کنواری ملیکہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا واقعہ

Kanwari Malika Aur Sultan Salahuddin Ayyubi ka Waqia

Oct 13, 2024 - 16:03
Oct 13, 2024 - 16:21
 0  5
کنواری ملیکہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا واقعہ
Kanwari Malika Aur Sultan Salahuddin Ayyubi ka Waqia

کنواری ملیکہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا واقعہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام علیکم کماری ملکہ سے شادی کے کئی خواہش مند حضرات دربار میں پہنچ چکے تھیں لیکن ابھی تک کوئی بھی مرد ہودیوں کی ملکہ کی شد پر پورا نہیں اترا تھا جو بھی خواہش مند مرد دربار میں شادی کی خواہش دے کر آتا تو اسے دربار کے ساتھ ہی منسلک کمرے میں بیج دیا جاتا کماری ملکہ بھی ساتھ ہی ہوتی تھی جانے سے پہلے وہ مرد خوب داد وصول کرتے


بادام زافران کے دھوٹ کا پورا ڈول بر کر پی کر کمبر میں جاتے تھے مگر وہاں جانے کے بعد کمبر سے ان مردوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں گونجنے لگتی پہلے سزکیاں اور پھر چیخے باہر کھڑے لوگ یہ آوازیں سن کر گبراجاتے تقریباً ایک گھنٹے بعد جب اندر گیا شخص باہر آتا تو اس کی حالت اتنی غیر ہوتی کہ چار لوگ اسے اٹھا کر باہر چھوٹ کر آتے تھے جبکہ کماری ملکا اسی شی


ایک ادا سے آ کر سامنے تخت نشین ہوتی اور کہتی کوئی ہے جو مجھے اپنی مردانگی دکھا سکے مجھ سے شادی کرنے والا مرد ہونا چاہیے مرد! کیا میری سلطنت میں ایک بھی مرد موجود نہیں جو کمرے میں جا کر بجائے خود چیکھنے کے میرے ہواس گم کر سکے سلطانِ مہترم پچھلے تین دنوں سے اس گنے جنگل میں موجود تھے صاف شفاف مٹھے پانی کی ندی کے قریب سلطانِ مہترم کا خیمہ لگایا گیا تھا


اس وقت سکالین بھی چھا کر وہ وزیر کے ساتھ بیٹھے تھے آسپاس پرندوں کی چہہ چہاہاڑ اور درکتوں سے سائن سائن کرتی ہوا بہت خوبصورت گیت پیش کر رہی تھی سلطان مہترم مچلی تناول فرما رہی تھی اور ساتھ ہی رب طالع کی ہمدو صنا بھی بیان کر رہی تھی کانے سے فارق ہونے کے بعد وہ اٹھے تو سپاہی بھی چکرنا ہو گئے نا جانے سلطان مہترم کب کیا حکم سنا دیں سلطان مہترم کہنے


کہ آج میں اس جنگل کے دوسری جانب کی سیار کرنا چاہتا ہوں سُنا ہے وہاں کا پانی اس نظی سے بھی زیادہ میتھا ہے یہ سُن کر سپاہی تھوڑے گبراہے تھے ان کے چہروں کی گبراہت سلطان مہترم بام چکے تھے فرمانے لگے کہ کیا ہوا ہے کیا میرے ساتھ آگے کا سفر نہیں کرنا چاہو گے یا پھر میری وجہ سے تم لوگوں کو بیدا رہ کر اب تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے اگلے ہی پل وہ چاروں سپاہی آگے بڑے اور سلط


کہنے لگے کہ نہیں نہیں سلطان مہترم ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم تو آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے ہمیشہ موجود ہیں لیکن دراصل بات یہ ہے کہ وہ سلطنت تو یہودیوں کی سلطنت ہیں اور وہ ندی بھی بدقسمسی سے یہودیوں کی ہی سلطنت میں آتی ہے اگر ہم وہاں پر جائیں گے تو ہمیں مزید سپاہیوں کی ضرورت پڑھ سکتی ہے کیونکہ کہیں وہ یہودی ہمیں دشمن سمجھ کر ہم پر حملہ ہی نہ کر دیں سلطان موضم نے جب یہ سنا تو چہرے پر مس


کہنے لگے کہ نہیں ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم صرف اس ندی تک جائیں گے اس کا پانی پییں گے اور سیار کر کے واپس آ جائیں گے جب ہمارے پاس نقصان پہوچانے والا کوئی ہتھیار ہی موجود نہیں ہوگا تو بلا کوئی کیوں کر ہم پر شک کرے گا یہ سن کر سپاہی بھی جانے کے لیے تیار ہو چکے تھے کچھ ہی دیر بعد سلطان موظم کا گوڑا جنگل کی طرف بڑھ گیا سپاہی بھی سلطان موظم کے پیچھے تھے وزیر بھی س


ابھی وہ کچھ ہی دیر کی مسافت تیر کرتے ہوئے آگے بڑھے تھے کہ انہیں دور سے ہی ایسے عسار دکھائی دینے لگی جس سے یہ محسوس ہونے لگے کہ ندی اب قریب ہے سلطان موضم جیسے ہی ندی کے قریب پہنچے تو کچھ جاڑیاں ہٹانے پر ہی انہیں ندی کے ساتھ ایک پوری سلطنت دکھائی دینے لگی سامنے ایک محل تھا آسپاس گھر بنائے گئے تھے اور وہیں پر ایک عجیب سا شور بھی سنائی دی ر


اس لئے سلطان محضم آگے بڑے اور اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر پینے لگے واقعی جیسے اس ندھی کے بارے میں مشہور تھا وہ پانی بے ہد میتھا تھا لیکن سلطان محضرم نے جیسے ہی دوبارہ پانی پینے کے لی ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر ساکت ہو گئے وزیر اور سپاہی پیچھے ہی کھڑے تھے سلطان محضم کو یوں بھٹ بنا دے کر وہ تھوڑے سے گبرا گئی اگلے ہی پل آگے بڑے اور کہنے لگے


یہ سوچنے لگے کہ کہیں ندی کے پانی میں کچھ ایسا تو موجود نہیں تھا یا پھر یہ کسی دشمن کی کوئی چال تو نہیں تھی جو سلطان موضم کو تکلیف پہنچانا چاہتے تھے لیکن اگلے ہی پر سلطان موضم نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر گویا ان سب کو کھاموش کروا دیا اور ہاتھ کے عشارے سے اپنی سمات کی طرف عشارہ کیا گویا کہہ رہے ہیں کہ سنو کس چیز کی آواز آ رہی ہے سبھی بالکل کھاموش ہو چکے تھے


پہلے تو یہ لوگ سمجھ نہ سکے کہ اس اعلان کا مطلب کیا ہے لیکن پھر جو الفاظ ان کو سنای دئیے وہ سنکر سلطان موظم حیران رہ گئے کہنے لگے کہ جاؤ جاکر دیکھو کہ یہاں پر اس سلطنت میں چل کیا رہا ہے دو سپاہی فوراً اپنا بیس بڑھل کر آگے بڑھ گئے جس سے وہ سلطان موظم کی سلطنت کے سپاہی نہیں لگتے تھے بلکہ عام لوگ لگتے تھے جو خبر وہ واپس لایا تھے سلطان موظم سنکر حی


دونوں سپاہی کہنے لگے کہ یہ بڑی ہی اجیب و گریب سلطنت ہیں سلطانِ معظم یہاں پر دکانوں پر مردوں کی بجائے اور سے بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ بھی بغیر پردیکے بڑا ہی بےہی آسا لباس پین رکھا ہے بال بھی کئی اورسوں نے کھول رکھے ہیں اپنے حسن کی کوب نمائش کروارہی ہیں ان کی دکانوں پر مردوں کا رش لگا ہوا ہے اور مرد حزرات ان کی دکانوں پر ان کے مو مانگے دام ادا کر رہے ہیں


سلطان موضم یہ سن کر حیران تھے یہ تو وہ جانتے ہی تھے کہ یہ یہودیوں کی سلطنت ہیں لیکن یہاں بر مردوں کی بجائے اوٹوں کو دکانوں پر کیوں بٹھایا گیا تھا اس کے بعد وہ سپاہی کہنے لگا کہ سلطان موضم اعلان کرنے والے سپاہی تھے جو ڈنکے بجا کر کہہ رہے تھے کہ ملکہ شادی کرنا چاہتی ہے اور اپنے ملک کی باچہ ہی اسے ہی سومپیں گی جو کہ اتنا کہہ کر وہ سپاہی رکھ چکا تھا جی


سلطانِ موضم اٹھے اور کہنے لگے کہ کیا بات ہے تم رک کیوں گئے ہو وہ کس کو اپنی سلطنت سوپنا چاہتی ہے وہ سپاہی کہنے لگے کہ اس ملکہ کا حکم نامہ ہے وہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ملکہ صرف اسی سے شادی کرے گی جو کہ برپور طاقت رکھتا ہوگا یہ سن کر سلطانِ موضم خاموش ہو چکے تھے کچھ دیر پہلے وہ کافی خوش گوار موڈ میں لگ رہے تھے لیکن یہ بات سن کر انہیں تھوڑی تشوی


کہ ہم یہاں سے واپس جائیں گے لیکن اپنے خاص سپاہیوں کو وہ یہیں پر چھوڑ چکے تھے کہنے لگے کہ تم یہیں پر رہ کر مقبضی کرو ہو سکے تو یہودی عورت کے دربار میں جاؤ جا کر دیکھو کہ وہ کس قسم کا مقابلہ کروارہی ہے اور وہاں پر مزیر کیا کچھ چل رہا ہے وہ دونوں سپاہی وہاں سے اپنا بیس بدل کر جا چکے تھے جبکہ سلطان معظم وزیر اور باقی سپاہیوں کے ساس واپس محل میں چلے آئے


مہل میں آنے کے بعد ان کا پورا دہان اُس کماری ملکہ کی جانب تھا آخر وہ اپنی سلطنت میں کرنا کیا چاہتی تھی ملکہ تو عمومن بادسیٰ کی بیوی کو ہی کہا جاتا ہے اگر وہ ملکہ تھی تو پھر کماری کیسی تھی سلطان معظم کی سمجھ سے سب کچھ بالادر تھا ایک ہفتے بعد جب سپاہی مہل میں واپس آئے تو سلطان معظم ان کو لے کر ایک علاق کمرے میں چلے گئے اور علاق کمرے میں لے جا کر کہنے لگے کہ


دونوں ہی سپاہی کچھ سوچ میں پڑ گئے تھیں پھر کہنے لگے کہ سلطانِ موجدم پہلے تو ہم نے آسپاس کے لوگوں سے پوچ گچ کی سوالوں جواب کیے جس سے ہمیں جو بات پتہ چلی وہ یہ تھی کہ یہ یہودی عورت اس سلطنت کی ملکہ ہے اس کا نام ایبی گیل ہے وہ اپنے باپ کی انتہائی بگڑی ہوئی اور گمندی شہزادی تھی لیکن اس کے باوجود اپنے باپ کی خواہش پر سر تسلیمیں خم کر دیا کردی تھی جب شہزادی ش


تو اس کے لیے کئی رشتے آئے تھے جن میں سے ایک رشتہ اس یہوڈی کا بھی تھا شہدادی کے باپ کو یہ یہوڈی بادشاہ بے ہد پسند آیا تھا اس نے اپنی بیٹی کی شادی یہوڈی بادشاہ سے تیر کر دی لیکن ابغیل کو یہ بادشاہ بلکل بھی پسند نہیں تھا لیکن جب باپ نے قسم دی تو مجبورہ نبنے باپ کی قسم کا پاس رکھنے کی خاطر اس نے اس بادشاہ سے شادی کر لی شادی کرنے کے پاس رکھست ہو کر جب وہ مہل میں ت


ان پر پھول نچاور کیے جا رہے تھے کیمتی تحائف دیے جا رہے تھے مغر ابغیل انتہائی مغرور قسم کی ملکہ تھی بادشاہ اپنی نئی ملکہ کے ساتھ گار میں داخل ہو رہا تھا کہ اچانک محل میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا فانوس ٹوٹ کر نیچے گر گیا ہر طرف کانچ ہی کانچ بکھر چکا تھا شاہی دربار کی کلین کو آگ تک لگ چکی تھی فوراً آگ بجانے لگے لیکن ان سب میں ملکہ ابغ


وہ فورا با کر اپنے کمبر میں چلی گئی اور گسا کرنے لگی بادشا کو بھی خوب کھڑی کھٹی سنانے لگی بادشا تو شہزادی ابی گیل پر دل ہار بیٹھے تھے لیکن ملکا کی یوں بتمیزی کرنے پر وہ شدید برہم ہوئے بادش یہاں پر نہیں رکھی دوبارہ سے نیا لباد شہزادی ابی گیل کے لیے تیار کرویا گیا وہ کہنے لگی کہ وہ تب تک اپنے شور کے ساتھ سوہاگ رات نہیں منایں گی جب تک انھیں بالکل ویس


جیسا ان کے والدِ محضرم نے انہیں جہیز میں دیا تھا اور وہ پہن کر اس محل میں قدم رکھ چکی تھی ایک ہفتے تک ان کا وہ لباس بھی تیار ہوا جسے پہننے کے بعد انہیں اپنے حجرہ یا روسیا میں بٹھایا گیا وہ بھی دلن بنی بیٹھی تھی کہ جب یہودی سلطنت کے بازھاں سلطان اس کمبرے میں داخل ہوئے لیکن اچانک ہی ان کے دل میں شدید درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں اور وہ وہیں تڑپنے لگیں ملکہ اپنی جگ


لیکن یہ بات اس نے روتے ہوئے کہی کہ سلطان ایسر اس جہانے فانی سے کوج کر چکے ہیں وہ اب ہم میں نہیں رہے پورا ملک سو گواری میں ڈوب چکا تھا جبکہ ملکہ ابگل کمواری ملکہ کے نام سے مشہور ہو گئیں کیونکہ بلے ہی وہ شادی شودہ دی اور اٹھ دن اپنے شہور کے ساتھ گزار چکی تھی لیکن ابھی تاک ان کے شہور نے انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا تھا پچھلے اٹھ ماہ سے وہ اپنے شہور کے بغیر اس سلطنت کو سنبال


لیکن ان کے والد اکرامی وفا سے پہلے اپنی بیٹی کو یہ قسم دے کر گئے تھے کہ وہ اب دوسری شادی ضرور کر لے وہ ایک عورت ہیں اور عورت کبھی بھی سلطنت کی ذمہ داریاں نہیں سمبال سکتی یہ باز ملکہ ابیگیل کو اس قدر گائل کر گئی کہ اس نے پوری سلطنت کا سارا کاروبار عورتوں کے سپورد کر دیا اب دکانوں پر تجارت پر اس سلطنت کی عورتیں جاتی ہیں اور مرد گرپر بیٹھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب سے عورتیں بزار میں آئی ہیں اور چ


تو کتنے ہی منچلے اور گلط نگاہیں رکھنے والے لوگ بزاروں میں ہی گھومنے پرنے لگے ہیں ان کو اگر ضرورت کی اشیا نہ بھی چاہیے ہو تو وہ ان اورتوں سے آکر کریدنے لگتے ہیں اور ان کے حسن کو دے کر اپنی آنکھیں سیکھتے ہیں اور یوں ملک میں کافی ترقی ہوتی چلی جا رہی ہے کماری ملکہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ اورتوں کے کاروبار کرنے کی وجہ سے ہے لیکن پس پردہ حقیقت یہ بےہی آئی ہے جو یہ ملکہ اپنی سل


سلطانِ موظم یہ سب کچھ جان چکے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی جب سلطانِ موظم کو یہ پتہ جلا کہ دربار میں ایک مقصوص کمرا بھی موجود ہیں جہاں پر وہ کماری ملکہ خود مردوں کے ساتھ جاتی ہے اور جا کر ان کی جانچ پڑھٹال کرتی ہے نا جانے ان کے ساتھ کیا کرتی ہے کہ ان کے چیکھنے کی آوازے باہر تک آنے لگتی ہیں وہ مرد تو اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ اپنی ٹانگوں پر چل کر بھی نہیں جا سکتے کچھ لوگ تو بالکل ہی بے ہوش ہو ج


جبکہ اس ملکہ کی سیاد پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوتا کئی لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ یہ لگتا ہے ملکہ ہی اثیب زدہ ہے یقیناً اس پر کسی نے بدروحیں چھوڑ رکھی ہیں یا پھر یہ ہے ہی منحوث تبھی جو بھی اس ملکہ کے قریب جاتا ہے وہ اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جیسا کہ اس یہودی سلطنت کے بادشاہ کوئی دیکھ لیں جو کہ بالکل صحیح سلامت تھا لیکن اس عورت کے قریب جانے سے پہلے ہی موت کے گاٹ اتر گیا


کچھ دیر تو وہ سوچ سے رہے پھر کہنے لگے کہ ہمیں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ یہ سلطنت گلط ہاتھوں میں سوپ دی جائے اور نیا ہتکرنڈا اپنا لیا جائے ہمیں جل سے جلد اس کی سلطنت میں جانا چاہیے سلطانِ موظم فیصلہ کر چکے تھے کہنے لگے کہ میں بیس بزل کر جاؤں گا اور جا کر دیکھوں گا کہ آخر یہ مردوں کی طاقت کا مقابلہ کیسے کرتی ہے مقابلے تو میدان میں کیے جاتے


لیکن دربار کے مقصوص کمرے میں خود جا کر وہ کیا کچھ کرتی پیر رہی ہے سپاہی بھی گبر آ چکے تھے کچھ تو شرم سے لال سرکھی ہونے لگے کہ وہ تو یہودی عورت ہیں مسلمان تو نہیں ہیں نہ جانے کیسے بے حیائی پھیلاتی ہوگی سلطان موظم وہاں جا کر کیا کہیں گے کہیں اپنا ایمان ہی کھترے میں نہ ڈال لے لیکن سلطان موظم نے انھیں گورتی نظروں سے دیکھا سلطان موظم نے اپنا بیس ایک عام مرد کی


جسامت اور قدقات میں سلطان موظم کسی سے کم نہ تھے جب وہ سامنے کھڑے ہوتے تو چٹان کی مانن لگتے تھے ان کی طاقت کا اندازہ ان کے روب و جلال سے ہی ہو جایا گرتا تھا سلطان موظم نے اپنے پسندیدہ گوڑے کے بجائے اپنے شاہی اس تبل سے ایک کام سا گوڑا لیا اور اس گوڑے پر بیٹھ کر وہ اس سلطنت کا سفرت کرنے لکے اگلی صبح دق سلطان موظم اس سلطنت میں پہنچ چکے تھے جیسے جیسے ب


وہ یہودی مرد بڑی بے باقی سے ان اورتوں کو چھو رہے تھے ان کے بالوں کو اپنی انگلیوں پر گومارے رہے تھے کوئی تو بازو سے پکڑ کر کھیچ رہا تھا اور وہ بے شرم اورتے بھی ان مردوں کے ساتھ یوں ہی ہسی مزاہ کر رہی تھیں سلطان محظم یہ بے ہیائی کا بزار گرم دیکھ کر فوراً لاہولا والا قواہ تا پڑھ کر آگے بڑھنے رگے ان کا رکھ وہ محل تھا اور پھر اس کا درباز جہاں پر یہ سب کچھ


کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہاں پر ایک عظیم و شان بادشاہ موجود ہے وہاں پر تقریباً پچاس کے قریب مردوں کی ایک قطار سی لگی ہوئی تھی جس میں سب سے آخر پر سلطانِ موسم جا کر کھڑے ہو گئے ساتھ ساتھ وہ آجپاس کا جائدہ بھی لے رہے تھے دل میں اپنے رب کو یاد بھی کر رہے تھے یہاں آنے سے پہلے انہوں نے نماز کے ساتھ ساتھ دو نوافل بھی ادا کیے تھے اور اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا کی تھی کہ


جانے سے پہلے وزیر اور سپاہیوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیس بڑھل کر چلے جاتے ہیں کہیں خدا نہ خاصہ دشمن کے دیس میں آپ کی جان کو خطرہ نہ ہو جائیں مگر سلطان موجم نے سب کو انکار کر دیا تھا کہنے لگی کہ مجھے اپنے رب کی ذات پر پورا بروسہ ہے وہ میری حفادت فرماے گا اگر میری زندگی ہوئی تو میں دشمنوں کے چنگل سے بھی بچ جاؤں گا اور اگر میری موت واقعہ لکھی ہوئی تو یہاں پر کھڑے کھڑے تم لوگوں کے


سلطانِ موظم اس قطار میں کھڑے تھے جیسے جیسے دربار میں مرد داکل ہو رہے تھے ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہاں پر اندر سے لاے جانے والے مردوں کو اٹھا کر لایا جا رہا تھا کچھ تو بے ہوش ہو چکے تھے اور ان کے وجود بلکل نیلے پڑھنے لگے تھے تو کسی کا چہرا بلکل سرک ہو چکا تھا کوئی تو بلکل پتھر جیسا سکت ہو چکا تھا سلطانِ موظم سمجھ نہیں پا رہے تھے

کہیں اس نے اس کمرے میں ذہریلا سام تو نہیں رکھا تھا جس کے ڈسنے سے یہاں آنے والے لوگوں کی یہ حالت ہو رہی تھی ان پر حیبتاری ہو رہی تھی آخر کو جب دس لوگ بچ گئے تو سلطان موظم سمیت ان کو دربار میں بلا لیا گیا ایک جانب گرسیاں لگائی گئی تھی جہاں پر ان کو بتایا گیا تھا تبھی کمرے سے وہ کماری ملکہ نکل کر آئی سلطان موظم تو سمجھ رہے تھے کہ یہ کوئی 35 سے 40 سال کے درمیانی خطون ہوگ


وہ تو وہ مشکل بائیس سے تیس سال کی لگ رہی تھی لیکن گرور اور تکبر تو عروض پر تھا بال کلے تھے پردہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی وہ اپنے بالوں کو جٹک دی آکر سامنے تکت پر بیٹھ چکی تھی اور تکت پر بیٹھ کر ایک ادا سے وہاں پر موجود مردوں کو دیکھنے لگی کہ تب بھی ان مردوں میں سے اس کی نظر سلطان موظم پر آکر ٹک چکی تھی سلطان موظم کو دیکھ کر کتنی ہی دیر وہ گورتی رہی


جبکہ سلطانِ موظم اپنی ایک وجاہت اور عالی شخصیت کے ساتھ او سورت کے چہرے سے نظریں پیر چکے تھے جو یہاں پر کتنے ہی مردوں کو غایل کر چکی تھی سلطانِ موظم اپنے ہی دیان میں بیٹھے دل میں اپنے رب کی تصبی کر رہے تھے کہ جب ان کا نمبر بھی آ گیا سلطانِ موظم اپنی نشیز سے اٹھے وہ ملکہ تو کمبر سے نکلتے ہی سلطانِ موظم کو گور رہی تھی اگلے ہی پنی سام


تو بڑی ہی بے باقی سے سیدھی ہو کر بیٹھی اور پھر سلطانِ موظم سے کہنے لگی کہ تمہارا نام کیا ہے سلطانِ موظم نے اپنا نام عبداللہ بنیوب بتایا تھا یہ سن کر وہ عورت ہاں میں سر ہی لانے لگی پھر بابدادہ کا نام پوچھنے لگی پیشے کا پوچھا پھر کہنے لگی کہ کیا تم اس قابل ہو کہ یہ مقابلہ کر سکو پہلی ہی نظر میں تمہیں دیکھ کر مجھے لگا ہے کہ واقعی تم ایک مرد ہو لیکن اگ


تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو یہاں پر پہلے آنے والے مردوں کے ساتھ ہوا سلطان موظم اگلے ہی پنل مسکرائے تھے اس کے بعد خود ہی اس کمرے کی جانب جانے لگے جہاں سے باقی مرد نکل رہے تھے سلطان موظم اس کمرے میں داخل ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد اس کمرے میں وہ کواری ملکہ بھی داخل ہو چکی تھی ساتھ ہی دو طبیب بھی اندر جا جا چکے تھے کمرے میں کیا ہونے والا تھا سب کو پتہ تھا


ناک سے مکھییں اڑھانے لگے تھے کہ اس کے ساس بھی وہی کچھ ہوگا جو اس سے پہلے ہوا تھا لیکن اس وقت کواری ملکہ کے محل کے در و دیوار کام پھٹھے جب کمرے سے بجائے سلطان موظم کی چیکھوں کے ملکہ کی چیکھوں کی آوازیں گونجنے لگی تھی ملکہ کے رونے اور چیکھنے چلانے کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی وہ لوگ جو کدھ پر بہوشی تاریح ہوتی محسوس کر رہے تھے اس


کون تھا وہ مرد جو یہ مقابلہ جیت چکا تھا؟ ملکہ کی چیکھیں نکلوائی چکا تھا دو گھنٹے اس کمرے میں گزر چکے تھے جب چیکھ سے چلاتے ہوئے تبیب باہر آئے تبیبوں کی بھی حالت گیر ہو چکی تھی صرف اتنا ہی نہیں سلطان موظم جب کمرے سے باہر نکلے تو ابھی بھی کمرے سے ملکہ کے چیکھنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھی وہ دربار میں آئی اور قدموں میں گر کر کہنے لگی میں تم سے شادی کرنا چا


میں پوری سلطنت تمہارے قدموں پر وار دوں گی لیکن سلطان موسم بغیر ایک بھی پل اُس لڑکی پر نظر ڈالے وہاں سے چلے گئے اپنے گوڑے کو لیا اور اس سلطنت سے باہر آ گئے لوگ مڑ مڑکر دیکھ رہے تھے آخر کون تھا یہ شخص اور اندر کمبرے میں کیا ہوا تھا اگلے ہی روز اس یہودی عورت کے سلطنت کا تو نقشہ ہی بدل چکا تھا اورتوں کو پرتے میں رہنے کا حکم دے دیا اور مردوں سے کہا کہ


کہ کوئی بھی عورت بغیر پردے کے دکھائی دی یا بغیر مقصد مردوں کے ساتھ گومتی پردی دکھائی دی تو اس پر قید لازم ہو جائے گی اور ایسے ہی کئی ایسے اصول جاری کیے گئے جو مسلمانوں کی سلطنت اور باچاز میں ہوا کرتے تھے یہودیوں کو تو ان قوانین سے فرق ہی نہیں پڑھتا تھا اور کوئی حیران تھا کہ ہماری ملکہ کو ہو کیا گیا ہے لیکن اس روز تو سب کی چیکھیں ہی نکل گئی گویا وہ اپنی ہ


کہ اس کو ملکہ کے تک سے اتار باہر کرنا چاہیے یہ ہماری ملکہ بننے کے لایق ہی نہیں ہے جس روز کماری ملکہ نے کلمہِ طیبہ پڑا تھا اور اپنی رایہ کے سامنے یہ اکرار کیا تھا کہ میں نے دینِ اسلام قبول کر لیا ہے کئی لوگوں نے ملکہ کی دیکھا دیکھی خود بھی دینِ اسلام قبول کر لیا جبکہ باقی لوگ باگی ہو چکے تھے کہنے لگے کہ ہم مسلمان کو کبھی بھی اپنی ملکہ نہیں مان سکتے لیکن وہ ملکہ ب


سب کچھ چھوڑ چاڑ کر سلطان موظم کی سلطنت میں داکل ہو چکی تھی وہ سیدہ سلطان موظم کے محل میں آئی تھی اور کوئی دیکھ کر ہران تھا کہ آم سے لباس اور پردے میں یہ وہ کماری ملکہ آ رہی تھی جو یہودیت پر راج کرنا چاہتی تھی آ کر سلطان موظم کی خدمت میں عرض کیا کہ سلطان موظم میں نے سب کچھ چھوڑ دیا میں نے اسلام بھی قبول کر لیا آپ مجھے مزید دینی تعلیمات سکھائیں اور اپنی ن


بے شک اپنی کنیزوں میں مجھے رکھ لی جیے سلطانِ موظم یہ سن کر ایک پل کو مزکر آئے تھے پھر اسے اپنی خاص کنیزوں کے حوالے کر دیا کہ اسے دینی تعلیم سکھاؤ اس کے لیے بقاعدہ ایک مولمہ کا انتظام کرو ہر کوئی حیران تھا کہ آکر اس بند کمرے میں ایسا کیا ہوا تھا جو ایک گمندی اور مغرور کماری ملکہ اس حد تک بدل گئی تھی سلطانِ موظم کہنے لگے کہ جب میں اس کمرے میں د


سب سے پہلے مجھے ایک تخت پر لیٹنے کا کہا گیا اور کہا کہ یہ لوہے کی بڑی بڑی میکھیں آپ کے سینے پر رکھی جائیں گی اور پھر وہاں پر تبیب بھی موجود تھے اور بڑے بڑے پہلوان بھی کہنے لگے کہ ہم پوری قوہ سے یہ لوہے کی میکھیں آپ کے وجود میں اتاریں گے جس سے یہ لگے گا کہ آپ واقعی بہادر ہیں جیسے ہی وہ شخص قریب آیا اور سلطان محمد کے سینے پر ہدھوڑا مارا کہ وہ میکھیں ان کے سینے میں پ


اس چکس نے ہتھوڑا تو مارا تھا لیکن وہ مکھیں سلطان مظم کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائی تھی اس کے بعد سلطان مظم کو اُلٹا لٹا دیا گیا اور ان کے وجود پر باری برکم لوہے کی بڑی بڑی انٹے رک دی گئی اور وہ پہلوان انٹوں پر چڑھ کر کودنے لگے سلطان مظم نیچے بالکل صحیح سلامت موجود تھے وہ ملکہ انتہائی حیرانوں پر اشان ہو گئی مارے خوف کے چیکھنے لگی کہ آخر یہ کیسے مم


پہلے آنے والے لوگ تو صرف اپنی سینے میں مینکھے گومپ جانے کے ڈر سے ہی بحال ہو کر باگے یہ انسان ہے یا پھر کوئی اور ہی مخلوق اگلا پڑاؤ کانچ کے ٹکروں پر چل کر پھر کوئیلوں پر چلنا تھا اور اس کے بعد کھولتے ہوئے پانی میں تراکی کرنی تھی جو بھی ان مقابلوں میں جیت جاتا وہ ہی ملکہ کا شہر ہو سکتا تھا وہ ملکہ جانبوچ کر ایس طرح کے پڑاؤ رکھ رہی تھی تاکہ لوگ پہلے ہی ب


تو وہ ملکہ آکر قدموں میں گر چکی تھی کہنے لگی کہ آپ کون ہیں یہ سب کچھ کیا ہے یہ تو کسی موضع سے کم نہیں بتائیے آپ کون ہیں کہاں سے تشریف لائے ہیں مجھے عام نہیں لگتے تب سلطان موضم نے اسے اپنا تاروک کروایا تھا تاروک سن کر تو وہ خوف سے چیکھنے چلانے لگی یقین ہی نہیں کر پائی تھی کہ یہ دوسری سلطنت کے سلطان ہیں اگلے ہی پل قدموں میں گر کر کہنے لگی کہ مجھے آپ سے نکاہ کرنا ہے


میں آپ کی بیوی بننا چاہتی ہوں مگر سلطانِ موظم نے انکار کر دیا کہنے لگے کہ میں صرف اور صرف مسلمان سے ہی شادی کر سکتا ہوں تم جیسی گمندی اور مغرور عورت کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہی نہیں سب کو چھوڑ چھاڑ کر سلطانِ موظم وہاں سے نکل آئے تھے جبکہ وہ عورت سلطان کی خاطر دیوانی سی ہو چکی تھی ابھی بھی سلطانِ موظم کے ہاتھ میں تصپی تھی اور وہ مسلسل تصپی پڑھ رہے تھے سلطان


دو مہتک وہ عورت وہاں پر دین سیکھتی رہی مکمل پردہ کرنے لگی یہاں تک کہ دوبارہ سلطان موظم کے پاس آثیر ہوئی تو سلطان موظم نے اس کا نکاح اپنے وزیر سے کروا دیا وہ اس پر بھی رضا من تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس یہودی ملکہ کے دل میں خیرے ڈال دی تھی اس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو چکا تھا پورا دربار سلطان زندہ باد کے ناروں سے گونج اٹھا تھا

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow