حاسد لڑکی کی کہانی

حاسد لڑکی کی کہانی

Oct 17, 2024 - 14:46
 0  3
حاسد لڑکی کی کہانی
حاسد لڑکی کی کہانی


اسسلام علیکم پیارے دوستو بہت پرانی بات ہے کسی شہر میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ بہت ہی نیک اور رحم دل تھا اپنی ریایا کا خیال ایسے رکھتا تھا جیسے لوگ اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہیں اسے ہر وقت یہ فکر رہتی تھی کہ کہیں اس کی سلطنت میں کوئی دکھی یا ضرورت منتو نہیں ہے اس نے اپنے افسروں کو تاکیت کر رکھی تھی کہ لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں


اور شکائت کا موقع نہ دے لیکن پھر بھی مطمئن نہیں ہوا تھا اسی لیے روز رات کو بھیس بدل کر شہر میں گشت کرتا تاکہ پتہ لگا سکے کہ اس کی سلطنت میں کوئی ضرورت منت نہیں ہے ایک رات وہ شہر میں گشت لگا رہا تھا تو ایک چھوٹے سے مکان کی خرکی سے آتی ہوئی کچھ لڑکیوں کی آوازیں سن کر رک گیا کمرے میں تین بہنیں بیٹھی بات کر رہی تھیں ایک نے کہا اگر میری شادی

بادشاہ کے باورچی سے ہو جائے تو مزہ آجائے کھانا بھی نہ پکانا پڑے اور دنیا بھر کے مزے مزے کے کھانے کھانے کو ملے دوسری لڑکی نے کہا اگر میری شادی بادشاہ کے شاہی درزی سے ہو جائے تو مجھے بڑھیا بڑھیا کپڑے پہننے کو ملے تیسری لڑکی کچھ نہیں بولی تو اس کی بہنیں اس کے پیچھے پڑ گئیں تم بھی بتاؤ تم کیا چاہتی ہو اس نے کہا میں تو چاہتی ہوں کہ میری شادی


تو میرے تو ایشی ایش ہو جائیں گے۔ اس کی بہنوں نے خوب اس کا مزاق اڑایا ذرا ان کی حمد تو دیکھو بادشاہ سے شادی کرنے چلی ہے بادشاہ نے سب کچھ سنا اور واپس چلے گئے اگلے دن دربار میں انہوں نے نوکر بھیج کر تینوں بہنوں کو بلوایا ڈرتی ڈرتی تینوں آئیں بادشاہ نے پوچھا بتاؤ رات کو تم لوک کیا بات کر رہی تھی تینوں ڈر سے کامپنے لگیں پہلے تو نہیں نہیں کرت


آخر میں دونوں بڑی بہنوں نے اپنی خواہش بتا دی بادشاہ نے چھوٹی بہن سے پوچھا سچ سچ بتاؤ تم نے کیا کہا تھا پہلے تو وہ یہی کہتی رہی کہ اس نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن پھر اسے سچائی بتانی ہی پڑی بادشاہ نے اسی وقت اپنے باورچی اور درزی کو بلایا اور دونوں بڑی بہنوں کا نکاح ان سے کروا دیا اور چھوٹی بہن سے خود نکاح کر لیا بڑی بہنیں تو جل بھن کر کوئلہ ہو گئی


اپنی خواہش پوری ہونے کی خوشی نہیں ہوئی جلن اس بات کی تھی کہ چھوٹی بہن تو ملکہ بن کر ان کی مالکن بن گئی اور وہ اس کے نوکروں کی بیویاں بن کر رہ گئی حالانکہ چھوٹی بہن نے کبھی ان کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا ہمیشہ چھوٹی بہن کی طرح ہی برتاو کرتی رہی کیونکہ وہ فترتن سادہ اور نیک لڑکی تھی لیکن بہنے تو ہر وقت انگاروں پر لوٹتی رہتی اور اسے نیچہ دکھانے کے بحانیں تلاش کر


لیکن کسی کے اولاد نہیں تھی اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چھوٹی ملکہ امید سے ہو گئی بادشاہ کی خوشی کا کیا ٹھیکانہ ملکہ کی قدروں منظلت اور بھی بڑھ گئی بادشاہ ہر وقت اس کی خوشی کا خیال رکھتے اور بہنوں کے سینوں پر سامپ لوٹتے جب ولادت کا وقت آیا تو ملکہ نے بادشاہ سے کہا میری بہنوں کو بلا دیجئے جس طرح وہ میری دیکھبھال کریں گی اس طرح کوئی نہیں کر سکتا بادشاہ کو تو


انہوں نے فورا دونوں بہنوں کو بلوایا اور کہا کہ ولادت ہونے تک ملکہ کے پاس رہو اور ان کا پورا خیال رکھو اگرچہ بادشاہ ملکہ کی بہنوں کو پسند نہیں کرتے تھے انہوں نے کئی بار ملکہ کو حشیار بھی کیا تھا کہ آپ کی بہنیں حسد کی آگ میں جل رہی ہیں ان سے خبردار رہے لیکن ملکہ نے کہا وہ میری ما جائی ہیں ہو سکتا ہے انہیں میرا ملکہ بن جانا پسند نہ آیا ہو لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ مجھے نقصان پہنچانے کے بارے میں س


آخر وہ میرا خون ہے۔ غرز ملکہ کو اپنے اس یقین کی قیمت چھکانی پڑی۔ ملکہ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ بہنوں نے شاہی دائیہ کو عشرفیوں کا لالچ دے کر مجبور کیا کہ وہ بچے کو مار دے اور اس کی جگہ دو کتے کے نو زائدہ بچے رکھ دے۔ دائیہ لالچ میں آ گئی، اس نے ایسا ہی کیا لیکن اس میں کچھ انسانیت باقی تھی۔ اس نے بچے کو مارنے کے بجائے اسے ایک ٹوکری میں رکھ کر ندی میں با


تاکہ کم سے کم جان سے مارنے کا گناہ اس کے سر نہ جائے۔ ادھر بادشاہ بیتابی سے بلادت کا انتظار کروئے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ملکہ نے دو کتے کے پلوں کو جنم دیا ہے تو ان کے دوخ اور حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ پہلے تو انہیں یقین نہیں آیا۔ لیکن جب اپنی آفوں سے ملکہ کے پاس پاللے میں دو کتے کے بچوں کو پڑے دیکھا تو یقین کرنا پڑا۔ اور گسا بھی آیا کہ یہ کیسی عورت ہے جو جانوروں کے بچوں کو


انہوں نے کتے کے پلوں کو مہل سے باہر فکر دیا ملکہ کا الگ غم سے برا حال تھا اسے خود اپنے آپ سے نفرت ہو گئی تھی بہنے تو یہ کارنامہ انجام دے کر اپنے اپنے گھر سے دھاری اور بادشاہ کافی دن تک ملکہ سے ناراض رہے پھر بات پرانی ہو گئی ملکہ دوسری دفعہ امیث سے ہوئی تو بادشاہ نے تمام وید حکیموں کو دکھا کر پوری احتیاط کروائی دوا بھی ہوئی دوا بھی کی


جیسے جیسے ولادت کے دن قریب آ رہے تھے ملکہ خوف سے پیلی پڑتی جا رہی تھی کہ اگر اب کے کچھ گڑھ بڑھ ہوئی تو بادشاہ اسے نکال باہر کریں گے۔ ولادت کا وقت قریب آیا تو پھر دونوں کو دیکھ بھال کے لیے بلوالیا گیا۔ بہنے وظاہر بڑی ہمدردی دکھاتی اور اندر ہی اندر ملکہ کو ڈراتی کہ لکھتا ہے تم پر کسی آسیب کا سایا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر کچھ گڑھ بڑھ ہو جائے۔


غرز بلادت کا وقت آیا تو وہی ڈائیہ بلایئی گئی اب کے فرملکہ کے یہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا بہنوں نے ڈائی کو دوگنا اعنام دے کر مجبور کیا کہ اسے بھی ٹھکانے لگا دے اور اب کے بلی کے تین بچے رکھ دئیے گئے ڈائیہ کا زمیر ابھی زندہ تھا وہ دوسری مرتبہ یہ کام کرنے پر راضی نہیں تھی لیکن ان دونوں نے دھمکایا کہ ہم تمہاری پول کھول دیں گے اور سارا الظام تمہارے سر رکھ دیں گے


ہم ملکہ کی بہنے ہیں ہم پر کسی کو شک نہیں ہوگا دایا آپ کے لالت سے زیادہ خوف کی وجہ سے پھر یہ ظلم کرنے پر آمادہ ہو گئی لیکن اس بار بھی اس نے بچے کو مارنے کے بجائے اسی طرح ٹوکری میں رکھ کر ندی میں باہ دیا بادشاہ خوشخبری سننے کے لیے محل میں ٹہل رہے تھے جب اُنہیں اتلاع ملی کہ آپ کی بار ملکہ نے بلی کے بچوں کو جنم دیا ہے بادشاہ سخت بد مزہ ہوئے گساوی آیا کہ یہ


جو انسان کے بچوں کے بجائے کتے بلی کے بچوں کو پیدا کرتی ہے ملکہ کا رو رو کر برا حال ہو گیا بہنے جھوٹے آنسو باہ کر چلتی بنی بلی کے بچوں کو بھی مہل سے باہر پھکو با دیا گیا سارے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ ملکہ کے یہاں کتے بلی کے بچے پیدا ہوتے ہیں اب کے بادشاہ نے بہت دن تک ملکہ کی صورت نہیں دیکھی بہنے بہت خوش تھی بار بار آکر جھوٹی ہمدردی جتاتی رہت


کئی مہا گزر گئے تو بادشاہ نے پھر ملکہ کے محل میں آنا جانا شروع کر دیا انہیں بھی اپنی اس خوبصورت اور کمسن ملکہ سے محبت ہو گئی تھی جو کچھ ہو گیا اسے وہ قسمت کا لکھا سمجھ کر بھولنے لگے تھے ملکہ پھر مہ بننے والی تھی اس بار دواوں سے زیادہ دواوں تاویز اور گنڈوں کا سہارہ لیا گیا ہزاروں مننت مراتم مانی گئی ملکہ کی حالت ڈر کے مارد دگرگوں تھی وہ جانتی تھی کہ اب


تو اس کا محل سے نکالا جانا یقینی ہے پھر پیدایش کا وقت آیا اور پھر سے ملکہ کی بہنوں کو بلایا گیا بہنوں کو تو یہی ناغاور تھا کہ بہن کا اجلا گھر پھر سے بسکیں سے گیا شاہی دایا نے ساف انکار کر دیا تھا کہ اب کے وہ کچھ نہیں کرے گی دونوں نے دھمکی دی کہ اگر ہماری بات نہیں مانی تو فاسی پر لٹکا دی جاؤ گی بادشاہ پر اگر ہم نے شبابھی ظاہر کر دیا کہ ان کے بچوں کو مارنے میں تمہارا ہاتھ تھا تو تم


دائیہ نے ایک بار پھر اپنے زمین کا گلہ گھٹ دیا اب کے ملکہ نے ایک چاند سی بیٹی کو جنم دیا اس بار بھی بچی کو مارنے کا حکم ملا اور دائیہ نے بچی کو بھی ندی میں باہ دیا اس مرتبہ ملکہ کے پاس ایک سفید رنگ کا چکنا پتھر رکھ دیا اور بادشاہ کو بتایا کہ ملکہ نے ایک پتھر کو جنم دیا ہے بادشاہ کے سبر و زبت کی کوئی حد نہیں رہی انہوں نے حکم دیا کہ یہ عورت نہیں کوئی بدروغ ہے


اسے مہل کی چھت پر کوقے ہاکنے کیلئے بٹھا دو اب یہ باقی زندگی کوقے ہاکیں گی بادشاہ کے حکم کی تامیل کی گئی روتی بلکتی ملکہ کو تاٹ کے کپڑے پہنے کر مہل کی چھت پر بٹھا دیا گیا بہنے بظاہر جھوٹی ہمدردی دکھاتی مگر مچ کے آسو باہاتی اور دل ہی دل میں خوشیاں مناتی اپنے اپنے گھروں کو صداری اب کے ملکہ کو پہلی بار اپنی بہنوں پر شک ہ


اس نے بھی سنی تھی پھر وہ پتھر میں کیسے بدل گیا لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا اس کے قسمت میں یہ ہی لکھا تھا کہ مہل کی چھت پر بیٹھ کر قوقے اڑائے اور لوگوں کی ملامت کا نشانہ بنے اب ادھر کا حال سنو ندی کے دوسرے کنارے پر ایک بڑھائی کا گھر تھا بڑھائی اپنی بیوی کے ساتھ ایک جھوپڑے میں رہتا تھا اس کے کوئی اولاد نہیں تھی اس کی بیوی اولاد کے لیے ترسا کرتی تھی


ایک دن بڑھائی جنگل سے لکڑی کات کر لوٹ رہا تھا اسے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی اس نے ادھر ادھر دیکھا تو کیا دیکھتا ہے کہ ندی میں ایک ٹوکری بہتی چلی آ رہی ہے جس میں ایک نو زائدہ بچہ کپڑے میں لپٹا ہوا لیٹا ہے بڑھائی نے پانی میں اتر کر ٹوکری میں سے بچے کو نکال لیا اور اپنے گھر لے آیا اس نے اپنی بیوی سے کہا دیکھ تم اولاد کے لئے رویا کرتی تھی ن


اس کی رحمت نرالی ہے وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا بیوی نے لپک کر بچے کو سمھن لیا اپنے سینے سے لگایا گھر میں ایک بکری پلی ہوئی تھی فوراً اس کا دوت پلائا تو بچہ چپ ہو گیا بڑھائی نے بیوی کو بتایا کہ اسے یہ بچہ ندی میں بہتا ہوا ملا ہے جس کپڑے میں لپٹا ہوا تھا وہ بہت قیمتی تھا بڑھائی سمجھ گیا کہ کسی امیر آدمی کا بچہ ہے نا جانے کس مجبوری کے تحت


اس ماں نے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو اپنے آپ سے جدہ کیا ہوگا بڑھائی نے اس کپڑے کو سمحال کر رکھ لیا اور دونوں میابیوی اس بچے کی پروریش کرنے لگے بچہ بہت ہی خوبصورت اور خوشمجاز تھا انہیں زرا بھی تنگ نہیں کرتا تھا وہ دونوں تو اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے تھے بچہ بڑھائی کے یہاں پلتا رہا ابھی وہ پورے دو سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک دن بڑھائی کو ویسے ہی دوسری ٹ


اور یہ بھی ایک کمتی دپٹے میں لپٹہ ہوا تھا بڑھائی اسے بھی گھر لے آیا دپٹہ سمال کر رکھ لیا اور بچہ بی بی کے سپرد کر دیا لے! تُو ایک بچے کے لیے مری جاتی تھی اللہ نے تُجھے ایک اور بچہ دے دیا بڑھائی اور اس کی بی بی بہت خوش تھے یہ بچہ بڑے بچے سے مشاہبت رکھتا تھا اس لئے انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ دونوں بچے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں دوسرا بچہ ب

بڑے بچے کو تو ایک ساتھی مل گیا وہ بھی بہت خوش تھا بڑا لڑکہ چار سال کا دوسرا دو سال کا تھا جب بڑھائی کو ایک اور بچہ ٹوکری میں بہتا ہوگا ملا یہ ایک لڑکی تھی بڑھائی نے اس بچی کو بھی اپنی بیوی کو سوپ دیا بڑھائی اور اس کی بیوی بہت خوش تھے ان کی محرومی دور ہو چکی تھی تینوں بچے بہت خوبصورت اور پیارے تھے کسی شریف خاندان کا خون معلوم ہوتے تھے اور شکل


بڑھائی اور اس کی بیوی نے انہیں اپنی صغی اولاد کی طرح پالا اور بچے بھی انہیں اپنے صغی والدین ہی سمجھتے تھے اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بڑھائی کی بیوی بیمار پڑھی اور اللہ کو پیاری ہو گئی اب بچے اکیلے رہ گئے بڑھائی دن میں کام پر جاتا اور بچے گھر میں رہتے بچے بڑے ہونے لگے دونوں بھائی اپنی بہن سے بہت محبت کرتے تھے تینوں بہن بھائی ساتھ کھیلتے ساتھ


بڑھائی نے بچوں کو لکڑی کے خوبصورت کھلوانے بنا کر دیئے تھے بچے ان گھوڑوں کو ندی پر لے جاتے اور گانہ گاتے کارٹھ کے گھوڑوں پانی پیو نہیں پیتے تب بھی پیو ایک دن بادشاہ اپنے مہل کے جھروکے میں کھڑے تھے انہوں نے دیکھا کہ تین بہت ہی پیارے پیارے بچے لکڑی کے گھوڑوں کو پانی پلانے کی کوشش کر رہے ہیں بادشاہ یوں بھی اولاد کو ترسے ہوئے تھے ان بچوں


اور بچوں سے ہسکر بولے بیٹا کہیں کات کے گھوڑے بھی پانی پیتے ہیں بڑے لڑکے نے کہا ہمارے پاس تو یہی گھوڑے ہیں ہم تو انہیں کو پانی پلائیں گے بادشاہ نے پوچھا تم کس کے بچے ہو انہوں نے کہا ہمارے اب بھا بڑھ ہی ہیں وہ سامنے ہمارا گھر ہے بادشاہ نے پوچھا تمہارے گھر میں اور کون کون ہے لڑکے نے بتایا ہمارے اب بھا کام پر چلے جاتے ہیں اور ہماری ا


ہم تینوں بہن بھائی گھر پر رہتے ہیں بادشاہ نے کہا تم تینوں مہل میں آجائے کرو ہم بھی تمہارے ساتھ کھیلا کریں گے بچوں نے کہا ہم اپنے اب با سے پوچھ کر بتائیں گے بادشاہ بچوں کی اس شاہستگی سے بہت متاثر ہوئے اگلے دن جب بچوں نے بڑھائی کو بادشاہ سے اپنی گفتگو دورہ کر مہل میں جا کر کھیلنے کی بات کی تو بڑھائی نے با خوشی اجازت دے دی اب بچے شام کو م


ان کے ساتھ کھیلتے اور اپنا گم بھول جاتے۔ بادشاہ کو تینوں بچوں سے بہت ہی محبت ہو گئی تھی۔ اُرٹی اُرٹی یہ خبر ملکہ کی بہنوں کے کانوں میں بھی پہچی۔ انہیں پہلے ہی شبہ تھا کہ ڈایہ نے بچوں کو جان سے نہیں مارا ہے اور ان سے غداری کی ہے۔ ایک دن انہوں نے محل میں جا کر بچوں کو دیکھا تو اپنی بہن کی مشاہبت سے فوراً پہچان لیا۔ انہوں نے ڈایہ کو بلا کر دھمکایا تو ڈایہ نے ساف


کہ وہ اپنے ہاتھوں بچوں کے خون سے نہیں رگنا چاہتی تھی اس لئے اس نے بچوں کو ندی میں باہ دیا تھا اب تو دونوں بہنوں کے دلوں میں پھر حست کی آگ بھڑک اٹھی اور ڈر بھی لگا کہ بچے سلامت ہیں تو کبھی بھی بھیت کھل سکتا ہے انہوں نے بچوں کو پھر ختم کرنے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ دونوں لڑکے دن میں بڑھائی کے ساتھ کام سیکھنے چلے جاتے ہیں اور لڑکی اکلی رہتی ہے ان


اور اس سے کہا کہ ایسا کچھ کرو کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے اور یہ بچیں آرہے ہیں کٹنی ایک زمانہ ساس تھی دن کے وقت بڑھائی کے گھر جا پہچی بچی اپنی مٹی کے خلوناں سے کھیل رہی تھی کٹنی بولی ویٹی تمہارے باب بھائی کہاں ہیں بچی نے جواب دیا وہ تو کام پر گئے ہیں کٹنی بولی تم تو بڑی اچھی بچی ہو بالکل شہزادی لگتی ہو اور ان مٹی کے خلوناں سے کھیلتی ہو


شہزادیوں کے پاس تو بڑیا کھلونیں ہوتے ہیں ان کھلونوں سے کھیلتی تم اچھی تھوڑی نہ لگتی ہو غرز کٹنی تو بچی کو بہکا کر چلتی بنی اور بچی روٹ کر پڑ گئی نہ کھایا نہ پیا شام کو بھائی آئے تو بہن کی زد سے پریشان ہو گئے ان کے پاس اتنا پیسا کہاں تھا کہ اچھے اچھے کھلونیں خریدتے لیکن وہ اپنی بہن کی آنسو میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے دونوں ابھی چھوٹے تھے لیکن لکڑی کا کام ا


انہوں نے بہن سے وادہ کیا کہ وہ اسے مہنگے کھلونے لا کر دیں گے اب انہوں نے سام کو بادشاہ کے یہاں جانا بھی چھوڑ دیا گھر پر بیٹھ کر لکڑی کے خوبصورت کھلونے بناتے اور انھیں بازار میں بیچ کر پیسے کھٹک کرتے آخر اس طرح پیسے جمع کر کے انہوں نے بہن کے لیے مہنگے کھلونے خریدے بہن بہت خوش ہو گئی کچھ دن بعد کٹنی نے پھر چکل لگایا بچی نے خوش ہو کر اپنے نئے کھ


کٹنی بولی، ہاں! اب ان کھلونوں سے کھیلتی، تم اچھی لگ رہی ہو لیکن تمہارے کپڑے تو بہت گھٹیا ہے شہزادیاں کہیں اتنے گھٹیا کپڑے پہنتی ہوں گی؟ تم ریشام اور کم خواب کے کپڑے پہن کر ان کھلونوں سے کھیلو گی تب اچھی لگو گی بچی پھر اس کے بہکابے میں آ گئی اور مہو لپیٹ کر پڑ گئی شام کو بھائی آئے تو انہوں نے پوچھا اب کیا ہوا؟ بچی بولی، بھائیہ


میں شہزادیوں جیسے کپڑے پہننا چاہتی ہوں بھائیوں نے کہا بہن یہ کون آکر تجھے بہکا جاتا ہے ہم غریب ہیں ہمارے پاس شہزادیوں جیسے کپڑے کھان سے آئیں گے لیکن بچی تو زد پکڑ کر بیٹھ گئی کھانہ پینا چھوڑ دیا محبت کے مارے بھائیوں نے پھر محنت مزدوری کرنی شروع کی کافی دن کی محنت کے بعد ان کے پاس اتنے پیسے جمع ہو پائے کہ وہ بہن کے لیے قیمتی


اب وہ اس بوڑی امہ کا انتظار کرنے لگی جو اسے بہکائیہ کرتی تھی تاکہ اپنے شہزادیوں جیسے کپڑے دکھا سکے اتنے دن بچوں نے بادشاہ کے محل میں جانا بھی چھوڑ دیا تھا اور ندی پر اپنے کارٹ کے گھوڑے کے ساتھ بھی نظر نہیں آئے تھے بادشاہ بہت ہی بے چین رہنے لگے انہیں بچوں سے محبت ہو گئی تھی روز ان کے ساتھ وقت گزار کر وہ اپنا گم بھول جائے کرتے تھے لیکن ان


کہ وہ کہاں رہتے ہیں اور بادشاہ ہو کر بڑھائی کے بچوں کے لئے بے چینی ظاہر کرنا بادشاہ کو زیب نہیں دیتا تھا وہ چف ہو کر بیٹھے رہے لیکن بچوں کی یاد کو دل سے نہیں نکال پائے ادھر مہینہ دو مہینہ بعد کٹنی نے پھر چکر لگایا للکی نے خوشی خوشی اپنے قیمتی کپڑے دکھائے کٹنی بولی ہاں اب تم لگتی ہو بالکل شہزادی جیسی لیکن شہزادیاں ایسے جھوپڑی کے کچ


ان کے پاس تو خوبصورت باگ ہوتا ہے جہاں سونے کے پانی کا جھرنا بہتا ہے گاتا ہوا درخت لگا ہوتا ہے اور اس پر بولتی چڑیا بیٹھی بات کر رہی ہوتی ہے جب تم ایسے باگ میں بیٹھو گی تب اچھی لگو گی کٹنی بچی کو خوب سکھا پڑا کر چلی گئی اور بچی پھر مو لپیٹ کر پڑ گئی شام کو جب بھائی آئے اور بہن کو اس حالت میں دیکھا تو فورا سمجھ گئے پھر کوئی نئی فرمایش ہوگ


کہ ان کے پیچھے کوئی آکر ان کی بھولی بھالی بہن کو بہکا کر جاتا ہے انہوں نے پوچھا اب کیا ہوا؟ بچی بولی مجھے ایسے باگ میں کھیلنا ہے جہاں سونے کے پانی کا جھرنا بہتا ہو گاتا درخت اور بولتی چڑیا ہو بھائیوں نے سمجھایا بہن کون تجھے آکر بہکا تا ہے یہ چیزیں دنیا میں نہیں ہوتیں یہ سب کہانیوں کی باتیں ہیں تم سمجھ دار ہو رہی ہو اب یہ زدہ چھوڑ دو


لیکن بچی پر تو ایسی زدہ سوار ہوئی کہ تین دن تک نہ کھایا نہ پیا اور روتی رہی آخر بڑے بھائی نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ان چیزوں کی تلاش میں اگر زندہ رہا تو یہ لے کر ہی لوٹوں گا ورنہ مرخب جاؤں گا چھوٹے بھائی اور بڑھائی نے بہت سمجھایا کہ بچی تو نہ سمجھ ہے کس دن میں بھول جائے گی تم اپنی جان جوکھیں میں مٹ ڈالو لیکن وہ نہیں مانا اور نکل کھڑا ہوا


جا تے جا تے بھائی سے کہہ گیا کہ میں شمال کی سمتے جا رہا ہوں وہ بھی بادشاہ کا بیٹا تھا اور اپنے قول کا پکا تھا پیدل چلتا گیا پاؤں میں چھالے پڑ گئے سر کے بال بڑھ گئے نازوک سا بدن سوک کر کانٹہ ہو گیا 6 مہینے کی مسافت تے کر کے وہ ایک جنگل میں پہنچا وہاں کسی فقیر کی جھوپڑی بنی ہوئی تھی وہاں ایک نورانی سورت فقیر عبادت میں مسروف تھے شام ہوئی تو انہوں نے آنکھ


لڑکے نے انہیں بزو کروایا اور خود بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے پوچھا بیٹے کون ہوں تم اور اس کم سینی میں یہ کیا حل بنا رکھا ہے لڑکے نے کہا بابا اپنی بہن سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس کی فرمایش پوری کرنے نکلا ہوں مجھے اس جگہ کا پتہ چاہیے جہاں سونے کا جھرنا گاتا درخت اور بولتی چڑیا ہو فکیر نے کہا بیٹا وہ تو جادو نگری ہے


وہاں جا کر کوئی آج تک واپس نہیں آیا لڑکی نے درخواست کی اب چاہے کچھ بھی ہو بابا مجھے وہاں جانا ہے زندگی ہے تو لوٹ آوں گا ورنہ بہن کو مو نہیں دکھاؤں گا جب لڑکا کسی طرح نہیں مانا تو فقیر نے اسے جادو نگری کا پتہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب تم اس نگری میں قدم رکھو گے تو چاروں طرف سے آوازیں آئیں گی بھاغو پکڑو چور چور


لیکن تم پیچھے مڑکر مڑکر مڑکنا اگر مڑکر دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے فکیر کا شکریہ ادا کر کے لڑکا ان کے بتائے ہوئے راستے پر نکل کھڑا ہوا چھے مہ مزید چلنے کے بعد وہ جادو نگری میں پہچا وہاں کیا دیکھتا ہے کہ یہاں سے وہاں تک پتھر کے آدمی بکھنے پڑے ہیں ذرا قدم آگے بڑھایا تو پیچھے سے آوازیں آنے لگیں چور چور پکڑو باندھو جانے نہ پائے شرو


اور ہمت کر کے بڑھتا رہا لیکن جیسے جیسے آگے بڑھا آوازیں اتنی تیز ہوتی گئی کہ اس نے بے اختیار پیچھے ملکر دیکھ لیا پیچھے ملکر دیکھا اور پتھر کا بن گیا وہاں گھر پر چھوٹا بھائی، بہن اور بڑھائی سب بہت پریشان تھے سال بھر گزر چکا تھا لڑکی بھی اب سمجھ دار ہو گئی تھی اسے احساس تھا کہ اسی کی زدکی وجہ سے بھائی درب درب ہوا ہے سال گ


اب میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا میں اپنے بھائی کو ڈھونکل لاوں گا بڑھائی نے اور بہن نے بہت منع کیا لیکن وہ نہیں مانا اس نے کہا بھائی نے کہا تھا میں شمال کی طرف جا رہا ہوں میں بھی اسی طرف جاؤں گا اور بہن کو روتا چھوڑ کر وہ انجانے سفر پر نکل گیا چھے مہینے جنگلوں پہاڑوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ بھی انھی فکیر صاحب کے کٹھیا پر پہچا اور ان سے جادو نگری


بیٹا وہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آ سکا ہے چھے مہینے پہلے تمہارا جیسا ہی ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا اور راستہ پوچھا تھا میں نے اسے بھی بہت روکا تھا لیکن اسے اپنی بہن کی ذت پوری کرنی تھی اس لیے وہ نہیں مانا اور پتھر کا بن گیا لڑکے نے کہا بابا وہ میرا بھائی تھا اب میں بہن کی ذت پوری کرنے نہیں بلکہ اپنے بھائی کو واپس لانے آیا ہوں


جب وہ نہیں مانا تو فکیر صاحب نے اس کو بھی راستہ بتا دیا اور خطرے سے آگہ کر دیا کہ اگر پیچھے مل کر دیکھا تو پتھر کے ہو جاؤ گے اللہ کا نام لے کر دوسرا بھائی بھی جادو نگری کے لیے نکل پڑا چھے مہینے کی مسافت تے کر کے جادو نگری میں پہچا اس نے بھی وہاں وہی کچھ دیکھا جو اس کے بھائی نے دیکھا تھا اسے بھی آوازیں سنائی دی چور چور پکڑو پکڑو جانے نہ پائے لیکن وہ دل کڑک کیے بڑ


یہاں تک کہ سونے کا جھرنا اسے سامنے نظر آنے لگا لیکن پھر آوازیں اتنی بڑی کہ بے اختیار اس نے بھی ملکر دیکھ لیا اور پتھر کا ہو گیا ایک سال اور گزر گیا چھوٹا بھائی بھی نہیں آیا بہن بہت پرشان تھی دو سال میں وہ سیانی ہو گئی تھی اسے یہ غم مارے ڈال رہا تھا کہ اس کے دونوں بھائی اس کی زدکی وجہ سے لاپتہ ہوئے ہے اب اس نے انہیں تلاش کرنے جانے کا ارادہ کر لیا بڑھائی بہت بودہ ہو گ


اس نے اسے بہت روکا کہ مجھے اس بڑا پے میں چھوڑ کر مچ جاؤ لیکن لڑکی نے کہا ابا مجھے جانے دے میں وعدہ کرتی ہوں اپنے دونوں بھائیوں کو واپس لے کر ہی آوں گی اسے یاد تھا کہ اس کی دونوں بھائی شمال کی سمت گئے تھے وہ بھی اس سمت میں نکل گئی چھے مہینے میں وہ بھی فکیر کی کٹھیا میں پہنچی فکیر اسے دیکھتے ہی پہنچان گئے معلوم ہوتا ہے تم ان دونوں لڑکوں کی بہن ہو


جو تمہاری زد پوری کرنے گئے تھے اور پتھر کے بن گئے اب اپنی جان کے پیچھے کیوں پڑھی ہو؟ لڑکی نے کہا بابا اب زندگی کا مقصد یہ ہی رہ گیا ہے کہ اپنی غلطی کی سزا بھکتوں یا اپنے بھائیوں کو واپس لاوں آپ مجھے دعا دیجئے اور مجھے اس نگری کا راستہ بتا دیجئے فکیر صاحب نے اسے راستہ بتایا اور دعا دی کہ کامیاب ہو جائے سارے خطروں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر تم اس جھ


تو سب سے پہلے چڑیا کے پجرے پر ہاتھ ڈالنا ساری آوازیں بند ہو جائیں گی آگے کی ساری ہدایتیں تمہیں چڑیا سے مل جائیں گی لڑکی نے فکیر صاحب سے تھوڑی سی روی لی اور ان کی دعائیں لے کر آگے چلی چھے مہا چلنے کے بعد جب وہ جادو نگری پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سجا سجایا خوبصورت شہر ہے لیکن ایک بھی جاندار نہیں ہے دکانیں خلی ہیں سامان رکھا ہے لیکن دک


مزدور مکان بنانے کو کھڑے ہیں خُرپی ہاتھ میں ہیں لیکن مزدور پتھر کے ہیں چاروں طرف پتھر کے بُت بکھنے پڑے ہیں اس نے ایک نظر میں سب کچھ دیکھ لیا پھر اپنے کانوں میں خوبصی روئی ٹھوسی اور اللہ کا نام لے کر شہر میں قدم رکھا اندر گھستے ہی چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں پکڑو پکڑو چور چور جانے نہ پائے لیکن وہ بڑتی ہی رہی آوازیں اور تیز ہوئی تو اس نے خود ہل


اپنی آواز کی تیزی میں دوسری آوازیں ہلکی پڑ گئی جب وہاں پہچی جہاں سونے کے پانی کا جھرنہ گر رہا تھا ایک طرف ایک درخت سے گانے کی آوازیں آ رہی تھی اور درخت پر ایک پنجرا ٹنگا تھا جس میں ایک چڑیا بیٹھی تھی تو آوازیں اتنی تیز ہو گئی کہ اس کے لیے اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہو گیا لیکن اس نے اللہ کو یاد کیا اور دول کر چڑیا کے پنجرے پر ہاتھ ڈال دیا


چڑیا کا پنجرا پکڑنا تھا کہ ساری آوازیں بند ہو گئیں چڑیا نے کہا خوش آمدید شہزادی آج تم نے اس شہر پر سے جادو کے اثر کو توڑ دیا تمہیں مبارک ہو لڑکی نے کہا میں شہزادی نہیں ہوں میں تو بڑھائی کی بیٹی ہوں اور اپنے بھائیوں کو واپس لینے آئی ہوں چڑیا نے کہا تم شہزادی ہی ہو وہ قصہ میں تمہیں بعد میں سناوں گی پہلے ان اللہ کے بندوں کو پتھر کی قید سے آزاد کرو


شہزادی نے پوچھا یہ لوگ واپس انسان کیسے بنیں گے؟ چڑیا نے بتایا وہ مٹکہ رکھا ہے اس میں اس جھرنے کا پانی بھرو اور سب پر چڑکو یہ سب دوبارہ انسان بن جائیں گے شہزادی نے سب سے پہلے اپنے دونوں بھائیوں پر پانی چڑکا وہ زندہ ہو گئی پھر ان تینوں نے مل کر سارے پتھر کے بھٹوں پر پانی چڑکا وہ سب کلمہ پڑھ پڑھ کر زندہ ہو گئے چڑیا ان کے ساتھ تھی اس کی ہدایت


یہاں دربار لگا تھا لیکن بادشاہ اور درباری سب پتھر کے تھے شہزادوں نے ان پر پانی چڑکا وہ سب زندہ ہو اٹھے بادشاہ نے ان تینوں کا شکریہ ادا کیا چڑیا نے بتایا کہ ایک جادوگر نے کسی بات پر بادشاہ سے ناراض ہو کر سارے شہر کی لوگوں کو پتھر بنا دیا تھا ہلوائی پکوان تل رہے تھے پکوان اصلی تھا لیکن ہلوائی پتھر کا بن گیا تھا ان تینوں نے واپس سارے شہر کو زندگی دی


بادشاہ ان کا احسان من تھا کہ انھوں نے تلس میں توڑ کر اس شہر کو دوبارہ زندگی دی بادشاہ نے ان کی واپسی کے لیے امدہ اور تیز رفتار گھوڑے فرحم کیے چڑیا کے کہنے پر شہزادی نے ایک ڈبے میں سونے کا پانی بھرا اور گاتے ہوئے درخت کی ایک ٹہنی توڑی اور وہ واپسی کے سفر پر روانہ ہو گئے آتے میں جو سفر انھوں نے سال بھر میں کیا تھا وہ گھوڑوں کی پشت پر اور چڑیا کے بتائے ہوئے دوسرے ر


راستے میں انھوں نے فکیر صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا اور ان سے دعائیں لے کر واپس گھر آ گئے بڑھائی بچوں کی جدائی میں بیمار پڑ گیا تھا انھیں واپس صحیح سلامت دیکھ کر خوش ہو گیا چڑیا کی ہدایت پر شہزادی نے ایک طالاب خدبا کر اس میں سونے کا پانی ڈالا وہ پورا طالاب پھر گیا اس کے کنارے درخت کی شاکھ لگائی وہ فورا ہی پورا درخت بن گیا پھر چڑیا کے بتانے پر انھوں نے اپنی جھوپڑے کے


تو وہاں اشرفیوں سے بھرا ایک گھڑا دبا ہوا ملا اس پیسے سے شہزادی نے طالب کے چاروں طرف باگ لگوایا اور چڑیا کے کہنے پر بادشاہ سلامت کی دعوت کی دعوت دینے وہ تینوں خود گئے پہلے تو بادشاہ انہیں پہچانے نہیں کیونکہ انہوں نے ان لوگوں کو بچپن میں دیکھا تھا اور اب یہ نوجوان تھے جب انہوں نے بادشاہ کو یاد دلائیا تو وہ پہچان گئے شہزادی نے کہا بادشاہ سلامت ہم آپ کو اپنی کٹیا پر بلان


انکار مطہی جیے گا بادشاہ اتنے سال بعد بچوں کو دیکھ کر بہت خوش تھے انہوں نے دعوت قبول کر لی جب بادشاہ بڑھائی کے گھر پہنچے تو باک کی تیاری دیکھ کر حیران رہ گئے اس پر سونے کے پانی کا طالب اور گاتا ہوا درکت تھا جس پر ایک چڑیا کا پنجرا لٹک رہا تھا چڑیا نے کہا آدھا بجا لاتی ہو بادشاہ سلامت بادشاہ تو حیرت کے سمندر میں گوٹے کھانے لگے


کسی چڑیا کو انسانوں کی طرح بولتے ہوئے انہوں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا جب کھانا چن دیا گیا تو چڑیا نے کہا ابھی کوئی کھانا نہیں کھائے گا پہلے آپ اپنے مہل کی چھت پر سے اس ملکہ کو بولائیئے جسے آپ نے قوئے ہاکنے کیلئے سالوں سے بٹھا رکھا ہے بادشاہ نے تیوری چڑھا کر کہا اسے کیوں؟ اس کے اندر تو کوئی شیطانی روح ہے جو کتے بلی اور پتھر کو جنم دیتی ہے چڑ


اور نہ ہی اس نے کھٹے بلی کے بچوں اور پتھر کو جنم دیا ہے اس نے انسان کے بچوں کو جنمہ تھا پہلے آپ اسے بلائیے ملکہ کو بلائے گیا اس کا حال خراب تھا رنگ روپ فیقہ پڑ گیا تھا رو رو کے آنکھا کمزور ہو گئی تھی بادشاہ فض اپنی عزیز ملکہ کو نہیں پہچان پائے چڑیا کے کہنے پر اسے غسل دلوائے گیا اچھے کپلیں پہنائے گئے پھر چڑیا نے کہا


کہ اب ملکہ کی ان بہنوں کو بلوائیے جو آپ کے باورچی اور درزی کی بیویاں ہے اور اس دائیہ کو بھی جو بچیوں کی پیدایش کے وقت موجود تھی بادشاہ کے حکم سے سب کو اسی وقت حاضر کیا گیا ڈر کے مارے سب کی کھگی بندی ہوئی تھی جب سب آگئے تو چڑیا نے شروع سے آفر تک ساری کہانی سنائی اور بادشاہ کو بتایا کہ یہ سب ملکہ کی بہنوں کے حسد کا نتیجہ تھا پہلی مرتبہ آپ کی یہاں لڑکا ہوا تھا


جس کی جگہ کتے کے بچے رکھ دئیے گئے دوسری دفعہ پھر لڑکا ہوا جس کی جگہ بلی کے بچے رکھ دئیے گئے ملکہ بے ہوش تھی اسے کچھ پتہ نہیں چلا وہ بھی اپنے آپ کو کسور وار سمجھتی رہی تیسری بار لڑکی ہوئی جس کی جگہ پتھر رکھ دئیے گیا ان دونوں نے تو تینوں بچوں کو جان سے مارنے کا حکم دیا تھا لیکن دایا کا زمیر زندہ تھا اس نے انہیں مارنے کے وجہے توکری میں


تینوں بچے ندی کے کنارے رہنے والے بڑھائی کو ملے جس نے ان کی پرورش کی چڑیا نے بڑھائی سے پوچھا کیا میں غلط کہہ رہی ہوں بڑھائی نے بادشاہ سلامت سے ہاتھ باند کر ارس کیا کہ یہ چڑیا بالکل سچ کہتی ہے لیکن میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آپ کے بچے ہیں الوطا میں نے وہ کپڑے سمحل کر رکھے تھے جن میں یہ بچے لپٹے ہوئے تھے بڑھائی جا کر وہ دپٹے لے آیا ملکہ نے فوراً پہ


بادشاہ سلامت یہ تینوں آپ کے بچے ہیں آپ کی اولاد ہیں آپ نے اپنی بے گناہ اور بفادار ملکہ کو پندرہ سال تک مہل کی چھت پر بٹھا کر جو اس کے ساتھ ظلم کیا ہے اب اس کی تلافی کیجئے اور ان بہنوں کو سزا دل بائیے جنہوں نے حسد میں اندی ہو کر اپنی ہی بہن کا گھر اور زندگی دونوں برباد کر دی انہوں نے تو بچوں کو مروانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی وہ تو دائیہ کے دل میں اللہ نے رحم ڈال دیا


بادشاہ فواب کسی حالت میں ساری کہانی سن رہے تھے اپنے بچوں کو گلے سے لگاتے ہوئے خوشی سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے انہوں نے ملکہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ملکہ اپنے شوہر اور بچوں کو پا کر خوشی سے کفولی نہیں سمائی بادشاہ نے ملکہ کی بہنوں کو قتل کرنے کا حکم دیا لیکن ملکہ نے خشامت کر کے اپنی عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی جان بکشوائی لیکن انہ


دائیہ کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس کی خدا ترسی کی وجہ سے بادشاہ کو اپنے تینوں بچے سلامت مل گئے بڑائی کو مہل میں رہنے کیلئے مکان دیا گیا بچے ہمیشہ باپ کی طرح اس کی عزت اور احترام کرتے رہے چڑیا نے کہا شہزادی اب مجھے بھی آزاد کر دو تمہیں تمہارے ماں باپ اور بھائی مل گئے اور بادشاہ سلامت کو اپنے بیوی بچے مل گئے شہزادی نے چڑیا کا پنجرہ کھول دیا اور چڑیا اڑ کر


جیسے اللہ نے ان کے دن فیرے ایسے اللہ سب کا بھلا کرے آمین

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow