ظالم چاچا نہ مجھے جوئے میں ہار دیا ایک دلچسپ کہانی
ایک عورت کی دل شکن کہانی جو عوامی مقام پر ذلت اور بے بسی کا سامنا کر رہی ہے، اور کوئی بھی اس کی مدد کے لیے قدم آگے نہیں بڑھاتا۔
آج نہ تو زمین پٹی تھی اور نہ ہی اثمان گرا تھا ظلم کی انتہا ہونے کو تھی مگر کوئی اپنا یہاں اپنا نہیں تھا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ مجھے مد چھو میرے قریب مد تو خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو تبھی میرے سر سے دپٹے کو کھیچنے کی کوشش کی جا رہی تھے میں زار و قدار رو رہی تھے اور اپنی رہائی کی دعائی دے رہی تھے میں تڑتے ہوئے خود کو وچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر میری پکار یہا
میں بے بسی کی نگاہوں سے اپنے اردگیر جما لوگوں کو دیکھ رہے تھے سب لوگ تماشائے تھے جو میری عزت لٹنے کا تماشہ بڑی گیرت مندی سے دیکھ رہے تھے میں سب کے آگے ہاتھ چوڑ رہی تھی کہ مجھے ذالم شخص سے کوئی تو بچالے خود دارا کوئی تو میری مدد کرے لیکن کوئی بھی مجھے ذالم شخص سے بچانے کے لیے اپنے قدم آگے نہیں بڑا رہا تھا اس بھرے بازار میں کھڑے ہر شخص کا گیرت سے دور تک کوئی تعل
سب کے سب اپنا زمیر بیجھ کر یہاں ہوتی بےحیائی کا حصہ بننے کے لیے آئے تھے میں دورتے ہوئے اپنے چچا کے قریب گئی یہ وہی چچا تھا جس نے مجھے اس مشکل میں ڈالا تھا میں نے اپنے چچا کے قدموں کو زور سے پکڑتے ہوئے کہا خدا کے لیے چچا مجھے یہاں سے لے جاؤ چچا میں تمہاری بیٹھیوں کی طرح ہوں میرے اوپر رحم کرو مننے کے بعد میرے امہ اب با کو کیا مو دکھاؤ گے
میں اپنے چچا کو ہر طریقے سے منانے کی کوشش کر رہی تھے میں اپنے چچا کا سویا ہوا زمیر جگانے کی کوشش کر رہی تھے میں اپنے چچا سے کہہ رہی تھی کہ آپ تو مجھے شہر کی سہر کروانے کے بحانے لے کر آئے تھے مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کریں گے میں کبھی آپ کے ساتھ نہیں آتی میرے اوپر رحم کرو مجھے اپنے ساتھ لے کر جو یہاں چھوڑ کر مجھ جاؤ کس کے سہارے یہاں پر مجھ
جب میری کوئی بھی پکار میرے چچا نے نہیں سنی تو مجھے بہت ہاں اُسسا آنے رکا بے بسی کے حالن میں روتے ہوئے میں اپنے چچا کا گربان پکڑ کر کھڑی ہو گئی اور جن جوڑتے ہوئے چچا سے کہنے لگی کہ تمہارا زمیر مر جگہ ہے تم مجھے نہیں بلکہ اپنی بیٹی کو جوے میں ہار کر جا رہے ہو تم میرا نصیب نہیں اپنی بیٹی کا نصیب لکھ رہے ہو آج جو کچھ میرے ساتھ کر رہے ہو کل کو تمہاری ب
میں قیامت تک تمہیں ماف نہیں کروں گی میری سسکیاں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی میں زار و قطار رو رہی تھی اور چچا کو جن جوڑے جا رہی تھی کہ تبھی چچا نے ایک زوردار ثپڑ میرے مو پر مارتے ہوئے کہا کہ تمہارے ماں باپ نے میرے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا تھا ساری جائیداد غیروں میں لٹا کر اس دنیا سے رکست ہو گئے اور تمہارا بوچ میرے سر پر ڈال گئے شکر کرو میں نے تو تمہیں صرف بیچ
میں اس کو بھی تمہاری طرح بیچ دی تھا کیونکہ تمہارے باپ نے میرے ساتھ ہمیشہ سوتلو والا سلوک کیا تھا آج مجھے اگر اپنا بدلہ لینے کا موقع مل رہا ہے تو کیوں کر میں اپنے قدم پیچھے ہٹاؤں؟ کیس لئے تمہیں یہاں سے لے کر جاؤں؟ تم میرے لئے صرف ایک بوش تھی جو آج میرے سر سے اتر گیا تمہیں پال پوز کر اس لئے نہیں بڑا کر رہا تھا کہ ساری زندگی تمہارا بوش اٹھائے پھروں میں تو تمہ
اپنے ساتھ ہوئے سارے ظلموں کا بدلہ لے سکوں اور آج وہ دن آگے ہے اور تم مجھے میرے ہی مقصد سے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہی ہو ایسا کبھی نہیں ہو سکتا چچا نے مجھے زور دار دھکا دیتے ہوئے اپنا ہاتھ جٹکا میں دور جا کر اسی آدمی کے قدموں میں گر گئی جو میری عزت کو تاہر تاہر کرنے پر تلاؤ ہوا تھا اس نے میرا دپٹہ کھیچتے ہوئے کہا کہ تم نے دوہائی دے کر بھی دیکھ لیا رو کر بھی دیک
یہاں پر میرے ہوتے ہوئے تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا کسی کی اتنی جرط نہیں کہ کوئی تمہیں میرے شکنجے سے لے اڑے میں نے اپنا دپٹرہ اس آدمی کے ہاتھ سے کھیچتے ہوئے کہا کہ خدا کے کہر سے ڈرو جہاں خدا ہوتا ہے وہاں تم جیسے لوگ بھی ڈم دبا کر بھاگ جاتے ہیں میری مدد میرا خدا کرے گا مجھے تم جیسے مٹی کے پتلوں سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں ہے یہ لوگ اپنا زمیر مار چکے ہیں
یہ لوگ نہیں جانور ہیں انہیں تو اپنی ماں بیٹی کی عزت بھی پیاری نہیں ان کے سامنے تو ان کی ماں بیٹیاں بھی ہوں تو یہ ایسے ہی ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے بیٹھے رہیں گے ان میں سے کوئی تنی جورت نہیں رکھتا جو چار قدم آگے بڑھ کر تمہارے کی اگے ظلم کا تمہیں جواب دے سکے لیکن میں اپنے اس رب سے ہلتجا کرتی ہوں میرا رب تمہیں تمہارے ظلم کا جواب ضرور دے گا میری بات سن کر پورا مجمہ کہکا لگا کر ہسنے
اور یہ ظالم صفت شخص جو مجھے جوے میں جیت چکا تھا تالی بجا کر میری باتتو کا مزاق اڑا رہا تھا میں زار و قتار رو رہی تھی میری بے بسی کا تماشا پورا بازار دیکھ رہا تھا دکھ مجھے اس بات کا نہیں تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا تھا دکھ تو اس بات کا تھا کہ یہاں پر کھڑا ہے انسان کسی کا باپ کسی کا بھائی کسی کا بیٹا تھا لیکن وہ ایک بہن بیٹی کی عزت کو وچانے کی امت نہیں رکھت
مجھے یہ بات اندر سے کھائے جا رہی تھی کہ ہوا کی بیٹی کی مدد کرنے کو ان نام کے مردو سے بھی کوئی تیار نہیں تھا یہ سوچتے ہوئے میری روح تک کام پری تھی کہ میری جگہ کل کو ان کی بیٹیاں بھی یہاں ایس حالت میں ہو سکتی ہیں لیکن یہ لوگ تب بھی ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے گے میری آنکھوں سے بے بسی کے آنسوں نکلنے لگے تھے میں زاروں کو تار روتے ہوئے آزمان کی طرف دیکھنے لگی میں اپنے پرودگار سے ال
اے میری پرودکار میری مدد فرما اے اللہ! تی دنیا کے بندے بہت ظالم ہیں مجھے ان کی ظلم کا شکار ہونے سے وچالے میرے مولا میں اسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پرودکار کی بارگا میں پھلائے ہوئے تھے کہ تبھی اس ظالم شخص نے میرے بال کھیچتے ہوئے مجھے اپنے قریب کھڑا کیا اور مجھ سے کہنے لگا بس! بہت ہو گئے تمہارا تماشا تمہاری مدد تو تمہارا خدا بھی نہیں کرنا چاہتا
اسی لیے تو کب سے تم اپنے خدا کو پکار رہی ہو لیکن ابھی تک تمہاری مدد کے لیے کوئی مسئیہ نہیں آیا تو پھر تم نے کیسے سوچ لیا کہ تم بچ جاؤگی؟ اتنا کہتے ہو زالم شخص نے میرے سر سے میری عزت کو کھینچ لیا تھا میرے سر سے میرا دوپٹا اتار دیا گیا میرا جسم مٹی ہو جگہ تھا میں کسی موضع کے ہونے کا انتظار کر رہی تھی میری آنکھوں سے لگتار آنسوں بہ رہت ہے میں دل میں اپنے رب کو مسلسل پکار رہی ت
میں عورت ذات تھے، ان کھٹیاں مردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھے اس لئے میں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے پروردگار کو دل کی گہرائیوں سے پکارنا شروع کیا جیسے ہی اس ظالم شخص نے بھرے بزار میں میرا دوبتہ کھیچا اور میری عزت پا محل کرنا چاہی تو اچانک سے ایک ایسا توفان وروا ہوا جو سب کو ساتھ ہدا کر لے گیا میرا نام سوفیا ہے میں کھاتے پیتے طبقے سے تعلق رکھتی ہوں
میری اپا چاولوں کا کاروبار کرتے تھے، کھر کا گزر بسر بہت اچھے سے ہوتا تھا میری امہ ایک کھری لو خاتون تھے امہ کھر کو سمحلنے کے ساتھ اپنے اکرت کے لوگوں کا بھی بے انتہا خیال رکھتی اپا نے اپنے کاروبار اپنے قریبی دوست کے ساتھ شروع کیا تھا میرے دادہ نے دو شادیوں کر رکھی تھے دادہ کی پہلی بیوی میں سے میرے اپا تھے جبکہ میرے دادہ کی دوسری بیوی میں سے اپا کا ایک سوتیلہ
چچا کی عادتیں عیاش مردو کے جیسی تھی چچا کا اٹھنا بیٹنا بھی کچھ اچھے لوگوں میں نہیں تھا چچا کے سب دوست عیاش اور جواری تھے چچا کو بھی جوے کی لطت لگ چکی تھی یہی وجہ تھی کہ ابا چچا پر اعتبار نہیں کرتے تھے اسی وجہ سے کاروبار سے ابا نے چچا کو ہمیشہ دور رکھا تھا مگر چچا اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے چچا ہمیشہ ابا سے لڑتے جھگرتے اور کہتے کہ اپنوں سے زیادہ آپ غیروں
اسی لیے تو کاروبار کی ساری بھاگ دوڑ اپنے اپنے قریبی دوست کو دے رکھی ہے جبکہ میں آپ کا اپنا خون ہوں آپ کو مجھ پر زرا برابر بھی فروسہ نہیں چچا سے ہمدردی کا اظہار اب با کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضح طور پر بیان کر دی تھے کہ تم خود کو ٹھیک کر لو مجھے تم سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے لیکن میں یہ کبھی نہیں کر سکتا کہ میں اپنے کاروبار کی بھاگ دوڑ تمہارے ہاتھ میں دے دوں اور تم سب کو جوے میں ہ
میں نے یہ سب کچھ بہت مہنٹ سے کمائے ہے اس میں میرے یا تمہارے اپا کا ایک روپیہ نہیں لکا یہ سب میری مہنٹ اور خون پسینے کی کمائی ہے میں کیسے اسے ان ہاتھوں میں سوم دوں جن ہاتھوں کو شراب جوے جیسے گلط کاموں کی عادت پڑھی ہوئی ہے چچا کو اپا کی باتیں تو بہت بری لگتے تھے لیکن نراز ہوتے ہوئے بھی چچا کبھی کھر چھوڑ کر نہیں جاتے تھے کیونکہ چچا یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگ
وہ دوست جو پیسے کی لالچ میں چچا کو اپنے پاس بٹھا لیا کرتے تھے وہی دوست چچا سے نفرت کرنے لگتے ہے اگر چچا اب با کا گھر چھوڑ کر چلے جاتا ہے یہی سوچتے ہوئے چچا ہمیشہ لڑ جگڑ کر واپس کھریا جایا کرتے تھے امہ کو چچا سے بہت خوف آتا تھا امہ شادی کے ایک سال بعد امید سے تھے اور کھر میں بلکل اکیلی ہوتی تو چچا اکسر کھر میں ہی موجود ہوتے امہ خوف صدا رہتی جس کی
ہمہ اب با سے کہتی کہ آپ تو کاروبار کے سلسلے میں اندر باہر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن آپ کا سوتیلا بھائی میرے سر پر سوار رہتا ہے مجھے اس کی نگاہیں کچھ ٹھیک نہیں لگتی اور نہ ہی آتے ہیں اچھی ہیں مجھے اس کے سہارے چھوڑ کر مد جائے کریں اسے بھی کسی کام دندے پر لگا دے ہیں تاکہ اس کا کھر سے نکلنا ممکن ہو سارا دن کھر میں پڑا رہتا ہے پہلے تو وہ کھر میں غلط کام نہیں کرتا تھا اب تو وہ
امہ ہمیشہ اب با سے اپنے خوف کا اظہار کرتی اور کہتی کہ کسی طرح اپنے بھائی کو بھی کام میں لگا دیں تاکہ میں کھل کر اپنے کھر میں سانس لے سکوں امہ کی حالت بھی ایسی تھی کہ اب با امہ کو انکار نہیں کر سکتے تھے تب ہی سوچتے سمجھتے اب با نے چچہ سے کہا کہ تم میرے ساتھ صبح آفیس جائے کرو تاکہ تمہیں بھی کاروبار کی سمجھ آ سکے چچہ اب با کے فیصلے سے بے ہاتھ خوش تھے کیونکہ چچہ کو تو ص
چچہ یہ سوچ کر اب با کے ساتھ آفیس جانے لگے کہ اساپ کتاب کا کام اب با انہیں دیں گے اور وہ جب جی چاہے جتنا چاہے اب با کی حلال کی کمائی کو اپنے حرام کے کاموں میں لٹا سکیں گے مگر اب با نے بھی سب سوچتے سمجھتے چچہ کو آفیس آنے کی دعوت دی اب با نے صرف امہ کی وجہ سے چچہ کو آفیس بلایا تھا آفیس کا چھوٹا موٹا کام اب با نے چچہ کے ذمہ لگا دیا اور یہ بات چچہ کو کتن برداش نہیں ہوا پاری
کیونکہ چچا تو بہت سے سوہانے خواب سوچ کر ابا کے آفیس میں گئے تھے چچا کی تو ساری لوٹنے کی پلاننگ تب دھری کی دھری رہ گئی جب ابا نے احساب کتاب کا کام چچا کی وجہ اپنے قریبی دوست کے ذمہ لگا دیا چچا سے یہ بات بالکل حظم نہیں ہوا پا رہی تھی چچا اندر اندر کڑتے سڑتے رہتے لیکن ابا سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کرتے نہ ہی کسی قسم کا کوئی گلا کرتے نظر آتے
ایک دن اچانک امہ کی طبیت خراب ہونے پر اب با امہ کو ہسپیٹل لے گئے اور امہ نے ایک بچی کو پیدا کیا جب میں نے اپنی ماں کی گود میں آنکھ کھولی تو میں اس بات سے انجان تھی کہ جس گھر میں میں پیدا ہوئی ہوں اس گھر کے لوگوں میں ایک بھیڑیا بھی انسانی لباس پہنے رہتا ہے میرے پیدا ہونے کی خوشی میرے اب با کو اس قدر تھی کہ میرے اب با نے افیس سے کچھ دن کی چھٹے لے رکھی تھی سارا حساب کتاب اور ا
ابا اس بات سے انجان تھے کہ جب وقت برا ہوتا ہے تو کوئی دو سجن کوئی رشتہ کام نہیں آتا میری پیدایش کی خوشی میں ابا نے ایک بہت بڑی پارٹی رکھی جس میں سب دو تپاسک رشتہ دار، دوست، اہباب اور جاننے والے شریق تھے ابا نے سب کے ساتھ میری خوشی منائے تھے سب مجھے دیکھ کر بھی انتہا خوش تھے وقت گزرتا گیا اور میں اپنے باپ کی محبت کے ساتھ پروان چر تی گئی میں بہت چھوٹی تھی
جب میرے چچا میرے پاس لڑیاں اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے مگر امہ مجھے ہمیشہ میری سوتے لے چچا سے دور ہی رکھتی تھی نجانے امہ کے دل و دماغ میں کیا خوف بیٹھ گیا تھا جو مجھے میرے چچا کے قریب تک نہیں جانے دیتی تھی ابہ اکسر امہ سے کہتے ہے کہ وہ اس کا چچا ہے اس کو اس پر پیار آتا ہے کبھی کبار اگر وہ تم سے مانگ لیتا ہے تو اسے انکار مد کرو لیکن امہ ابہ کو یہ کہ کر چپ کروات
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ اپنی بیٹی کو لے کر اس قدر لاپرواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں بہت چھوٹی تھی اس پی مجھے امہ اور ابا کی بحث کی کبھی سمجھ نہیں آتے تھے جب میں نے سکول جانا شروع کیا تو مجھے لانے لے جانے کا ذمہ ابا نے چچا کو سوم دیا تھا امہ اس بات کی وجہ سے بھی ہمیشہ فکر میں رہتی جب میں سکول سے گھر واپس آدھی تو امہ مجھے ترہ ترہ کے سوال کرتی مجھے اس وقت امہ کی کسی سوال کی س
تو کبھی ایک بار میں چر جاتی اور کہتی کہ آپ یہ کس طرح کے سوال مجھ سے کرتی ہیں؟ کہاں گئی تھی؟ چچہ کب لے کر آئے تھے؟ چچہ کہاں لے کر گئے تھے؟ اس قسم کے کئی سوال میرے لی اممانے کھر میں تیار کر رکھے ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ جب مجھے سمجھ آنے لگی تو میں اممہ سے ان کے سوالوں کے جواب میں ایک سوال کرتی تھی کہ آپ ہمیشہ مجھ سے روزانہ ایک ہی بات پوچھتی چلی آتی ہیں؟ میں آپ کو ایک ہی جواب
پھر بھی نہ جانے آپ کو کس قسم کی پریشانی جو اندر اندر کھائے جا رہی ہے میں اب اٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی پڑھنے کا مجھے اس قدر شوق تھا کہ میں نے کبھی اپنی کلاس میں کم نمبر حاصل نہیں کیا تھا میں امیشہ اپنی کلاس میں اول نمبر پر رہنے والی سٹوڈنٹ تھی میری کامیابی پر ہر بندہ ہی خوش ہوتا وقت گزرتا گیا میں اپنے معاباب کے ساتھ بے ہاتھ خوش تھی اور خوشکوار زندگی گزار رہی تھی
میرے لئے آزمائش کی کھڑیاں شروع ہونے والی ہیں اور کسی کی بری نظر ہمارے کھر کی ساری خوشیاں نگل جائے گی گھر واپس آتے ہوئے اب با کا ایک بہت برا اکسیڈنٹ ہوا اور اب با زقموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیا سے رکھست ہو گئے ہمارے کھر پر تو جیسے گموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا امہ تو اپنی صدبت کھو بیٹھی تھی امہ سے یہ صدمہ برداش نہیں ہو رہا تھا اتنا بڑا صدمہ امہ
اب با کی تدوین کے بعد سے لیکر دو سال تک امہ اپنے ہوشہواز میں نہیں آئے تھے اب با نے جس دوست کے ساتھ کاروبار شروع کیا تھا اس کا دل بے ایمان ہو گیا تھا اس دوست نے اب با کی موت کے بعد کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا کبھی ہی ہمارے گھر میں اب با کے اس دوست نے خرشہ نہیں بھیجا اب با کے اسے میں آتی جتنی کمائی ہوتی وہ ہمیں کبھی نہیں ملے تھے میری بھی عمر ابھی اتنی نہیں تھی کہ میں کسی کے ساتھ حساب کتاب کر پاتی موالداروں نے جب
اور وہ اس بات سے مغر گیا کہ کاروبار میں میرے اپا کا بھی کوئی حصہ تھا اس نے صاف الفاظ میں مولی والوں کو یہ ثابت کر دیا کہ اپا کا اس کاروبار میں ایک روپیا بھی نہیں لگا ہوا جوٹے ڈاکیومیٹز بنوانے کے بعد اپا کے اس دوست نے انسانیت سے میرا بھروسہ ہی اٹھوہ دیا مجھے اپنی ماں کے علاج کے لئے پیسو کی عشد ضرورت تھی میں جب بھی اپا کے اس قریبی دوست کے پاس اپنی امامی علاج کے لئے کچھ پیسے مانگنے کے لئے ج
اور کہا کہ تمہارا باپ تو یہاں پہ چوکیداری کرتا تھا اس کی تو اس کاروبار میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے اور تم مو اٹھا کر اپنی ماہ کے علاج کے لیے پیسے لے نیچلی آئی میرے ساتھ چچا بھی تھے چچا اور ابا کے دوست کی خوب بلڑائی ہوئی چچا بھی ابا کا حیثہ آتھیانہ چاہتے تھے اور وہ آدمی بھی بے ہیمان ہو چکا تھا دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے تو آخرکار جیت ابا کے اس مکار دوست کی ہو
اس کے پاس جالی سب کاغذات موجود تھے جن پر ابا کے دستخد تک نظر آ رہے تھے پولیس کا معاملہ بننے کے بعد سارا کاروبار پولیس نے ابا کے اس دوست کے حوالے کر دیا یہاں تک کہ جس کھر میں ہم لوگ رہتے تھے وہ کھر بھی اسی آدمی کے قبضے میں چلا گیا کیونکہ اس کے مطابق ابا نے اسے بھاری رقم ادھار پر لے رکھے تھے اور کھر اس کے پاس گروی رکھوا دیا تھا اس بےعمان آدمی کی وجہ سے ہم لوگ کھر سے بیکر ہو گئے تھے چچ
کیونکہ چچا کو اب با کی کمائی میں سے ایک روپیا بھی اس سے میں نہیں آیا تھا اسی وجہ سے چچا بھی ہم لوگوں سے بے ذار ہونے لگے تھے میری نانی مرنے سے پہلے اپنا کھر اپنی اقلوطی بیٹی یعنی میری امہا کے نام کر گئی تھے امہا کی حالت کچھ سنبلی تھی تو امہا نے مجھے نانی کے کھر میں لے جانے کا فیصلہ کیا امہا چچا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی امہا جب بھی چچا کو دیکھتی تو آپے سے باہر ہو جات
جب جب امہ کی طبعت سمبھلتی تو امہ مجھے چچا سے دور رہنے کی تاکیت کرتی اور کہتی کہ اس جواری بےیمان انسان کے ساتھ زیادہ بات چیت مطہ کرو اور اسے اپنے گھر میں بھی داخل مطہ ہونے دیا کرو اب میں کچھ سمجھ دار سی ہو گئی تھی میں نے امہ کو سمجھایا کہ ہمارا تو پہلے ہی کوئی نہیں ہے اگر ہم چچا کے ساتھ بھی بگار لیں گے تو ہم کہیں کہ نہیں رہیں گے دنیا تو لوٹنے لٹانے پر طل
تب ہی میرے کہنے پر امہ نے چچا کو ہر میں رہنے کی جازت دیتی لیکن یہ جازت صرف اس شرط پر دیتی کہ چچا کوئی بھی غلط کام گھر پر نہیں کریں گے ہوئی چچا کی شادی جلدس جلد کر دی جائے گی تاکہ ہر میں ایک اور عورت کے آجانے سے چچا کی نظر اور نیت دونوں ہی سافسو تھری رہیں امہ نے چچا کا رشتہ پاس کے گاؤں میں تح کر دیا تھا سادگی کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے امہ اپنی دیورانی کو اپنے
اب امہ کو چچہ کو اپنے پاس رکھنے میں کوئی اطراح نہیں تھا بس امہ چچہ سے کہتے تھے اب کوئی بھی غلط حرکت کھر پر مٹ کرنا جو کام بھی کرنا ہے جو معاملاتیں وہ کھر سے باہر رکھنا میری چچی بہت اچھی تھی وہ مجھ سے بے ہاتھ پیار کرتی اور امہ کی بھی بے انتہا خدمت کرتی نجانے وہ اللہ کی نیک بندی امہ کو کہاں سے مل گئی تھی امہ اکثر اس سے ہاتھ جوڑ کر مافی مانگتی اور کہتی کہ مجھے ماف کر د
میرے تم جیسی نیک عرط کو اپنے بکار دیور کے ساتھ بیا دیا اور تمہیں بھی اپنے مشکل وقت کا حصدار بنا دیا میری چچی ہمیشہ امہ سے کہتی تھی کہ آپ پریشان ماتو یہ تو سبکسمت کا لکھا تھا وہ ہی ہوتا ہے جو منظور ہے خدا ہوتا ہے ہم انسان تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہے پھر بھی امہ کو اپنے فیصلے پر ہمیشہ ملال رہا میری اپنی چچی کے ساتھ اٹیچمنٹ بہت اچھے تھے شادی کے پہلے سال ہی
چچی نے دو جڑوام بیٹیوں کو پیدا کھیا ہمارے گھر میں دیکھتے دیکھتے رونک بڑھتی چلی گئی تھی ایک دن اچھانک کافی دن چڑھ گیا تھا لیکن امام تک نہیں آئی تھی تب ہی چچی نے مجھ سے کہا کہ جاؤ دیکھو بھابی اب تک کیوں نہیں اٹھیں حالانکہ وہ ہم سب سے پہلے اٹھا جاتی ہیں لیکن آج تو دوپیر کے بارم بجنے والے اور بھابی اب تک اپنے کمبرے سے پہنے آئی مجھے بھی پریشانہ ہون
مگر آج تو دوپہر چڑھ گئی تھی اور امہ کا کوئی اطا پتہ نہیں تھا جیسے ہی میں امہ کی خبر گیری کرنے کے لئے ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے امہ کو بستر سے نیچے گرہ پایا میری چیخیں نکل گئی تھی چچی دور توی امہ کے کمرے میں چلی آئی حیران پریشان ہو گئی وہ بھی اور مل کر ہم نے امہ کو بستر پر سیدھا کیا ڈاکٹر کو بلانے پر پتہ چلا کہ امہ تو پچھلے چھے کھانٹے سے ہ
میرے اوپر ایک بار پھر سے گمو کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا ایک بار پھر سے ہمارے گھر میں کوہرام مچ گیا تھا میں اپنی ما کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی تھی میں اپنی ما کے بغیر جینے کا تصور بھی کرتی تو میری روح کھانچاتی اللہ نے پھر سے مجھے ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا چچی میرے آنسو صاف کرتی اور مجھے بے انتہا محبت دے تھے مگر مجھے پھر بھی امہ کی یاد ہمیشہ ستاتی
امہ کی تدفین کے بعد ایک دم سے چچہ نے اپنے تیور ہی بدل لیا تھا چچہ چچی کو بہت مارتے پیرتے اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہوتا ہمارے پاس ہوتا وہ چین کر لے جاتے اور جوے میں ہار دیتے یہاں تک کہ گھر کا راشن تک چچہ جوے میں ہار آتے تھے چچہ کے جوے کی لطت اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ اب مجھے اور چچی سے یہ سب کچھ برداش نہیں ہوتا تھا ننی دو بیٹیاں بھی تھیں سارا دن فاکو میں گزر ج
چچی اور میں چچا سے چوری چوری کام کرتی اور جو پیسے ملتے اس کا کھانا بھی نہ کر لیتی چچا کو یہ بات بھی حظم نہیں ہوتی تھی چچا تب بھی ہمیں مار مار کر ہم سے پیسے چھین لیا کرتے چچا کے ظلموں سے تم دن بدن بڑھتے جا رہے تھے ہم لوک چچا کی ان حرکتوں کی وجہ سے بے ہاتھ پریشان تھے ایک دن چچی روری تھی اور مجھ سے کہنے لگی کہ تمہاری ماہ امیشہ مجھ سے مافی مانگا کرتی تھی اور میں امیشہ سو
آج مجھے اس بات کا بہت اچھے سے اندازہ ہو گیا ہے کہ آخر بھابی ہمیشہ مجھ سے مافی کیوں مانگا کرتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ تمہارے چچا میں کون کون سی بری عادت تھے اس لئے وہ ہر وقت مجھ سے مافی مانگا کرتی تھی چچی ہمیشہ امامہ کو یاد کر کے رو پڑتی اور کہتی کہ میں نے تمہیں ماف کیا اللہ تعالیٰ بھی تمہاری اسانیاں کرے وقت ایسے ہی گزرتا گیا اور میں جوان ہو گئی میں بے ہت خوبصورت تھی
میرے چچا جو کہ بچپن سے ہی مجھ سے بہت پیار کرتے دکھائے دیتے ان کی تیور بھی مجھے دیکھتے ہوئے اچانک سے بدلنے لگے تھے چچی مجھے ہمیشہ چچا سے دور رہنے کا کہتی تھی مجھے اپنی امہ کی یاد آتی کہ امہ ابھی بھی مجھے چچا کے قریب نہیں جانے دیا کرتی تھی تب ہی میں نے چچا سے دوری اختیار کرتے ہوئے خود کو بہت سمجھایا کہ امہ اور چچی ٹھیک ہی کہتی ہیں چچا کی ہر عادت ب
کبھی کبھی تو چچا کا رویہ مجھے بہت ہی بدلا دکھائی دیتا تو کبھی کبھی چچا ظلموں سے تمکے انتہا کر دیا کرتے چچا چچی کو پیٹنے کے ساتھ اپنی دونوں بیٹیوں پر بھی ہاتھ اٹھا تھے اور کبھی کبھی مجھ پر بھی اپنے ہاتھ کی صفائی کر لیا کرتے چچا کی مار کھانے کے بعد مجھے اپنے امامابا کی بےہدیات ستاتی اور میں پھوٹ پھوٹ کر راؤنے لگتی اللہ سے دعا کرتی کہ میرے اوپر ای
وقت کے ساتھ ہم لوگوں کو سمجھ آ گئی تھی لیکن چچہ اب تک نہیں سمجھتے تھے جیسے جیسے چچہ کی عمر ہوتی جاری تھی ویسے ویسے چچہ کی شوک اور زیادہ خطرناک ہوتے جارے تھے اب تو چچہ بڑے بڑے جواریوں کے ساتھ جوہ کھیلتے اور جب جوہ ہار جاتے اور کھر کا کوئی سمان تک نہیں ہوتا تو چچہ بیچ کر اپنا کرزہ نہ اتارتے کھر کی ایک ایک چیز چچہ نے بیش دی تھی اب صرف ہم اورتے ہی گھ
چچی کی بیٹھییں بھی جوان ہو گئی تھیں لیکن بہو بہو اپنے باپ کی قابی تھیں آدھتن اور شکلن دونوں صورتوں میں اپنے باپر چلی گئی تھیں دونوں بیٹھیوں میں سے ایک بھی بیٹھی چچی کے ساتھ پیار محبت سے پیش نہیں آتے چچی کے ساتھ بے انتہا بطتمیزی سے پیش آتی چچی زار و قدر روتی اور اپنے دکھ میرے ساتھ بانٹ لیتے چچی کی دونوں بیٹھیوں سے یہ بات ورداش نہیں ہوتی تھی کہ چچی میرے سات
وہ چچہ کو شکایت لگا کر امیشہ چچی کی بھیزدتی کرواتی اور پھر خوب مزیلیتی کھر کے علاوہ بہت برے چل رہے تھے کھانے پینے کو کھر میں کچھ نہیں ہوتا گھر میں فاکو کی نوبت آجگی تھی اب تو ہمیں محلے والے بھی کھانے کو کچھ نہیں دیتے تھے کیونکہ سب جانتے تھے کہ چچہ ایک بہت بڑے جواری ہیں کوئی بھی ڈرتے مارتے ہمارے کھر میں قدم نہیں رکھتا تھا کیونکہ چچہ بھی اپن
چچی مجھ سے کہنے لگی کہ آج ہمارا باہر جانے کا پروگرام ہے تم بھی کام جلدی سے کر کے واپس آ جانا ہم سب مل کر باہر کسی پارک میں سیر کے لیے جائیں گے میرا کام پر آج پہلہ دن تھا میں بہت خوش تھی کافی عرصے بعد ہی ہمارے گھر میں کچھ اچھا پروگرام بنا تھا جب سے مکی وفاعت ہوئی تھی میں تو ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھا سکی تھی تو باہر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا میں نے چچ
میں آج سے کام پر جلدی واپس آ جاؤں گی آپ لوگ بھی تیار رہنا چچی مجھے حسرت بھرے نگاہوں سے دیکھ رہی تھی مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے چچی مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی ہو ایکن چچی کے دونوں بیٹھییں چچی کے اتکد مرلاتی نظر آ رہے تھے اس لئے چچی خاموش سی ہو گئی مجھے چچی کا چہرا کچھ پریشان سا دکھائی دے رہا تھا لیکن اچانک سے چچی کے چہرے پر جب خوش
کہ شاید چچی چچا کو لے کر پریشان ہے جب میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو چچی نے بتایا کہ میں کسی بھی وجہ سے پریشان نہیں ہوں بس حیران ہو کہ آج تمہارے چچا ہم پر اتنے محربان کیسے ہو گئے محران چچی کا چہرہ دیکھ رہی تھی تب چچی نے مجھے بتایا کہ آج پارک میں لے جانے کا فیصلہ تمہارے چچا کا ہے پہلے وہ ہمیں پارک میں گھومائیں گے اور پھر بعد میں کھانا کھلانے کے ساتھ دھیر ساری شوپنگ بھی کر
یہ ساری باتیں سن کر میں پریشان ہو گئی تھی کیونکہ مجھے کچھ صحیح اور ٹھیک نہیں لگ رہا تھا میں نے چچی سے کہا کہ چچی دیکھ لیں آپ کو چچا کی عادت کا تو پتہ ہی ہے دو روٹی کے نوالے کھلانے کے بعد وہ ہمارے اچھی مارک اٹائی کرتے ہیں اور سارا کھائے پیا نکار لیتے ہیں میری بات سنتے ہوئے چچی خاموش ہو گئی اس سے پہلے کہ وہ مجھے کچھ کہتی چچی کے دونوں بیٹیاں ان کے پاس آکھر کھڑی ہو گئی
میں نے کہا کہ آج میرا پہلا دن میں مجھے کھوٹھی میں کام کرنے کو مل گئے ہے اس لئے آج میں دیر سے نہیں جانا چاہتی چچھی نے میرے سر پر پیار دیتے ہوئے مجھے دعائیں دیتی ہے کھر سے رکست کیا میں اپنے کام پر جا رہی تھی چچھی کا ماسوم چہرا میری آنکھوں سے دوری نہیں ہو رہا تھا میں اس کھر میں پانچ گئی جہاں مجھے کام کرنا تھا میں نے اپنے کپڑوں کا شوپر کھولا اپنے کپڑیں تبدیل کرنے ل
اور پھر میں اپنے یہی کپڑے پہن کر پارک میں گھومنے چلی جاؤں گی تبھی مجھے شوپر میں سے ایک پرچی دکھائی دی جس پر میں نے جیسے ہی وہ سفیت کاغس کھولا تو اس پر لکھا ہوا تھا کہ اگر کام کرتے دیر ہو گئی تو تم اپنے چچا کے ساتھ پارک میں چلی جانا کیونکہ ہم لوگ ٹائم سے نکل جائیں گے میں نے پرچی پڑی تو مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لیکن تبھی میرے کانوں میں میری مالکین کی
آج مجھے کچھ زیادہ کام نہیں ملا تھا اس لئے جلدھی فارغ ہو گئی تھی جیسے ہی کام سے فارغ ہوئی میں نے اپنی مالکن سے اجازت لیتے ہوئے کھر کا رکھ کیا میں نے جلدھی سے کپرے تبدیل کی اور کھر جانے لگی جیسے ہی کھر پانچ ہی تو تالے لگا تھا تالے دیکھ کر حیران پریشان ہو گئی کہ اتنے میں دور سے چچا اپنی طرف آدھے دکھائے دیئے چچا مسکرارہے تھے اور مجھ سے کہنے
چچا کے پاس موٹر بائیک تھے میں عران ہوتے چچا کے جہرے کی طرف دیکھتی اور کبھی موٹر بائیک کی طرف دیکھتی چچا نے مجھے بتایا تھا کہ یہ موٹر سائکل میرے ایک دوست کی ہے تم لوگوں کو پارک پر چھوڑنے کیلئے ادھار لئی ہے ابھی تم لوگوں کو پارک پر چھوڑ کر یہ بائیک واپس کروں گا میں اٹکر دیکھنے لگی اور چچا سے کہا کہ چچا پارک کا پروگرام کیسے بن گیا چچا نے مزکوراتے میرے سر پر پیار
چچہ مجھے بائیک پر بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے راستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا میں پوچھ رہی تھی کہ چچہ پارک کتنی دور رہ گیا ہے چچی کہاں پر ہیں؟ چچہ مستلسل کہتے رہے کہ دو منٹ اور ہم پانچنے بارے پر چچہ کے دو منٹ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے پھر اچانک چچہ مجھے ایک بہت بڑے بازار میں لے گئے وہ بازار باقی بازاروں سے علاق تھا ایسے لگتا تھ
میں اپنے ایک اید کیر اجیب و غریب قسم کا لباس پہنے اورتو کو دیکھ کر کھبرا گئی میں نے چچا سے کہا کہ یہ آپ کہاں لے کر آئے مجھے مجھے جگہ ٹھیک نہیں لگ رہی چچا نے مجھے بائیک سے اتارتے ہوئے کہا کہ پارک ہی لے آیا ہوں یہ تھوڑے سی جگہ کراس کرنے کے بعد آگے پارک ہے چچا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ لے جانے لگے میں نے ہاتھ چھوڑانے کی کوشش کی تو چچا نے مضبوطی سے تھام لیا اور
میں بہت اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ ڈال میں کچھ کال ہے چچا کی نیت میں کورت تھا چچا تبھی اسی قسم کا روائیہ اختیار کیے تھے تبھی چچا نے زور در دھکا دیتے ہوئے بھرے بزار میں پھنکھا وہاں ایٹ گرد مردوں کا اجوم تھا تبھی میں ایک جگہ جا کر گری جہاں لمبا چوڑا بڑی موچوں والا آدمی تھا میں اس کے قدموں میں گری اس نے میرے بالوں سے کھنچتے ہوئے مجھے قریب کھڑا کیا اور چچا سے
اس کا اتنا کہنا تھا کہ میری روح کھانپ ہوتے میں چیکھنے لگی اور چچی کو آواز دینے لگی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی چچا مجھے اس بات کا جب علم ہوا کہ جوے میں ہار گئے میں نے روت ہوئے چچا کے چہرے پر نظر ڈالی تو ان کے چہرے پر سنسنی خیز مسکرہ ہیٹ دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا پر میں نے ہمت نہیں آرہی میری نگاہیں چچی کو ڈھون رہے تھے دل میں سوچنے لگی کہ چچی تو ا
پھر میرے دل میں خیال آیا کہ چچی ایسی نہیں ہے ضرور چچا نے ان کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا ہوگا میری آکو کے سامنے چچی کا پریشان چہرہ بار بار آنے لگا تبھی اس آدمی نے مجھے اپنی طرف کھیچتے ہوئے چچا سے کہا تم آج سے میرے اسعاف کتاب میں فارغ ہو مجھے میری رقم وصول ہو گئی ہے تمہیں میرا کوئی واصطہ نہیں ہے چچا مزکراتے اس آدمی کو کہنے لگے کہ میں نے تمہاری رقم سے زیادہ مہنگی چیز دی ہے
اس لئے اس کا دام اتنا نہیں جتنا میں نے جوے میں ہارا تھا اس کا دام تو کوئی دل والا ہی لگا سکتا ہے اس آدمی نے میرے چہرے سے نکاہ بٹایا اور دیکھ کر عیران رہ گیا تبھی چچا سے کہا کہ بات تو تمہاری سچ ہے تم نے تو واقعی میرے دام سے کہیں زیادہ مہنگا کوہی نور کا ہیرا تھما دیا ہے اس کے دام تو بنتے ہیں بولو کیا قیمت چاہیے تمہیں اس ہیرے کی اس کی بات سنتے ہوئے چچا کے چہرے پر مسکرہ ہٹائی تبھی چچ
کہ جو دعم آپ کے نزدیک اس کے چہرے کے ہیں وہ دعم ادا کرو تاکہ میں جانے والا بنوں اس آدمی نے میرے سر سے نوٹوں کی گٹیوں وارتے چچا کے مو پر ماری چچا سے کہنے لگا کس قدر گھٹیا انسان ہو جو اپنے بھائی کی بیٹی کو میرے ہاتھوں بیجھ کر اس کا دُگنا دعم وصول کر کے جارہے ہو چچا مسکراتے ہوئے اس سے کہنے لگائے میرا تو کام ہی یہی ہے پھر کیسا بھائی؟ میں اس کا بھائی نہیں ہوں وہ میرا سوتیلا بھائی
مجھے تو پیسوں سے مطلب تھا یہ کہتے چچا مجھے اس مجمے میں چھوڑ کر جانے لگے میں چیخنے چلانے لگی تبھی اس آدمی نے میرا ہاتھ مزبوطی سے پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے چیختے ہوئے اسے کہا کہ ہاتھ مطلقانا چھونا مات مجھے خبر دار اگر میرے قریب آئے تو میرکت کھڑے ہیر مرد سے التجاہ کرنے لگی خود دارہ مجھے اس بےہیس انسان سے وچاؤ
اور ہر مرد انسانیت کے نام پر بہت گندا ڈھبا تھا سب لوگ میری بیویسی کا تماشا دیکھ رہے تھے لیکن آگے بڑھ کر کوئی تنی امت نہیں کر رہا تھا کہ اُس ظالم سے مجھے بچا سکے جیسے ہی وہ ظالم میرے قریب آیا اور کہنے لگا کہ یہاں کھڑے کسی انسان کی امت نہیں کہ تمہیں بچا سکے پھر کیوں یہاں آسو بھا رہی ہو؟ ہار مان لو میرے ساتھ چلو میں نے اس کا ہاتھ جٹکتے ہوئے کہا کہ میں جس
میری بات سمتے ہوئے وہ آدمی مسکر آیا اور کہنے لگا بڑا یقین ہے تمہیں اپنے رب پر پھر کہو اپنے رب سے کہ آج تر عزت کو میرے ہاتھوں سے محفوظ کرے وہ مجھے دھمکی دی رہا تھا میں نے روتے ہوئے چچا کی بہت مننت ہے کہ التجا کی کہ مجھے یہاں چھوڑ کر مچ جاؤ لیکن چچا نے مجھے دھکا دیتے ہوئے جو الفاز بولے وہ سن کر میرا دل پھٹنے کو تھا چچا مجھے کہنے لگے بچپن
تمہیں میرے سر ٹھومپ گئے تمہارے باپ نے ساری جائداد غیروں کے ہاتھوں میں لٹا دی مجھے ایک پھوٹی گوڑی تک نہیں دی میں کیوں تمہاری مدد کروں تمہارا باپ اور ماہ تو میرے کسی کام نہیں آسکے تمہیں استعمال کر کے اپنی زندگی اسان کروں گا میں یہ کہتے چچا مجھے ٹھوک کر لگا کر چلے گئے میں روتی شلاتی رہی لیکن مدد کے لئے کوئی نہیں آیا تبھی میں نے اثمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا
میرے اوپر ظلم ہوتا دیکھتے سب خاموش ہے کوئی بھی تیری رضا کے خاطر اپنے قدم آگے نہیں وڑھا رہا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اے پرورتکار مجھے ظالم شخص سے بچا جیسے ہی اس آدمی نے دپٹہ کھیجا تو تیز دوفان نے پورے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہر چیز دھول مٹی سے ڈھکنے لگی تھی ایک فٹ پر کھڑا انسان دکھائی نہیں دی رہا تھا دوفان اس قدر خطرناک تھا جو
آسمانی توفان کے ساتھ زمینی زلزلے نے بھی علاقے کو لذت میں لے لیا ہر چیز زور و شور سے ہلنے لگی چند سیکنٹ کے لیے توفان ایسے رہا اور اس کے بعد سب تھم گیا ایسے لگا جیسے زندگی سکون میں آگئی ہو تبھی میرے سامنے خوبصورت نوجوان کھڑا ہوا اسے دیکھ کر میں حران رہ گئی اس کو اپنے قریب آتے مجھے جیب سا حساس ہوا ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ میرے اندر کوئی مکنا تیسی
میرے سامنے کھڑے نوجوان لڑکے نے اسے زوردار تمچہ مارتے ہوئے کہا جس عمر میں تمہیں بہن بیٹیوں کی عزت کرنی جائیے اس عمر میں تمہیں بہن بیٹیوں کی بولی لگاتے پھر رہے ہو وہ آدمی اکرتا وہ اس نوجوان کے قریب آیا اور اس کا گیربان پکڑتے ہوئے اسے کہنے لگا تُو کون ہوتا ہے مجھ سے یہ سب کہنے والا جسے چاہوں آت لگا سکتا ہوں جسے چاہوں حاصل کر سکتا ہوں میرے اور اس کے بیچ
وہ آدمی اس لڑکے کو دیکھ کر خوف صدا ہو گیا نا جانے اس نے اس لڑکے سے ایسا کیا دیکھا تھا کہ جیخیں مارتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا نہ صرف وہ آدمی بلکہ جو آدمی اس بھرے بزار میں کھڑا تھا اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا وہ آدمی بھی وہاں سے جیخیں مارتا ہوا بھاگنے لگا میری طرف لڑکے کی پشت تھے میں اس کا جہرا نہیں دیکھ پاری تھی میں نے بہت کوشش کی کہ میری نظر اس کے چہرے پر پڑے اور میں
اس کی چہرے پر ایسا کیا دیکھ رہے ہیں کہ سب لوگ اس کے ڈر سے بھاگتی چلے جا رہے ہیں کچھ دیر میں نے کوشش کی کہ میں اس نوجوان لڑکے کا چہرہ دیکھ سکوں لیکن مجھے اس کا چہرہ بلکل بھی دکھائی نہیں دی رہا تھا میری لاک کوشش کرنے کے باوجود بھی جب مجھے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیا تو میں نے اس کے سامنے جانے کی حمد کی جیسے ہی اس کے سامنے گئی تو اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے میں خود بھی بہوش ہو کر گر گ
میرے سامنے وہ نوجوان لڑکا بیٹھا مسکر آرہا تھا جیسے ہی میں ہوش میں آئی تو میں خوفزدہ اُنہیں رکھی میں نے حیران ہوتے ہوئے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تب ہی اس نے مجھے کہا کہ میں ایک جن زادہ ہوں اور تمہاری پکار پر بھیجا گیا ہوں تمہارے ساتھ جو ظلم ہو رہا تھا اُس ظلم کو روکنے کے لیے مجھے آنا پڑا اس لئے مجھ سے خوفزدہ ہو کر یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایک
میرا تعلق نیک جنات کے کمبے سے ہے تمہاری طرح اور بھی بہت سے مجبور اور بے بس لوگوں کی میں مدد کرتا چلا رہا ہوں مجھے کئی سال ہو گئے اس ڈیوٹی پر فائز ہوئے اس وقت میرا گزر اس بازار سے ہو رہا تھا جب میں نے تمہیں روتے بلکتے اور التجاہ کرتے دیکھا میں وہیں رکھ کر تمہیں مسلسل دیکھ رہا اور تمہاری باتیں سن رہا تھا تم سے زیادہ مجھے اور کوئی ضروری کام نہیں لگا
اس وقت مجھے تمہیں بچانا سب سے ضروری لگ رہا تھا یہی وجہ تھی کہ میں نے وہاں پر کھڑے ہر مرد کی آنکھیں اپنے اصلی روپ میں آنے کے بعد کھول دیتھی جن زیادہ جیسے جیسے مجھے اپنی باتیں سنارا تھا میں ویسے ویسے خوف صدا ہوتی جا رہی تھی لیکن کچھ دیر کا خوف مجھ پر تاری رہا اس کے بعد میں نورمل سی ہو گئی تھی کیونکہ جو خوف میں نے اپنی آنکھوں سے اور اپنے پر برداش کیا تھا
میں نے اس کا شکریہ دا کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم تھے تو شاید میں آج کتھ سے نظریں نہیں ملا پاتے۔ میں رونے لگی تھی۔ اس نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو میں نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کیسے اور کب پیش آیا۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم اس وقت مسیبت میں تھی اور میرا فرش تھا کہ تمہیں اس مسیبت سے نکالوں۔ اب تم بتاؤ تمہیں کہاں جانا ہے؟ میں نے کھبراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ
میرا تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے میں کہاں جاؤں گی؟ تبھی اس نے میرے قریب آ کر میرے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا کہ پھر تم میرے پاس میرے ہی کھر میں رکھ سکتی ہو میری بھی برسوں سے خواہش تھی کہ میری کوئی بہن ہوتی لیکن میری کوئی بہن نہیں ہے اور ویسے بھی میں نے اپنے وطن واپس نہیں جانا میرا کام اسی دنیا میں رہ کر لوگوں کی مدد کرنا ہے تم اور میں مل کر خدمتیں خل کریں گے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھائی سے تو
آج رزا کی شکل میں مجھے ایک بھائی اطا کر دیا تھا میں اب رزا بھائی کے ساتھ رہنے لگی تھی رزا بھائی ساری رات گلیوں میں گشت کرتے اور غریب اور لاچار لوگوں کی خبرگیری رکھتے اور پھر ان کی مدد کرتے ایسے ہی ایک دن رزا بھائی کھر آئے تو ان کے ساتھ ایک بہت خستہاال کپڑے پہنے ایک عورت تھی عورت کے کپڑے جگہ جگہ سے پھجے ہوئے تھے رزا بھائی اسے کھر کے اندر لے کر داخل
میں اس عورت کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی عورت کا چہرہ کالے رنگ کی چادر سے ڈھکا ہوا تھا تب ہی میں نے رزا بھائی سے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے اور اسے یہاں کس لئے لائیا گیا ہے رزا بھائی نے مجھ سے کہا کہ یہ بے سہارہ اور لاچار عورت ہے آج گاڑی کے نیچے آتا آتے بچی ہے اگر میں اس وقت وہاں پر موجود نہ ہوتا تو یہ عورت گاڑی کے نیچے آکر مر جاتے یا تو پھر بھوک اور پیاس اس کی
جلدی سے اس عورت کا مو ہاتھ دلوائو اور اس کو کھانے کے لئے کچھ دو میں اس کے کپڑوں کا انتظام کرتا ہوں میں نے اس عورت کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے اپنے ساتھ اندر لے جانا جاہا جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ تھاما تو مجھے وہ ہاتھ جانا پہ جانا سا لگا مجھے اس پر بہت ترس آنے لگا اس لئے میں نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹا تے ہوئے جیسے ہی اس کا چہرہ دیکھا تو میرے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک
میں چچی کو دیکھ کر چیختے ہوئے ان کے گلے لگ کر راونے لگی چچی نے بھی مجھے پہچان لیا تھا اور میرے ساتھ لگ کر زار و قطع راونے لگی اور مجھ سے کہنے لگی میری بچی، تو ٹھیک تو ہے؟ تب ہی میں نے چچی سے پوچھا کہ آپ نے تو چچا کا ساتھ دے کر مجھے خدم کرنے کا پلان بنار لیا تھا چچی نے روتے ہوئے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور مجھ سے کہا کہ مجھے اس پلان کا حصہ مات بناو یہ پلان تمہارے چچا اور می
میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی چچی کی حالت بتا رہی تھی کہ چچی نے کبھی بھی چچا کے گندے رادوں میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اس لئے چچی ہاتھ جوڑ کر مجھ سے مافی مانگنے لگی میں نے فوراً سے چچی کو ماف کرتے ہوئے کہا کہ اس میں آپ کا کیا قزور وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے رضا سے ملوا دیا میں نے چچی کو بتایا کہ رضا میرا بھائی بن گیا ہے چچی بھی ہمارے ساتھ اسی کھر میں رہنے لگی
میں نے اپنے ظالم چچا اور اس کی بیٹیوں کو دنیا میں ہی سزا بکتے دیکھا تھا رضا بھائی نے بھائی ہونے کا فرض ادا کیا چچی کو سہارا دیا اور میرا ایک اچھا رشتہ دیکھتے ہوئے مجھے با عزت ہر سے رکست کر دیا آج میں اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی کشی زندگی گزار رہی ہوں اور ہر نماز میں اپنے بھائی رضا کے لئے دعا کرتے ہو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہو جس نے مجھے رضا جیسے بھائی سے ن
What's Your Reaction?