ایک بھکاری کا عجب قصہ
ایک بھکاری کی دلکش کہانی جو تاثرات کو چیلنج کرتی ہے اور گہرے جذبات کو جنم دیتی ہے۔ دریافت کریں کہ کس طرح ایک غیر متوقع ملاقات نے ضرورت مندوں کو دینے کے بارے میں مصنف کے خیالات کو بدل دیا۔
اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت ہے ایک بھکاری کی بہت ہی دلچسپ کہانی یقین مانیے کہ مجھے ہٹے کٹے موٹے مشتنڈے بھکمانگوں سے نفرت ہے اور میرے دل کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کچھ دینا گوئے اپنی آقبت خراب کرنا اور دنیا کے اخلاق بگادنا ہے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو ان کو مل رہا ہے وہ خیرات نہیں بلکہ ان کی صدا کی خوبی کا معافزہ ہے
میں اسی عصول پر قائم تھا مگر ایک دفعہ مجھے ایسا دھوکا ہوا کہ اس کا خیال کر کے اب خود مجھے حسی آتی ہے۔ ہوا یہ کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا چائی پی رہا تھا۔ اس کمرے کا دروازہ سڑک پر کھلتا تھا اور دروازے پر کوئی آمد و رفت نہیں تھی۔ میری چائی کی میز دروازے کے بلکل سامنے تھی کہ اتنے میں ایک صاحب دروازے پر آ کھڑے ہوئے۔ شریف صورت تھے، کپڑے گویا بہت اچھے نہیں تھے، پ
کہ دیکھنے سے ترس آتا تھا اور ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا تھا کہ بیچارہ بھونکا ہے اور کئی وقت کے فاکی سے ہے تھوڑی دیر تک تو میں ان کی حالت کا اندازہ کرتا رہا اس کے بعد ان سے کہا کہ اندر آ جائیے یہ سن کر وہ کمرے کے اندر کچھ لڑکھلاتے ہوئے آئے میں نے کہا بیٹھ جائیے وہ ایک قرصی پر بیٹھ گئے میں نے کہا چائے پیجیے گا کہنے لگے آپ کی حنایت میں نے چائے بنا کر ان کی طرف بڑھائی
مگر انہوں نے بڑی دیر تک پیالی نہیں اٹھائی اور یوں ہی چائے کو تکتے رہے میں نے کہا پی جیے اس میں شرمکی کیا بات ہے کہنے لگے حضرت میں پیالی کیا اٹھاؤں ڈرتہوں کہ کہیں گرنا پڑے اور آپ کا نقصان ہو جائے میں نے کہا کہ گرنے کیوں لگی جواب دیا کہ میں ایسا بدقسمت واقع ہوا ہوں کہ سونے کو ہاتھ لگاؤں تو پتھر ہو جائے اگر کہیں میں نے پیالی اٹھائی تو چائے کا گرنا تو کیا خود پیالی گر کر چ
میں نے پھر اسرار کیا مگر وہ نہ مانے آخر میں نے پیالی خود اٹھا کر ان کے مو سے لگائی کچھ بسکٹ بھی کھلائے جب کہیں جا کر ان کے ہوش حواز درست ہوئے میں نے یہ سوچ کر کہ ان کے کچھ حالات معلوم ہو جائیں تو کیا اچھا ہے ان سے کہا حضرت آپ شکل و صورت سے تو کوئی بڑے آدمی معلوم ہوتے ہیں پھر آپ پر کیا مسئبت پڑی ہے کہ اس حالت کو پہنچ گئے آپ اپنی بدقسمتی کی شکایت کرتے ہیں مگر ہم بھی تو سنے کہ قسمت کا وہ کی
کہنے لگے جناب یہ کچھ نہ پوچھئے خدا کسی کو اس مسیبت میں گرفتار نہ کرے جس میں یہ کم ترین گرفتار ہے قدم قدم پر ٹھوکر ہے اور ہر کام میں قسمت کا چکر آپ کیوں مجھ گریب کے حالات پوچھتے ہیں جب میں بہت سر ہوا تو کہنے لگے اگر آپ کو میری بیپتہ سننے کا ایسا ہی شوق ہے تو سنئیے اور دیکھئے کہ جب انسان آسمان کی گردش میں فس جاتا ہے تو اس کی حالت کیا سے کیا ہوجاتی ہے یہ بدنسیب اسفہ کا رہنے
کوئی تین بارس ہوئے کہ وہاں ایسا کہت پڑا کہ لوگوں کے عوسان جاتے رہے میں امیر تو نہیں تھا، ہاں خاصے خاتے پیتے لوگوں میں تھا یہ زمانہ بھی کسی نہ کسی طرح گزر جاتا لیکن گھر میں چوری ہو گئی اور جو کچھ تھا سب چوری چلا گیا ایک مکان رہ گیا تھا اس کو بیٹھ کر کرای سے مکان لیا یہاں بھی زمانے کی گردش نے میرے پیچھا نہ چھوڑا جو کچھ جمع پونجی تھی وہ ایک ملازم صاحب لے کر چمپت
نوکری کی تلاش کی مگر وہاں یہ حالت تھی کہ کسی کے پاس خود ہی کھانے کو نہ تھا دوسرے کو کیا خلاتے مجھے ایسی صورت میں بھلا نوکری کیا ملتی آخر تنگ آ کر میں نے دل میں ٹھان لی کہ مر جاؤں گا مگر بھیک کے لیے تو ہاتھ نہیں فیلاؤں گا دو روز یوں ہی گزارے لیکن آخر کہاں تک پیٹ کا دوزخ بگر کچھ جھوکے چین تھوڑے ہی لینے دیتا ہے آخر پھر رسک کی تلاش میں نکلا کھانے کو کسی لن
راستے سے جا رہا تھا کہ بورکہ پہنے ہوئے ایک عورت ملی اور مجھ سے یہ کہنے لگی کہ میرا ایک چھوٹا سا کام اگر تُو کر دے تو تجھے دو عشرفیوں دیتی ہوں دو عشرفیوں کا نام سن کر میرے مہوں میں پانی بھر آیا اور میں نے کہا اچھا بتائیے وہ کام کیا ہے؟ کہنے لگی کام یہ ہے کہ قازی کے ہاں چل کر یہ کہہ دے کہ یہ میری بیوی ہے بڑی بچلن ہے میں اس کو تلاق دیتا ہوں
اگر وہ اللہ کی بندی نکا کو کہتی تو شاید مجھے اس لئے انکار بھی ہوتا کہ خدا معلوم یہ کس قسم کی عورت ہے بھلا تلاق دینے میں میرا کیا بگڑتا تھا؟ میں نے کہا چلو مگر اشرفییں مجھے پہلے دے دو اس نے دو اشرفییں نکال کر میرے ہاتھ میں رکھی اور ہم دونوں قازی کے ہاں پہنچے وہاں جا کر میں نے اس عورت کو تین تلاق دی قازی نے تصدیق کا پرچہ لکھ کر
اس عورت کے حوالے کر دیا اور ہم خوشی خوشی قازی کے اجلاس سے نکلے ہی تھے کہ اس عورت نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا آپ جاتے کہاں ہے اپنے بچے کو تو لے تے جائے میں نے کہا کیسا بچہ اس نے کہا بیوی کو تو چھوڑا تھا سو چھوڑا تھا اب بچے کو بھی چھوڑ جاتے ہیں غرص بات بڑھی اور مجھ کو پھر قازی صاحب کے سامنے جانا پڑا اس عورت نے کہا قازی صاحب اس شخص کا ایک بچہ میرے بطن سے ہے
میں اس کہت کے زمانے میں اس کو پال نہیں سکتی دوسرے اس کی پرورش کا ذمہ دار خواوند ہے نہ کہ بیوی انہوں نے مجھے تلاقت دی دی ہے مگر بچہ لے جانے سے انکار کرتے ہیں اب انصاف آپ ہی کے ہاتھ میں ہیں یہ کہہ کر وہ عورت دھاڑ مار مار کر رہنے لگی قاضی نے میری طرف دیکھا میں نے کہا حضور یہ عورت جھوٹ بول رہی ہے
نا یہ میری بیوی ہے اور نہ اس کے بطن سے میرا کوئی بچہ ہے میں نے تو دو اشرفیاں لے کر یوں ہی جھوٹ موٹ اس کو تلاق دے دی ہے میرا یہ کہنا تھا کہ قازی صاحب کے تیور بدل گئے اور انہوں نے کہا بدماش تُو میرے سامنے ایسی بات کرتا ہے اب تُجھے مزہ چکھاؤں گا جب میں نے دیکھا کہ اجلاس کا رنگ بدلا ہوا ہے تو میں نے اس عورت سے کہا لا نیک بخت بچہ دے جہاں اور مسیبت ہیں وہاں ایک مسیبت اور صحیح
یہ سن کر اس عورت نے کوئی دیڑ دو برس کا بچہ میرے حوالے کر دیا اور چل دی کچھہری کے باہر نکلتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ دروازے پر لوگوں کا حجوم ہیں اور بہت سے لوگ میرے عجیب و غریب قصے کو سن کر مجھے دیکھنے وہاں جمع ہو گئی ہیں خیر بڑی مشکل سے ان لوگوں سے پیچھا چھڑایا ایک حلوائی کے ہاں سے دودھ لے کر بچے کو پلائیا اور اس کو گود میں لے کر ادھر ادھر سڑک پر فرتا رہا خیال تھ
تو بچے کو سڑک کے کسی کونے پر لٹا کر چل دوں آخر شام کے وقت میں نے دیکھا کہ لوگ مغرب کی نماز کے لئے مسجد میں گئے اور سڑک تقریباً سنسان ہو گئی میں نے اس بچے کو مسجد کی سینیوں پر لٹایا اور وہاں سے کھسک گیا تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ لوگ بھاگتے ہوئے میرے پیچھے آ گئے اور کہنے لگے کیا مسجد کو آپ نے یتیم خانہ سمجھا ہے جو بچے کو وہاں لٹا کر چل دیئے میں نے بچے کے لین
اور جو کچھ میرے پاس تھا وہ بھی چھین لیا آخر تنگ آ کر میں نے گود میں بچے کو لیا اور شہر سے باہر نکل گیا رات ہو گئی تھی تھوڑی دور گیا تھا کہ مجھے ایک قبرستان ملا اس کے بیچ ایک چھوٹا سا گمبد تھا بچہ سو گیا تھا اس لیے میں نے گمبد میں جا کر اس بچے کو لٹایا اور وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر ایسا بھاگا کہ دو تین میل جا کر دم لیا اس بھاگنے کی وجہ سے پیاس کی مارے میرے دم نکلنے
مگر رسی ڈول تو پاس نہیں تھا کوئہ مل کر کیا کرتا اسی سوچ میں کھڑا تھا کہ ایک سوار کوئے پر آیا اور کہا بھائی یہ ڈول رسی لو اور تھوڑا سا پانی کھیچ کر مجھے اور میرے گھوڑے کو پلا دو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں میں نے ڈول کوئے میں ڈالا اب جو کھیچنے لگا تو رسی کا ایک ٹکڑا تو میرے ہاتھ میں رہ گیا اور وہ ڈول اور باقی رسی کوئے میں گر گئی اب کیا تھا؟ اوس سوار
اور دو چار کولے میرے ایسی بری طرح مارے کہ خال ادھڑ گئی میں وہاں سے بھاگا سوار نے میرا پیچھا کیا مگر وہ اندھیری رات تھی اور گھنہ جنگل تھا اس لئے اس مسیبت سے جان بچ گئی غرز رات بھر یوں ہی جنگل میں پریشان حال پریشا احوال فرتا رہا صبح ہو رہی تھی کہ مجھے ایک ٹوٹا فوٹا پرانا مکان دکھائی دیا میں ادھر گیا کہ شاید یہاں کچھ کھانے پینے کو مل جائے گھبرا کر
اور میں بے ہوش ہو کر گر پڑا جب مجھے ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک اچھے سجے سجائے کمرے میں پڑا ہوں بڑی مشکل سے اٹھا مکان بلکل خالی تھا میں ڈھونٹا ڈھونٹا باورچی خانے میں پہنچا وہاں میں نے دیکھا کہ ایک ٹوکری میں بہت سے انڈے ہیں اور ایک رکابی میں کوئی آدھا سیر مکن رکھا ہے میں نے دو ایک انڈے تو کچھے ہی کھا لئے اور بکایا کو اپنی پگڑی میں چھپایا
انڈے تلکر کھائیں گے از لئے مکھن کو ایک کاغز میں لپیٹ کر خفتان کی جیم میں رکھ لیا اور باورچی خانے سے نکلا مگر باہر نکلنے کا راستہ بھول گیا جس راستے سے میں گیا وہ جا کر ایک کمرے میں نکلا اس کمرے میں ایک بڑیا آگ کے سامنے بیٹھی کچھ سی رہی تھی اس نے جو مجھے دیکھا تو پہلے تو کچھ گھبرائی پھر سمھل کر بولی تو کون ہے؟ اور یہاں کیوں آیا ہے؟ میں نے کہا دو روز سے بھوکا
اس بڑیا کو مجھ پر رحم آ گیا کہنے لگی یہاں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ جائے میں تیرے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں وہ یہ کہہ کر باورچی کھانے میں گئی اور دو روٹیاں کچھ سالن میرے لیے لے آئی مگر میں پریشان تھا کہ اگر آگ کی گرمی سے مکن پگلنے لگے تو خدا معلوم کیا ہو اتنے میں بڑیا نے آکر دستر خوان بچایا روٹیاں اور سالن میرے سامنے رکھا اور میرے پاسی بیٹھ گئی میں نے ایک روٹی بھی
اور تھوڑی دیر میں میری خوفتان چکنائی سے چک بجک ہو گئی یہ دیکھ کر بڑیا سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو میں نے مکھن چرائے ہے اس نے کہا بدماش، تُو چور ہے میرا مکھن چرا کر لایا ہے اور اب کیا مس مسی صورت بنائے بیٹھا ہے یہ کہہ کر اس نے ایک لکلی اٹھا کر میری پگلی پر ماری وہ سارے انڈے ٹوٹ گئے اور ان کی زردی اور سفیدی میرے مو پر بہنے لگی زردی اور سفیدی کا بہنہ تھا کہ بڑیا نے چور چور کا گل مچ
اور میں نے آفیت بھاگنے ہی میں دیکھی چنانچہ وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور کوئی دس میل جا کر دم لیا مکھن کی چکنای سے میرا سارا بدن چکنا ہو گیا تھا اور انڈوں کی زردی اور سفیدی بے کر میرے موہ پر جم گئی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ سامنے ہی دریا ہے چلو اسی میں ناہلوں یہ سوچ کر میں نے کپڑے اتار کر کنارے پر رکھے اور دریا میں گھوٹا مارا بدقسمتی سے میری پگڑی کا رنگ لال تھا
وہ سمجھی کہ شاید گوشت کا ٹکڑا ہے جپٹہ مار کر پگڑی لے وڑی اب جو دریا سے نکلتا ہوں تو پگڑی غایب ہے میں نے یہ سوچ کر کہ پگڑی تو گئی سو گئی کہیں اور کپڑے بھی نہ چلے جائے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور مسیبتیں جھیلتا تکلیفہ اٹھاتا شہراس پہنچا وہاں میرے ایک دوست رہتے تھے ان کی سفارش سے ایک امیر کے ہاں نوکر ہو گیا ایک دن کیا ہوا کہ ہم
شام کو مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے ایک دوست کے ہاں جانا ہے تم اس شکرے اور کتے کو گھر لے جاؤ میں نے کہا بہت اچھا وہاں سے میں اس شکرے اور کتے کو لے کر گھر کی طرف چلا راستے میں شکرے نے پھڑ پڑھانا شروع کر دیا اور ایسے زور زور سے میرے چونچے ماری کہ میں پریشان ہو گیا اس وقت مجھے سوائے اس کے کچھ نہ سوجھا کہ اس بدماش کو مور توڑ کر خرجی میں ٹھوس لو چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا جب کہیں
کہ جنگلی کتو نے ہم پر حملہ کر دیا میرے ساتھ جو کتا تھا وہ اتنا مزبوط تھا کہ ان سب کو ٹھکانے لگا دیتا مگر میری بد بختی دیکھو کہ میں نے اس کتے کو ان جنگلی کتو پر چھوڑتو دیا مگر اس کے موکہ چھیکہ اتار نہ بھول گیا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کتو نے تھوڑی ہی دیر میں اس کی تک کا بوٹھی کر ڈالی اور میں اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا گھر پہنچا اب جو شکرے کو خورجی میں سے نکالت
سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی تقدیر پر رونے لگا میرے رونے کی آواز بیگم صاحبہ نے سنی اور میرا حال پوچھبہ بھیجا میں نے جو کچھ گزرہ تھا وہ سب بیان کر دیا یہ سن کر انہیں ترس آیا اور مجھ سے کہلا بھیجا کہ اب چپ رہو سرکار کے آنے کے بعد وہ ان کا گسہ ٹھنڈا کر دیں گی اور سانتھی اپنے ننہ سے بچے کو بھیج کر کہا کہ جب تک سرکار آئیں اس وقت تک اس کو بھیلا تے رہو تو خیر میں اس بچے
وہ بچہ بھی اس قیامت کا تھا کہ کسی طرح چپ ہی نہ ہوتا تھا برابر روے چلا جاتا تھا میں نے سوچا کہ لاوز ذرا سی افیم کھلا دوں سنتے ہیں کہ جو بچے سوتے نہیں ان کو ان کی مائیں افیم دیتی ہیں میں خود افیم کھاتا تھا اس لئے دو ایک گولیاں میرے پاس تھیں میں نے ایک گولی نکال کر بچے کے مہوں میں دے دی کچھ دیر تک تو اس کا رونا بند نہیں ہوا مگر پھر میری گود میں چپکا ہو کر سو گیا میں نے اس کو پلنگ پ
اور خود پلنگ کی پٹی پر سر رکھ کر سونے لگا کہ دیکھو اب قسمت کیا رنگ لاتی ہے کہ اتنے میں اندر سے ماما نے آکر کہا کہ بچے کو دو بیگم صاحبہ مغا رہی ہیں میں نے بچے کو اٹھا کر اس کی گود میں دے دیا وہ اندر لے کر چلی گئی ابھی دو چار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ گھر میں سے رونے پیٹنے کی آوازیں آنے لگیں میں پریشان ہوا کہ آخر یہ کیا معاجرہ ہے ہوتے ہوتے معلوم ہوا کہ میں نے جو افیم بچے
ابھی یہاں رونہ پیٹنا ہو ہی رہا تھا کہ سرکار آ گئے جب ان کو سب حال معلوم ہوا تو آپ سمجھ لیجئے کہ ان کو کیا کچھ گسر نہ آیا ہوگا وہ تو مجھے مار ہی ڈالتے مگر بیگم صاحبہ نے یہ کہا کہ ان کا گسر ٹھنڈا کیا کہ اس بیچارے کا اس معاملے میں کوئی کسو نہیں ہے کسور ہے تو اس کی قسمت کا اس غریب پر ظلم کرنا گویہ مری کو مارنا ہے بہرحال ان کی سفارش سے سرکار کا گسر کچھ دھیما ہوا وہ باہر آئے اور کہ
کہ جاؤ میں تم کو نکالتا تو نہیں مگر آج سے تم میرے سامنے نہ آنا استبل میں کام کیا کرو اور دیکھو وہاں ایک بیمار گائے ہے رات کو جاکتے رہنا اور اگر گائے مرنے لگے تو اس کو زبہ کر دینا تاکہ اس کا گوشت کام آ سکے استبل میں گھوڑا بھی ہے، ذرا اس کا بھی خیال رکھنا میں نے خدا کا شکرہ دا کیا کہ چلو جان بچی لاکھوں پائے اس کے بعد میں استبل میں اپنا پلنگ اٹھا لائیا اور لیٹ گیا پہلے تو میں نے ارادہ کر لیا تھا
کہ کچھ بھی ہو جائے میں سوں گا نہیں مگر آپ جانتے ہیں کہ نین سولی پر بھی آ جاتی ہے تھوڑی سی دیر میں میری آنکھ لگ گئی کوئی رات کے دو یا تین بجے ہوں گے کہ مجھے گائ کے لوٹنے کی آواز آئی گھبرا کر اٹھا کے کہیں زبہ کرنے سے پہلے اس کا خاتمہ نہ ہو جائے اٹھنے کی گڑبل میں چراک کو ٹھو کر لگی اور وہ بچ گیا جلدی تو تھی ہی اللہ ہو اکبر کہ کر میں نے لوٹنے والے جانور کے گلے پر چھریہ فیر دی اور
اب سبھا جو اٹھ کر دیکھتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھوڑا تو زبہ ہوا پڑا ہے اور گائے اپنی بیماری سے مر چکی ہے یہ دیکھ کر تو میرے ہوش و حواز جاتے رہے اور میں وہاں سے بھاگا وہ دن اور آج کا دن برابر ادھر ادھر پھر رہا ہوں اس کی حمت نہیں ہوتے کہ کسی کے ہاں نوکری کر کے اس بیچارے کو بھی اپنی مسئبت میں شریق کروں اب تو یہ حال ہے کہ مل گئی تو روزی نہیں تو روزہ تو صاحب یہ ہے میری کہانی اور یہ ہے میری ق
اس کا یہ قصہ سنکر میں بیان نہیں کر سکتا کہ میرے دل پر کیا گزری رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ خدا کسی کو قسمت کے اس چکر میں گرفتہ نہ کرے دیکھئے اب اس گریب کا آخر کیا حشر ہوتا ہے ساتھ ہی خیال آیا کہ ایسے مسیبت زدہ کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک کرنا ضروری ہے یہ سوچ کر اندر گیا دس روپ یہ لایا اور اس کو دینے لگا اس نے لینے سے انکار کیا اور کہا
کہ میں نے اگر ان روپیوں کو ہاتھ لگایا تو خدا جانے اور کیا مسیبت مجھ پر نازل ہو میں نے یہ کہا کر کہ تم کیوں ہاتھ لگاؤ وہ روپیوں اس کی خفتان کی جیم میں ڈال دئیے اس نے شکریہ ادا کیا اٹھا دروازے پر گیا اور کہنے لگا میرے آکا آپ کی وجہ سے مجھے کئی دن کے لیے بے فکری ہو گئی ہے آپ کی زبانی لوگوں کو یہ کہانی معلوم ہو جائے گی اور اس کا اثر کم ہو جائے گا اب تک تو مہینوں سے یہی کہانی کہہ کر دو چار روپے ر
مگر یہ اب پرانی ہو گئی دوسری کہانی گڑنی پڑے گی میں نے کہا تُو بے ایمان، تُو نے جو کچھ کہا وہ سب جھوٹ تھا اس نے کہا حضرت اللہ میاں لوگوں سے اتنے خفہ ہو جائیں جتنے اس کہانی میں ہوئے تھے تو لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے تقدیر کا چکر ہوتا بھی ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کبھار کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے ایسا تو کبھی نہیں ہوتا کہ قدم اٹھایا اور ٹھوکر لگی اچھا چلتا ہوں
یہ کہہ کر وہ تو رکست ہوئے اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ اب ان فقیروں کے ہاتھوں کیا ہونے والا ہے۔ پہلے تو یہ گا کر الٹی سیدھی آوازے لگا کر لوگوں کو کچھ دینے پر مجبور کرتے تھے۔ مگر یہ قصہ گوئی تو نیا رنگ نکلا ہے۔ اس طرح تو دنیا لٹ جائے گی۔ یا تو ان کو مہنت مجدوری سے کھانے کی طوفیق دے یا ساری دنیا کو فقیر کر دے تاکہ یہ مانگنے سے چھوٹے ہیں اور ہم دینے سے۔
What's Your Reaction?