عقلمند ملکہ کا عجب قصہ
عقلمند ملکہ کا عجب قصہ
اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت تھا قصہ اکل من ملکا کا بہت زمانہ گزرہ ملک تاتران میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی اس کا نام آدل تھا وہ باقی انصاب پسند تھا اور اپنی ریائیہ کا بہت خیال رکھتا تھا ساری ریائیہ ہمیشہ اپنے بادشاہ کی درازی عمر کے لیے اور سحت و تندرستی کے لیے دعائیں مانگا کرتی تھی صبح سبے رے روزانہ بادشاہ اپنے مہل کے جھروکے میں آ کر بی
اور ساری ریائیہ اسے دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتی بادشاہ مہل سے اشرفیاں لٹا تا اور ریائیہ کو خوش حال دیکھ کر خود بھی بہت خوش ہوتا بادشاہ کی بیوی کا نام تمکنت تھا وہ بھی بادشائی کی طرح بہت نیک رحم دل اور پاکواز تھی روزانہ صبح وہ مہل کے صدر دروازے کے قریب مسنت پر بیٹھ جاتی اور اس کے حکم سے شاہی ملازمین، غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کو خانہ اور کپڑے تق
اور خوشالی کا دور دورہ تھا بادشاہ کا ایک بیٹا تھا اس کا نام خوبرو تھا وہ سجموچ بہت ہی خوبصورت تھا اور اپنے والدین ہی کی طرح رحمدل اور ریائیہ سے محبت کرنے والا تھا اس کی عمر 16 سال کی تھی وہ بہت ذہین اور ہوشیار تھا ہمیشہ بادشاہ کے ساتھ رہتا اور حکومت کے کاروبار پر پوری توجہ دیتا نتیجہ یہ ہوا کہ 16 سال کی عمر ہی میں وہ سلطنت کے تمام عمر سے اچھی طرح واقف ہو گیا
اور تیر اندازی میں کمان حاصل کر لیا تمام درواری بزیر و امیر شہزادے سے بہت خوش رہتے تھے شہزادہ خوبرو اپنے ماباب کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھا اب بادشاہ اور ملکہ کو یہ فکر تھی کہ کسی خوبصورت اور خوبصیرت شہزادی سے خوبرو کی شادی ہو جائے اگرچہ کہ محل کے امرہ اور وزراہ کی لڑکیاں بھی بہت حسین تھی لیکن شہزادے کو ان کی سیرت پسند نہ تھی ہر وقت کسی نہ کسی کی ٹھوم میں رہ
جھوٹ بولنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اچھی طرح شاہی آداب سے بھی واقف نہیں تھیں کئی ملکوں کے بادشاہوں نے بادشاہ آدل کو اپنے ملک شہزادے کے ساتھ آنے کی داوت دی اس امید پر کہ شاید ان کی بیٹی شہزادے کو پسند آ جائے اور شادی کا رشتہ تہ ہو جائے بادشاہ اور ملکانہ خوبرو کو ساتھ لے کر کئی ملکوں کی سیر کی لیکن خوبرو کو کوئی لڑکی پسند نہیں آئی اب وہ ملکوں کی سیر کرتے کرتے تھک چکے تھ
انھوں سے مشورہ چاہا مشیروں نے تین دنوں کی محولت چاہی اس دوران وہ سب ایک رائے پر مطفق ہو گئے اور چوتھے دن بادشاہ کے پاس پہنچے انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سلامت اب جو ممالک باقی رہ گئے ہیں آپ انھیں اپنے قاسد بھیج کر یہ غزارش کریں کہ اگر ان کی کوئی بیٹی شادی کے لاقح ہو تو وہ اسے لے کر ملک تاتران پہنچیں اس کے لیے ایک مہا کا وقت دیجئے پھر ہر ملک کے بادشا
ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی ہو باقی بادشاہوں کو دیگر چھوٹے محلوں میں مہمان بنا کر رکھا جائے اس طرح باری باری شہزادہ خوب روح ہر شہزادی کے اخلاق و آدات اور شاہی آداب کا جائزہ لیں ممکن ہے اس صورت سے کوئی حل نکلائے بادشاہ و ملکہ کو یہ تجبیز بہت پسند آئی کم از کم دس ممالک کے بادشاہوں کو شاہی غزارش نامے کے ساتھ قاصد روانہ کیے گئے ایک مہینہ گزرتے
اپنی اپنی بیٹھیوں کو لے کر ملکتہ تاران پہنچ گئے ہر بادشاہ کا شایہ نشان استقوال کیا گیا اور ہر ایک کو الگ الگ محلوں میں تمام تر شاہی آداب و احترام اور سعولتوں کے ساتھ شاہی محمان کے طور پر رکھا گیا غرز باری باری ایک ایک ہفتے کے لیے ہر بادشاہ ملکہ اور شہزادی کو خاص محل میں ملایا گیا شہزادی نے ہر شہزادی پر نظر رکھی اس طرح دسوں ممالک کے بادشاہ
لیکن کوئی بھی شہزادی شہزادے کی امیدوں پر پوری نہیں اُتری اور تمام بادشاہ ناموراد واپس اپنے وطن لوٹ گئے ان کے جانے کے بعد شہزادہ خوبروں نے بادشاہ اور ملکہ سے کہا کہ ان میں کوئی شہزادی اس لایق نہیں تھی جس سے میں شادی کیلئے رضامند ہوتا حیرت کی بات تو تھی کہ مجھے تو ان میں سے کچھ ایسی لڑکیاں بھی نظر آئیں جو کسی صورت سے شہزادی لگتی ہی نہیں تھی جیسے کسی معمولی گرانے کی ہو اور ہم
یہ تو اچھی بات نہیں۔ اس رات موصلہ دھر بارش ہو رہی تھی۔ ہر طرف اندیرہ تھا، توفانی ہوایں چل رہی تھی۔ بادل گرج رہے تھے اور بجلی بھی چمک رہی تھی۔ تب ہی شاہی دربان کو محل کے دروازے کے پاس ایک سائیہ نظر آیا۔ دربان قریب کے سائبان سے نکل کر دروازے تک پہنچا۔ بجلی چمکی تو دربان نے دیکھا کہ وہ ایک بہت ہسین لڑکی تھی۔ جو پانی میں بھیک کر تھر تھر کاف رہی تھی۔ دربان
کہ وہ بادشاہ سلامت سے ملنے آئی ہے۔ دربان نے بادشاہ کو خبر دی اور بادشاہ نے لڑکی کو مہل میں بلوالیا۔ بادشاہ کے سات ملکہ بھی موجود تھی۔ لڑکی نے یہ بتایا کہ وہ ملک کسران کی شہزادی ہے اور اپنے والدین کے سات کشتی میں سوار ہو کر تاتا ران آ رہی تھی کہ کشتی سمندر میں توفان کا شکار ہو گئی۔ اس کے والدین اور ملازمین غرک ہو گئے اور وہ کسی طرح ٹوٹی ہوئی کشتی کے ایک تختے پر سو
ملکہ نے فوراً اس کے کپڑے ایک علیہدہ کمرے میں لے جاکر تبدیل کروائے اور پھر تنہائی میں بادشاہ سے بولی خدا جانے یہ سچ مچ کوئی شہزادی ہے یا ہمیں فرعیب دے رہی ہے پھر وہ کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی خواب گاہ میں چلی گئی اس نے جلدی جلدی پلنگ کا گدہ اٹایا پھر اس نے مطر کے تین دانے غلہ خانے سے لا کر پلنگ کے سرحانے رکے اوپر سے پرندوں کے نرم و نازک پروں سے بھری
پانچ پتلے پتلے گدھے بچھائے پھر ان کے اوپر ایک بہت موٹا اور آرام دہ گدھا بچھایا اس پر ریش میں چادر ڈالی اور پھر اڑنے کے لیے ایک انتہائی خوبصورت گرم اور موٹی چادر رکھ دی تمام کھرکیاں بند کر کے شمع روشن کر دی کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا پھر اس نے لڑکی کو خواب گاہ میں پہنچا دیا اور اسے وہاں سونے کے لیے کہہ کر باہر نکل آئی اور دروازہ بند کر دیا ص
کہ لڑکی پلنگ کے سرحانے سے تکیع لگائے پیروں پر چادر ڈالے بیٹھی ہوئی ہے ملکہ نے محبت سے پوچھا کہو بیٹی رات اچھی نیند آئی لڑکی بولی جانے کون سی بات ایسی تھی کہ رات بھر مجھے چین نہیں آیا اور میں اچھی طرح سو بھی نہیں سکی یہ سنتے ہی ملکہ نے لڑکی کو گلے سے لگا لیا اور پھر بادشاہ شہزادہ خوبرو اور تمام امرہ بزرا کو جمع کر کے ساری بات کہہ سنائی
یہ کوئی انتیائی ناز اور لات پیار سے پلی بڑی ہوئی شہزادی ہی ہو سکتی ہے کہ جس کا مزاج اتنا نازک ہو اور وہ اتنی حساس ہو کہ اتنی نیچے رکھے ہوئے صرف تین مٹر کے دانوں کی وجہ سے اسے نین نہیں آئی اور وہ رات بھر جاکتی رہی۔ شہزادہ خوبر بھی شہزادی کے حسن و جمال اور آدات و اعتبار سے بہت متاثر ہوا۔ پھر دھوندھام سے دونوں کی شادی ہو گئی۔ شہزادی نے ایک دن شہزادے کو اپنی زندگی کے تمام ح
میں اپنے والدین کی اقلوطی بیٹی ہوں اسی لئے میرے والدین یعنی ملک کسران کے بادشاہ اور ملکہ مجھے بے حت چاہتے تھے لیکن سانت ہی سانت وہ میری اچھی تربیت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اللہ نے سب کچھ عطا کیا تھا لیکن میرے والدین میں فخر و گرور تکبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی دونوں بہت نیک تھے اور اپنی ریائیہ کا بہت خیال رکھتے تھے یہی حال سارے درباریوں کا بھی تھا اسی وجہ سے ملک
میں بہت ہی نازو نیم سے پلی بڑھی اور میری تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی گئی میں سب سے ہمیشہ بڑی مہربانی سے پیش آتی تھی جب تمہارے ملک سے تمہاری شادی کی خبر میرے والدین کو ملی تو وہ سوچنے لگے کہ کاش ہماری بیٹی کی شادی تاتاران کے شہزادے سے ہو جاتی لیکن افسوس کہ ہمارے پاس تمہارے ملک سے کوئی قاسد نہیں آیا تربی وزرا عمرہ اور دیگر درواریوں کی مرضی کے مطابق ہم لوگ بن بلائے
اور سفر میں ہماری بہت بڑی اور عظیم عشان کشتی سمندری طوفان میں فز کر تبا ہو گئی مجھے اپنے والدین کے اس طرح لوکمہ عجل ہو جانے کا بہت افسوس ہے نا جانے میرے ملک کا کیا حال ہے شہزادی نے شہزادی کو تسلی دی اور کہا فکر مد کرو میرے والدین بھی تمہارے والدین کی طرح ہی نیک اور ریائیہ پرور ہیں تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی میں بادشاہ سلامت سے کہہ کر فورا تمہارے ملک ایک قاسد بھیج کر
وہاں موجود وزیروں اور امراء کو تمہارے حالات سے باق خبر کرتا ہوں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ میرے والدین تمہارے ملک کی باگ دور سمان لے کے لیے ہم دونوں کو وہاں بھیج دیں پھر ایسا ہی ہوا اور ملک قسران کے تمام وزیروں اور امیروں کی مرضی سے شہزادہ خوبرو کو بادشاہ بنا دیا گیا شہزادہ خوبرو نے بادشاہ بنتے ہی ملک کی ترقی اور خوشالی کے لیے نئے عظمے کے ساتھ کام شروع کیا اور ایک بار پھر ملک
ریائے اپنے نئے بادشاہ اور ملکہ سے بہت خوش تھے
What's Your Reaction?