'تمہیں میری الواہ کوئی نہیں چھو سکتا' حسین نیلم اور عاشق جنزادی کی کہانی
'تمہیں میری الواہ کوئی نہیں چھو سکتا' حسین نیلم اور عاشق جنزادی کی کہانی
تمہیں میری علاوہ کوئی نہیں چھو سکتا جیسے ہی میرے کانوں میں یہ آواز پڑی تو میرا جسم بے جان ساؤں نے لگا یہ الفاظ اتنے سخت ہیں کہ میں انہیں برداش نہیں کر پائی کوئی اپنی طاقت کے ذریعے میرے گرور کو تورنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا دوپہر کا وقت تھا میں بے ہوش پڑی تھی میری سہلیاں پانی کی چھینٹے میرے مو پر مارتی ہوئے مجھے ہوش دلانے کی کوشش کر رہی تھی
جیسے ہی پانی کے چھینٹے میرے مو پر پڑھے تو مجھے ہوش آنے لگا تھا میں حیران پریشان سہلیوں کا چہرہ دیکھنے لگی سب مجھے پریشان ہو کر دیکھ رہی تھی اور مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اب تمہاری طبیعت کیسی ہے میں کسی کو بھی جواب دینے کی حالت میں نہیں تھی تب ہی میرے قانوں میں آواز پڑھی نیلم کو ہوش آیا یا نہیں جیسے ہی میں نے خود کو سمحالتے ہوئے تھوڑا اٹھ کر دیکھنے کی کوشش کی تو
پرنسپل میرے لیے بہت فکر مند لگ رہے تھیں۔ پرنسپل جیسے ہی میرے قریب پانچی تو میری طرف دیکھ کر میرے معاہدھے کو ہاتھ لگا کر کہنے لگی اب طبیعت کیسی ہے؟ سونا تھا کہ تم پھب سے بے ہوش ہو گئی تھی؟ میں نے پرنسپل کو جواب دیتے ہوئے کہا جی مڈم، نجانے مجھے کیا ہو گیا تھا کہ میں پھر چکر کھا کر گر گئی اور گرتے ہی بے ہوش ہو گئی اب میری طبیعت کافی بہتر ہے پرشان مات
دیکھو نیلم روز روز تمہارے ساتھ ایسے حادثات پیش آ رہے ہیں تم اپنا چک اپ کیوں نہیں کرواتی روز اس طرح سے بے ہوش ہونا کوئی اچھی بات تھوڑی نہ ہے پہلے بھی تمہارے ساتھ ایک واقعہ پیش آنے کی وجہ سے تمہارا اتنا مسئلہ بن گیا تھا اور اس حادثے کی وجہ سے تم آج تک معزوری والی زندگی گزار رہی ہو اب پھر تم اور تمہارے خروالے لاپرواہی دکھا رہے ہو میں نے ابھی تمہارے خروالوں کو فان کر کے انہیں سکول ب
تم کھر چلی جاؤ اور دو چار دن کھر میں ارام کرو کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا چیک ہوا کرو تاکہ تمہاری بیماری کی اصل وجہ معلوم ہو سکے پرنسپل فکر مندی سے کہتے ہوئے اپنے آفیس کی طرف جانے لگی میں بھی اپنی ایک زہلی کے ہاتھ کا سارہ لے کر اٹھتے ہوئے بینچ پر جا کر بیٹھ گئی میں نے یہ بات بہت دفعہ نوٹ کی تھی کہ جب بھی سکول میں بنے اس باک کی طرف میں آتی تو میں بھیحوش ہو جاتی
میں نے اس بات کو بہت دفعہ محسوس کیا تھا کہ جب بھی میں برگت کے گھنے درخت کے نیچے جا کر بیٹھتی تو مجھے کچھ عجیب سی سنسناہت محسوس ہونے لگتی برگت کا یہ درخت مجھے ایک عجیب و غریب سے حساس دلانے لگتا اور میں عجیب سا اگبار محسوس کرتے ہوئے بھیحوش ہوجاتی تھی اس درخت کے نیچے ہمیشہ ہی میرے کندھے وزنی ہونے لگتے تھے اور میرا جسم کامپنے لگتا
ایسا لگتا تھا جیسے میری روح کو کسی نے اپنی مٹھی میں قید کر لیا ہو میرا دل بہت کھب راتا تھا میں ان باتوں کا ذکر کسی سے نہیں کرتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میری باتوں پر کسی کو یقین نہیں آئے گا آج کی اس اڈوانس طور میں میری باتوں کو ان سب لوگ دکیانوصی باتیں کہہ کر بلایں گے اور میں ایسی کوئی بات مو سے نہیں نکارنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے میری سہلیاں مجھ سے خوفصدہ رہنے لگتی اس لئے میں نے امیش
لیکن اب یہ معاملہ مجھے کوئی زیادہ ہی سنجیدہ محسوس ہونے لگا یہ واقعہ میرے ساتھ ایک مہینے میں چوٹھی دفعہ پیش آ چکا تھا اب تو میں خود بھی بہت جیدہ ڈر گئی تھی پرنسپل کے کھر فان کرنے کی کچھ دیر بعد میرے ابا و امہ مجھے سکول سے لینے کے لیے آ گئے میں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھر کے لیے روانہ ہو گئی سارے راستے امہ مجھے ڈانتی آ رہی تھی امہ مجھ سے کہنے ل
تم ناشتہ تک نہیں کرتی اور سارا دن یہاں پر بھی بھوکی پھرتی رہتی ہو یہی وجہ ہے کہ تمہیں کمزوری ہو گئی ہے اور تم کھڑی کھڑی گر جاتی ہو امہ مجھے بری طرح سے ڈعنت رہی تھی تبھی اب با نے امہ سے کہا کہ بچی پہلے ہی بہت پریشان ہے اوپر سے تم اپنا ارقصے روپ جماعے رکھ رہی ہو اب خاموش بھی ہو جاؤ اسے سمجھنے کا موقع تو دو امہ اب با سے کہنے لگی آپ امیشہ اس کی طرف دار
اور آپ ہمیشہ اسے غلط شیئ دیتے ہیں آپ اس کو سمجھایا کریں کہ یہ بچی نہیں ہے، میٹرک کی سٹوڈنٹ ہے اب تو خود کو سمحالنا سیکھ لے اسے ساری زندگی میں ہی پیچھے پیچھے کھانے اور ناشتے لیے پھرٹی رہوں گی میں امہ اور ابا دونوں کی باتوں کو غور سے نہیں سن رہی تھی کیونکہ میرا دماغ اس برگت کے درخت میں اٹھکا ہوا تھا میں مسلسل اس کے بارے میں سوچ رہی تھی کھر جانے کے بعد بھی میرا دل کچھ بھی کھان
سکول چھٹی کر کے کھر میں ہی ارام کرنے کا سوچا اسی دوران اب با شہر کے بہت اچھی اور مشہور ڈاکٹر سے میرا چیک اپ کروائی چکے تھے ڈاکٹر کو بھی میرے اندر ہلکی پھول کی کمزوری کے علاوہ کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دی رہا تھا کچھ دن چھٹی کے بعد اب میں خود کی تابیت کو اچھا محسوس کر رہے تھے آج مجھے پھر سکول جانا تھا اور میں بری طرح سے کوفزدہ تھی میرا دل بہت کھبرا رہا تھا
آفیس جاتے ہوئے مجھے سکول چھوڑ دیں جیسے ہی میں تیار ہو کر سکول کے لئے روانہ ہوئی تو میرے دل میں طرح طرح کے وسوثے پیدا ہو رہے تھے میں نے خود کو سمجھاتے ہوئے سکول میں قدم رکھا تھا جیسے ہی میں سکول کے اندر داخل ہوئی تو میرا دل زور سے دھڑکنے لگا میرا دیان نہ چاہتے ہوئے بھی اسی برگت کے درخت کی طرف جانے لگا میرے قدم خود بہت بے ساکی کا سہارہ لیتے ہوئے اسی درخت کی ط
ایسا لگتا تھا کہ مجھ پر اپنا قابوی نہیں رہا تھا مجھے کوئی اور طاقت اپنی طرف کھنچتی چلی جا رہی تھی میں جیسے درخت کے قریب پہنچی تو وہاں میں نے ایک ایسی طاقت کو محسوس کیا جس نے میری بے رنگ اور اندھیری زندگی کو روشن کر دیا تھا میرا نام نیلم ہے اور میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہوں میرے اپا کا اپنا کاروبار تھا میری امہ ایک ہریلو خاتون تھی
شادی کے ایک اچھا رسے بعد جب امہ نے دیکھا کہ اللہ نے انہوں نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازہ تو امہ اپنا چیک اپ کروانے لگی تھی اس بات کو لے کر امہ بہت فکر مد رہتی تھی کیونکہ اپا کے خاندان میں اکثر مرد اور اورتے بیولاد ہی دکھائی دیتی تھی امہ کو بھی یہی پریشانی دن رات کھائے جاتی تھی اور لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی کہیں بیولاد ہی نہ رہ جائیں اسی وجہ سے امہ کو بھی کوئی کسی بھی جگہ کا بتاتا ام
امہ نے کوئی دربار کوئی پیر فقیر کوئی ڈاکٹر چھوڑا نہیں تھا جہاں سے اپنے لئے دعا اور علاج نہ کروایا ہو سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود بھی امہ اب با کو لئے دردر کی خاک چھانتی پھیر رہی تھی پھر ایک دن ایک فقیر دروازے پر آیا جو دستق دے کر روٹی کی صدا لگا رہا تھا امہ نے تازی روٹی بنائی اس فقیر کو بٹھا کر اچھے سے کھانا کھلایا امہ کسی بھی بکاری کو درواز
جب فقیر نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تو وہ ہاتھ اٹھا کر امہ کے اکمے دعا کرنے لگا امہ ہر کسی کو دعا کے لئے بولتی تھی وہ فقیر امہ کو اولاد کی دعا دیتے چلا گیا اللہ نے اس کی دعا کوبول کر لی تھی شادی کے سات سال بعد اللہ نے میرے معاب باپ کو بیٹی کی خوشی سے نوازہ میرے معاب باپ مجھے پاکر بہت خوش تھے کیونکہ ان کے خاندان میں دور تک اولاد کی خوشی کسی کو نصیب نہیں ہوئی تھی
اب با کو جب یہ معلوم ہوا کہ امہ امید سے تو اب با نے یہ بات پورے خاندان سے چھپا کر رکھی تھی کیونکہ اب با نہیں چاہتے تھے کہ کسی کی حست بری نظر امہ کو لگے اس لئے اتنی بڑی خوشی کو کچھ ماہ چھپا کر رکھا گیا پھر جب میری پیدایش ہوئی تو اب با نے خوشی مناتے ہوئے پورے گاؤں کو کھانا کھلایا اور مٹھائے کے ڈبے تک بانٹے گئے تھے ہر طرف خوشی کا سامہ تھا ہر کوئی دور دور سے مجھ
میں بچپن سے ہی بے ہاتھ خوبصورت تھی میری موٹی موٹی آنکھیں ہیں میرے چھوٹے سے چہرے پر الکی خوبصورتی کا تاثر پیش کرتی تھی کیونکہ میں اپنے معاباپ کی اقلوطی اولاد تھی اسی وجہ سے میں سب کی لادلی بھی تھی ہر کوئی مجھے پیار کرتا اور مجھ پر جان نچاور کرتا دکھائی دیتا امہ تو مجھے اپنے نظروں سے ایک لمحے کے لیے بھی اوجل نہیں کرتی تھی مجھے بچپن سے ہی پڑھ
اسی شوک کی وجہ سے ابا نے مجھے گاؤں میں ہی بنے ایک سرکاری سکول میں داخلہ دلوہ دیا۔ یہ سکول پانچوی جماعت تک تھا۔ میں نے پانچوی جماعت کا امتحان پاس کیا ہی تھا جب میں نے امہ اور ابا کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کے ہاں شادی کا ایک فنکشن اٹنگ کرنے گئی تھی۔ شادی میری خالہ کی بیٹی اور معمو کے بیٹے کی تھی۔ ہم شادی سے دو دن پہلی معمو کے گھر چلے گئے تھے۔ میں نے بہت اللہ گلا مچا رک
اسی اللے گلے کے دوران میں اور میری معمو کی بیٹی نے ڈانس کرنے کا پروگرام بنایا میری کزن میری ہاں مومر تھی اور میری بہت اچھی صحیحیلی بھی تھی ہم دونوں دو دن سے ڈانس کی پریکٹس کر رہی تھی ہم نے مہندی کے فنکشن پر ڈانس کرنے کا سوچ رکھا تھا جیسے ہی مہندی کی راحت آئی تو معمو نے فنکشن کا انتظام پاس کی ایک حویلی میں رکھا تھا حویلی کو چاروں طرف سے سجایا ہوا تھا ہر طرف لائ
مہندی کا فنکشن شروع ہو چکا تھا سب لوگ ہر طرف شور شرابہ اور ہلا گلا مچا رہے تھے ابھی میں اور میری کزن ڈانس کرنے کے لیے جیسے ہی سٹیچ پر جانے لگے تو سٹیچ پر لگی کوئی لائٹ کی ایک تار سٹیچ پر گری ہوئی تھی وہ تار ایک جگہ سے نکلی ہوئی تھی اور اس بات کا علم کسی کو بھی نہیں تھا میں اور میری کزن ڈانس کر رہے تھے ڈانس ختم ہوا تو جیسے ہی میں سٹیچ سے اترنے کے لیے تھوڑا پچھہ
میرا پاون تار پر آنے کی وجہ سے مجھے بہت زور کا کرنٹ لگا تھا کرنٹ اتنی شدد کا تھا کہ جس نے مجھے بری طرح سے زخمی کر دیا سب لوگ میری عالت دیکھ کر پریشان ہو گئے کرنٹ لگنے کی وجہ سے میں بہوش ہو گئی تھی ابا نے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں زرا برابر دیر نہیں کی ڈاکٹر کے پاس لے جانے پر معلوم ہوا کہ کرنٹ لگنے کی وجہ سے میرے پاون کے پتھے کھنچ گئے تھے
ڈاکٹر نے اب باہ کو بتایا کہ میں بغیر بیساکھی کے نہیں چل سکتی کیونکہ ٹانگ اور پاؤں کے پٹھے سکر جانے کی وجہ سے میری ایک ٹانگ چھوٹی ہو گئی تھی اور کھنچ لگنے کی وجہ سے اب میں اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی اس آج سے نے تو جیسے میرے امہ اور ابا کو بری طرح سے ٹوڑ کر رکھ دیا اس واقعی کی وجہ سے میری پوری زندگی بدل گئی اور میں اپنے پاؤں پر چلنے کے کابل نہیں رہی اس بات نے مج
میں ہر وقت ایک گہری سوچ میں ڈوبی رہتی تھی کیونکہ مجھ سے یہ بات بالکل برداش نہیں ہو رہی تھی کہ میں اچھی خاصی چلتی پرتی اب ایک اپائج اور معظوری والی زندگی گزارنے پر مجبور تھی میں دن رات آنکھوں میں آنسو لیے خاموش کر کے کسی کانے میں پڑی رہتی اور میری یہ حالت میرے امہ اب با سے دیکھی نہیں جا رہی تھی امہ اب با مجھے اس حالت میں دیکھتے تو رونے لگتے امہ اب با نے وہاو دور دور سے میرا
کیوں کہ سب دوکٹرز یہی کہتے تھے کہ کرنٹ لگنے کی وجہ سے میری نصے بری طرح سے پچک چکی ہیں اور میرے معظور ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ میری یہ ٹانگ ووزن برداش نہیں کر پاتی تھے میں نے پانچوی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد آگے سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا کھر رہ کر میں مزید بیمار رہنے لگی تب ہی میں نے اب با سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
وہ ہر طرح سے اب با کو اور ام مہ کو تسلید دیتی نظر آتی کیونکہ ام مہ اب با مجھے اُن حالات میں سکول بھیجنا نہیں چاہتے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ایکلی ان حالات میں سکول جاؤں اور مجھے مزید کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے میرے ساتھ جو بھی ہوا وہ تو میری قسمت میں لکھا تھا تب ہی میں اب با سے کہنے لگی کہ مجھے آگے بھی پڑھنا ہے تاہم اب با نے گاؤں سے باہر بنے سرکاری سکول میں مج
یہ سکول گاؤں سے باہر ایک سنسان جگہ پر واقعہ تھا میری زد مانتے ہوئے ابا نے مجھے سکول میں داخل کروہ دیا اب میں اس سکول میں چھٹی جماعت کی پڑھائی کر رہی تھی پڑھائی میں تو شروع سے میں بہت اچھی تھی میں بچپن سے اپنی کلاس میں اول آنے والی سٹورینٹ تھی مجھے پڑھائی کی طرف سے کسی بھی مشکل کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا لیکن میرے لیے ویساکھیوں کے ساتھ سکول جانا بہت مشکل ہو گیا تھا کی
جس وجہ سے میری بہت دلہازاری ہوتی۔ میں اکثر بیٹھی بیٹھی اکیلی رو پڑتی اور اس وقت کو یاد کرتی جب میں اپنے پاؤں پر چل کر سارے سکول کی سیر کرلیا کرتی تھی۔ میں سب لڑکیوں سے کہتی کہ میں شروع سے ایسی نہیں تھی۔ میں بھی تم لوگوں کی طرح سیحت منھ تھی۔ لیکن ایک حایثے کی وجہ سے میں اس معظوری کا شکار ہو گئی ہوں۔ مگر لڑکیوں بڑی عجیب زین کی مالک تھی۔ وہ امرشہ میرا مزاق اڑاتی ن
میری سہلیاں سب کو مو طور جواب دیتی اور مجھے حوصلہ دیتی انہوں نے کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑا تھا میری سہلیاں میرے لیے خدا کے نایاب توفے سے کم نہیں تھی وہ ہر وقت کسی سائی کی طرح میرے ساتھ رہتی میرے سکول کی پرنسپل بہت اچھی تھی وہ مجھے بہت پیار کرتی میرا بہت احساس کرتی تھی انہیں ہر وقت میری فکر رہتی تھی وقت گزرتا گیا اور
میں نے دیکھتے ہی دیکھتے ہی اٹھویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا میں نے یہ امتحان بھی بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا میں اپنے سکول کے ٹوپر شاکر دو میں سے ایک تھی اتنے اچھے نمبر لینے کے بعد میں نے ابا سے آگے بھی پڑھنے کا کہا امہ اور ابا مجھے کامیاب دیکھتے ہوئے بہت خوش تھے امہ اکثر ابا سے کہتی کہ چلو اگر ایک محتاجی اس کی قسمت میں تھی
تو نیلم پڑھ لکھ کر خود کو اس قابل بنالے گی کہ وہ زندگی میں کبھی کسی کی محتاج نہ رہے ابا امہ سے کہتے کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کو اس کے آنے والے کل کے لیے تیار کر دوں کہ کل کو اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑے امہ ابا کی بات سنتے ہوئے ابا کی ہامیں ہامیں لائے تھے میں نے تبھی ابا نے مجھے کہا کہ تم آگے بھی پڑھو جتنا تمہارا دل چاہتے تم تعلیم عاصل کرو
تمہیں کسی بھی قسم کی کوئی روک ڈوک نہیں ہوگی میں اب با کی بات سن کر بہت خوش تھی کیونکہ مجھے پڑھنے کا جنون کی حتتک شوک تھا اب مجھے اپنی بیساکھیوں سے بھی محبت ہونے لگی کیونکہ وہ ہر وقت سائی کی طرح میرے ساتھ رہتی تھی اور مجھے گرنے نہیں دیتی تھی میری بیساکھیوں میرے سہارا تھی جب میرے قدم ہلکے سے بھی ڈگ مگا تھے تو میری بیساکھیوں مجھے گرنے سے بچ
میں اللہ سے کی گئے فیصلے پر بے ہت خوش تھی میں نے کبھی امامابا کو اپنی معزوری کا حساس نہیں ہونے دیا تھا میں ان کے سامنے بھی ہمت اور احسنے سے کام لیتی تھی میں نہیں شادی تھی کہ میرے معاباپ مجھے ایسی حالت میں دیکھ کر مزید پریشانوں ابھی تو میرے مستقبل کی انہیں بہت فکر تھی اکسر میں انہیں بات کرتی سنتی کہ اب نیلم کے ساتھ شادی کون کرے گا؟ نیلم کی ایسی حالت ہے کہ اس کا رشتہ آنے میں بھی مشکلات کا س
میں امہ اپا کو ایسے ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے میں نے دل میں یہ بات ٹھان لی کہ میں خود کو اس قابل بناؤں گی کہ مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہ پڑے میں نے اس سکول میں پڑھائی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا چھٹی سے اٹھویں تک سکول کا ایریا نیا بناؤں ہوا تھا جبکہ نوی اور دسویں کلاس سکول کے پرانے ایریا میں بنائی گئی تھی نوی دسویں کی کلاس سکول کے بہت ہی سنسان اور بھی
میں اور میری سہلیوں بھی اسی پرانے حصے میں کلاس لینے جائے کرتی تھی ہماری کلاس کے باہر ایک بہت بڑا اور خوبصورت باگ تھا باگ اپنے آپ میں ایک بہت دلکش منظر پیش کرتا نظر آتا تھا اور میں اور میری سہلیوں اکثر اس باگ میں کھانے پینے کا احتمام کیا کرتی ہمیں جب بھی آدھی چھٹی ہوتی تو ہم اسی باگ میں جا کر ایک برگت کے درخت کے نیچے بیٹھ کر کھائے پیا کرتی تھی میں بھی نوی کلاس میں دی
جب سکول میں اے فن فئر منانے کی اوہا پھیلی تھی کچھ دن میں یہ اوہا ایک پکے فیصلے میں تبدیل ہو گئی جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ سکول میں فن فئر کا فنکشن آ رہا ہے تو میں بہت زیادہ خوش تھیں کیونکہ بہت عرصہ گزر چکا تھا کسی فنکشن کو اٹنڈ کیا ہوئے اور اس طرح سہلیوں کے ساتھ ہلا گلا کیوئے کافی وقت گزر چکا تھا میں بہت خوش تھی اور بے سبری سے اس دن کا انتظار کر رہی تھی
آخرکار وہ دن آہی گیا۔ آئی سکول میں فن فئر کا فنکشن تھا اور میں نے امہ سے کہہ کر اپنے لیے بہت خوبصورت کالے رنگ کا فروق سلو بیا تھا۔ امہ نے درزی سے میرے لیے وہ فروق تیار کروایا۔ ابہ نے فروق کے ساتھ ساتھ مجھے ہر چیز میچنگ لے کر دی تھی۔ آج میں بہت خوش تھی کیونکہ آئی سکول میں مینا بازار کا فنکشن تھا اور میری ساری سہلیاں مجھے کھر سے لےنے آنے والی تھیں۔
میں نے جلدی سے بہت خوبصورت کالے رنگ کا لباس زیب تن کیا اور آینے کے سامنے کھڑی ہو کر تیار ہونے لگی۔ میں نے ہلکا ہلکا سا میک اپ کر رکھا تھا اور اپنے بال کھول لیا تھے۔ میرے بال میرے کھٹنوں سے بھی لمبے اور گھنے تھے۔ میں نے بال کھول کر جیسے ہی ٹیوی لاؤنج میں قدم رکھا تو امہ نے مجھے روکتے ہوئے کہا نیلم اپنے بالوں کو باندھو ایسے نظر لگ جاتی ہے۔ میں کھلے بالوں میں
امہ میری بلای لیتے ہوئے کہنے لگی کہ میری بیٹی کو کسی کی نظر نہ لگے اور ساتھ ہی میرے بال باندھنے لگی میں نے امہ سے کہا کہ میرے بال کھلے چھوڑ دیں میں امیشہ ہی جوڑا کرتی آ رہی ہوں آج میں کچھ الک نظر آنا چاہتی ہوں امہ میری بات سنتے ہوئے مزکورانے لگی اور میرے سر پر پیار دیتے ہوئے کہنے لگی کہ پگلی! تم ہمیشہ سے ہی خوبصورت تھی اور ہمیشہ ہی اچھ
لیکن بال مد کھولو تمہیں نظر لگ جائے گی کھولے بالوں کو تو نظر بھی بہت جلدی لگتی ہے میں نے امہ سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ جوڑا بنائے لیکن میں سکول جا کر تھوڑی دیر کے لیے اپنے بال کھولوں گی کیونکہ مجھے اپنے صحیحوں کے ساتھ تصویریں بنوانی ہے امہ نے مجھے بال کھولنے کی اجازت دی تھی اور کہا کہ تصویریں بناتے وقت کھول لینا اور پھر فورا نہیں دوبارہ سے جوڑا بنالینا امہ
امہ مجھے کبھی بھی بال کھلے نہیں چھوڑنے دیتی تھی ابھی امہ میرا جوڑا ہی بنا رہی تھی کہ باہر میری سب سے سہلیاں تیار شیعار ہو کر آ گئی تھی اور دروازے پر کھڑی میرا انتظار کرنے لگی سب مجھے آوازیں لگا رہی تھی نیلم جلدی آ جاؤ ہم سب تمہیں لے نے آئی ہیں میں نے جیسے ہی ان کی آواز سنی تو امہ سے کہا کہ جلدی سے جوڑا بنا دے مجھے جانا ہے
اور ہم رکشہ کروا کر سکول کی طرف روان ہو گئی آج میں بہت قبصورت لگ رہی تھی ہر کوئی میری تاریف کرتا دکھائی دی رہا تھا سب لوگ میری طرف حیران اور پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے جو لوگ میرا مزاق اڑاتے آج وہ لڑکیاں بھی میری تاریف کرنے پر مجبور تھے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہے تھیں کافی عرصے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں پہلے والی نیلم ہوں جو ہر دل عزی
میں نے اپنی سہلیوں کے ساتھ جھولے لیو اور کھانے پینے میں بھی کوئی کم ہی نہیں چھوڑی جب ہم سارا دن کھیل کھوٹ کر تھک چکی تھی تو میں اپنی سہلیوں سے کہنے لگی کہ چلو ہم اپنے اسی باغ میں جا کر تصویریں بناتی ہیں جہاں ہم اکثر جایا کرتی تھی ہم باغ میں چلے گئے اور برکیت کے درخت کے نیچے بیٹھ کر تصویریں بنانے لگی تھی میں الک الگ انداز میں تصویریں بنانے لگی تب ہ
مجھے تمہارے کھلے بالوں میں تصویر بنانای ہے اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے تو بال کھول کر تصویریں بنانای تھی میں نے جلدی سے بال کھولے اور برگت کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر تصویریں بنانے لگی میرے بال بہت خوبصورت دکھائی دی رہے تھے میری تصویریں بہت اچھی آ رہی تھی سب میری تاریف کر رہی تھی بال کھولنے کے بعد مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا ایسے جیسے میرا سر و
میں نے اپنی صحیحیلی سے کہا کہ مجھے لگتا ہے میری طبیعت آوازار ہو رہی ہے مجھے کچھ ٹھیک محسوس نہیں ہو رہا اب مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کھر چلنا چاہیئے میری صحیحیلی نے جب میری بات سنی تو کہہنے لگی کہ تم پریشان مات ہو سب کھانے پینے کے لئے کچھ لےنے گئی ہیں جیسے وہ لے کر آتی ہے تو ہم کھانے لے کر کھر کے لئے نکل جائیں گے ابھی تم ادھر درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کچ
میرا سر بہت وزنی ہو رہا تھا مجھے بہت لمبے لمبے چکر آ رہے تھے میں نے اپنی سہلی کی بات مانتے ہوئے درخت سے ٹیک لگا کر اپنی آکھیں بند کر لی جیسے ہی میں نے اپنی آکھیں بند کی تو مجھے عجیب و گریب کسیوں کی چیزیں دکھائی دینے لگی میں تھوڑا ڈر گئی تھی اور ڈر کے مارے میں نے آکھیں کھول لی اور اردگیٹ دیکھا تو میں اکلی درخت کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی میری کو
جیسے ہی میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو میری ٹاؤنگوں میں ایسے تھا جیسے جان ہی نہیں تھے میں پریشان اردھ گردھور کرنے لگی لیکن مجھے دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دی رہا تھا میں اس باگ میں بالکل تنے تنہا بیٹھی تھی اب میں اپنی کسی سہلی کے آنے کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ آئے اور میں کھر کے ریے نکلوں کیونکہ مجھے یہاں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ کچھ تو عجیب ہے ج
ابھی میں انی سوچوں میں گم تھی کہ تیز ہوا چلنے لگی اس قدر ہوا تیز تھی کہ میرے لمبے کھنے بال ہوا میں اڑھنے لگے میں اپنے بالوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن تیز ہوا کی وجہ سے مجھے اپنے بال سمالے نہیں جا رہے تھے ایسے لگ رہا تھا کہ کسی نے میرے بالوں کو اپنے ہاتھوں میں جکر رکھا ہے مجھے بہت خوف آ رہا تھا اس سے پہلے کہ میں جیختی یا چلاتی میں نے سامنے سے اپنی صحی
جیسے جیسے وہ میرے قریب آ رہی تھی، ویسے ویسے ہوا تھمتی جا رہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران تھی کہ جیسے ہی میری صحیحلی میرے پاس پہنچھی تو نہ جانے مجھے کیا ہوا تھا کہ میں بہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو میں نے خود کو اپنے بستر پڑ پایا۔ مجھے ہوش آیا تو میرے ارد گرد امہ اب با کے علاوہ میری صحیحلیوں بھی کھڑی تھی جو بے سبری سے میرے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی
میں نے ابا کو بتایا کہ میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔ امہ بھی مجھ سے طرح طرح کے سوائل کرنے لگی۔ ابا کے چہرے پر پریشانی صاف دکھائی دی رہی تھی۔ میں نے اپنے بالوں کو دیکھا تو ابھی بھی مجھے کسی کے ہاتھوں کی خشبہ اپنے بالوں میں سے آ رہی تھی۔ حیثے لگتا تھا کہ کسی نے بہت ہی محبت سے میرے بالوں کو سحل آیا تھا۔ میں نے اس بارے میں کسی سے بھی ذکر نہیں کیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری
میری وجہ سے پہلے ہی کھر میں پریشانی کا ماحول بن چکا تھا اس لئے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا کچھ دیر بعد میری سہلیہاں اپنے کھروں میں واپس چلی گئی میں اور امہ کمبر میں اکیلے تھے امہ میرے بال باندھ رہی تھی اور مجھ سے کہنے لگی کہ تمہارے بالوں میں سے بہت اچھی خشبہ آ رہی ہے تم نے کیا چیز بالوں پر لگائی تھی مجھے کچھ یاد نہیں تھا ہاں اتنا ضرور معلوم ہوا تھا کہ ہوا میں
میں نے امہٰ سے کہا کہ میں نے بالوں میں کچھ نہیں لگایا میری سہلیاں ترہ ترہ کی پرفیوم لگا کر آئی تھی شاید انہیں کی وجہ سے میرے بالوں سے خشبہ آ رہی ہو امہٰ نے بھی میری بات پر غور نہیں کیا اور نظر انداز کرتے ہوئے میرے بالوں کو سمیٹنے لگی کچھ دیر بعد امہٰ نے غور کیا تو میرے معاہ سے پسینہ ٹپک رہا تھا امہٰ نے میرے معاہ کو ہاتھ لگایا تو مجھے بہت تیز بخار تھا امہٰ ب
آپ پیسا کریں کہ اسے مرڈیسن لا دیں ابا نے میرے لئے مرڈیسن لا کر دی میں نے جیسے ہی مرڈیسن کھائی تو مجھے نید آ گئی میں گہری نید سو گئی میں نے خواب میں دیکھا کہ جس درخت کے ساتھ میں ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اس درخت پر کسی کا بسیرا تھا کوئی ایسی مخلوق جو بہت طاقت رکھتی تھی دیکھتے دیکھتے اس درخت کے اوپر سے خوبصورت نوجوان لڑکا میرے سامنے آکر کھڑ
وہ لڑکہ مجھے مسکراتا دیکھ رہا تھا مجھ سے یہ کہہ رہا تھا کہ میرے علاوہ تمہیں کوئی اور نہیں چھو سکتا میں نے اس لڑکے کے مو سے یہ الفاء سنے تو خوف کے مارے میری آنکھ کھل گئی میں نے اپنے اٹگر دیکھا میں اپنے بستر پر تھے تب ہی میں نے سکون کا سانس لیا میرا بخار دو دن تک نہیں اترہا تھا میں دو دن سکول نہیں جا پائی تیسرے دن جب میرا بخار اترا
تو میں نے سکول جانے کی ذت کی اور امہ مجھے بھی سکول بھیجنے کے لئے رضا من تھیں لیکن میری ذت کے آگے کسی کی بھی نہیں چلتی تھی میں اپنی صحیحیوں کے ساتھ سکول کے لئے روانہ ہوئی اور جیسے ہی میں نے سکول میں قدم رکھا تیز ہوا کے جھانکے میرے بدن کو چھونے لگے مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ کسی کو بے سبری سے میرا انتظار تھا کوئی مجھ سے ملنے کے لئے بیتاب تھا میں نے ان باتوں پر زیادہ غور نہیں
اور اپنی سہلی کے ساتھ اپنی کلاس لینے کے لیے سکول کے اسی پرانے حصے میں جانے لگی جہاں برگت کا درخت موجود تھا میں اپنی کلاس کی طرف جا رہی تھی کہ میری نظر اس درخت پر پڑھی مجھے اس درخت کے نیچے وہی لڑکا کھڑا دکھائی دیا جسے میں نے اپنے خواب میں دیکھا تھا میں اکدم سے ہران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگی جیسے ہی میں نے تھوڑا سا غور کرنا چاہا تو وہ لڑکا غائب ہو گیا میں نے اس
اور اپنی کلاس کی طرف جانے لگی اب مجھے بار بار کچھ آوازیں سنای دے رہے تھے آواز اتنی دھیمی تھی کہ مجھے ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہی تھی مگر کوئی تو تھا جو بار بار میرے کانوں میں سرگوشی کر رہا تھا لیکن وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا اس بات کی مجھے بلکل سمجھ نہیں آرہی تھی آج پھر میرے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا تھا میں پھر سے جیسے ہی اس طرخت کے قریب گئی تو بہوش ہو گئی
یہ واقعہ مہینے میں میرے ساتھ چوٹھی دفعہ پیش آ چکا تھا میری ایسی حالت دیکھتے ہوئے میرے سکول کی پرنسپل بھی بہت زیادہ پریشان تھیں وہ اکسر میری فکر کرتی رہتی تھی میں بہوش پڑھی تھی جب میری صحلیوں نے مجھے پانی کے چھینٹے مارے اور وہ مجھے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی جیسے ہی میں ہوش میں آئی تو میں نے اپنے اردگیٹ لوگوں کا کافی حجوم دیکھا تب ہی میرے قانوں میں پرنسپل
جو لڑکیوں سے پوچھ رہی تھی کہ نیلم کو ہوش آیا یا نہیں جیسے ہی پرنسیول میرے قریب آئی تو مجھے ہوش میں پا کر مجھ سے کہنے لگی کہ تم اپنا ٹھیک سے چیک اپ کیوں نہیں کروا تھی یہ تمہارے ساتھ چوتھا واقعہ ہے کہ تم سکول میں ایسی اچانک بہوش ہو جاتی ہو مجھے تو تمہاری فکر کھائے جا رہی ہے تم میرے سکول کی سب سے قابل سٹوڈینٹ ہو اور میں نہیں جاتی کہ تمہاری پڑھائی میں کسی بھی قسم کا خلل پ
اور میں چاہتی ہو کہ تم میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرو پرنسپل نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہارے کھر فان کر دیا ہے اور تمہارے امام اب با بھی تمہیں لینے آتے ہی ہوں گے میرا مشورہ یہی ہے کہ تم کچھ دن کھر میں ارام کرو اور کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائو کیونکہ اگلے ہی ماہ تمہارے پیپر ہونے والے اور جب تک تمہاری طبیعت سیٹ نہیں ہوتی تو تم کیسے اپنی پڑھائی کر پا
پرنسپل مجھے نصیعتیں کرتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد میں نے امہ اب با کو اپنی طرف آتے دیکھا جو کہ بے ہاتھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ امہ اب با نے مجھے سہارہ دیتے ہوئے اٹھایا اور اپنے ہمرا لے گئے۔ راستے میں امہ مجھے مسلسل ڈانٹ رہی تھی اور مجھ سے کہہنے لگی کہ تم جو ہر وقت پڑھائی میں مگن رہتی ہو کھانے پینے کا بھی
تمہیں اندرونی کمزوری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تمہاری حالت ایسی ہونے لگی ہے یہ کوئی اچھی بات تھوڑی ہے کہ روز روز بہوش ہو جانا امہ مجھے زور و شور سے ڈانٹ رہی تھی کہ تب ہی اب با نے امہ کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب بس بھی کرو پہلے ہی بچی کی طبیعہ ٹھیک نہیں ہے اوپر سے تم اتنا ڈانٹ رہی ہو امہ ابا کی بات سنتے ہوئے کہنے لگی کہ آپ ہمیشہ اسے شیعہ دیتے ہیں
ہمارا اس کے علاوہ دنیا میں اور کون ہے؟ امہ یہ کہتے ہوئے آنسوں کے ساتھ رونے لگی میں نے امہ سے معافی مانگی اور کہا کہ آج کے بعد کبھی بھی کھانے پینا میں کوتائیں نہیں بڑھ رہی میں امہ ربہ کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی میں سارے راستے یہی سوچتی ہوئی جاہ رہی تھی کہ میرے ساتھ کچھ تو عجیب ہوتا ہے جب جب میں اس طرخت کے پاس جاتی تھی مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگتا میں اپنے بارے میں یہ
تب ہی میں نے سکول سے چار پانچ دن کی چھٹی لےنے کا فیصلہ کیا چھٹی کے دوران میں شدید بخار میں مبتل آ رہی ابا نے شہر کے بہت ہی اچھے ڈاکٹر سے میرا چیک اپ کروایا میری رپورٹ میں ہلکی پھلکی کمزوری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں آیا تھا لیکن میرے ساتھ تو کچھ عجیب ہو رہا تھا جس کی وجہ سے میں اس قدر پریشان رہنے لگی میرے طبعہ دن بدن سنبھلنے کے بجائے بگرتی جا رہی تھی میں
تو میرا دل زور سے دھڑکنے لگتا میں سکول شوک سے جایا کرتی تھی لیکن اب نہ جانے میرا دل خوف کی وجہ سے سکول سے بھی اچھاٹ ہونے لگا میرے پیپر آنے والے تھے اس وجہ سے میں نے سکول سے چھٹھیان نہ لینے کا ارادہ کیا آج صبح پھر سے مجھے سکول جانا تھا اور میں زہنی طور پر بہت زیادہ پریشان تھی میرا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ میں سکول جاؤں لیکن میری مجبوری تھی مجھے اپنے پیپر کی تیاری کرنی
جس وجہ سے میرا سکول جانا ضروری تھا میں نہ چاہتے ہوئے بھی ابا سے کہنے لگی کہ آفیز آتے ہوئے مجھے سکول چھوڑ جائیے گا ابا نے جیسے ہی مجھے سکول کے سامنے سے اتارا تو میں بہت حمد اور حوصلہ کرتے ہوئے سکول کے اندر داخل ہونے لگی میں نے سکول کے اندر قدم رکھا ہی تھا تو تیز ہوا نے مجھے آکہ رہا پھر سے مجھے وہی احساس ہونے لگا وہی انجانی طاقت مجھے اپنی طرف کھینچ
میں نہ چاہتے ہوئے بھی برگت کے درخت کی طرف دیکھے جا رہے تھیں اس درخت میں کچھ عجیب سی کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہے تھیں میں اپنی کلاس میں جانے کی بجائے درخت کی طرف چلتی جا رہے تھیں میرا خود پر کابو نہیں تھا ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی طاقت مجھے اپنی طرف بلا رہی ہے جیسے ہی میں اس درخت کے قریب گئی تو میں نے تیز دوفان کا سامنا کیا دیکھتے ہی دیکھتے دوفان بارش کی شکل
اب بارش اتنے زور و شور سے ہو رہی تھی کہ سب سٹوڈنٹس اپنی اپنی کلاس میں بارش کے رکھنے کا انتظار کر رہی تھی اور میں برگت کے درخت کے نیچے کھڑی کسی کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہی تھی میں نہیں جانتی تھی کہ یہاں پر کیوں کھڑی ہوں حیرت کی بات تو یہ تھی کہ بارش اتھی تیز تھی لیکن میرا ایک باال تک گیلا نہیں ہو رہا تھا بارش کی ایک بون نے بھی میرے جسم کو نہیں چھویا میرے کانوں میں پر سے وہی آواز آئی
جیسے ہی میں نحران ہو کر ارتقیردھو گور کیا تو میرے قریب کوئی بھی نہیں تھا کچھ دیر بعد مجھے اپنے سامنے بہت خوبصورت نوجوان لڑکا کھڑا دکھائی دیا میں اسے دیکھ کر خبرہ گئی لیکن اس کی خوبصورتی اس قدر تھی کہ میں اسے دیکھتی ہی رہ گئی وہ لڑکا مزکوراتے ہوئے میری طرف دیکھ رہا تھا میں خوفزدہ ہونے لگی جب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ یہ تو لڑکیوں کا سکول ہے یہاں پر تو
تو میں نے حران ہوتے ہوئے اس کی طرف غور کیا اور اس سے پوچھنے لگی کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے آگے بڑھایا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہیں ہی چاہتا ہوں میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میرے علاوہ کوئی بھی تمہیں چھو نہیں سکتا میں اس کے الفاظ سے بہت پریشان تھی میں نے غسلے سے اس کا ہاتھ جٹکتے ہوئے کہا کیا مطلب کہ تمہارے علاوہ
آخر تمہارا میرا رشتہ کیا ہے تم کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو؟ وہ لڑکہ مسکوراتا ہوا مجھے نظر بھر کر دیکھتا رہا اس کی آنکھوں میں بہت چمک تھی اور اس چمک میں چھپی ہوئی محبت مجھ پر اثر انداز ہو رہی تھی مجھے اس کے دیکھنے کے انداز سے کچھ جو کچھ ہو رہا تھا میرا دل اس کی طرف مائل ہو رہا تھا لیکن میں اپنے دل کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی میں نے اپنی نظریں جک
تمہاری وجہ سے میرے امہ ابا میری صحلیہ سب بہت پریشان ہیں آخر تم ہو کون؟ اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک جن زادہ ہوں اور میں برگت کے اس درخت کی اوپر رہتا ہوں جب سے میں نے تمہیں دیکھا ہے تمہارا دیوانہ ہو گیا ہوں وہ کہنے لگا کہ مجھے تم سے اشک ہو گیا ہے تمہارے بغیر اب نہیں رہا جاتا میں اس کی باتیں سن کر خوف زدہ ہو گئی اس سے پہلے کہ میں وہاں سے بھاگ دی اس نے میرا ہاتھ تھاما اور کہنے لگا
میں تمہاری بیروکی برداش نہیں کرسکتا یقین معنو کسی سورت تمہیں نقصان پہنچانے نہیں آیا اپنی محبت کے آدم مجبور ہو کر تمہارے سامنے ظاہر ہوا تم بہت اچھی ہو تمہارے کھنے لمبے بال دل پر راج کر چکے ہیں میرے اب میں تمہارے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اس کی مٹھی چپڑی باتیں میرے دل پر اثر کر رہے تھیں اس کی کشش مجھے اپنے اندر اتر تھی محسوس ہو رہی تھی نہ چاہتے ہوئ
میں نے بے ساکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھ محتاج اور معظور پر تمہیں ترس نہیں آیا ہوگا تم ترس کھا کر میرے لئے یہ سب بول رہے ہو تو جن زیادہ فوراً میرے قدموں میں بیٹھ کر مجھے کہنے لگا کہ تم پر ترس کیوں کھانگا تم میری محبت کا مزاق اڑا رہی ہو میں حقیقت میں تمہارا عاشقوں اور تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں اگر تمہارے اجازت ہو تو تم سے نکاح کرنا چاہتا
میں نے اسے کہا کہ میں تمہارے قابل نہیں ہوں میں تو وہ بتقسمت ہوں جسے چلنے کے لئے لکڑیوں کا سہارہ لینا پڑتا ہے تب ہی اس نے مجھے کہا کہ ابو زر کا تم سے وادہ ہے کہ تمہاری یہ بے ساکھیوں بھی چھوڑو آ دوں گا اپنی جادوی طاقت سے تمہیں سیاد جیاب کر دوں گا بس ایک دفعہ میرا ہاتھ تھام لو اس انداز سے تھامنا کہ کبھی نہ چھوٹے میں اس کی بات تمہیں کھو چکی تھی مجھے بھی اس سے محبت تھی اور مجھے اسے محبت اس
میں اسے کہنے لگی کہ تم ایک جن ذاد ہو اور میں ایک انسان ہوں ہم دونوں کا ملاب کیسے ہو سکتے ہیں؟ بہلے میرے معنباب ایک جن ذاد کے ساتھ میری شادی کر دیں گے ابو زیر مجھ سے کہنے لگا کہ تم سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو بس تم اپنا دل مزبوط رکھو اور مجھ سے وادہ کرو کہ کیسے بھی حالات آئیں میرا ساتھ نہیں چھوڑو گی میں نے فورا اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اسے وادہ کر لیا کہ تمہیں کبھی بھی چھوڑ کر نہیں
ابوزر نے مجھ سے وعدہ کیا کہ تب تک کوشش کرتا رہوں گا جب تک تمہارے معاباپ مجھے کبول نہیں کر لے تھے اور تم بھی مجھ سے ایک وعدہ کرو کہ تم بھی یہ راز کسی پر ظاہر نہیں کرو گے کہ میں جن زادہ ہوں میں نے ابوزر سے وعدہ کیا اور اسے پوچھا کہ میں کھر والوں کو کیا بتاؤں گی کہ تم مجھے کہاں ملے تھے ابوزر نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں
میری امتحان شروع ہو گئے ابوزر پوری کوشش جاری رکھے ہوئے تھا اکسر رات کو مجھ سے ملنے آیا کرتا اور اس بات کا کسی کو علم نہیں تھا میں نے میٹرے کا امتحان بہت اچھے نبروں سے پاس کر لیا آج میں بہت خوش تھی کیونکہ آج ابوزر میرے کھر آنے والا تھا اب وہ میرے کھر گیسے آتا اس بات کا مجھے بالکل علم نہیں تھا میں اپنے کمبرے میں بیٹھی تھی جب مجھے امہ کے واز آئی کہ جلدی سے باہر آؤ تمہ
میں نے اپنے نظرے دیکھا کہ اب با کے پہلوں میں ابوزر بیٹھا تھا ابا نے کہا کہ نیلم یہ ابوزر ہے اور یہ بزنس میں ہے ہالی میں اس کے ساتھ میں نے اپنا بزنس شروع کیا میں یہ سنکر حیران تھے کہ ابوزر یہ سب کچھ کچھ عرصے میں کیسے کر چکا تھا پھر مجھے اس بات کا حساس ہوا کہ وہ ایک جن زیادہ ہے وہ جادوی طاقت سے کچھ بھی کر سکتا ہے ابا نے مجھے اور امہ کو بتایا کہ جب میں نے ابوزر کے ساتھ بزنس کے کاغذات سائن کی
ابوزر نے باتوں باتوں میں میری فیملی کے بارے میں پوچھا تھا کبھی میں نے اس کو بتایا تھا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور میری بیٹی ایک حادثہ کا شکار ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگ سے معظور ہو گئی تھی میری بات سنتے ہوئے ابوزر نے مجھے تسلید دی اور کہا تھا کہ کیا آپ مجھے اپنی بیٹی سے ملوات سکتے ہیں میں اپنے ہاتھوں میں ایسی شفاہ رکھتا ہوں کہ اللہ کے اکم سے آپ کی بیٹی چلنے لگے گی
ابا امہ سے کہنے لگے کہ میں نے ابوزر سے یہ بات سنی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں فوراً اسے اپنے ساتھ کھر لے آیا ابا کی بات سنتے ہوئے امہ کی آنکھوں میں بھی چمک آگئی تھے امید کی کہ کرن امہ اور ابا کے دل میں جاگ اٹھے تب ہی ابوزر نے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سر اگر میں اپنی بیٹی کی ٹانگ ٹھیک کر دیتا ہوں تو آپ میری ایک التجا مانیں گے؟ ابا ہران ہو کر ابوزر کی طرف دیکھنے لگے ابا نے
اگر تم میری بیٹی کو ٹھیک کر دو تو مجھ سے جو چاہے مانگ لو میں بنا کچھ بولے تمہیں دے دوں گا ابوزر نے مزکراتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ پھر سوچ لیں ہو سکتا ہے میں آپ سے آپ کے دل کا ہی ٹکڑہ مانگ لو یہ بات سنتے ہی امہ اور ابا خوش ہو گئے کیونکہ ابوزر جیسا خوبصورت اور ویلس اٹل دامات کسے نہیں چاہیے تھا تبھی ابوزر نے امہ ابا سے کہا کہ آپ اپنی آکھیں بند کر لیں اور مجھے اپن
اب تمیں بے جان لکڑیوں کا سہارہ چھوڑتے ہوئے میرا ہاتھ ٹھامو اور حمد کرتے ہوئے کھڑی ہو جاؤ مجھے بہت بڑھ لگ رہا تھا میں بہت کھبرائی ہوئی تھیں مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں نے بے ساکھوں کے بغیر کھڑا ہونے کی کوشش کی تو میں گر جاؤں گی کیونکہ مجھے ان بے ساکھوں کی عادت ہو چکی تھی ابوزر نے مجھے تسلید دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں میرا ہاتھ ٹ
اور کھڑی ہونے کی کوشش کی تو امہ اور ابا خوشی کے مارے راہنے لگے اور مجھے میرے پاؤں پر کھڑا دیکھ کر بہت خوش ہوئے جیسے ہی میں نے اپنی آنکھیں کھولی تو ابوزر نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور میں اپنے پاؤں پر کھڑی تھی میری خوشی کی تو کوئی انتہا نہ رہی تھی خوشی کے مارے میری آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے ابوزر نے میرے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا کہ آج تمہاری آنکھوں میں
یہ میرا تم سے وادہ رہا اب با اور امہ ابوزر کی اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے تھے اب با نے ابوزر کے ہاتھ چومتے ہوئے اس کا بہت شکریہ دا کیا اور کہا کہ آج سے تم میرے بیٹی ہو میں دھوم دھام سے اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کرنے کے لئے تیار ہو ابوزر نے ابا سے کہا کہ آپ پریشان ماتو شادی کی تیاریاں میں خود کروں گا اب بس شادی کی تاریخ تیار کر لیں سارے انتظامات ہو چکے تھے ابوزر نے ہر طرح سے
کہ اس سے بہتر میرے لئے کوئی جیون ساتھ ہی نہیں ہے۔ ام مابا نے بہت دھوم دھام سے میری شادی عبوزر کے ساتھ کر دی۔ عبوزر میرا ہاتھ تھا میں مجھے اپنے ساتھ اپنی شریقہ عیاد بنائے کر لے گیا۔ اس نے مجھ سے وادہ کیا کہ وہ دوبارہ زندگی میں کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں آئے گا۔ عبوزر میری دنیا میں رہ کر میرے ساتھ زندگی گزارنے لگا تھا۔ عبوزر نے اپنی جادوی طاقت سے مجھے ٹھیک کر د
شادی کے ایک سال بعد اللہ نے مجھے دو جڑوان بیٹوں سے نوازہ تھا آج میں خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی سمجھتی ہوں اور جب بھی اپنے معاضی کو یاد کرتی ہو تو جائن معاز بیچھا کر پروردکار کا بے ہت شکر ادا کرتی ہو جس نے مجھے ابوزر جیسا پیار محبت اور احساس کرنے والا شہر اتا کیا میں اپنے شہر ابوزر کے ساتھ ایک خوشقوار زندگی گزار رہی ہوں
What's Your Reaction?