امیر مالک مکان جنزادہ اور غریب کی لڑکی
امیر مالک مکان جنزادہ اور غریب کی لڑکی
میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہوستل سے اس طرح نکال دی جاؤں گی وارڈن نے صاف کہہ دیا کہ اپنا سامان پیک کرو اور یہاں سے چلتی بنو ورنہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا میں اچھی طرح سے جانتی تھی کہ یہ سب زکیل کا کام ہے اس نے مجھے یہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا تھا پچھلی رات کو وہ مجھے دکھائے دیا تھا یہ تو شروع سے ہی ہوتا آیا تھا کہ مجھ پر جب بھی کوئی مسئیبت آتی
راتوں سے دیکھا تو اس وقت سی میں عجیب کشمکشکا شکار تھے دل میں ایک در تھا کہ آج کچھ غلط ہونے والا ہے اور ایسا ہو گیا تھا میں کمرے میں آ کر اپنا سامان پیک کرنے لگی ساتھ ہی دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھے آخرکار تم نے مجھے یہاں بھی سکون سے جینے نہیں دیا میری ایک رومیٹ میری قریب آئی اور مجھ سے کہنے لگی تم کچھ پریشان دیکھتی ہو کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہو میں نے کہا نہیں نہیں
مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے اور دیکھو لڑکی آئندہ سوچ سمجھ کر کسی کی مدد کرنے کے بارے میں سوچنا ورنہ ساری عمر کا پشتاوا بھی مل سکتا ہے میری بات سن کر وہ نا سمجھے کہ عالم میں مجھے دیکھنے لگی اور اپنا بیگ اٹھا کر وہاں سے باہر نکل گئی کھر کی سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے خاص لاد اور پیار حاصل تھا یہ لاد پیار کا نتیجہ تھا کہ جوانی میں قدم رکھ
ناہی کھر کے کسی کام کی زماداری مجھ پر تھی میری دادی پر جنات کا سایا تھا جس کی وجہ سے ان کی طبیت اکثر خراب رہتی بھائی زلفی امارے دور کے رشتہ دار تھے جب بھی دادی کی طبیت خراب ہوتی بابا انھیں بلالاتے اور وہ نجانے کیا عمل کرتے ہیں کہ دادی کے جنات غائب ہو جاتے اور وہ بلکل ٹھیک ہو جاتی یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلا مکر بچپن سے مجھے یہ بات جاننے کا تجسس تھا کہ آخر زلفی بھائ
کہ دادی بلکل ٹھیک ہوجاتی ہے بچپن میں امی سے کئی بار اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر بھیلا دیا کہ ان کے پاس جادو ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جادو کے زور سے دادی کو جنات کے اثر سے نکال لیتے مگر جوان ہونے کے بعد مجھے اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کے پاس غلام جنات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے اپنی مرزی کے کام نکلواتے ہیں میرا دل چاہتا کہ میں بھی ان سے عملیات سکھوں اور جنات کو
کہ میں نہ صرف لوگوں کی مدد کر سکوں بلکہ میری ایک خواہش تھی جس سے میں ہر صورت پورا کرنے کے لئے بیتااب تھیں وہ خواہش یہ تھی کہ اپنی محبت کو پا سکوں احتشام میری محبت تھا جسے پانے کے لئے میں ہر مشکل عمل کرنے کو تیار تھیں ایسا نہیں تھا کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ وہ بھی مجھے دل و جان سے چاہتا تھا مگر اس کی معمولی سی نوکری امی اور بابا کو پسند نہیں تھی میری زد کے آگے مجبور ہو کر انہوں نے می
مگر یہ کہ کر شادی سے منع کرتے تھے کہ جب تک یہ شام اپنا کھر نہیں بنالیتا ہم تمہارا نکاح نہیں کریں گے۔ وہ جب بھی ملتا مجھ سے اپنی بیچینی کے قصے بیان کرتا۔ ہمارے خاندان میں جلد شادی کرنے کا ریواز تھا۔ تب ہی تو 22 سال کے ہونے کے بعد میں چاہتی تھی کہ اب ہمیں ایک ہو جانا چاہیئے۔ اُس روز وہ مجھے ملا تو بہت اداز تھا۔ کہنے لگا،
اس کی بات سن کر میرے دل تڑپ اٹھا اور میں بولی خدا کے لئے ایسے مطہ بھئی کہہو تم میرے لئے میری پوری کائنات ہو مجھے اس پاس سے کوئی قرص نہیں کہ تمہارے پاس دنیاوی دولت ہے یا نہیں بلکہ میں تو دل سے تم سے محبت کرتی ہوں اور میرے لئے اتنا کافی ہے کہ تمہارا دل میری محبت سے بھرپور ہے اگر کوئی دولت من شخص مل جائے اور اس کے دل میں ہمارے لئے محبت ہی نہ ہو تو سوچو کیا فائدہ ایسی دولت کا
میری بات سن کر وہ ہنس پڑھا جیسے اپنی مفلسی کا خودی مزاک اڑھا رہا ہوں اور بولا یہ سب باتیں دل کا بہلاوہ اور وقتی سہار آئیں اگر دولت ما دونا ضروری نہ ہوتا تب تک میں تمہیں اپنی دلہن بنا چکا ہوتا میں نے اسے تصلید دیتے ہوئے کہا کہ میں آج ہی بابا سے اپنی شادی کی بات کرتی ہو امید ہے وہ مان جائیں گے اس دن میں احتشام سے ملنے کے بعد پارک سے گھر واپس آئے تو بہت اداس تھی
اعتشام کو پریشان دیکھ کر میری ادا سے ختم ہونے کا نامیں نہیں لے رہی تھی وہ اپنے والدین کی اقلوطی اولاد تھا بوڑے معام باپ کی واحد سہارہ ہونے کی وجہ سے ان کی دوائیوں کا بوجھ بھی اس کے سر پر تھا اپنی ذمہ داری کو وہ بڑی خوشتلی سے پورا کر رہا تھا آدھی تنخوا معام باپ کے علاج مالجے میں چل جاتی جو رقم باقی بجتی اس سے اپنی دوسری ضروریات پرکیا کرتا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گھر لے
رات کو بابا خیر آئے تو میں ان سے بات کرنے کے لئے اپنے اندر ہیمت پیدا کرنے لگی اس سے پہلے کہ میں ان سے بات کرتی بابا نے مجھے خود ہی کمبرے میں بلالی اور کہنے لگے منزا! بیٹی کیا بات ہے؟ میں نے تمہیں دیکھا تو یہ بات نوٹ کیا ہے کہ تم بہت پریشان ہو میں نے نظریں جھکا کر کہا دراصل بابا میں کہنے چاہ رہی تھی کہ اتشام کے مام با بہت بودھے ہو چکے ہیں اتشام تو کام پر چل جاتا ہے
وہ چاہتے ہیں کہ جلدر جلد اپنے بیٹے کی شادی کر دیں تاکہ کھر میں کوئی ان کا خیال رکھنے کے لئے موجود ہو وہ شادی کی بات کرنے کے لئے کھر آنا چاہتے ہیں میری بات سن کر بابا کا چہرا سرخ ہو گیا اور وہ بولے تمہیں یہ خرافات اسی کمباخت اعتشاہم نے سکھائے نا اسے کہہ دو کہ اس کھر کے دروازے اس وقت تک اس پر بند ہیں جب تک وہ اپنا کھر نہ بنا لے جس چھوپڑے میں وہ رہتا ہے وہاں تو میں کسی طور تمہارے
اگر مزید اس موزو کو کسی نے چھڑا تو ہو سکتا ہے میں یہ رشتہ اے ختم کر دوں میں چپ چاہ پ اپنے کمرے میں آگئی اور راونے لگی اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں زلفی بھائی سے جنات کو کابو کرنے کا طریقہ سیکھ لوں اور جنات کو کابو کر کے اتشام کے لئے ایک گھر بنوالوں جسے دیکھ کر بابا ہماری شادی کے لئے راضی ہو جائیں گے میں نے دل ہی دل میں پختہ ارادہ کر لیا اور پرسکون ہو کر سو گئی
زلفی بھائی کھر پر موجود تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے مہنزہ بیٹا خیر تو ہے ڈادی کی تبیط تو ٹھیک ہے نا میں مسکرات دی اور کہنے لگی بے فکر رہے کھر میں سب خیریت ہے میں آپ کی شاگرد دی میں آنا چاہتی ہوں میں چاہتی ہوں کہ میں بھی مختلف عملیات سیکھوں میری بات سنکر وہ حیران رہے اور کہنے لگے ہوش میں تو ہو تم لڑکی اپنے کھر جا ہو اور ایسی بات کبھی سوچنا بھی مطر کیونکہ جنات کو کابو کر کے
کبھی کبار تو اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے میں نے کہا میں جانتی ہوں آپ اس بات کی فکر ہی مات کریں کہ کوئی مجھے نقصان پہنچے گا میں اپنا بھر پور خیال رکھوں گی اور ویسے بھی ایک نا ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے وہ میرے قریب آئے اور بولے یہ سچ ہے کہ ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے لیکن کیا یہ سوچ کر ہم اپنی زندگی اور سوک اور چین کے خود ہی دشمن بن جائیں نہیں کبھی بھی نہیں میں
اگر تمہارے ماں باپ مجھے اس چیز کی اجازت دے تو او سکتا ہے میں اپنی رادہ بدل دوں ان کی بات سن کر میں بہت خوش ہوا امی اور بابا کو منانا میری ریے بہت آسان تھا بلکہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے انہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی میرا چھوٹا بھائی اکسر نید سے جاکر رونے لگتا امی اس کی وجہ سے بہت پریشان تھی کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اسے رات کے وقت کچھ دکھائی دیتا ہے
یہی مناسب وقت تھا کہ میں امی اور بابا سے املیات سیکھنے کی اجازت تلب کرتی میں نے کہا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھنے کیلئے زلفی بھائی سے املیات سیکھنا چاہتی ہوں انہوں نے مجھے اجازت دی دی اور یہیں ہی سے میری بدقسمتی کا آغاز ہوا انہوں نے مجھے پہلے اس بارے میں بتا دیا تھا کہ مجھے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے میں خوش تھی اور مجھے کسی چیز کا خوف نہیں تھا کیونکہ اس وقت میرے سر
اعتشام میرے اس فیصلے سے خوش نہیں تھا مگر وہ میری زد کے آگے خاموش ہو گیا پہلے دنی کچھ عجیب واقعات پیش آئے جس سے بتانے لگو تو بات بہت طویل ہو جائے گی مو سلسل تین راتیں کبرستان میں چلا کھٹنا تھا اس کے بعد ہی کوئی جن میری قید میں آتا پہلی رات اکیلے کبرستان میں گزارنا میرے لیے بہت مشکل مگر زلفی بھائی نے کہا تھا کہ جب چلا شروع کرو گی تو درمیان میں ادھورہ مدھ چھوڑنا و
سو لاکھ ڈرنے کے باوجود میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا تیسرے دن زکیل نمی جن میرے ساتھ رہنے کے لیے پابند ہو چکا تھا اس روز میں بہت خوش دی میں نے تو کبھی صحاب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک طاقتور جن میری قید میں آسکتا ہے جس سے میں اپنا ہر من پسند کام کروگاوں گی اور جیسے چاہے زندگی گزاروں گی چوٹے دن زلفی بھائی نے مجھے بلایا اور کہنے لگئے زکیل سے مل چکی ہو میں نے خوش
ہاں وہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے ابھی صرف مجھے دکھائی دی رہا ہے اس سے بات کرتی ہوں اگر کچھ بولتا ہی نہیں ہے مجھے لگتا ہے کہ اس سے بات کرنا پسند نہیں ہے یا شاید وہ ابھی مجھ سے معنوث نہیں ہوا میری بات سن کر بھائی کے چہرے پر مسکورہ ہیٹ پھیل گئی اور وہ بولے وہ کوئی پالتو جانور نہیں ہے کہ جو تم سے معنوث ہوگا پاگل لڑکی وہ جن ہے جو اپنی طاقت کے بلبوتے پر تمہارے کام آئے گا بگر ایک بات
پر نہ وہ اسی طرح تمہارے ساتھ انجان بن کر زندگی گزارے گا جلدی تو میں سہرا علم سکھا دوں گا ابھی تمہیں ارام کی ضرورت ہے آخر تین راتیں مسلسل جاکتی رہی ہو سچ تو ہی تھا کہ جن کو اپنے آس پاس محسوس کرتے مجھے تو سونے کا خیال تک نہیں آیا کھر آکر بستر پر لیٹھی تو وہ مجھے اپنے ساتھ ہی بیٹھا محسوس ہوا مجھے پہلی بار بہت عجیب محسوس ہوا ایسے جیسے میری ذاتی زندگی میں
اگلی صبح سوکر ہوتھی تو میرا پورا کمرا کانچ سے بھرا ہوا تھا اجھے کانچ کے برتن جمع کرنے کا شوق تھا جو اب ہزار ٹکڑوں کی صورت میں میرے پورے کمبرے میں بکھرے پڑے تھے میرے قیمتی برتن جو میرے بابا مختلف مالک سے میرے لئے لے کر آئے تھے میرے لئے اپنی جان سے زیادہ قیمتی تھے کبھی کسی کی امت نہیں ہوتھی کہ وہ نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھتا اب اپنی بے قدری پر کفی افسوس
جیسی سارے معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سب کچھ تم نے کیا ہے نا؟ میں نے نیحائی تفسوس کے علم میں اسے سوال کیا تو وہ بولا میں کسی کے حکم کا غلام نہیں ہوں، میرا جو جی چاہے گا میں وہ کروں گا شکر کرو کہ میں نے اس سے زیادہ نقصان نہیں کیا وحزتے ہوئے بولا اور میرا جی چاہا کہ اسے ایسی سزا دوں کہ ساری عمر یاد رکھے میں جلدہ جلد زلفی بھائی کے پاس جانا چاہتی تھی تاکہ ان سے مکمل عملیات سیکھ کر اسے اپن
میں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو امی کی نظر جیسے ہی میرے کمرے پر پڑی وہ آگ بگولہ ہو گئیں اور مجھے خوب ڈاٹا میں نظر جکا ہے کسی مجرم کے طرح کھڑے تھے بابا نے کہا اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے بات کرو یوں نقصان کر کے تم کیا کبھی اپنے مسائل حل کر سکو گی میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا بابا یہ سب کچھ میں نے نہیں کیا یہ سارا نقصان اسی جن کا ہے جس کا نام زکیلہ اور اب میرے ساتھ
میری بات سن کر میرے سب بہن بھائی زور سے ہسنے لگے جیسے انہیں میری بات پر یقین نہیں آیا ہو اور وہ میرا مزاق اڑا رہی ہو امی نے کہہ دیا لو بھلا کسی جن کو کیا پڑھی کہ وہ اتنی تبایی پھیلائے ایسی بات کرو جس پر یقین کیا جا سکے ساری عمر گزر گئی آج تک کسی نے ہمارا تو ایسا نقصان نہیں کیا امی تو کسی طور مجھے ماف کرنے والی نہیں تھے خیر بڑی مشکل سے معاملہ رفہ دفع ہوا
کانچ کو اپنے کمری سے صاف کرتے ہوئے میرے ہاتھ بھی زخمی ہوئے۔ یہ ایک الک داستان ہے۔ میں اُس روز دلفی بھائی کے پاس گئی، مگر وہ کھر پر ہی نہیں ملے۔ وہ کسی کے علاج کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے۔ مجھے شدید مایوسی کا سامنہ ہوا۔ میں چاہتی تھی کہ زکیل سے میرا پیچھا چھوٹ جائے، یا یہ پھر میرے مطابق کام کرے۔ کانی کی ٹیبل پر بیٹی تو سارا کھانا کھا جاتا۔
مگر اب اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ضرورت سے زیادہ کھانا لینے پر ڈاڑ پڑھنے لگی امی کہتی تمہارا پیٹ ہے یا اندھا کوئن جس کے اندر ہر چیز جا کر غائبوجاتی ہے کم کھایا کرو پکاتے ہوئے میں تھک جاتی ہوں تین وقت کا کھانا ایک ٹائم میں ختم ہونے لگائے مجھے سخت شرمندکی کا سامنا تھا میں اُنہیں یہ بات کیسے بتاتی کہ کھانا جو ختم ہوتا ہے اس کے چند لکھ میں ہی
نا رو کر سکون ملتا اور ناہی سو کر تین دن بعد میں زلفی بھائی کے کھر گئی تاکہ ان سے مل سکوں مگر وہاں پانچی تو معلوم ہوا کہ اسی وقت ان کا ایک حادث میں انتقال ہو گیا ہے میرے لئے یہ خبر کسی بڑے صدمے سے کم نہیں تھی میں نا امید ہو کر کھر لوٹ آئی امی اور بابا کو اس بات سے اگاہ کیا تو امی نے مو پھیل لیا جبکہ بابا نے کہا بیٹا پریشان مٹو
میں کسی عالم سے بات کر کے تمہارا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مجھے کچھ اطمینان ہوا پکر یہ سقون بہت آرزی ثابت ہوا زکیل جن نے میرا جینا دوبہر کر رکھا تھا اس کے ساتھ رہنا ایسے تھا جیسے ہر پرل اپنی جان کو کسی مسئبت میں گرفتار رکھنا یک تنگ آ کر میں نے کہہ دیا تم میری زندگی سے دور چلے جاؤ میں تمہیں اپنے ساتھ برداش نہیں کر سکتی وہ بولا میرا بھی آپ کے ساتھ دم گھٹتا
یہاں رہنا میری زندگی کی سب سے بڑی مجبوری ہے یہ کہہ کر وہ بچوں کی طرح رونے لگا اس پہلے مجھے افسوس ہوا کہ بلا وجہ میں نے ایک جن کی زندگی خراب کر دی اس روز اس نے الماری سے سب کے نئے کپڑے نکال کر ان میں سراح کر دی میں اس صورتحال پر کابو نہیں پا سکتی تھی کیونکہ میں خود تھک چکی تھی میری ہمبت اب جواب دینے لگی تھی ہمی نے اتنا بڑا نقصان دیکھا تو مجھے بے نکت سنائی
اور بابا سے ایسی بات گئی جس کی مجھے امید ہی نہیں تھے کسمت سے بدقسمتی کا سفر شاید اسی کو کہتا ہے میں امی اور بابا سے بات کرنے کیلئے ان کے کمبرے کی طرف جا رہی تھی کہ اپنا نام سن کر رک گئے امی کہہ رہی تھی منزا کو لینے کی ضرورت کی کیا تھی ہمارے اپنے ساتھ بچے تھے بکر دوست کی موت کے بعد تم نے جھرسی اس کی زیماداری اپنے سر لے لی کیا ہو جاتا اگر منزا کو اس کے چچو یا خالہ وغی
ارے مام باپ مرے تھے باقی سب تو زندہ تھے کیسے ہمارے سروں پر چڑھ کر ناچ رہی ہے سارا علزام اُس جن کے سر ڈال دیتی ہے جس کا شاید کوئی وجود ہی نہیں اور نہ یہ جان کر مجھ پر حیرت کا پہاڑ ڈوٹ پڑا کہ وہ دونوں تو میرے مام باپ ہی نہیں تھے اندر سے بابا کی آواز سنائی دی ایسے کس طرح چھوڑ دیتا میرے دوست اسد نے مرتے وقت اپنی چند دن کی بیٹی کی زمانداری م
تو میں بھلا کیسے اسے باپ بن کرنا پالتا؟ جو مسائل چل رہے ہیں ان کے لئے میں خود بھی پریشان ہوں اور جلد کوئی حل نکال لیں گے پریشان ماتو اور خدا کے لئے غصے میں منزا کے سامنے اس بات کا ذکر مات کر دینا کسی بھی صورت اس راز کو راز ہی رہنے دو وہ اور کچھ بھی کہہ رہے تھے لیکن میں اپنے بے جان قدموں کو گسیرتی اپنے کمبر میں آکئی یہ تھی میری حقیقت
ترقیقت وہ میرے تھے ہی نہیں میں کہیں کھنٹے روتے رہی آخرکار میں نے ایک فیصلہ کیا اب اعتشام ہی میری مدد کر سکتا تھا میں نے اپنا ضروری سامان بیک اندر رکھا اور تبھی ایک قدموں سے ہر سے نکل کھڑی ہوئی اعتشام کے کھر کے سامنے پانچی تو راحت کا وقت تھا میں نے دروازہ بجایا تو باہر نکلا اور مجھے دیکھ کر بولا تم؟ راحت کے اس وقت یہاں؟ سب خیر تو ہے نا اس نے حیرت سے پوچھا تو میں نے کہا
خیر نہیں ہے اعتشام میں اس کے گلے لگ کر رونے لگی اور اسے پوری بات بتائی تو وہ کہنے لگا اوہ! تم نے اپنے پیچھے جن لگا لیا اور مجھے بتا رہی ہو میں نے کہا کیا مطلب ہے تمہارا میں سارے زمانے میں یہ علان کرتی پھرتی کہ مجھ پر جن کا سایا ہو گیا ایک دم اعتشام کا روحیہ بدل گیا اور وہ بولا آسٹا آواز میں بات کرو اندر سب مام باپ میرے سو رہیں ان کی نیت خراب ہو جائے گی میری آنکھیں آنزوں سے لب
میں نے کہا کہ میں تو اب اپنے گھر واپس نہیں جا سکتی جب تک زکیل میرے ساتھ ہے میں اس گھر میں مزید زلیل و خوار ہونے کے لیے نہیں رہوں گی تم اپنے گھر میں میرے لئے جگہ بناؤ یہ سن کر وہ ہاتھے سے یکھڑ گیا اور بولا تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا امہ اپا کو کیا کہ کر کر میں رکھوں گا میں نے کہا تو وہ بولا میرے ساتھ یہ تمہاری وجہ سے سب کچھ ہوا ہے میں چاہتی تھی کہ کسی جن کو کابو کر کے میں تمہارے ل
میرے بابا ہم دونوں کے شادی کے لیے پھر رضا مد ہو جائیں گے مجھے تمہاری اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی تب ہی تو میں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا میں نے کہا تو وہاں سپڑا اور بولا کہ ایسی بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو اگر جنات کو کابو کر کے ہر چیز حاصل کی جا سکتی تو آج دنیا میں کوئی غریب ہی نہ ہوتا دیکھو اس وقت میں خود اپنی نوکری کو لے کر بہت پریشان ہوں تمہاری وجہ سے کوئی نئی مسیبت نہیں
آئندہ یا مات آنا، رات کافی زیادہ ہوگی ہے مجھے اب سونو ہوگا خدا حافظ یہ کہہ کر ورکا نہیں بلکہ دھار کی آواز سے دروازہ بند کر دیا میں مایوس اور اداس کھڑی رہ گئی جس شخص کی مدد کرنے کے لیے میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا تھا وہی شخص بدل گیا تھا میں رونے لگی اے لڑکی تجھے پیسے چاہیے تو ایک رات کا صودہ کر لے مالا مال کر دوں گا ایک شخص نے مجھے دیکھ کر آنکھ
میں نے نفرت عمیز نظروں سے اسے دیکھا اور وہاں سے تیزی سے نکلے ایک گھنٹے بعد میں ہوستل کے افیس میں بیٹھے اپنا داخلہ کرواری تھے میں نوکری کے سلسلے میں اس شہر آئیوں اس لئے یہاں ریائش اختیار کرنا چاہتی ہوں میں نے بھانہ بنائے کر کارڈ حاصل کر لیا اور کمرے میں جا کر لیتی سونے کی کوشش کرنے لگی میری یہاں کسی سے دوستی نہیں ہو سکی تھی مکر میری آنے کے بعد یہاں عجیب و غریب واقعات ہونے لگے تھے
اور اکسر لڑکیاں میرے بارے میں ایک دوسرے سے کان میں کچھ کہتے ایک روز ورڈن نے مجھے بلایا اور بولی دیکھو منزا جو بات بھی ہے ساف ساف کہہ دینا مجھے چکربازی اور جھوٹ پسند نہیں ہے میں نے دل ہی دل میں علائی خیر کا ورد کیا اور کہنے لگی میم جو بات بھی ہے آپ مجھ سے پوچھ سکتی ہیں میں نے چہرے پر مسکورہ ہٹ سے جائے کر اپنا اعتماد بحال کیا تو ورڈن نے کہا دیکھو منزا جب سے تم آئ
تک تین لڑکیاں یہ ہوستل چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو گئی ہیں اس طرح تو ہمارا سالوں پرانا کاروبار تبا ہو جائے گا تم تو جانتی ہو کہ آج کے دور میں اسٹیبلش ہونے کتنا مشکل ہے میں نے کسی مجرم کی طرح سر جگہا کر کہا یا سمائم آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر کسی لڑکی کے یہاں رہنے یا چلے جانے سے میرا بھلا کیا تعلق میری بات سن کر مائم زور سے ہنسنے لگی اور بولی انسان کو اتنا ہی جھ
میں یہاں پندرہ سال سے جوپ کر رہی ہوں تمہاری آدھی عمر سے زیادہ تجربہ رکھتی ہوں یوں سمجھو کہ چہرہ دیکھ کر حال حیات بیان کر دیتی ہوں اس کی بات سن کر میرا چہرہ زرد ہو گیا میرا علاق خوش گورہ تھا میں نے مشکل سے کہا کیا مطلب مین؟ وہ بولی ہوستل میں تمہارے آنے کے بعد جو پر اسرار وحاقیات شروع ہوئے ہیں وہ اب نہ ہو ورنے اب تم اپنا انتظام کر لینا یہ میری طرف سے آخری بارننگ سمجھ
جو مسئلہ بھی ہے تمہارے ساتھ اس بات کا مجھے پورا یقین ہے سب کوئی صفائی پیش نہیں کرنا میں شرمندہ سے کمرے میں آ گئی اگلے دن ہی موصیبت سر پر کھڑی تھی پیشلی رات میری رومیٹس نے میرے بیگھ کو کمرے میں حرکت کرتے دیکھا وہ پوری رات انہوں نے ڈر کر گزاری جبکہ میرے لیے یہ بات کوئی نئی نہیں تھی میں پرسکون سو رہی تھی صبح ہوتے انہوں نے میری کمپلین کر دی کہ میں نے تو کبھی خ
کہ ہوستل سے اس طرح سے نکال دی جاؤں گی وارڈن نے صاف کہہ دیا کہ اپنا سامان پیک کر اور یہاں سے چلتی بنو ورنہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا میں اچھی طرح سے جانتی تھی کہ یہ سب زکیل کا کام ہے اس نے مجھے یہاں پر بھی سکون سے نہیں رہنے دیا تھا پچھلی رات کو وہ مجھے دکھائے دیا تھا یہ تو شروع سے ہی ہوتا آیا تھا کہ مجھ پر جب بھی کوئی مسئیبت آتی زکیل ہی اس کی وجہ بنتا رات
میں دل میں ایک در تھا کہ آج کچھ غلط ہونے والا ہے اور ایسا ہو گیا تھا میں کمری میں آ کر اپنا سامان پیک کرنے لگی سات دل ہی دل میں اسے مخاطب تھے آخرکار تم نے مجھے یہاں بھی سکون سے نہیں جینے دیا میری ایک رومیٹ میری قریب آئی اور کہنے لگی کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہوں میں نے کہا نہیں نہیں مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور دیکھو لڑکی آئندہ سوچ سمجھ کر کسی کی مدد کرنے کے بار
ورنہ ساری عمر کا پشتاوہ بھی مل سکتا ہے میری بات سن کر وہ ناسمجھی کیعلم میں مجھے دیکھنے لگی اور میں اپنا بیگ اٹھا کر وہاں سے واہر نکل گئی اعتشام کی احسان فرو موشی میں کبھی نہیں بھلا سکتی تھی جس کی محبت میں میری زندگی اجیب مشکلات کا شکار تھے سچی کہا جاتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے محبت کرنے کے بعد انسان کو کچھ سمجھائی نہیں دیتا
میں تو اتے شام کی مبت میں گرفتار ہو کر اتنی بڑا دھوکہ کھا بیٹھی جو اب زکیل کی صورت میں ہر دم میرے ساتھ رہتا۔ میں ہوسکل سے نکل کر کسی پناہ گھاہ کی تلاش میں چلتی جا رہی تھے۔ ایسے لگتا جیسے دنیا میں میری جگہ ہی ختم ہو چکی ہے۔ کافی دیر پیدل چلنے کے بعد مجھے تکاوت محسوس ہوئی۔ تو میں ایک ڈھابے نماہ ہٹیل پر بیٹھئی۔ ویٹر نے مجھے چائے کا کپ لائکر پک
اسے دوران میری نظر میز پر پڑھے اخبار پر پڑھی اور میں نے اُٹھا کر ورکردانے شروع کر دی اسی وقت میری نظر ایک اشتہار پر پڑھی جہاں پینگ گسٹ کے لئے اشتہار دیا گیا تھا میں نے جلدی سے اڈرس نوٹ کیا اور کھانے کے بعد وہاں چل پڑھی آدھے راستے پر میں بھول گئی تھی کہ اس جگہ کا کیا نام تھا خیر میں اندازے سے چلتی ہوئی ایک ویران سے علاقے میں داخل ہو گئی زکیل کو میں اپنے ساتھ چلت
مکر دن کے وقت وہ مجھے مکمل طور پر دکھائی نہیں دیتا تھا میں میز اُس کی ایک پرشائی دیکھ سکتی تھے میں نے دیکھا کہ ایک اندھیری سی گلی تھی اس گلی میں تین گھر تھے جن کے دروازے ایک جیسے تھے میں مدد مانگنے کیلئے کسی گھر میں جانے کا سوچ رہی تھی اس وقت میری حیرت کی انتہان رہی کہ جیسے ہی میں نے دروازے پر دستک دینی چاہی زکیل وہاں سے غائب ہو گیا میرے دروازہ بجانے سے پہلے ہی
کیا بات ہے لڑکی؟ تم یہاں پر کیوں آئی ہو؟ اس نے عران ہو کر مجھ سے پوچھا تو میں تو جیسے کسی ہمدرد کی ہی تلاش میں تھے میں نے اپنی پوری کہانی اسے سنا دی جسے سن کر وہ افسوس کرنے لگا اور بولا فکر مات کرو تم اب سے میری ذمہ داریوں میں تمہارا خیال رکھوں گا مگر خیال رہے کہ یہاں میری تین بیویاں رہتی ہیں انہیں تمہاری یہاں موجود کی کے بارے میں علم نہیں ہونا چاہیئے میں خوش تھی کہ اب نیک جن ذات ہ
وہ میرے ساتھ تھے مجھے اپنے گھر میں لے کر گیا تھا جہاں میری لوہ کوئی نہیں تھا میں خوش تھی اور یہ سوچ کر کافی مطمئن تھی کہ میرا مسئلہ حل ہونے والا ہے جن ذات نے مجھے مزدار کھانا پیش گیا اور میرے ساتھ بڑے احترام سے پیش آیا مجھے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ دنیا میں اچھے جنات کا سائیہ بھی ہے کچھ جنات بہت نیک ہوتے ہیں جو ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں سقون اور تحفوظ
پنی اک تل جن زیادہ بھی ایسا ہی تھا اس کی موجود کی میں زکیل میرا ساتھ چھوڑ چکا تھا وہ مجھ سے دور ہو گیا اس سے بڑھ کر میرے لیے اچھی بات بھلا اور کیا ہوسکتی تھی؟ میں چاہتی تھی کہ امیشہ یہیں پر سکون زندگی گزارتے رہوں ویسے بھی میرا اس دنیا میں تھا ہی کون؟ جن لوگوں نے معاب بنا کر پالا تھا وہ غیر لوگ تھے میرا ان سے کوئی رشتہ بنتا ہی نہیں تھا ان پر مزید بوجھ بننا مجھے بالکل پسند
انسانی عبادی سے دور یہ بڑی پرسکون جگہ تھے جہاں شور ہنگامہ کچھ نہیں تھا مگر زندگی کا یہ سکون نہائی تارزے ثابت ہوا نا جانے کیا بات تھی کہ خوشی کے لمحات جل ختم ہو جاتے تھے اس رو سبے کے وقت نیک دل جنزادہ مجھے ناشطہ دینے کے لیے آیا تو میں نے اس کا شکریہ دا کیا اے نیک دل جنزادے تمہارا بہت شکریہ تم بلا شبا نیک ہو
میں نے آج تک ایسا جن ذات نہیں دیکھا جو ایسی نیک فطرت رکھتا ہے میں نے تو آج تک زقیل جیسے فزادی جن کوئی دیکھا تھا جو میری زندگی کی خوشیاں نگل گیا تھا اور مجھے میرے اپنوں سے دور کروا دیا تھا میں پھوٹ پھوٹ کر رہنے لگی جن ذات میرے قریب آیا اور محبت سے میرا سر تھامتے ہوئے بولا میں آج چاہوں تو اس کم بخت زقیل کو اس کے انجام تک پہنچا دوں مگر یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور پھ
کچھ کالتیوں میں انسان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ دوسرے کو کسوروار ٹھہر آتا ہے میں تمہیں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا میکر شاید انسان کی فترت ہی ایسی ہوتی ہے میں نے کسی مجرم کی طرح سر جگہ دیا وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا میں خود ہی کسی جن کو اپنا غلام بنانا چاہتی تھی زکیل میری اسی خواہش کا نتیجہ تھا جب ہم فترت کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں تو ہمیں ماییوسی کا
خُدا تعالیٰ نے انسان، حیوان اور جنات کے زندگی گزارنے کے لیے کچھ قانون اور فطری اصول بنائے۔ اگر ان اصولوں سے احط کر زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے، تو سوائے بربادی اور خواری کی اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں، میں خود ہی اپنے سقون کی دشمن بنیوں۔ مجھے اپنی غلطی کا حساس ہے۔ جن ذات نے کہا اس غلطی کو صدارنے کے لیے تم مجھے اپنا ہم قدم پاؤ گی۔ اب میں چلتا ہوں می
مجھے یہاں تک آنے کے لیے دروازے پر دستک کی ضرورت نہیں میں خود ہی اندر آ جاؤں گا میں نے سر ہلائیا اور جن ذات کے جانے کے بعد دروازہ بند کر کے بستر پر لیٹ گئی شاموئی تو میرا دل ڈوبنے لگا یہاں کے خموشی اور سناتے سے میرا دل ڈکھتا رہا تھا میرے کھر جہاں کبھی سناتہ نہیں ہوا تھا سب بہن بھائی مل کر کھر میں ہر وقت انگامہ مچائے رکھتے مجھے اپنے بہن بھائی یاد آنے
کشتیر خود کو بہلانے کیلئے برونی دروازہ کھلا اور باہر جھانکنے لگی مگر باہر سن آتا تھا ایسے لگتا کہ یہاں کوئی آیا ہی نہیں ہو دور سے چند آوازیں سنائی دی تو میں ان آوازوں کی طرف متوچے ہو گئی انسانی وجود اس جگہ لمبے سمے تک نہیں رہ سکتا تھا اور اگر کوئی جن اس کی مدد کرے تو تبھی ایسا ممکن ہے تو کیا ہمارے شوہر نے کس انسان کی مدد کی ہے؟ اور ہمیں بتایا تک نہیں؟
میں نے آواز کو قریب آتے محسوس کیا تو دروازہ بند کر کے کمرے میں آگئی مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا وہ یقینن ان سب جن ذات کی بیویاں تھی اور کسی انسان کی خشبو پاکر اسے تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئی تھیں میں نے ان کی آوازوں کی طرف غور کیا وہ بڑے بنافتی انداز میں کہہ رہی تھی دیکھو تم جو کوئی بھی ہو سامنے آجاؤ ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی ورنہ تم تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
ہمارا شوہری تمہارے بارے میں سب کچھ بتا دے گا دوسری بیوی کی آواز آئی وہ اسی گھر میں موجود ہے دیکھو ذرا دروازہ کتی سختی سے بند کیا گیا ہے وہ سب مل کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی میرا خوف کے مارے برا حال تھا اگر وہ تینوں گھر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتی تو نجانے میرا کیا حال ہوتا میں ڈر کے مارے کمپنے لگی اے انسان دروازہ کھول ورنا ہم جو اندر داخل ہو گئیں تو
ایک جن ذادی پوری طاقت سے دھاڑی مجھے کچھ یاد تھا جو پڑھ کر دروازے پر دم کرنے لگی جس سے ان کی آوائز سے آئیسطہ ہونے لگی پھر تینوں کو جماعی آنے لگی اور ایک دوسرے سے کہنے لگی مجھے نید آئی ہے دوسری بولی مجھے بھی آئی ہے تیسری نے کہا ہاں میں نے بھی گھر جانا ہے وہ سب اپنے گھر واپس جلی گئی تو میں نے سگون کا سانس لیا ان تین مسیبتوں سے بہتر تر زکیل ہ
کم از کم وہ اتنا خطرناک تو نہیں لگتا تھا ہاں مگر وہ شریر جن تھا میں نے خود کلامی کی اور آنے والے کسی نئی مزیبت سے نبڑ آزمہ ہونے کے لیے خود کو تیار کرنے لگی اس رات بڑی دیر سے میری آنکھ لگی تھے ذہن مختلف تانے بانے ون رہا تھا مجھے اس بات کا تو پورا یقین ہو چکا تھا کہ میں یہاں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی وجہ جن ذادیاں تھیں جو کسی انسان کو کسی صورت اپنے علاقے میں بر
رات کا نجانے کون سا پہر تھا کہ کسی نے میرا کندھا ہلا کر مجھے جگانے کی کوشش کی میں پچھلی دو راتوں سے سو نہیں سکی تھی سو میری لیے آنکھیں کھولنا مشکل تھا میں نے بمشکل آنکھیں کھول کر جن ذات کی طرف دیکھا جو ہولے ہولے مجھے پکار رہا تھا منزا کیسی ہو منزا میں تم سے معزرت چاہتا ہوں تمہیں میری وجہ سے تقلیف اٹھانی پڑی ہے مگر میں کیا کرتا مجھے ضروری کام سے جانا تھا
تم اٹھو روٹ کر مجھ سے باتے کرو میں اٹھو بیٹھی تو وہ میرے قریب بیٹھا اور کہنے لگا منزا یا تم کسی طور پر بھی محفوظ نہیں ہو کیونکہ تم اس وقت محفوظ ہوگی جب تم مجھ سے شادی کر لگی اطنیق شادی کا ذکر سن کر تمہیں حیران ہو گئی مجھے جن ذات سے اس بات کی امید نہیں تھی کہ وہ مجھے شادی کی پیشکش کرے گا مجھ سے شادی کرنے کے بعد تمہیں اس گھر میں حیرہ سائش ملے گی یوں سمجھو کہ تم
میں نے ایک نظر اس گھر پر ڈالی جہاں میں صرف مجبوری کے تحت رکھی تھے ورنہ یہاں بھی رہائش اور ایش و اشرت تو دور کی بات رہن سہن کی جگہ تک نہیں تھے جن ذات میری نظروں کا محفوم سمجھ کر بولا یہ گھر ہماری شادی کے بعد ایسا نہیں رہے گا میں سب کچھ بدل کر رکھ دوں گا تم میری بات کا یقین کرو سوچو شریع جن سے تمہارا پیچھا چھوڑو آ چکا ہوں جب میری بیوی بنو گی تو تب میری اناعیت کا
وہ سب آپس میں گہری دوست ہیں مگر وہ کسی انسان کو کبھی اپنے پاس نہیں رکھیں گی سو میں تمہیں الگ کھر میں رکھوں گا یہ کہہ کر اس نے اپنا مزبوط ہاتھ میرے سامنے پھلائیا تو میں نے اپنا نازک سا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اس کا ہاتھ تھام کر مجھے اپنا عید کا حساس ہو رہا تھا میں جلد واپس آکر تم سے جواب مانگوں گا کچھ تیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور میں اجیب کشم کشم کا شکار ہو گئی دل چاہتا تھا کہ
اس کے جانے کے بعد بھی مجھے نید نہیں آئی صوفے ہوئی تو وہ ناشطہ دے کر چلا گیا اور میں کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھ گئی میں جن ذات کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دست کھوئی مجھے جن ذات نے دروازہ کھولنے سے منع کیا تھا مگر دروازہ مسلسل بشتہ رہا تو میں اٹھ کر دروازے کے پاس آ بیٹھی دروازہ کھولو امنزہ بیٹی یہ یہ آواز تو میرے بابا کی تھی میں اس وقت بھول گئی تھی کہ میں کہاں موجود ہوں
مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ جن ذات نے مجھے دروازہ کھولنے سے منع کیا ہوا تھا مجھے تو بس اپنے بابا کے گلے لگ کر اُنھیں اپنی داستان سُنانی تھے میں اُنھیں بتانا چاہتی تھی کہ میں اپنے گھر اور معاباپ کو بہت زیادہ یاد کر رہی ہوں میں گھر واپس جانا چاہتے ہوں دروازہ کھولو منزا بیٹی ہم تمہیں لےنے آئے ہیں یہ آواز امی جان کی تھے میرا جی چاہا کہ دوڑ کر دروازہ کھولو اور ان سے ل
میں دروازے کے پاس پانچی تو مجھے کچھ ہواوازیں سنائی دی اب دیکھنا کیسے بھاک کر دروازہ کھولے گی اور آج اسے زندہ نہیں چھوڑنا اس سے معلوم کرکے رہیں گے کہ آخر وہ ہمارے شوہر پر کیوں کابز ہونا چاہتی ہے آج اسے مزہ چکھا کر رہیں گے اے نگت چل تو اس کی بہن کے ہواز نکال ایک جن زادی دوسری سے کہہ رہی تھی میں ان کی باتیں سن کر ان کی چالبازیں سمجھ گئی ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھ
انہیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس جگہ پر موجود ہوں میں کمرے میں آکر لیٹ گئی دن دھلا تو جن ذات چلایا حال احوال دریافت کرنے کے بعد کہنے لگا تم نے کیا ویسلہ کی ہے میں تمہیں دلن کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں میں نے کہا کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتی ہو وہ کہنے لگا قسم لے لو اب تک مزاق نہیں کر رہا تھا میں نے کہا کہ میں یہ شادی نہیں کر سکتی اگر واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھے مری علاق
ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزرتا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت جن ذادیاں دروازے پر آکر کھڑی ہوں گی ان کا جب جی چاہتا آ جاتی ہیں مجھے ان سے خوف محسوس ہوتا ہے میں تو صرف زکیل سے جان چھڑانے کے چکر میں یہاں تک آ گئی پرناس صح تو یہ ہے کہ مجھے تم میں یا تم سے شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں تو بس پور سکون زندگی گزاننا چاہتی ہوں تم ایسا کرو کہ مجھے یہاں سے نک
میں خود اپنی زندگی کے سارے معاملات سمحل لوں گی میں نے کہا اور راہنے لگی جن ذات میرے پاس آیا اور سر پر ہاتھ رکھ کر بولا جیسے تم کہہ ہوگی، ویسے ہی ہوگا تمہیں آج ہی تمہارے معاباب کے کھر چھوڑا تاوں مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی جلدی معن جائے گا زکیل کی فکر مٹ کرو، وہ اب کبھی تمہارے پاس نہیں آئے گا میں نے مسکرہ کر جن ذات کی طرف دیکھا اور اس کا شکریہ دا کیا سورج نے
لوگ کھروں سے نکل کر اپنے معاملاتے زندگی کی طرف چل پڑے تھے تب میں انسانی دنیا میں داخل ہوئی مجھے خوشی تھی کہ جن ذاد کی تینوں بیویاں میری فکر سے ازاد ہوگی میں بنا کچھ کہے ان کے لیے وہ بالے جان بنی ہوئی تھی جن ذاد میرے ساتھ چل رہا تھا بکر میری لفہ وہ کسی کو دیکھ نہیں سکتا تھا بہت دن بعد میں انسانوں کو دیکھ رہی تھی کافی اچھا محسوس ہو رہا تھا شہر کے اندر داخل ہوئی تو وہاں ب
جیسے سبھی اپنی زندگی کے جمیلے آج ہی نمٹانا چاہتے ہیں۔ میں نے مسکراتا شہر کے لوگوں کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ اب وہ وقت دور نہیں رہا تھا جب میں اپنے معاباپ سے گلے ملتی اور اپنے بہن بائیوں کو جنات کے علاقے کا حوال سناتی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میرے بہن بھائی اس بات پر مشکل سے یقین کریں گے کہ میں جنات کے کھر میں کئی دن گزار چکی ہو۔
میں نے جن ذات کے ساتھ اپنی گلی میں قدم رکھا تو خوشی کے مارے میں جھوم اٹھے مگر مگر میں نے کہا تھا نا کہ خوشیوں کے پر جلدی مجھ سے روڑ جاتا ہے اس وقت بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا اپنے کھر کے دروازے پر دستق دی تو دروازہ کسی انجان شخص نے کھولا اور جب میں نے اپنے بابا کے بارے میں اس سے سوال کیا تو وہ کہنے لگا کہ وہ لوگ تو دو ماہ پہلے یہ کھر بیچ کر کہیں جا چکے ہیں یہ جان کر میرا تو صدمے کے مار
ایک انجان شخص نے دروازہ بند کر لیا تھا وہ کھر جہاں بچپن کی کئی یاد دیں بکھ رہے تھے اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا میں کھر کے دروازے کی باہر کھڑی رو رہی تھی کہ سامنے سے ہمسائی کا گزر ہوا مجھے کھڑا دیکھ کر وہیں رکھ گئی اور بولی منزا تم کھب آئی ہو اور یہاں کھڑی رو کیوں رہی ہو تمہیں اندر جانا جائیے یوں سرراہ کھڑے ہو کر رونا اچھی بات نہیں ہے میں نے کہا کھر
وہ گھر جسے بیش کر میرے معاباپ چلے گئے اور انہوں نے میرا انتظار ہی نہیں کیا ہرے معاباپ تو پوری زندگی پر دیز جانے والی اولاد کی راحت تکتے رہتے ہیں اور میرے معاباپ ایسے سنگ دل نکلے کہ چندی دن میں گھر بھیش دیا کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ میں ایک دن واپس اس گھر میں آوں گی ہمسائی نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور بولی کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟ اچھا اب سمجھ آئی ہے تمہیں بھی اس پاگل لڑ
اسے یہی کہہ کر بگا دیتا ہے کہ اس کھر کے مکین کھر چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں تمہارے بابا نے کسی غیر شخص کو کھر میں رکھ کر اچھا نہیں کیا مانا کہ اس کے دماغ پر چوٹ لگی ہے مگر وہ بھی تو کسی کسی غلط فیمیاں پیدا کر رہا ہے میں سارا معاملہ سمجھ گئی اور میرے لیے وہاں رکھنا مشکل ہو گیا میں نے دوبارہ سے دھڑ دھڑ دروازہ وجایا تو اس بار میری بہن نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر تو
ہم دونوں بہنیں ایک دوسرے سے لپٹ کر بہت رویں یہی آل میری دوسرے بہن بھائیوں کا تھا میں نے امی اور بابا سے معافی مانگی مجھے دیکھ کر ان کی بوڑھی آنکھوں میں مسکرات تھے یہ وہ پیارے لوگ تھے جنہوں نے مجھے کبھی احساس نہیں دی رہا تھا کہ میں ان کی صغی اولاد نہیں ہوں مجھے زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھا میں نے یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی کہ میں اپنی زندگی کی حقیقت جان چکی ہوں آج کہی ماہ ب
اگلے دن ایک حسین صبح کا آغاز ہوا میں نے ایک اہم فیصلہ کیا جسے امیر بابا کو آگا کیا تو وہ بہت خوش ہوئے دراصل میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی جلدی کالج میں داخلہ لیا دن اور رات کا فرق بھلا کر پڑھائی کرنے لگی میڈیکل پڑھ کر ڈاکٹر بننا میرا خواب تھا اور میری اس خواب کو تابیر پانے کے لیے سب کچھ بھلا چکی تھی میں اور ایک دن ڈاکٹری کی ڈگری لے کر اپنے معاں ب
میرے معام باپ مجھ پر فکر کرتے تو مجھ اچھا محسوس ہوتا میں ایک بڑے اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کے فرائز انجام دی رہی تھی شام کے وقت کچھ کھنٹے اپنے ذاتی کلینک پر گریبوں کا مفتحلاج کرتی امی اور بابا بودھے ہو گئے کہتے ہیں کہ میں جلد شادی کرلوں اور اپنا گھر بسہوں وہ کہتے ہیں کہ عورت چاہے جتنی بھی ترقی کر لے مگر اسے زندگی میں مرد کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے ع
تبھی تو اس روز امی اور بابا نے مجھے اپنے کمبرے میں بلا کر میری پسند ریافت کی تو میں نے صاف کہہ دیا کہ انہیں پورا حق حاصل ہے کہ میرے بارے میں فیصلہ کریں میں شادی کا فیصلہ اپنی ماں باپ کی مرضی سے کرنا جاہتی ہوں امی نے اپنی ایک دوست کے بیٹے سے میرا رشتہ تیہ کر دیا حالہ تعلیم یفتہ فران بہت اچھی طبیعت کے سلجھ ہوئے انسان تھے میں اپنے ماں باپ کے فیصلے سے بہت خوش تھی آج میں صبح جلدی
کیوں کہ آج میں ایک فلاحی ادارے کی طرف سے رکھے گئے شو میں محمانہ خصوصی کے طور پر مدو تھی۔ میں نے تیار ہو کر اپنا وجود آئینے میں دیکھا تو وہاں ایک بوردبار سنجیدہ مزاج اور باروپسی ڈاکٹر کو دیکھ کر کئی گزرے ماہو سال یاد آنے لگے۔ خیر میں وقت مقررہ پر پروگرام میں شامل ہو چکی تھی کئی نامی گرامی لوگ میرے ساتھ بیٹھ کر خوشی محسوس کر رہے تھے اطلاق میں ازبان نے مائک
کیا آپ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے جسے سنکر لوگ بالکل حیران رہ جائیں؟ اچانک مجھے ذکیل اور نیک جنزاد یاد آگیا جس کے ساتھ گزرا ہوا وقت میری زندگی کا یادگار وقت تھا ساتھ ہی تین جنزادیوں کے خیال نے میرے لبو پر مسکان پھلا دی مگر میں اچھی طرح سے جانتی تھی کہ ایسے واقعات پر یقین کرنا انسانی اقل کے بس کی بات نہیں
اسے میری خوشکسمتی کہلیں یا بدکسمتی آخری بار میں نے مینی خیز انداز میں کہی تو پورا حال تالیوں سے گھونچنے لگا اور مجھے اپنی ہر کامیابی پر ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے نیک دل جن زیادہ میری خوشی میں خوش ہے اس وقت بھی مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے لوگوں کے حجوم میں کھڑا وہ میرے حوصلے بلند کرنے کے لیے تالیوں وچا رہا ہے
What's Your Reaction?