ایک بیوقوف بھائی کی دلچسپ کہانی

ایک بیوقوف بھائی کی دلچسپ کہانی

Oct 29, 2024 - 11:06
 0  6
ایک بیوقوف بھائی کی دلچسپ کہانی
ایک بیوقوف بھائی کی دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو ترکی کے کسی گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے بڑے کا نام سلیمان تھا اور چھوٹے کا محمود محمود بیچارا کچھ کم اکل تھا باب مرہ تو دونوں بھائیوں کو جائیداد میں جانوروں کا ایک ریول بھی ملا کچھ عرصے دونوں مل کر ریول چراتے رہے ایک دن محمود کو خیال آیا کہ اگر ہم دونوں جانور آپس میں بات لیں تو بڑا فائدہ ہو انہیں باب کی جو زمین ملی تھی اس میں جانوروں کے دو بارے


ان میں سے ایک باڑا تو نیا اور مزبوط تھا لیکن دوسرا اتنا پرانا اور کمزور کہ ہاتھ لگاتے ہی نیچے آ رہے محمود نے سلیمان سے کہا کہ جو جانور خودبا خود نئے باڑے میں چلا جائے وہ میرا اور جو پرانے باڑے میں جائے وہ تمہارا بڑے بھائی سلیمان نے کہا بہت اچھا مجھے تمہاری تجویز پسند ہے لیکن یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ جو جانور خودبا خود نئے باڑے میں جائے وہ میرے


چلو یوں ہی سہی محمود مان گیا اسی دن دونوں بھائی کھیت میں گئے اور سارے جانور ہاک کر وہاں لے آئے جہاں باڑے تھے ساری بھیڑ بکرییاں اور گائے بیل اپنے آپ نئے باڑے میں چلے گئے صرف ایک مریل اندھا بیل جسے راستہ نظر نہیں آتا تھا لڑکتا ہوا پرانے باڑے میں چلا گیا محمود نے کچھ کہا نہ سنا مزے سے اپنا اندھا بیل پکڑ کر کھیت میں چرانے لے گیا وہ ہر روز


اور شام ڈھلے ہاک کر پرانے بالے میں بند کر دیتا ایک روز وہ اپنے اندے بیل کو چرانے لے جا رہا تھا کہ زور کی آندھی چلنے لگی آندھی کے زور سے ایک بہت پرانا درخت ڈولنے اور چرچرانے لگا خبردار بوڑے کتے گھوکو مت محمود نے درخت کو ڈاٹا لیکن آندھی چلتی رہی اور درخت اسی طرح جھومتا اور چرچراتا رہا اسے محمود کی ڈاٹنے کی زرا پروانہ تھی میں کہتا ہوں


لیکن درخت ہوا کے زور سے چر چراتا رہا میمود نے پلہڑی اٹھائی اور درخت کے تنے پر زور سے ماری لو اب بولو اس نے درخت سے کہا ارے وہ اس نے تنے پر جہاں پلہڑی ماری تھی وہاں سے اشرفیوں کا پرنالہ فوٹ پڑا تھا یہ دیکھ کر میمود بھاگا بھاگا بڑے بھائی کے پاس گیا اور کہا تھوڑی دیر کے لیے ایک بیل دے دو میں آج دو بیلوں سے ہل جو دوں گا ساتھ ہی اس نے ایک گاڑی اور چند


پھر ساری چیزے لے کر وہ جلدی سے درخت کے پاس پہچا جب شام ہو گئی اور چاروں طرف اندھیرہ چھانے لگا تو وہ دولت لے کر گھر آ گیا سلیمان نے دولت کا اتنا بڑا امبار دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اس نے محمود سے کہا چھوٹے بھائی اچھا ہو کہ ہم یہ دولت آپس میں آدھی آدھی تقسیم کر لیں احمق محمود فوراً راضی ہو گیا اور جا کر ہمسائے سے ترازو مانگنے چلا گیا


ہمسائے کے پاس ترازو تو تھی اور وہ اسے دے بھی سکتا تھا مگر اس کو فکر ہوئی کہ محمود کیا تولنا چاہتا ہے جو یوں ہافتہ ہو آیا ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے اس نے ترازو کے پلڑوں کے نیچے تھوڑا تھوڑا تار کو لگا دیا ہمسائے کا شبت درست نکلا ایک گھنٹے بعد محمود نے ترازو واپس کی تو پلڑے کے نیچے ایک اشرفی چپکی ہوئی تھی اب کیا تھا


رات ہوتے ہوتے پورے گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ محمود اور سلیمان کو کہیں سے خزانہ ملا ہے سلیمان کو فکر ہوئی اس نے محمود کو سمجھاتے ہوئے کہا دیکھو چھوٹے بھائی ساری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم بہت امیر ہو گئے ہیں میرا مشورہ تو یہ ہے کہ خزانے کو کسی محفوظ جگہ گار دیا جائے اور ہم دونوں کو چارسے کے لیے کہیں چلے جائے سلیمان نے یہ کہا اور بیلچہ اٹھایا گھر کے پچھوالے گ


چھوٹا بھائی محمود اس کے پیچھے پیچھے یوں لڑک رہا تھا جیسے نین میں ہو ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ سلیمان چلتے چلتے رک گیا اور بولا چھوٹے بھائی جلدی میں میں گھر کا دروازہ بند کرنا بھول گیا ہوں بھاک کر جاؤ اور بند کر کے آؤ محمود دروازہ بند کرنے چلا گیا بڑا بھائی آرام سے سڑک کے کنارے بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد محمود آتا دکھائی دیا وہ ہچکولے کھاتا ہوگا مشک


کندھے پر دروازے کے پٹ چوکٹ سمجھت رکھے ہوئے تھے اس نے سلیمان سے کہا بڑے بھائی میں دروازہ ہی اکھیل لایا ہوں نہ دروازہ ہوگا اور نہ کوئی کھولے گا سلیمان کو بھائی کی اس ہماکت پر سخت گسہ آیا اس نے سوچا اس احمق کے ساتھ رہنا تو سرہ اثر گھاتا ہے کسی طریقے سے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے وہ بھائی سے پیچھے چھڑانے کی ترقیبیں سوچھی رہا تھا کہ تین گھڑ سوار آ


اور دونت کی خبر سن کر کہیں ان کو لوٹنے تو نہیں آئے ہیں اس نے محمود کو اشارہ کیا اور دونوں بھاک کر نزدیک کے ایک درخت پر چڑھ گئے محمود نے دروازہ بھی اوپر گھسیٹ لیا وہ درخت پر چڑھے ہی تھے کہ گھڑ سوار این اسی درخت کے نیچے آکر رک گئے اور گھڑوں سے اتر کر درخت کے نیچے رات بسر کرنے کا انتظام کرنے لگے رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ چپ س


مگر محمود اتنا بے بکوف تھا کہ نچلا بیٹھی نہیں سکتا تھا اس نے دروازے کو سمحان لے کی بہت کوشش کی مگر افسوس دروازہ ٹھا کی آواز کے ساتھ نیچے سوے ہوئے گھڑ سواروں پر چاگرہ وہ خوف زیادہ ہو کر اٹھ بیٹھے انہیں حیرت تھی کہ یہ دروازہ کہاں سے ٹپک پڑا کچھ دیر تو ڈر کے مارے ادھر ادھر دیکھتے رہے اور پھر فورا ہی بھاک کھڑے ہوئے سلیمان نے اب پکا ارادہ کر لیا


اس کے ساتھ گزارہ مشکل ہے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھائی کو وہیں چھول کر اکیلا چلا جائے گا چنانچہ جب سورج تلو ہوا تو وہ درخت سے اترا اور ایک طرف کو ہو لیا محمود ابھی تک ام رہا تھا جب دن کا اجالہ اچھی طرح فل گیا تو اس نے آنکھے کھول کر دیکھا سلیمان غایب تھا وہ درخت سے کوت کر نیچے آیا اور مزے سے سیٹی بجاتا ہوا آہستہ آہستہ چلنے لگا دو پہر ہونے تک وہ ایک گاؤں میں پہنچا


کہ خانے کا وقت ہو گیا ہے اس لئے کچھ کھا لینا چاہیے مگر جیم میں ایک تو فوٹی کونی بھی نہ تھی کیا خریتتا اور کیا خاتا وہ گاؤں میں گھومنے فرنے لگا نماز کا وقت تھا اور لوگ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جا رہے تھے محمود ایک طرف کھڑا ہو گیا اور ہاتھ فیلا کر بھیک مانگنے لگا رحمدل لوگ اس کی ہتینی پر پیسہ دو پیسہ رکھ جاتے اتنے میں ایک موٹا آدمی وہاں آیا


ان دنوں نوکروں کی سخت کمی تھی کام کرنے والا آدمی بڑی مشکل سے ہاتھ آتا تھا ہاں جناب بڑی خوشی سے لیکن ایک شرط ہے محمود نے مہموڈ سے کہا کہو کہو مہموڈ نے بے سبری سے پوچھا محمود نے جواب دیا جناب میں جو کچھ بھی کروں آپ مصدر سے ناراض نہ ہوں اسی طرح میں بھی آپ سے کبھی ناراض نہ ہوں گا لیکن یاد رہے اگر آپ نے یہ شرط توڑی تو میں آپ کی گردن توڑ دوں گا


اور اگر شرط میں توڑوں تو آپ میری گردن توڑ دینا یہ شرط تھی تو بڑی عجیب مگر موٹا رضا مند ہو گیا اور اسے اپنے گھر لے گیا محمود نے گھر پہنچ کر سوچا کہ وہ موٹے کو تنگ کرے اور وہ ناراض ہو کر اس کو جان سے مار دے سو اس نے جاتے ہی موٹے کی مرگیوں کے پیچھے دولنا شروع کر دیا جب ساری مرگیاں پورے گاؤں میں بکھر گئیں تو وہ بھاگا بھاگا موٹے کے پاس آیا اور پوچھا جناب آپ ناراض


بالکل نہیں لیکن وہ آیندہ اس احمق کو کسی شرارت کا موقع دینا نہیں چاہتا تھا لہٰذا اب محمود سارا دن موٹے آدمی کے گھر بیکار بیٹھا رہتا کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتا نہ موٹا اسے کچھ کرنے کیلئے کہتا یہ بات موٹے آدمی کی بیوی کے لیے ناقابلے برداشتی تھی بھلائے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیوی ایک موٹے تازی نوکر کو بیکار بٹھا کر کھلائے اور مو سے کچھ نہ کہے محمود بے ہد پیٹو


اس سے جب بھی کام کرنے کو کہا جاتا وہ برطن توڑنے اور چیزیں اٹھا اٹھا کر فھیکنے لگتا اسے منے کو کھلانے کا بڑا شوق تھا مگر وہ اس کو کسی نہ کسی بحانے چھیڑ دیتا یا گرا دیتا تاکہ وہ چیکھ چیکھ کر رونے لگے موٹا اس کو نکالتا تو وہ نکلتا نہ تھا عجب بلہ بن کر بیٹھا تھا آخر تنگ آ کر ایک رات بیوی نے خواوند کو سمجھایا کہ خود ہی کہیں نکل چلو ورنہ جینا دوبر ہو ج


محمود کو سوتا چھوڑا اور گھر سے نکل کھڑے ہوئے لیکن محمود سوی افغا نہیں تھا آنکھاں بند کیئے لیٹا تھا اس نے میابیوی کی ایک ایک بات سن لی تھی وہ چکے سے اٹھا اور جب میابیوی سامان باند رہے تھے تو وہ بھی ایک گٹری میں بند گیا چلتے چلتے صبح کو وہ اگلے گاؤں میں پہنچے دونوں میابیوی اس خیال سے بڑے خوش تھے کہ گاؤں چھوڑنا پڑا کم بخت نوکر سے تو جان چھوٹی


جب انہیں یہ معلوم ہوا تو دونوں سر پکڑ کر بیٹھ گئے آخر سوچتے سوچتے انہیں ایک ترقیب سوجھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگلی رات وہ دریا کے کنارے ڈیرہ ڈالیں گے انہوں نے دریا پر پہنچ کر محمود کا بستر ایسی جگہ بچھایا کہ سوتے میں وہ ایک ہی کروٹلے تو دھڑام سے دریا میں جا گئے مگر محمود نے کہا کہ وہ پانی کے قریب نہیں سوے گا اب آپس میں بحث ہونے لگی


مہموتؑ کی بیوی بستر کے پاس لے گئی اور پانی کے قریب سونے کے فائدے بتانے لگی اس توتو میں میں میں اس کا پاورے پٹ گیا اور وہ سر کے بل پانی میں جا گری جناب آپ مصدر ناراض تو نہیں ہے؟ مہموتؑ نے مہموتؑ سے پوچھا ناراض کے بچے مہموتؑ اگت سے میں آپے سے بہر ہو رہا تھا تم ناراض ہونے کا پوچھتے ہو تمہاری وجہ سے میں نے اپنا گاؤں چھوڑا بیوی موتؑ کے مو میں چلی گئی اور پوچھتے ہو ناراض تو نہیں ہوں


میں پوچھتا ہوں تم جیسے احمق پر کس سے غصہ نہیں آئے گا اپنا وعدہ یاد کیجئے جناب محمود نے یہ کہا اور موٹے کو بھی پانی میں دھاکیل دیا اس کے بعد اس نے ہاتھ جھاڑ کر جیبوں میں ڈالے اور کندھے جھٹک کر مزے سے سیٹی بجاتا واپس چل دیا سڑکوں پر گھومتے ہوئے اس کو ایک روپیا ملا اس نے فوراً اٹھا لیا جب وہ آورہ گردی کرتا ہوئے ایک گاؤں میں پہنچا تو اسے سکت بھوک لگ رہی ت


اس نے بھنے ہوئے چنے خرید لئے اور مزے سے چنے چباتا ہوا ادھر ادھر گھومنے لگا چلتے چلتے راستے میں ایک چھوٹی سی پیاری سی ندی آئی جس پر لکڑی کا چھوٹا سا پل بنا ہوئا تھا محمود نے سوچا یہاں کچھ دیر آرام کرنا چاہیے جب وہ پل کے جنگلے پر جھکا ہوا بہتے پانی کو دیکھ رہا تھا تو چنوں کا لفافہ پانی میں جا گرہا پانی کی تیز لہریں لفافے کو بہا لے گ


اور وہ زور زور سے چلانے لگا ارے ارے او پانی کے بچے میرے چنے لیے جاتا ہے واپس لے کر آ واپس لے کر آ نہیں تو مک کے مار مار کر بھرکس نکال دوں گا اس سے نہ اس سے پاغل کر دیا تھا وہ کافی دیر وہیں کھڑا پانی کو گالیا دیتا اور مک کے دکھاتا رہا اچانک ندی میں سے ایک دیو کا سرو بھرا اور اس نے گسے سے گرچ کر کہا یہ ندی میری ہے تم مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو تمہیں کیا چاہیے مجھے می


محمود نے کہا تمہاری ندی میرے چنے لے گئی ہے اب میں کیا کھاؤں گا؟ دیو نے کہا میں تمہیں چنوں سے کہیں اچھی چیز دینے کو تیار ہوں مگر خدا کے لیے شور مطمچاؤ اس نے یہ کہا اور پانی میں ڈپکی لگائی چند ہی سیکنڈ گزرے تھے کہ دیو ایک چھوٹی سی میز اٹھائے پانی کی ستے پر ابرا اور محمود سے بولا دیکھو میا محمود دیکھنے کے لیے آگے جھکا تو دیو نے بتایا یہ چ


تو اس کو سامنے رکھ کے کہنا میز صاحبہ مجھے بھوک لگی ہے اسی وقت طرح طرح کے لذیذ کھانے حاضر ہو جائیں گے کھا چکو تو کہنا میز صاحبہ میرا پیٹ بھر گیا شکریہ دےو نے میز محمود کے حوالے کی اور قد پانی میں ڈپکی لگا کر گایب ہو گیا محمود نے سوچا کیوں نہ کھانا کھایا جائے فوراً میز سامنے رکھی اور کہنے لگا میز صاحبہ مجھے بھوک لگی ہے


پلک جپکتے میں اس کے سامنے قسم قسم کے لذیذ کھانے آ گئے اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس کھانے کو پہلے کھائے اور کس کو بعد میں بس اس نے خوب کھایا، خوب کھایا جب پیٹ کا کوئی کونہ کھالی نہ رہا تو کہا میز صاحبہ میرے پیٹ بھر گیا ہے شکریہ ابھی اس کا جملہ ختمی بھی نہ ہوا تھا کہ میز ساف ہو گئی اس نے میز اٹھا کر کندھے پر رکھی اور آگے کو چل پڑا وہ مزے مزے سے سیٹی بجاتا اگلے گاؤ


تو سوچا کہ کیوں نہ گاؤں والوں کی شاندار دعوت کی جائے وہ ایک جگہ کھڑا ہو گیا اور چیکھ چیکھ کر کہنے لگا آج شام کو گاؤں کے چوک میں سب لوگوں کی دعوت ہے آنا نہ بھلیے شام کو گاؤں کے چوک میں بھیڑھ لگ دئی لوگ ہیرت کے مارے ایک دوسرے کا مو تک رہے تھے اس احمق اجنبی پر انھیں ہسی بھی آ رہی تھی جو بغیر کسی وجہ کے اتنے لوگوں کو کھانے کی دعوت دے رہا تھا کھانے کا کوئی بندوبست


دے گیا اور دیکھچے تو کیا آگ کی ایک چنگاری بھی نہ تھی جس پر کھانہ تیار کیا گیا ہو لوگوں نے ایک دوسرے کے کان میں کہا یہ ہمیں الو بنا رہا ہے آؤ اس کے دو چار چپت لگائیں اور اس مزاق کا مزہ چکھائیں لوگ آپس میں بحث کرنے اور جھگڑنے لگے لیکن محمود اتمینان سے میس سامنے رکھے بیٹھا رہا پھر اس نے میس سے کہا میس صاحبہ مجھے بھوک لگی ہے اگلے ہی لمحے میس پر کئی قسم کے کھانے آ گئے


ایسے کھانے دے ہاتھیوں نے کبھی دیکھے تک نہ تھے وہ بسم اللہ کہہ کر کھانے پر پل پڑے کھاتے کھاتے ان کا برا حال ہو گیا جب ان کے پیٹ خوب بھر گئے تو محمود نے پوچھا سب نے پیٹ بھر کے کھا لیا کیا؟ لوگوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا ہاں ہاں ہم نے اس سے پہلے اتنا اچھا کھانا کبھی نہیں کھایا شکریہ یہ سن کر محمود نے میش سے کہا میش صاحبہ میرے پیٹ بھر گیا ہے شکریہ


دیکھتے ہی دیکھتے میس پر سے سارے برطن غایب ہو گئے محمود نے میس کندھے پر رکھی اور ایک درخت کے نیچے آرام کرنے چلا گیا حیرت کے مارے دہاتیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ایک آدمی نے کہا کاش ہم روز اسی طرح کھا پی سکیں کیوں نہیں کھا سکتے؟ دوسرے نے جواب دیا بس اس میس کی ضرورت ہے یہ عجنبی تو بالکل احمق ہے پھر وہ سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ جب یہ شخ


دوسرے دن صبح سووے رے ہی جب مرگ ازانہ دے رہے تھے محمود کی آنکھ کھل گئی میس کو دیکھا تو وائب تھی بہت پریشان ہوا اسی وقت بھاگا بھاگا ندی پر گیا اور جنگلے پر جھک کر لگا گلا پھاڑنے ہائے میرے چنے میرے چنے واپس دو تھوڑی دیر بعد دیو کا سر پانی کی ستہ پر اپھرا اس کے چہرے پر غصے کے آسار تھے اس نے گرچ کر کہا کیا شور مچا رکھا ہے کیوں مجھے ت


میرے چنے وابس دو میں اپنے چنے لے کر ہی رہنگا دیو نے اسے پہچانتے ہوئے کہا اچھا تو یہ تم ہو وہ میز کیا ہوئی جو میں نے تمہیں دی تھی وہ تو کسی نے چرالی محمود نے رونی صورت بنا کر کہا مجھے میرے چنے وابس دو دیو نے پانی میں ڈوبکی لگائی اور تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں چھوٹی سی چکی لئے پانی کی ستح پر آ گیا لو یہ لو اس کے بعد تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہ رہے گی ا


اُلٹے ہاتھ گھماؤں گے تو چاندھی اب جاؤ اپنی راہ لو اور مجھے آرام کرنے دو محمود دوبارہ اسی گاؤں میں گیا اور ایک جگہ بیٹھ کر چک کی پیسنے لگا جب اس نے چک کی کو سیدھی طرف گھمائا تو آٹے کی جگہ سونہ نکلا اور اُلٹا گھمائا تو چاندھی یہ سونہ چاندھی اس کی ضرورت کے لیے کافی تھا اس کو بیچ کر اس نے اچھے اچھے کپڑے خریدے اور ایک شاندار بنگلا بھی بنوایا اب وہ بڑی


دے ہاتھیوں کو معلوم ہو گیا کہ احمق اجنبی واپس آ گیا ہے اور اس کے پاس بے شمار دولت ہے وہ چوری چوری اس پر نظر رکھنے لگے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس کی امیری کا راس کیا ہے جل ہی جادوی چک کی کا پتہ چل گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ چک کی کو سیدھا چلاو تو وہ سونا اگلتی ہے اور الٹا چلاو تو چاندی چنانچہ ایک رات جادو کی چک کی بھی چوری ہو گئی محمود صبح سو کر اٹھا تو چک کی غایب تھی


وہ بھاکتا ہوا سیدھا ندی پر پہچا اور پل کے جنگلے پر جھک کر چیکھا میرے چنے دے دو میرے چنے دے دو وہ کچھ دیر تک چلاتا رہا آخر دیو کا سر پانی کی ستے پر اُبرا اب کیا چاہیے؟ اس نے گرچ کر پوچھا تم مجھے چن نہیں لے ندھو گے میں اپنے چنے لے کر رہنگا، محمود نے کہا اس چکی کا کیا بنا جو میں نے تمہیں دی تھی؟ دیو نے پوچھا وہ بھی چوری ہو گئی محمود


اچھا ٹھے رو یہ کہ کر دیو نے پانی میں ڈپکی لگائی اور ایک لمحے بعد دوبارہ اوپر آیا تو اس کے ہاتھ میں دو چھڑیاں تھیں یہ لو دیو نے چھڑیاں دیتے ہوئے کہا اور اب جاؤ مجھے آرام کرنے دو محمود نے چھڑیاں لیں انھیں گھوما فرا کر دیکھا اور پھر سوچا بھلا یہ میرے کس کام آئیں گی ان سے میں کیا کام لے سکتا ہوں اس نے ایک ہاتھ میں ایک اور دوسرے ہاتھ میں دوسری چھڑی پکڑ لی اور دیکھنے لگا


ہاں ٹھیک ہے اب سمجھا اس نے اپنے آپ سے کہا اب میں ان بدماشوں کے پاس جاتا ہوں جنہوں نے میری جادو کی میز اڑالی اور جادو کی چکی بھی چرالی میں ان چڑیوں سے ان کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے محمود کے آنے کی خبر گاؤں میں فیلی تو سارے لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے سب کو بیچینی تھی کہ دیکھیں اب یہ احمق کیا جادو گری دکھاتا ہے اب کہ انہوں نے ایسا جادو دیکھا


محمود چھڑیاں ہوا میں لہرا کر چیکھا اے میری پیاری چھڑیوں ان کو پیٹو اس کا یہ کہنا تھا کہ چھڑیاں اس کے ہاتھ سے نکل کر تڑا تڑ لوگوں کے سروں پر پڑھنے لگیں لوگ چیکھ رہے تھے رحم رحم چھڑیوں کو بس برسنے سے کام تھا کسی کی ناک پر پڑیں تو وہ چلایا ہائے مرہ کسی کے سر پر پڑیں تو وہ چیکھا ہائے میرے اللہ محمود انہیں روتا دیکھ کر ہس رہا تھا


ندی والے دیو نے ابکہ کیا امدہ توفیٰ دیا تھا سب اپنے آپ پٹھ رہے تھے اور رحم کی بھیک مانگ رہے تھے رحم! بدماشو! محمود نے لوگوں کو مو چڑا تے ہوئے کہا میں تم پر رحم کروں گا لیکن ایک شرط ہے میری جادو کی میز اور چک کی ابھی اسی جگہ حاضر کرو ورنہ پٹھتے رہو مار کھا کھا کر دہاٹیوں کا بھرکس نکل چکا تھا انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا

19:02
تم جو کچھ کہو گے ہم کرنے کو تیار ہیں خدا کے لیے ان چڑیوں کو روک دو محمود نے چڑیوں کو حکم دیا رک جاؤ اور وہ رک گئیں لوگ گرتے پڑتے گئے اور میز اور چک کی لا کر محمود کے حوالے کی دیو کے تینوں تحفے لے کر محمود نے سوچا کہ اب چوروں کی اس بستی میں نہیں رہنا چاہیے اپنے گھر چلنا چاہیے وہ تحفے لے کر سلیمان کے پاس چلا گیا وہ بھی گھوم گھام کر کھالی ہاتھ گھر واپس آ گیا تھا


جادو کی میز، جادو کی چک کی اور جادو کی چڑیوں کے ہوتے محمود کو کس چیز کی کمی تھی؟ اس نے وہ ساری دولت جو اسے درخت کے تنے میں سے ملی تھی، بھائی کو دے دی، اس طرح دونوں بھائی امیر ہو گئے۔ محمود کے پاس ابھی ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھی ایک اچھی اور اقل مند بیوی، جو اس کو بے بکوفی کے کاموں سے روکے اور اونچ نیچ سمجھاتی رہے۔ آخر سلیمان نے اس کے لیے ایسی ایک لڑکی تلاش کر ہی لی۔


جب وہ محمود کے لئے دلہن تلاش کر رہا تھا تو اسے بھی ایک اچھی سی بیوی مل گئی دونوں بھائیوں کی شادیہ ہو گئی اور دونوں اپنے اپنے گھر ہسی خوشی زندگی گزارنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow