سندر دیوی اور سوداگر کا بیٹا

سندر دیوی اور سوداگر کا بیٹا

Oct 25, 2024 - 15:01
 0  0
سندر دیوی اور سوداگر کا بیٹا
سندر دیوی اور سوداگر کا بیٹا


اسلام علیکم دوستو دامغان شہر میں غریب اور شریف آدمی رہتا تھا جس کا نام شیک برہان تھا اس کے یہاں ایک ہی بیٹا پیدا ہوا تھا ماباپ نے لاک جتن کیے قسمت میں ایک لڑکے کے سوار کوئی اولاد نہ تھی ماباپ بہت زیادہ اسے چاہتے تھے بڑے لاد پیار اور چاو چوچلے سے اس کی پرورش اور تعلیم ہوتی رہی اور اس کا نام شاتیر حم


ایک دن شیخ بورہان کو ایسا اندازہ ہوا کہ اب وہ زیادہ دن نہیں جائے گا وہ سیدہ اپنے گھر آیا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا بیوی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں جلد مرنے والا ہوں اپنے دوست شیخ حسن کو تمہارا اور شاتر کا سرطورست اور نگراہ بنائی دیتا ہوں وہ بڑے نیک اور اللہ والے آدمی ہیں تمہاری اور تمہارے بچے کی دیکھبال کریں گے اور ہر طرح کا خیال رکھیں گے


شیخ حسن درزی کا کام کرتے اور نیلی دروازے میں رہتا تھا، وہیں ان کی دکان تھی تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو ان کو بلا لینا اور ان سے کہنا وہ بندوبست کر دیں گے اور یہ لو تین چیزیں، ایک تو خاص قسم کی ٹوپی ہے، ایک تھیلی اور ایک ڈھنڈا ان تینوں چیزوں کو سمال کر حفاظت سے رکھنا اور جب میں مر جائوں تو جب ضرورت پیش آنے پر یہ چیزیں شاطر کو دے دینا مگر سب ایک دم نہ دینا ایک ایک کر کے دھی جائیں


اور شاتر کو خوب تاکید کرنا کہ ان کو سبال کر رکھے سب سے پہلے اسے تھیلی دینا اس تھیلی کی اگر وہ حفاظت کرے اور زائیہ نہ ہونے دے تو بہت اچھا ہے اور اگر وہ اسے کھو دے تو پھر اسے یہ ٹوپی دے دینا اس کو بھی وہ نہ سبال کر رکھ سکے تو ڈنڈا دینا اور کہنا کہ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دے تو پھر اللہ اس کو کسی مرسیبت سے نہ بچائے گا اور وہ بڑی آفتوں میں پھس جائے گا جن سے نکلنا


عورت اپنے میہ کی باتیں سن کر بہت دیر تک روٹی رہی پھر وہ چیزیں لے کر رکھ لیں اس کے بعد شیخ برحان نے اپنے بیٹے شاتر کو بلایا اور اس سے کہا بیٹے اپنے چچہ شیخ حسن کے پاس چلے جاؤ جو تیلی دروازے میں رہتے ہیں ان سے کہنا میرے باپ نے آپ کو سلام کہا ہے اور ابھی گھر بلایا ہے ایک بڑی ضروری بات کرنی ہے وہ بولا بہت اچھا یہ کہے کر شاتر اسی وقت شیخ حسن درزی کو بلا


اور اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے باپ کا سلام اور پیغام پوچھایا۔ شیخ حسن بولا سارا آنکھوں سے حاضر ہوں اور ابھی چلتا ہوں۔ پھر وہ دکان سے اٹھا کچھ سامان لیا پھیلا ہوا اس باپ سمیڈ کر رکھا اور شاتر کے ساتھ چل پڑھا۔ اس نے شاتر کے گھر پہنچ کر شیخ بورہان کو سلام کیا اور خیریت پوچھی۔ شیخ بورہان نے کہا میں بہت جل مرنے والا ہوں یہ سو چھرفیاں لیجئے اپنے پاس رکھیئ


سبا کو یہاں آجائیے میرے لئے کفن دفن کا سامان تیار کر کے اچھی طرح مجھے قبر تک پہنچا دیجئے اور سواب پہنچانے کے لئے قرآن شریف کا ختم کر دیجئے میں آپ کو اپنی بیوی اور بچے کا سرپرست بناتا ہوں شیخ حسن بولا میں ہر خدمت کے لئے سر آنکھوں سے حاضر ہوں یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا شیخ برحان سو گیا جب سبا ہوئی گربالوں نے دیکھا کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے


کفن دفن کا ضروری سامان لے کر صبح ہوتے ہی پہنچ گیا اور اسے آخری منزل پر پہنچا دیا۔ تین دین سوگ منانے کے بعد شیخ بورہان کی بیوی نے کہا چچا جان اب ہمارے والی وارس اور بزرگ جو کشھ ہیں وہ آپ ہی ہیں شاتر کو اپنے پاس رکھئے اسے درزی کا کام سکھائیے شیخ حسن بولے سر آنکھوں سے حاضر ہوں کل صبح خدا نے چاہا تو اس کو اپنی دکان پر لے چاہوں گا شیخ بورہان کی بیوی نے کہا


اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اچھا بدلا دے گا۔ دوسرے دن جیسے ہی دن نکلا شاتر کی ماہ اٹھی اس نے شاتر کو اٹھایا اور کہا بیٹے جلدی ناشتہ کر کے چچہ سیخ حسن کے پاس چلے جاؤ اور درزی کا کام سیکھنے کے لئے روزانہ ان کی دکان پر جائے کرو شاتر بولا امہ جان بہت اچھا کانے سے فارغ ہو کر جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کی ماہ بولی لو بیٹا یہ ٹھے لی یہ اپنے پاس رکھ


یہ تمہارے لیے تمہارے مرہوم باب دے گئے تھے اور وہ بول رہے تھے کہ شاتر کو دے دینا شاتر نے وہ تھیلی لے لی اور اپنے جی میں کہنے لگا خدا جانے یہ تھیلی کس کام آئے گی یا بھی نہیں بہرحال اس کو ساتھ لے چھنے کچھ پیسے ملیں گی تو اس میں رکھ لیا کریں گے یہ سوچ کر تھیلی لے کر شیخ حسن کی دکان پر وہ چلا گیا دیکھا تو وہ بیٹھے وہ اپنے کام میں مسروف ہیں شاتر نے ان کو سلام کیا دکان پر ج


اور سارا دن وہاں درزی کا کام سیکھتا رہا شام کو شیخ حسن اٹھا اس نے دو آنے دے کر کہا شاتر تم اپنے گھر جا رہے ہو یہ دو آنے لے لو انہیں راستے میں کھونہ دینا شاتر بولا بہت اچھا اور دو کنیاں لے لیں اور اسے اپنے تھیلے میں ڈال کر روانہ ہو گیا جو اس کا باہر مرتے وقت اسے دے گیا تھا اب وہ سیدہ اپنے گھر پہنچا اس کی ماں بولی بیٹا کہ آج دن پر تم دکان


شاتر بولا جی ہاں می چان میں برابر دکان پر کام کرتا رہا اور چلتے وقت چاچا نے دو اکنیاں مجھے دیں اور بولا یہ پیسے اپنی تھیلی میں رکھو دیکھو کہیں رستے میں کھو نہ دینا پھر خود ہی اس نے تھیلی ماں کی گود میں انڈیل کر خالی کر دی اس کی ماں نے دیکھا تو دو اکنیاں نہیں بلکہ دو شرفیاں ہیں وہ بولی یہ تم کو کس نے دیں شاتر کی ماں نے دو شرفیاں اپنی مٹھے میں دبائیں


اور خود شیخ حسن کے پاس پہچی اور ان سے بولی اللہ آپ کو خوش اور اچھا رکھے بلا آپ نے بچے کو دو دنار شرفیاں کیوں دیں ابھی بچہ اس قابل کہاں ہے شیخ حسن یہ سنکر حیرت میں پڑ گیا اور فوراً اٹکر کھڑا ہو گیا اس کے ہاتھ سے دونوں شرفیاں لے لیں ان کو غور سے دیکھا اور شاطر کی ماں سے بولا ہاں میں نے بھولے سے یہ شرفیاں دی دی ہے اس میں شاطر کی کوئی گلطی نہیں اور وہ شرفیاں اپنے پاس رکھنی


شاتر کی ما گھر واپس آ گئی دوسرے دن جب شاتر شیخ حسن کی دکان پر پہنچا تو شیخ حسن نے اسے کہا میں نے تم کو دکان سے جاتے وقت دو اکنیاں دی تھی وہ تم نے کیا کی کس کو دی شاتر بولا وہ میں نے تھیلی میں رکھنی تھی اور جاگر اپنی ما کو دے دی تھی مگر انہیں دو شرفیاں ملی شیخ حسن بولا ذرا مجھے اپنی تھیلی تو دکھاؤ شاتر نے تھیلی اس کے ہاتھ میں دے دی


شیخ حسن اس سے تھیلی لے کر دکان میں اترا تھوڑی دور جاگر اپنی جیس سے دو اکنیاں نکالیں اور اس تھیلی میں ڈال دیں پھر ان کو نکالا تو دو شرفیاں نکلیں پھر اور دو اکنیاں ڈالیں اور نکالی تو دو شرفیاں نکلیں شیخ حسن اپنی دکان پر واپس آیا اور تھیلی میں سو سو اکنیاں ڈالتا اور سو سو شرفیاں نکالتا رہا یہاں تک کہ دکان پر شرفیوں کا ڈھیر لگ گیا پھر


یہ دونت تمہاری ہی تھیلی سے ملی ہے اس میں سے آدھی تم لے لو اور آدھی بجھے دے دو شاتر اٹھا اس نے آدھا روپیا شیخ حسن کو دیا آدھا خود لیا اور اپنی تھیلی لے کر گھر چل دیا اپنی ماں کے پاس پہنچا اور تمام مشرفوں اس کے سامنے جا کر انڈل دیں اور اس سے کہا یہ سب اسی تھیلی میں سے نکلی ہیں اور سارا کسا کیسے سنایا یہ دیکھ کر اس کی ماں گھبرا گئی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی


اچھا میرے سامنے اس تھیلے میں دو کنیاں ڈالو میں بھی دیکھو اس میں سے کیا نکلتا ہے شاتیر نے کہا ٹھیک ہے اور دو کنیاں لے کر تھیلے میں ڈالیں پھر ان کو نکالا تو دو شرفیاں نکلیں شاتیر کی ما یہ دیکھ کر بہت خوش ہو گئی اور اسے کہا اچھا بیٹا اب اس کو پھر سے بھر دو شاتیر بولا بہت اچھا امی جان پھر وہ گر سے نکل کر بازار گیا اس نے اپنے لیے ایک شاندار گھر اور ا


اور تمام سمان لے لیا جس کی اسے ضرورت تھی اب یہ ماہ بیٹے کسی کے محتاج نہ تھے اور شاتر کو درزی کا کام سیکھنے کے لیے شیک کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہ تھی اس نے یہ کام چھوڑ دیا اور بڑے بڑے تاجروں کے لڑکوں کے ساتھ بھٹنے بیٹھنے لگا کیونکہ وہ بڑا آدمی بن گیا تھا اس کے دوست اہباب پیدا ہو گئے تھے اب وہ جہاں بھی جاتا تمام لوگ اس کی تازیم کے لیے اٹھکھڑے ہوتے


اس وقت اس سے بڑا دورت مدی شہر میں کوئی نہ تھا۔ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک دن شاتر تاجنوں کے نوجوان اور اپنے ہمومر لڑکوں میں بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ یہ لوگ اپس میں سہر و تفریح کی باتیں کر رہے تھے اور شاتر گور سے سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان نے دوسرے سے کہا میں ملک شام کا سفر کرنے والا ہوں۔ دوسرا بولا میں ملک مغرب کی سہر کو جانے والا ہوں۔ تیسرا بولا میں ہندوستان کا سفر کر


چوہتھا بولا، میرا ارادہ تو اسطنبول جانے کا ہے۔ غرض یہ ہر ایک نو جوان نے اسی قسم کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ باتیں شاتر نے سنی تو اس کے دل میں بھی سفر کا شوک پیدا ہوا۔ یہ اپنے گھر پوچا تو اس نے اپنی ماں سے کہا، امی جان میں ہندوستان کا سفر کرنا چاہتا ہوں۔ میرے کئی دوست بھی کہیں نہ کہیں جا رہے ہیں۔ اس کی ماں گبرا کر کھڑی ہو گئی اور شاتر سے کہنے لگی، بیٹے ہرگز نہیں۔


ہرگز سفر کا ارادہ نہ کرنا سفر بڑا کم بخت اور بڑی کھٹن مسئبت ہے شاتر بولا نہیں امی میں ضرور سفر کروں گا شاتر کی ماں بولی بیٹے تم میری بات نہیں مانتے تو اچھا جاؤ اپنے چچہ شیخ حسن درزی سے مشورہ کر لو اور ان کو یہاں بلاو انھیں تمہارے مرہوم باپ نے تمہارا سر پرست بنائا ہے اگر وہ تمہارا ارادہ پسند کریں اور سفر کی اجازت دے دیں یا جو رائے دیں اس پر عمل کرنا


شاتر بہت اچھا کہہ کر سیدہ شیخ حسن کے پاس پہنچا اور اسے اپنے گھر بلالایا شیخ حسن شاتر کی مہا کے پاس پہنچے تو وہ ادب سے اکر کھڑی ہو گئی اور بولی دیکھئے چچا جان شاتر سفر کرنا چاہتے ہیں شیخ حسن بولے کیوں بھئی کس لئے؟ شاتر بولا میں پکہ ارادہ کر چکا ہوں شیخ حسن بولا میرے بیٹے سفر تو وہ لوگ کرتے ہیں جو محتاج اور غریب ہوتے ہیں تم ماشاء اللہ دولت مند ہو


اور ہمارے خدا نے ہمیں سب کچھ دیا ہے تم کو سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ غرض اس نے بہت زور دیا اور سفر سے منع کیا مگر شاتر نہ مانا وہ یہی کہتا رہا میں سفر ضرور کروں گا شیخ حسن بولا خیر تم جانت تمہارا کام جانے میں تمہیں زیادہ مجبور کرنا نہیں چاہتا انھیں سفر کا مقصد بتاؤ شاتر بولا تجارت اب شاتر اور شیخ حسن اٹھے اور گھر سے نکل کر بازار پہنچے


حسن نے اس کے لئے تجارتی سامان خریدہ اور ایک جہاز کرای پر لیا شاتر اپنی ماں سے اجازت اور ضروری سامان سفر لے کر رکست ہوا اور سمندر کے ساہل پر آکر جہاز پر سوار ہو گیا جہاز ربانہ ہو گیا یہ جہاز رستے میں جس شہروں مکام پر پہنچتا شاتر وہاں اتر کر کچھ سامان خریدھا اور کچھ بیشتا اسی طرح چلتے چلتے ہندوستان کے ساہل پر پہنچ گیا اور جہاز نے سمندر کے کنارے لنگر


شاتر اتر کر شہر صورت میں سہر و تفریح کے لیے چل دیا پھر اس نے اپنے رہنے کے لیے شہر میں ایک زمین کا ڈکڑا خریدہ اور وہاں ایک شاندار تجارتی کوٹھی بنوائی اب وہ جہا سے اپنا سارا سامان اتار کر کوٹھی میں لے آیا اور چیزیں خریدنے اور بیچنے کا کاروبار شروع کر دیا جو چیزیں شہر میں دس روپے میں ملتی تھی وہ شاتر پانچ روپے میں دیتا تھا شہر والوں میں سے ایک شخص کو اس نے نوکر لکھ


اس کا دل لگا رہے شہر والوں سے جان پہ چان میں آسانی اور تجارتی کام میں سہولت ہو اس شہر کا راجہ اس کا بیٹا اور وزیر بھی تجارتی کاروبار کرتے تھے انہوں نے اپنے اپنے ناموں سے تجارتی مڑنیاں کھول رکھی تھیں شاتیر نے ہر چیز کے دام گرا دیئے دس روپے کی جیز پانچ روپے میں شہر کے اکثر تاجروں کا کاروبار قراب اور لیندین بند ہو گیا نہ کچھ کھریس سکتے تھے نہ کچھ بیجھ سکتے تھے


شہر کے تاجروں نے ایک دوسرے سے شکایت کی آپس میں مشورے کیئے آخر سب مل گئے اور سب کی اتفاقے رائے سے یہ تھی پایا کہ ہم چلیں اور راجہ کو اپنا دکھ درد سنائیں اس کام کے لیے تاجروں میں سے چند حوشہار لوگ چنے گئے یہ راجہ کے دربار میں پہنچے اور انہوں نے اپنے شکایت پیش کی راجہ نے اپنے بزیر سے کہا شہر کے کاروباری حالت کی جانچ کی جائے اور اس لڑکے کے گلاف مناسب کاروائی ہونی چا


وزیر نے کھڑے ہو کر عدب کے سادہ عرس کی میری ناچی زراعی یہ ہے کہ راجہ صاحب اور میں بھیس بدل کر بازار میں پہنچیں اپنی آنکھوں سے لیندین کا حال دیکھیں اور پتہ چلایں کہ اصل بات کیا ہے؟ راجہ نے اس رای کو پسند کیا اور بولا بہت اچھی بات ہے دربار برخواست ہوا راجہ اور وزیر نے فقیروں کا لباس بدلا اور چپکے سے مہل سے ادر کر روانہ ہوئے جب شاطر کی کوٹھی پر سے گزرے


تو اس شخص نے ان کو پہچان لیا جس کو شاتر نے نوکر رکھ لیا تھا اور اسی وقت اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ راجہ اور وزیر کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور شاتر سے بولا آپ جانتے ہیں یہ دونوں کون ہیں؟ شاتر بولا نہیں ملازم بولا یہ راجہ اور دوسرا وزیر ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ نوجوان لڑکہ جو ان کے ساتھ ہے کون ہیں؟ شاتر بولا نہیں ملازم نے جواب دیا یہ راجہ کا بیٹا ہے


ان تینوں نے اپنے اپنے نام سے شہر میں الگ الگ تجارتی منڈیاں کھول رکھی ہیں اور بھیوپار کرتے ہیں اور یہ راجہ کا بیٹا ایک نوجوان لڑکی سے محبت کرتا ہے جس کا نام سندھر دیوی ہے اس کی شرد یہ ہے کہ جو اسے دیکھنا چاہے ایک سو اچھرفیاں پیش کرے سو گنیاں لے کر وہ جھروکے میں آتی ہے جہاں کر اپنی صورت دکھا جاتی ہے ہر روز راجکمار وہاں جاتا ہے اور سو گنیاں دے کر اسے ایک بار دیکھا آتا ہے


شاتر بولا اٹھو چلو ہم بھی سندر دیوی کے گھر چلیں اور اسے دیکھ آئیں۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہا بہت اچھا۔ کچھ روپیا اسی تھیل میں جو اس کی ماں نے دی تھی اور چند خادموں کو ساتھ لے کر یہ دونوں سندر دیوی کے گھر پہنچے۔ شاتر نے اس کے دربان سے بھاشیت کی اور اسے کہا میں سندر دیوی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ دربان بولا سو گنیاں پیش کرو۔ شاتر نے سو گنیاں اس کے ہاتھ میں رکھ دیں۔


دربان روپیا لے کر روپر گیا سندھر دیوی کو خبر دی اس کے سامنے سندھر دیوی نے اپنے کڑکی کھول دی اور اپنا جلوہ دکھا کر ہٹ گئی شاتیر نے نیچے سے اسے دیکھا اور دیکھتے ہی اس پر لٹو ہو گیا اور دربان سے بولا اگر کوئی شخص مہل کے اندر جانا چاہے تو کیا دے؟ دربان بولا سو روپیا شاتیر سو روپیا دے کر دربان کے ساتھ سندھر دیوی کے مہل میں گز گیا پھر اس


جو شخص اس زینے سے چڑھ کر اوپر جانا چاہے، اسے کیا دینا پڑے گا؟ دربان بولا، سو گنیاں شاتر سو گنیاں دے کر اوپر چڑھ گیا پھر شاتر میں دربان سے کہا جو شخص سندر دیوی کے پاس پہنچنا چاہے، وہ کیا دے؟ دربان بولا، سو عشرفیاں شاتر، سو عشرفیاں دے کر سندر دیوی کے پاس پہنچ گیا اور اس کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر بولا جو شخص تمہارے پاس بیٹھنا چاہے، وہ کیا


سندھر دیوی بھولی سو گنیاں بیٹھتے ہی اس نے پھر سے سندھر دیوی سے پوچھا جو تمہیں ہاتھ لگانا چاہے وہ کیا دے وہ بھولی سو چرفیاں اسی قسم کے کئی اور سوال کیے اور وہی جواب پاتا رہا غرس کے شاتر رات کو وہیں سویا سندھر دیوی حیرت کے ساتھ یہ تماشا دیکھتی رہی کہ وہ تھیلی میں ہاتھ ڈالتا ہے اور سو چرفیاں جھٹ نکال کر دے دیتا ہے اس سے رہا نہ گیا اور وہ شاتر سے بھول


میں دیکھ رہی ہوں کہ تم اس تھیلی میں ہاتھ ڈالتے ہو اور اس میں سے گنیاں نکل آتی ہیں۔ شاتر بولا ہاں یہ ایک تلسیمی تھیلی ہے اور اس نے اپنے باپ سے ورثہ میں پائی ہے یہ کبھی خالی نہیں ہوتی۔ سندر دیوی اٹھکڑھی ہوئی اور بولی اے شاتر، ذرا یہ تھیلی مجھے تو دو میں بھی اس کی سحر کروں۔ شاتر کھڑا ہو گیا اور اپنی جیب سے تھیلی نکال کر سندر دیوی کے ہاتھ میں دے دی۔ سندر دیوی نے وہ تھیلی لے کر


اور بناد آواز سے اپنے نوکروں کو بکارا اور ان سے کہا یہ نو جوان لونڈا چور ہے اس کو پکڑ کر لے جاؤ سندھر دیوی نے کچھ اپنا زیورن نکال کر جھٹ شاتر کی جیم میں رکھ دیا یہ لوگ شاتر کو پکڑ کر لے گئے اور پولیس کے حوالے کر دیا پولیس شاتر کو پکڑ کر راجہ کے پاس لے گئی راجہ نے شاتر کو دیکھ کر پہچان لیا اور اپنے وزیر سے بولا اس نو جوان کو مناسب سزا دی جائے وزیر


حضورؑ بہتر یہ ہے کہ اس کا تمام مال اور دولت چین کر اسے شہر سے نکال دیا جائے راجہ نے فوراً حکم دیا کہ اس کو شہر بدر کر دیا جائے اور اس کا تمام مال لے لیا جائے غرز کے شاتر کو نکال دیا گیا شاتر نے جب یہ حال دیکھا تو اس نے کوششرفیاں چھپا کر اپنی کمر میں رکھ لیں اور وہاں سے چل دیا شہروں شہروں مارا پیرا بڑی مشکل کے بعد اپنے وطن واپس پہنچا اور اپنی ماں سے ملا


اس کی ماں نے اپنے رہنے کے لیے شاندار محل بیش دیا تھا اور وہ ایک چھوٹی سی گاز پھوس کی جوپڑی میں رہتی تھی وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کی جدائی میں روتی تھی نہ رات کو آنسو بند ہوتے تھے نہ دن کو یہاں تک کہ روتے روتے اس کی آنکھیں اندی ہو گئیں اس کی دماغی حالت بھی خراب ہو گئی اور دھیرے دھیرے اس نے اپنے گھر کا تمام سوان بھی بیش ڈالا ضرورت کی کوئی چیز اس کے پاس نہ تھی محل


اس کے دروازے کی کندی کھٹا کھٹکٹاتے اور شور و گھل مچاتے تھے شاتیر کی ماہ اٹھ کر آتی اور پوچھتی کہ کندی کیوں کھٹکٹاتے ہو اور مجھے کیوں ستاتے ہو لڑکے اس سے کہتے دروازہ کھولو تمہارا بیٹا شاتیر آیا ہے وہ خوش ہو جاتی اور دور کر دروازہ کھول دیتی مگر شاتیر کو نہ پاتی بچے بھاگ جاتے یہ لپکتی بڑھ بڑھا تھی گالیاں دیتی اور پھر دروازہ بند کر لیتی


بچے روز یہیں شرارتیں کرتے تھے جب شاتر دروازے پر پہنچا تو اس نے کندی کھٹکٹائی اس کی ماہ نے پوچھا کون ہے شاتر بولا میں ہوں ماہ اس کی ماہ بولی یہاں سے چلے جاؤ شاتر واتر کہاں وہ تو چلا گیا وہ گیا اس کے دن بھی گئے پھر شاتر نے آواز دی ماہ دروازے کھولو میں آ گیا ہوں میں آپ کا بیٹا شاتر ہوں اس دفعہ اس کی ماہ نے اس کی آواز پہچانی


اور اندازہ لگایا کہ یہ شاطر ہی ہے تو وہ جھٹ اٹھی دوار پکڑتی ہوئی دروازے تک آئی کیونکہ اس کی آنکھوں کی بنای خلاب ہو گئی تھی اس نے دروازہ کھولا اور شاطر سے لپڑ گئی اسے اپنی اغوش میں لے لیا اور بولی بیٹے تم نے کیا بیوپار کیا اور کیا کمہ کر لائے شاطر بولا بیوپار وغیرہ کچھ نہیں کیا پھر جو کچھ حالات اس پر گزرے تھے وہ اس نے مہ کے سامنے بیان کیے اور بولا


امی جان کیا میرا باپ اس تیلے کی سوا کوئی اور چیز میرے لئے چھوڑ گئی تھے؟ مہا بولی ہاں ایک توپی اور چھوڑ گئے ہیں وہ اٹھی اور توپی لا کر اس کو دے دی شاتل نے توپی لے لی علت پلٹ کر دیکھی اور اس میں دو اکنیاں ڈالیں اور پھر ہاتھ ڈال کر نکالیں تو وہی دو اکنیاں نکلیں جو اس نے ڈالی تھی اس نے توپی کو ہر طرف سے غور سے دیکھا مگر اس کے کام کا اور مطلب کی کوئی بات ظاہر نہ ہو


پھر اپنے جی میں سوچا کہ اس کو پہن کر تو دیکھوں اس نے ایک طرف جا کر ٹوپی پہن لی پھر ما کے سامنے آیا لیکن اس کی ما کو دکھائی نہ دیا اس کی ما نے پکارا ارے شاتر کیا تو ابھی بھی چلا گیا شاتر نے اپنے سر سے ٹوپی اتار دی تو وہ نظر کے سامنے ہی کھڑا نظر آیا اس نے اپنی ماں سے پوچھا کیا بات ہے ما وہ بولی بیٹے جب تم نے ٹوپی پہنی تو تم مجھے دکھائی نہ دیا


میں سمجھی دو کہیں چلا گیا شاتر نے وہ ٹوپی اپنی ماں کو دی اور بولا امیؑ زرا تم تو پہنو میں بھی تجربہ کروں اس کی ماں نے ٹوپی پہن لی اور وہ شاتر کی نظروں سے غائب ہو گئی شاتر پکار کر بولا امہ جان تم کہاں ہوں تو اس نے ٹوپی اتار دی اور وہ نظر آنے لگی اب شاتر سمجھ گیا کہ یہ تلسمی ٹوپی ہے اور اس میں یہ خوبی ہے جو اس کو پہن لے وہ دیکھنے والوں کی نظر سے


اب شاتر کو اتمان ہو گیا یہ ٹوپی بڑے کام کی ہے اس نے مہا سے ٹوپی لے لی اور کچھ ضروری سامان لے کر وہاں سے چل دیا اب وہ ٹوپی پینے ہوئے سرافہ بزار میں پہنچا ان کے پاس سے بہت سارا روپیا اڑایا اور وہاں سے آ کر اپنی مہا کو دیا پھر اس سے بولا امہ یہ روپیا لو اور آرام سے رہو میری کوئی فکر اور گھم نہ کرنا اب یہ عجیب چیز مجھے مل گئی ہے سندھر دیوی سے اپنی تھیلی


پھر ہندوستان کا سفر کرنا پڑے گا اس کی ماں نے بہت روکا بہت سمجھایا بوجھایا اور کہا بیٹا سفر کرنا بیکار ہے یہ ٹوپی ہم کو بڑا فائدہ دے گی شاتر بولا نہیں بلکہ یہ سفر بہت ضروری ہے میں ضرور جاؤں گا یہ کہہ کر اس نے ٹوپی پہن لی اور گھر سے نکلا وہ ٹوپی پہنے ہوئے سمندر کے کنارے تک پہنچ گیا اور اسے کسی نے نہیں دیکھا یہاں پہنچ کر بتا چلا ایک جہاز


ہندوستان کے اسی شہر صورت کو جانے والا ہے جس میں سندھر دیوی رہتی تھی شاتر اس میں سوار ہو گیا اور کسی کو نظر نہ آیا جہاز روانہ ہوا اس کو جب بھوگ لگی وہ جہاز والوں کا کھانہ چٹ کر جاتا اور کسی کو خبر نہ ہوتی اب وہ اسی شہر صورت کے سائل پر پہنچ گیا جہاں سندھر دیوی رہتی تھی شاتر جہاز سے نکل کر سیدھا سندھر دیوی کے محل پر پہنچا اور بے کھٹ کے اندر داخل ہو گیا


مگر وہ کسی کو نظر نہ آیا اور سندر دیوی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور اپنے سر سے وہ تلسیم ٹوپی اتار دی سندر دیوی اس کو دیکھ کر حیران رہ گئی شاتر بولا تم جانتی ہو میں کون ہوں اور تمہاری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ میں آ گیا ہوں لاو جلی میری ٹیلی مجھے فوراً واپس دے دو ورنہ اسی وقت مار ڈالوں گا سندر دیوی بڑی مکار عورت تھی اس نے پیر ایک نئی چال چ


اے شاتر، اب تک تم کہاں تھے؟ خدا کی قسم، اب تک جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کیا میں اس پر شرمندہ ہوں۔ اس دن سے آج تک تم میری آکھوں میں پھر رہی ہو۔ جس وقت سے گئے ہو، نہ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے، نہ پینا اور نہ مجھے نیناتی ہے، نہ مجھے چین نصیب ہے، کبھی تم میری نگا سے اچھل نہیں ہوئے۔ شاتر بولا، دیکھو یہ میری تلسمی ٹوپی جس نے مجھے تم تک اپنی تھیلی لینے کے لیے پہنچا دیا ہے۔


سندر دیوی نے اس سے کہا ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ یہ اجیب چیز یہ کہہ کر اس نے شاتر سے ٹوپی لے لی اور اس کو پہن کر شاتر کی نگاہ سے غائب ہو گئی شاتر بولا دیکھو سندر دیوی میری ٹوپی فورا دے دو مگر اس نے اپنے خاتموں کو بکارا اور ان سے بولا پکڑ کر لے جاؤ اور یہاں سے نکال دو خاتم فورا داکل ہوئے اور شاتر کو گسیر دے ہوئے لے گئے اور مہل سے بار نکال دیا


اب شاتر کو اپنی ٹوپی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اس وقت اس کو اپنی ٹوپی ہاں سے جانے پر کس قدر شرمندگی اور صدمہ ہوا ہوگا وہ اپنی بے وقوفی اور نادانی پر بہت پشتایا اور پیدل چل دیا وہ آفتے اور مسیبتیں جھیلتا اور شہروں کی خاہ چانتا کئی عرصے کے بعد کسی نہ کسی طرح اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا اس کی ماں نے اس کو دیکھا تو پوچھا بیٹے، اتنے عرصے تم نے کیا کیا؟ جو ک


شاتر نے اپنی ماں کو شروع سے آخر دکھ کہہ سنا ہے بچاری غمزدہ ماں رنجو غم کے سیوہ کیا کرتی روتی رہی مگر شاتر کے سر سے سندر دیوی کو اپنے کابومے لانے کا بھوت ابھی تک نہیں اترا تھا اور اتنے دُگ جھیلنے پر بھی وہ حمد نہ ہارا اس نے پوچھا مرہوم ابا جان نے کوئی اور چیز بھی میرے لیے چھوڑی ہے اس کی ماں بھولی اب میرے پاس ایک صرف ڈنڈا رہ گیا ہے اس کے سیوہ اور کو


تمہارے مرہوم باپ نے اپنی وفا سے پہلے یہ کہا تھا اگر شاتر اس کی حفاظت کرے گا تو یہ بھی اس کی حفاظت کرے گا اگر وہ اس کی حفاظت نہ کر سکا تو اللہ بھی اس کی حفاظت نہیں کر سکے گا اور وہ تباہ و برباد ہو جائے گا شاتر بولا لاؤ امہ جان وہ ڈنڈا مچھے دے دو میں اس کی جان سے زیادہ حفاظت کروں گا اس کی ماہ اٹھی وہ ڈنڈا نکال کر لائی اور شاتر کو دے دیا شاتر نے اس کو دبایا


اُلٹ پلڑ کر دیکھا مگر اسے اپنے مطلب کی کوئی بات نظر نہ آئی اور وہ غصے میں آکر آگے بڑھا اور ڈنڈے کو زمین پر پھینک دیا ڈنڈا زمین پر گلتے ہی اپکھڑا ہوا اور بولا شاتر صاحب میں حاضر ہوں بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں شاتر بولا تم کون ہو ڈنڈا بولا میں ڈنڈا ہوں جو شخص مچھ سے کوئی چیز مانگے گا یا جو حاجت چاہے گا میں اس


شاتر بولا، اچھا تو میں اس وقت بھوکا ہوں میرے لئے شاید گی اور روٹی لاو یہ کہتے ہی شاتر نے اپنے سامنے مانگی مرات پھائی وہ اور اس کی ماہ بہت خوش ہوئے اور خوب پیٹ بھر کر کھایا اب وہ ڈنڈے کو عظمہ چکا تھا اب اس نے مال اور دورت کا خزانہ ڈنڈے سے تلب کیا اسی وقت اس کو خزانہ مل گیا سونے چاندی کا سامنے ڈھیر لگ گیا وہ سارا خزانہ اس نے اپنی ماہ کو دیا اور بولا


امیچان لو یہ خزانہ تم آرام سے رہنا میری فکر نہ کرنا اللہ نے چاہتوں میں جل دا کر تمہیں واپس ملوں گا مجھے پیر سفر کرنا ضروری ہے وہ ٹوپی اور تھیلی سندر دیوی کے پاس سے لانا ہے وہ میرا مال ہے اور جب تک میں اسے واپس نہ لے لوں مجھے چین نہیں آئے گا مجھے دعائیں دے کر رکست کرو تمہاری دعائیں ساتھ رہیں تو میں ضرور کامیاب ہوجائوں گا مہا نے اس کو بہت منع کیا مگر شاتر نہ مانا


اور یہ کہتا رہا کہ سفر ضروری ہے مہا غریب سبر کر کے اور کلیجہ تھام کر خاموش رہ گئی پھر شاتر نے اپنا ڈنڈا زمین پر ڈالا اور اسے بولا مجھے سندر دیوی کے پاس جلدی پوچھا دو بس یہ کہنا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو سندر دیوی کے سامنے پایا سندر دیوی اسے دیفتے ہی کھڑی ہو گئی بظاہر بہت آو بھگت کی اور کہا آئیے آپ کی آمن مبارک ہو شاتر نے اس سے کہا


بس بس اپنی آو بھکوت اور مبارک بعد رہنے دو اسی میں اچھا ہے کہ میری ٹوپی اور ٹیلی فورن مجھے دے دو ورنہ میں تم کو بہت دور لے جا کر مار ڈالوں گا اب اس نے یہ کہا کر پھر اپنا ڈنڈا زمین پر مارا اور اسے کہا اس مکار عورت کو اثمان پر لے اڑو یہ کہنا تھا سندر دیوی اکدم ہوا میں اڑ گئی سندر دیوی نے دیکھا کہ وہ زمین سے بہت بلندی پر ہوا میں لٹک رہی ہے


پھر شاتر نے دنڈے سے کہا اس کو اتار لاؤ وہ دنڈا سندھر دیوی کو نیچے لے آیا اور اس کو شاتر کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا سندھر دیوی بڑی آجزی اور خوشامدی کے ساتھ شاتر سے کہنے لگی بے شک تم جیتے اور میں ہاری تم حق پر ہو اور میں کسوڑوار لو یہ اپنی تھیلی اور یہ ٹوپی یہ کہا کر اس نے اپنی جیف سے دونوں چیزیں نکالی بظاہر تو یہ دکھایا کہ وہ تھیلی اور ٹوپی دینے والی ہے


مگر شاتر کو جنسہ دینا چاہتی تھی، دوکہ دے کر اس کا ڈنڈا بھی اڑھا لیا اور ڈنڈے سے کہا اس کو کوک آف پر ڈھا لاؤ تھوڑی ہی دیر میں شاتر نے اپنے آپ کو کوک آف پہاڑ پر پایا اب وہ پریشان تھا مگر تھا بڑی ہمت والا وہ معیوس نہ ہوا اور ایک طرف کو پیدل چل دیا ایک پہاڑی کو تے کرتا تو دوسرا پہاڑ آ جاتا آخر چلتے چلتے وہ پانی کے ایک چشمے پہ پہ پہن


جو اس پہاڑ پر بے رہا تھا تو کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا یا اللعب کیدھر چاہوں۔ آخر ایک طرف چل دیا کہ کہیں کوئی راستہ ملے گا۔ چلتے چلتے سنے چشمے کے کنارے دو خجور کے درکت دیکھے۔ ایک درکت میں سرخ اور دوسرے میں زرد فل لگے ہوئے تھے۔ اس نے تھوڑے سے سرخ فل توڑے اور درک سے اتر کر ایک پل کھایا۔ فل کھاتے ہی یہ ہوا کہ جیسے زمین نے پکڑ لیا۔


یہ حالت تھی کہ وہ نہ بول سکتا تھا، نہ اپنے پانہ ہلا سکتا تھا، نہ پھیلا سکتا تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے، ایک قوہ زرد فلوالے درخت پر آیا۔ اس نے ایک فل جو نیچے سے توڑ کر گھرائیا، یہ فل سیدھا شاطر کی ٹھوڑی کے پاس گھرا۔ شاطر نے اس کو جس طرح بند پڑا، مو بڑھا کر کھا لیا اور کھاتے ہی اپنے آپ کو تندرست پایا۔ اب اس نے اپنے دل میں کہا یہ تو بڑے کام کی چیز ہے۔


تھوڑے تھوڑے دونوں درکتوں کے پھل توڑ کر لکھنے لیے چاہیے۔ اس نے دونوں درکتوں پر چڑھ کر پھل توڑے اور وہاں سے چل دیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ غریب دکھائی دیا۔ وہ شاطر کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔ شاطر اسے دیکھ کر آگے بڑا، سامنے آ کر اسے سلام کیا اور پوچھا آپ کہاں رہتے ہو؟ عرب نے کہا میں تو یہی رہتا ہوں مگر تم کہا خبر بھی ہے کہ تم اپنے وطن سے کتنی دور


یہاں سے پانچ سو برس کی راہ کا فاصلہ ہے۔ شاطر بولا اے سردار مجھ پر مہربانی کیجئے یا تو مجھے میرے وطن تک پوچھا دیجئے یا ایسا راستہ بتائیے کہ میں چر کر اپنے وطن پہنچاؤں میں پردیسی مسافر ہوں عرب نے اس سے کہا میں تمہیں اسی محل تک کیوں نہ پوچا دوں جہاں تم جانا چاہتے ہو یہ پھر سندر دیوی کے ہاتھ بیش ڈاننا شاطر بولا یہ تو بہت اچھا ہے


اچھا تو میں جھکتا ہوں میری پیٹ پر بیٹھ جاؤ اور اپنی آنکھیں بند کر لو شاتر بولا بہت اچھا یہ کہہ کر وہ عرب کی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد آواز سنی آنکھیں کھولو شاتر نے آنکھیں کھولی تو کیا دیکھتا ہے کہ نہ عرب ہے نہ اور کوئی یہ تناہ سندر دیوی کے محل کے سامنے کھڑا تھا اس نے آواز لگائی لو تازہ کجوریں


سندر دیوی یہ آواز سن کر اپنے دل میں بولی ہیں یہ آج کل تازہ خجورے کہاں؟ اس نے اپنے دربان کو بکارا اور بولا دیکھو خجورے بیچنے والا جا رہا ہے ہمارے لئے خجورے تو لے آؤ دربان نکلا اور جا کر اس سے پوچھا خجورے کیسے دیتے ہو؟ شاتری بولا پانچ روپیہ رتل دربان بولا دو رتل تول دو شاتری نے دو رتل خجورے تول کر اس کو دے دی اور اسے دس روپے رے کر چل دیا


سندر دیوی نے خجورے رکھوا دی اور یہ سوچا کہ رات کو کھانے کے بعد خود کھائے گی اور سب کو کھلائے گی رات کو کھانے کے بعد سندر دیوی نے خجورے باٹی سب نے شوق سے مزے لے لے کر کھائیں کھاتے ہی سب سن ہو کر رہ گئے جیسے زمین نے پکڑ لیا ہو کوئی ان میں ایسا باقی نہ تھا جو اپنے ہاتھ پاؤں ہلہ سکتا اور مو سے بول سکتا رات کو سندر دیوی کے مہل کا گشت لگانے


اور دروازے پر پہرہ دینے اور ہلے کی سکت نہ رہی۔ دروازہ رات بر کھلا پڑا رہا۔ چن لوگوں نے خجورے نہیں کھائی تھی۔ وہ یہ حال دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انہوں نے جا کر راجہ کو خبر دی۔ اسی وقت راجہ اور وزید سندر دیوی کے محل پہنچے۔ اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا۔ سندر دیوی اور جتنے لوگ اس کے آسپاس تھے۔ وہ سب کے سب بے حرکت پڑے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سک


راجہ نے فورا حکیموں کو بلانے کا حکم دیا حکیموں نے آکر انھیں دیکھا سب کو دوا دی علاج کیا مگر کوئی فائدہ نظر نہ آیا کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے ادھر شاتم نے اپنا کام جاری رکھا وہ ایک مغربی ڈاکٹر کے بھیس میں سندھر دیوی کے مہل کے نیچے آیا اور لوگوں سے بولا میں حکیم ہوں ہر بیماری کا علاج اور دوا دیتا ہوں راجہ


جو اس وقت مہل میں موجود تھا اس کو خبر دی اس نے حکم دیا کہ حکیم کو حاضر کرو شاتر حاضر ہو گیا راجہ نے اس سے کہا کیا تم اپاہجوں کا علاج کر سکتے ہو؟ شاتر بولا ہاں کر سکتا ہوں مگر ایک شرط ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ جتنے لوگ ہیں سب یہاں سے چلے جائیں میرے سی وقت کوئی اور مہل میں باقی نہ رہے مہل کے دروازے میں تعلیٰ ڈال دیا جائے راجہ بولا


اچھی بات ہے یہ سب لوگ شاتر کو مہل میں چھوڑ کر چلے گئے دربازے میں تعلیٰ ڈال دیا گیا شاتر کو جب پورا اطمینہاں ہو گیا تو مہل کے کوٹے پر پہنچا سندھر دیوی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اسے بولا بتاؤ میری تھیلی ٹوپی اور ڈنڈا کہاں ہے اگر ابھی تم نے میری چیزیں نہ دی تو تم لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ دوں گا اور تم سب کے سب یوں ہی مر جاؤ گے یہ کہہ کر اٹھا


اور اس نے سندر دیوی کی تلاشی لی مگر اس کے پاس کوئی چیز نہ ملی پھر وہ محل میں گز گیا ہر کمرے ہر کٹھڑی میں ڈھونتا چکر لگاتا رہا آخر ایک سندوق میں یہ سب چیزیں حفاظت کے ساتھ رکھی ہوئی پھانی شاتر نے ان کو لے لیا اور سندر دیوی کے پاس آ کر بولا کہو اب کیا چاہتی ہو اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں اس مسیبت سے چھڑاؤں تو جو میں کہتا ہوں اسے قبول کرو مگر اب دھوکہ نہ د


سندھر دیوی نے آنکھوں سے اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ کبول ہے اب شاتر نے اپنا ڈنڈا زمین پر مارا اور بولا کازی کو اور جو کازی کے ساتھ ہو اس کو میرے پاس لے آؤ تھوڑی دیر میں کازی اور اس کے ساتھ دو آدمی سامنے موجود تھے شاتر نے کازی سے کہا جانتے ہو کہ ہم نے تمہیں یہاں کیسے بلایا ہے کازی بولا نہیں شاتر بولا اس لئے کہ سندھر دیوی سے میرا بیان کر دو اور نکانامہ لکھ دو


شاتر نے قازی کو دس اشرفیاں اور اس کے ساتھیوں کو پانچ پانچ اشرفیاں دیں پھر اپنے ڈنڈے سے بولا انہیں وہی پوچھا دو جہاں سے لائے تھے جب سباہ ہوئی قازی اور اس کے ساتھیوں کی آنکھیں کھولی تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو کشمیری شال میں لپٹا ہوا پایا اور اپنی اپنی چیوے میں ہاڈ ڈالا قازی کو دش اشرفیاں اور باقی لوگوں کو پانچ پانچ اشرفیاں ملیں قازی نے ہیلتھ کے ساتھ اپنے ساتھی


اور ہم نے وہاں کیا کیا کچھ خبر نہیں انہوں نے جواب دیا ہم کچھ نہیں جانتے قاضی بولا خدا کی قسم چاہ ہو کہ ہر روز اس کام کے لیے ہمارے پاس کوئی اثمان سے اترا کرے اور ہر رات ہم یہی جایا کریں اور دس اشرفیاں ملتی رہیں ادھر شاتی نے جب نوکانامہ لکھوائیا تو اپنے ڈنڈے کو حکم دیا کہ اس مہل کو اور جو کچھ اس مہل میں ہے سب کو ہمارے دیس میں پوچھا دو


ڈنڈا فورا حکم بجال آیا اپنے وطن پہنچ کر شادیل نے بڑی خوشیاں منائیں خوب دھوم دھام سے جشن کیے خوب دن رات دعوتے ہوتی رہیں کئی دن تک شادی کا جشن رہا تمام شہر میں دھوم مچ گئی اور یہ سب اہچھو ارام سے رہنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow