تیز دھوپ میں صاف کرنے والی فائزہ اور مہربان جنزادی کی خوفناک کہانی

تیز دھوپ میں صاف کرنے والی فائزہ اور مہربان جنزادی کی خوفناک کہانی

Dec 11, 2024 - 09:22
 0  6
تیز دھوپ میں صاف کرنے والی فائزہ اور مہربان جنزادی کی خوفناک کہانی
تیز دھوپ میں صاف کرنے والی فائزہ اور مہربان جنزادی کی خوفناک کہانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم  رات کو میں سو رہی تھی جب اچانک سے موبائل کی آواز پر میری آن کھل گئی جب موبائل اٹھا کر دیکھا تو سامنے ساویار کی کال تھی میں نے موبائل کو وہیں بھی رکھ دیا اور دوبارہ سے سونے کی کوشش کرنے لکی مگر بیل مطوادر بج رہی تھی اب کی بار میں جنجلا گئی سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ساویار مجھے بار بار کال کیوں کرہا ہے


جس کی وجہ سے وہ آدھی رات کو مجھے کال کر رہا ہے فون اٹھایا تو اس کی مخمور سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی وہ کہنی لگا کہ باہر آو میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں اس کی بات سن کر میرے دماغ بھک سے اڑ گیا اس سے کہنی لگی کہ تم حوش میں تو ہو جانتے ہو کیا کہہ رہی ہو سب لوگ گھر میں موجود ہیں اور اب بو کو یہ بات سخت بری لگتی ہے کہ میں فون پر تم سے بات کروں اور تم مجھے آدھی رات کو ملنے پر اُکسا رہی ہو


یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا تھا تب ہی میری نظر اس دوٹے پر پڑی وہ میرے بیٹ کی پائنٹی کی طرف بیٹھا ہوا تھا اور غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اس وقت اس کی آنکھوں کا رنگ بدلا ہوا تھا میں جب بھی اس کی آنکھوں کی طرف دیکھتی تو حیران رہ جاتی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں اکثر رنگ بدلیا کرتی تھی کبھی اس کی آنکھیں دیکھتے ہی دیکھتے سرخ ہو جاتی تو کبھی کالی ہو جاتی کبھی بالکل


تو کبھی ان میں نلہاٹ کا رنگ نمائیہ نظر آنے لگتا یہ دیکھ کر میں حیران رہ جاتی تھی اس توتے کی سب سے اچھی بات مجھے یہ لگتی تھی کہ یہ باتیں کرتا تھا اور اکسر میرے ساتھ اتنی سمجھ داری والی باتیں کرتا کہ میں حیران رہ جاتی تھی کہ یہ پرندہ ہو کر بھی کس قدر شوم رکھتا ہے ابھی بھی وہ مجھے دیکھ رہا تھا میں نے مسکرہا کر اسے کہا کہ آدھی رات ہو گئی ہے ابھی تک تم سوی نہیں اس نے میری ب


بس خاموشی سے میرے چہرے پہ نظر گاڑے پیٹھا رہا تبھی ساویار کی دوبارہ سے کال آگئی اب مجھے سخ قصہ آنے لگا تھا چند دنوں بعد ہی میری شادی ہونے والی تھی اور میں نے رکست ہوگر ساویار کے ساتھ ہمیشہ کے لیے چلے جانا تھا مگر اس کے باوجود بھی اس شخص کی بے سبری میری سمجھ سے باہر تھی اب جب میں نے انکار کیا تو وہ مجھے مغنی توڑنے کی دھمکی دینے لگا اس کا کہنا تھا کہ


اگر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کا خیال نہیں رکھوں گی تو وہ میرے ساتھ شادی نہیں کرے گا آخر کیا فائدہ میرے جیسے بیوی کا جب شوہر کسی بات کی تلک کرے تو وہ اس کی بات کو انکار کر دے یہ سن کر میں جھنجلا گئی اور پھر جب ٹیرلس پر کھڑے ہو کر دیکھا تو زاویار صامنے کھڑا تھا وہ مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہنی لگا کہ نیچے آو تمہارے لیے میں گفت لے کر آیا ہوں مگر اس سے پہلے کہ میں نیچے جا کر


تب ہی میری نظر ساویار کے ساتھ پیچھے پڑی اور اس کے ساتھ ایک امتحائی عجیب و غریب مخلوق کھڑی تھی۔ اس کے لمبے لمبے پال تھے اور وہ خونخوار تیورن سے ساویار کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میرے مو سے چیخ نکل گئی۔ میں نے ساویار کو پیچھے دیکھنے کا اشارہ کیا تو ساویار میری بات سن کر حیران رہ گیا۔ وہ کہنے لگا کہ تم شور کیوں مجا رہی ہو، سب لوگ تمہاری آواز سن کر جاگ جائیں گے۔


کیونکہ وہ مخلوق ایک تو دیکھنے میں بہت خوفناک تھی دوسرا وہ اپنے لمبے لمبے ناکھنوں والے ہاتھ زاویار کی گردن کے پاس لے کر جانے لگی تھی اور اس کی گردن کو دونوں ہاتھوں سے دبوچنے لگی تھی تب ہی میرے مو سے دل قراش چیکھ نکل گئی تھی زاویار نے مجھے غسے سے دیکھا پھر بنا کچھ کہے گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے چلا گیا تھا اور وہ عجیب سی مخلوق بھی اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو


کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا تھا اور باقی کی رات میری یہی سوچتے گزر گئی تھی اس کے بعد بھی رات کو بار بار مجھے اسی بات کا احساس ہوتا کہ میرے آسپاس کوئی موجود ہے جو کبھی میرے اوپر سے چادر کنچ رہا تھا کبھی میرے باولوں کو چھیڑھا تھا تو کبھی مجھے کسی کی ہنسی کی آواز سنای دی رہی تھی یہ سب میرا وحم نہیں تھا بلکہ یہ سب میں نے جاکھتے ہوئے محسوس کیا تھا


اور اب حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ توتا بھی مجھے کمبرے میں کہیں نظر نہیں آرہا تھا وہ ہر وقت میرے ساتھ موجود رہتا تھا ایک پل کیلئے بھی میری نظروں سے اوجل نہیں ہوتا تھا مگر اس وقت وہ نجانے کہاں تھا میں جب سو گئی تو اگلے دن پھر سے زاویار کی مجھے کال آگئی وہ سخت غصے میں تھا وہ مجھ سے کہنے لگا کہ رات کو تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا میں تم سے پات کرنا چاہتا تھا تمہیں نظروں کے سامنے دیکھنا چا


مگر تم نے شور مچا کر سب لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور یہ بار مجھے بہت زیادہ بری لگی ہے تم نہیں جانتی کہ میرا دل اس بار پر کتنا دکھا ہے تب میں نے جو کچھ دیکھا تھا زاویار کو بتا دیا مگر میری بات سنگر وہ زور زور سے ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ ایسا بھلا کیسے ممکن ہے یہ سب افصانی باتیں ہیں تم اصل میں کتابی بہر پڑتی ہو تمہیں میں نے کتنی بار کہا ہے کہ یہ خوفناک کہانیا پڑنا چھ


خوفناک کہانیاں پڑھ پڑھ کے اور خوفناک فلمیں دیکھ کر تم نے اپنا دماغ خراب کیا ہے جبھی تمہیں ہر طرف یہی چیزیں دیکھنے لگی ہیں اب جلدی سے تیار ہو کر آجائو میں تمہارے ساتھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں مگر میں جانتی تھی کہ امہ مجھے کبھی بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں دیں گی جب یہی بات میں نے زاویار سے کہی تو وہ کہہنے لگا کہ امی سے اپنی صحیلی کے گھر جانے کا بحانہ کر دو جو بھی ہے میں آج تمہارے س


امہ سے میں نے جب صحیلی کے گھر کا بحانہ کیا تو امی نے اس بات پر خاصی ناقواری کا اصحار کیا کہنے لگی کہ تمہارے اب با کو یہ سب پسند نہیں ہے نجانے تم یہ سب کیوں نہیں سمجھتی ہو مگر جب میں اصرار کرنے لگی تو امی اس بات پر پھر مشکل سے رزمند ہو گئی میں پھر جھٹ پر تیار ہو گئی تھی جب باہر جانے لگی تو میرا توتا بھی میرے ساتھ میرے کندھے پر سوار ہو گیا تھا میں جہاں بھی جاتی وہ توتا میرے ساتھ ہر ج


یہ توتا میں نے کچھ دن پہلے ہی ایک بزرگ سے خریدہ تھا مجھے ہمیشہ سے آدت تھی کہ میں جب روٹ پر کسی کو پرندے بیشتے ہوئے دیکھتی تو اس سے پرندے لے کر آزاد کر دیا کرتی تھی مگر جب یہ توتا میں نے دیکھا تو اسے پنجرے میں قید کرکے میں اپنی گھر لے آئے تھی مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ یوں کسی کو قید کرنا اچھی بات نہیں ہے میں نے اسے آزاد کر دیا تھا مگر آزاد کرنے کے باوجود بھی


میرے کندھے پر سوار ہو جاتا اور کھانا وہ ہمیشہ میرے ہاتھ سے ہی کھاتا تھا مجھے بھی اس پرندے کی عادت سے ہونے لکھی اس کے بغیر مجھے اپنا آپ ادھورہ سا لگنے لگا تھا روٹ پر ہی زاویار کھڑا تھا زاویار نے مجھ پر ایک تحرانہ سی نظر ڈالی اور بغیر کچھ کہیں گاڑی سٹارٹ کر دی جب ہم تھوڑا آگی آئے تو وہ مجھ سے کہنے لگا کہ تمہارے پاس پہننے کیلئی کوئی


میں اس وقت ہلکے گلابی رنگ کے لباس میں ملبوس تھی میرا فول آسدینو والا فروک تھا دوبٹا ابھی میں نے شانو پر پھیلائے ہوا تھا میں نے نہ سمجھے سے اسے دیکھ کر کہا کہ اس لباس میں کیا کباہت ہے مجھ پر تو یہ کلر بہت اچھا لگتا ہے وہ کہنے لگا کہ یہ ماسیو والا ہولیا بنا کے میرے ساتھ مجھ چلا کرو میرے سو دوستہ باب ہیں وہ تمہیں دیکھ کر میرا مساق اڑاتے ہیں کہ میری بیوی کو پہننے اورنے کا صلیقہ


تب میں نے ساویار سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا جب ہم ریسٹرونٹ میں کھانا کھا رہی تھی تب ہی وہاں پر ساویار کا ایک دوست آیا اس شخص کے دیکھنے کا انداز بہت عجیب تھا مجھے اس شخص کی نظری بہت ہی زیادہ نکابلے بردارش میں حسوس ہوئی تھی کیونکہ وہ عجیب گھورتی ہوئی نظروں سے مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھ رہا تھا جیسے مجھے نظروزی نظرو میں کھا جانے کا ارادہ رک


زاویار جیسے سب کچھ نظر انداز کر کے اس کے ساتھ کش اصلو بھی سے باتیں کرنے میں مصروف تھا تبھی توتے نے اس شخص پر حملہ کر دیا اس شخص کا چہرہ اچھا خاصہ سخمی کر دیا اس صورتحال سے ہم دینوں جگہ پر ہی بوکھ لا گئی تھی میں نے جلدی سے اپنے توتے مینو کو قابو کیا زاویار مجھے کہنے لگا کہ تمہیں میں نے منع کیا تھا کہ اس پرندے کو مر پالو مگر تم کسی کی کوئی بار نہیں سنتی اور نہ ہی سمجھتی


اس نے میرے دوست کا چہرہ کتنا خراب کر دیا تب وہ شخص مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ کوئی بات نہیں اس میں بھابی کی کیا خلطی ہے مجھے پرندے نے سخمی کیا ہے بھابین نہیں یہ بات اس نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہی تھی میں نظریں جرہ کر رہ گئی اور پھر وہ زاویار سے کہنے لگا کہ مجھے پروپرٹی سیل کرنی ہے آپ ابھی میرے ساتھ چل کر پروپرٹی دیکھ لیں تب ہی میں فورن سے بول پڑی


مگر اس شخص کا اسرار تھا کہ اس کی پروپریٹی بھی ہمارے راستے کی دنیاں نہیں پڑتی ہے پہلے وہ پروپریٹی دیکھ لی جائے تبھی پھر سے مینو اس پر چپڑ پڑا تھا اس کی آنکھ کو توتے نے اچھا خاصا صحمی کر دیا تھا اور اب جب میں نے اپنے توتے کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھی اور وہ انتہائی خوصے سے اس شخص کو اور ساویار کو گھورے جا رہا تھا یہ دیکھر ساویار مجھے کہنے لگا


اب جلدی سے چلو اس کے بعد میں نے ایک اور کام سے بھی جانا ہے میں نے لاکھ احتجاج کیا زاویار کو آنکھیں تک دکھائیں مگر وہ جیسے کچھ سمجھنے پر تیار نہیں تھا اب اسی گاڑی میں وہ شخص بھی ہمارے ساتھ سوار ہو گیا تھا اور وہ توتا میری کود میں آکر بیٹھ گیا تھا مجھے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے مگر بار بار میں اپنے خیال کو یہ سوچ کر جھٹک رہی ت


بھلا میرے ساتھ کوئی کیسے غلط کر سکتا ہے مگر آج مجھے ساویار کے انداز بھی بدلے بدلے سے لگ رہی تھی اور وہ شخص بھی بار بار مجھے پیچھے مڑکر عجیب سی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا اس کا انداز دیکھ کر میں اندر ہی اندر خوف سے کامپ رہی تھی تب ہی میں نے ساویار سے کہہ دیا کہ گاڑی یہی پر روک دیں میں ٹیکسی لے کر چلے جاؤں گی مگر ساویار نے میری سنی انسنی کر دی اور پھر گ


تب ہی میرے توتے نے شور مجانا شروع کر دیا وہ بری طرح سے چلانے لگا تھا میں خبرہ گئی کیونکہ مینو عمومن اس طرح سے نہیں کرتا تھا جب مینو کے چلانے کا کسی نے نوٹس نہیں لیا تو اس نے پھر سے زاویار اور اس کے ساتھ پہتے ہوئے اس چکس پر حملہ کر دیا تھا وہ ان دونوں کو بری طرح سے زخنی کرنے لگا تھا تب ہی زاویار نے گاڑی روکھی اور مینو کو بے رہنی سے پکڑ کر گاڑی سے باہر نکال دیا اور


یہ سب اچانک سے ہوا تھا میں بار بار گاڑی سے واپس بیچے مڑکر دیکھ رہی تھی مگر مجھے اپنا پیارا توتا کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا میں نے مینو کو آوازیں دینے شروع کر دی تب ہی ساویار مجھے غسے سے جڑک کر کہنے لگا کہ اس چیتان کے چیلے کو مڑھ بلاو تم دیکھ نہیں رہی اس نے میرا کیا حال کیا ہے انتہائی جنگلی پرندہ تم نے پالا ہوا ہے جو ہر انسان پر جھپڑ پڑتا ہے


اگر وہ میری آنکھ سائی کر دیتا یا میرے چہرے پر گہرا زخم آجاتا تو میں نے اس کی گردن مرور دینی تھی زاویار کا مجھ سے یہ انداز تقاتب اور وہ بھی ایک اور انجان شخص کے سامنے مجھے تو چوپ ہی لگ گئی تھی میں خاموشی سے کھڑکی سے باہر مینو کو دیکھنے لگی مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا میرا دل پریشان ہو گیا کہ کہیں وہ زخمی تو نہیں ہو گیا اور پھر وہ گاڑی ایک گھر کے پاس آکر رک گئی تھی


گھر کا دروازہ اسی شخص نے کھولا تھا اور پھر ساویار گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا تھا مجھے کسی انہونی کا احساس ہونے لگا تھا مجھے لگنے لگا تھا میں نے یہاں پر آکر بہت بڑی کلطی کی ہے مجھے اپنے منگیتر پر اس حط تک اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا تبھی ساویار نے میری سائٹ والا دروازہ کھولا اور مجھے نیچے اترنے کا کہنے لگا میں نے اسے کہہ دیا کہ میرا یہاں پر کوئی کام نہیں ہے


امی انتظار کر رہی ہوں گی مگر وہ تو جیسے میری کوئی بات سنہی نہیں رہا تھا اب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر باہر کھنچنا شروع کر دیا تھا اور یہ سب دیکھ کے میں بوری طرح سے بکلا گئی میں اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سود، وہ مجھے کھنچ دے ہوئے گھر کے اندر لے گیا تھا اور پھر ایک کمرے میں پٹھا کر کہنے لگا آرام سے بیٹھو اگر شور مچانے کی کوشش کی اور زیادہ حوشیاری د


میں بھی یقیم نظروں سے دیکھتی رہ گئی تھی تب ہی میں نے ابو کو کال ملانے کی جیسے ہی مو بائیل اٹھایا تو اس نے میرے ہاتھ سے مو بائیل لے لیا مجھے کہنے لگا کہ اب تم یہاں پر ہوگی اور اب سے وہ سب کرو گی جو کرنے سے پہلے تم مورت مانگو گی مگر تمہیں مورت نہیں آئے گی مجھے یقیم نہیں آ رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ یہ سب کیا کرہا ہے اور اس نے مجھے یہاں پر لا کر قید کیوں کیا ہے وہ می


کہ میں تم سے انتقام لینے کے لیے تمہیں یہاں پر لے کر آیا ہوں تم جانتی ہو کہ تم نے میرے کتنی دیزدی کی تھی تمہاری وجہ سے میرے دوستوں نے میرا مساق اڑایا تھا اب میں نے اس شخص کے آگے تمہارا سودہ کر دیا ہے ویسے بھی مجھے بسنس میں بہت ہی زیادہ نقصان ہو رہا تھا نقصان کے پیسے پورے کرنے کیلئے مجھے کوئی نقصان کرنا تھا تب ہی میں نے یہ چال سوچی تمہارا میں نے اس شخص کے ساتھ سودہ کر دیا اب یہ ج


یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگا تھا مگر اب میں ہوش کی دنیا میں آئی میں اس پر جھپڑ پڑی اس سے کہہنے لگی کہ تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے تم مجھے یہاں پر دھوکے سے لے کر آئے ہو تم کیا سمجھتے ہو کہ تم سب کی نظروں میں دھول چھوم دوکے اور کوئی تمہیں کچھ بھی نہیں کہے گا ایسا نہیں ہو سکتا میرے ماں باپ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے میرے اتنا کہنا ہی تھا کہ وہ زور زور سے کہہ کے ہی لگ


کہ تمہارا باپ ایک معمولی ساکھ لرک ہے اور وہ میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ویسے بھی کسی کے پاس کیا سبوت ہے کہ اس وقت تم میرے ساتھ ہو تم تو گھر میں اپنی دوست کے پاس جانے کا بحانہ کرکے آئی ہونا اس کے چہرے پر خبیث سی مسکرہ ترین گئی تھی اور مجھے خود پر حصہ آنے لگا تھا کہ میں نے خامہ خامہ اس شخص پر اعتبار کیا تھا یہ شخص تو کسی طرح سے بھی بھروسے کے قابل نہیں تھا اب نجانے آگے میرے ساتھ کی


میں وہیں پر بیٹھ کر پوٹ پوٹ کر رو پڑی تھی وہ دونوں کمبرے کا دروازہ بند کر کے وہاں سے چلے گئے تھی اس کمبرے میں نہ تو کھرکی تھی اور نہ ہی کوئی روشندان تھا اور جو دروازہ تھا وہ باہر سے بند تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پورا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکن بیتردی پھو دی جا رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے گاڑی ج


آسپاس کوئی یہ باتیں نہیں تھی اگر میں شور بھی کرتی تو بھی میری آواز اس کمبر میں کھٹکر رہ جاتی نہ جانے مجھے کب تک یہاں رہنا تھا اگر میں گھر بھی نہ پہنچتی تو میرے گھر والوں کے دل پر نہ جانے کیا بھیتی لوگ ان سے طرح طرح کے سوال کرتے اور وہ لوگوں کے سوالوں کے کیسے جوابات دیتے میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی تبھی مجھے وہی معنوثی آواز سنائی تھی مینو میرے پاس آکر بیٹھ گیا تھ


کہ سب ٹھیک ہو جائے گا میں اس گیٹ سے نکل جاؤں گی اب مینو کو میں نے دیکھا تو میں حق کا بکہ رہ گئی تھی کمرے میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور مینو میرے پاس کیسے آیا تھا تبھی کمرے کا دروازہ خود با خود کھل گیا میں حیران سی جب ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر باہر آئی تو آز باس کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا پورا گھر خاموشی میں ڈوبا تھا مجھے انجانی سے خوف کا احساس ہوا تھ


تو وہ بھی کھلا تھا اب مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زاویار نے میرے ساتھ یہ کیا کیا تھا اگر اس نے مجھے یہاں پر قید کرنا تھا تو اس نے دروازے کیوں کھلے تھے اور مجھے کیوں کر ازاہ چھوڑ دیا تھا جب میں گھر سے باہر نکلی تو تھوڑا سا دور چلنے کے بعد ہی ایک رکشہ کھڑا تھا میں ہامتے کامتے رکشے والے کے پاس آئی اور اسے رو دے ہوئے اپنی مجبوری بتائی تو اس نے مجھے رکش


میرا پرس چونکہ ساویار اپنی ہراصت میں لے چکا تھا اس وجہ سے میرے پاس پیسے نہیں تھے میں نے سوچا کہ گھر جاتے ہی میں رکشے والے کو پیسے ادا کر دوں گی مینو میرے ساتھ ہی آکر بیٹھ گیا تھا جب میں نے مینو کو غور سے دیکھا تو اس کا ایک طرف سے پنک ٹوٹا ہوا تھا اسے ساویار نے بہت بری طرح سے پکڑ کر گاڑی سے باہر بھینکا تھا اس کا مطلب تھا کہ وہ سخنی ہو گیا تھا اور گھر جا کے ہی مجھے اس کی مر


اسے تقلیف میں دیکھ کر میں اپنے غم کو بھول گئی تھی اور میں بری طرح سے رونے لگی تھی جب میں گھر پہنچی تو گھر میں محمول موجود تھے ان کی موجود کی میں میں نے خود کو بڑی مشکل سے سمحالا تھا اور کمبر میں آنے کے بعد میں نے اپنا حولیہ ترس کیا تھا میں اس بات پر خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ میں بر وقت با حفاظت وہاں سے واپس آ گئی تھی ورنہ نا جانے کیا ہو جاتا اور پھر محمولوں کے گھر سے جانے کے بعد امہ کو میں نے رو د


وہ بھی بے یقینی سے مجھے دیکھتی رہ گئی انہیں بھی یہ بات سنکر شوق لگا تھا کہ زاویار اتنا گھٹیا بھی ہو سکتا ہے یہ بات اب بھو کو جب بتائی تو وہ بھی سخت پرشان ہو گئی اور کہنے لگے کہ اب وہ لوگ تو تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی وہ ایک امیر باپ کا بیٹا ہے اس کا اثر و رسوخ تو بہت زیادہ ہے میں اس سے تمہاری جان کیسے بجا پاوں گا اگر دوبارہ اس نے ایسی کوئی حرکت کی تو ہم کیا کر


تب میں نے ابو سے کہہ دیا کہ ہمیں کسی سے بھی ڈرنے کی کوئی صورت نہیں ہے آپ ساویار کے گھر والوں کو رشتے سے صاف انکار کر دے اور جب وہ انکار کی وجہ پوچے تو آپ انہیں سب سچ بتا دیں جب ہم نے کچھ کلت نہیں کیا تو ہمیں کسی سے ڈرنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے ابو نے بھی میری بات پر عمل کیا تھا اور اگلے ہی دن ساویار کے گھر والوں کو بلا کر انہیں ساری حقیقت بتا دی تھی


دوسری طرف ساویار بھی حیران پرشان تھا کہ میں وہاں سے کیسے فرار ہوئی تھی کیونکہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے دونوں دروازے بند کر کے گیا تھا اور بنا کسی کی مدد کی ایسا ممکن نہیں تھا اور میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی جس نے قیب سے میری مدد کی تھی مینو کے سخم پہلے سے بہتر ہو گئی تھی مگر ابھی تک وہ صحیح سے اڑھ نہیں پا رہا تھا وہ ایک ہی جگہ پر خموشی سے بیٹھا رہتا اور میرے چہرے کی طرف تکتا رہتا تھا


میری زاویار کے ساتھ منگنی ڈوٹنے کے لیے اطلاع سب لوگوں کو مل دی تھی اور وہ لوگ جو پہلی اس رشتے کی مخافت کرتے تھے انہیں جب یہ بات معلوم ہوئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹکانہ نہیں تھا اور میں خوش تھی کہ مجھے بر وقت اس کی اصلیت معلوم ہو گئی تھی ورنہ اگر وہ شادی کر بھی لیتا اور شادی کے بعد اگر مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کرتا تو تب میں کیا کر سکتی تھی تب تو میرے پاس فرار کا کوئی راستہ


میری اپنی رسامندی پر ہی تیپ آیا تھا شروع شروع میں وہ مجھے پسند نہیں تھا میں اسے چڑھتی تھی اور اسے دیکھ کر مجھے نفرت اور کراہیت کا احساس ہوتا تھا زاویار میری ہی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہ مجھ سے دو سال سینئر تھا میں نے جب یونیورسٹی میں اڈمیشن لیا تو اس کے بارے میں میں نے ترہ ترہ کی باتیں سمی تھی وہ یونیورسٹی میں فلرٹ مشور تھا اپنی دولت اور مردانہ و جاہ


اور پھر انہیں استعمال کر کے چھوڑ دیا کرتا تھا مجھے دیکھتے ہی وہ بیتابی سے میری طرف لپکا تھا اس نے مجھے بھی متاثر کرنے کی بہت کوشش کی مگر جو کہ میں اس کی اصلیت کو جانتی تھی میں اس کے سچ سے واقف تھی اسی وجہ سے میں اس کی باتوں میں نہیں آئی مگر اسے ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی مگر وہ کسی صورت بھی پاس نہیں آ رہا تھا کبھی کسی دوست کے ہاتھ وہ میرے لئے بھول بھیجواتا تو کبھی کسی دوست کے


محبت پر ِ توفے دے کر وہ یہ سمجھتا کہ میرے دل جید لے گا مگر میں ہر ایک چیز کو واپس لٹا دیتی اور ہمیشہ اسے اس بات کی بھی تاکید کرتی کہ میرے بارے میں کلت سوچنا چھوڑ دو میں تمہارے جیسے شخص کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی مگر وہ مستقل مصاج تھا یا ڈھیٹ تھا جو اس پر میری کوئی بار بھی اثر انداز نہیں ہوتی تھی وہ بھی اپنی کوششوں میں مصروف رہا اور میرے لاک انکار کے باوجود بھی

اب وہ بھانے بھانے سے مجھ سے بات کرنے لگا تھا ایک دن اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا یہ دیکھ کر میری پرداش جواب دے گئی میں نے اس کے چہرے پر چانٹا رسید کر دیا تھا تب اس کے آسپاس اس کے دوست آباب بھی موجود تھے جنہوں نے بعد میں اس کا بہت ریکارڈ لگایا اور اس کا مزاق اڑایا کہ تم تو کہتے ہو کہ تم پہ ہر لڑکی مرتی ہے کوئی لڑکی تمہیں نظر انداز نہیں کر سکتی تو پھر اس لڑکی کا دل چیت کر دک

اس کے بعد ساویار نے میرے راستے میں آنا چھوڑ دیا تھا اب میں نے دیکھا تھا کہ وہ بہت بتل گیا تھا نہ تو وہ پہلے کی طرح لڑکیوں کے ساتھ فلٹ کرتا تھا اور نہ ہی چچورے لڑکوں کی طرح چچوری حرکتیں کر کے دوسروں کو کوفٹ میں مبتلا کرتا تھا مگر ابھی بھی وہ جب میرے سامنے آتا تو گہری بھربور نظر سے میرے چہری کی طرف دیکھتا اور انجانے میں وہ میری مدد کر دیا کرتا تھا کئی بار میں کسی وجہ سے assignment بنانے میں لیٹ ہو گ

تو اس نے خود میری طرف سے assignment بنا کر جمع کر دی تھی ایک دو بار مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی تو اس نے میری دوست کی توسط سے میری یہ ضرورت پوری کر دی تھی مگر میں اس بات سے نواقب تھی کہ جب مجھے سچ معلوم ہوا کہ یہ پیسے مجھے ساویار نے بھیجے تھی تب مجھے اپنی دوست پر بہت غصہ آیا تھا میں نے ساویار کو پیسے واپس کرنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ سب میں نے اپنی خوشی سے کیا

دن بہ دین جب اس کا میں نے محبت بھرا روائیہ دیکھا تو میرے دل میں بھی اس کیلئے محبت کی جذبات اُبرنے لگے تھے اور پھر جب ہماری یونیورسٹی ختم ہو گئی تو تب اس نے مجھے پھر سے پروپروس کیا اور اب کی بار میں اس سے انکار نہیں کر سکی تھی وہ پھر اپنے پیرنٹس کو لے کر میرے گھر میں رشتہ لے کر آ گیا تھا میرے امی اب بو کو اس بار پر اعتراف تھا کہ وہ ایک امیر کھرانے کا لڑکا ہے اور نہ جانے میں اس گھر میں ا


انہیں بتایا کہ یہ لڑکہ مجھے سچ میں بہت پسند کرتا ہے میری بے روکی بدتنیزی کے باوجود بھی اس نے مجھے دودکارہ نہیں مجھ سے دور جانے کے بجائے میرے مسید قریب آنے لگا اور اب اس نے میرے لیے رشتہ بھیجوادیا مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اس سے بڑھ کے اس کی محبت کا اور کیا سبوت ہو سکتا ہے امی نے جب مجھے اس رشتے کے لیے خوش دیکھا تو وہ بھی مطمئن ہو گئی تھی انہی دنوں میری زندگی میں مین


اور پھر جب اسے گھر لے کر آئی تو مینو نے سب سے پہلے بات یہی کی تھی کہ میں زندگی کا خلط ترین فیصلہ کرنے جا رہی ہو مجھے اس جگہ سے دور رہنا چاہیے تب مجھے معلوم ہوا تھا کہ مینو باتیں بھی کرتا ہے جبکہ اس جگہ سے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا کہ مینو میں یہ کالٹی بھی موجود ہے مگر ایک بات میں نے یہ بھی نوڈ کی تھی کہ مینو جب کسی بات پر خوش ہوتا جب اس کا اپنا موٹ ہوتا تھا تو وہ بات کرتا تھا


اور اکسر وہ کسی سمجھ دار انسان کی طرح بات کرتا۔ میں حیرت سے اس کے مو کی طرف دیکھتی رہ جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو میں بھول جاتی تھی کہ وہ انسان نہیں بلکہ وہ ایک پرندہ ہے اور وہ بھلا میرے احساسات اور جذبات کو کیوں کر سمجھ سکتا ہے۔ مگر جب میں دکھی ہوتی تو مینو میرے پاس آکر بیٹھ جاتا اور میری دل جوئی کرنے کی کوشش کرتا۔ جب میں خوش ہوتی تو وہ بھی میری خوشی بھی خوش ہوتا۔ اپنی ہی زبان میں گ


جیسے اپنی خوشی کا اصحار کرتا مگر جب سے میری مغنی ہوئی تھی تب سے مینو بہت افسورتا رہنے لگا تھا وہ پرندہ تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ سمجھ گیا تھا کہ میں اب اس گھر سے رکست ہونے والی ہوں نجانے میرے بعد اسے کوئی اس قدر پیار بھی کرے گا یا نہیں مگر میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ شادی کے بعد میں مینو کو اپنے ساتھ سسرال میں لے کر جاؤں گی یوں بھی مجھے اس کی عادت سی ہو گئی تھی جب ب


تو مینو اس پر چپڑھ بڑھتا تھا امی کو زاویار کا ہمارے گھر میں آنا جانا مجھ سے بات کرنا پتہ سن نہیں تھا زاویار نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا تبھی وہ مجھے کہنے لکا کہ تمو مجھ سے باہر ملیا کرو میں جب تک تمہیں دیکھ نہ لوں مجھے تسلی نہیں ہوتی مگر امی کی وجہ سے میں یہ فیصلہ کرنے سے ہجک جا رہی تھی امی نے بھی مجھے سختی سے تاکیت کی تھی کہ اگر تم اپنے شہر کے دل میں ا


تو کبھی بھی اس سے اکیلے میں شادی سے پہلے باہر مد ملنا ورنہ تم اپنی عزت کھو دوگی امی کی بات مجھے تب سمجھ نہیں آئی تھی مگر اب جا کر مجھے یہ بات معلوم ہوئی تھی اور اس وقت پر بھی حیرت ہوئی کہ مینو نے اس شخص کے بارے میں کس قدر اچھا اندازہ لگایا تھا وہ ایک پرندہ ہو کر بھی اس شخص کو جان گیا تھا جبکہ میں نے تو کتنا ٹائم اس کے ساتھ گزارا اس کی فترت کو میں بہت اچھے سے سمجھتی


اور سمجھ بیٹھی کہ وہ سچ میں مجھ سے محبت کرنے لگا ہے زاویار نے ابو کو کال کر کے دھمکی دی کہ اگر ابو نے میرا اس کے ساتھ رشتہ ختم کر دیا تو وہ میرے ساتھ بہت بری طریقے سے پیش آئے گا ابو سخت پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا اب ہم اس امیر ذادے سے کیسے جان چھڑا پائیں گے انہی دنوں میں جب مجھے کوئی راہے فرار نظر نہیں آ رہی تھی اسی دن ایک ایسی خبر ملی جسے سن کر ہم سب لوگ حیران رہ گئ


اور اس اکسیڈنٹ میں ساویار کے سر پر گہری جوٹ لگی تھی اور وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگا تھا وہ بیٹھے بیٹھے رونا لگتا چلانا لگتا اور کسی نادیدہ ہستی سے معافی مانگنے لگتا اب اس کے بارے میں دن بادن ایسے ہی خبریں سننے کو مل رہی تھی کہ جب اس کے سخم ٹھیک ہو جائیں گے تو اس سے پاغل خانے میں داخل کرو دیا جائے گا پھر ایک دن اس کی امی کی روتے ہوئے کال آئی وہ مجھے کہنے لگی


اس کا کہنا ہے کہ اگر مجھے مریم موف کر دیں تو اس خوف اور دہشت سے مجھے نجاب نل سکتی ہے تم نہیں جانتی کہ میرا بیٹا کتنی عزیت میں ہے پوری پوری رات وہ سو نہیں سکتا پوری پوری رات وہ جلاتا رہتا ہے روتا رہتا ہے نجانے کس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر وہ موفی مانگتا رہتا ہے اور رو رو کر مجھے کہتا ہے کہ آپ ایک بار مریم کو لے کر یہاں بھی آ جائیں اس سے بولیں کہ وہ مجھے موف کر دیں اگر وہ کہیں گی


آپ نہیں جانتے کہ یہ مجھے کتنی دتلیف پہنچاتی ہیں مجھے اس کو دیکھ کر کس قدر خوف کا احساس ہوتا ہے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تب سے آویار کی امی کی بات سن کر میں حق کا بکہ رہ گئی تھی کہ وہ کیسی باتیں کر رہی ہیں بھلا میں کیسے اس آویار کو عزیز سے نجات دلات سکتی ہوں میں نے انہیں کہہ دیا کہ اس آویار نے میرے ساتھ جو بھی کیا میں نے اس کے لیے اس سے معاف کر دیا خدا کا شکر ہے کہ میری عزت میں حفوظ رہی


ورنہ آپ کے بیٹے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میں جانتی تھی کہ میرے امی ابو کبھی بھی اس بات کے لیے رزامن نہیں ہوں گے کہ میں زاویار کو دیکھنے کے لیے حسپتال جاؤں مگر جب اس کی امی صبح شام کال کرنے لگی تو آخرکار ابو مجھے کہنے لگے کہ آج شام کو تم دونوں ماہ بیٹی تیار رہنا آج میں تم لوگوں کو حسپتال میں لے کر چلوں گا زاویار کی امی کی بار بار کال آ رہی ہے کہ ایک بار تم وہاں پر آ کر


کہ تم نے اس سے مف کر دیا تو اس سے تسلی ہو جائے گی اور وہ سکون میں آ جائے گا وہ بہت عزید میں ہے اب بوں کی بات سن کر میں نے سر شکا دیا یوں بھی میں ہمیشہ سے ان کی بہت فرما بردار تھی اور ان کی مرسی کے خلاف میں کوئی بھی کام نہیں کرتی تھی پھر شام کو میں مارے بھنڈے ہسپتال میں جانے کے لیے دیار ہوئی جب ہم ہسپتال میں پہنچے تو پورے ہسپتال کا املہ ایک کمبرے کے باہر کڑے تھے وہاں پر گویا لوگوں کا حجوم تھ


اور وہ سب لوگ تماشا دیکھ رہی تھے یہ دیکھ کر میں پوری طرح سے گھپرا گئی اتنے حجوم سے گزر کر اس کمری میں جانا میرے لیے آسان نہیں تھا اتنے حجوم کو دیکھ کر میرے سانس رکھنے لگا تھا میں ابو سے کہنے لگی کہ ابھی ہم واپس جلتے ہیں ہم بعد میں آجائیں گے مگر ابو نے مجھے کہا کہ ہم یہاں تک آ گئے ہیں اب اس کی عیادت بھی کر لیتے ہیں اور پھر جب ہم اس کمری میں پہنچے تو وہ کبھی کمری کی کسی کونے کی طرف دیک


اور کبھی بوری طرح سے رونے لگتا کبھی کسی نہ دیدہ ہستی کی طرف دیکھ کر ہاں چوڑ کر معافی مانگنے لگتا تھا یہ سب حرکتیں دیکھ کر لوگ تو اسے پاغل قرار دے رہی تھے کوئی اس کو دیکھ کر ہنس رہا تھا تو کسی کی آنکھوں میں اس کیلئے رحم تھا جب اس نے مجھے دیکھا تو میرے سامنے دونوں ہاں چوڑ دئیے روتے ہوئے کہنے لگا کہ تم نہیں جانتی کہ میں کس قدر عزید میں ہوں تمہارے


تم جانتی ہو یہ انسان نہیں ہے بلکہ یہ ایک جن ہے یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے اور اس نے مجھے اس بات کی بنا پر بہت دقلیف دی ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ غلط کرنے کی کوشش کی مگر اب میں اپنے کیا پر شرمندہ ہوں میں دوبارہ ایسا کچھ بھی نہیں کروں گا تم اس سے کہو یہ مجھے معاف کر دے مجھے میرے گناہ کی جتنی سزا ملی تھی کافی ہے میں چلنے پھیرنے سے کاثر ہو جکا ہوں میری ایک ٹانگ بری طرح سے فریکچر ہو گئی ہے نجانے میں ک


خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو یہ کہہ کر وہ بھوٹ بھوٹ کر رو پڑا تھا اس کے بارے میں میں نے سُنا تھا کہ وہ پاکل ہو جکا ہے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے مگر اب جب اسے دیکھا تو مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے وہ نہ صرف پاکل ہو گیا تھا بلکہ اب شاید اس میں زندگی بھر ایسا ہی رہنا تھا اس کے ماں باپ اسے دیکھ کر رونے لگئے اور مجھے کہنے لگے کہ اگر تم اسے ماف کر دو تو ہو


اور اس کی سزاہ میں کمی ہو جائے اور یہ ٹھیک ہو جائے۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا، خدا بھی تمہیں معاف کر دے۔ جب میں گھر آئی تو میرے دل پر عجیب سا بوچ تھا۔ مسلسل میں اسی کے بارے میں سوز رہی تھی اور ساتھ میرے ذہن میں یہ بار بھی گوم رہی تھی کہ اس نے مجھے یہ کیوں کہا کہ وہ توتا کوئی عام توتا نہیں ہے۔ اکسر مجھے بھی اس بات کا احساس ہوا تھا کہ وہ توتا کچھ اور ہی ہے۔


کیوں کہ اس نے نہ صرف میری مدد کی تھی بلکہ کئی بار جب میں کسی مشکل میں تھی اس نے مجھے ایسا مشورہ دیا تھا کہ میں حیران رہ گئی تھی اکسر جو بات وہ کہتا تھا ویسے ہو جاتی تھی اور اکسر اس کی کہی ہوئی باتیں صدہ ثابت ہو جاتی تھی مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دوسری مخلوق ہو کیونکہ وہ دیکھنے میں تو ایک عام پرندہ ہی تھا یہ ایک الک بات ہے کہ وہ باتیں کرتا تھا اس لئے شاید وہ باقی پرندوں سے م

میں علی فلیلہ تاستان پر کبھی بھی یقین نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی مجھے ایسی خیالی باتیں کرنے والے لوگ اچھے لگتے تھے۔ مجھے ایسے لوگ حقیقت سے دور اور بیوکوف لگتے تھے۔ اس دن میں نے زویار کے ساتھ جو خوفناک مخلوق دیکھی تھی اس کو بھی میں نے بعد میں اپنا وہم کرار دے کر اس بات کو ڈال دیا تھا۔ آج اب میں سو رہی تھی تو میرے کانوں میں ایک عجیب سی آواز سنائی تھی۔ اس آواز کی تاثیر صدہ میرے دل میں ات


وہ آواز بہت دلکش اور گھمبیر تھی مگر وہ میرے لئے اجنبی تھی آواز کو سن کر میں اٹھ کر بیٹھ گئی اب جب میں نے دیکھا تو کمبر میں میرے اور میرے اس طوطے کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا مگر یہ آواز بدستور سنا دی رہی تھی اب جب میں نے حیرت سے آواز کی تاقوب میں دیکھا تو وہ آواز اس طوطے کی تھی اس کی اس کدر خوبصورت مردانہ گھمبیر آواز سن کر میں اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی اس سے کہنے لگی کی


یہ تمہاری آواز ہے یا کمبر میں کوئی اور ہے جو مجھے نظر نہیں آ رہا وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا میں ہی ہوں جو تم سے مخاطب ہوں میرے علاوہ اور کوئی بھی نہیں اب میں حیران پریشان رہ گئی کہ وہ توتا ایک مرد کی آواز میں کیسے بات کر سکتا تھا جب یہی بات میں نے اس سے پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ دراصل میں ایک جن زادہ ہوں اور میں اپنی آواز میں ہی تم سے بات کر رہا ہوں آج میں پہلی بار تم پر اپنی حقیقت آیاں کر رہا ہوں


دیکھتے ہی دیکھتے اس پرندے نے اپنا حولیہ بدل لیا اب وہ انسانی روپ میں میرے سامنے تھا اس قدر حسین اور بجی چہرہ دیکھ کر میری آنکھیں حیرت سے پڑھی کی پڑھی رہ گئی تھی اب میں بے خیالی سے اسے کتنی دیر تک دیکھتی رہ گئی اسے کہنے لگی کہ تم توتے سے انسان کے روپ میں کیسے بدل گئے کون ہوں تم؟ تب وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا میں ایک جن زادہ ہوں میں تمہیں پسند کرتا ہوں تمہ

تم تو میری محسنہ ہو جس نے میری مدد کی اور مجھے قید سے بجایا اور کسی ظالم کے ہاتھ میں جانے سے بھی تمہاری وجہ سے ہی میری بچد ہوئی ورنہ نہ جانے میرے ساتھ کیا ہوتا اس کی بات سن کر میں نے حیررز سے دیکھا اور اس سے کہنے لگی کہ اگر تم ایک جن سادے تھے تو تم اس پنجرے میں کیوں قید تھے تم وہاں سے آساد کیوں نہیں ہوئے اس شخص نے تمہیں کیسے قید کیا میں نے تو سنا ہے کہ جن سادے بہت طاقتر ہوتے ہیں اور ان کو قید کرنا یا پک

وہ کہنے لگا کہ بات تمہاری بھی ٹھیک ہے مگر اس وقت میرے ساتھ جو بھی ہوا تھا وہ میری اپنی خلطی کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ کسی میں اتنی جرد نہیں کہ کوئی میرے بال بھی بیکا کر سکے میں شہن شاہی جنات کا خاص ملازم ہوں میں جنات کا سردار ہوں اور میرے پاس عام جنات سے کئی گناہ سیادہ طاقت ہے اور مجھ سے ٹکر لینے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا میں نے حیرت سے اسے دیکھا اگر ایسا ہے تو تم اس توتے کی روپ میں کیوں کر


کیا تم اس ذریعے سے میرے پاس آنا چاہتے تھے؟ تب وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ آپ نے اتفاقا نہیں مجھے خرید لیا تھا اور اگر آپ مجھے خرید کر نہ لاتی تو نہ جانے میرے ساتھ کیا ہوتا تب وہ اپنی کہانی سناتے ہوئے کہنے لگا کہ کچھ سال پہلے ہی میں انسانی دنیا میں آیا تھا مجھے اپنی حدود کو توڑنے کی اجازت نہیں تھی مجھے ایک حد تک انسانی دنیا کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی اجازت دی گئی


تو میں سزا کا مستحیق ہو سکتا تھا۔ اس لئے مجھے اپنی حدود اور پریود کا اچھے سے اندازہ تھا۔ مگر نہ چانے کیسے میں ایک آتم سادی کے پیار میں پڑھ کر اپنی تمام حدود کو پھول گیا تھا۔ وہ لڑکی بلا کی حسین تھی اور اس سے دیکھ کر میں نے میرے دل میں اس کے ساتھ شادی کی خواہش پیدا رہنے لگی تھی۔ باوجود اس کے کہ میں جانتا ہوں کہ انسان اور جنات میں بہت فرق ہے۔ جنات آگ سے بنے ہیں اور ان کی کبھی بھی انسانوں کے ساتھ شادی نہیں ہو

مگر اس کے باوجود بھی اس کی محبت میرے رگوں پے میں بسنے لگی تھی اور میرے لیے اس سے دور رہنا مشکل ہو گیا تھا تب ہی میں نے اس کی شادی میں رکاورت ڈالنا شروع کر دی جو بھی رشتے والا آتا میں کوئی نہ کوئی فساد دلواتیا کرتا جس کی وجہ سے اس لڑکی کا رشتہ ہوتے ہوتے ٹوٹ جاتا کافی سال تک یہ ہی سب چلتا رہا اور پھر ایک دن وہ ایک نیک صاحب شریعت شخص کے پاس پہنچے وہ شخص بہت ہی زیادہ

ان کے پاس بڑے بڑے اور نیک جنات کا بھی آنا جانا تھا اب جب ان کے پاس سارا معاملہ پہنچا تو تب وہ بھی میرے بارے میں چان گئی تھی اور پھر انہوں نے مجھ سے باز پرس کی تو میں نے ان سے بکتمیزی کر دی انہیں بھی میں نے سختی سے یہ بات کہہ دی کہ میں اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتا اور تب ہی پھر سزا کے طور پر مجھ سے میری طاقتیں چھین لی گئی تھی اور مجھے اس روپ میں بدل دیا گیا تھا کتنے سال تک میں اسی روپ میں


کیوں کہ میرے تمام طاقتیں ہی مجھ سے چھن گئی تھی اور پھر ایک دن اس شخص نے مجھے قید کر لیا وہ مجھے بہت کم کھانے کو دیتا تھا کبھی کبھی پینے کو پانی بھی نہیں دیتا تھا میں کتنے کتنے دن تک بھوک اور پیاس سے ندھار پڑا رہتا جب میری مرنے والی حالت ہو جاتی تو تب اس شخص کو مجھ پر رحم آ جاتا اور میرے آکے دانا اور پانی رک دیا کرتا تھا میں اس کے حق میں بہت بدعہ کرتا تھا کہ یہ


اور جس نے مجھے اس قدر تقلیف میں مبتلا رکھا خدا اس کی زندگی کو بھی اسی طرح سے مشکل بنائے رکھی تب مجھے اس بات کا بھی احساس ہوا تھا کہ میں نے اس لڑکی کے ساتھ کتنی زیادہ کی تھی میری وجہ سے وہ اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی اس نے بھی کہیں آنا جانا چھوڑ دیا تھا اور جب میں خود قید نہیں تھا تو مجھے اس بات کا احساس ہو رہا تھا مگر پھر تم وہاں پر آئی تم نے مجھے اسے آسات کروالیا


میں اس بدوہ کے اثر سے نکل گیا تھا مجھے میری کھوئی ہوئی طاقتیں بھی واپس ملنے لگی تھی اور میں اپنے اصل روک میں بھی آ گیا تھا مگر میں تمہارے سامنے اسی توتے کے روک میں ہی جاتا تھا تاکہ اسی بحانی سے ہی سہی میں تمہارے ساتھ رہ سکوں تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اب میں نے زاویار کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اسے اس کی غلطی کی سزا دے رہا ہوں کیونکہ اس نے تمہارے ساتھ پہلٹ غلط کرنے کی


تب میں نے اسے کہا کہ ایسے مد کرو تم اسے معاف کر دو مجھے لگتا ہے کہ اسے کافی سزا مل گئی ہے اب وہ بھی اپنی کیے پر شرمندہ ہے تم آج کے بعد اسے تنگ مد کرنا اور پھر کافی ٹائم کے بعد جاکی معلوم ہوا کہ زاویار اب پہلے سے بہر بدل گیا تھا وہ بہت نیک ہو گیا تھا پانچ وقت کی نماز صدا کرنے لگا تھا اور وہ اپنے کیے پر سچ بھی شرمندہ تھا اب اس نے پاکلوں کی طرح چیکھنا چلانا بھی چھوڑ دیا تھ

اس سے خوف صدا نہیں کرتا تھا اور پھر ایک دن جب اس کے ماں باپ پھر سے ہمارے گھر میں سوالی بن کر آ گئی تو تب میرے ماں باپ بھی اس بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کیونکہ جو کچھ ساویار نے کیا تھا اس کے بعد دوبارہ اس شخص پر اعتبار کرنا اتنا آسان نہیں تھا مگر جب وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو پڑا اور مجھے کہنے لگا میں تم سے سچمی محبت کرتا ہوں اس بات کا احساس مجھے اب جا کر ہوا ہے اگر تم مجھ سے چھن گئی تو


اور پھر میں نے اس کے بندے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ کر اپنے دل میں اس کے لیے نرم جذبات کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھا اور تب امی اب بو کو یہ کہہ دیا کہ آپ کو جو بہتر لگتا ہے آپ وہ کریں کیونکہ ماباب کبھی اپنی اولاد کیلئے غلط نہیں سوچ سکتے امی اب بو بھی ساویار کی غلطی کی وجہ سے اسے مزید سزا دینے کے حق میں نہیں تھے تب ہی انہوں نے میری شادی ساویار کے ساتھ کر دی اور اس جن ساویار نے بھی مجھے یہی بتایا تھا کہ


اسے اس بار پر سزا دینا ٹھیک نہیں ہے جس گناہ پر وہ شرمندہ ہے اور اب میری شادی کو بہت سال گزر گئی ہیں زاویار میری اس قدر عزت کرتا ہے اور مجھ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ میں خود پر رج کرتی ہوں اور اس بار پر وہ میرا شکر گزار ہے کہ میری وجہ سے اس کی زندگی بدل گئی اور وہ نیک راستے پر چل پڑا

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow