قصہ تین بہادر بھائیو کا

قصہ تین بہادر بھائیو کا

Oct 21, 2024 - 13:11
 0  6
قصہ تین بہادر بھائیو کا
قصہ تین بہادر بھائیو کا

اسلام علیکم پیارے دوستوں پیشہ خدمت تھا قصہ تین بھائیوں کا پرانے وقتوں کی بات ہے کسی جگہ تین نوجوان لیتے تھے جو ایک دوسرے کے صغے بھائی تھے ان تینوں کی شکل و شبہت اپس میں اس قدر ملتی جلتی تھی کہ ایک دوسرے سے الگ نہ کیا جا سکتا تھا گو ان کی عمروں میں فرق تھا لیکن خدو خال قدو قامت چال ڈال اور نششت و برخاست کا انداز اپس میں اتنا ملتا جلتا تھا


ایسے لگتا تھا جیسے ایک ہی آدمی کے تین روپ ہوں ان کے ماں باپ مر چکے تھے اور وہ تینوں بھائی ایک ساتھ رہ رہے تھے مگر اب وہاں رہنے سے ان کا جی وچاٹ ہو گیا تھا دل ہی دل میں تینوں اس جگہ کو چھوڑنا چاہتے تھے لیکن اب تک ان میں سے کوئی بھی دل کی بات اپنی زبان پر نہ لایا تھا آخر ایک روز بڑا بھائی دونوں چھوٹے بھائیوں سے کہنے لگا میرا خیال ہے ہمیں یہ جگہ چھوڑ کر اور کہیں جا کر ق


میری بھی یہی راہ ہے ایک ہی جگہ پڑے رہنا کوئی زندگی نہیں ہے منجلے نے جواب دیا اور اس پر سب سے چھوٹا بولا تم دونوں کی جو بھی راہ ہو مجھے اس سے اتفاق ہے واقعی ہمیں تسمت آدمائی کے لیے یہاں سے نکلنا چاہیے چلانجے ہر ایک نے ایک ایک خیلہ لیا اور تینوں نے اپنے اپنے تھیلے میں کھانے پینے کی ضروری چیزیں بھر لی تاکہ کچھ عرصے تک سفر میں خورد نوش کا بندوبست رہے جب تینوں


ہمیں اپنی حفاظت کا انتظام بھی کرنا چاہیے سفر ہے نا جانے کس کس مسیبت سے دو چار ہونا پڑے ہاں ہمیں اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ساتھ لینا چاہیے دونوں چھوٹے بھائی یک زبان ہو کر بولے اس کے بعد بڑے بھائی نے اپنے باپ کا تیرکمان لے لیا اور منجلے نے باپ کی تلوان لے لی سب سے چھوٹے بھائی کا نام بینس تھا وہ یوں تو سحت مند اور طاقتور جسم کا مالک تھا


وہ اکثر اس کا مزاق اڑایا کرتے تھے اور اس وقت بھی ان دونوں کے ذہن میں یہی تھا کہ بینس تو بے بکوف آدمی ہے بھلا وہ مہم جو یہ کیا کرے گا بینس اس قسم کی باتوں کا عادی تھا اس لیے اس نے ان کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی حفاظت کیلئے ایک پرانی لاتھی کی طرح کی ایک چڑی لے لی جس پر لوہی کی شامے چڑی ہوئی تھی پھر تینوں نے اپنا اپنا خنجر کمر سے باندھا اپنے تھیلے اٹھائے گھر پر ایک الودائی نظر ڈ


ہمارے پرانے مکان ہمارے پرانے سانتھے اور اتنا کہ کر وہ سفر پر چل دئیے شہر سے نکل کر انہوں نے ایک سمت کا انتخاب کیا اور پھر اس جانب سفر شروع کر دیا تینوں آپس میں بات کرتے سفر کر رہے تھے تھک جاتے تو کہیں سستانے کیلئے بیٹھ جاتے کچھ کھاتے پیتے اور پھر تازہ دم ہو کر آگے سفر جاری کر دیتے اس طرح وہ کئی دن تک چلتے رہے


یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک بہت بڑا درک تھا اور وہاں سے راستہ تین راستوں میں بٹ گیا تھا جو مختلف سمتوں کو جاتے تھے اس جگہ پہنچ کر وہ رک گئے بڑا چھوٹے بھائیوں سے کہنے لگا بھائیوں یہاں تک تو ہم تینوں ایک ہٹے سفر کرتے رہے ہیں مگر اب ہمیں ایک دوسری سے جدہ ہونا پڑے گا اتنا کہہ کر اس نے مختلف سمتوں کو جاتے ہوئے راستوں پر ایک نظر ڈالی اور ب


اور اب ہم میں سے ہر ایک کو کسی ایک راستے پر جانا ہوگا تم ٹھیک کہتے ہو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے لئے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوگا دوسرے دونوں بولے اب اس کے سبا کوئی چارہ نہیں اس وقت سب سے چھوٹے بھائی کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا لہٰذا دوسرے دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے تھیلوں میں سے اسے تھوڑا بہت دیا تاکہ راستے میں اپنی بھوک پیاس مٹا سکے


اس کے بعد وہ تھوڑی دیر تک اس درخت کے نیچے بیٹھ کر سست آئے کچھ کھایا پیا اور جب ایک دوسرے سے الیدہ ہو کر دوبارہ سفر کے لیے تیار ہوئے تو بڑا بھائی کہنے لگا ہمیں جوڑا ہونے سے پہلے کوئی ایسی ترقیب سوچنی چاہیے جس سے ایک دوسرے کا حال معلوم کر سکے کہ وہ ٹھیک تھاک ہے یا کسی مسیبت میں فس گیا ہے اس نے دونوں چھوٹے بھائیوں کی طرف دیکھا اور کہا


اس درخت میں ہم تینوں اپنا اپنا خنجر گار دیتے ہیں اس طرح ہم میں سے جو بھی پہلے یہاں آئے وہ ان خنجروں کو دیکھے اگر ان میں سے کوئی خنجر زنگ آلود ہو گیا ہو تو وہ سمجھ لے کہ اس کا وہ بھائی کسی مسیبت میں گرفتار ہے جس کا وہ خنجر ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کی مدد کے لیے اسی راستے پر جائے جس پر اس کا بھائی گیا تھا اس طرح اگر وہ زندہ ہوا تو اس کی مدد کی جا سکے گی اور جان بچائی جا سکے گی


یہ ترکی بہت اچھی ہے اس طرح ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکیں گے اور حالات سے بھی باخور رہیں گے دونوں چھوٹے بھائیوں نے بڑے بھائی کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے جواب دیا انجانہ سفر ہے کوئی بھی مسیبت میں گرفتار ہو سکتا ہے تینوں نے اپنے اپنے خنجن نکالے اور درخت کے تنے میں گار دیئے پھر ایک دوسرے سے گلے ملے خدا حافظ کہا اور تینوں الگ الگ راستوں پر چل دیئے ب


اور سب سے چھوٹے بھائی بینس نے باہی جانب کو جانے والے راستے کو منتخب کیا اس طرح تینوں اپنے اپنے راستوں سفر پر چل دئیے اب سب سے پہلے بڑے بھائی کی کہانی سنیئے کہ اس کے ساتھ کیا بیتی بڑا بھائی جو دائی سمت کو جانے والے راستے پر گیا تھا وہ چلتا چلاتا ایک جنگل میں پہنچ گیا اس نے جنگل میں آگے کی طرف چلنا شروع کیا چلتا گیا چلتا گیا مگر جنگل تھا کہ کہیں ختم


اسے اس وقت کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں جا رہا ہے اور اسے کدھر جانا ہے چاروں طرف جنگل ہی جنگل فیلا ہوا تھا جس میں وہ تنہا تنہا سفر کر رہا تھا دل میں سوچتا شاید ابھی جنگل ختم ہو جائے اور کوئی آبادی مل جائے لیکن اس کی یہ امید پوری نہ ہو سکی چلتے چلتے جب وہ تھکر نڈھال ہو گیا اور جنگل ختم ہونے کے کوئی آسار دکھائی نہ دیئے تو وہ ایک جگہ بیٹھ گیا


گوک پیاس بھی لگ رہی تھی اس نے اپنا تھیلہ کھولا اور اس میں سے کچھ نکال کر کھانے لگا وہ اپنے دھیان میں بیٹھا کھا رہا تھا کہ اچانک اس نے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے قتقہ بولا آدمی دیکھا اس نے سر پر ہیٹ اور سبز رنگ کا پرانا کوٹ پہن رکھا تھا اور اسی کی جانب چلا آ رہا تھا جب وہ نوجوان کے قریب پہنچا تو اسے کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر ترسی ہوئی نگاموں سے ٹکھ


اس کے چہرے سے یوں ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ بھوکا ہے اور کھانے کیلئے کچھ تلب کر رہا ہے نوجوان نے روٹی کا ایک ٹکلا لے کر اس کی طرف پھینک دیا جسے بوڑے نے لپک کر اٹھا لیا پھر وہ اس کے بلکل قریب آکر بولا جس طرح تم نے مجھے تھوڑا سا کھانے کو دیا ہے اسی طرح میں تمہیں اس کا تھوڑا سا سلا دوں گا اتنا کہ کے ساتھ ہی اس نے نوجوان کے تیر کمان کو ہاتھ سے چھوگا اور کہنے لگا جس کو ب


تمہارا تیر ہمیشہ نشانے پر لگے گا اور کبھی خطہ نہیں ہوگا بوڑے نے یہ کہا اور ایک درخت کی اوٹ میں غایب ہو گیا نوجوان کا خیال تھا کہ وہ درخت کی اوٹ میں ہو گیا ہے ابھی سامنے آ جائے گا مگر انتظار کے باوجود وہ پھر ظاہر نہ ہوا تھوڑی دیر تک نوجوان حیرانسہ ہو کر بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر درخت کی اوٹ میں جا کر دیکھا لیکن وہاں بوڑے کا نام و نشان نہ تھا وہ تاج جب سے سوچنے لگا


یہ کون تھا؟ وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکا اس نے چند قدم ادھر ادھر جا کر اور گھوم پھر کر دیکھا مگر وہاں بھی اسے بولا کہیں نظر نہ آیا حیرانی اور پریشانی میں کھویا ہوا واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا وہ جو جو بولے کے بارے میں غور کرتا اور علچ جاتا آخر اس نے اپنے تھیلہ کندے پر ڈالا تیرکمان سمحلا اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا وہ چلتا رہا چلتا رہا


یہ محل دیکھنے میں بہت پرانا لگ رہا تھا اور ایک اوچی چٹانوں کے اوپر بنا ہوا تھا محل دیکھنے کے نوجبان بڑا خوش ہوا، دل میں سوچنے لگا چلو اس بیرانے میں آبادی کے آسار تو نظر آئے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ دل ہی دل میں کچھ خوف زدہ بھی تھا اور اس وقت یہ سوچ رہا تھا کہ اس جنگل میں یہ محل کس کا ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو کسی آفت میں گرفتار ہو جاؤ وہ اسی طرح کے خیالات میں خویا ہوا


ابھی وہ مہل سے تھوڑی دور ہی تھا کہ اس نے دیکھا مہل کے باہر نیچے دو بہت بڑے دیو آگ کا بہت بڑا علاؤ جلائے کھڑے تھے انہوں نے ایک بڑی لوہے کی سلاک پکڑ رکھی تھی جس میں ایک سالم بیل کو پرو کر آگ پر بھون رہے تھے ایک اور تیسرا دیو ان کے قریب ہی کھڑا تھا جو آگ پر بھونے جانے والے بیل کے گوشت میں سے اپنی طلوار سے ووٹی کات رہا تھا تاکہ دیکھے بیل بھ


دیووں کو دیکھ کر نوجوان کے قدم جہاں تھے وہی رک گئے وہ خوف زدہ ہو کر دور کھڑا انھیں دیکھنے لگا اس کا دل بری طرح ڈھڑک رہا تھا لیکن جب اسے اس بوڑے آدمی کی بات یاد آئی تو اسے قدرے ہوصلہ ہوا بوڑے نے کہا تھا جس کو بھی تم شکار کرنا چاہو اپنا تیر چلاو تمہارا تیر ہمیشہ نشانے پر لگے گا اور کبھی خطہ نہیں ہوگا یہ بات یاد آتے ہی اس کا خوف دور ہو گیا اور اس میں جو رات پی


اس طرح بولے کی بات کا ایک اندازہ بھی ہو جائے گا اس نے سچ کہا تھا یا جھوٹ چنانجے اس نے وہیں کھڑے کھڑے کندے سے کمان اتاری چلے پر تیر چڑایا اور نشانہ بان کر تیر چلا دیا ادھر تیسرا دیو اپنی طلوار سے بھنے ہوئے گوشت کا ٹکڑا کات کر بوٹی ہاتھ میں لئے کھڑا تھا اور کھانے ہی لگا تھا کہ زن سے ایک تیر آیا اور بوٹی کو اڑا کر لے گیا دیو بڑا حیران ہوا


تیر کہاں سے آیا؟ اس جنگل میں کون ہو سکتا ہے؟ تینوں کے تینوں دیو تاج جب سے چاروں طرف دیکھنے لگے لیکن انہیں وہاں کوئی نظر نہ آیا وہ تھوڑی دیر ادھر ادھر نظریں دوڑا تے رہے اور پھر دوبارہ بیل بھوننے میں لگ گئے دوسری طرف نوجون چھپا ہوا ان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا جب بیل اچھی طرح بھون گیا تو تینوں دیووں نے اسے کارٹ کر اپنا اپنا حصہ بکھرا کیا


جو ہی نوجوان نے یہ دیکھا کہ دیو بھنے ہوئے گوشت کا نبالہ لے رہے ہیں تو اس نے نشانہ تاکر تیر چلایا مگر اس بار اس نے جس دیو کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوٹی کا نشانہ لیا وہ دیو کے مومیں جا چکی تھی دیو جلدی سے بوٹی مومیں ڈال کر نگل گیا تھا اور تیر ایک درکت میں جاٹکا تھا اس بار ایک بات یہ ہوئی کہ دیو نے نوجوان کی کمان دیکھ لی تھی انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ پہلا اور اس بار بالا ت


یہ دیکھ کر ایک دیو لپک گیا اور وہاں پہنچ کر اس نے بڑی حقارت سے کہا اے حقیر زمینی کیڑے اب موت سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا نوجوان تو دیو کا پہاڑ سا قد دیکھ کر ہی دھیل گیا تھا اور اب جبکہ اس نے یہ الفاظ سنے تو اور بھی زیادہ سحم گیا دل میں سوچنے لگا اب میری موت یقینی ہے اسی ششو پنج میں تھا کہ دیو اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا چونکہ تم بہت اچھے تیر انداز ہو اس لئے ہم تمہیں مارنے


مگر اس کے بدلے میں تمہیں ہماری خدمت کرنا ہوگی اتنا کہ کر دیو نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اس کا قد اتنا بڑا تھا کہ اس نے نوجوان کو اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور اس کی جیب اتنی بڑی تھی کہ وہ سارا اس میں چھپ گیا صرف سر اٹھا کر مشکل سے باہر دیکھ سکتا تھا دیو نے اسے جیب میں رکھا اور واپس اپنے ساتھیوں کے پاس آ گیا اس کے ساتھیوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک آدمزاد ان کے ہاتھ لگیا تو وہ خوشی


بہت دنوں کے بعد انسانی شکار ہاتھ لگا ہے، ایک بولا اس نے ہم پر تیر بھی چلائے ہے، دوسری نے کہا اس کی سزا موت ہے اسے ابھی ختم کر دینے چاہیے وہ دونوں یہ کہتے ہوئے نوجوان کی طرف بڑے مگر جو دیو اسے پکڑ کر لایا تھا اس نے انہیں روک دیا اور کہا نہیں، اسے ہم جان سے نہیں ماریں گے کیوں؟ کیوں نہیں ماریں گے؟ اس نے ہم پر تیر چلائے ہے دونوں نے حیرانی سے تیسری دیو کی طرف دیکھا


اس پر نوجوان کو پکڑ کے لانے والا دیو اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگا یہ نوجوان بہت اچھا تیر انداز ہے یہ ہماری خدمت کرے گا اور ہم اس سے کوئی کام لیں گے اسے مار دینے سے کوئی فائدہ نہیں اپنے ساتھی کی یہ بات سن کر دوسرے دونوں دیو بھی راضی ہو گئے کہ نوجوان کو مارنے کے وجائے اس سے کوئی کام لیں گے اس طرح وہ موت کے مومے جاتے جاتے بچ گیا


جب شام ہونے کو آئی تو تینوں دیو نوجوان کو اپنے ساتھ کے لینوما مہل کے پاس لے گئے اور اس سے کہا دیکھو اب تمہیں ایک کام کرنا ہے اور بڑی ہوشیاری سے کرنا ہے پھر انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے بتایا جو ہی سورج گروب ہوگا اس کے ساتھ ہی مہل میں سے ایک چھوٹا سا کتاب باہر آئے گا تمہارا کام یہ ہے کہ پیشدر اس کے کتاب ہوں کے تم اسے تیر کا نشانہ بنائے کر ہلاک کر دو اتنا بتانے کے ساتھ ہی انہوں نے تاکیت کی یہ


اگر تم نے بھوکنے سے پہلے کتے کو حلاک نہ کیا تو تمہیں جان سے مار دیا جائے گا یہ بات سن کر نوجبان بڑا پریشان ہوا کیونکہ اس کے پاس صرف ایک ہی تیر بچا تھا اس نے اپنے دل میں سوچا اگر میرا پہلے نشانہ خالی گیا تو پھر کیا ہوگا؟ دوسرا تیر بھی نہیں ہے جو دوبارہ چلا سکوں لیکن مسیبت یہ تھی کہ وہ دیووں سے کچھ کہ بھی نہیں سکتا تھا اگر وہ کوئی بحانہ کرتا تو اسی وقت مارا جانا یقینی تھا


بہرحال اس نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جواب میں کہا بے فکر رہیں میں ایسا ہی کروں گا اور پھر جوہیں سورج گروب ہونے لگا نو جوان نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا مہل سے باہر آیا اسے دیکھتے ہی اس نے جلدی سے اپنا آخری تیر چلے پر چڑھایا اور نشانہ بانکر چلا دیا تیر کا چھوٹنا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کتا زمین پر مردہ پڑا تھا اس کا نشانہ اتنا ٹھیک لگا تھا کہ کت


اُدھر جیسے ہی دیو نے یہ دیکھا وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے نوجوان کو شاباشی دی اس مہل کے باہر کی دیوار میں ایک سوراک تھا اور تینوں دیو اس سوراک میں سے مہل کے اندر جانا چاہتے تھے مگر یہ سوراک ان کے لیے بہت چھوٹا تھا اپنے بڑے جسموں کی وجہ سے اس میں سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا چنانجے انہوں نے نوجوان سے کہا اب ہم تمہارے سپورد ایک اور کام کرنے لگے ہیں یہ کام


تم جس طرح کہو گے میں اسی طرح کروں گا نوجوان نے جواب دیا اس پر دیوہ نے اسے ایک طلوار دیتے ہوئے کہا تم رینکر دیوار کے اس سوراکھ میں سے دوسری طرف نکل جاؤ اور جب اندر چلے جاؤ تو مہل کے احاطے میں درندوں سے بچ کر آگے بڑھنا اگر ان درندوں نے تمہیں دیکھ لیا تو تمہاری موت یقینی ہو جائے گی میں تم لوگوں کی ہدایت پر پوری طرح عمل کروں گا نوجوان نے اپنی فرمہ برداری کا یقین دلاتے ہو


دیوہ نے اسے سمجھاتے ہوئے بتایا جب تم مہل کے اندر چلے جاؤگے تو وہاں درمیانی کمرے میں ایک شہزادی دیکھو گے جو سوئی ہوگی تم دبے پاؤں شہزادی کے قریب پہنچ جانا وہ پاؤں میں سونے کے سلی پر پہنے ہوگے ہوگی اور اس کے دائے پاؤں کے جوٹے میں ایک چاوی ہوگی تمہیں وہ چاوی اٹھا کر لانا ہے


اتنا کہکر انہوں نے اسے ایک بار پھر تاکید کی دیکھو اگر تم سے ذرا بھی گفلت ہوئی یا تم نے ہوشیاری سے کام نہ لیا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے خاطر جما رکھو میں پوری ہوشیاری سے یہ کام کروں گا


نوجوان نے انہیں جواب دیا اور رینگتا ہوا دیوار کے سوراق میں سے مہل کے آہتے میں چلا گیا اس نے بڑی ہوشیاری سے چھپ چھپ کر مہل کا آہتہ پار کیا اور پھر دبے پاؤ سہن پار کر کے مہل میں جا پہچا اس نے دیکھا تو مہل بڑا آلی شان تھا کئی خوبصورت رہداریاں تھیں جن میں طرح طرح کے نقشوں نگار کیئے گئے تھے آرائشوہ زی بائیس ایسی تھی کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھی تھی وہ دھیرے دھی


جہاں اس نے قیمتی ہیرے جوارات، زیبرات اور دوسری چیزیں دیکھی اس قدر خوبصورت اور بیش کیمت چیزیں دیکھ دیکھ کر وہ حیران بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کا دل بھی للچا رہا تھا وہ اتنی حیرت اور شوق سے یہ نادر چیزیں دیکھ رہا تھا کہ چند لغوں کے لیے یہ بھی بھول گیا


کہ اسے فوری طور پر شہزادی کے کمرے میں جانا چاہیے اور جس قدر جلدی ہو سکے اس کے جوٹے میں سے چاوی نکال کر واپس پہنچنا چاہیے اسے وقت کا احساس تک نہ رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ شہزادی کے کمرے میں پہنچا تو کافی دیر ہو چکی تھی اس نے شہزادی کی مسہری کے پاس جا کر سہمی سہمی نگاموں سے اردگرد کا جائزہ لیا اور پھر ہولے ہولے آگے بڑھ کر اس کے سلی پر میں سے چاوی نک


لیکن این اُسی وقت شہزادی کی آگ کھل گئی اور اس نے اپنے پاس ایک اجنابی نوجوان کو دیکھ کر شور کر دیا بچاؤ بچاؤ مجھے بچاؤ جیسے ہی شہزادی نے شور کیا نوجوان گھبرا گیا اس نے چابی شہزادی کے جھوٹے میں ہی رہنے دی اور وہاں سے بھاگ نکلا بھاگتا اور ہافتا ہوا دیوار کے پاس اس جگہ جا پہنچا جہاں سوراک تھا


اور وہ سوراکھ کے باہر دیو کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے اس نے وہاں پہنچ کر دیووں سے کہا میری مدد کرو چونکہ میرے پاس ضرورت سے زیادہ بھاری تلوار ہیں اس لئے میں جنگلی جانوروں کی طرح اس سوراکھ سے باہر نہیں نکل سکتا اگر نوجوان ایک دیو کو پکڑ کے اندر سے کھیچتا اور دوسرے اسے باہر سے اندر دھکیل تے تو یقین ان دیو باری باری سارے اندر جا سکتے تھے اس لئے جیسے


اور دوسرے اسے باہر سے اندر دھکیلنے لگے۔ اندر سے نوجوان اس کا سر پکڑ کر کھیچ رہا تھا اور دیو آہستہ آہستہ سرکتہ ہوئے اندر آ رہا تھا۔ ابھی وہ سوراکھ میں سے آدھائی اندر آیا تھا کہ اس نے جلدی سے تلوار سوٹھی اور اس کا سر الک کر کے دھڑ اندر کھیچ کر ایک طرف ڈال دیا۔ ادھر دوسرے دیووں نے سمجھا کہ ان کا ساتھی اندر چلا گیا ہے۔ اس لئے دوسرے دیو بھی سوراکھ میں داخل ہوا


جیسے ہی وہ بھی آدھے سوراک تک اندر آیا اس نے جلدی سے تلوار پکڑی اور اس کا سر بھی کٹ دیا اور اس کے ساتھ ہی دھڑ کھیچ کر ایک طرف پھینک دیا اب تیسرا دیو باہر رہ گیا تھا جس سے پیچھے سے دھکیلنے والا کوئی نہ تھا اس نے جوٹو کر کے اپنے آپ کو سوراک میں داخل کیا اور جیسے ہی وہ تھوڑا آگے آیا نوجوان نے بڑی فرطی سے اپنی تلوار اس کے حلق میں گھوم دی اور دیو وہی تڑپ تڑپ کر


دوسرے دونوں دیووں کی بھی زبان کاٹ کر اس نے اپنے تھیلے میں رکھ لی اور واپس شہزادی کی طرف چل دیا لیکن یہ کیا


وہاں تو ہر چیز بدل چکی تھی وہ حیرانی میں ڈوبا ہوا فٹی فٹی نظروں سے چارو جانب دیکھ رہا تھا اب وہاں شہزادی اکیلی نہیں تھی کئی خادم آئیں اور کنیزیں اس کی خدمت کیلئے موجود تھی موسیقی کے سور بکھر رہے تھے اور گیت گائے جا رہے تھے جب وہ وہاں پہچا تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اس نے حیرزدہ آگے بڑھتے ہوئے شہزادی سے پوچھا شہزادی یہ سب


میں اور میرا کلا اور کلے کے اندر کی ہر چیز پر میرے باپ نے جادو کر دیا ہے اور اب چونکہ میں بہت جل اس جادو کے اثر سے آزاد ہونے والی ہو اس لئے خوشیاں منائی جا رہی ہے پھر اس نے نوجوان سے کہا تم یہا سات روز تک ٹھہر جاؤ اور پھر چلے جانا یوں بھی ابھی تم یہا سے جا نہیں سکتے کیونکہ کلے کے باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے


اور جس سورعہ میں سے تم آئے ہو اس میں دیو فسا ہوا ہے جس سے تم نہیں ہٹا سکو گے نوجوان کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا لہٰذا وہ وہاں شہزادی کے پاس ٹھہر گیا اور ان کی خوشیوں میں شریف ہو گیا جب نوجوان کو وہاں رہتے ہوئے چھے دن پورے ہو گئے اور سات وہ دن آ گیا تو شہزادی نے ایک ایک انگشتری پہنائی اور اسے اپنا دولہ بنا لیا چنانچہ اس رات وہ دونوں میہ بی بی کی طرح ایک بستر پر سوے


مگر صوائے جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ حیرز زدہ رہ گیا وہاں کی ہر چیز گائب ہو چکی تھی صرف وہ تھا اور اس کے قریب تین مردہ دیو پڑے ہوئے تھے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا نہ شہزادی تھی نہ کنیزے تھی اور نہ ہی قلعہ اور مہل تھا یا اللہ یہ کیا راز ہے وہ حیران اور پریشان کھڑا تھا کیا کرے اور کیا نہ کرے وہ کچھ دیر تک بھت بنا تاج جب سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور پھر آہستہ آ


سامنے ایک جنگل تھا وہ اسی میں چلتا رہا اس وقت اسے سخت بھوک لگ رہی تھی مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا نہ ہی اس کے پاس تیر کا مان تھا جس سے وہ کوئی شکار کر سکتا وہ چلتا رہا اور سوچتا رہا یہاں تک کہ نڈھال ہو گیا اور آخرکار ایک جگہ سستانے کے لیے بیٹھ گیا حیران و پریشان بیٹھا ہو گیا تھا کہ ایک بار پھر چھوٹے قطقہ وہی بولہ آ گیا


جس نے سبزرنگ کا کوٹ اور سر پر ہیٹ پہن رکھا تھا اس نے قریب آکر نوجوان سے پوچا اب کیا معاملہ ہے؟ تم کس مشکل میں گرفتار ہو؟ جواب میں نوجوان نے بتایا تھکن اور بھوک نے مجھے ندھال کر دیا ہے مجھ میں چلنے کی سکت نہیں رہی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس جنگل سے کین سے باہر نکلو اس پر بولا بولا اب سوز کہ میرے پاس بھی کھانے کو کچھ نہیں ہے ورنہ میں تمہیں دے دیتا


البتہ میں تمہیں ایک ایسا راستہ بتا سکتا ہوں جو تمہیں قریب ہی ایک آبادی کے ہوتل تک لے جائے گا مہربانی کرو مجھے وہ راستہ بتاؤ میں تمہارا زندگی بھر احسان نہیں بھولوں گا نوجوان نے جلدی سے کہا ہوتل کا سن کر اس کے جسم میں جیسے پھر سے جان آگئی تھی آؤ میرے ساتھ آؤ بوڑے نے کہا اور ایک جانب کو چلنے لگا نوجوان بھی اس کے پیچھے چل پڑا


تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جنگل سے باہر آ گئے نوجوان نے دیکھا تو سامنے ہی آبادی نظر آ رہی تھی وہ خوش ہو گیا اور اس نے خوشی میں جلدی سے پلٹ کر بولے کی طرف دیکھا تو وہ غایب ہو چکا تھا


وہ چند لمحوں تک وہاں کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا آبادی کی طرف چل دیا آبادی بڑی سر سبز و شاداب تھے اور ہر طرف فول کھلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے وہ آبادی میں پہنچ کر ایک ہوتل میں گیا اور جیسے ہی اس کے اندر داخل ہوا اس کا منجلے بھائی وہاں بیٹھا ہوا تھا دونوں لپک کر ایک دوسرے کے گلے ملے اور مل کر بڑے خوش ہوئے اس نے


میں گزشتہ روز ہی یہاں پہنچا ہوں کل بادشاہ کے محل میں ایک بہت بڑی تقریب ہو رہی ہے اس لئے میں کل تک یہاں ضرور ٹھیروں گا اس کے بعد اس نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا جب ہم ایک دوسرے سے جدہ ہوئے تھے تو میں نے درمیان کا راستہ پکڑا تھا جس پر سفر کرتے کرتے میں ایک نا ختم ہونے والے جنگل میں پہنچ گیا جب تھک گیا تو ایک جگہ بیٹھ کر سستانے لگا اور جب میں بھوک مٹانے


وہ کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا جس سے میں نے اندازہ کیا کہ وہ گھوکا ہے چنانجہ میں نے ڈبل روٹی کا ایک ٹبلہ اس کی طرف فینگ دیا اس نے میرا شکریہ آدھا کیا اور اس محربانی کے بدلے میں اس نے میری طلوار کو ناقابل شکست بنا دیا اس کے بعد وہ وہاں سے غایب ہو گیا اس کے جانے کے بعد میں بھی اٹھا اور دوبارہ اپنا سفر جاری کر دیا یہاں تک کہ میں اس گھنے جنگل سے باہر آ گیا اور اس آبادی میں پہنچ گیا جس کے غوٹل میں اب ہم دونوں


اتنی بات کہا کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا اور پھر دوبارہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا جب میں یہاں پہچا تو ہر شخص سوگ میں ڈوبا ہوا تھا بالکل ایسے جیسے آج یہاں کا ہر شخص خوشی اور مسورت میں کھویا ہوا نظر آتا ہے وہ سوگ کی وجہ یہ تھی کہ ایک ساتھ سروں والا عزدہا اور تین خوفناک دیو اس آوادی میں آتے تھے اور جو شخص ان کے ہاتھ لگتا تھا اسے کھا جاتے تھے وہ اپنے س


تو آبادی کے باہر فوارے کے پاس ازدہ موجود تھا میں نے آگے بڑھ کر اپنی طلوار سے ازدہ کے ساتوں سر کارڈ دئیے اور اس طرح اسے ہلا کر دیا میں نے اس کی ساتوں زبانے کٹ کر اپنے تھیلے میں رکھ لی تھاتنے میں ایک شاہی خادم آیا اس نے جب مرخوہ عزدہ دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ عزدہ اس نے ہی مارا ہے اور کل جو تقریب ہو رہی ہے وہ اسی اعجاز میں منقت کی جا رہی ہے اگر وہ تینوں دیووں کو بھی مار دے تو بادشاہ کی بیٹی کی اس سے شادی ہو جائے گی یہ سن کر بڑا بھائی کہنے لگا ان تینوں دیووں کو تم میں نے ہلاک کر دیا ہے اس کے ساتھ یہ اس نے دیووں کی کارٹی ہوئی زبانیں دکھائیں اور بولا اس کا ثبوت یہ


جب دوسرے بھائی نے یہ سنا تو بہت خوش ہوا اور دونوں آپس میں بات کرتے ہوئے کھانے پینے میں لگ گئے دوسرے روز صباحی صباح منجلہ بھائی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور سر جھکا کر ارز کیا حضورِ والا ازدہی کو میں نے ہلاک کیا ہے بادشاہ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے اس پر نوجوان نے ازدہی کی زبانیں پیش کر دی اور بولا حضور یہ رہا میرا ثبوت میں نے ازدہی کے ساتوں سر الگ کرنے کے بعد اس کی ز


اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ تینوں دیووں کو میرے بڑے بھائی نے ہلک کر دیا ہے


جیسے ہی اس نے یہ کہا دربار میں ہر طرف چے مگوئیاں ہونے لگیں اور ہر شخص ایک دوسری سے کہنے لگا شاہی خادم نے بادشاہ کو دھوکہ دیا ہے بادشاہ نے اسی وقت حکم دیا کہ اس خادم کو گرفتار کر لیا جائے اور نوجوان کے بڑے بھائی کو دربار میں پیش کیا جائے حکم کی دیر تھی اسی وقت جھوٹے خادم کو گرفتار کر لیا گیا اور نوجوان کے بڑے بھائی کو لا کر بادشاہ کے حضور پیش کر دیا گیا


کیا یہ سچ ہے؟ بادشاہ نے اس سے دریافت کیا جس کے جواب میں نوجوان نے سر جھکا کر عرص کیا آلی جا یہ درست ہے اس کے ساتھ ہی اس نے دیووں کی زبانے تھیلے سے نکال کر پیش کر دی اور اس طرح بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ ازدہے اور دیووں کو حلاک کرنے والے یہی دونوں نوجوان ہیں مگر اب مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا تھا کہ شہزادی سے شادی کون کرے گا ظاہر ہے دونوں تو شادی کر نہیں سکتے تھے خود بادشاہ بھی اپنی جگہ پر


کہ اپنی بیٹی کی شادی دونوں میں سے کس سے کرے؟ آخر بڑے بھائی نے بادشاہ سے عرص کیا حضور میں اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں شہزادی کی شادی میرے بھائی سے کر دی جائے چنانچے منجلے بھائی سے شہزادی کی شادی کر دی گئی اور اس خوشی میں ایک بہت بڑا جشن منایا گیا شادی کے بعد بڑا بھائی بہی رہنے لگا اور اسے وہاں رہتے ہوئے پورا ایک سال گزر چکا تھا


ایک روز باتوں باتوں میں شہزادی نے ان سے دریافت کیا تم دونوں کا تیسرا بھائی کہاں ہے؟ جواب میں انہوں نے شہزادی سے دریافت کیا شہزادی تمہاری بہنیں کہاں ہے؟ انہیں معلوم ہوا تھا کہ شہزادی کی دو بہنیں اور ہے شہزادی نے انہیں بتایا کہ اس کا باپ چاہتا تھا کہ تینوں بہنوں کی شادی ایک ساتھ اور ایک ہی روز کرے دونوں بڑی بہنوں کے محل ایک جادوگر نے سہرزدہ کر دئیے تھے


چھوٹی شہزادی چونکہ باب کو بہت پیاری تھی اس لیے اسے باب کی ساتھ رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن دوسری دونوں کے محل بدستور سہر زیادہ رہیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا اور وہ انہیں جادو کے سہر سے آزاد کر دے گا اور ان میں سے ایک سے شادی کرے گا انہیں وہاں رہتے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے ایک روز دونوں بھائیوں نے شہزادی سے کہا ہم شکار کے لیے جانا چاہتے ہیں ہمیں اجازت د


کہ آبادی کے باہر کا جنگل سہر زدہ ہے بہت سے لوگ اس میں گئے لیکن ان میں سے ایک بھی واپس نہیں آیا تم لوگوں کا اس جنگل میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے آپ بے فکر رہیں ہمیں کچھ نہیں ہوگا انہوں نے شکار پر جانے کے لیے اسرار کیا اور آخر شہزادی نے انہیں اجازت دے دی اس طرح دونوں بھائی شکار کے لیے جنگل کی طرف چل دئیے


دونوں بھائی جنگل میں پہنچ کر ادھر ادھر شکار تلاش کرنے لگے اور چلتے چلتے جنگل میں بہت دور اندر نکل گئے یہ تک کہ ایک جگہ گھنے درکتوں میں گھر کے راستے سے بھٹک گئے دونوں نے گھوم فرکر بہت بار راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی بگر کامیابی نہ ہوئی وہ جو جو راستہ تلاش کرتے تو تو اور زیادہ بھٹکتے چلے جاتے دوسری طرف دن ڈھل چکا تھا اور شام ہو گئی تھی


جب وہ جنگل سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرتے کرتے تھک گئے تو ایک جگہ کھڑے ہو گئے بڑا بھائی کہنے لگا کہاہش میرے پاس میرے تیروں کمان ہوتے اس پر دوسرا بھائی ٹھنڈے سانس بھرتے ہوئے بولا کہاہش میرے پاس میری تلوار ہوتی وہ دونوں افسوس کے لہجے میں بات کر رہے تھے اور ان کے چاروں طرف رات کی سیاہی کھیلتی چلی جا رہی تھی جنگل بھی خطرناک تھا جس میں خوفناک درندوں کا


سردی بھی بڑھتی جا رہی تھی دونوں اندیرے میں درختوں اور جھاڑیوں میں مارے مارے فر رہے تھے کہ انہیں ایک بہت بڑا درخت نظر آیا جس کا بڑا تنا اندر سے خوکلا تھا درخت کو دیکھ کر وہ رک گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے اس درخت کے اندر بیٹھ کر رات پسر کر لیتے ہیں انہوں نے آسپاس سے سوکھی لکنیاں جمع کی اور آگ جلا کر خود درخت کی کوئی میں بیٹھ گئے ابھی انہیں بیٹھے چندھی لنگ


اس نے ایک نمبا کوٹ پہن رکھا تھا وہ کریب آکر ان سے کہنے لگی بیٹا سردی بہت ہورہی ہے اگر تم ہجازت دو تو میں بھی آگ سے اپنے آپ کو گرم کرلوں بھلا اس چھوٹی سی بات پر انہیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا دونوں یک زبان ہو کر بولے ہاں امہ تم شوق سے آگ کے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھ پاؤں سیک سکتی ہو


ان کا یہ کہنا تھا کہ بڑیا ان کے قریب آئی اس نے جلدی سے اپنے لمبے کوٹ کے اندر سے ایک چھڑی نکالی اور اسے آگ پر اس طرح مارا جیسے اسے پریدنے لگی ہو جیسے ہی اس کی چھڑی نے آگ کو چھویا اس کے ساتھ ہی آگ بج گئی اور دونوں بھائی پتھر کے بن گئے اب آئیے جرہ سب سے چھوٹے بھائی کی طرف چلتے ہیں وہ ایک نا ختم ہونے والے جنگل میں چلا جا رہا تھا وہ سفر کرتے کرتے ندھان ہو چکا تھا


آخر تھک ہار کر ایک جگہ سستانے کے لیے بیٹھ گیا اس کے تیلے میں تھوڑا بہت کھانے کو بچا تھا اس نے وہ نکالا اور کھانے لگا اتنے میں اس نے قریب ہی ایک بودے شخص کو دیکھا جو اسے دیکھ رہا تھا اس نے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلایا جب وہ اس کے پاس آیا تو اس نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی اور جو کچھ اس کے پاس کھانے کو تھا اس میں سے آدھا اسے دے دیا بودے نے کھانا کھایا اور جب کھانے سے پارک ہوا تو اس سے کہہ


تم نے مجھے سب سے زیادہ خانے کو دیا ہے اس لیے تم دوسروں سے زیادہ خوش قسمت ہو اس کے بعد اس نے ایک چھوٹی سی چھڑی پکڑ کر کہا یہ چھڑی اپنے پاس رکھو اور جب کبھی تم کسی مسیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو اسے زمین پر مارنا میں اسی وقت تمہاری مدد کیلئے حاضر ہو جاؤں گا بوڑے نے اتنا کہا اور غایب ہو گیا اس کے غایب ہو جانے کے بعد سب سے چھوٹا بھائی جس کا نام بینس تھا تھوڑی دی


تو اس نے اس کی دیگوئی چھڑی پکڑے اور دوبارہ اپنی سفر پر چل دیا وہ چلتا رہا چلتا رہا یہاں تک کہ رات ہو گئی اس وقت وہ ایک پہاڑ کے پاس تھا جہاں ہر طرف جھاڑیاں اگی ہوئی تھی اس نے ادھر ادھر نظریں دونائی اور ایک ساف جگہ دیکھ کر وہاں لیڈ گیا تاکہ رات بسر کر لے


مسلسل سفر سے تھکا ہوا تو تھا ہی جو ہی لیٹا لیٹتے ہی سو گیا صبح جب وہ نین سے بیدار ہوا تو دیکھا وہاں سے قریب ہی ایک مہل دکھائی دے رہا تھا وہ تھوڑی دیر تک دور ہی سے اسے دیکھتا رہا پھر اچانک اسے بولے کا خیال آیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی دی گوئی چڑی یاد آ گئی اس نے چڑی لے کر زمین پر ماری چڑی کا زمین پر مارنا تھا کہ قریب ہی ایک جھاڑی میں سے وہی بولا باہر


کیا تم اس محل میں جانا چاہتے ہو؟ نوجوان نے ہاں میں جواب دیا تو بولا بولا یاد رکھو یہ محل جادو کے اثر میں ہے اگر تم اس محل میں داخل ہونے چاہتے ہو تو ایک بات یاد رکھنا اس چھڑی کو اپنے ہاتھ میں رکھنا اور کسی صورت میں بھی اسے جدہ نہ کرنا ورنہ پچھتا ہوگے میں تمہاری ہدایت پر پوری طرح عمل کروں گا اس نے بولے کو یقین دلاتے ہوئے جواب دیا اس پر بولے نے اس سے کہا میرے پیچھے پیچھ


اب آگے آگے بولا چل رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے وہ چل رہا تھا اسی طرح چلتے ہوئے دونوں اس مہل کے آہاتے میں جا پہنچے وہاں جا کر انہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ گھوڑوں پر سوار تھے اور ادھر ادھر بہت سے جانور نظر آ رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا تھا سب کے سب پتھر کے بنے ہوئے تھے دونوں آگے بڑھتے گئے اور آہاتے میں سے گزر کر مہل میں چلے گئے جب وہ مہ


مگر وہ بے حسو حرکت بوت بنی ہوئی تھی ایک جگہ ایک ورد چرکھے کے پاس بیٹھی تھی اس کے ہاتھ میں چرکھی تھی لیکن وہ چرکھا نہیں چلا رہی تھی بلکہ بغیر کسی حرکت کے پتھر بنی بیٹھی تھی ایک دوسرے کمرے میں دیوار پر ایک گھڑی لٹک رہی تھی لیکن وہ چل نہیں رہی تھی


وہ باورچی خانے میں گئی تو وہاں چولے میں آگ موجود تھی مگر وہ جلانے کی حرارت سے محروم تھی گوشت روشٹ ہونے کے لیے چولے پر رکھا ہوا تھا مگر وہ بھون نہیں رہا تھا ورتن چولے پر تھا لیکن اس کے پانی میں عبال نہیں آ رہا تھا وہ دونوں وہاں سے نکل کر تیسرے کمرے میں گئے جو بیشکیمت اشیا سے بھرا ہوا تھا اور یہی وہ کمرہ تھا جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی وہ اس طرح سوئی تھی کہ سانس تک نہیں


اس وقت وہ نہ زندہ تھی اور نہ ہی مردہ تھی نوجوان حیران کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اس نے پلٹ کر بودے کی طرف دیکھا تو بودا گائب ہو چکا تھا اس نے ادھر ادھر اسے تلاش کیا لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا اب نوجوان اکیلا تھا اور حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہا تھا اس نے وہاں سے باہر نکلنا چاہا مگر اس کو مہل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملا


وہ راستہ تلاش کرتا ہوا وابرچی کھانے میں چلا گیا وہاں کچھ کھانے کو رکھا ہوگا تھا جسے دیکھ کر اس کی بھوک بھڑا کھٹھی اس نے ہاتھ بڑھایا اور تھوڑا سا اٹھا کر کھایا جیسے ہی اس نے نیوالہ مومیں لیا اس کے ساتھ ہی دیور پر لٹکی ہوئی گھڑی میں حرکت پیدا ہو گئی اور اس نے گیارہ بجائے گھڑی کا گیارہ بجانا تھا کہ اسی لمحے بیٹھی ہوئی بللی میں بھی حرکت پیدا ہو گئی


این اسی وقت چولے میں آگ جلنے لگی اور اس پر رخاوغا گوشت خود با خود بھننے لگا برطن کے پانی میں عبال آنے لگا اس نے دیکھا کہ مہل کی ہر چیز میں زندگی کی لہر دور گئی تھی بولیا نے چرخہ کاتنا شروع کر دیا تھا اور گہری نین سوئی ہوئی شہزادی بیدار ہو گئی تھی شہزادی نے اسے دیکھا تو پوچھنے لگی این و جوان تم کون ہو اور یہاں کیسے آ گئے ہو میں اپنے بارے میں سب کچھ بتاتا ہوں


لیکن پہلے تم مجھے بتاؤ کہ یہ سب کچھ کیا ہے اس میں کیا راز ہے؟ نوجوان نے جواب دیا اور پھر وہ دونوں بات کرتے ہوئے کمرے سے باہر آ گئے جہاں ایک نیحائت حسین باک تھا وہ ٹہلتے ہوئے بات کر رہے تھے کہ بارہ بجے کا وقت ہونے کو آیا شہزادی اسے لے کر دوبارہ کمرے میں آ گئی اسی جگہ لیٹ گئی جہاں وہ پہلے لیٹی ہوئی تھی اتنے میں دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی نے بارہ بجائے اور


نوجوان حیران رہ گیا اس کے سامنے وہاں کی ہر چیز اسی طرح ساکت ہو گئی تھی جس طرح گیارہ بجے سے قبل تھی وہ تھوڑی دیر تک وہاں حیرانی میں کھڑا رہا اور پھر مہل سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہاں سے باہر جانے کا کوئی راستہ کوئی دروازہ اسے نہ مل سکا اب اسے اگلے دن کے گیارہ بجے کا انتظار تھا تاکہ شہزادی پھر نین سے بیدار ہو اور وہ اس سے معلوم کرے وہ وہی


اگلے روز جب گیارہ بجے کا وقت ہوا تو گھڑی کی آواز کے ساتھ ہی ایک بار فر ہر چیز حرکت میں آ گئی اور شہزادی بھی پہلے کی طرح بیدار ہو کر بیٹھ گئی وہ اس کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور پھر وہ دونوں باق کی سہر کرنے لگے نوجوان نے شہزادی سے کہا میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں مگر شہزادی نے اسے بتایا تم اپنی خواہش کے باوجود یہاں سے جانا ہی سکو گے کیونکہ یہ مہل سہر زدہ ہے تمہاری


وہ باتے کرتے ہوئے دونوں باغ میں ٹھلتے رہے یہاں تک کہ بارہ بجنے کے قریب ہو گئے وہ واپس مہل میں آ گئے اور پھر جوہی گھڑی نے بارہ بجائے مہل کی ہر چیز ساکت ہو گئی شہزادی بھی بے حصو حرکت پڑی تھی جیسے کبھی بیدار ہی نہ ہوئی تھی نوجوان پورا سال وہاں رہا روزانہ گیارہ بجے مہل کی ہر چیز حرکت میں آ جاتی تھی اور شہزادی بھی بیدار ہو جاتی تھی


وہ اس کے ساتھ باک کی سیر کو چلا جاتا دونوں سیر کرتے اور جب بارہ بچتے تو ہر چیز پر سے پتھر بن کر ساکت ہو جاتی ایک روز اسی طرح نوجوان باک کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک اسے وہ چھڑی یاد آ گئی جو اسے بوڑے نے دی تھی چھڑی اس وقت بھی اس کے پاس تھی جیسے ہی اسے چھڑی یاد آئی اس نے اس کو ایک جھاڑی پر مارا چھڑی کا جھاڑی پر مارنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی جھاڑی


اس نے آتے ہی نوجوان سے پوچھا کہو تمہیں کیا چاہیے؟ جواب میں نوجوان کہنے لگا میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں مگر مجھے باہر جانے کا راستہ نہیں ملتا تمہارا یہاں سے جانا بہت مشکل ہے میں نے تمہیں شروع میں خبردار کیا تھا بہرحال میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں


بولا اتنا کہکر لمح بھر کے لیے خاموش ہو گیا اور پھر بولا تمہارے دونوں بھائی جادو کے اثر میں ہیں اور آج تمہارے منجلے بھائی کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا تم میرے پیچھے پیچھے آو نوجوان خاموشی سے بولے کے پیچھے پیچھے چلنے لگا بولا اسے لے کر اسی نشیبی جگہ کی طرف جا رہا تھا جہاں جنگلی جانور تھے


جب وہ جنگلی جانوروں کے قریب گئے تو بوڑے نے اپنی چڑھی سے انہیں دور ہٹایا جس سے وہ پیچھے اٹ گئے اور انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دے دیا راستے میں جلی ہوئی آگ آئی تو بوڑے نے اسے بھی اپنی چڑھی سے چھویا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آگ نے بھی انہیں راستہ دے دیا اس طرح وہ دونوں آگے بڑھتے گئے آخر میں ایک سامپ آیا جو اپنے مو میں ایک سبز پتہ پکڑے ہوئے تھا اور اس پتہ پ


آگے بڑھو اور وہ چابی پکڑ کے لے آو نوجوان ساپ کو دیکھ کر خوف زیادہ سا ہو رہا تھا اور اس میں آگے بڑھنے کی حمت نہیں ہو رہی تھی یہ دیکھ کر بوڑا بولا بغیر کسی خوف کے آگے بڑھ جاؤ یہ ساپ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا نوجوان بوڑے کے کہنے کے مطابق ساپ کے پاس گیا اور ہاتھ بڑھا کر ساپ کے مو میں پکڑے ہوئے پتھے پر سے چابی اٹھا لی


جب وہ چاوی لے کر گھوڑے کے پاس گیا تو وہ اسے ایک ایسی جگہ لے آیا جہاں بہت سی جھاڑیاں اگی ہوئی تھی۔ ان جھاڑیوں میں ایک دروازہ تھا جو نوجوان نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ گھوڑے نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور وہ اس مہل کے آہاتے میں داخل ہو گئے۔ وہاں جو لوگ اس سے پہلے پتھر کے بنے ہوئے تھے وہ سب زندہ ہو چکے تھے۔ اور اپنے اپنے گھوڑے استول کی طرف یوں لے جا رہے تھے ج


اور جانے سے پہلے اس نے نوجوان کو بتایا کہ تمہارے بڑے بھائی کا بیٹا سات ہفتوں کا ہو چکا ہے۔ بوڑے کے جانے کے بعد نوجوان خوشی خوشی محل میں گیا اور سیدہ اوپر والی منزل پر جا پہچا۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا تو چرخہ کاتنے والی عورت ایک بچے کو جھولا جھولا رہی تھی۔ خواب گا کے باہر ہی اسے شہزادی بھی مل گئی وہ سب جادو کے اثر سے آزاد ہو چکے تھے۔ جب رات ہوئی تو بات و باتوں میں نوجوان نے ش


تمہاری دوسری دونوں بہنے کہاں ہے؟ جواب میں شہزادی اُداس لہجی میں بولی مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں پھر وہ اس سے پوچھنے لگی تمہارے دونوں بھائی کہاں ہے؟ نوجوان جس قدر اپنے بھائیوں کے بارے میں جانتا تھا اس نے بتایا اسی طرح جب وہ رات کا کھانا کھا رہے تھے تو مہل کے باہر دو عجنبی آئے اور انھوں نے رات بسر کرنے کے لیے درخواست کی


یہ دونوں آجنبی اسی نواجوان کے بھائی تھے جو مہل کے نیچے دوسرے لوگوں کے ساتھ پتھر بن گئے تھے اور اب جادو کے اثر سے آزاد ہو گئے تھے


انہوں نے وہاں روشنی دیکھی تھی اور رات بسر کرنے کی غرس سے وہاں آ گئے تھے اس طرح وہ تینوں بھائی ایک بار پھر آپس میں مل گئے شہزادی بھی انہیں ایک ہٹے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ان کی خوب خاطر توازو کی اور پھر انہیں آرام کرنے کیلئے کمرا دیا آج وہ ایک طویل عرصے کے بعد سوک چین کی نین سوئے تھے دوسری صبح جب بڑا بھائی کھڑکی میں سے باہر دیکھ رہا تھا تو اسے جنگل میں وہ محل نظر آیا ج


اور اس نے بھی کھڑکی میں سے باہر دور نظرے دولائی تو اسے وہ آبادی دکھائی دی جہاں وہ رہتا تھا۔ جو ہی ان دولوں نے یہ دیکھا وہ وہاں جانے کے لیے بیچہل ہو گئے تاکہ جا کر اپنی بیوی بچوں کو دیکھیں۔ انہوں نے اپنے بھائی اور شہزادی سے جانے کی اجازت لی اور چلے گئے۔


اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے محل سے ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے اور اکثر ملاقات کے لیے آ جاتے تھے۔ اس طرح وہ سب ہسی خوشی زندگی گزارنے لگے اور اگر وہ مرے نہیں تو آج بھی اسی طرح پر مسرد زندگی گزار رہے ہوں گے۔ جس شاہی ملازم نے ازدہی کو ہلاک کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، اسے بادشاہ نے چار گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر گھوڑے دولا دیئے تھے۔ اس کے چار ٹکڑے ہو گئے تھے۔


تاکہ لوگوں کو نصیت ہو کہ جھوٹ کبھی نہیں بولنا چاہیے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow