سلامہ اورسمسامہ کا عجب قصہ

سلامہ اورسمسامہ کا عجب قصہ

Nov 6, 2024 - 16:58
 0  5
سلامہ اورسمسامہ کا عجب قصہ
سلامہ اورسمسامہ کا عجب قصہ


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت تھے قصہ سلامہ اور سمسامہ کا وی وی ایک بہت بڑا جزیرہ تھا یہاں ایک جابر و ظالم بادشاہ ہاکان حکومت کرتا تھا اس کی ریائیہ آئے دن اس کے ظلموں سے تمکہ شکار رہتی تھی


ان پر ظلم کرنے کے لیے وہ ترہ ترہ کی ترکیمیں سوچتا تھا حکومت کے نشے میں وہ بالکل بھول گیا تھا کہ انسانیت شرافت، انصاف ہمدردی اور انسان دوستی بھی کوئی چیز ہے اور وہ جو اتنے بہت سے لوگوں کا حاکم بنائے گیا ہے تو اپنی ریائیہ کی خبر گیری اور انہیں آرام سے رکھنا اس کا سب سے بڑا فرض ہے اور اسے ظالم بادشاہ کا وزیر زرزخ اس سے بھی زیادہ سخت دل اور اس سے بھی زیادہ ظالم تھا


وہ خاکان کو نئی نئی ترقی میں سجا تھا اور ریائیہ کو ترہ ترہ کے دخ دیتا تھا آخرکار ریائیہ خاکان کے ظلم سے تنگ آ گئی اس کے خلاف ترقی میں سوچنے لگی خاکان اور اس کے وزیر کو جب اس کا پتہ چلا تو انہوں نے ان بیچاروں کو اور بھی زیادہ ستانہ شروع کر دیا سیکڑوں لوگوں کو دھڑا دھڑا جیل کی اور فانسی کی سزائیں ملنے لگی وزیر دن رات ظلموں سے تمکی نئی نئی ترقی میں سوچتا اور بادشاہ


اس طرح لوگوں کے سر کٹھتے رہے خون بہتا رہا کبھی کبھی بادشاہ خاکان اپنے اس کام پر پشمان ہوتا یا گھبراتا تو زرزخ اس کی حمد مداتا حضور گھبرانے کی کیا بات ہے یہ سب مل کر بھی آپ کا کچھ نہیں بگار سکتے اور بادشاہ پھر اپنے کام میں مسروف ہو جاتا اسی جزیرے میں ایک بوڑی عورت رہتی تھی اس کا نام سلامہ تھا سلامہ بہت نیک دل بڑی حمد والی عورت تھی


وہ دن رات اس مسیبت کو دیکھتی تھی بادشاہ اور وزیر کے ظلم اور سخت دلی کے قصے سنتی تھی آخر اس سے نہ رہا گیا اس نے تہکیا کہ چاہے کچھ بھی ہو مجھے بادشاہ کے ظلموں سے تم سے ریائیہ کو نجات دلانا ہے اور وہ اسی دھن میں لگ گئی اس کے پڑوست میں خاکان کے کچھ جاسوس بھی رہتے تھے جو روزانہ بادشاہ کو نئی نئی خبریں پہچاتے تھے انہوں نے سلما کے بارے میں وزیر کو سب کچھ بتا دیا آخر ایک د


بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ کر بادشاہ کے سامنے پیشٹ کر دیا سلامہ دربار میں پہچی تو ہر طرف اسے کولے لی ہوئے جلات کھڑے دکھائی دیئے ایک طرف بزیر اور بادشاہ کی آنکھیں اس کے اوپر آگ برسا رہی تھیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی سلامہ کی حمت میں کمی نہیں آئی وہ نہ ڈری نہ جھچکی ایک دم بادشاہ گرجا بڑیا کی بچی میں کون ہوں اور تو کون ہے؟ بڑیا بولی میں سلامہ ہوں بادش


میں نے پوچھا ہے میں کون ہوں؟ تیرا ولی نعمت کون ہے؟ اس کا جواب تونے نہیں دیا بڑیا بولی تون میں نہیں جانتی تون کون ہیں اچانک اسی وقت وزیر بفرے ہوئے شیر کی طرح کھڑا ہوا اور چیکھنے لگا او بڑیا دیکھ اپنی زوان روک تیری جرات یہاں تک بڑھ گئی تجھے معلوم نہیں کہ تو شہنشاہ فاکان کے سامنے کھڑی ہے جو تیرا ولی نعمت ہے اور تجھ پر حکومت کرتا ہے


میرا ولی نعمت تو اللہ تعالیٰ ہے وہی نیک لوگوں کی سر پرستی کرتا ہے اس نے مجھے پیدا کیا وہی راستہ دکھائے گا وہی مجھے خلاتا پلاتا ہے جب بیمار ہوتی ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے وزیر یہ سن کر اور بھی جل گیا اور بولا اچھا ٹھیکھا جا اب تجھے اپنے کیے کی سزا ملے گی تُو جیل خانے میں پڑھی ہوگی اور وہاں بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر تیری جان نکل جائے گی


بادشاہ خاکان بھی گسے سے تھر تھر کامپ رہا تھا اس نے جلات کو حکم دیا اس بڑیا کو جیل کے سب سے گندے کمرے میں بند کرو ہر طرف سے دروازے بند کر دئیے جائیں ہوا اور روشنی کے لیے کوئی سوراخ بھی نہ چھوڑا جائے تاکہ اس بڑیا کو معلوم ہو جائے کہ اسے زندگی ہی میں قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے اسے ایسی تقنیف دی جائے کہ آیندا کسی اور کو بھی بادشاہ کے خلاف زبان کھولنے کی حمد نہ ہو


یہ سنتے ہی دو جلاد آگے بڑھے انہوں نے بوڑی عورت کے ہاتھ پیر باندے گسیٹھتے ہوئے لے چلے اور ایک اندھرے بدبودار کمرے میں بند کر دیا جہاں نہ روشنی تھی نہ ہوا بالکل تنہائی تھی کبر کے جیسی تنہائی باوجود اس کے سلامہ کی حمد اور سبر میں کمی نہیں آئی اس نے سوچ لیا کہ اب اس کبر سے مر کر ہی رہائی ملے گی اس کا دل مطمئن تھا کہ ظلم کے خلاف


اور مظلوموں کی مدد کے لئے آواز اٹھانے میں موت آ جائے تو یہ موت مبارک ہے اس خیال سے اسے بہت سکون ملا اور وہ خاموش پڑی پڑی اپنے خدا کو یاد کرتی رہی آپ جانئے اللہ اپنے یاد کرنے والوں کی ضرور مدد کرتا ہے ابھی ایک گھنٹا بھی ناغزرہ تھا کہ اچانک تو تڑکی آواز آئی جیسے کئی بندوقیں ایک ساتھ چھوٹ رہی ہو سلما نے محسوس کیا کہ سامنے کی دیوار فٹی اور ایک نیحائت میٹھی اور نرم آواز نے


دھیرے دھیرے اسے پکارنا شروع کیا پری سلامہ تم کو ہو مبارک تمہاری ایک بہن آئی ہے ملنے میں سمسامہ ہوں میرا نام سن لے مجھے بھیجا یہاں بس میرے دلنے میں کام آؤں گی اس مشکل میں تیرے جو تجھ پر ڈال دی ہے سنگ دلنے پہلے تو سلامہ یہ آواز سن کر حق کا بکر رہ گئی پھر اس نے سوچا شاید پہرے داروں میں سے کسی نے اس کے ساتھ مزاق کیا ہے لیکن چندھی لمحے کے بعد سم


اور اس کے ہاتھ پاو کھولنے لگی اس نے سلامہ کی آنکھوں پر سے پٹی بھی کھول دی اب اس کے سامنے ایک عورت کھڑی تھی وہ دماغ پر زور ڈالنے لگی مگر اسے بالکل یاد نہ آیا کہ اس سے پہلے کہیں اس عورت کو دیکھا ہو اس نے ایک عورت کی محبت گھری باتوں اور ہمدردی کے انداز نے جلدھی سلامہ کو بی تقلف کر دیا آخر اس نے پوچھی لیا اے بی اے فرشتہِ رحمت تم کون ہوں اور یہاں کس طرح آئی ہو


میں جنوں کے بادشاہ کی ملکہ ہوں میرا نام سمسامہ ہے میں اسی دیوار کے راستے سے تمہارے پاس آئی ہوں تاکہ تمہیں اس مسیبت سے نجات دلاؤں یہ کہہ کر ملکہ نے تالی بجائی اچانک بہت سے جن انسانوں کی صورت میں اسی دیوار والے راستے سے کمرے میں آدم کے سمسامہ نے حکم دیا اس کمرے کو ایک اوپسورت محل میں بدل دو اس میں باگ، میدان، فلواری اور فوارے بگیرہوں ہوں ہر طرف پرندے چہچہ رہے ہوں


بول بولیں گا رہی ہوں کمریاں چہک رہی ہوں پھر سمسامہ اس بوڑی عورت کو لے کر کھانے کے کمرے میں آئی جہاں خوبصورت کرسیاں قطار سے سجی ہوئی تھی سمسامہ نے اسے ایک کرسی پر بٹھایا خود بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی اسے طرح طرح کے کھانے کھلانے لگی جب دونوں اچھی طرح پید بھر کر کھا چکی تو بولی اب میں جا رہی ہوں جب تمہیں بھوک لگے تو اسی کرسی پر بیٹھ جانا


جو چیز مانگوں گی فورا دیوار فٹے گی اور وہ چیز تمہارے سامنے آموجود ہوگی اور یہ لو میرے بالوں کی لٹ جب میری ضرورت ہو ایک بال جلا دینا اور کہنا میری سمسامہ سمسامہ بولاتی تجھ کو سلامہ مجھے تیری ضرورت ہے بتا کیا اس کی صورت ہے یہ کہہ کر سمسامہ اور اس کا لشکر سب اسی راستے سے غایب ہو گئے جس راستے سے وہ آئے تھے اور دیوار ایسی ہو گئی جیسے کبھی ٹوٹی ہی نہیں تھی


سلامہ نے اس مدد پر خدا کا شکرہ دا کیا اب اس کی حمد اور بھی بڑھ گئی اب وہ اس قید خانے میں مزے سے رہنے لگی خدا نے مظلوموں کی مدد کا خوب اچھا فل دیا ادھر تو یہ سب ہو رہا تھا دوسری طرف کمرے سے باہر پہردار سوراق سے اندر سارا معجرہ دیکھتے رہے اور جب یہ خیل ختم ہوا تو وزیر کو سارا قصہ جا سنائیا وزیر نے بادشاہ کو خبر دی اور یہ تہپایا کہ اس کمرے کو گرا دیا جائے تاکہ


لوگ سلامہ اور سمسامہ دونوں کو بھل جائے یہ تیہ ہوتے ہی شاہی مزدور فاولے لے کر پہنچ گئے اور کمرے کو گرانے لگے سلامہ نے جب فاولوں کی آواز سنی تو گھبرہ گئی گھبرات میں ادھر ادھر بھاگنے لگی اجانک اسے سمسامہ کے بال یاد آ گئے اس نے جھٹ اس میں سے ایک بال جلایا اور پکارنے لگی میری سمسامہ سمسامہ بولاتی تجھ کو سلامہ مجھے تیری ضرورت ہے بتا کیا اس کی صورت ہے


یہ کہنا تھا کہ اچانک دیوار فٹی اور سمسامہ ہستی مسکراتی سامنے آگئی اور آتے ہی ایسے اتمینان سے جواب دیا جیسے کوئی خطرہ ہی نہ ہو میری سلامہ تم کو ہوں مبارک تمہاری ایک بہن آئی ہے ملنے میں سمسامہ ہوں میرا نام سن لے مجھے بھیجا یہاں بس میرے دلنے میں کام آؤں گی اس مشکل میں تیرے جو تم پر ڈال دی ہے سنگے دلنے میں سب جان گئی ہوں سمسامہ نے کہا سلامہ تم بالک


بس ذرا دیر کے لیے اپنی آنکھیں بن کر لو۔ سلامہ نے آنکھیں بن کی فوراً سمسامہ نے کہا اب کھول لو۔ اور جب اس نے آنکھیں کھولی تو خود کو ایک آلی شان سجے سجائے محل میں پایا۔ ہوادار جنگلے کیمتی کالین عمدہ باگ ایک شاندار مسہری پر سلامہ لیٹھی ہوئی تھی۔ وہاں مزدوروں نے کمرے کو گرا کر ڈھیر کر دیا اور اب اس جگہ ٹوٹے ہوئے ایٹ پتھر کے سباک کچھ نہ تھا۔ سلامہ نے اپن


اور سمسامہ فر غایب ہو گئی ایک دن اچنیدیوار فٹی اور سمسامہ ظاہر ہوئی اس کے ہاتھ میں ایک تشت تھا اس تشت میں گدھے کا سر تھا تشت کے چاروں طرف تازہ تازہ کھون ٹپک رہا تھا سلامہ یہ منظر دیکھ کر کھاپ گئی خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا لیکن سمسامہ نے مسکرہ کر اسے تسلی دی اور اس کا ڈر دور کیا جب سلامہ کو کچھ سکون ہوا تو اس نے کہا بی سلامہ


دیکھو میں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تم خوب جانتی ہو سلامہ نے کہا بالکل بالکل کوئی شریف آدمی تمہارے احسان کو بھول نہیں سکتا سمسامہ کہنے لگی تو آج میرا ایک کام ہے اگر تم کرنے کو تیار ہو تو بتاؤں سلامہ نے کہا ضرور ضرور سمسامہ بولی دیکھو یہ گدھے کا سر ہے اسے تم بیٹا بنالو اور صرف زبانی نہیں بلکہ بیٹے کی طرح اس کے ساتھ سلوک کرنا صبح سبیرے اسے جگانا


مو دھلا کر کپڑے بدلا رات کو لوری سنا کر سلانا اور یہ سارے کام خوشی خوشی تمہیں کرنا ہے کبھی دل میں کوئی گرانی نہ لانا اگر تم نے یہ سب کچھ کر لیا تو تمہیں بھی بہت فائدہ پہنچے گا لیکن ایک بات یاد رکھنا ان باتوں کی وجہ ہرگز نہ پوچنا اس میں تمہارا کوئی فائدہ نہیں اور میں بتاؤں گی بھی نہیں سلامہ نے کہا میں تمہارا حکم بجا لاؤں گی ابھی اسی وقت میں نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا


اب سمسامہ گدھے کے سر کی طرف مڑی اور کہنے لگی میں آج سے تجھ کو ہر قسم کی طاقت اور قدرت دیتی ہوں تُو جو کام چاہے کسی دکت کے بغیر کر سکے گا اور ہر مشکل میں کامیاب رہے گا یہ کہے کر وہ فر دیوار کے راستے غایب ہو گئی ابھی سمسامہ کو گئے گوے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گدھے کے سر سے آواز آئی ماما سنتی ہو میں سونا اور آرام کرنا چاہتا ہوں سلامہ یہ سن کر ڈری نہیں نہ


بلکہ بڑی محبت سے بولی ضرور ضرور بیٹا تم آرام کرو لیکن ٹھہرو سونے سے پہلے ذرا ساف سترے ہو جاؤ مو ساف کر لو پھر کچھ کھا پھی لو اتنی دیر میں میں تمہارا بستر لگائے دیتی ہوں یہ کہہ کر سر کو اپنی گود میں اٹھا لیا مو دھولایا تولیے سے ساف کیا پھر دستر خان بچا دیا جب وہ کھا پھی چکا تو اسے بستر پر لیٹا دیا خود بھی ایک طرف لی


تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کی کٹی ہوئی گردن کے نیچے دو نحیط قیمتی ہیرے رکھے ہیں ایسے قیمتی ہیرے اس نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی دیکھے ہو ابھی وہ حیران نگاہوں سے ان ہیروں کو دیکھ رہی تھی کہ گدھے کا سر بولا امی امی پریشان مطھو ان دونوں ہیروں کو حفاظت سے رکھ لو انھیں اچھے داموں بازار میں بیچانا سلامہ نے کہا بیٹا میں باہر نہیں نکل سکتی


اور قتل کر دیں گے۔ گدھے کے سر نے کہا امی آپ بالکل نہ ڈریں آپ کو کوئی نہ دیکھ سکے گا اور آپ سب کو دیکھ سکیں گی۔ یہ سنکر سلامہ باہر جانے کو تیار ہو گئی اور دوسرے ہی لمحیں وہ بازار کی طرف روانہ ہو گئی۔ ایک دکان پر اس نے ہیرے دکھائے تو دکان دار حیران رہ گیا۔ اپلی ساری زندگی میں ایسا قیمتی ہیرہ اس نے نہیں دیکھا تھا۔ جھٹ دونوں ہیرے خرید لئے، تھوڑی ہی دیر میں سارے بازار


آہستہ آہستہ یہ خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچی اس نے بھی انہیں دیکھنے کی خواہش کی اور دیکھتے ہی مو مانگ داموں اپنی چہتی بیٹی کمرال کمار کے لئے خرید لئے دکان دار سے یہ معلوم کر کے کہ ایک گڑیا نے یہ ہیرے بیچے ہیں بادشاہ کے دل میں اس سے ملنے کی خواہش ہوئی اور اس نے سارے شہر میں سللامہ کی تلاش شروع کر دی مگر سللامہ ملتی کیسے وہ تو سب کی نگاہ سے چھپ کر دکان تک پہنچ


اب تو سلامہ کو روزانہ صبح سووے رے دو ہیرے گدھے کے سر کے نیچے سے مل جاتے تھے وہ ان کو جمع کرتی رہی۔ ایک دن گدھے کے سر کو عجیب بات سوجھی۔ اس نے اپنی ماں سے فرمائش کی کہ وہ بادشاہ کے گھر جائے، شہزادی سے اس کی شادی کا پیغام دے۔ یہ سن کر سلامہ پر جیسے بیجنی سی گر پڑی۔ وہ اس قدر حیران اور پریشان ہوئی کہ بے ہوش ہونے کے قریب تھی، مگر خود کو سمحلا اور بولی، بیٹا میں وہاں ج


گدھے کے سر نے جواب دیا امی یہی کہنا کہ آپ کی بیٹی کمرالکمار سے میرا بیٹا راسل ہمار گدھے کا سر سادی کرنا چاہتا ہے سلما کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا کہ کیا کرے مگر مجبور تھی انکار نہیں کر سکتی تھی اور آخر گدھے کے سر کے اسرار پر اسے جانا پڑا وہ محل میں سیدھی بادشاہ کی ملکہ رافلا کے پاس پہنچی ملکہ پہلے تو اس بڑیا کو دیکھ کر حیراندہ گئی کہ وہ کس گرس سے میرے پاس آئی ہے


جبکہ میں اسے جانتی بھی نہیں پھر یہ پیغام سن کر تو گسے کے مارے اس کا برا حال ہو گیا اس نے اپنی خادماؤ کو حکم دیا کہ بڑیا کو اس پیغام کا جواب دے دو خادماؤ نے اسے زمین پر اوندھا لیٹا کر اس کی کمر پر کولے برسانے شروع کیے اور جب اچھی طرح بڑیا کی مرمت ہو چکی تو دھکا دے کر باہر نکال دیا سلامہ کولے کھا کر ادموی ہو چکی تھی


اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا آہیں بھرتے گرتی پڑتی اپنے محل کی طرف چلی جا رہی تھی ایک طرف اسے اپنے بیٹے راسل حمار کی اس حرکت پر غصہ بھی آ رہا تھا دوسری طرف سمسامہ کے کہنے کا بھی خیال تھا اس لئے ناچار اسے سبر کرنا پڑا گھر پہنچتے ہی وہ دھم سے بستر پر گر پڑی اور سارا واقعہ راسل حمار کو رو رو کر سنا دیا گدے کا سر اسے تسلی دیتا رہا کچھ د


اور پہلے کی طرح وہ پھر اپنی بیٹی کی خدمت کرنے لگی اور ایک دن پھر گدھے کے سر نے پھر اسے بادشاہ کی یہاں جانے اور اس کی بیٹی کمرالکمار سے اپنی شادی کا پیغام دینے کیلئے کہا تو وہ کھاپ گئی پہلی مسیبت کا سارا منظر اسے یاد آ گیا لیکن گدھے کے سر نے اس قدر خشامت کی کہ مجبوراً سلامہ کو پھر جانا پڑا اور اس بار بھی وہ سیدھی ملکہ کے پاس پہنچی اور اپنے آنے کا مقص


آنکھوں سے شولے نکلنے لگے اس نے اپنی نوکرانیوں سے کہا اس بڑیا کو ایسی سزا دی جائے کہ کبھی ایسی حمد نہ کرے اس نے صرف میری اور میری بیٹی کی نہیں بادشاہ سلامت کی بھی توہین کی ہے میری بیٹی جو کسی شہزادے کی ملکہ ہونے کے لاقہ ہے یہ پاغل اس کی شادی ایک جانور کے کٹے گوے سر کے ساتھ کرنا چاہتی ہے نوکرانیوں نے جی کھول کر سلامہ کی مرمت کی اور جب وہ بے ہوش ہو گئی تو گھسیٹ کر س


سلما نا جانے وہاں کتنی دیر پڑی رہی جب ہوش آیا تو سارے بدن سے خون بہرا تھا مو سوج گیا تھا ٹانگوں میں چلنے کی سکت نہ تھی بیچاری چپ چاپ آنکھیں بند کیے پڑی رہی آخر کچھ دیر بعد حمد کر کے گھسٹی گھسٹی اپنے مہل کی طرف چل پڑی اور بڑی مشکل سے مہل میں پہچی ابھی اندر گسی ہی تھی کہ پھر بے ہوش ہو گئی اسی وقت گدے کے سر نے سمسامہ کو آواز دی جلد آ سم


کر رہا ہے دیر سے رسول حماد چور ہے زکھموں سے سلامہ پڑی دیکھ لے کتنی پڑی ہے اس پیمار ایک دم سامنے کی دیوار پٹی اور سمسامہ حستی مسکراتی آم موجود ہوئی آتے ہی جب اس نے یہ منظر دیکھا تو فورا سلامہ کے زکھموں کی مرہم پٹی میں لگ گئی تھوڑی دیر بعد سلامہ نے آنکھیں کھولی تو سمسامہ کو دیکھ کر اسے بڑی تسکین ہوئی اپنے درد میں بھی اسے کمی معلوم ہوئی


پھر تو سمسامہ برابر آتی اور سلما کی دیکھبھال کر کے چلی جاتی آخرکار آہستہ آہستہ وہ بلکل تندرست ہو گئی چوٹ لگنے کی اور سزا پانے کی بات بھولی بسری ہو گئی دوسری طرف بادشاہ کے محل میں ہر طرف بجلی کی طرح یہ خبر پھیل گئی اور سلما کے بارے میں ہر قسم کی چہمی گوئیاں ہونے لگیں بادشاہ کو اس بات کی خبر لگی تو اس کا ہون گسے کے مارے کھولنے لگا اس نے اپنے وزیر کو طلب کیا اور یہ منحوز خ


وہ بھی حیران رہ گیا اب دونوں سر جوڑ کر اس مسیبت کا علاچ سوچنے لگے اچانک وزیر بولا حضور میرا تو خیال ہے کہ وہ بڑیا پھر آئے گی ہمیں اس کا انتظار کرنا چاہیے اور اب کہ وہ آئے تو اسے پکڑ کر مجبور کیا جائے کہ جو بھی اسے بھیجتا ہے اسے اپنے ساتھ لاائے اور دوسرے یہ کہ بادشاہ شادی کے بدلے میں ایسی چیز مانگے جو وہ دے ہی نہ سکے اگر ان دونوں باتوں کو نہ مانے


تو ایک ہفتے بعد اسے سب کے سامنے سڑک پر زندہ جلا دیا جائے۔ بادشاہ کی لڑکی کمرالکمار جو اس وقتے یہاں موجود تھی، اس رائے سے اچھل پڑی اور اس نے اپنی ماں سے چپکے سے کہا کہ میری طرف سے اس قسم کے چھے ہیروں کی شرط لگا دیجئے جو بادشاہ سلامت نے میرے لئے خریدے تھے۔ وزیر اور دوسرے لوگ آپس کے اس مشورے کے بعد اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے۔


ایک دن سلما کو اس کے بیٹے گدھے کے سرنے فر شادی کا پیغام لے کر بادشاہ کی ملکہ کے پاس روانہ کیا۔ سلما تیسری بار بھی اس کام کے لیے تیار ہو گئی۔ مگر اب کے اس نے سوچ لیا کہ بچ کر آنا ناممکن ہے اور اس بار ضرور وہ مار ڈالی جائے گی۔ اسی وقت اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر اسے سخت تاجوب ہوا۔ جب اس نے سلما کو تسلیدی اور کہا مہا، اس بار محل میں آپ کا شاندار سواغت کیا جائے گا۔


لوگ آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور اب کوئی آپ پر سختی نہ کرے گا۔ آپ سے وہ جو کچھ مانگیں انکار نہ کیجئے گا اور ان کی ہر شرط کو قبول کر لیجئے گا۔ سلما اس بات کو سن کر زیادہ پریشان نہ ہوئی کیونکہ اس کے پاس بہت سے ہیرے جماہ تھے اور اسے اتمینان تھا کہ وہ ملکہ کی ہر شرط پوری کر سکے گی۔ آخرکار وہ بادشاہ کے محل کی طرف اتمینان سے ربانہ ہو گئی۔ جب وہ محل میں پہچی تو ملکہ نے اور اس کی نوک رانیوں نے بڑ


خوشی خوشی اس کا ہاتھ پگڑا اپنے برابر کرسی پر بیٹھا لیا اور اس کے آنے کا مقصد پوچھا سلما نے کہا حضور میرے آنے کے مقصد کو آپ جانتی ہیں میں اپنے بیٹے راسل ہمار کی شادی آپ کی بیٹی کمرال کمار سے کرنا چاہتی ہوں ملکہ نے کہا تم جانتی ہو میری بیٹی کی شادی کے بلے میں جس قدر مال چاہیے وہ بڑے سے بڑا امیر یا بادشاہی دے سکتا ہے سلما بولی حضور جتنا مال اور


میں دینے کو تیار ہوں۔ ملکہ نے کہا میرا خیال ہے تم ہرگز ہماری شرطیں پوری نہیں کر سکو گی۔ سلامہ بولی آپ کہیئے تو۔ ملکہ نے کہا دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ ان شرطوں کی وجہ سے تم مسیبت میں فس جاؤ۔ سلامہ نے کہا جناب میں کہہ چکی ہوں کہ آپ کی ہر قسم کی شرط پوری کروں گی۔ آپ بلا تکلف اپنی بات کہ دیں۔ ملکہ نے کہا اچھا تو سنو۔


بادشاہ سلامت نے یہ شرط لگائی ہے کہ جو کوئی بھی میری بیٹی سے شادی کرے وہ تمام سامان اور مال و دولت سے بھرہ ہوئے اتنا بڑا محل تیار کرے جس کو پورا گھومنے میں کئی ہفتے لگ جائے اور وہ شان و شوقت میں بالکل ایسا ہی ہو جیسا ہمارا یہ محل ہے اور زیادہ دور نہ ہو ہمارے محل کے بالکل سامنے ہو اس کے علاوہ کمرالکمان نے یہ شرط لگائی ہے کہ جیسا ہیرہ ایک بار بادشاہ نے اس کے لیے بازار سے خریدا تھا


ویسے ہی چھے ہیرے اسے دیئے جائیں اور یاپوط اور زمررس سے جڑا ہوا ایک تاج بھی اسے دیا جائے اور چھے ایسے جوڑے ہوں جو سونے کے تاروں سے بنے گئے ہوں سلما نے یہ سب سنکر نیحائیت اتمینان سے کہا ملکہ سلامت مجھے یہ ساری شرطیں منظور ہیں اور کچھ ہو تو فرمائے ملکہ نے کہا اور یہ کہ اگر یہ ساری چیزیں ایک ہفتے میں تیار نہ ملی تو بادشاہ سلامت تجھے سڑک پر زندہ جلو آ دیں گے ت


سلامہ نے کہا یہ شرط بھی مجھے منظور ہے اب تو ملکہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی سلامہ کا جواب سنکر وہ حیران ہو گئی سلامہ اٹھی اور ایک ہفتے کے بعد ملنے کا وعدہ کر کے ملکہ کو حیران چھوڑ کر چلی گئی وہ راستے میں سوچتی رہی کہ اب میرا بیٹا گدھے کا سر یہ سب انتجام کیسے کرے گا اور وہ بھی اتنی جلدی جب اس نے محل میں جا کر اسے یہ ساری شرطیں سنائی تو گدھے کے سر نے فوراً م


میری اچھی امہ! یہ سب آپ کو وقت سے پہلے تیار ملے گا اور ایک رات جب سلامہ مزے کی نین سو رہی تھی رسولﷺ ہمار ساری رات خوشی کے مارے جاکتا رہا کیونکہ آج کی رات سمسامہ اور اس کے لشکر نے مہل مہل کا سارا سامان، مال و دولت، ہیرے اور سنہری لباس سب کچھ تیار کر کے رسولﷺ ہمار کو دکھلا دیا تھا ادھر سمسامہ کے نوکروں نے سوتے ہی میں سلامہ کو بھی نئے مہل میں پہنچا دیا


تو یہ جنت دیکھ کر وہ حیران رہ گئی اس نے سمجھا کہ وہ ابھی خواب دیکھ رہی ہے بار بار آنکھیں ملتی اور کھولتی تھی آخر اسے یقین کرنا پڑا کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اتنے میں رسولﷺ ہمار کی آواز اسے سنائی دی ماما اب تو ملکہ کی ساری شرط پوری ہو گئی آپ کی حیرت تو اب ختم ہو گئی ہوگی سلامہ بولی بیٹا کیا واقع یہ سب کچھ صحیح ہے اور وہ ساری چیزیں تیار ہیں جن کا میں ملکہ سے وعدہ کر کے


بے شک بے شک رسولﷺ بولا ذرا آپ اپنے کمرے کی خدکی سے جھاک کر دیکھئے وہ ہے سامنے بادشاہ کا محل اور وہ سڑک پر راگیر چل رہے ہیں ماما دیکھو تو وہ سب کتنی حیرث سے دونوں محل دیکھ رہے ہیں سلما نے جو خدکی سے باہر جھاکا تو واقعی یہ ساری چیزیں نظر آ رہی تھی اس نے دیکھا کہ بادشاہ اپنے محل میں خرامہ خرامہ ٹہل رہا تھا اس کے ساتھ اس کی بیوی ر


اتنے میں بہت سی خادمائیں سلامہ کے کمرے میں آدم کی سلامہ کھڑکی کا پردہ چھوڑ کر ان کی طرف مڑی اتنے میں ایک خادمہ نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ لے چلی وہ ہیرے جوارات اور مال و دولت سے بھرے ہوئے سارے کمروں میں سلامہ کو گھوماتی رہیں ابھی وہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں کہ گدھی کے سر نے اشارہ کیا اور تمام خادمائیں مئے سلامہ کے چاندھی کی ٹوکروں میں بھر بھر یہ ساری د


تاکہ ملکہ کے سامنے کمرالکمار کی شادی کا سامان پیش کر سکے ملکہ اور اس کی بیٹی دونوں تمام سامان کو حیرث سے دیکھ رہی تھی شہزادی نے جب اپنے پسندیدہ چھے ہیرے پائے تو خوشی سے دیوانی ہو گئی جب وزیر اور بادشاہ نے دیکھا کہ سلامہ نے وہ ساری شرطے پوری کر دی بلکہ ایسے ایسے جوارات لایی ہے جو بادشاہ نے خواب میں بھی نہ دیکھے تھی تو اس نے شادی کی تیاری شروع کرنے کی اجازت دے د


سارے مہل کے اور شہر کے لوگوں میں چرچا تھا کہ یہ عجیب شادی ہے کہ ایک بادشاہ کی بیٹی گدھے کے سر سے بیائی جا رہی ہے مگر کسی کی حمت نہ تھی کہ زبان کھولتا تیاری کے درمیان شہزادی گدھے کے سر کے پاس پہنچی اور خشامد و محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی گدھے کے سر نے اس سے کہا شہزادی تمہیں کس قدر افسوس ہوگا کہ تم ایک جانور سے بیائی جا رہی ہو مگر شہزادی نے خوشی سے جواب


نہیں میرے اچھے دوست راسل حمار میں بہت خوش ہوں تم اس کا غم نہ کرو مجھے تمہارے ساتھ رہنے میں بڑی مسرد ہوگی گدھے کے سر نے کہا تم کسی خوبصورت حسین شہزادی کے گھر جاتی تو تمہیں زیادہ خوشی ہوتی اچانک شہزادی نے اس کے مو پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی اب تم میرے شوہر ہونے والے ہو اس لئے ایسی باتیں مطر کرو میں تمہیں کبھی غمگی نہیں ہونے دوں گی ہمیشہ تمہاری خدمت کروں گی


یہ سنتے ہی گدے کے سر نے کہنا شروع کیا سمسامہ فر اب کے بار آجہ شادی ہے تیار بیٹھی ہے تجھ سے ملنے کو شہزادی کمرالکمار اور وہ گاتی گنگناتی سامنے کی دیوار سے نمودار ہوئی اور آتے ہی بولی اچھا میاں راسل ہمار اب ذرا تم یہ بھیس اتارو اور اپنی اصلی شکل میں آجاؤ یہ سنتے ہی گدے کے سر نے جب اپنا بھیس بدلا تو شہزادی کی آنکھیں حیرست سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں


جب اس نے دیکھا کہ ایک حسین و جمیل شہزادہ کھڑا ہے اب سمسامہ نے شہزادی سے کہا میری اچھی شہزادی یہ اندریس ہے جنوں کے بادشاہ آکب کا بیٹا اس کا باپ آکب بہت ظالم بادشاہ تھا اپنی ریائیہ پر بہت ظلم کرتا تھا اندریس ریائیہ پر اس ظلم کو پسند نہیں کرتا تھا اور برابر اپنے باپ کو ظلم سے منع کرتا تھا آخرر ایک دن گسے میں آکر آکب نے اسے گدھے کے سر میں بدل دیا اور گھ


مجھے معلوم تھا کہ ایک بوڑی عورت بھی یہی سزا بھغت رہی ہے اس لئے میں نے دونوں کو ملا دیا اور دونوں ساتھ رہنے لگے اب اس سے آگے کا قصہ جان کر تم کیا کرو گی ایک بات اور سن لو رات کو یہ شہزادہ اپنی اصل صورت میں رہا کرے گا اور دن میں پھر گدھے کے سر میں بدل جائے کرے گا تو بھی شہزادی یہ شہزادہ تمہیں مبارک ہو یہ بھید ہرگز کسی کو مت بتانا اپنی ما ملکا سے بھی نہیں یہ کہہ کر سمسامہ غائ


شادی کے بعد دونوں میہ بی بی مزی سے رہنے لگے ادھر شہزادی کے گھر والے کبھی تو افسوس کرتے کہ شہزادی کی قسمت پھوٹ گئی اور جب اسے خوش دیکھتے تو انہیں تاجوب ہوتا تھا کہ گدھے کے سر نے کیا جادو کر دیا کہ شہزادی اتنی خوش ہے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ایک دن ملکہ نے بڑے رازدارانہ انداز میں اپنی بیٹی سے پوچھا بیٹی ایک بات پوچھوں سچ سچ بتانا یہ قصہ کیا ہے


کہ گدھے کے سر کے ساتھ شادی کرکے بھی تو اتنی خوش ہے کہ ہر وقت خوش رہتی ہے غلاب کی طرح کھیلی رہتی ہے تیری تندرستی بھی پہلے سے بہت اچھی ہے شہزادی بولی میری امی جان میں اس معاملے میں کچھ نہیں بتا سکتی آپ کچھ نہ پوچھیں آپ نے ایک بار کہا تھا کہ انسان کی زندگی میں چاہے جیسا وقت پڑے اسے خوش رہنا چاہیے اس لئے میں ہر وقت خوش رہتی ہوں ملکہ نے کہا بیٹ


تو جا تو ہمیشہ عیش کریں گی۔ شہزادی نے کہا ماں کی دعا چاہیے ایسا ہی ہوگا۔ ملکہ نے جب بادشاہ کو یہ گفتگو سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوگا کیوں کہ اس شادی کی وجہ سے اسے بھی بہت اپسوز تھا لیکن جب بادشاہ کے وزیر ذرزک کو یہ سارا حال معلوم ہوا تو جلن اور حست کے مارے اس کا برا حال ہو گیا اسے اور تو کچھ نہیں سوجا وہ برابر بادشاہ پر زور ڈالنے لگا۔


کہ وہ اس بھیت کو معلوم کرنے کے لیے شہزادی پر زور ڈالے اور ملکہ کو اس کام کے لیے تیار کرے وزیر کے بار بار سمجھانے سے بادشاہ بھی ملکہ پر دباؤ ڈالنے لگا کہ کسی نہ کسی طرح اصل بات معلوم کرے ملکہ روز رات کو بیٹی سے یہ بھیت پوچھتی مگر وہ تال جاتی آخر ایک دن اس نے شہزادی سے بحانہ کیا بیٹی اگر تو یہ راز بتا دے گی تو تیرے باپ اور تیری ماکے سوہ اور کوئی نہ جانے گا


اور اگر آج بھی نہ بتایا تو بادشاہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ میرا سر قلم کر دے گا۔ پہلے تو کمرالکمار نے صاف انکار کر دیا لیکن ماں کی محبث سے مجبور ہو کر آخر یہ راز اگل دیا کہ یہ دراصل ایک شہزادہ ہے اور دوسری ساری باتیں ماں کو بتا دیں۔ ملکہ کو یہ سب سنکر شوق ہوا کہ اس کو اصلی صورت میں دیکھے، مگر اس کی کوئی صورت نہ تھی۔ آخرکار اس نے اپنی بیٹی کو اس بات پر راضی کر لیا کہ آج رات وہ شہزادے کے محل میں آئے گی۔


وہاں شہزادی چپکے سے اپنے شوہر کا کمرہ کھولا چھوڑ دے گی ملکہ آہستہ سے اس کے کمرے میں آکر ایک نظر دیکھ کر واپس چلی جائے گی آدھی رات کے قریب جب ملکہ چپکے چپکے اپنی بیٹھی کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کی مچھر دانی ہٹائی تو اس نے دیکھا کہ گدھے کا سر تو ایک برابر والی میز پر رکھا ہوا ہے اور بستر پر نیحائت خوبصورت شہزادہ سو رہا ہے ملکہ اسے دیکھ چکی تو چپکے سے ک


اپنے کمرے میں واپس آ کر خوشی خوشی سو گئی صبح سبے رے بادشاہ کو سارا واقعہ سنایا بادشاہ بھی یہ جان کر بہت خوش ہوا مگر بادشاہ کا بزیر زرزخ جو بہت بڑا حاسد اور بری طبیعت کا آدمی تھا جلنے لگا اب وہ کمرالکمار اور شہزادے کے خلاف نئی نئی ترقی میں سوچنے لگا آخر اس کی سمجھ میں ایک بات آئی ایک دن تنہائی میں اس نے بادشاہ سے کہا حضور ہم تمام محل بالے تو ج


اس لئے ہمیں اب کوئی غم نہیں مگر شہر میں برابر یہی بات مشہور ہے کہ بادشاہ کی حسین و جمیل بیٹھی کی شادی ایک گدھے کے سر کے ساتھ ہوئی ہے تو ہم کوئی ایسا کام کیوں نہ کریں جس سے شہر والوں کی زبانیں بند ہو جائے اس کی کیا ترقیب ہے؟ بادشاہ نے فکر مند ہو کر پوچا وزیر بولا حضور میرا خیال ہے کہ ایک رات جب شہزادہ سو جائے تو اس کا گدھے کا سر اٹھوالیں اور اسی وقت اس کو جلا دیں


صبح کو مجبورا شہزادہ سب کے سامنے اپنی اصلی صورت میں آئے گا اور سارے لوگ خود ہی دیکھ لیں گے۔ یہ ترقیب بادشاہ کی سمجھ میں آ گئی۔ اس نے ملکہ سے کہا کہ ایک دن چپکے سے وہ شہزادہ کا وہ سر اٹھا لائے۔ بادشاہ نے بزیر کی ساری ترقیب بھی ملکہ کو بتا دی۔ ملکہ کو یہ ترقیب اس قدر پسند آئی کہ وہ سر لانے کے لیے تیار ہو گئی اور شہزادہ کے محل میں پہنچ کر آدھی رات کو اس کے کمرے میں


اور گدے کے سر کو لے کر سیدھے محل میں واپس آ گئی آتے ہی سر وزیر کے حوالے کر دیا اس نے اسی وقت جلتی ہوئی لکڑیوں میں اسے فھینک دیا یہ کیا یہاں وزیر نے سر آگ میں فھینکا ادھر شہزادے کے محل میں زلزلہ آ گیا ہر طرف بجلی سی کڑکنے لگی ہر طرف ایک توفان سا آ گیا اندریس ایک دم جاگا اور کمرالکمار پر جھپٹ پڑا ظالم، تونے مجھے دھوکہ دیا تونے سمسامہ


یہ کہتے ہی وہ نظروں سے غائب ہو گیا اب ہر طرف گبار ہی گبار اڑ رہا تھا نہ محل تھا نہ وہ ساز و سامان نہ باگ نہ فوارہ سلامہ بیچاری اپنے کمرے میں ہائے ہائے کر رہی تھی ادھر دوسرے محل میں بلکہ اپنے کیئے پر پچھتا رہی تھی کمرالکمار بھی اپنے باب کے محل میں آ گئی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی اس نے کھانا پینا سب چھور دیا تھا اور ایک دم لاغر ہو گئی تھی اس کا گورا رنس


ایسا کہ وہ اب جلد ہی مر جائے گی بادشاہ اس کے دربارے اور دوسرے لوگ اس بات کو جان گئے تھے کہ یہ سب بزیر کا کیا دھرا ہے اس لئے سب اس سے نفرت کرنے لگے تھے سلامہ بیچاری کا یہ حال تھا کہ اس کا سکون، چین، سارا عیش ساری نعمت چھن گئی تھی غم میں وہ سوخ رہی تھی اسی حال میں ایک دن بیٹھے بیٹھے اسے سمسامہ کے بال یاد آ گئے اسے یاد آیا کہ ہر مشکل میں سمسامہ نے مدد کرنے کا وعدہ


یہ خیال آتے ہی اس نے ایک بار لے کر جلا دیا اور کہنے لگی میری سمسامہ سمسامہ بلاتی تجھ کو سلامہ مجھے تیری ضرورت ہے بتا کیا اس کی صورت ہے یہ کہنا تھا کہ سامنے کی دیوار سے سمسامہ نمودار ہوئی اس کے چہرے پر گسے کے آسار تھے اس نے آتے ہی کہا شہدادی نے جھوٹا وعدہ کیا سارا راز اپنی ما کو بتا دیا اسی کا یہ نتیجہ ہے خیر سلامہ تم اپنی آنکھیں بند کرو


سلامہ نے آنکھیں بند کر کے جو کھولی تو خود کو شہزادہ اندریس کے گھر پر پایا اندریس ایک بستر پر پڑا ہوا کرہ رہا تھا اس کا سارا بدن جھلسا ہوا تھا جیسے کسی نے اسے آگ کے گڑے میں ڈال دیا ہو سلامہ نے جیسے ہی شہزادہ کو دیکھا اس کی طرف محبت سے بڑی مگر ایک دم ٹھٹک کر رہ گئی کیوں کہ اس نے اس جوان کو کبھی نہیں دیکھا تھا گدھے کا سر کبھی اس کے سامنے اپنی اصل صورت میں آیا ہی


مگر اندریس نے چلا کر کہا مہ مہ میں فکرہا ہوں جل رہا ہوں مجھے بچاؤ مہ تم بچا سکتی ہو جب تک وزیر زرزک کا خون میرے بدن پر نہیں مل جائے گا میں اچھا نہیں ہو سکتا سمسامہ ایک طرف کھڑی ہوئی یہ باتیں سن رہی تھی جیسے ہی اندریس نے اپنی بات ختم کی اس نے سلامہ سے کہا جلدی کرو جلدی کرو اپنی آنکھیں بند کرو اور جب دوبارہ سلامہ نے آنکھیں کھولی تو کمرالکمار کے


اس نے دیکھا کہ ملکہ گمزدہ ہے وزیر کو کوس رہی ہے اور اس ساری آفت و مسیبت پر خود کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔ سلامہ نے اسے تسلی دی اور کہا ملکہ اب گالی دینے اپسوز کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ میں اس وقت شہزادہ انڈریس کے پاس سے آ رہی ہوں میں چاہتی ہوں کہ کمرالکمار سے اقیلے میں دو بات کرلوں اور اس بیچارے کی مشکل کا کچھ حل ہم دونوں مل کر نکال سکیں۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوج


یہ کہ کر شہزادی اور سلامہ دونوں ایک الک کمرے میں چلی گئیں وہاں پہنچ کر پہلے تو سلامہ نے شہزادی کے سر کو بوسہ دیا اس کے آنسو پہنچے، اسے تسلی دی پھر بتایا کہ جس وقت وزیر نے گدھے کا سر آگ میں ڈالا اس کے چند گھنٹے کے بعد شہزادی کے جسم پر آگ کا اثر ہونے لگا اور اس کا سارا بدن چھلس گیا ہے اب اس کا صرف ایک علاج ہے کہ قاتل یعنی وزیر کا خون اس کے بدن پر ملا جائے


اور گدھے کے سر کی طرح اس کا سر بھی آگ میں ڈالا جائے۔ یہ سن کر شہزادی کو تاریکی میں کچھ روشنی نظر آئی۔ اسے شہزادی سے ملنے کی کچھ امید دکھائی دی۔ اس نے سلما سے کہا کہ یہ دونوں کام کچھ مشکل تو نہیں ہے، مگر اکیلے میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں اپنے ماں باپ سے مدد لوں۔ وہ دونوں بھی وزیر سے صفت ناراض ہیں۔ اس لئے اس کام میں کچھ مشکل نہیں ہوگی۔ سلما نے اجازت دے د


تو شہزادی نے جا کر ما کو سارا واقعہ سنا دیا اور خشامت کی کہ میری اچھی امی جان وزیر کو مارنے، اس کا خون حاصل کرنے اور اس کا سر جلانے کا مشکل کام آپ کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا اگر آپ اپنی بیٹی کی زندگی چاہتی ہیں تو یہ کام آپ کو کرنا ہی ہوگا ملکہ تیار ہو گئی اور اس نے بادشاہ کو بھی سمجھا بوجا کر راضی کر لیا پھر چند ہی دن میں چالاک ملکہ نے ایسی چال چلی


کہ آخر ایک دن سلامہ کے سامنے وزیر کے خون سے بھری ہوئی بوٹل اور اس کا کٹا ہوا سر تشت میں رکھ کر پیش کر دیا سلامہ نے سر دیکھتے ہی نفرست سے اس پر تھوک دیا اور فورا ایک طرف لے جا کر جلا دیا خون کی بوٹل لے کر سلامہ اندریس کے پاس پہنچ گئی جیسے ہی وزیر کا خون اس کے بدن پر ملا گیا وہ بھلہ چنگہ ہو گیا ویسا ہی خوبصورت نکل آیا جیسا پہلے تھا سمسامہ اس دفعہ بغیر بلاے ان


سلامہ اور اندریس نے خوشی خوشی آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا سمسامہ نے دونوں سے آنکھیں بند کرنے کو کہا اور جب دونوں نے آنکھیں کھولی تو خود کو ایک بار فر کمرال کمار کے محل میں پایا اور سامنے ہی شہزادی کا محل پوری آبوطاب سے کھڑا تھا اس میں سارا مال اور ساری دولت جوکی تو موجود تھی شہزادی کو دیکھتے ہی کمرال کمار اس کے پیروں پر گر کر مافی مانگنے لگی


مگر شہزادہ نے سلامہ کی طرف اشارہ کر کے کمرالکمار، ملکہ اور بادشت تینوں سے کہا ہمیں سب کو اس بہدر عورت کا احسان مند ہونا چاہیے جس نے ہم کو اتنی آفتوں سے بچایا اور جس نے اپنے شہر والوں کی جانی دشمن وزیر ذرزک کو اس کے ظلم کا بدلہ چکھایا مجھے میرے باپ کے ظلم سے بچایا سلامہ یہ سب سنتی رہی پھر کھڑی ہو کر کہنے لگی لوگوں یہ سب خدا کا فضل ہے


اسی نے مجھے حمد دی کہ میں وزیر کی مککاریوں سے اپنے وطن والوں کو نجات دلا سکوں پھر اس نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور کہا بادشاہ سلامت اب آپ نے دیکھا کہ میں کون ہوں میں وہی بڑیا ہوں جس کو آپ نے اپنے وزیر ذرزک کے کہنے سے موت کی کوٹری میں بھوکہ پیاسہ مرنے کے لیے ڈال دیا تھا اور پھر اسی کے کہنے سے آپ نے کوٹری کو گروا دیا تھا کہ میرا نام و نشان ہی مٹ جائے آپ نے دیکھا کہ دردناک موت نے


اس بڑیا کا جو اپنے بھائیوں کا درد دیکھ کر ان کی مدد کیلئے تیار تھی یا اس بتقسمت مکار بزیر کا جو اپنی دولت کی قمان میں لوگوں کیلئے عذاب بنا ہوئا تھا آج بزیر اپنی مکاریوں کی سزا پا چکا اور سلما کو اس کی نیکی کا بدلہ مل گیا بازشاہ گردن جھکائے سب کچھ سن رہا تھا اس کی آنفوں سے ٹپ ٹپ آسو گر رہے تھے شرم و ندامت سے وہ پانی پانی ہوا جا رہا تھا آخر کچھ دیر بعد


جیل خانوں سے سارے قیدی چھوڑ دیئے جائیں جن کا معلو اسباب لٹا گیا ہے وہ دربار سے آکر لے جائے آج سلامہ کے سامنے میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور حکومت سے دستبردار ہوتا ہوں اب اس ملک پر میرے داماد اندریس اور میری بیٹی کمرالکمار حکومت کریں گے دونوں محل کی نگران سلامہ ہوگی اسے ہر جگہ پوری آزادی ہوگی اور اب میری ریائیہ ہر وقت دربار میں آکر اپنا مقصد بیان کر سکتی ہے


اس کے بعد صدیوں یہ حکومت باقی رہی اندریس کی اولاد برسوں برس حکومت کرتی رہی سارے لوگ امن و چین سے زندگی گزارتی رہے ریایہ اپنے بادشاہ کو دل و جان سے چاہتی تھی اور ہر بادشاہ اپنے پرخوں کے طریقے پر ریایہ سے محبت کرتا تھا

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow