پانچ سوداگر اور ایک اجنبی مسافر

پانچ سوداگر اور ایک اجنبی مسافر

Dec 5, 2024 - 07:06
 0  5
پانچ سوداگر اور ایک اجنبی مسافر
پانچ سوداگر اور ایک اجنبی مسافر

بہت دن ہوئے بہت دن و پہلے کی بات ہے ایک لمبا چونہ کافلہ ریگستان سے گزرتا چلا جا رہا تھا جہاں تک نظر جاتی تھی زمین پر رید بچھی ہوئی اور

اور گھڑوں کی گردن سے لٹکتی ہوئی گھنٹیوں کی گونج دور دور تک سنای دی تھی۔ گھڑوں کی ٹاپوں سے گرد کے بادل امرتے اور سارا منظر چھپ سجاتا۔ ہوا کا کوئی جھوکا اس بادل کو اڑا لے جاتا تو گھڑ سعواروں پہ زرق برق لباس اور ہتیاروں کی چمک دکھائی دی تھی۔ سامنے سے ایک سعوار دھیرے دھیرے کافلے کی طرح بڑھتا آتا تھا۔ اس کے عربی گھڑے پر زین کی جگہ چیتے کی خال پڑ

اور گھوڑے کی پیشانی پر رنگین پرو کی کلگی تھی سوار بھی اپنے گھوڑے ہی کی طرح چست مزبوط اور شاندار نظر آتا تھا اس کے سر پر ایک سفت پگڑی تھی سنہرے تاروں سے آراد تھا پاجامہ گہرے چمکیلے سرک رنگ کا تھا اور بائے کاندے سے اس نے ایک خوبصورت تھیلہ لٹکا رکھا تھا گھنے ابنوں کے نیچے روشن سیاہ آقیں تھیں خوب اُبری ہوئی ناغ اور لمبی کالی داری نے اس کے چہ

اس وقت جب وہ کوئی پچاس گز کے فاصلے پر رہا ہوگا اس نے گھوڑے کو اڑھ لگائی اور پلک جپکتے میں کافلے کے پاس آ پاچا دور دور تک فیلے ہوئے سنسان دشت میں ایک اجنبی سوار کو دیکھ کر کافلے کے پہردار چونکے انہوں نے اچانک اپنے نیزے سوار کے سینے کی طرف تان دیئے شکریہ دوستو اس خیر مقدم کا سوار نے تنز بھرے لہجے میں کہا شاید تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اکیلا ابھی تمہار

پہرے داروں نے شرما کر اپنے نیزے جھکا لیے پھر ان کا کماندار آگے بڑھا اور سوار سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ اس کافلے کا مالک کون ہے؟ سوار نے دریافت کیا کئی مالک ہیں کماندار نے جواب دیا مکہ سے کئی سودگر اپنے وطن کی طرف واپس آ رہے ہیں کبھی کبھی اس ریگستان میں لٹیرے کافلوں کو لوٹ لیتے ہیں اس لئے ہم ان کی حفاظت کر رہے ہیں مجھے ان سودگروں کے پاس لے چلو

ابھی تو یہ مُنکل نہیں، کماندار نے جواب دیا وہ لوگ ابھی کافی پیچھے ہیں اور ہم یہاں رکھ کر ان کا انتظار نہیں کر سکتے لیکن اگر تم جاہو تو ہمارے ساتھ چلو سی پہر کو جب ہمارا کافلہ پڑھاؤ ڈالے گا تو تمہاری خواہش پوری کر دی جائے گی سوار نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کماندار کے ساتھ ہو لیا کماندار کچھ اتنا گھبرائیہ ہوئے تھا کہ سوار سے اس کا نام اور ملاقات کا مقصد پوچھنے کی حمد بھی

اس نے سوار سے اگر کوئی بات کرنی بھی چاہی تو اسے سوار نے بس گھونہا کر کے تال دیا آخرکار وہ اس مکام پر جا پہنچے جہاں کافلے کو رات گزارنی تھی کماندار نے پہرے داروں کو چوکنہ رہنے کی ہدایت کی اور سوار کے سات کافلے والوں کا انتظار کرنے لگا سب سے آگے تیس اونٹوں کی ٹکڑی آئی جن کے کجاوے پر بھری گٹھر لڑے ہوئے تھے اور ہتیار بند سپاہی ان کی حفاظت پر معمور تھے

اونٹوں کے پیچھے خوبصورت گھڑوں پر اس کافلے کے مالک یعنی پانچو سودگر تھے ان میں چار خاصے سن رسیدہ اور سنجیتہ دکھائی دیتے تھے پانچ بر نبتن کم عمر تھا اور صورتاً شوکین مجاز نظر آتا تھا پانچو سودگروں کے پیچھے بھی بار برادر اونٹوں اور خچروں کی ایک لمبی قطار تھی کھے میں گار دئیے گئے اونٹوں اور خچروں کی پیٹ سے سامان اتار کر انھیں سستانے کے لیے کل دیا گیا

بیچو بیچ نیلے رشمی کپڑے کا ایک بہت بڑا خیمہ نسب کر دیا گیا۔ کماندار نے سوار سے اسی خیمے کی طرف چلنے کی درخواست کی۔ دونوں آگے بڑے کماندار نے خیمے کا پردہ اٹھایا اور دونوں اندر چلے گئے۔ وہاں پانچو سودگر سنہری گددار کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حبشی غلام ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں پیش کرنے میں مسروب تھا۔ یہ تم کسے لے آئے ہو؟ نبتن کم عمر

اس سے پہلے کہ کماندار جواب دیتا سوار نے خود ہی بولنا شروع کر دیا میرا نام سلیم ہے اور میں کاہرا کا رہنے والا ہوں مکہ سے واپسی کے سفر میں لٹیروں کی ایک طولی نے مجھے قید کر لیا بڑی مشکلوں سے میں تین دن پہلے انہیں چکما دے کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو سکا ہوں خدا کا شکر ہے اس کافلے کی گھنٹیوں کی گونج سن کر جان میں جان آئی میری درخواست صرف یہ ہے کہ مجھے آپ لوگ اپنے ساتھ سفر کرنے کی اجازت

میں آپ کی ہمدردی کا مستحق ہوں کاہیرہ پہنچ کر میں آپ لوگوں کو اس محبت کی اعتراف کے طور پر آپ کی خدمت میں ایک نظرانہ بھی پیش کروں گا کاہیرہ کے وزیر عظم میرے معمو ہیں سب سے بودے صودہ گرنے غور سے سنہ پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے ہم تمہیں اپنے ساتھ لے چلیں گے اب آو بیٹھو اور ہمارے ساتھ کھاؤ پیو سوار بیٹھ گیا اور ان کے ساتھ فرد و نوش میں شاریک ہو گ

دسترخان قسم قسم کے لذیذ خانوں سے بھرا پڑا تھا اس نے خوب سیر گوکر کھایا سف خانے سے فارق ہو چکے تو حبشی غلاموں نے دسترخان سمیٹ کر خشبودار تمباکو کے تازدم حکی اور ترکی مشروعات کی سراحیاں سامنے رکھ دیں کچھ دیر پانچو سودگر اور یہ عجنبی سوار چپ چاپ ایک دوسرے سے بے نیاز حکی کے کشل لے تے رہے بالاخر سب سے کم عمر سودگر نے محر سقوط توڑی اور بولا ہمیں ت

یا تو گھوڑے کی پیٹ پر بیٹھے رہے یا فر کھایا پییا اور سو گئے وقت گزاری کا کوئی اور طریقہ اب تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا اب اس عالم میں میری طبیع تُغتانے لگی ہے یہاں نہ تو رقص و سرود کی محفل آرادسطہ ہو سکتی ہے نہ ہی دل کو بہلانے کا کوئی اور بحانہ نظر آتا ہے آپ لوگ ذرا غور کیجئے وقت گزارنے کی کوئی اور صورت آپ کے ذہن میں ہیں چاروں بولے سودگر یہ سن کر خامش رہے اور بیٹھے اس

لیکن سوار نے ایک تجویز پیش کی بولا میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اجازت ہو تو عرض کروں میرا مشورہ یہ ہے کہ جہاں جہاں ہمارا کافلہ پڑھاو ڈالے ہم میں سے کوئی بھی ایک دلچسپ قصہ سناے اس طرح وقت بھی کٹ جائے گا تفری بھی رہے گی تم ٹھیک کہتے ہو سب سے بوڑے سودگر احمد نے کہا یہ مشورہ بہت امدہ ہے بہت خوب شکریہ سلیم نے جواب دیا

چونکہ یہ تجبیز میں نے پیش کی ہے اس لئے سب سے پہلے قصہ بھی میں ہی سناوں گا پانچو سودگر سوار کے اور پریب سے مٹائے غلاموں نے خالی سراحیوں میں شربت بھر دیا خکے کا تمبا کو بدل کر چلموں میں دہک کے ہوئے کوئلے ڈال دیئے سلیم نے شربت کے دو تین بڑے بڑے گھوٹ لئے اپنی داری پر ہانت فیرا اور کہا اچھا تو پھر سنو ایک عجیب و گریب واردات یہ قصہ سارس بادشاہ کا ہے

سارس بادشاہ کا عجیب و غریب قصہ سلیم نے شربت کے دو تین بڑے بڑے کھوٹ لئے اپنی داڑی پر ہاتھ فیرا اور کہا اچھا تو فر سنو ایک عجیب و غریب بارداد یہ قصہ سارس بادشاہ کا ہے بہت دنوں پہلے کی بات ہے ایک روز بغداد کے خلیفہ حرون رشید

تیسرے پہر کے وقت دیوان پر مسنس سے ٹیک لگائے آرام کر رہے تھے دن بھر کے کام کاج نے انہیں تھکا ڈالا تھا اس وقت وہ کہوے کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ خوکے کے کشلگا رہے تھے ان کا وزیر عظم منسور روزانہ اسی وقت ان سے ملکات کیلئے آتا تھا آج جب وہ آیا تو اس کا چہرا اترا ہوا تھا خلیفہ نے خوکے کی لے الک کرتے ہوئے پوچھا کیا بات ہے منسور تم کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہو؟ وزیر

مجھے پتہ نہ تھا کہ چہرے سے آپ میرے دل کا حال جان جائیں گے بات کوئی خاص نہیں مہل کے باہر ایک سودگر کچھ بہت خوبصورت چیزیں پیچ رہا ہے میں ان میں سے ایک آدھ خریدنا چاہتا تھا لیکن اس وقت میری جیب بالکل خالی ہے خلیفہ نے ایک خادم کو حکم دیا کہ باہر جا کر سودگر کو بلا لائے سودگر چند لمحوں بعد اندر آیا وہ ایک ٹھگنکت کا موٹہ سا آدمی تھا اس کا لواز بہت معمولی اور پرانہ تھا

جُڑا و تپنچے، خوبصورت پیالے اور کنگھییں سامنے رکھ دیں۔ خلفہ نے وزیر کے لیے ایک تپنچہ خریدہ اور وزیر کی بیوی کے لیے ایک خوبصورت کنگھی۔ اچانہ خلفہ کی نظر ایک ننے سے سندوکچے پر پڑی جس میں سیح رنگ کا کوئی سفوف رکھا ہوئی تھا اور ایک کاغز جس پر کچھ عجیب و گریب سی لکھا وٹ تھی۔ یہ کیا ہے؟ خلفہ نے سودہ گر سے پوچھا جہا پنا میں خود نہیں جانتا کہ اس سند

مکہ کے ایک سودہگر نے مجھے یہ سندوقچہ دیا تھا آپ کو پسند ہو تو آپ کی نظر ہے خلفہ کو پرانی اور انوکی تحریروں سے خاص دلچسپی تھی اس نے وہ کاغز لے لیا اور سودہگر کو رقصت کر دیا پھر وزیر سے دریافت کیا کیا تم یہ تحریر پڑھ سکتے ہو وزیر نے جواب دیا جی نہیں مگر بڑی مسجد کے قریب ایک شخص رہتا ہے اس کا نام سلیم ہے اسے بہت سی پرانی زبانیں آتی ہیں شاید وہ پڑھ لے

خلیفہ نے اسی وقت سلیم کو بلوہ ویجا سلیم چند لمحوں بعد آ پہنچا خلیفہ نے کہا لوک تمہیں عالم کہتے ہیں اس کاغس پر لکھی ہوئی عبارت پڑھ کر اس کا مطلب بتاؤ اگر تم کامیاب ہوئے تو انام پاؤ گے نہیں تو تمہیں سزا دی جائے گی سلیم نے ایک نظر اس کاغس پر ڈالی پھر کہا یہ تحریر لاتینی زبان میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی سندوکچے میں رکھے ہوئے صفوف کو سوں کر

مواتدبر کہے گا اس کی شکل اپنے آپ اس کی پسند کے کسی جانور کی شکل میں تبدیل ہو جائے گی اور وہ جانوروں کی بولی بھی سمجھنے لگے گا پھر جب وہ دوبارہ انسان بننا چاہے تو مشرق کی طرف تین بار سر جھکا کر اسے لفظ مواتدبر کہنا پڑے گا شرط صرف یہ ہے کہ جانور کی شکل افتیار کرنے کے بعد وہ بھولے سے بھی مسکرانے کی کوشش نہ کرے نہیں تو ہمیشہ جانور ہی رہے گا

اس کو شاہ باشی دی۔ اسے انام اکرام بھی دیا اور اس سے یہ اہت کروایا کہ وہ کسی کے سامنے اس واد کا کوئی تذکرہ نہیں کرے گا۔ سلیم کے جانے کے بعد خلیفہ نے وزیر سے کہا منصور یہ تو بہت شاندار چیز ہمارے ہاتھ لگی ہے کل صبح تمہیں یہاں آ جاؤ پھر کسی سنسان جگہ پر چل کر ہم اس صفوب کا تجربہ کریں گے۔ دوسرے دن خلیفہ صبح کے ناشطے سے فارق ہوا ہی تھا کہ وزیر آ پہ جا۔

خلیفہ نے اپنے مسلح بارڈی گارٹ کو حکم دیا کہ سندوقچہ لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ کچھ دیر دونوں مہل کے گرد فیلے ہوئے باغوں میں کسی جاندار مخلوق کی تلاش کرتے رہے۔ اس تلاش میں ناکامی ہوئی تو منسور نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ جھیل کی طرف چلا جائے، وہاں سارس، بغلے اور دوسرے آبی پرندے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ خلیفہ نے منسور کی بات مان لی، دونوں جھیل کی طرف چل پڑے۔ ابھی وہ کنا

جو اپنی لمبی چوچ زمین پر جھوکائے مینڈکوں کی تلاش میں مصروب تھا۔ ایک اور سارس ہوا میں اڑتا ہوئے دکھائی دیا۔ وزیر نے پر جوش انداز میں کہا، یہ دونوں سارس ابھی اپس میں غپ شپ لڑائیں گے۔ کیوں نہ ہم خود کو سارس میں تبدیل کر لیں؟ ٹھیک ہے، خلیفہ نے منسور کی طاعت کی، لیکن پہلے ہم یہ اچھی طرح یاد کر لیں کہ جب ہم دوبارہ آدمی بننا چاہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کیوں؟ ہاں

ہمیں مشرق کی طرف تین مرتبہ سر جھکا کر ایک لفظ کہنا ہوگا معتبر لیکن یہ خیال رہے کہ کسی بھی طرح ہسی نہ آنے پائے نہیں تو ہم سارس ہی بنے رہ جائیں گے اتنے میں اوپر لولتا ہوا سارس دھیرے دھیرے پروں کو سمیٹتا ہوا نیچے اترا خلیفہ نے جلدی سے سندوقچہ کھولا چٹکی بھر سفوپ نکال کر سنگا اور پھر ایک چٹکی بھر سفوپ منسور کی طرف بڑا دیا پھر دونوں مشرق کی سمت ت

اچانک دونوں تیزی سے بدلنے لگے ان کے پاؤں لمبی لال چھڑھیوں جیسے ہو گئے پیلے رنگ کی چپلیں سارس کے پنجوں میں تبدیل ہو گئیں بازو دینے بن گئے گردن لمبی ہو گئی داریاں غایب ہو گئیں اور سارے بدن پر نرم نرم سفیت پر ہو گائے واہ تمہاری چونچ کتنی خوبصورت ہے خلیفہ نے تاریفی انداز میں وزیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا شکریہ حضور منصول نے بڑے عدب سے کہا پ

کہ آپ سارس کی شکل میں اپنی اصل سورت سے زیادہ شاندہ نظر آ رہے ہیں اب ہم ذرا ان سارسوں کے پاس چل کر ان کی باتیں سنیں ذرا یہ دیکھیں کہ ہم ان کی بولی سمجھ پاتے ہیں یا نہیں ہوا میں اُلتا ہوئے سارس زمین پر اترنے کے بعد چونچ سے اپنے پاؤں ساف کر رہا تھا پھر اس نے اپنے پر جھاڑے اور دوسرے سارس کی طرف بڑھا کہو دوست کیا حال ہے؟ پہلے سارس نے دوسرے سارس سے پوچھا خدا کا شکر ہے دوست

کہو تو تمہیں بھی ایک آد مینڈاک یا چھپکلی کی ٹانک پیش کروں؟ بہت بہت شکریہ بھائی آج پتہ نہیں کیوں بلکل بھوک نہیں ہیں میں تو بس یوں ہی کچھ دیر یہاں سکون سے گزارنے کیلئے چلی آئی آج میرے والد کے کچھ مہمان آنے والے ہیں مجھے ان کے سامنے رقص کرنا ہوگا تھوڑی سی مشک کرلوں یہ کہتے کہتے اس نے ناچنا شروع کر دیا خلیفہ اور وزیر انہیں حیرث سے دیکھ رہے تھے ان کی باد

مادہ سارس اپنی لمبی گردن ہلہ ہلہ کر بڑے جوش کے ساتھ ناچنے میں مغن تھی نرسارس اس کی طرف تحسین آمیز انداز میں دیکھ رہا تھا اچانک مادہ سارس نے ناچتے ناچتے اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھا لی اور دوسری ٹانگ پر کھڑی ہو کر چک فیریاں لے نا لگی وہ ایک ہی جگہ چکر کارتی جاتی تھی اور اپنے پروں کو پنکوں کی طرح ہلہ رہی تھی اس کو ناچ میں اتنا مغن دیکھ کر خلیفہ

جلدی سے انہوں نے اپنے پر کھولے اور یہ جاب ہو جا بڑی مشکل سے خلیفہ اور وزیر نے اپنی حسیر ہوگی واہ بھائی واہ کیا شاندار رقص تھا خلیفہ نے کہا پھر اچانک وزیر کو یاد آیا کہ انہیں حسنا نہیں چاہیے تھا اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا حضور وہ چیخ کر بولا ہم سے بڑی بھول ہوئی ہمیں حسنا نہیں چاہیے تھا اب ہم شاید دوبارہ آدمی نہ بن پائیں خلیفہ یہ سنتے ہی 

ہمیں ہسنا نہیں چاہیے تھا اف یہ کیا ہو گیا وہ کیا لفظ تھا تین بار مشرق کی طرف سر جھکا کر کچھ کہنا تھا نا یاد کرو کیا لفظ تھا دونوں مشرق کی طرف رکھ کر کے کھڑے ہو گئے تین بار اپنے اپنے سر جھکائے ہزار کوشش کی لیکن وہ لفظ یاد نہ آیا اب کیا ہوگا کیا وہ فرسے آدمی نہ بن سکیں گے دونوں اپنی حالت پر رو دیئے خلیفہ اور وزیر منسور

دونوں سارس بنے دن بھر خیطوں میں ادھر ادھر بھٹکتے فرے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح اپنی اس حالت سے نجات پائے اور دوبارہ آدمیت کے جامعے میں واپس آئے۔ واپس شہر میں آنے کی ان میں حمت نہ تھی۔ بھلا کون یقین کرے گا کہ وہ سارس نہیں بلکہ خلیفہ اور وزیر ہیں۔ اگر وہ کسی طرح لوگوں کو اپنی اصلیت کا یقین دلا بھی دیں تو کون چاہے گا کہ ملک کا انتظام دو سارسوں کے ہاتھ میں دے دیا

کئی روز تک وہ اسی طرح مارے مارے فرت رہے بھوک لگتی تو باغوں میں جا کر فل کھالیتے لمبی لمبی چونچوں سے فل کترنا انہیں بہت مشکل لگتا تھا لیکن چپ کلی یا مینڈک کھانے کے تصور سے بھی ان کا جیمت لانے لگتا تھا ان کے لیے دل بھیلانے کی صرف ایک صورت تھی یہ کہ بگداد کی حویلیوں کے اوپر کچھ دیر اُڑ لیں اور اپنے شہر کا حال دیکھ لیں ادھر شہر کے لوگ حیران تھے کہ

ان کے غائب ہونے پر شہر والوں نے تین دن تک ان کا سوگ منایا۔ چوتھے دن اپنی اڑان کے دوران خلیفہ اور وزیر نے شہر کی طرف نظر دولائی تو کیا دیکھا کہ ایک شاندار جلوز سڑک پر چلا جا رہا ہے۔ ڈھول تاشے بج رہے ہیں۔ جلوز کے آگے آگے ایک خوب سجا ڈھجا گھوڑا ہے۔ گھوڑے پر ایک شخص سنہرا زرتار لباس پہنے شان سے بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے خادموں کی صف ہے۔ س

مرزا زندہ باد شاہِ بغداد زندہ باد خلیفہ اور بزیر نے حیران ہو کر ایک دوسری کی طرف دیکھا پھر خلیفہ نے کہا منسور دیکھو مجھ پر یہ کیسا کہر ناظل ہوا ہے یہ مرزا جو گوڑے پر سوار ہے میرے سب سے بڑے دشمن کشنو جادوگر کا بیٹا ہے ایک مرتبہ میں نے جادوگر کو کسی بات پر سزا دی تھی اور اس نے ایت کیا تھا کہ کبھی نہ کبھی پلٹ کر مجھ سے بدلہ ضرور لے گا خیر میں ابھی اللہ کی

ہم ایک بزرگے کی قبر پر چل کر دعا کرتے ہیں شاید اللہ ہماری سن لے دونوں نے ایک سمت اڑان بھری تھکن سے حالت خراب ہو رہی تھی لمبی اڑان کا یہ پہلا موقع تھا تھوڑی ہی دیر بعد وزیر کی طاقت جواب دے گئی اس نے ہاپتے ہوئے کہا حضور اب مجھ سے نہیں اڑا جاتا آپ مجھ سے تیج اڑتے ہیں مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے پھر شام ہونے کو آئی ہمیں کہیں نہ کہیں رات بسر کرنے کا انتظام بھی کرنا ہوگا

خلیفہ پر بھی تھکن چھائی ہوئی تھی منسور کی تجبیث سے اس نے اتفاق کیا نیچے وادی میں انہیں کچھ کھنڈر دکھائی دئیے دونوں نے وہی رات گزارنے کا قصد پیا اور زمین پر اترائے یہ کھنڈر کسی زمانے میں قلع رہا ہوگا لمبے لمبے سطون، خوفصورت محرابیں اکہ دکھا چھتیں ابھی باقی تھی ایسا لگتا تھا کہ کسی زمانے میں یہ جگہ شاندار رہی ہوگی

دونوں ایک راہداری سے گزرتے ہوئے ایک موڑ پر پہنچے اور اچانک منصور کے پاؤں جم سے گئے حضورِ والا منصور نے سرگوشی کے انداز میں کہا ہو سکتا ہے آپ اسے بے بکوفی کی بات سمجھیں مگر ابھی ابھی میں نے ایک عجیب سی آواز سنی ہے جیسے کوئی کراہ رہا ہو مجھے بھوٹوں سے بہت ڈل لگتا ہے خلیفہ بھی ٹھہر گیا اور اس نے بھی کان لگائے تو ویسی ہی آواز سنائی دی یہ کسی جانور کی ب

حقیقت جاننے کیلئے خلیفہ آواز کی سمت میں تیزی سے بڑھا لیکن منصور نے فوراً اس کے پر مزبوطی سے پکڑ دئیے اور درخواست کی کہ یوں بلا جانے بوجے وہ جان خطرے میں نہ ڈالے۔ خلیفہ نے سنی انسنی کر دی۔ اس نے جھٹک کر اپنے پر منصور کی چونچ سے چھڑائے اور اسی اندھیری سمت میں چل پڑا۔ آگے اسے ایک دروازہ دکھائی دیا جو پوراً خلہ ہوا تھا۔ دروازے کے پیچھے سے وہ آوازیں آ رہی ت

خلیفہ اپنی چونچ دروازے کے ایک پٹھ سے لگائے چپ چاپ کھڑا ہو گیا دروازے کے پیچھے ایک کمراصہ تھا ایک دیوار میں کھرکی تھی جس سے کچھ روشنی اندر آ رہی تھی خلیفہ نے جھاک کر دیکھا تو فرش پر ایک بڑا سا علو نظر آیا علو کی آنسو جاری تھے اور حلق سے کراہیں نکل رہی تھی وہ اپنی موڑی ہوئی چونچ جو کہائے خاموش بیٹھا تھا جیسے ہی علو کی نظر خلیفہ اور من

ایک دینے کو اٹھا کر اس نے پر سے اپنے آسو پہنچے اور بہت ساف ستری عربی زبان میں دونوں کو مخاطب کیا۔ آو دوستو خوش آمدین تمہیں دیکھ کر میں کتنی خوش ہوں تمہارا آنا میرے لئے مبارک ہوگا میرے بارے میں یہ پیشن گوئی کی جا چکی ہے کہ ایک روز دو سارس میرے پاس آئیں گے اور ان کے آنے سے میری تقدیر سور جائے گی خلیفہ اور وزیر سکتے میں آ گئے چند لمحوں بعد

خلیفہ نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں جوڑے اور گردن آگے کو بڑھاتے ہوئے کہا اُلو صاحبہ آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی مسیبت میں گرابتار ہیں افسوس ہم خود ایسے حال میں ہیں کہ شاید ہی آپ کی کوئی مطد کر سکیں ہم آپ کو اپنی آپ بیتی سنایں گے اس سے اندازہ کیجئے گا کہ ہم پر بھی کئیسی تباہی آئی ہے اُلو نے ان کی کہانی کے لیے اشتیار ظاہر کیا

وہ چوپ ہو گا تو اللو بیگم نے اس کا شکریہ عدا کیا اور اپنی رودات شروع کر دی اب سنو میری کہانی سنو میں بھی تمہارے ہی طرح بدنسیب ہوں میرے باپ ہندوستان کے ایک راجہ ہیں میں ان کی ایکلوطی بیٹی ہوں میرا نام لوسا ہے وہی جادوگر کشنو جس نے تمہیں دھوکہ دیا اسی نے مجھے بھی اس حال کو پہنچایا ہے ایک روز میرے باپ کے پاس آیا اور بولا وہ اپنے بیٹے مرزا کی شادی مجھ سے کرنا چاہتا ہے

میرے باپ نے دھکے دے کر اسے مہل سے باہر نکلوہ دیا پھر وہ بھیز بدل کر ایک دن آیا میں اس وقت مہل کے باگ میں تھی مجھے بھوک لگی میں نے کھانے کیلئے کچھ لانے کا حکم دیا کشنو جادوگن نے گلام کا بھیز بدل رکھا تھا وہ میرے لیے شربت بھی لے آیا اور پھر اس شربت کو پیتے ہی اچانک میں اس حال کو پہنچ گئی مجھے اتنا گہرا سدمہ پہنچا کہ میں بے ہوش ہو گئی کشنو نے مجھے د

اب تم اسی طرح بچ سورت بنی ہوئی یہاں پڑھی رہوگی کوئی جانور بھی تمہیں مونہ لگائے گا اس حال میں تم سے اب کون شادی کرے گا تم اسی طرح پڑے پڑے مر جاؤگی میں نے تم سے اور تمہارے مغرور باب سے اپنی توہین کا بدلہ لے لیا ہے جب سے اب تک کئی مہینے گزر چکے ہیں میں اداس اور اکیلی اس ویرانے میں پڑھی ہوئی ہوں دن بھر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا بس رات کو جب چاندنی فیلتی ہے م

اتنا کہ کر الو بیگم نے اپنے آنسوں سے آنسو پہنچے اور پھر زور زور سے رونے لگی خلیفہ کو اس پر بڑا ترس آیا اس نے دھیرے سے کہا ہماری اور تمہاری بدنسیبی میں کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس موامنے کو حل کیسے کیا جائے الو بیگم نے جواب دیا جی ہاں مجھے یاد ہے میرے بچپن میں ایک بوڑی عورت نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ ایک سارس کبھی نہ کبھی مجھے

کہ وہ گھڑی آ گئی ہے یک ترکیب ذہن میں آئی ہے کیا خلیفہ نے پوچھا کشنو جادوگر مہینے میں بس ایک بار یہاں آتا ہے اس کھندر میں ایک بہت بڑا سا حال ہے کشنو جادوگر اسی حال میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے کیا پتہ کسی دن کشنو یا اس کا کوئی ساتھی وہ لفظ زبان پر لے آئے جس سے آپ بھول چکے ہیں خلیفہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں اور چوچ اٹھا کر بےقر

قلوبیگم نے کوئی جواب نہیں دیا چند لمحوں کی خاموشی کے بعد دھیرے سے بولی آپ برانہ مانے تو یہ کہوں کہ میری ایک شرط ہے اگر آپ وہ شرط مان لیں تو بتا دوں گی کہو کہو مجھے منظور ہے خلیفہ نے جلدی سے کہا میں اپنی حالت سے اسی صورت میں نکل سکتی ہوں جب آپ دونوں میں سے کوئی مجھ سے شادی کرنے پر تیار ہو جائے یہ سن کر خلیفہ اور بزیر دونوں سوچ میں پڑ گئے پھر خلیفہ نے بزیر کو باہر چلنے

دونوں اس کمرے سے باہر نکل گئے تو خلیفہ نے کہا منصور مجھے یہ احساس ہے کہ میں تم سے ایک نامناسب درخواست کرنے جا رہا ہوں مگر تم اللو بیگم سے شادی کرلو گے وزیر نے ذرا اونچی آواز میں کہا میری بیوی وہ میری آنکھیں نوچ لے گی پھر میں ایک گوڑا آدمی ہوں آپ نوجوان ہیں اور بہتر یہی ہوگا کہ ایک حسین راجکماری سے آپ ہی شادی کر لیں وہ تو ٹھیک ہے خلیفہ بولا مگر

مگر اس کا کیا ثبوت ہے کہ علو بیگم واقعی حسین اور نوجوان راجکماری ہیں مان لو ایسا نہ ہوا تو میں اندھیرے میں چھلانگ کیسے لگا دوں؟ کچھ دیر تک وہ اسی طرح بحث کرتے رہے دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنا چاہتے تھے جب بزیر پر خلیفہ کی بات کا کچھ بھی اثر نہ ہوا تو آخرکار خود خلیفہ نے علو بیگم کی شرط مان لی علو بیگم کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے کہا کشنو جادوگر آج ہ

پھر وہ انہیں اس بڑے حال کی طرف لے گئی۔ اس نے دونوں کو تاکیت کی کہ ذرا سی بھی آواز نہ ہونے پائے۔ ایک جگہ چھپ کر انہوں نے حال کی طرف نظریں جما دی۔ جب اندیرہ کچھ اور گہرا ہوا تو کشنو اور اس کے ساتھی حال میں داقل ہوئے۔ اور ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ انہیں میں وہ سودگر بھی تھا جس سے خلیفہ نے کالہ سفوپ لیا تھا۔ جو آدمی سودگر کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے سودگر سے خلیفہ اور منس

وہ لفظ کیا تھا جسے تین مرتبہ دورانے پر وہ دوبارہ انسان بن سکتے تھے؟ ایک نے پوچھا مؤتبر سودگر نے جواب دیا یہ سننا تھا کہ خلیفہ اور منسور خوشی سے اچھل پڑے وہ تیس دیش چلتے ہوئے کھنڈر سے باہر نکل گئے بیچاری علو بیگم کی رفتار بہت سست تھی لیکن کسی طرح لشتم پشتم وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلی خلیفہ نے علو بیگم سے کہا تم نے ہمیں اس مسی

تمہارے اس احسان کے بدلے میں اب میں تم سے شادی کرنے پر تیار ہوں۔ پھر خلیفہ اور وزیر مشرق کی طرف رکھ کر کے کھڑے ہو گئے۔ تین مرتبہ انہوں نے اپنی لمبی گردنیں جھکائیں اور ایک ساتھ چلائے مؤتبر اور پل بھر میں وہ سارت سے دوبارہ انسان بن گئے۔ خلیفہ اور منسور نے ایک دوسرے کو خوش خوش گلے لگایا، دونوں ہس بھی رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خوشی کے آسو بھی روا تھے۔

پھر جیسے ہی وہ ایک دوسری سے علاق ہوئے انہیں اپنے قریب ہی ایک بہت حسین راجکماری دکھائی دی اس نے زرق برق لباس پہن رکھا تھا اور شرما شرما کر مسکرائے جا رہی تھی آگے بڑھ کر اس نے خلیفہ کا ہاتھ تھام لیا خلیفہ ہیرس سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھے جا رہا تھا راجکماری نے ہسکر کہا آپ شاید انلو بیگم کو بھول گئے پھر خلیفہ اور راجکماری ایک س

نا سارس بنتا نا اس طرح تم سے ملاقات ہوتی کچھ دیر بعد وہ تینوں بغداد کی طرف چل پڑے خلیفہ کو اپنی جیب میں اس کالے سپوپ کے ساتھ اپنے بڑھوہ بھی مل گیا جس میں عشرفیاں بھری ہوئی تھی قریب کے گاؤں سے انہوں نے ضرورت کی تمام چیزہ خریدی اور جلدھی بغداد پہنچ گئے وہاں لوگوں نے اچانہ خلیفہ اور وزیر کو دیکھا تو خوشی سے دیوانے ہو گئے وہ تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ خل

اپنے پیارے حکمرہ کو انہوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا پھر لوگوں کا حجوم مہل میں جاغثہ کشنو جادوگر اور اس کے بیٹے مرزا کو پکڑ کر لوگ خلیفہ کے سامنے لے آئے کشنو جادوگر کو اسی خندر میں لے جا کر فانسی دے دی گئی اس کے بیٹے مرزا کو خلیفہ نے حکم دیا کہ وہ یا تو موت کی سزا قبول کرے یا فر وہی کالہ سفوب سوں کر سارس بن جائے مرزا نے مرنے کے بجائے سارس بننا قبول کر لیا

پھر اس کے سارس بنتے ہی خلیفانہ اسے ایک پنجری میں قید کر کے مہل کے باگ میں رکھوا دیا راجکماری سے شادی کرنے کے بعد خلیفانہ بہت بہت برسو تک چین سے حکومت کی کبھی کبھی وہ اپنے اس تجربے کو یاد کرتے اور خوب ہستے ان کے بچے جب یہ قصہ سنتے تو حیران بھی ہوتے اور انہیں ہسی بھی آتی سلیم کی یہ کہانی سب نے پسند کی ان میں سے ایک نے کہا وقت بہتے پانی کی طرح گزر جاتا ہے چلو اب ہم آگے کا سفر شرو

خی میں لپیٹے گئے اور آگے کا سفر شروع کر دیا گیا رات بھر وہ ٹھنڈی ہوا میں چلتے رہے، چلتے رہے پھر صبح ہوئی سورج نکلا دھیرے دھیرے دھوپ پھیلنے لگے جب وہ چلتے چلتے تھک گئے تو ایک جگہ قیام کی ٹھانے سودہ گروں نے عجنبی سوار کو محبت سے اپنا مہمان بنائے رکھا ایک نے اسے تقییہ دیا دوسرے نے بستر اور چند غلام اس کی خدمت پر مامور کر دیا گئے پھر جب وہ کھ

تو سب سے کم عمر صودہگر نے سب سے بوڑے صودہگر سے کہا سلیم کی کہانی نے وقت اچھا گزار دیا آج تم کوئی کہانی سناؤ احمد احمد نے چند لبوں کی خاموشی کے بعد ایک طویل سانس لی اور یوں گویا ہوا دوستو میں اپنی ہی زندگی کا ایک واقعہ سناؤں گا میں نے یہ واقعہ آج تک کسی کو نہیں سنایا مگر تم سب پر مجھے پورا بھروسہ ہے اس لئے سنو یہ قصہ بھوتوں کے جہاز کا ہے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow