فتنے میاں کا عجیب قصہ
دلچسپ مواد دریافت کریں جو زندگی کے حقیقی اسباق اور موٹیویشنل کہانیوں کے ذریعے مثبتیت کو فروغ دیتا ہے۔ بہترین تفریح اور سبق آموز تجربے کے لیے ابھی دیکھیں!
اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت ہے قصہ فتنے میہ فتنہ اپنے ماباب کا ایک لوطہ لڑکا تھا وہ بہت مالدار تھے پر کوئی اولاد نہ ہوتی تھی بہت دنوں بعد بڑی عرزوں سے فتنے میہ پیدا ہوئے اس خوشی میں فتنے کے باب نے دوستوں کی دعوت کی اور لاکھوں روپیاں پانی کی طرح بھایا فتنے میہ کی پروارش بڑے لڑت پیار سے ہونے لگی جب ان کی عمر چار سال کی ہوئی تو یہ اپنی توتنی آ
مہا اسے پیار سے فتنہ کہا کرتی تھی شوخ شریعیر بہت تھا باورچی خانے میں گھزکر خانے پینے کی چیزیں خراب کر دیتا پکتی ہوئی ہانڈی میں نمک کا ڈبہ ڈیبا ڈیتا باورچن کا نام بدنام ہوتا دوسروں کو برا بھلا کہل وانے میں اسے بڑا مزا آتا ایک دن کا ذکر ہے کہ نوک رانیاں پڑی سو رہی تھیں فتنہ چپکے سے اٹھا اور سوچنے لگا کہ آج انسان آیا کھیل کھیلہ
آخر نوکرانیوں کی چوٹیوں میں ایک موٹا دھاگا بند کر اور اسے تیل میں تر کر کے دیا سلائی دکھا دی اور آکر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں ان کے سر میں آگ لگنی شروع ہوئی اور ایسا گول مچا کہ بس طعبہ، تکلیف کے مارے ایک ایک سے چمٹی جاتی تھی اور شور مچاتی تھی، سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔
شور و گل سن کر ما بڑھ بڑھاتی اٹھی اور ان کی آگ بجھانے کو جانے لگی مگر فتنہ اپنی ما سے اس بری طرح چمٹ گیا تھا کہ اٹھنے نہ دیتا تھا ما نے بہت بار چاہا کہ آگ بجھا دے لیکن وہ ڈربوںک عورت اپنے جلنے کے خوف سے لحاف میں جادوک کی آخر وہ تمام نوکرانیاں جل کر مر گئیں جب فتنہ کا باپ گھر میں آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا بیوی سے کہنے لگا ہائے یہ کیا ہوا نوکرانیاں کیسے جل
فتنے کی ما نے کہا میں تو سو رہی تھی جب یہ جلنے لگی اور چیکھی چلائیں تب میری آنکھ پھلی میں نے بہت بار چاہا کہ ان کی مدد کروں پر فتنے مجھے اس بری طرح سے چمٹ گیا تھا اس نے مجھے کچھ کرنے ہی نہ دیا فتنے کے باپ نے کہا تم نے پڑو سیوں کو کیوں نہیں بلایا وہ کچھ تماری ضرور مدد کرتے فتنے کی ما نے کہا اتنا وقت کہا تھا جو میں لوگوں کو گھر گھر بلاتی پھرتی انہیں خود آنا
فتنے کے باپ نے کہا بے وقوف عورت یہ تُو نے گھر میں بیٹھ کر کیا کر دیا دیکھ حاکم تجھے اور مجھے کیسی سزا دیتا ہے فتنے کی ما نے کہا حاکم تو تمہارا لنگٹی آیاں رہے کچھ پوچھے تو کہہ دینا کہ اس میں ہمارا کیا کسور ہے ان کی موت اسی طرح لکھی ہوئی تھی
فتنے کے باپ نے کہا اب تمہارے واز کرنے کی ضرورت نہیں یہ کہہ کر بیچارے نے نوکرانیوں کو دفنانے کا ارادہ کیا جنابیں تیار تھے کہ اتنے میں حاکم کا ایک اردلی آیا اور ایک روکہ فتنے کے باپ کو دے دیا اس نے پڑھا اور بیوی سے کہنے لگا دیکھو اب ہم پر کیا آفت گزرتی ہے حاکم نے مجھے بلوایا ہے نا جانے وہ کیا سلوک کرے گا یہ کہہ کر اس نے وہ پرچہ اپنی بیوی کو دے دیا فتنے کی ماں نے بے پ
فتنے نے اسے رکھتے ہوئے دیکھ لیا اور روکا وہاں سے نکال کر اور پھاڑ کر اردلی کے ہاتھ میں دے دیا۔ اردلی جواب کا منتظر تھا ہی روکا لے کر سیدھا حاکم کے دربار میں پہنچا۔ حاکم نے جب اپنے حکم نامے کی یہ حالت دیکھی تو گسے سے آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا ایک ادنہ سودہ گر کی یہ حمد پوٹوال کو حکم دیا کہ اس کا گھر لوٹ لو اور اسے بچوں سمیت باندھلاو۔
کوٹوال سپہیوں کو لے کر اس طرف روانہ ہوا سودگر کا مال اصباب سرکاری خزانے میں داخل کیا سارا گھر لوٹ لیا دروازوں کے کیوار تک اتار کر لے گئیں کوٹوال نے سودگر کو باندھ لیا فتنہ اور اس کی ما بھی ساتھ تھے اور تینوں لاشیں بھی حاکم پہلے ہی سے غصے میں بھرہ بیٹھا تھا سودگر کو دیکھتے ہی کہنے لگا مردود، تجھے اپنی بے زبان نوک رانیوں کو مارتے ہوئے رحم نہیں آیا
بے درد بے گیرت اپنے قصور پر زرا شرمندہ نہ ہوا اور میرا رکا بھی پھار کر بھیج دیا فتنے کے باپ نے کہا حضور میری تو سنیے حاکم نے غصے سے کہا جلدی بول کیا کہتا ہے فتنے کا باپ ہاتھ جوڑ کر بولا حضور جس روز یہ جلی ہیں اس دن میں گھر پر نہیں تھا ایک دوست کے ہاں مہمان گیا ہوئے تھا جب صبح کو گھر آیا تو یہ خوفناک منظر دیکھا میں گھبرہ گیا بیوی سے پوچھا پر اس نے بھی کوئی
میں نے عزیرہ حمدر دی اسلامی فرض ادا کرنے کی کوشش کی نوکرانیوں کے دفنانے کا سامان کر رہا تھا کہ آپ کے چوب دار نے مجھے حکم نامہ دیا میں اس کو پڑھ کر اور بھی پریشان ہو گیا میں نے وہ رکا اپنی بیوی کو رکھنے کے لیے دے دیا اور دربار میں پیش ہونے کی تیاری کرنے لگا مگر میرا شریر بچہ رکا پھاڑ کر آپ کے چوب دار کو دے آیا یہ سب اس فتنے کی کارستانی ہیں اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے
حاکم کے دل پر ان باتوں کا زرا اصل نہ ہوا اور اس نے فتنے کی ماں سے ڈاٹ کر پوچھا ظالم عورت نوکرانیوں نے تیرہ کیا بگادہ تھا جو تونہ انہیں اس عذاب سے مارا اور سب کو ایک ساتھ جلا دیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا فتنے کی ماں نے کہا حضور خود سوچئے بھلا انہوں نے میرے کیا بگادہ تھا جو میں انہیں مارتی وہ تو میری بڑی بفادہ نوکرانیہ تھی حاکم نے کہا فر تونہ آگ بجھانے میں ان کی مدد کیوں نہیں کی
سر میں آگ لگی تھی تو میرے ہوش جاتے رہے حاکم بولا تو فر باہر سے پڑھو سیوں کو مدد کے لیے کیوں نہیں بولایا تونہ جان بوچ کر غفلت کی اور انہیں جلنے دیا یہ باتیں ہو رہی تھی کہ فتنہ ایک دم بول اٹھا حضور میں نے انہیں جلیا ہے میں نے ان کے سروں میں ایک دوری باند کر تیل میں بھگو کر آگ لگائی تھی جس سے وہ جل کر مر گئی
حاکم نے کہا یہ سب تیری ماں کے کرتوث ہیں اسی نے تجھے یہ باتیں سکھائی ہوگی اور اس ترکیف سے انہیں مارا ہوگا یہ کہا کر حاکم نے فیصلہ کیا اور یہ سدہ دی کہ فتنے کے باپ کا کالہ مہکر کے شہر سے نکال دیا اور اس کی ماں کو زندہ دیوار میں چنوہ دیا فتنے کا باپ فتنے کو کود میں لے کر روتا ہوئے شہر سے نکل کر چل دیا بیچارا گاؤں گاؤں مانگتا خاتدھ چلا جاتا تھا بہت دنوں بعد ایک شہر میں پہنچا
وہاں اسے ایک سودگر نے اپنے ہاں نوکر رکھ لیا یہ سودگر فتنے سے بہت محبت کرنے لگا کھانا بھی اپنے ساتھ کھلاتا تھا اس سودگر کی کوئی اولاد نہ تھی اس نے فتنے کو گودھ لے لیا سودگر بہت نیک چلن آدمی تھا نیک ہونے کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور تھا فتنے کے باپ کو اس کے پاس رہتے سہتے
مدد ہو گئی فتنہ جوان ہونے کے قریب تھا اب وہ پورے 13 برس کا ہو گیا تھا عمر کے ساتھ ساتھ اس کی شوکیاں چالاکیاں بھی بڑھ گئی تھی ایک دن کا ذکر ہے کہ فتنہ اپنی دکان پر بیٹھا کاغس کی ناؤ بنا رہا تھا اس وقت دکان میں نہ اس کا باپ تھا اور نہ ہی سودگر
کہ اتنے میں ایک عورت آئی اور اس نے فتنے سے نرم آواز میں پوچھا میان لڑکے سودگر کہاں ہیں؟ فتنے نے کہا وہ ابھی کسی کام سے باہر گئے ہیں تشریف رکھیے وہ ابھی آتے ہی ہوں گے عورت بیٹھ گئی اور اس نے فتنے کو صلی کے منث سمجھ کر وقت گزارنے کے لئے بات چیت شروع کر دی کہنے لگی میان لڑکے تمہارا نام کیا ہے؟
فتنہ دونوں ہٹ فلا کر اور مو کلیاسہ بنا کر بولا آپ بھی تو اپنے نام بتائیے عورت بولی پہلے تم بتاؤ فتنے میہ نے کہا اصلی نام تو معلوم نہیں امہ مجھے پیار سے فتنہ کہا کرتی تھیں
عورت نے پھر پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ فتنہ بولا یہ تو تیڑا سوال ہے کیوں؟ عورت نے پوچھا فتنہ بولا اس لئے کہ آپ کو بورکہ اٹھا کر مہو دکھانا پڑے گا عورت نے حیران ہو کر کہا یہ کیا بات کہی دوسرے کی صورت بھی دیکھ کر عمر بتائی جا سکتی ہے یہ نئیہ طریقہ تم نے ہی نکالا ہے یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا بورکہ اوپر اٹھا لیا فتنہ میاں اسے دیکھ کر اچھل
عورت نے کہا میں تو سترہ سال کی ہوں اس حصاب سے تمہاری عمر تیرہ سال کی ہوئی فتنے میاں مسکرہ کر بولے ٹھیک، بالکل ٹھیک تھوڑی دیر بعد عورت بولی اچھا میں جاتی ہوں تمہارے باپ ابھی تک تو آئے نہیں فتنے نے کہا وہ آتے ہی ہوں گے آپ بیٹھ جائئے آپ ہی کا گھر ہے آپ تو میری بڑی بہن کی جگہ ہے عورت نے ہسکر پوچھا فتنے نے کچھ پڑا لکھا بھی ہے
فتنے نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا حضور نہ کچھ پڑا نہ لکھا نہ دکان ہی پر کچھ کام کرتا ہوں دن بھر بیٹھا ہوئے سوچتا ہی رہتا ہوں اور اتنے پوچھا تم دن بھر کیا سوچتے رہتے ہو اتنی سی عمر میں سوچنے بھی لگے فتنے نے کہا کیا بتاؤں جس بات کو میں سوچتا رہتا ہوں دیکھیں آگے وہ کیا رنگ لاتی ہے خدا بچائے بری گھڑی سے اور اتنے حیران ہو کر پوچ
فتنہ بولا بھائی بات یہ ہے کہ سودگر جس نے مجھے بیٹا بنائیا ہے وہ سخت بتچلن آوار شخص ہے ٹھیک آدمی نہیں یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ میں نے آپ کو بڑی بہن کہہ دیا ہے عورت نے کہا اے چل دور ہو بڑا سچا بنتا ہے سودگر تو بڑا نیک آدمی ہیں تو بڑا نمک خرام ہے جس کا کھاتا ہے اسی کو بدنام کرتا ہے فتنہ آہستہ سے بولا اس دھوکے میں نہ رہنا
عورت نے کہا چل مجھے کیوں بیوکوف بناتا ہے مکار کہیں کا خدا تجھ سے بچائے شکل تو بڑی بھولی ہے اور گن ایسے ہیں کہ بس بچتا ہی رہے کوئی فتنہ بولا کل آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گی عورت نے کچھ سوچ کر کہا اچھا کل آنگی میں یہ کہہ کر وہ چلی گئی تھوڑی دیر بعد فتنے کا باپ یعنی سودہگر آ گیا فتنے نے اسے دیکھتے ہی مچلنا اور رونا شروع کر دیا سودہگر نے فتنے سے پوچ
کسی نے مارا ہے کیا؟ فتنے نے کہا نہیں کسی نے نہیں مارا میں ابھی سو رہا تھا خواب میں اپنی ما کو دیکھا وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ بیٹا ابھی تیری شادی نہیں ہوئی مجھے تیری دلہن دیکھنے کی تمنیٰ تھی وہ ہوتی تو میری فاتہ دلاتی میں نے کہا امہ جان پھر میں کیا کروں؟ کہنے لگی تو ہی ایک دن دلہنوں کے کپڑے پہن کر میری فاتہ دے تاں میری روح خوش ہوگی
سودگر نے سر پر ہاتھ فیر کر کہا رونے کی کیا بات ہے کل تم زنانے کپلے پہن لینا اور اپنی ماں کی خواہش پوڑی کر دینا دوسرے دن فتنے میانے عورت کے آنے سے پہلے زنانے کپلے پہنے اور سودگر سے مٹھائی مانگوا کر فاتحہ کے باہنے کونے میں بیٹھ کر خوب کھائی اور خوب جھوٹی جھانٹی سودگر کو چکھائی سودگر مٹھائی کھا کر محبت سے بولا کیوں بیٹا جب میں مر جائوں
فتنے نے گلے میں باہی ڈال کر کہا کیوں نہیں اپا جان میں تمہاری فاتح ضرور دلاؤں گا یہ کہا کہ اس کی دالی میں املیاں فیرنے لگا
سودگر کو بھی محبت آگئی اور وہ اسے پیار کرنے لگا اتنے میں وہ عورت بھی آگئی دیکھتی کیا ہے کہ ایک پتلی دبلی نازک کوئی 13 سال کی چھوکری سودگر کی گود میں بیٹھی ہے شام ہو چکی تھی کوئی چیز صاف نظر نہیں آتی تھی عورت یہ نظارہ دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گئی بے پوچھے گوچھے سودگر کے گلے پر دو چانٹے رسید کیے اور کہنے لگی مردار، تُو ہرگز اس قابل نہیں کہ شریف ذادیاں تیری دک
آج ہی تجھے شہر سے نکلوہ دوں گی تو جانتا نہیں کہ میں قازی کی لڑکی ہوں صودگر آنکھیں پھاڑ کر بولا ناراض کیوں ہوتی ہو میرا کسور کیا ہے جس کی صدہ مجھے مل رہی ہے عورت نے کہا بے ہیہ کہیں کہ یہ لڑکی کون ہے صودگر نے کہا حضور یہ میرا بیٹا ہے عورت نے پوچھا کون فتنا صودگر نے کہا جی حضور عورت بولی
ایسے کیا ہو گیا جو زنانہ کپڑے پہن کر تیری گوڑ میں چڑھ بیٹھا؟ سودگر نے سارا قصہ بیان کیا اور اتنے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا فتنے نے مجھے بہت دھوکا دیا اور جو جو فتنے سے باتیں ہوا تھیں وہ سب سودگر کو سنا دیں زرہ دیر تو فتنے میہ چپ رہے اور پھر تڑ تڑ بولنا شروع کر دیا سودگر کی تھوڑی میں ہاتھ ڈال کر کہنا شروع کیا ابا جان یہ بڑی چالاک مالوم ہوتی ہے
انہوں نے آکر پہلے آپ کا مزاد کھوچا میں نے کہا اللہ کا شکر ہے پھر پوچھنے لگی کہ تُو اپنی شادی کیوں نہیں کراتا میں نے کہا میں تو ابھی پورے تیرہ برس کا بھی نہیں ہوں اس پر کہنے لگی پھر اپنے باپ کی شادی کراتے میں نے کہا ان کی عمر اب شادی کے قابل کہا وہ تو بودے ہو گئے ہیں سفید داری ہے کہنے لگی اپنے باپ سے کہنا تو صحیح میں نے کہا ان بچاروں سے کون شادی کرے گا کہنے لگی کہ میں کیسی ہوں میں نے کہ
یہ کہنے لگیں کہ اگر وہ مچھ سے شادی کو انکار کرے گا تو میں اسے شہر سے نکلوہ دوں گی اور اس کی تمام جائیداد مال اسباب لٹو دوں گی میں نے کہا وہ آپ سے نہیں کریں گے نہیں کریں گے چاہے آپ انہیں سولی پر ہی لٹکا دیں
یہ سن کر عورت کی ایڈی سے چوٹی تک آگ لگ گئی اور اس نے فتنے کا گرےبان پکڑ کر کہا جاتا کہاں ہے جھوٹے، تونے جو توفان مچ پر اٹھایا ہے، نتیجہ تجھے ابھی دکھا دوں گی فتنے کو جوٹیوں سے پیٹھ کر عورت اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی راستے بھر دل میں کوستی ہوئی اور اپنی عزت کو ڈھبا لگنے کے خوف سے خاموش چلی جاتی تھی پانو ڈالتی کہیں تھی اور پڑتا کہیں تھا آخر گر
جب عورت چلی گئی تو سودگر نے فتنے سے پوچھا سچ بتاؤ کیا بات تھی اگر تُونے عورت پر جھوٹ بولا ہوگا تو قازی ہمارے گھر کی ایٹ سے ایٹ بجا دے گا فتنہ یقین دلانے کے لیے سودگر کی ناک پر انگلی رکھتا ہوگا بولا اچھے بابا میں نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے میری اس سے کوئی دشمنی تھوڑی تھی میں نے تو اس کے مو پر ساف ساف بات کہہ دی سودگر نے کہا وہ تو بڑی نیک
اتنے میں فتنے کا اصلی باپ آ گیا وہ فتنے کو زنانے کپڑے پہنے دیکھنے لگا اس کو کیا ہوا جو لونڈی بنا بیٹھا ہے سودگر نے فتنے کے خواب کا حال سنائیا فتنے کے باپ نے کہا یہ جھوٹا ہے اس کی ماہ ہرگز ایسا نہیں کہہ سکتی وہ اس سے خوش نہ تھی کیونکہ اس کی شرارت نے ہی اسے مروا دیا تھا سودگر حق کا بکہ ہو کر فتنے کی طرف دیکھنے لگا
فتنے کے باپ نے ساری کہانی سودگر کو سنائی اب تو سودگر کی آنکھیں کھولیں دل میں کہنے لگا کہ یہ تمام شرارت فتنے کی ہے عورت بے کسور ہے یہ لڑکہ بڑا جھونٹا مکار دغاواز معلوم ہوتا ہے اب مجھے نہ جانے کن کن حالوں کو پہنچائے گا
فتنہ سودگر کو فکر من دیکھ کر اپنے باپ کو کہنے لگا یہ آدمی ہرگز میرا باپ نہیں جھونٹ بکتا ہے اصل میں بات یہ ہے کہ ہم بغداد کی طرف جا رہے تھے جب ہمارا کافلہ بیٹ جنگل میں پہچا تو ڈاکووں نے ہم پر حملہ کر دیا اور سارا مال اسباب لوٹ لیا
مال اسباب تقسیم ہوا تو میں اور میری ما اِس ڈانکو کے قبضے میں آئے اس نے میری ما کو تو مار ڈالا اور مجھے اپنا بیٹا بتا کر اپنے ساتھ لیے فڑتا رہا یہ سن کر سودہ گر کچھ دیر تک چپ رہا آخر اس نے فتنے سے کہا مگر تیری صورت تو اس سے ملتی ہے فتنے نے اچھل کر کہا واہ خوب کیا دنیا میں ایک صورت کے دو آدمی نہیں ہوتے ہزاروں آدمی ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے بھائی بھائی ہوں میرا باپ اہ
کیسے نے میرے باپ کو مارا ہے؟ فتنے کا باپ آنکھوں میں آسو بھر کر کہنے لگا افسوس ہے کہ بیٹا باپ کا دشمن ہو گیا سودہگر نے فتنے کے باپ سے کہا کیوں میاں یہ کیا کہتا ہے؟ فتنے کا باپ گسے سے بولا یہ لڑکہ جھوٹ بکتا ہے میں ہی اس کا باپ ہوں فتنے نے کہا میں جھوٹا ہوں یا کہ تم میں تیرا بیٹا نہیں ہوں
یہ کہہ کر صودہ گر کو یقین دلانے کے لیے خرکی کی طرح ناجا اور ناج کر ایک چپت اپنے باپ کے گال پر جڑ دیا اور کہا چل جا کمینے ڈغاواز قذاق ریمان کہیں کے فتنے کا باپ چپت کھا کر اس کی طرف دیکھنے لگا صودہ گر نے اس کو پریشان دیکھ کر کہا دیکھتا کیا ہے اپنی خیریت چاہتا ہے تو میرے سامنے سے دور ہو جا فتنے کے باپ نے صودہ گر کی بہت خوشامت کی اور کہنے لگا اب تو رات ہو گئی ہے سب
سودگر نے اسے رات کٹنے کی اجازت دے دی فتنے کا باپ بہت دیر تک اپنی قسمت پر خون کے آنسو باہتا رہا فتنہ اس کے پلنگ کے پاس بار بار آتا اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں چمکا کر مسکرہا کر سودگر کے پاس بیٹھ جاتا رات زیادہ ہو گئی تھی فتنہ اور سودگر تو سو گئے چپکے سے فتنے کا باپ اٹھا اور محبت بھری نظریں بیٹے کے چہرے پر ڈالیں اور مڑ مڑ کر دیکھتا ہوئ
کہ فتنے کے باپ کی لاش گلی میں پڑھی ہے اور لوگ اکھٹے ہیں یہ نظارہ دیکھ کر سودگر بہت پریشان ہوا فتنے نے لاش سے چمٹ کر ہائے اب با ہائے اب با کہ کر زور زور سے رونے شروع کر دیا اور اتنا چیکھا کہ رہ گیر اکھٹے ہو گئے اور ترہ ترہ کے سوالات کرنے لگے سودگر نے گرفتاری کے خوف سے لوگوں کو باتوں میں ٹالنا چاہا مگر فتنے چیک چیک کر کہہ رہا تھا ہائے اب با تمہیں سودگر نے مر ڈالا سود
اس کا رونہ ہوگا اور میری کم بختی آگئی بار بار کہتا تھا جو پرہمنہوس ان ہی لوگوں میں سے کسی نے کوتوالی میں خبر کر دی کوتوال جھٹ سپاہیوں کو لے کر سودگر کے مکان پر آدمکا فتنہ برابر روئی جاتا تھا کوتوال کے آنے پر اس نے ساف ساف کہنا شروع کیا
سودگر صاحب کسی کی جان لینا آسان نہیں اب آپ کو پتہ چلے گا غصہ کرنے کا مزہ آجائے گا سودگر نے اسے خامش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن فتنہ روتا اور چیکھتا ہی رہا کوتوال فتنے سے پوچھنے لگا اس نے تیرے باپ کو کیوں مارا فتنے نے کہا حضور اس سودگر نے مجھے گود لے رکھا ہے اس کے پاس رہتے سہتے مجھے دو سال ہو گئے تھے میرا باپ مجھے اپنے ساتھ وطن لے جانا چ
اس نے میرے باپ کو کٹے پر سے دھکل دیا کوٹوال نے سر ہلاتے ہوئے کہا لڑکہ سچ کہتا ہے ضرور یہی بات ہے سودگر بولا حضور یہ لڑکہ جھونٹ بولتا ہے میں نے اسے نہیں مارا یہ خود گرپڑا ہوگا
کوتوال نے کہا کیوں جھوٹی باتیں بناتا ہے بھلا کوئی ایسی جگہ سے بھی گر سکتا ہے شم نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوئے سودگر نے کہا جناب یہ لڑکہ جھوٹا اور مکار ہے ذرا اس کی کہانی سنو تو پتہ چلے گا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا کوتوال نے کہا اپنی کہانی بادشاہ کو سنانا ہمیں سننے کی کوئی ضرورت نہیں سودگر نے کہا اچھا حضور آپ نہ سنیں بادشاہ ہی کو سنا دوں گا وہاں
تیری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے تو قاتل ہے لیکن کچھ سنانا چاہتا ہے تو سنا سودگر ابھی کچھ کہنے بھی نہ پائے تھا کہ فتنہ چیک چیک کر کہنے لگا حضور یہ شخص ہزار جھوٹے الظام لگائے لیکن مجھے آپ پر بھروسہ ہے کہ آپ اس کا ذرا یقین نہ کریں گے کوتوال نے اسے تسلی دی گھبرہ نہیں تیرہ بال بھی کا نہ ہوگا میں جانتا ہوں کہ یہ سودگر بڑا مکار اور جھوٹا ہے لیکن دیکھیں کیا بکھتا ہے
فتنے نے رو کر کہا حضور مجھے اس سے ڈر مالوم ہوتا ہے کوتوال نے پیار کر کے کہا ڈروں مت تمہارے رونے سے میرا کلیجہ شک ہوتا ہے اور مجھے تم پر رحم آتا ہے یہ کہا کوتوال نے سودگر سے کڑک کر کہا جلدی کہ چپ کیوں کھڑا ہے دل میں سوچتا ہوگا کہ کوئی من گھڑت قصہ سنا کر اپنی جان بچالو یہ کبھی نہیں ہوگا سودگر نے فتنے میہ کے کارنا میں بیان کر دئیے اور گوہا قازی جی کی صاحب ذ
سودہ گرکہ یہ بیان سن کر کوتوال بہت پریشان ہوا وہ سوچ رہا تھا کہ ایک ازدادار بڑے آدمی کی لڑکی کو یہاں کیسے بولا سکتا ہوں یکا یک فتنہ کوتوال سے ہاتھ جوڑ کر بولا حضور میں بھی کچھ عرض کروں کوتوال نے کہا کہو اس پر فتنے میانے رکھ رکھ کر کہنا شروع کیا کیا عرض کروں شرم آتی ہے لیکن کہے بغیر کام بھی نہ چلے گا بات یہ ہے قازی جی کی صاحب ذاتی جو ہیں وہ اصل میں میری والدہ ہیں کوت
وہ کیسے؟ ابھی تو اس کی شادی بھی نہیں ہوئی فتنے نے کہا شادی ہوئی یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ایک دن وہ ہستی ہوئی آئی تھی
مجھ سے سودگر کو دریافت کرنے لگی میں نے کہا آپ کیوں پوچھتی ہیں ہسکر کہنے لگی تو پوچھنے والا کون ہیں میں نے کہا میں ان کا بیٹا ہوں اس پر وہ کہنے لگی پھر اولاد سے کیا پردہ میرا ارادہ سودگر سے شادی کرنے کا ہے میں نے کہا وہ تو کبھی بھی شادی نہ کریں گے اس پر انھوں نے ناغنہو چڑھا کر میرے چانٹا رسید کیا اور دکان سے چلی گئی میں رو رہا تھا کہ اتنے میں میرے اپا جان یعن
میں سارا حال سنا دیا سن کر پہلے تو دالی پر ہاتھ فیرا اور پھر موچھ مروری اور مسکرہ کر کہنے لگے تمہیں فکر نہ کرو وہ اگر اب کے آئے تو تم زنانی پوشاک پھیل لےنا میں تھوڑی سی مٹھائی لادوں گا ایک کونے میں بیٹھ کر کھاتے رہنا میں اسے تیری بابت بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لڑکی بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے اگر وہ تمہیں پوچھے تو کہہ دینا کہ میں شہر کوتوال کی لڑکی
میں نے تھوڑی سی مٹھائی رکھ دی اور میں مٹھائی چپکے چپکے کھاتا رہا تھوڑی دیر بعد وہ عورت آ گئی اور دیر تک سودگر سے ہستی مزاق کرتی رہی پھر میری طرف متوجہ ہوئی تو میں نے اپنا نام زمررد بتا دیا اس پر انھوں نے مجھے اور مٹھائی کھانے کو دی اور جب تک قازی کی لڑکی رکھست نہ ہوئی یہ سودگر صاحب میری تاریف کرتے رہے بار بار داری پر ہاتھ پھر کر کہتے تھے سبحان اللہ کیا پیارا نام
جب کاؤزی کی لڑکی چلی گئی تو مجھ سے زنانی پوشاک اتروا دی۔ یہ سودگر صاحب جو اب کھڑے ہوئے آنسو بہا رہے ہیں مجھ سے فرمانے لگے شادی کرنے کا ڈھنگ سیکھ لو میرے بعد تم بھی میرا نام اسی طرح روشن کرنا
اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ اتنے میں میرا اصلی باپ آ گیا اور وہ میرے زنانے کپڑوں کو دیکھ کر عیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ زنانے کپڑے پہنے کیوں بیٹھا ہے سودہگر نے میری مری ہوئی ما پر الزام لگایا اور خواب کا بحانہ کر دیا لیکن میں نے سارا بھید اپنے باپ کو بتا دیا جنابِ علی میرا باپ بڑا نیک شریف آدمی تھا غسے سے آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا اس طرح تو تم میرے لڑکے کو بگار دو
یہ کہنے لگے میں نے اسے گود لیا ہے ہرگز نہ جانے دوں گا۔ اس پر توتو میمے ہونے لگی۔ یہ حضرت اس وقت تو خامش رہے لیکن رات کے وقت موقع پا کر میرے باپ کو کوٹھے سے دھکا دے دیا۔ یہ کہہ کر فتنے میانے زار و قطع رونا شروع کر دیا۔ کوتوال اپنی بیٹی کا نام سن کر دل ہی دل میں پیچھ و تاپ کھا رہا تھا۔
فتنے کا بیان ختم ہوتے ہی اس نے سودگر کو بانڈ لیا اور گھسیٹھتا ہوا کوت والی لے گیا وہاں خوب پیٹا اور حولات میں بند کر دیا فتنے میہ اپنی کامیابی پر بہت خوش تھے سودگر اس کو بشاش دیکھ کر بار بار گسے سے اپنی داڑی پر ہاتھ فیرتا تھا پر مجبور تھا کچھ کر نہیں سکتا تھا کوت وال نے گسے میں سودگر کے خلاف بہت سخت ریمارک دیا اور فوراً مقدمہ قاضی صاحب کی عدالت میں بھیج دیا
قازی صاحب نے جب فتنے کے بیان سنے تو وہ مارے غصے کے تھر تھر کھاپنے لگے مسنت پر بیٹھنا دوبھر ہو گیا مقدمہ تو شہر کے حاکم کے پاس چلتا کیا ساتھ ہی اپنی بے ذتی کی داد چاہی اور سیدھے زنان کھانے میں پہنچے حاکم بہت سمجھ دار تھا لیکن وہ بھی جلدی کسی صحیح نتیجے پر نہ پہنچ سکا اس نے پھر دوبارہ فتنے اور سوادگر کے بیان سنے
خازی کی لڑکی بھی کچھ عجیب و غریب تھے سارا مقدمہ گورک دھندہ بنا ہوئے تھا حاکم سخت حیرت میں تھا کہ یہ معاملہ کیا ہے آخر دو دن کے لیے مقدمہ ملتوی کر دیا تیسرے دن پھر حاکم نے سب کو بلایا اور نئے سیرے سے بیان سنے دربار عام تھا اس مقدمے کی شہرت سن کر دور دور سے لوگ آئے تھے درباریوں اور ازدادار لوگوں نے حاکم سے عرس کیا سودگر نیک شریف اور صاف دل آدمی ہیں وہ ہرگز
بہت دیر گور کرنے کے بعد حاکم نے حکم دیا کیونکہ مقدمے میں کوئی گواہ نہیں ہیں اس لئے سچائی کے امتحا کے لیے سودگر اور فتنے کو آگ میں سے گزارا جائے
بہت سی لکڑیاں جمع کر کے آگ روشن کی گئی اور فتنے سے کہا کہ اپنی سچائی کا امتحان دے آگ کے بھڑکتے ہوئے شولے دیکھ کر فتنے کو اپنی نوکرانیوں کا جلنا یاد آ گیا چالانک تو تھا ہی سمجھ گیا کہ قدرت مجھ سے ان بے گنہ نوکرانیوں کا بدلہ لینا چاہتی ہے مہو بنا کر کہنے لگا حضور مجھے مرگی کی بیماری ہے آگ اور پانی کو دیکھ کر دورہ پڑ جاتا ہے یہ کہہ کر فتنہ زمین پر گرا اور بے ہو
پر خوب ہسا فورا شاہی حکیم کو بھلایا گیا اس نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ تو مکر کیے پڑا ہے فتنے کے سوینیں چبہی گئیں تو سیسی کر کے اٹھ کر بھاگا سپاہی گھسیٹھتے ہوئے پکڑ لائے حاکم گسے سے آگ بگولہ ہو گیا اور فتنے سے پوچھا سچ بتا ماملا کیا ہے مجبور ہو کر فتنے کو اصلی حال کہنا پڑا اب فتنے میان کی شامت آئی جھونڈ بولنے کے الظام میں سر سر کھوڑے پڑ
حاکم نے اسے ادمارہ جان کر جنگل میں ڈلوہ دیا اور سوز اگر کو بری کر دیا فتنہ کئی گھنٹے تک جنگل میں بے ہوش پڑا رہا آخر جب عوسان ٹھکانے ہوئے تو سرکھ کر ایک درخت کے سائے میں ہو گیا دن بھر وہی پڑا رہتا چند روز میں چلنے کی طاقت آگئی دن کو کسی پیڑ سے فل توڑ لاتا اور رات کو درخت کے سائے میں سو جاتا
ایک دن یہ جنگل میں پڑا ہوا تھا اتفاق سے ایک راہگیر ادھر آ نکلا اس نے جو اسے اس حالت میں دیکھا تو پوچھنے لگا میاں جنگل میں اکیلے کیوں پڑے رہتے ہو فتنے نے جواب دیا سب کسمت کے کھیل ہیں مسافر نے پوچھا آخر ہوا کیا فتنے بولا ہم سفر کر رہے تھے داکوان نے ہمارے کافلے کو لوٹ لیا
میرے ماں باپ کو مار ڈالا اور تمام مال ازباب چھین لیا اور میری یہ حالت بنا دی مصافر کہنے لگا اگر تم مناسب سمجھ ہو تو میرے سانف چلے چلو شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں
یہ سن کر فتنے میاں کی تو باچھیں کھل گئیں، جھٹ سانت ہو لئے۔ یہ مسافر ایک امیر آدمی تھا اور جوہر آدھ کی تجارت کرتا تھا۔ جوہری نے اپنے گھر جا کر فتنے کا علاج کیا اور بڑی خدمت کی۔ جب فتنہ تندرست ہو گیا تو جوہری اور اس کی بیوی کو بہت خوشی ہوئی۔ فتنے نے بھی ان کا شکریہ آدھا کیا اور فرما بردار بیٹے کی طرح ان کے پاس رہنے لگا۔ وہ رہ کر فتنے نے فرما برداری اور خدمت سے کچھ
جوہری کی بیوی بھی اس سے خوش تھی اپنے بیٹی کی طرح چاہتی تھی فتنا ایک سال تک اسی طرح رہتا رہا آخر اس نے اپنی عادت کے موافق مکاری کا جال بچھانا شروع کیا ایک دن جوہری کی بیوی سے بولا امہ جان آج میں کھانا نہیں کھاؤں گا جوہری کی بیوی نے کہا کیوں بیٹا کھانا کیوں نہیں کھاؤں گے فتنا بولا چھوٹی امہ کے ہاں دعوت ہے جوہری کی بیوی نے حیران ہو کر کہا کون چ
فتنہ آنکھیں چمکا کر بولا آپ کو نہیں معلوم بگل میں لڑکا شہر میں ڈھنڈو رہا جب ابا جان مجھے اپنے ساتھ لائے تھے تو ہم پہلے شہر میں آ کر دو دن انھی کے ہاں ٹھہرے تھے ابا جان نے انہیں بہت سے روپیے اور توفیے دیئے جب میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو کہنے لگے کہ یہ تیری چھوٹی امہ ہے یہ سن کر جہری کی بیوی بہت پریشان ہوئی اور پوچھنے لگی کیا تیرے ابا
اب آپ میرا مطلب سمجھیں میں یہی تو کہتا تھا اور کیا کہوں برا نہ مانیے گا وہ تو آپ کو تلاق دینے والے ہیں یہ سنتے ہی جوہری کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو بھرائے اور رنگت زرد پڑ گئی فتنے میہ گہرا اثر دیکھ کر بولے خدا کے لیے اب بجان سے نازکر کیجیے گا
ورنہ وہ میری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔ جوہری کی بیوی نے کہا، میں تیرا نام نہ لوں گی۔ فتنہ مسکرہ کر بولا، وہ تو آپ کو ابا جان کے برے برتاؤ سے ہی معلوم ہو گیا ہوگا۔ آپ تو خود سمجھ دار ہیں۔ جوہری کی بیوی نے کہا، بھائی میں سیدھی سادی عورت، کیا جانوں؟ کبھی اس پر غور ہی نہیں کیا کہ وہ مجھ سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ گاتا ہوگا فتنہ وہاں سے چل دیا۔
جوہری کی بیوی اسے حیرث سے دیکھتی رہ گئی مکان میں آفت ڈھا کر فتنہ دکان پر پہنچا اور ایک کونے میں بیٹھ کر چپکے سے رونا لگا جوہری نے سر پر ہاتھ فیر کر کہا کیوں بیٹا کیا بات ہے؟ فتنہ نے کچھ جواب نہ دیا جوہری بولا شاید ما باپ یاد آ رہے ہیں سبر کرو رونا سے کیا فائدہ؟ فتنہ میہ آسو پہنچتے ہوئے بولے نہیں ابا جان میں اپنے قسمت پر رو رہا ہوں
سگے ماباب تو مسیبت کی بھیٹ چڑ چکے ہیں ان پر افسوس کرنے سے کیا حاصل آپ کو باب بنایا تھا تو آپ پر بھی مسیبت آنے والی ہے جوہری نے آنکھے پھاڑ کر کہا مجھ پر مسیبت وہ کیسی؟ خیر تو ہے؟ فتنے میہ مہین سی آواز میں بولے آج مامو جان اور نانا آئے تھے امہ نے سندوک میں سے نکال کر اشرفیوں کی ایک ٹھلی دی دی وہ اشرفیوں لے کر چل دیئے مجھے یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا مگر آپ کے
جوہری کو بہت گسا آیا اور وہ سوچنے لگا کہ میں تو خون پسینہ ایک کر کے کماؤں اور بیوی گھر میں بیٹھ کر لٹائے یہ کم بخت کہاں سے بھتنی بن کر چمٹ گئی
خون کا سا گھونٹ پیکھ کر اس وقت تو چپ ہو گیا پر جب شام کو گھر آیا تو گسے سے تیوری چڑھی ہوئی تھی جوہری کی بیوی سمجھ گئی کہ آج یہ ضرور مجھے تلعق دینے آیا ہے مہو بنا کر کہنے لگی بیحتہ بیوی ہوں سہرا بانکر لاے تھے مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی کہ یوں مجھے گھور گھور کے دیکھو گے اگر میری صورت سے نفرت ہو گئی ہے تو صاف کہہ دو میں اپنے مائکے چلی جاؤں گی اس میں شرم کی
گھر میں بیٹھ کر ہرام کے لکھ میں خاتی ہے میری دولت لٹا دی ہے پہلے وہاں جما جتھا پہنچا دیا اور اب خود مائکے جانا چاہتی ہے یہ سنتے ہی جوہری کی بیوی گسے سے آگ بگولہ ہو گئی اور چیخ کر بولی اپنے گرے بان میں مو ڈال کر دیکھو کمائی خود لٹا دی ہو اور اوپر سے باتیں بناتے ہو جوہری نے اچھل کر بیوی کی چٹیا پکڑ لی اور اسے جوٹیوں سے تڑا تڑا مارنے شروع کر دیا بیوی نے شور
تو وہ جھٹ جوہری کی سسرال پہنچے اور وہاں سے اس کے تمام رشتے داروں کو بولا لائے سالی سسرے پہنچے تو لڑائی پورے شباب پر تھی جوہری اپنی بیوی کو انگنای میں گھسیٹے گھسیٹے فرٹا تھا بیچاری کے کپڑے فٹے ہوئے تھے می کے والوں نے یہ حالت دیکھی تو انہیں بہت تاوایا اپنی بیٹی کی ہمایت میں جوہری پر پل پڑے مارتے مارتے ڈنبا بنا دیا
فتنے نے دیکھا کہ اب جوہری کافی پٹ چکا ہے تو وہ بھاگا ہوا جوہری کے دوستوں اور رشتہ داروں میں پہچا اور وہاں سے ان سب کو بولا لائیا انہوں نے آکر جوہری کو بچا لیا اور اس کی سسرال والوں سے وہاں قائدہ جنگ شروع کر دی لٹھی، جوٹا، تھپڑ گھوسا، غرز ہر چیز سے فائدہ اٹھایا گیا اچھے خاصی فوجداری ہو گئی دونوں طرف کے آدمیوں کو کافی چوٹیں آئیں مہلے والوں نے ثانیدار کو بولا کر کھ
با قائدہ مقدمہ پیش ہوا حاکم نے سودگر سے پوچھا تم نے اپنی بیوی کو کیوں مارا سودگر نے سارا قصہ کہہ سنایا جب جوہری کی بیوی سے پوچھا گیا تو اس نے بھی فتنے کی زبانی چو کچھ سنا تھا حاکم کو سنا دیا حاکم نے جوہری کے دوستوں اور سسرال والوں سے پوچھا تم کیسے آئے؟ انھوں نے بھی فتنے کا ہی نام لیا غرز ہر جگہ ہر بات میں فتنے کی شرارت پکڑی گئی
حاکم نے فتنے کو بلایا اور گور سے صورت دیکھی تو یہ وہی لڑکہ تھا جو پہلے سودگر کے معاملے میں کوڑوں کی سزا پا چکا تھا حاکم نے اسے خطرناک سمجھ کر بری عادتیں چھڑانے کے لیے اس کو بارہ برس کے لیے اصلائی جیل خانے میں بھیج دیا اس طرح فتنے کا پاپ کٹا اور دنیا کو اس سے نجات ملی جوہری اور جوہری کی بیوی نے ایک دوسرے سے معافی مانگی سسرال والوں اور جوہری کے دوستوں میں بھی صلا ہو گئی
پیارے دوستو فتنے میہا کا قصہ تو یہاں ختم ہوتا ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہر چھوٹی یا بڑی بات کو بغیر تحقیق کے معل لینا ایک بڑی غلطی ہے یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ہم بغیر سوچے سمجھے کسی کی بات کو قبول کر لیں
تو ایسے فتنے اور فساد پیدا ہو سکتے ہیں جو کسی کی بھی دوستی اور عزت کو خاک میں ملا سکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہر بات کی سچائی کو جانچیں اور تحقیق کے بعد ہی اس پر یقین کریں ورنہ انجام صرف پچھتاوہ ہوگا
What's Your Reaction?