ایک حکیم کے سمندری سفر کا دل چسپ قصہ
ایک حکیم کے سمندری سفر کا دل چسپ قصہ
اسلام علیکم پیارے دوستو پیشہ خدمت تھرپسہ حکیم کا سفر کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ پرانے زمانے میں ایک باپ اور اس کے بیٹے نے سفر کا ارادہ کیا حلال کی روضی کمانے اور دنیا کی حالات دیکھنے کا سفر لیکن بالکل اسی دن جب انہوں نے گھر سے روانہ ہونا تھا بیٹے نے سفر کا ارادہ ترک کر دیا اور کہنے لگا ابا جان میں اس سفر کے منافع سے دست بردار ہوتا ہوں آپ اکیلے ہی جائیں
میں اسی جگہ اور اپنے ملک میں کام کروں گا اور کوئی اُنہر سیکھ کر مزدوری کروں گا تاکہ آپ کی غیر موجودگی میں گھر کے اخراجات پورے کر سکوں باب کو اپنے بیٹے سے ایسی توقع نہ تھی وہ حیران ہو کر کہنے لگا آخر کیوں؟ اس سے بہتر کیا ہوگا کہ اپنے باب کے شریعے کے سفر بنوں میں تمہیں دیکھی اور سنی ہوئی باتیں بتاؤں گا اور اپنی زندگی میں جتنے رنجوں مساہب برداشت کیے ہیں اسی سفر میں اور تھوڑے
اس کے علاوہ تم کوئی ہنر نہیں جانتے اور اس شہر میں ایسا کوئی کام نہیں ہے کہ تم کر سکو اور تمہاری مشکل کی گرہ کھل سکے۔ بیٹے نے شرمندگی سے سر جھکا رکھا تھا اس لئے کچھ دیر کے بعد کہا ابا جان آپ درست کہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپی نہیں ہے اس لئے آپ سے کیا چھپاؤں؟ مجھے دریا کے سفر سے خوف آتا ہے اگر آپ کو منظور ہو تو یہ سفر خشکی کے راستے تے کریں۔
تب ہم اسی کافلے کے ہمرا چل پڑیں گے جو کل یہاں سے روانہ ہوگا اور ہمیں کسی خطرے کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے گا باب اپنے بیٹے کی باتوں سے اور بھی غمگین ہو گیا اور کہنے لگا تمہیں کس نے کہا ہے کہ خشکی کے سفر میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا خشکی میں ڈاکو گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں گرد و گبار کا توفان گھیر لیتا ہے پہاڑوں اور سحرہوں کے درندے انسان کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن دریا کے سفر میں
باب کی موطیوں جیسی قیمتی باتوں کا بیٹے پر کوئی حصنہ ہوا اس نے دونوں پاؤ ایک ہی جوتے میں ڈال رکھے تھے اور تیقر لیا تھا کہ اگر سفر پر جاؤں گا تو صرف خشکی کے راستے سے اس لیے کہ دریا کے سفر میں آرام و سکون چھن جاتا ہے اور روشن اور چمکیلہ دن بھی آنکھوں کے سامنے تیرہ تار بن جاتا ہے باب نے بیٹے کے ارادے سے آجز ہو کر غمگین ہو کر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس جانے کا رکھی
اور اس نے درخواست کی کہ اس کے بیٹے کو نصیعت کریں تاکہ شیطان کی سواری سے نیچے اترائے لیکن بیٹے کی بات وہی تھی جو پہلے تھی باب نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو اپنے شہر کے ایک بزرگ اور دانہ حکیم کے پاس گیا جو اپنی زہانت علم اور تجربے کی بدولت شہر کے خاص و عام کا منظور نظر تھا اور جو لوگ پریشان اور لاچار ہوتے تو اس سے مشورہ لیتے اور اس پر عمل کرتے حکیم نے جب باب کی باتیں سنی تو کہنے لگا
دریا کے سفر پر جانا یا نہ جانا تمہارے بیٹے کیلئے ضروری نہیں ہے یہ بھی ممکن ہے کہ خوشکی کے تھوڑے یا ازادہ دن کے سفر سے تم اپنی منزلیں مقصود پر پہنچ سکتے ہو اور جس چیز کا تمہارے بیٹے کیلئے جاننا ضروری ہے وہ اس سے غافل ہے اور وہ چیز یہ ہے کہ ہم سب کی موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اگر تمہارے بیٹے کو اس حقیقت کا علم ہو جائے اور اس کے دل کی آخ اس روشنی سے آگا ہو جائے
وہ دریا کے سفر سے نہ گھبرائے گا زندگی میں تو ان سے بھی بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب جاؤ اور اسے آج ہی میرے پاس لے آؤ تاکہ اسے ایک حقائد سناوں ایسی حقائد جو کابل شنید بھی ہے اور کابل عبرت بھی باب نے جب حقائد کا نام سنا تو کہنے لگا جناب حکیم صاحب آپ مجھے یہ حقائد سنا دیں تاکہ گھر جا کر اپنے بیٹے کو سنا دوں حکیم نے کہا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے
بہتر ہے کہ اپنے بیٹے کو یہاں لے آؤ تاکہ وہ میری زبانی خود سلے اور اس پر کوئی اثر بھی ہو باپ نے حقیم کی بات تسلیم کر لی اور بیٹے کو حقیم کے پاس لے آیا حقیم نے پہلے تو اسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی چند باتیں بتائیں پھر ایمان کی تاریف کی اور کہا کہ ہم سب کی موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضائے قدرت میں ہے پھر اپنی حقائت کچھ اس طرح شروع کی میرے بیٹے کئی سال پہلے میری
کہ اتفاق سے مجھے دریا کا سفر اختیار کرنا پڑا اگر تم سچ پوچھتے ہو تو میں بھی تمہاری طرح دریا کی سفر سے خوف زدہ تھا اور سمجھتا تھا کہ ہر لحظ دہارتی ہوئی موجہیں اپنا مو کھول لیں گی اور مجھے اپنے ساتھ بھا کر لے جائیں گی اور دنیا میں میرا کوئی نشان بھی نہ بچے گا بلکہ میرا گوشت اور ڈھانچا دریایی جانوروں کی خوراک بن جائے گا اس سفر میں میرا ایک ہم سفر ایسا بھی تھا ج
اور اس نے کئی مرتبہ دریا کا سفر کیا تھا اس لئے اس نے رستے میں مجھے کئی قصے کہانیاں سنائے تھے یہ قصے اور کہانیاں ایک دوسری سے زیادہ پند آموز اور عبرت انگیز تھے لیکن میں تمہیں اس وقت جو حقیت سنانا چاہتا ہوں میرے ان دنوں کی حالات و واقعات کے مطابق تھی جو اب تمہارے حالات و واقعات کے مطابق ہے میرا ہمسفر کہتا تھا کہ میں نے دنیا کی کئی لوگوں کو دیکھا ہے اور کئی ملکوں کا سفر کیا ہے
لیکن اب ہمارا ارادہ چین اور جاپان جانے کا تھا عام طور پر رستے میں کئی ہمسفر پوچھا کرتے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو اور کونسا ہنر جانتے ہو تاکہ مسیبت میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور لاچاروں کی چارہ ساز بنیں ان مسافروں میں ایک پہلوان ہٹا کٹا اور مظبوط طوانہ تھا یہ پہلوان جو ہی کشتی میں داخل ہوا تو کشتی اور بہدری کے قصے بیان کرنے لگا کہ اس نے اکھالے میں کس طرح
اپنے حریفوں کو پچھاڑا ہے اور کس طرح ان کی پیٹ کو زمین پر رگل کر بے عزت کیا ہے اس پہلوان کے اکثر قصے بہدری اور پہلوانی پر مبنی تھے جسے مسافر اور ملہ نیحیت شوق اور دلچسپی سے سنتے تھے اور اپنے دل میں کہتے تھے کہ اس سفر میں ایسے شخص کی ہمرای گنیمت ہے انہیں معلوم تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی اور کوئی حادثہ پیش آیا تو اس پہلوان کے زورے بازوں سے نجات پالیں گے ہم چند دنوں
اور جس طرح ضروری تھا موافق ہوایاں ابھی تک نہ چلی تھی اور کشتی نیحیت سست رفتاری سے چل رہی تھی اس لئے سب مسافر خدہ خدہ کر رہے تھے تاکہ موافق ہوایاں چلے اور ہمارا سپر جلد ختم ہو آخرکار اللہ تعالیٰ کے بندوں کی دعایاں قبول ہوئی اور موافق ہوایاں چلنے لگیں اور کشتی اور اس کی مسافروں نے سقوت سے نجات حاصل کر لی اور مسافروں کی دلوں میں خوشی کی موجہ دم مارنے لگیں
اور انہیں امید لگ گئی کہ بہت جلد کنارے پر پہنچ جائیں گے لیکن یہ خوشی کے لمحات زیادہ دیر تک قائم نہ رہے کشتی کا ایک تختہ ٹوٹ گیا تھا مستول بھی گر پڑا تھا اور بادبان کا کپڑا بھی اُلچ گیا تھا ہر چھوٹے بڑے مسافر کے دل میں حسرت ویاس چھا گئی تھی اور اللہ تعالیٰ سے اپنی نجات کی دعائیں مانگ رہے تھے قصہ مختصر اہل کشتی پریشان اور ہراسان تھے اس لئے مل
کہ ہم کیا کریں تاکہ توفان سے بچ سکیں؟ ملاہ نے کہا اس کا علاج اپنی پاس ہے اگر حمد کرو اور مستول کو اٹھا کر سیدھا کر دو تو دوبارہ اس پر بادبان بان دیا جائے گا پھر اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے معلوم نہیں ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے مسافر تو پہلے ہی پریشان تھے لیکن ملاہ کی باتوں سے ان پر مزید پریشانی چھا گئی اور اس پریشانی میں ہر ایک مسافر نے کوئی نا کوئی
اور کچھ نہ کچھ کہنے سننے لگا لیکن ملہ نے کہا کہ صرف باتوں اور تجویز سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اس لئے جو شخص کوئی کام کر سکتا ہے تو آگے آئے ملہ کی باتیں سن کر سم مسافر پیچھے چلے گئے اور جو شخص باقی رہا وہی پہلوان تھا پہلوان نے اس وقت تک اپنی باہدوری کے صرف قصے سنائے تھے لیکن اب وہ آگے بڑھا اور اکیلا ہی کشتی کا وزنی مستول اٹھا کر اپنی جگہ پر کھ
اب جلدی کرو اور بادبان کو سیدھا کر کے اس پر بان دو ملاہ حیرت زدہ تھے لیکن پہلوان کی باددوری دیکھ کر جوش میں آئے اور مستول کو مزید سہارہ دیا اور بادبان کو سیدھا کر کے پہلے تو اس پر بانس لپیٹے اور پھر مستول سے بان دیا اور کشتی دوبارہ تیزی سے اپنے سفر پر روانہ ہو گئی اس واقعے کے بعد پہلوان ہر خاص و عام کا محبوب بن گیا اور مسافر اس کے گرد جمع ہو گئے ان کے پاس کھانے پینے کا جتنا ز
پہلوان کی خدمت میں پیش کرتے رہے تاکہ پھر کسی مشکل کا سامنا ہو تو ان کے کام آئے قصہ مختصر چند دن اور اسی طرح گزر گئے مجلسیں اور محفلیں بربہ ہوتی رہیں اور پہلوان کی زور آزمائی کے چرچے بیان ہوتے رہے لیکن اچانک ایک رات موسم تاریخ ہو گیا تیز آوائیں چلنے لگیں اور کچھ دیر نہ گزری کہ پر سکون دریہ میں بلند و بالا موجہ اٹھنے لگیں اور گزشتہ سفر کا شہد بھی تمام مسافروں کے ح
جب یہ حالت ہوئی تو ہر شخص کسی نہ کسی کونے میں سکول کر بیٹھ گیا مسافروں نے نیحائت آجیزی سے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے لگے ملہ اور اس کے مددگاروں ہر چند کوشش کی کہ کشتی کو سمحل لیں اور اسے ڈوبنے سے بچائیں اور مسافروں سے بھی درخواست کرتے رہے کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھی رہے تاکہ کشتی ادھر ادھر نہ جھکنے پائے اس دوران سب سے پہلے جو شخص عر
وہی پہلوان تھا پہلوان کو اپنے زورے وازو پر پورا پورا اعتماد تھا اور وہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے عرشے پر جانے کی سیڑیاں فلانگ رہا تھا کہ اچانک پہاڑ جیسی ایک موج اگری اور کشتی سے ٹکرا گئی کشتی اپنی جگہ سے اچھلی اور دوبارہ چیکھتی چلاتی موجوں پر آکر سمل گئی اگرچہ چند لحظ پہلے کی نسبت دریا کی موجوں میں قدر قمی آ گئی تھی لیکن جس وقت ملاہوں نے
اور پہلوان کو پکارتے ہوئے آوازے دی تو اس کا کہیں بھی نام و نشان نہ تھا جب یہ خبر مسافروں کے کان میں پہنچی تو گمگین اور افسردہ ہو گئے اس نوجوان حمد پہلوان نے ایک مرتبہ ان کی مشکل حل کی تھی اور ان کی جان بچائی تھی ملاہ نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور کہا جلدی کرو اور امدادی کشتیاں دریائے میں ڈال دو اور اس بہدر پہلوان کو دریائے میں تلاش کرو اور اس کی جان بچائو اس کشتے میں چند مسافر ایسے بھی تھے
جنہیں دوسروں کے مقابلے میں اپنی جان پیاری تھی اس لئے ملہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگے صرف ایک شخص کی خاطر اپنا کام نہ روکو اور کشتی اور مسافروں کی حفاظت کرو اگر امدادی کشتی میں مددگار ملہ بھی یہاں سے چلے گئے تو ان توفانی موجوں سے تم اکیلے نمرد آزمہ نہ ہو سکوگے اور ہماری حلاقت کا سبب بنوگے لیکن اس کے برعقص اکثر مسافروں نے ملہ کی کوشش کو سراحا
اور درخواست کی کہ جہاں تک ممکن ہو ہمت سے کام لو شاید پہلوان کی جان بچ جائے اور وہ قرض جو پہلوان کا ہم پر واجب ہے عدہ ہو سکے ملہوں نے امدادی کشتی دریہ میں ڈال دی اور تاریک اور توفانی رات میں دریہ میں چھلانگ لگا دی تاکہ موت سے لڑنے والے پہلوان کی زندگی بچائی جا سکے اب مسافروں کو دو پریشانیا تھیں پہلی یہ کہ توفان زوروں پر تھا اور کشتی دریہ کی مطلع تم موجوں پر بغیر
اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ امدادی کشتی میں جانے والے ملا اور دوبنے والا پہل بان معلوم نہیں کہاں ہوں گی اور انہیں کن مسائب کا سامنا کرنا ہوگا اس حالت میں رات کا آدھا حصہ گزر گیا تھا اور کالے بادلوں نے آسمان کو چھپا لیا تھا جس کی وجہ سے امدادی کشتی کو دیکھنا بہت مشکل تھا امدادی کشتی ہجکولے خاتی ہوئی چل رہی تھی اور ساتھی کشتی کے مسافر اپنی اور دوسروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھے لیکن
اس انسان کی طرح تھی جو صرف مسیبت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے جب کافی دیر گزر گئی تو اچانک عرشے سے ملہ کی آوازیں بلند ہوئی جو کہہ رہا تھا امدادی کشتی کے ملہ آ گئے ہیں اور انھوں نے پہلوان کو بچا لیا ہے اس خبر سے مسافروں میں نئی زندگی آ گئی اور اندیرے میں بھی ان کے ہوتوں پر خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے اور جس گم و اندوانیں انہیں چند لمحات پہلے گھر رکھا تھا اس سے نجات حاص
ابھی وہ اسی سوچ میں تھے کہ دریا میں سکون و قرار آ گیا اور کشتی سے چابک کی طرح ٹکرانی والی موجوں کا کہیں نام و نشان بھی نہ رہا لیکن ابھی تک آسمان پر سیحا بادل چھائے تھے اس قیفیت کو دیکھ کر مسافر ڈر اور خوف سے اپنی جگہ پر سمٹے ہوئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عرشے پر جائیں اور پہلوان کی طرح دریا میں گر جائیں اس لیے جو ہی صبح ہوگی اور روشنی فیلے گی تو پہلوان کے پاس جا کر اس کی خیریت دری
اور اس کی تعمارداری کریں گے نیز اس سے یہ دریافت کریں گے کہ تمہیں یہ حادثہ کیسے پیش آیا دانہ حکیم ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ جوان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ہو میرے بیٹے شاید تم سوچتے ہوگے کہ جن ملہوں نے پہلوان کی زندگی بچانے کیلئے دریا میں چھلانگے لگائی تھی انہوں نے پہلوان کو دریا سے زندہ نکالا ہوگا یا مردہ جلکے نے کچھ سوچا اور کہنے لگا جناب حک
اگر کوئی اور بات ہوتی تو ملہ اپنی زندگی کو خطری میں نہ ڈالتے اور ڈوبنے والے کو دریہ میں ہی چھوڑ دیتے اور اپنے ہمرہ نہ لاتے حکیم نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے سر جھکا لیا اور کہنے لگا نہیں میرے بیٹے ملہ اُس پہل بان کو نہ زندہ تلاش کر سکے اور نہ ہی مردہ میرے ہم سفر نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تاریخ رات اور کالے بادلوں سے ڈھکا ہوئے آسمان ملہوں کیلئے رکابت بن گیا تھا
کہ وہ جان سکیں کہ جس شخص کو پپڑھ کر اپنے ہمرہ لا رہے ہیں وہ کون ہیں شاید جب وہ کشتے میں پہنچے ہوں گے تو انہیں اصلیت کا پتہ چلا ہوگا لیکن دوسرے مسافروں کو اصلیت کا مطلق پتہ نہ چلا یہاں دکھ کہ وہ رات بھی دنیا کی دوسری راتوں کی طرح گزر گئی اور چمکتا ہوئا سورج تلو ہو گیا مسافر ہر چیز سے پلے ملاحوں کو تلاش کرنے لگے تاکہ ان سے پہلوان کی خیریت دریافت کریں انہوں نے دیکھا کہ ملاح
اور اس کی تعمارداری کر رہے ہیں اور اسے تسلی دے رہے ہیں جب ملہ وہاں سے ہٹ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ جس شخص کو رات کے وقت توفانی موجود سے بچایا گیا ہے وہ پہلوان نہیں تھا بلکہ کوئی اور شخص تھا تمام مسافر حیرت کی انگلیاں دانتوں میں کارٹ رہے تھے اور ان پر دوبارہ گم و اندوہ چھا گیا تھا اس لیے کہ پہلوان کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور جو شخص عرشے پر لیٹا تھا ایک بلند و بالا اور سحت مند غلام تھا
اور نیحائت حیرت سے مسافروں اور ملہوں کو دیکھ رہا تھا اور توفان کے خوف کی نشانیاں اس کے چہرے پر ظاہر تھی مسافر ابھی تک اس معاجرے سے بے خبر تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ واقعہ کیا ہے اس لئے ایک دوسرے کے بعد غلام سے پوچھنے لگے کہ تمہارے ساتھ کیا اتفاق ہوا ہے اور تنو تنہا یہاں تک کیسے پہنچے ہو غلام آہستہ آہستہ سمل گیا تھا اور اسے یقین ہو گیا تھا کہ اسے موت سے نجات مل گئی ہے
اس لئے اس نے گہرا سانس لیا اور اٹھ کر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور کچھ سوچ کر کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس نیکی کا عجر عطا کرے کہ تم نے میری جان بچائی ہے لیکن میں کس حال میں یہاں پہنچا ہوں اور تمہارے لیے حیرت کا سبب بنا یہ ایک لمی کہانی ہے واقعہ یہ ہے کہ مجھے اور ایک دوسرے غلام کو ہمارے آقاں نے خریدا تھا میں نے کئی سال اپنے آقاں کی خدمت کی ہے اور اپنی ذمہ داری احسن ط
میں نے کافی مشکلات برداشت کی اور کبھی شکایت کا موقع نہ دیا مجھے امید تھی کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا آکا سمجھ جائے گا کہ مجھے اس سے محبت ہے اس لئے اس کی خدمت کی وجہ آوری میں کسی قسم کی کوتا ہی نہ کروں گا لیکن میرا ساتھ تھی جو میرے حمرہ اس حویلی میں آیا تھا بڑا زبان دراز اور چاپلوز تھا وہ اپنی چرب زبانی سے میرے مشکل اور بڑے کام کو آکا کے سامنے چھوٹا بنا کر بیان کرتا
اور اپنے چھوٹے اور معمولی کام کو بڑھا چڑا دیتا تھا کوچہو بازار میں پیغام رسانی میری ذمہ داری تھی اور آقا کی شاباش اور آفری حاصل کرنا اس کے حصے میں آتے تھے اس لیے جب کبھی سفر درپیش ہوتا تو آقا صرف اسے اپنا حمرہ لے جاتے تھے اور اس پر طرح طرح کی محربانی کرتے تھے اس کے علاوہ آقا مجھ پر کوئی توجہ نہ دیتے کہ میں بھی اس کا غلام ہوں اور اس کے گھر کا کام کرتا ہوں اور تقلیف برد
میں نے کئی مرتبہ چاہا کہ آقا کو حقیقت سے آگا کروں اس لئے چند مرتبہ اسے اکل دیکھا تو چاہا کہ اپنے ارادے کی تکمیل کروں لیکن معلوم نہیں ہر دفعہ شرم و حیہ میرے معنے ہوئی اس لئے دل کی بات زبان پر نہ لازکا آخر کار کئی سالوں کے بعد میں نے حمد سے کام لیا اور آقا کو تمام معجرہ کہہ سنایا اس لئے اس نے معل لیا کہ اس سفر میں مجھے بھی اپنے حمرہ لے جائے گا میں خوشی خوشی تیار ہوا
اور اسی غلام آکا اور اس کے دوستوں کے حمرہ چل پڑا اور جب کشتی میں سوار ہوئے تو مجھے کئی سالوں کے بعد خوشی اور اطمینان حاصل ہوا کہ آخر کار آکا مجھ سے مطمئن ہے اور مجھے اپنے حمرہ لے آیا ہے اور مجھے بھی چند سالوں کی تھکاورت اور کام کے بوجھ سے نجات ملی ہے ہم اپنے ساتھیوں کے حمرہ جا رہے تھے کہ اچانک ہوا میں خنکی آ گئی اور آکا مجھے تلاش کرتے ہوئے میرے پاس آیا اس نے دوسرے سامان
اپنی کشمیری شول بھی میرے حوالے کر رکھی تھی یہ شول اسے بہت پسند تھی وہ کئی سالوں سے اسے اُرتا تھا اور ہر کسو ناکس سے اس کی رنگ اور خوبیوں کی تاریف کرتا تھا جب آقا نے مجھ سے کشمیری شول مانگی تو میں نے گٹری میں ہر چند اسے تلاش کیا لیکن شول نظر نہ آئی میں حیران و پریشان کھڑا تھا اور میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ شول کہاں چلی گئی ہے اور کیا ہوا ہے شاید چوری ہو گئی ہے یا اس
جو میرا دشمن تھا لیکن جو کچھ تھا شال میرے پاس نہیں تھی یہی سبب تھا کہ آکا مجھ پر گسہ ہوا اور مجھے برا بھلا کہا لیکن مجھے تو ایسی باتیں سننا غوارہ نہ تھی اس لئے کہا آکا آپ کئی سالوں کے بعد مجھے اپنے حمرہ لاے ہیں آپ ایسے سلوک سے اس سفر کی شیرینی میرے حلق میں زہر نہ بنائے میرا ساتھی جو حسد اور کینے کی آگ میں جل رہا تھا اور پسند کرتا تھا کہ وہ اکیلا ہی آکا کا محبوب ہو
اس لئے میرے سامنے میری بد گوئی کرنے لگا اور جب معاملہ یہاں تک پہچا تو ظاہر میں آکا نے مجھے دریامے فیکنے کا ارادہ کر لیا تاکہ مجھ سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ حاصل کر لے اسے یقین تھا کہ میں نے یا تو شول بیچ ڈالی ہے یا دریامے فیک دی ہے کشتے کے دوسرے مسافروں نے آکا کو اس کام سے روکا اور کہا یہ نیحید ظلم اور بزدلی ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں کہ کسی بے گناہ کی جان لی
آکا نے فیصلہ کیا کہ مجھے تختے کے ایک ٹکڑے کے ساتھ بان کر دریائے میں ڈال دیا جائے پھر مجھے یا تو نجات مل جائے گی یا دریائے میں غرک ہو کر مر جاؤں گا میں ایک دن تو تختے کے ٹکڑے پر دریائے میں سر کردہ رہا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہا کہ میری مدد فرمایا لیکن دریائے میں تغیانی آ گئی اور مجھے اپنے سامنے موت دکھائی دینے لگی اتفاقا ہوسی وقت مجھے ایک امداد
جو دریا کی موجہ پر ڈگ مگا رہی تھی اور میرے قریب آ رہی تھی مجھے یقین نہ تھا کہ کوئی شخص اس کشتی سے نکل کر میری نجات کا سبب بنے گا یادت کہ کشتی میرے قریب پہنچ گئی اور ملہ نے مجھے تختے سے اٹھا کر کشتی میں سوار کر لیا اب میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ میں آکا کی حویلی سے نکل کر آسودہ حال ہو گیا ہوں میرے دوستوں جب ہکایت یہاں پہنچی تو حکیم
اور جوان سے پوچھنے لگا میرے بیٹے اب بتاؤ تاکہ مجھے معلوم ہو کہ تم دریا کے سفر سے فر خوف زدہ ہو یقین کرو کہ کوئی آسائش بغیر سختی کے نہیں ملتی اور اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ہر سفر میں کسی نہ کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑے لیکن اچھی طرح سنو کہ موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے قبضاء قدرت میں ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ جوان اور بہدر پہلوان تو دریا میں ڈوب گیا لیکن بے یار و مددگار گلام
دریا کی بفرتی موجہ سے زندہ و سلامت باہر نکل آیا اور نجات پائی اس لئے اب مجھے ساف ساف بتاؤ کہ اپنے باپ کے حمرہ کل سفر پر جانے کے لیے تیار ہو نوجوان اپنے باپ کے حمرہ دریا کے سفر پر روانہ ہو گیا اور حقیم کی حقائت کے مطابق زاد راہ اور توشاہ سفر اس کے پاس فراوہ تھا اس لئے کہ وہ حلال کی روضی اور تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا
What's Your Reaction?