہگر خاموش ہو گیا مبارک نے پھر قصہ سنانا شروع کیا بولا خدا کی محربانی سے وہ صدہگر تھوڑی دنوں میں بہت مالدار ہو گیا اور پہلے سے بھی زیادہ شان و شوقت کا مالک بن گیا
اب سوداگر نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو پڑھانے کیلئے ایک مولوی کو رکھا چند سال میں یہ دونوں پڑھ لے کر ہوشیار ہو گئے اور لڑکی جوان ہو چکی تھی تو مولوی صاحب نے سوداگر کو مشورہ دیا کہ بیٹے اور بیوی کو لے کر سفر پر چلے جاؤ مگر لڑکی مکان ہی پر رہی جب یہ لوگ سفر پر روانہ ہو گئے تو مولوی صاحب سوداگر کی لڑکی کے پاس آئے اور اس کے ساتھ مو کالا کرنے کی خواہش کی
مبارک بولا نہیں حضور یہ میں نے سنا ہے جو کہہ رہا ہوں پہرداروں نے کہہ دیا یہ بات بالکل سچ ہے بلکہ ہم لوگوں نے مولوی کو اس موقع پر سر کو بھی کی تھی مبارک نے آگے کہنا شروع کیا جب مولوی مار کھا کر گیا تو غصہ میں صدہگر کے پاس ایک خط پر اس کی بیٹی کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا لکھ دیا صدہگر نے جب خط پڑا تو رنجیدہ ہو کر اپنے بیٹے کو لڑکی کو قتل کرنے کے لئے بھیجا
مگر بھائی نے لڑکی کو مارنے کے بجائے ایک خطرناک جنگل میں لے جا کر چھوڑ دیا وہ بچاری جنگلوں میں بھٹک رہی تھی کہ اتفاقا ایک دن افغانستان کا شہزادہ شکار کھیلتھوے بھٹک کر اس کے پاس آ پہنچا اور اسے اپنے ملک لے جا کر اس سے شادی کر لی اور اس نے دو بچوں کو جنم دیا ایک دن اس لڑکی نے اپنے شہر سے ایران جانے کی خواہش ظاہر کی تو اس کے شہر نے وزیر کے ساتھ
پچہ سپاہیوں کے ہمرہ اپنی بیوی اور بچوں کو ایران روانہ کر دیا چند روز سفر کرنے کے بعد ایک رات ایک بڑے میدان میں قیام کے لیے خیمے لگائے تو اس وزیر کی نظر اس لڑکی پر پڑی اور اس نے اس کے ساتھ زبردستی مو کالا کرنا چاہا اور جب وہ امادہ نہ ہوئی تو اس کے دونوں بچوں کو قتل کر ڈالا یہ صورتحال دیکھ کر کسی طرح موقع پاکر وہ لڑکی رات کے اندھیرے میں وہاں سے بھاک گئی
وزیر کے ہاتھ نہ آئی اور اپنی عزت بچالی یہ سن کر شہزادہ بولا کیا تم اس کو جانتے ہو؟ وہ اب کہاں ہے؟ مبارک نے کہا نہیں اور پھر دوبارہ قصہ شروع کیا پھر وہ لڑکی بھا کر رات کو ایک گاؤں میں پہنچی اور ایک بھیڑ والے کے گھر میں رات گزار دی اور صبو جانے سے پہلے اس بھیڑ والے کو اپنے زیورات انعام میں دیئے پھر وہاں سے چلی تو شام کے وقت کے دریا کے کنارے پہنچی اور ملاح کو انعام
اس کے کشتی پر دریا کو پار کیا اور اسے شال انام میں دے دی اتنی بات سن کر ملہ بولا دریا تو میں نے پار کروائی تھا بھیڑ والا بولا رات میں وہ میرے گھر پر رہی تھی اور پوچھنے لگا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو مبارک بولا کہ یہ باتیں بعد میں کروں گے پہلے قصہ سنو پھر مبارک نے کہنا شروع کیا جب صوداکر کی لڑکی شہر ایران میں آئی تو مردانہ لباس پہن کر اپنا نام مبارک رکھا
اور یہاں کے مسافر خانہ میں کھانا، کپڑا اور بارہ آنا مہینے پر نوکری کر لی۔ یہ کہہ کر صوداگر سے مخاطب ہوا کہ اب آپ دریافت کر لیں کہ اس محفل میں مبارک کس کا نام ہے۔ یہ سن کر تمام لوگ ہیرز زدہ ہو گئے اور محرف روز رونے لگی اور دوڑ کر باب کے گود میں جا گری۔ اس کا رونا دے کر ما، بھائی اور باب سبھی رونے لگے۔ اس کے بعد صوداگر اپنے دمات شہدادہ فرقھ سے ملا اور سب کو لے کر محل میں گیا۔
اور بیٹی اور دمات کو پانے کی خوشی میں جشن منایا اور غریبوں میں بہت سارے روپے خیرات کیے اور بھیڑ والے اور ملا کو بہت کچھ انعام و اکرام دے کر رخصت کیا مولوی صاحب کو پکڑ کر شہزادہ فروق کے سپرد کرکے بولا کہ تم کو اختیار ہے کہ اسے جو چاہو سزا دو شہزادہ نے فورا جلات کو حکم دیا کہ اس کو فورا جان سے مار ڈالو اور اس کی آنکھیں نکال کر مہر افروز کے قدموں میں ڈال دو
جلاد نے حکم پاتے ہی تعمیل کی شہزادہ کچھ دن اپنے سسرال میں رہ کر ایک دن صوداگر سے اپنے وطن جانے کی اجازت مانگی صوداگر نے خوشی خوشی جانے کی تیاری کر دی اور بہت ساری دھن دولت ہاتھی گھڑے اصباب اور سپاہی وغیرہ دے کر بیٹی اور دمات کو ودہ کیا شہزادہ منزل در منزل تے کرتا ہوا اس میدان میں پہنچا جہاں وزیر نے دونوں لڈکوں کو قتل کیا تھا
مہرف روز نے اپنے بچوں کو خیال کر کے رونے لگی اس کا رونا سن کر پرند اور چرین تڑپنے لگے شہزادہ اور مہرف روز ایک آہ کا نارہ مار کر کہنے لگے کہ یا پروردیگار تیری قدرت تو ہی جانتا ہے دوسرے کی کیا مجال ہے کہ جان سکے ہمارے بچوں کو وزیر کافر نے یہیں پر مار ڈالا تھا یا اللہ میرے اوپر اپنا فضل و کرم کر بچوں کی دید دکھا نہیں تو ہم دونوں بھی اپنی جان تیری راہ میں گوا دیں
یہ کہہ کر دونوں بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ خدا پاک نے ان دونوں کو مسیبت زیادہ دیکھ کر اپنا فضل کیا اور دونوں بچوں کو زندہ کر کے شہزادہ اور مہر افروس سے ملا دیا۔ لڑکوں کو زندہ پاکر دونوں بہت خوش ہوئے اور خدا کا شکر بجھا لائے۔ اس کے بعد وہاں سے خیمہ و گھڑا اور منزل در منزل تے کر کے چند دنوں بعد اپنے شہر میں آئے۔ بادشا کو خبر ملی کہ شہزادہ فرخ
اپنی بیگم اور دونوں بچوں کے ساتھ واپس آ گیا ہے تو بہت خوشی منائی اور خوب دولت غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کی شہزادہ آکر اپنے باپ سے بغلگیر ہوا اور سارا احوال کہہ سنایا شہزادے کی بات سنکر باچا کو اپنے وزیر پر سخت غصہ آیا اور فورا جلات کو بلا کر حکم دیا کہ میرے سامنے رانگا پگلا کر اس بدیانت وزیر کے مو میں بھر دو حکم پاتے ہی جلاتوں نے رانگا بھر دیا
شہزادہ اس کے بعد تخت نشین وور اپنی سلطنت کو عدل و انصاف سے چلانے لگا اور ریائے بھی خوش خوش رہنے لگے خدا کی عجیب شان ہے کسی نے سچ کہا ہے کہ خداون کریم کو جو منصور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے بلکہ اللہ نے خود فرمایا ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے بے شک اللہ ہر شہ پر قادر ہے
What's Your Reaction?