شہزادی پری رخ اور شہزادہ بہرام کی دلچسپ کہانی

شہزادی پری رخ اور شہزادہ بہرام کی دلچسپ کہانی

Nov 14, 2024 - 12:05
 0  6
شہزادی پری رخ اور شہزادہ بہرام کی دلچسپ کہانی
شہزادی پری رخ اور شہزادہ بہرام کی دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو پرانے زمانے میں عام طور پر سبھی ملکوں میں بادشاہت ہوا کرتی تھی ملک چھوٹی اور بڑی ریاستوں میں بٹا ہوتا تھا ہر ریاست کا ایک بادشاہ ہوتا تھا بڑی ریاستوں کے بادشاہ زیادہ تر شان و شوکت اور کرو فر رکھتے تھے اور اپنی وسی سلطنت اور مال و دولت پر مغرور ہوتے تھے اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے یہ بھی بادشاہ کو دنیا میں اللہ کا نمائندہ سمجھ


اس کا کہا قانون کا درجہ رکھتا تھا بادشاہ کی کسی برتاو یا حکم کی کہیں داد فریاد نہیں ہوتی تھی زیادہ بڑے بادشاہ شہنشاہ کہلاتی تھے کچھ تو اتنے خود بھی ان و خدارہ تھے کہ اپنے آپ کو ہی خدا سمجھنے لگے تھے انہیں لگتا تھا کہ ان کی سلطنت میں رہنے والے ہر شخص کی تقدیر انہیں کے قبضائے قدرت میں ہیں جس سے چاہیں سب کچھ چھین لیں اور جس کو چاہیں سب کچھ اطا کر دیں جس کی چا


وہ یہ بھولی جاتے تھے کہ سب سے بڑا بادشاہ تو وہ ہے جس کے قبضے میں خود ان کی جان ہے جس کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں التا اس کائنات کا نظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے ایک ایسے ہی بادشاہ کی یہ کہانی ہے جو ملک مال جاہو اقتدار کے نشے میں اپنے بنانے والے کو ہی بھول گیا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرنے لگا تھا اسے لگتا تھا کہ اگر وہ مہر و کرم نہیں کرے گا تو کسی جاندار کو رسک نہیں ملے گا


اپنے اس عظام میں وہ اتنا بڑھ گیا کہ ہر اس شخص کو سزائیں دلوانے لگا جس نے اس کو قادر مطلق ماننے سے انکار کیا بادشاہ کی سات بیٹیاں تھی جنہیں وہ بہت چاہتا تھا شہزادیہ دی اپنے والد پر جان چڑکتی تھی اور اس کی اعتاد گزاری اپنا فرض سمجھتی تھی یوں تو ساتوں شہزادیاں ہی خوبصورت، خوبصیرت اور سادت من تھی لیکن چھوٹی شہزادی جس کا نام پری رخ تھا اپنی سب بڑی بہنوں سے خوسم و


وہ بھی اپنے والد سے بہت محبت کرتی تھی اور سادت مند بھی تھی لیکن وہ اپنے باپ کو خدائی کے درزے پر بٹھانے کی قائل نہیں تھی وہ سمجھتی تھی کہ اس کے والد ملک اور اقتدار میں کتنے ہی کیوں نہ پڑ جائے ہے تو آخر انسان ہی اور کوئی انسان قادر مطلق نہیں ہو سکتا قادر مطلق تو اللہ کے سوے کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس کی اعتاد شجر و حجر چرند و پرند چان سورت ستارے جن وانس سب کرتے ہیں جو موت اور زندگی کا مال


انسانوں کی تقدیر بنانے والا ہے اس کے والد بے شک جس کی جان چاہیں لے سکتے ہیں لیکن کسی کو زندگی دینے پر قادر نہیں ہو سکتے پری روخ کے خیالات کی اُڑتی اُڑتی خبر بادشاہ تک بھی پہجی اگر سلطنت میں کسی اور شخص کے بارے میں ایسی خبر ملی ہوتی تو گردن اُتروا دیتا لیکن بات اپنی سب سے عزیز بیٹھی کی تھی آخر تو باپ تھا کمزور پڑ گیا اس نے ایک ترقیب سوچی اپنی سات


تم سب جانتی ہو کہ تمہارے باپ یعنی ما بدولت اس کائنات کے سب سے طاقت اور قوت والے شخص ہیں ہر ایک کا سر ہمارے دربار میں جھکا ہوئا ہے ہم جس کو چاہیں نواز دیں اور جس کو چاہیں محروم کر دیں تم لوگ بتاؤ کس کی تقدیر کا خاتی ہو چھے شہزادیاں اس کے آگے سجدے میں گر گئیں اور کہنے لگیں جہاں پنا آپ ہی تو پورے جہان کو پنا اور رزک دینے والے ہیں ہم آپ کی تقدیر کا ہی خاتے ہیں


لیکن چھوٹی شہزادی نہ تو سجدے میں گری اور نہ ہی اس نے اپنے باپ کی وحدانیت کا اعتراف کیا۔ خاموش کھڑی رہی۔ بادشاہ نے پوچھا، پری رخ تم کیوں خاموش ہو؟ کیا تمہیں ہماری قدرت پر کوئی شک ہے؟ پری رخ نے عدب سے عرس کیا، والد محترم آپ ہمارے باپ ہیں، آپ کی اعتاد ہم پر فرض ہے۔ آپ بلا شبہ ایک عظیم اور طاقتور حکمرہ ہیں، لیکن کوئی کسی کی قسمت کا نہیں کھاتا۔ سب اپنی قسمت ساتھ لے کر آتے


میں بھی اپنی قسمت کا خاتی ہوں آپ صرف ایک وسیلہ ہیں ہم تک رسک پہنچانے کا پری رخ کی بات سنکر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا زور سے بولا بے بقوف لڑکی جانتی بھی ہے تُو کیا کہہ رہی ہے میں چاہوں تو تُجھے ایک وقت بھی روٹی نہ ملے شہزادی نے کہا ماف کیجیے گا اب بجان اگر میری قسمت میں رسک ہے تو مجھے ہر حال میں ضرور ملے گا بات بادشاہ کی برداشت سے باہر ہو گئی


بیٹی تھی اس کی جان لینے کا حکم تو نہیں دے سکتا تھا لیکن حکم دیا کہ شہزادی کا شاہی لباس اور زیورات اتروا لیے جائے اور معاملی کپلوں میں اس کی ذاتی کنیز کے ساتھ جنگل میں چھڑوا دیا جائے دیکھیں اسے اور اس کی کنیز کو رسک کون دیتا ہے دو دن بھوکی پیاسی رہے گی تو اقل ٹھکانیں آ جائے گی اور سجدے کرتی ہوئی واپس چلی آئے گی بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی گئی شہزادی کے تمام ز


اور معاملی لباس پہنا کر اسے اور اس کی ذاتی کنیز کو جنگل کے نزدیک بھی رانے میں چھڑوا دیا گیا۔ جہاں نہ آدم نہ آدم ذات، نہ کوئی فلدار درخت اور نہ سبزے کا فرش، نیچے پتھرینی زمین اور اوپر کہر برساتا آسمان، سبزے کے نام پر بابول کے درخت اور خاردار جھاڑیاں۔ کنیز نے اپنی چادر زمین پر بچھا دی اور شہزادی اس پر بیٹھ گئی۔ پاس کچھ بھی نہیں تھا لیکن دل میں ایمان کا نور تھا اور اللہ کی


کہ وہ اپنے بندوں کو ہر جگہ رسک دیتا ہے۔ سارا دن یوں ہی گزر گیا۔ دونوں نے ببول کے ایک درخت کے نیچے پنھا لی۔ بھوک سے آتے درد کرنے لگیں تھیں، لیکن کھانے کو دانا نہیں تھا۔ پاس میں ایک کوئہ تھا اور ایک ٹوٹا ہوگا ڈول پڑا تھا۔ کنیز نے کوئے سے پانی نکالا اور خالی پیٹ پانی پی کر دونوں لیٹ گئیں۔ نازو نیم میں پلی ہوئی فولوں جیسی نازوک شہزادی جو نرم اور آر


جس نے کبھی مخمل کالینوں سے نیچے قدم نہیں رکھا تھا جنگل بیاوان میں درخت کے نیچے پترینلی زمین پر لیٹی خدا کو یاد کر رہی تھی اور دعا کر رہی تھی کہ اے میرے مالک میرا اتنا امتحان نہ لے کہ جسے میں برداشت نہ کر سکوں نرم و نازق بدن پر خراشیں پڑ گئیں تھیں گھوک سے برا حال تھا نین تو کیا تھی اٹھتے بیٹھتے سبہ ہو گئی سر میں سخت درد ہو رہا تھا کنیز نے اپنی گود میں سر رکھ


تو شہزادی کے بالوں میں سے ایک سچا موٹی نکل کر زمین پر گرہ شہزادی کا جب سنگار کیا جاتا تھا تو بال بال موٹی پروئے جاتے تھے جنگل میں بھیجوانے سے پہلے باکشاہ کے حکم سے اس کے تمام زیورات اور بالوں سے تمام موٹی نکلوالیے گئے تھے لیکن اللہ کی قدرت کہ ایک موٹی کہیں بالوں میں علجہ رہ گیا شہزادی نے اسے غیبی مدد سمجھا اسی وقت کنیس سے کہا کہ وہ پاس کی بستی میں جائے اور موٹی کو بیچ


اسے کچھ کھانے کا سامان اور کچھ دوسرا ضرورت کا سامان کھرید لائی کنیز نے کریت کی بستی میں ایک جوہری کے یہاں یہ کہے کر موتی بیچا کہ شاہی دربار سے انام میں ملا ہے سچ موتی تھا کافی پیسے مل گئی کنیز نے کچھ کھانے پینے کا سامان خریدہ کچھ برطن ایک ایک جوڑا کپڑے اور چھوٹی موٹی ضرورت کی چیزیں سامان درخت کے نیچے رکھ کر دونوں نے کھانا کھایا سخت بھوک میں وہ معمولی


کھانہ کھا کر کچھ بدن میں جان آئی تو کنیز جنگل سے باس اور گھانس پوچھ چنکر لائی آس پاس سے پتھر اٹھائے اور مٹی کھوٹ کر دیواریں اٹھائیں ان پر باسوں اور کھپریل کی چھٹ ڈالی موٹی چھوٹی دری جو بازار سے خرید کر لائی تھی اس کا بستر بچھایا اور ایک طرف مٹی کا چولہ بنائے کر باورچی کھانہ بن گیا شہزادی نے برابر سے کنیز کی مدد کی چھت میث سر آئی اور پیڑھ بھرا تو شہزادی نے


دو ایک وقت گزرے تو شہزادی کو خیال آیا کہ موٹی سے حاصل ہونے والے پیسے تیزی سے ختم ہو رہے تھے پیسے ختم ہو گئے تو پھر کیا ہوگا اب کوئی اور موٹی ملنے والا نہیں ہے کسی کے گھر جا کر کام کرنے کا سوال نہیں تھا شہزادی کو کشیدہ کاری کا بہت شوق تھا محل میں اس نے شوقیا سیکھی تھی اور اس فن میں مہارت حاصل کر لی تھی شہزادی کے کہنے پر کنیز کچھ کپڑا ریشم اور سوی دھاگے لے کر آئی ش


اور کنیز نے لے جا کر ایک کپڑے والے کے ہاتھ بہچ دیا کپڑے والے کو کام پسند آیا اس نے کچھ اور کپڑے کشیدہ کاری کے لئے دے دیئے شہزادی دن بھر کشیدہ کاری میں مسروف رہتی اور کنیز کھانا پکانے جنگل سے لکڑیاں لانے کوئے سے پانی نکالنے کے کام انجام دیتی شہزادی کے ہاتھ سے بنے کام کو اتنا پسند کیا گیا کہ دکاندار کی عامدانی دگنی ہو گئی اب وہ مشتقل طور پر شہ


شہزادی اور کنیز کا غزارہ خوشحالی سے ہونے لگا شہزادی نے کچھ پیسہ اکٹک کر کے وہیں دو کمروں کا پکہ مکان بنوالیا ادھر بادشاہ نے دو چار دن تو انتظار کیا کہ شہزادی معتہ ٹیکتی ہوئی آئے گی گڑھگڑھائے گی اور اس کی خدہ بندی پر ایمان لے آئے گی جب ایسا نہیں ہوا تو اس سنگ دل شخص نے سمجھ لیا کہ اس کے غصے کے کہر نے شہزادی اور کنیز کو ہلاک کر دیا ہوگا شروع میں تو شہزادی


اتنی محنات اور مشکت کی وہ کہاں آدھی تھی لیکن دھرے دھرے اس نے اس نئے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیا حالات بھی بہتر ہو گئے جنگل کی تازہ ہوا اور کلی فضا میں رہ کر پری روک کا حسن اور بھی نکھر گیا ایک دن صبح ناشٹے سے فارغ ہو کر پری روک اپنے آنگن میں بیٹھی کشیدہ کاری کر رہی تھی اور کنیز جنگل سے جلانے کی لکڑی ایک ہٹک کرنے گئی تھی کہ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز س


زرع سی دیر میں ایک گھوڑا قریب آتا ہوا نظر آیا جس پر ایک نواجبان بے ہوش حالت میں پڑا ہوا تھا۔ گھوڑا پری روک کے سامنے آکر رک گیا۔ پری روک نے قریب جا کر دیکھا وہ بے ہوش نواجبان اپنے لباس اور خصنوہ جہاز سے کہیں کا شہزادہ لگتا تھا۔ لیکن یہ کیا اس کے سارے جسم پر سر سے پاو تک ہزاروں باریک باریک سوئنے چھوپ ہوائی تھی۔ وہ زندہ تھا، سانس لے رہا تھا لیکن ہوش میں نہیں تھا


کیتنے میں کنیز واپس آ گئی انہوں نے تحکیہ کہ انہیں بے ہوش شہزادے کی مدد کرنی چاہیے دونوں نے مل کر اسے گھوڑے سے اتارا اور اندر کمرے میں لے جا کر بستر پر لٹا دیا کنیز بکری کا دودھ نکال کر لائی اور پری رخ نے اس کے حلق میں بوند بوند کر کے دودھ ٹپکایا جو شہزادے نے اسی حالت میں پی لیا شہزادے کی صورت دیکھتے ہی پری رخ کے دل میں اس کیلئے محبت جاگ گئی اس نے تحکر لیا کہ


اسے واپس نئی زندگی دینے کی کوشش کرے گی اس دن سے پری روکھ نے اپنی زندگی شہزادی کی سیحت کیلئے وقت کر دی ان کے پاس اتنے پیسے جمہ ہو گئے تھے کہ وہ مہینہ بھر بغیر کام کیے گزارک کر سکتی تھی وہ صبح سے شام تک بیٹھی بیٹھی شہزادی کے جسم سے سنیا چنتی رہتی لا تعداد سنیا تھیں جنھیں چنتے چنتے پری روکھ کی امگلیاں لہو لوہان ہو گئیں ایک ماہ تک پری روکھ شہزادی کی جی جان سے


جو زخم ڈال دئیے تھے ان پر محم لگانا، سوئنیا نکالنا، دوت پلانا، اس کی سفائی سترائی کا خیال رکھنا۔ اس ایک ماہ میں وہ قد اپنے آپ سے اتنی بے خبر رہی کہ نہانے اور لباس تبدیل کرنے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ کنیز جو بھی پکا کر رکھ دیتی، کھا لیتی اور شہزادی کی خدمت میں مسروف ہو جاتی۔ اس کی محنت رنگ لائی، شہزادہ تیزی سے سہت مند ہونے لگا۔ اس کے سارے جسم کی سوئنیا نکل چکی ت


کیونکہ ابھی آنکھوں کے پپوٹوں پر چوپی ہوئی سنیا باقی تھی ان کے نکالنے کیلئے بڑی مہارت کی ضرورت تھی پری روخ کی نظر آینے پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ اس ایک مہ میں وہ خود اپنے آپ سے اتنی بے خبر رہی تھی کہ خود اپنے کو نہیں پہچان پائی کملایا ہوئے چہرا الجے اور بکھرے بال میلے کپڑے پری روخ نے سوچا پلکوں کی سنیا نکلنے کے بعد جب شہزادے کو حوش آئے گا


وہ چاہتی تھی کہ شہزادہ صرف اس کا احسان مند ہی نہ ہو بلکہ اسے پسند بھی کرے یہی سوچ کر وہ اٹھی اور گسل کرنے چلی گئی کنیز کو ہدایت کر گئی کہ وہ شہزادہ کا خیال رکھے اب وہ جو کنیز تھی وہ تھی تو پری رکھی بچپن کی ساتھی ہمیشہ اس کے ساتھ رہی تھی اور ہر حال میں اس کا ساتھ دیا تھا لیکن آخر کو ایک عورت تھی شہزادہ کو حاصل کر کے شاہی زندگی گزارنے کے لالچ نے ساری بفاداری پر پانی فیر دیا


ادھر پری روخ گسل کرنے گئی اور ادھر اس نے نیحائت حوشیاری سے شہزادی کی پلکوں کی سنیا نکال دی۔ آنکھوں کی سنیا نکلنا تھا کہ شہزادہ حوش میں آ گیا۔ شہزادے کو حوش میں دیکھ کر کنیز نے آنکھوں میں مگر مچ کے آنسو بھر لیے اور بولی خدا کا شکر ہے آپ حوش میں آ گئے میری ایک مہا کی مہنت رنگ لائی میں ایک مہا سے آپ کے جسم سے سنیا چل رہی تھی نہ کھانے کا حوش نہ سونے کا حوش دن رات جاگ ج


آکھے سکڑ کر چھوٹی ہو گئیں بال جھڑ گئے شہزادے نے ممنونیت کے احساس سے زیر بار ہو کر کہا تم جو بھی ہو جیسی بھی ہو میری نجات و ہندہ اور مسیحہ ہو تم نے مجھے اپنا بیدام غلام بنا لیا ہے میں ایک بہت بڑی مملکت کا ولی اہد ہوں جس دن میرے والد بادشاہ سلامت میری تخت نشینی کی رسم انجام دینا چاہتے تھے اسی دن صبح میری سوتیلی ماہ اور سوتیلے بھائی نے


ایک جادوگر کو بے اندازہ مال و دولت کا لالج دے کر ایسا جادو کروایا کہ میرے سارے جسم میں ٹی سینسی اٹھنے لگیں پھر مجھے کچھ حوش نہیں رہا تم بتاؤ تمہیں میں کس حال میں اور کہاں ملا کانیز بولی آپ گھوڑے کی پشت پر بےحوش پڑے تھے گھوڑا آپ کو یہاں لے آیا شاید ہم دونوں کا ملنا اسی طرح خدرت کو منظور تھا میں نے اور میری نوکرانی نے مل کر آپ کو گھوڑے سے اتارا تب سے میں نے آپ کی خدمت


شہزادہ جس نے اپنا نام بہرام بتایا تھا بولا میں ساری عمر بھر تمہاری ناز اٹھاؤں تو بھی تمہارے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتا لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم کون ہوں اور اس ویرانے میں کیوں رہ رہی ہو کنیز نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا میں بھی اپنے ملک کی شہزادی ہوں میرے والد حضور نے کسی بات پر ناراض ہو کر مجھے یہاں ویرانے میں ڈلوہ دیا ہے شہزادے نے کہا تم فکر مطر کرو میں تمہیں اپنے


اور تمہیں اپنی رانی بنائے کر رکھوں گا زرا میرے جسم میں تاکت آجائے تاکہ میں اپنے دشمنوں کو جہنم رسید کر سکوں اس وقت پری روخ نے کمرے میں قدم رکھا اس کے لمبے سیحہ بال اس کے شانوں پر لہرا رہے تھے چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا بغیر کسی سنگار کے اس کا قدرتی سادہ سا خسن قیامت ڈھا رہا تھا کمرے کا منظر دیکھ کر اس کی ہرنی جیسی آنکھیں دہشت زدہ سی رہ گئیں


کنیز نے یہ منظر دیکھا تو اسے اپنا پلان فھیل ہوتا نظر آیا ڈاڈ ڈپٹ کر بولی خڑی کھڑی میرا مو کیا دیکھتی ہے جا اور ہمارے لیے کھانہ تیار کر دیکھتی نہیں کہ میری دن رات کی مہنت رنگ لائی ہے شہزادے کو حوش آ گیا شہزادے نے چوک کر کنیز کو دیکھا اور احسان مندی کے اظہار کے لیے اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا لیا پری روخ میں برداشت کی تاب نہیں رہی وہ بھاک کر


بازی پلٹ چکی تھی کنیز نے اس طرح شہزادے کو اپنے جال میں فسایا تھا کہ اس کے احسانوں سے گلے گلے دب گیا تھا ادھر شہزادے نے کنیز سے پوچھا یہ لڑکی کون ہے کنیز بولی میری نوکرانی ہے اس کی گریب ماہ بچپن میں ہی اسے محل میں فروکت کر گئی تھی تب سے ہم نے اسے اپنی خاص خادماؤں میں شامل کر لیا تھا اور یہاں بھی ابا حضور نے اس کو ہمارے ساتھ بھیج دیا شہزادے آپ اس کی طرف زیادہ تبجیمت دیجئے


یہ چھوٹے لوگ بڑے کمینے ہوتے ہیں شہزادوں کو اپنے جال میں فسانا انہیں خوب آتا ہے شہزادہ مسکر آیا اتمینان رکو میری نظر میں تم میری محسنہ ہو اور دنیا کی سب سے خوب سورت عورت ہو کہنے کو تو شہزادہ نے کہہ دیا لیکن پری روخ کی مہینی سورت نظروں میں بسکر رہ گئی تھی ایک عجیب سی بے چینی محسوس کر رہا تھا کنیس کی شاتر آنکھوں نے فوراً شہزادہ کی حالت کو تار دیا اب پ


سب سے بڑی رکابت محسوس ہونے لگی۔ ایک ایسا کھانتا جسے جتنی جلدی ہو سکے نکالنا ہی بہتر ہوگا۔ اس کے شیطانی دماغ نے ایک ترقیب سوچی اور اگلے ہی دن اس پر عمل کر ڈالا۔ شہزادہ جب بے ہوش حالت میں آیا تھا تو اس کے گلے میں موتیوں کی مالا اور بازو میں جوارات جڑے سونے کے بازو بنتھے۔ پری رکھنے جب اس کی سویہنے نکالنی شروع کی تھی تو یہ زیبرات اتار کر سمحل کر رکھ دئی


اور پری روخ کو اس نے جنگل میں لکڑی لانے کے لیے بھیجا ہوا تھا تو کنیز زیورات لے کر بستی میں پہنچی اتنے دن میں وہ بستی کے ایک ایک آدمی کو جان گئی تھی کیونکہ بازار کا سارا کام تو وہی کرتی تھی پری روخ تو گھر پر ہی رہتی تھی کنیز کو معلوم تھا کہ اس بستی میں بھی ایک بڑا جادوگر رہتا تھا ایک بار کنیز اپنی آزادی اور خوشحالی کے لیے اس سے مدت لینے بھی گئی تھی لیکن جادوگر نے پ


مگر اب اس کے پاس بہت مال تھا وہ سیدھے جادوگر کے پاس گئی اور شہزادے کی مالہ اور شہزادے کی مالہ اور بازوبند اس کے سامنے ڈالتے ہوئے کہا لے یہ رکھ اور کچھ ایسا جادوگر کہ میری سوتھ چڑیا بن جائے میں اسے مروانہ نہیں چاہتی کہ یہ گناہ ہے لیکن اس کا بجود برداشت نہیں کر سکتی جادوگر کی ہریس نگاہیں زیبرات پر گڑی ہوئی تھی اس نے جلدی سے سارے زیبر سمیٹے اور سرکھ س


تیرا کام میں ضرور کروں گا لے یہ چھوٹی سی کیل لے جا کسی طرح یہ کیل اپنی سودھ کے سر میں ٹھوک دے بس وہ ہمیشہ کے لیے چڑیا بن جائے گی اور تیرے راستے کا کانٹا نکل جائے گا کنیز جب گھر پہنچی تو شہزادی پری روخ جنگل سے لکڑیاں چنکر واپس آ چکی تھی اس کی زکمی انگلیوں سے خون ٹپک رہا تھا جنہیں وہ پانی سے دھو رہی تھی شہزادہ ابھی محو خواب تھا شہزادی کی حالت


کہ اس نے زمیر کو ٹھپک کر سلا دیا کمال مکاری سے وہ پری رکھ کے پاس آئی اور بولی شہزادی تمہاری حالت دیکھ کر میرے دل بہت دکھتا ہے لیکن کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں شہزادے کو میں دل و جان سے چاہنے لگی ہوں اور تم جانتی ہو محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے شہزادی کچھ نہیں بولی ایک کنیز کے آگے گڑھ گڑھانا اس کی خود داری اور غیرت سے بائیت تھا آنکھوں میں آنسو بھرے


کنیز نیحائید مکاری سے اس کے پاس آئی اور جھوٹی ہمدردی جتاتے ہوئے بولی شہزادی یہ تم نے اپنا کیا حل بنا رکھا ہے بال دیکھو کیسے روکھے اور اُلجے ہوئے نظر آتے ہیں یقینن تمہارے سر میں بھی درد ہوگا لاو میں تمہارے سر میں تیل لگا کر سلجا دوں شہزادی کے سر میں باقی جنگل کی دھوپ سے سخت درد ہونے لگا تھا اس نے کوئی مزاہ مطنہ نہیں کی کنیز نے اس کے سر میں تیل لگایا اور بال سل


جادوگر کی دی ہوئی کیل اس کے سر میں گار دی شہزادی کے مو سے ایک سسکاری نکلی اور دوسرے ہی لمحیں وہ ایک خوبصورت چڑیا میں تبدیل ہو گئی چڑیا نے کہا کنیز مجھے اپنے مالک حقیقی پر پورا بھروسہ ہے وہ مظلوم کی آگ کبھی زائیہ نہیں جانے دیتا تیرا تو وہ حشر ہوگا کہ لوگ عبرت کریں گے اتنا کہہ کر چڑیا اڑ گئی کنیز اپنی کامیابی پر شادہ و فرہہ شہزادے کے پاس پہچے


کنیز نے اپنے چہرے پر مسنوی گھبرہت تاریے کرتے ہوئے کہا غضب ہو گیا شہزادے میں ضروری کام سے بازار گئی تھی پیچھے سے میری نوکرانی آپ کی موتیوں کی مالہ اور بازو بند چھرا کر فرار ہو گئی شہزادہ چوک گیا نہیں نہیں تمہیں یقیناً غلط فیمی ہوئی ہے وہ بھولی بھالی ماسوم سی لڑکی گنہگار نہیں ہو سکتی کنیز تڑھکر بولی تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں آپ بھی اس کی بھولی


یہ کمین لوگ اپنی اوقات دکھائی دیتے ہیں وہ تو آپ کو بھی لبھانے کے چکر میں تھی جب یہاں ڈال گلطی نظر نہیں آئی تو اس نے زیورات پر ہاتھ ساف کر دیا مُس سے زیادہ اسے کون جانے گا بچپن سے دیکھا ہے اسے چند دن میں شہزادہ پوری طرح سحتمند ہو گیا تو اسے اپنی سلطنت کی فکر ہوئی وہ کنیس کو لے کر اپنی سلطنت میں آیا اور ایک دوست کے گھر قیام کیا سلطنت کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا لوگوں نے شہزادہ


دلعور نے بادشاہ سلامت کو قید میں ڈال دیا تھا اور قد بادشاہ بن بیٹھا تھا ریایا اس کے ظلم ستم اور آئیاشیوں سے پریشان تھیں شہزادہ نے اپنے دوست کو سارا قصہ سنایا کہ کس طرح دلعور نے اسے مروانے کی ساجش کی تھی اور کسے شہزادی نے اسے نئی زندگی دی اس کا بالبال اس کے احسان میں بندہ اگا تھا جس کا بدلہ اسی طرح دیا جا سکتا تھا کہ اس سے شادی کر کے اسے اپنی ملکہ بنالے دوست نے کہا وہ تو س


لیکن یہ لڑکی تو کسی طرح بھی کہیں کی بھی شہزادی نہیں لگتی سورت شکل تو اللہ کی بنائی ہوئی ہے لیکن میری بی بی کہہ رہی تھی کہ اس کے طور طریقے بھی شاہی خاندان جیسے نہیں ہے شہزادے نے کہا اب جو کچھ بھی ہے وہ میری محسنہ ہے خیر اس بات کو چھوڑو اس وقت میرے سامنے سب سے اہم کام یہ ہے کہ کیسے اپنے بفاداروں میں پہنچوں اور ریایہ کو یہ یقین دلاؤں کہ میں زندہ ہوں ہمیں فوج سے بھی رابطہ کر


مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اس وقت تک یہ لڑکی تمہارے گھر میں رہے گی دوست نے یقین دلائیہ کہ وہ جان اور مال کے ساتھ ہر طرح اس کا بفادار اور مددگار رہے گا شہزادہ نے اپنے کچھ بفادار اعداداروں سے خوفیہ ملاقاتے کی وہ سب شہزادہ کو زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دل و جان سے شہزادہ کی مدد کا وعدہ کیا فوج کا وڑا حصہ بے شہزادہ بحرام بکت کا بفادار نکلا شہزادہ کے روز


کبھی کہیں لیکن جہاں بھی ہوتا اور جب آرام کرنے لیٹتا تو ایک خوبصورت سی چڑیا اس کی کھرکی یا روشن دان میں آ کر بیٹھ جاتی شہزادے کی طرف دیکھتی رہتی اور اپنی باریک سی میٹھی آواز میں کوئی نگمہ گاتی رہتی شہزادے کے تھکے ہوئے ذہن کو اس چڑیا کی موجودگی اور آواز سے بڑا سکون ملتا اور وہ سو جاتا باز بکت شہزادے کو حیرت بھی ہوتی تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے کی تق و دو میں وہ مختلے مقام


صبح کہی ہوتی تو رات کہی اور پھر یہ چڑیا کس طرح ہر جگہ اس کے پاس پہچ جائے کرتی تھی ایک دن شہزادہ نے گور سے سنا تو اس کی سمجھ میں آیا کہ یہ چڑیا تو انسانوں کی زبان میں گا رہی تھی اس کا گیت تھا جو باندی تھی وہ بی بی بن گئی بی بی تھی وہ باندی جنگل جنگل ارتی ہے پیہو پیہو کرتی ہے شہزادہ اس چڑیا کے بارے میں جاننا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس وقت نہیں تھا کئی مہا کی جد و جہت کے بعد


شہزادہ بحرام بخت ایک بڑی فوج تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا ادھر دلعور بخت کو بھی سنگن مل چکی تھی کہ بحرام مرہ نہیں زندہ ہے اور اس پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے چنانجہ دلعور نے بھی اپنی فوج کی تربیت شروع کر دی وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ زیادہ طرح فوجی اس سے نفرت کرتے ہیں اور یہ ارادہ کر چکے ہیں کہ اگر لڑائی چڑی تو وہ بحرام بخت کا ساتھ دیں گے آخر وہ دن آہی گیا جب دونوں شہزادوں کی


ایک کھلے میدان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے آمنے سامنے صف بستہ ہو گئی جنگ شروع ہوئی لیکن زراہی دیر میں میدان کا نقشہ ہی بدل گیا شاہی فوج دلعور کو چھوڑ کر بہرام کے ساتھ مل گئی شان تک فیصلہ ہو چکا تھا دلعور اور اس کے بفدار ساتھی جنگ میں مارے جا چکے تھے بہرام بخت فاتح کی حیثیت سے قلعے میں داخل ہوا ہر طرف مبارک سلامت کا شور بلند ہونے لگا فولوں کی بارش ہ


بہرام بخت نے سب سے پہلے تحخانے سے اپنے والدین کو باہر نکالا رو رو کر دونوں کی حالت دگرگوں تھی دونوں کو تخت پر بٹھایا پھر اپنی سوتیلی ما سے مخاطب ہوا آپ دھی میری ماہ ہیں آپ نے اور آپ کے بیٹے نے میرے اور میرے والدین کے ساتھ جو کیا اس کا فیصلہ میں اللہ پر چھوڑتا ہوں افسوس کہ آپ کا بیٹا جو قدار اور باگی تھا وہ میدانِ جنگ میں مارا جا چکا ہے میری آپ سے یہی گزارش ہے کہ اپنی ب


چھوٹی ملکہ عز حد شرمندہ تھی اس کے پاس تو بولنے کو الفاظ بھی نہیں تھے اس نے بادشاہ اور ملکہ سے معافی مانگی اور اپنے حجرے میں جا کر بند ہو گئی اللہ کی لٹھی بے آواز ہوتی ہے اسی رات حجرے پر بجلی گری اور وہ جل کر خاک ہو گئی بادشاہ نے بڑی دھوندھام سے شہزادے کی تخت نشینی کی رسم عدا کی سارا شہر سجایا گیا اور غریبوں اور محتاجوں میں دولت تقسیم کی گئی


ان تمام کاموں سے فرصت پاکر شہزادے کو شہزادی بنی ہوئی کنیز کا خیال آیا بہرام بخت نے اپنا سارا واقعہ اپنے والد کو سنایا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ چائے کیسی بھی ہے تمہاری محصنا ہے اور ہم بھی اس کے احسان مند ہیں کہ اس کی وجہ سے ہمیں ہمارا بیٹا مل گیا محل میں بہرام بخت کی شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھی کنیز بہت خوش تھی اور اپنے روپ رنگ کو نکھارنے کے لیے طرح طرح کے نسکے آدمہ


ایک عجیب طرح کی بیچینی، بیکلی اس کے آساب پر تاری تھی۔ جیسے کہیں کچھ غلط ہو رہا ہو، وہ دونوں ہاتوں سے اپنا سر تھامے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اسی چڑیا کے گانے کی آواز آئی۔ شہزادے نے چوکر دیکھا چڑیا کھڑکی میں بیٹھی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ نا جانے کس جذبے کے تحت بہرام اٹھا اور کھڑکی کے پاس چلا آیا، لیکن چڑیا نہ ڈری نہ اڑی


جنگل جنگل اُڑتی ہے پیہو پیہو کرتی ہے شہزادہ نے ہاتھ بڑھایا چڑیا فدک کر اس کے ہاتھ پر بیٹھ گئی شہزادہ اپنی انگلیوں سے اس کے پر کو سہلاتا رہا سہلاتے سہلاتے اس کی انگلی چڑیا کے سر پر پڑی تو اسے کچھ سکت سی چیز محسوس ہوئی شہزادہ نے سوچا کہ شاید اس بیچاری کے سر پر کوئی کانٹا چھپ گیا ہوگا اسی لیے یہ رو رہی ہے شہزادہ نے کانٹا نکالنے کی کوش


شہزادہ سوچنے لگا یہ کیل چڑیا کے کیسے چپ گئی نکالے یا نہ نکالے نکالے گا تو بڑی تکلیف ہوگی تب ہی چڑیا بولی نکال ڈالیے شہزادے حیرزدہ شہزادہ کیل کو نکالنے کی کوشش کرنے لگا جیسے ہی کیل نکلی سہر کا اثر ختم ہوا اور پری روخ اپنے اصلی روپ میں آ گئی شہزادہ حیران رہ گیا کنیز تم تم اس حال میں کیسے تم تو میرے زیبر لے کر بھاگ گ


خدا کے لیے مجھے کنیز کہہ کر میرے خون کی بیزت ہی نہ کیجئے اور نہ ہی میرے اوپر چوری کا جھوٹا علظام لگائیے۔ شہزادہ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ اس نے کہا یہ معجرہ کیا ہے تم ہی کچھ بتاؤ۔ پری رخ نے شروع سے آخر تک ساری رودات کہہ سنائی اور بتایا کہ وہ زبر دراصل میری کنیز لے گئی تھی جس کے بدلے اس نے جادوگر سے مجھے چڑیا بنانے کے لیے جادو کی کیل حاصل کی اور دھوکے سے میرے سر میں 


ساری بات جان کر شہزادہ بہرام بخت مارے تیش کے کامپنے لگا چہرہ سرک ہو گیا اور تلوار اٹھا کر بولا میں ابھی جا کر اس احسان فراموش مکارا کے دو ٹکڑے کیے دیتا ہوں پری رخ نے اس کے ہاتھ سے تلوار لیتے ہوئے کہا شہزادے آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایک معمولی کنیز کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اس کے سب سے بڑی سزا یہ ہوگی کہ کسی فقیر سے اس کی شادی کر دیں رانی بننے کے خواب دیکھ رہی تھی


تیرے میرے ٹکنوں پر زندگی گزارے گی۔ شہزادہ پری رکھ کی بلند خیالی سے اور بھی زیادہ متاثر ہوا۔ باقی شہزادی تمہارا دل بہت بڑا ہے کہ اپنی بت ترین دشمن کی بھی جان بکشی کا حوصلہ رکھتی ہو۔ شہزادہ پری رکھ کو لے کر اپنے والدین کے پاس آیا اور انھیں شہزادی پری رکھ کی ساری بیبتہ سنائی۔ بادشاور ملکہ پری رکھ کے حسنے اور حسنہ اقلاق سے از ہد متاثر ہوئے۔ شہز


اور کنیز کو ایک فکیر کے ساتھ بھیہ دیا گیا اس حکم کے ساتھ کہ آئندہ اس کا سائیہ بھی مہل میں نہ پڑے شادی کے بعد ملکہ پری رخ بادشاہ بہرام بخت کے ساتھ اپنے والد سے ملنے گئی اور ان کو بتایا کہ اب تو آپ کو یقین ہو گیا ہوگا کہ ہر شخص صرف اپنی تقدیر کا خاتہ ہے آپ نے تو مجھے جنگل میں فکوہ دیا تھا اور لوٹ کر بھی کبھی خبر نہیں لی لیکن میرا اللہ میرے ساتھ تھا اور ساتھ ہے


جب کسی کا سہارہ نہیں ہوتا تو صرف اللہ کا سہارہ ہوتا ہے میرے رب نے مجھے حمت اور طاقت دی کہ وقتی صوبتوں کا سامنا بہدوری سے کروں اور آخر میں اسی خدا نے میری قسمت سوار دی آج میں آپ سے بھی بڑی سلطنت کے بادشاہ کی ملکہ ہوں آپ سے میری یہی ارض ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سمحل جائیے توبہ کرنیجیے اور اس رب پر ایمان لے آئیے جو سب کا پالنے والا ہے بادشاہ اس عرصے میں متعدد بیماریوں کا شکار ہو چکے تھے


اور اپنے قدائی دعوے پر شرمندہ تھے۔ ان کی بیماریاں لا علاج تھی۔ اب ان کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ جب وہ اپنے آپ کو سحت نہیں دے سکتے تو خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔ ان کی بڑی چھے بیٹیوں کی ابھی تک شادیہ نہیں ہوئی تھی۔ بادشاہ نے رو کر پری روک سے معافی مانگی اور اس خدای واحد کے آگے سچ دل سے سجدے میں چھک گئے جو سب کا بنانے اور پالنے والا ہے۔ بحرام اور پری روک نے اپنی تمام بہنوں کی شادیہ امیروں اور و


بادشاہ نے اپنی سلطنت بھی بہرام بخت کو سوپ دی کیونکہ اب وہ اپنی باقی زندگی توبہ اور عبادت میں گزارنا چاہتے تھے انت بھلا تو سب بھلا 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow