ناگ راجہ اور سمرا کی ایک دلچسپ کہانی
ناگ راجہ اور سمرا کی ایک دلچسپ کہانی
سمرا مرنے دو اسے میرب نے سمرا کو خائی کے زیادہ قریب جاتے دیکھا تو چیکھتے ہوئے اسے بلایا مگر سمرا تو اپنے کان بند کر کے او سامپ کو وچانے میں لگی ہوئی تھی مجھے ایک چڑی دو وہ خائی میں گر گئی ہے سمرا نے اونچی آواز میں کہا تو میرب نے اسے پیچھے سے کھینچنا چاہا مگر وہ لڑکی بھی اپنی دھونکی پک کی تھی اس نے میرب کو ایک جانب دھکا دیا اور کہا مجھے چڑی پکڑاو
پھر اگر مجھے کچھ ہوا تو تم سب کو خود ہی جواب دینا سمرہ کے لحظہ میں کتنی سختی تھی ایک لمحے کے لیے میرب بہول گئی پھر جلدی سے بولی اچھا دے رہوں سبر کرو خبردار ہاتھ لگایا تو تمہارا تو ویسے بھی بھروسہ نہیں کہ اس وقت کیا کر بیٹھو میرب نے ارتکر دیکھا تو ایک موٹی سی لمبی چڑی اس کے پیروں کے پاس کھڑی تھی اس نے وہی اٹھا کر سمرہ کو پکڑا دی پھر سمرہ نے اپنا دپ
اور میرب کو اس کا دوسرا حصہ پکڑا دیا کہ اگر میں توازن کھو بیٹھوں یا گرنے لگوں تو مجھے اس کے پیچھے سے کھینچ لینا میرب ابھی اسے منع کر رہی تھی کہ تم بہت بڑا خطرہ مول لے رہی ہو ایک سامپ کے پیچھے اپنی جان گوان بیٹھو گی مگر سمرہ ایک قدم آگے ہوئی پھر اندھی ہوتی ہوئی کھائی کے ایند سیرے پر جا پانچی جہاں ایک لمبا کالا ناگ جھاڑیوں میں بری طرح سے پھنسا ہوا تھا
تو وہ خود ہی اس کی چڑھی پر چڑھ کر ساکت ہو گیا سمرہ نے ایک نظر اس کھائی میں ڈالی تو وہ انتہائی گہری تھی یہاں تک کہ اسے زمین بھی وہاں سے دکھائی نہیں دی رہی تھی چڑھی کو جھٹکے سے اپنے پیچھے پھینکتے ہوئے اس نے میرب کی دپٹے کو کھینچتے ہوئے بولا تو میرب نے پوری طاقت اسے پیچھے کھینچا وہ ایک چھٹکے سے پیچھے کے جانے پر جا کر نیچے گرے دیکھا بچالی میں نے سامپ کے جان
سمرہ نے خوش ہوتے ہوئے چاروں طرف نکاح دڑائی تو وہی کالا ناغ ایک جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا میرے فتہ فتہ اس کے پاس آئی اور پوچھا کہہی چوڑت تو نہیں لگی تمہیں میں مورے کو بتاؤں گی کہ تم نے آج کیا حرکت کی ہے ایسے ہوتا ہے بھلا مرنے دیتی سام کو کیا پتہ اس کی موت ایسے ہی لکھی ہوتی سمرہ نے حیرانی سے اپنی بہن کو دیکھا اور بولی لو بھلا ایسے کیسے اس کی موت لکھی ہو سکتی ہے اس
کیوں کہ اگر اس سامپ نے یہ ہی منہ ہوتا تو اللہ ہمیں یہاں نہ بھیجتے کہ ہم اس کی جان بچائیں بات کرتی ہو تم اچھا چلو اب گھر چلیں دیکھنی رہی ہو مگربوری ہے پھر پہاڑ کی ڈیلانوں سے اترنا بھی الگ ہی مرحلہ ہے مگر تمہیں کیا فکر بس اپنی کرنی ہوتی ہے اگر مورے نے ڈاٹا تو خود ہی ان کی ڈانت برداش کرنا سمرہ زمین سے اٹھی تو منت سماجت والے لحجے میں بولی دیکھو میرب
مجھے بھی کچھ نہیں ہوا خود دارہ مورے کو کچھ مٹ بتانا ورنہ چمٹو سے ماریں گی مجھے وہ پیاری بہن نہیں ہو میری میرب نے اس بات میں سر ہلائیا تو خوش ہو کر بہن کے گلے لگ گئی پھر دونوں تیز رفتاری سے کھر کے جانے بھاگی جہاں مورے واقعی ہاتھ میں چمٹہ لیے ان دونوں کی وابسی کا انتظار کر رہی تھی کہاں گئی تھی تم دونوں پتہ نہیں ہے کہ مغرب ہو گئی ہے کوئی گھر بھی ہے تمہارا مورے بہت غ
مورے! وہ ہم واپس آرہے تھے جب ایک بکری کا بچہ جھاڑیوں میں پھرس گیا تھا تو سمرہ نے اس کی جان بچائی سمرہ نے جب بہن کو بات سمحالتے دیکھا تو فوراً بولی ہاں یہ دیکھیں اگر یقین نہیں آتا تو یہ بھی دیکھیں ساتھ ہی اس نے اپنی گونیوں اور گھٹنوں سے کپڑا ہٹا کر خراشیں دکھائی یہ دیکھ کر مورے کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا پڑھا تو ان دونوں کو کھر جانے کی اجازت ملی اندر جاتے ہی سمر
کہ اگر آج وہ نہ ہوتی تو مورے ان دونوں کی گرتنے اڑا دیتی تھوڑی دیر بعد وہ ان دونوں کیلئے دود گرم کر کے اندر ہلدے ڈال کر لے آئی جس سے میرب نے تو پینے سے انکار کر دیا مگر سمرہ جھٹ ختم کر گئی اسے دود ویسے بھی بہت پیسن تھا دود پیتے ہی سمرہ پر ایک مستی سے سوار ہونے لگی وہ بار بار جھومتی ہوئے کبھی ادھر اور کبھی ادھر گر رہی تھی کیا ہوا ہے؟ مورے نے پریشانی سے پوچ
شاید چکر آگے، اتنی بڑی تو کھائی تھی، اسے دیکھتے دیماہ گھوم رہا تھا مجھے لگتا ہے وہی چکر ہیں مورے خاموش تو ہو گئی مگر انہیں فکر تھی سمرہ کی وہ ہمیشہ ایسے ہی التے سیدھے کام کرنے میں جتی رہتی چلو اٹھو جاؤ جاکر سو جاؤ مورے نے سمرہ کو کہا تو میرب ایک چھٹکے سے بولی مورے اشا کی نماز کون پڑے گا؟ اگر سمرہ نہیں پڑے گی تو میں بھی نہیں پڑوں گی
تم نہ تو پڑھو عیشا کی نماز بتاتیوں میں تمہیں اور سمرا تم جا کر فورا سے پہلے لیٹو اور سوتی بنو اگر جاکتی ہوئی رہی تو یاد رکھنا تہجد بھی پڑھو گی تم سے سمرا نے یہ سنتے ہی چلانگ لگائی اور اپنے کمبرے میں بھاک گئی نماز پڑھنے سے تو ان دونوں بہنوں کی جان جاتی تھی مگر مورے بھی اپنی دھونکی پکی تھی انہیں نماز پڑھنے کے بغیر سونے نہیں دیتی تھی اور نہ ہی کچھ
سمرا جاگرہ تھی چپکے سے رزائی سے مو باہر نکالا تو میرب ایک دم سے مورے کو بلانے لگی اس نے فتح فتح اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور اپنی رزائی کی جانی بھی اشارہ کیا میرب نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا تو سمرا رزائی کے اندر ٹارچلا کر بولی وہ کوئی ناول پڑھی تھی یہ کہاں سے آیا تمہارے پاس میرب نے حیرانی سے پوچھا میری سہلی ہے نا آصفہ اس نے دیا ہے
بڑا خوفناک نوول ہے، ڈر بھی لگ رہا ہے اور مزا بھی آرہا ہے۔ سمرہ نے بڑے رازدارانہ انداز سے کہا تو میرب لل چاہتے ہوئے بولی لاؤ مجھے بھی پڑھنے دو، وانتہ میں امہ کو لگا دوں گی شکایت خبردار شکایت لگائے تو پھر تو بلکل بھی نہیں دینا تمہیں یا تو میرے پڑھنے کے بعد پڑھ لینا یا پھر جہاں سے میں پڑھ رہی ہوں وہاں سے شروع کر دو میرب سے انتظار کہانا تھا فورا
میرب نے کہانی کا نام دیکھا تو حیرانی سے سمرہ کو دیکھ کر بولی کہ کیا پڑھ رہی ہو تم یار چپ کر کے پڑھو نا ناگ راجہ کی کہانی ہے میری میری سہری نے دیتھی کہتی ہے کہ جنو بہتوں سے بھی زیادہ خوف ناگ کہانی ہوتی ہے ناگ راج کی مجھے تو بہت اچھی لگ رہی ہے پڑھنا میرب نے وہ کہانی بلکل تھوڑی سی پڑھی تو وہ کافی تر گئی اس نے جد سے مورزائی سے باہر نکالا اور سمرہ سے کہا تم خود ہی پڑھو مجھے یہ فضول سے کہان
سمرہ نے انتہائی غصہ سے اسے اپنی رزائی سے باہر ڈھکا دیا تو وہ خود کہانی پڑھنے میں مغن ہو گئی میرب کو غصہ تو بہت چڑا مگر وہ زبت کر گئی کیونکہ سمرہ تھی ہی ایسی تقریباً آدھی رات کا وقت تھا میرب کی آنکھ سیسی کی آواز سے کھولی اس نے چانک کر پورے کمرے میں دیکھا مگر سمرہ گہری نین سوری تھی اور کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا مگر سیسی کی آواز وہ ساف سن سکتی ت
اچانک سے اٹھ کر اس نے کھڑکی میں دیکھا مگر وہاں پر تو اسے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا میرب کافی حران تھی کہ جب کچھ بھی نہیں ہے تو ایسی آوازیں کون نکال رہے اس نے پرسکون ہو کر کان لگا کر سنا تو اسے وہ آوازیں سمرہ کی چارپائی کی جانب سے آ رہی تھی جیسے ہی میرب نے بہن کی چارپائی کے نیچے دیکھا تو اس کی تو جان نکل گئی وہ پورے زور سے چیختی سمرہ کی چارپائی پر چڑ گئی سمرہ بھی گہری نین سے اٹھی تو ب
کیا ہوا میرب تم ٹھیک تو ہوں نا؟ اسے اصل وجہ کا علم ہی نہیں تھا تبھی جلدی سے میرب کو دیکھنے لگی کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو مگر میرب کی تو بولتی بند ہو چکی تھی وہ بار بار چارپائی کے نیجے کے جانب عشارہ کر رہی تھی اتنی دیر میں مورے اور بابا بھی آ چکے تھے وہ بھی میرب سے یہی پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا ہے جب چارپائی کے نیجے دیکھا تو وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا بابا نے میرب کا ہاتھ
اور اسے چارپائے پر ویٹھایا سمرہ بھاک کر اس کے لئے پانی لے کر آئی جب تھوڑی دیر بعد وہ صرف پرسکون ہوئی تو اس سے پوچھا کیا بات ہے آخر کیا دیکھ لیا تم نے جو آدھی رات کو چیکھے مارنے لگی ہو بابا میں نے ابھی سمرہ کے چارپائے کے نیچے ناغ بیٹھاوا دیکھا ہے سمرہ ایک دم صدی ہوئی گویہ وہ اسے ناغ اب دکھائی دیا ہو مگر اب تو یہاں کچھ بھی نہیں ہے اور کمرا بھی تو پوری طرح
وہ اندر اگر خدکی سے آ بھی جائے تو واپس نہیں جا سکتا اگر ہم کہیں کہ کسی چیز کے نیچے چلا گیا ہوگا تو یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ ان دو چار پائیوں کے علاوہ اس کمرے میں پڑھائی کچھ نہیں ہے بابا نے بڑے مدبرانہ انداز میں بات کی تو وہ خاموش ہو گئی اب سمرا جلدی سے بولی ہاں بابا اس سے وہم ہوا ہوگا الٹے سیدھے خواب دیکھ کر حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے میرب نے چونک کر سمرا کو دیکھا تو اس نے بہن
میرب کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ لڑکی کیا کر رہی ہے مگر اس نے بھی سمرہ کی بات کے ساتھ اتفاق کیا اور بولی ہاں شاید ہے خواب دیکھا اگا ورنہ اگر ناغ ہوتا تو کہاں جاتا بابا اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے مورے خود پریشان تھی گویہ حالات کو سمجھ نہیں پاری تھی آج تک کبھی بھی انہوں نے یا ان کے بچوں کو ایسے خواب نہیں آتے تھے پھر میرب کو ایسا خواب دکھائی د
اس وقت انہوں نے کچھ نہیں کہا اور چپ چاپ وہاں سے چلی گئی میرب کی بچی مروایے گی کیا خواب دیکھا ہوگا ایسے ہی چیکھنے کا شوک ہو رہا ہے تمہیں سمرہ نے اسے کچھ کچھا کر دیکھتے ہوئے کہا بگر میرب اب تک ششوپنج کا شکار تھی وہ پر سوچ لحظے میں گویا ہوئی سمرہ میں نے اسے یہاں اسی کالے ارناک کو کندلی مارے دیکھا تھا جس سے ہم نے پہاڑ کی چوٹی پر بچایا تھا
تم سمجھ نہیں رہی ہو یہ ناگ جب کسی کے پیچھے پر جائیں تو مرتے دم تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے سمرا مجھے لگتا ہے وہ ناگ تمہاری مہک پا گیا ہے تبھی وہ تمہاری چار پائی کے نیچے بیٹھا ہوا تھا میرے دور کی کوڑی لائی تھی مکر سمرا کو اس بات کی رتھی برابر پرواہ نہیں تھی وہ کندھے اچھکا کر بولی تو اچھا ہے ناگ راج مجھ پر آشک ہو جائے گا پھر وہ میری ہر خواہش کو پورا کرے گا تمہارا تو
یہ محض کہانیوں کی باتیں ہیں کہ آشک ہو جائے لیکن ایک بات تو بتاؤ میری دوست نے سنائی تھی مجھے اس کے گاؤں میں ناگ نے ایسے ہی ایک لڑکی کی بو پالی تھی عشق کا تو پتہ نہیں لیکن جب جب اس لڑکی کی شادی تھی کہتے تھے کہ اس کا دلہ پہلی رات میں ہی مر جاتا تھا ہاں! اب کہہ دو کہ یہ جو بھی ہوتا ہے اسی ناگ کی وجہ سے ہی ہوتا تھا وہ ہی اس لڑکی کے دلہ کو مار دیتا ہوگا سمرہ نے اس کا بلا وجہ
مگر وہ سنجیدگی سے بولی ایسا ہی تھا سب کہتے تھے کہ اس دلھے کو ناگ ہی آکر مارتا ہے تو ان لوگوں کو یہ بات کیسے پتہ چلتی تھی؟ سمرا رات کے اس پہر واقعی میں بحث کرنے کے موڈ میں تھی کیونکہ اگلی صبح جب دلھن اٹھتی تھی تو وہ بالکل ٹھیک ہوتی تھی لیکن دلھا مرہ ہوتا تھا، اسے ناگ مارتا ہے اس بات کا پتہ تب چلا جب ہر دلھے کے بستر کے نیچے سے ناگ کی کھال ملتی تھی یہ
جاؤ جاؤ بلا وجہ رات کی اس پہر ڈراریو اچھا نہ ایسا کچھ نہیں ہوتا تمہاری باتیں تو اس کہانی سے بھی زیادہ خوف نہ کے جو میں نے پڑھی ہے میرب نے بھی مو بنا کر بستر پر کروٹ لے لی لیکن وہ پوری اقین تھی کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا جو تھا وہ حقیقت میں تھا مگر سمرا کو کون سمجھائے؟ کوئی نہیں جب اس پر بیتے گی تو خود ہی سمجھ جائے گی میرب نے یہ آخری بات بولی تھی جو نیت کی وادی میں اترنے سے
جب چوہے روز سمرہ اٹھی تو مورے نے حرانی سے میرب کو دیکھتے ہوئے پوچھا میرب کیا تمہیں بھی سمرہ کے بال پہلے سے زیادہ سیاہ نہیں لگ رہے؟ میرب نے دیکھا تو واقعی میں سمرہ کے بال بلکل سیاہ تھے ورنہ اس کے بالوں کی بھوری رنگتھی دھوپ میں جاتی تو بھورے رنگ کے معلوم ہوتے جب چاؤں میں رہتی تو سیاہ نظر آتے بکر اس روز سمرہ کے بال دھوپ میں بھی بلکل سیاہ تھے مورے نے سمرہ کو اپنے ق
کچھ لگا تو نہیں رہی ہو باولوں پر وہ جلدی سے سرنفی میں ہلائ کر بولی مورے آپ کی قسم میں نے کیوں لگانا ہے بس رات کو ذرا ذرا سر میں درد ہو رہا تھا اس کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں مورے خاموش ہو گئی میرب بھی ہران تھی مگر اس مرتبہ اس نے اپنی کوئی بات یا جواز پیش نہیں کیا تھا جب رات ہوئی تو سمرہ کو ہلکے ہلکے چکر آنے لگے دیکھنے والے کو چکر ہی لگ رہے تھے مگر سمرہ بالکل مدہو
اسے اپنے سر کا یوں جھومنا بے حد اچھا لگ رہا تھا شکر اس وقت وہ کمرے میں بلکل اکلی تھی ونہاں میرب تو ضرور کوئی اور بات بنا لیتی ابھی اسے اتنی مزدار کافیت میں کچھ دیر گزری تھی جب میرب کمرے میں آئی اور اسے بولی چلو باہر سے پیرا آیا ہے بین بڑی اچھی بجا رہا ہے آؤ ناگ دیکھ کر آئیں سمرا کی آنکھیں ایک دم سے چھوٹی ہو کر بڑی ہوئی وہ جلدی سے میرب کے ساتھ باہر
بین کی آواز ان کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر آرہی تھی جب وہ سپیرے کے قریب پانچی تو بین کی آواز پہلے سے بھی زیادہ ہو چکی تھی جیسے جیسے سمرہ اس بین کے قریب جارہی تھی اس کی مدوشی بڑھتی جارہی تھی جب وہ این سپیرے کے نزدیک پہنچ گئی تو ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی اسے بڑی عجیب سی مستی میں رچا دینے والے چکر آ رہے تھے وہ خود کو بار بار ہواسوں میں لانے کی کوشش کر دی
مگر وہ بین اس کے اصاد پر بری طرح سے سوار ہو رہی تھی پہلے وہ ہلکا ہلکا جھومنے لگی پھر بین کی آواز جب تیز ہوئی تو اس کی مستی بڑھنے لگی سمرا کو لگا کہ جیسے اس کے اندر کوئی نئی طاقت بھر گئی ہو وہ وہاں لوگوں کی حجوم سے اٹھ کر درختو کے درمیان میں آگئی تھی جہاں اسے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا وہاں بیٹھ کر وہ بری طرح سے جھومنے لگی آگے پیچھے پتہ نہیں کتنی دیر وہ
یہ مستی تب ختم ہوئی جب وہ سپیرا وہاں سے چلا گیا تھا اس کے جاتی ہی وہ گر کر بہوش ہو گئی البتہ اسے سب کچھ سنائی ضرور دی رہا تھا دراصل اس کے سر پر مستی ہی اتنی سوار تھی کہ اس کی ساری طاقت نچڑ کر رہ گئی تھی سمرا، سمرا کہاں ہو تم؟ یہ میرب تھی جو اسے ڈھون رہی تھی جبکہ سمرا ادھر درختوں کے درمیان میں بہوشی کی حالت میں سب کچھ سن رہی تھی مگر وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی
تھوڑی سی کوشش کے بعد میرب وہاں پہنچ گئی جب اسے بہوشی کے حالت میں دیکھا تو سمرہ کو اٹھانے لگی مگر وہ اسے اٹھاتے ہی اتنی زور سے چیکھی کہ سمرہ کو لگا اس کے کان کے پردے پڑچائیں گے وہ جتنی تیزی سے وہاں آئی تھی اس سے زیادہ تیزی سے واپس گئی پھر اپنے ساتھ دو تین اور لوگوں کو لائی ان سب کی باتوں کو سن کر سمرہ کو سمجھ لگ گئی تھی کہ اس کے پیر پر سامپ نے کارت لیا ہے ب
کہ اگر اسے سامپ نے کارٹ لیا ہے تو اسے درد کیوں نہیں ہو رہا؟ کیوں وہ اتنے سرور میں مدہوش سی ہے؟ اسے تو درد ہونا چاہیے تھا جس میں زہر پھیلنا چاہیے تھا نہیں نہیں میرب جھوڑ بول رہی ہوگی کوئی کانطا لگا ہوگا وہ بہوشی میں یہی سب کچھ سوچ رہی تھی جبکہ وہاں حقیم پہنچ کر اب اس کے زخم کا معینہ کر رہا تھا کہ زخم کیس نویت کا تھا اور اندازن کتنا زہر اس کے جسم میں پھیل گیا ہوگا
پھر اس کی ٹانک پر حکیم نے کپڑا بان دیا اور بابا نہ جانے وہ کہاں سے آگئے تھے انہوں نے سمرا کو اپنی گود میں اٹھائے اور حکیم کی دکان پر لے گئے وہاں جا کر اس نے ایک چھوری بہت زیادہ گرم کر کے سامپ کے ڈھسنے پر رکھی تو سمرا کو درد تو ہونا چاہیے تھا اس کی چیکھا نکلنی چاہیے تھیں، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جیسے ہی وہ انگارہ ہوتی چھوری اس کے زخم پر رکھی گئی سمرا کو
دل میں یہ خواہش ایک دم سے مچلنے لگی کہ یہ گرم چھوری یوں ہی اس کی ٹانک کے ساتھ لگی رہے۔ اس کے بعد سمرہ بلکل بہوش ہو گئی تھی۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کتنی دیر بعد اس کی آنکھ کھولی تو سب نے سکون کی سانس لی۔ حقیم نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا بیٹی اب ٹھیک تو ہونا کوئی سر میں درچکر تو نہیں میں احسوس ہو رہے؟ سمرہ نے نفی میں اپنا سر ہلا دیا
وہ اس حکیم کو اپنی مدوشی کا بتانا چاہتی تھی مکر پتہ نہیں کہ ایسے الفاظ اس کی زبان پر نہیں آرہے تھے اور سب گھر آگئے تو مورے نے میرب کو خاص ادائیات کی کہ سمرا کا خیال رکھنا اس نے اس بات میں سر ہلا دیا رات کو جب ہم دونوں اکیلی تھیں تو وہ بستر پر اہستے ہوئے بولی سمرا مان یا نہ مان یہ وہی ناک تھا جس نے تمہیں کٹا ہے سمرا نے چونک کر اپنے زخم کی طرف دیکھا تو وہاں پر سرخی تھی اور دو چھوٹے
جیسے کہ کسی چیونٹی نے کٹا اسے سمرہ نے بہن کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا رات میں جب وہ گہری نید سوری تھی تو اسے بدن پر کوئی چیز رنگتی ہوئی محسوس ہوئی سمرہ نے پہلے تو نظر انداز کیا مگر جب وہ مسلسل رنگتے ہوئے اوپر کو چڑھنے لگی تو نید میں تھوڑی سی آنکھیں کھول کر اس نے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے وہاں کوئی اور نہیں بلکہ سیان ناک تھا جو اس کے لحاف پر بل کھاتا وہ مو
تب تک وہ ناغ چلانگ لگا کر اس کی ایک ہی جست میں اس کے موک کے گرد بیل کھانا شروع گیا تھا یہاں تک کہ اس نے سمرا کے پورے موک کو خود سے جکڑ لیا تھا وہ ناغ اتنا بڑا تھا کہ سمرا کے دونوں ہاتھوں کو بھی اس نے اپنی دم میں جکڑا ہوا تھا گویہ وہ کوئی حرکت نہیں کر سکتی تھی نہ ہی کچھ بول سکتی تھی اس کا دم گھٹ رہا تھا دل خبرہ ہٹ کے مارے تیز رفتاری سے دھڑک رہا تھا گویہ ابھی پھٹ جائے گ
اس کا مو کافی بڑا تھا اور آنکھیں ایسی چمکدار کہ سمرہ ان میں دیکھنے کی امت نہیں کر پاری تھی ناگ نے اپنا مو اس کی آنکھوں کے قریب کیا تو سمرہ نے دونوں آنکھوں کو زور سے بند کیا مگر وہ شاید کچھ اور چاہتا تھا اس نے اپنا مو پہلے سمرہ کی طرف آنکھ بند کر کے رکھا پھر دوسری بند آنکھ پر رکھا اس کا انداز ایسا تھا کوئیہ اس نے سمرہ کی دونوں آنکھوں کو بڑی نرمی سے چومہا ہو جیسے سمرہ کو
مگر اس کے برقص وہ ناؒگ اس کو تیزی سے ڈھیلا کرتا ہوا اس کے بستر سے نیچے اتر گیا سمنہ نے دیکھا تو وہ دیوار پر چڑھ کر کھڑکی سے باہر جا رہا تھا اس نے خود کو آینے میں دیکھا تو وہ بالکل ٹھیک تھی اس کے چہرے یا باقی جسم پر کہیں بھی سامپ کے کھٹنے کا نشان نہیں تھا مگر ابھی جو کچھ ہوا تھا وہ بے ہت خوف زدہ کر دینے والے تھا وہ بھاک کر میرب کے پاس گئی اور جن جوڑتے ہوئے اسے نین سے جگایا
اس نے بھی سمرہ کے کسی بات پر دہان نہیں دیا اور سو گئی سمرہ کو یہ بات بہت بری لگی حالانکہ مورے نے میرب سے کہا بھی تھا کہ بہن کا خیال لکھنا مگر یہاں تو اسے نید پوری کرنے سے فرصت نہیں تھی سمرہ نے کھڑکی اچھے سے بند کی وابس جا کر شارپائی پر بیٹھ گئی مگر اس کا دل نہیں مانا تو میرب کے ساتھ جا کر لیٹ گئی باقی پوری رات اس نے جاک کر گزاری صبح ہونے تک وہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ یہ ناگ وال
اگر وہم نہ بھی سمجھا تو ہر کو یہی کہے گا کہ وہ دیوانی ہو گئی ہے یا پھر وہ ناغ اس پر آشک ہو چکا ہے بہتر ہے کہ وہ چپ ہی رہتی جب اس ناغ نے اسے کچھ بھی نہیں کہا تو اس کا دماغ خراب تھا کہ وہ سب کو بتا کر اس بات کا ڈھندورہ پیٹ ڈارتی جو ہوا بھی نہیں تھا صبح ناشتے کرنے کے بعد وہ نعمت خانے میں گئی تو میرے بہرانی سے بولی سمرا تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟
بتاؤ کیا ہوا ہے میری آنکھوں کو کیا تبدیل ہو گئی ہیں؟ میرب نے ہستے ہوئے کہا ہاں کچھ ایسے ہی لگتا ہے کہ رات تم نے آنکھوں میں شہد ڈال لیا تھا کیا کیا مطلب کہنا کیا چاہتی ہو کیا ہوا ہے میری آنکھوں کو صحیح سے بتاؤنا سمرہ کو سکون نہیں آرہا تھا اب تو مورے بھی بڑے غور سے اس کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی میرب بتاؤ کیا ہوا ہے سوجی ہوئی ہیں کیا سمرہ اکدم سے بے سکون ہو گئی
میرے اب نے نفی میں سر ہلائے اور نعمت خانے سے باہر چلی گئی جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا شیشہ تھا شیشہ سمرا کو تھماتے ہوئے وہ جلدی سے بولی تمہاری آنکھیں بے ہی چمک دار لگ رہی ہیں ساتھ ہی شیشہ سمرا کو تھمائے تو اس نے دیکھا واقعی میں اس کی آنکھیں بہت چمک رہی تھی اتنی زیادہ کہ وہ خود بھی ان میں نہیں دیکھ پا رہی تھی ست ست بتاؤ شہد رکھا تھا مورے نے کملے میں ہ
سمرہ نے نفی میں سر ہر آیا وہ اب تک حیران تھی کہ اس کی آنکھیں اتنی چمکدار کیسے ہو گئی؟ مورے کہیں کل سمرہ کو جو سامپ نے کٹا ہے اس وجہ سے تو اس کی آنکھیں سامپ جیسے چمکدار نہیں ہو گئی؟ مورے خود بھی پریشان تھی انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا انہوں نے اولٹا میرب کوئی ڈاڑ دیا کہ بلا وجہ باتیں نہ کرو چپ کر کے ناشطے پر دہان دو سمرہ نے بھی اپنی تواجہ ناشطے پر مرکوز کر لی میکر اس سے وہ
اس نے پورا پیارا دھوٹ کا بھرا اور گتا گت پی گئی بائیر آج دھوپ نکلی تھی تو دھوپ میں بیٹھ گئی ابھی وہاں بیٹھے کچھ دیر ہوئی تھی جب جسم میں عجیب سی تپش ہونے لگی پہلے تو اس نے رات کی بات کو نظر انداز کیا لیکن وہ جب عجیب سی سرسراہٹ میں تپش تبدیل ہوئی تو اس نے آنکھے کھول کر اپنے بازو پر دیکھا اور دیکھتی رہ گئی اس کے جسم پر ویسے ہی نشان چمک رہے تھے جیسے
ان میں ہلکا سبز اور سنہری رنگ بھی چمک رہا تھا وہ نشان بار بار بنتے اور پھر مٹ جاتے جیسے ان پر سورج کی روشنی پڑتی وہ چمکتے بھی تھے سمرہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا وہ اکدم سے چونک کر سیدھی ہوئی اس کے پاؤں پر تھوڑے سے چاؤں میں تھے تو ان پر کوئی بھی نشان واضح نہیں ہو رہا تھا البتہ دھوپ سے متاثر ہونے والے جسم پر یہ نشان بڑے واضح چمک رہے تھے وہ سحم گئی
اس نے اپنے سارے جسم کو دپٹے میں چھپا دیا مگر دپٹا جسم پر ہونے کے باوجود ان نشانوں کی چمک باہر تک آ رہی تھی یا اللہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ اس نے بےچانی سے گردن موڑ کر دیکھا تو سامنے کھڑکی کے شیشے میں اس پر نظر پڑی اس کی آنکھے واللہ میری آنکھوں کو کیا ہو گیا وہ چلانگ لگا کر کھڑکی کے قریب آئی اور شیشے میں اپنی آنکھوں کو دیکھا تو دھنگ رہ گئی اس کی آنکھ
بے ہتھ چمکدار، چھوٹی پتیلیوں کے ساتھ اُس میں کنڈلی مار کر بیٹھاوا سام تکھائے دی رہا تھا۔ یہ دھجکہ سمرہ کے لئے کم تھا کہ اُسے اپنے کلے موم میں اپنی زبان دکھائی دی وہ بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ یا اللہ! وہ چیخ مارتی ہوئی گھر کے پچھلے حصے میں چلی آئی۔ اُس کا دل بے ہتھ تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ بلکہ اُسے اپنے دل کی دھڑکن اپنے کانوں
آنسوں تیز رفتاری سے اس کی آنکھوں سے بہرے تھے جنہیں سمرہ نے بلکل روکنے کی کوشش نہیں کی کافی دیر جب اسے وہاں بیٹھے ہو گئی تو اس نے دوبارہ سے اپنے بازوں اور ہاتھوں کو دیکھا مگر اب وہ بلکل نارمل حالت میں تھے یہ سب کیا ہورہا ہے میرے ساتھ اس نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا تو اس نے اپنے کانوں کے پاس سی سی کی آواز سنائی دی سمرہ نے آواز کے تاققب میں دیکھا تو اس کے کان کے پاس کالے ناک کا مو دک
وہ درخت کے ساتھ لٹکا اس کے چہرے کے این قریب تھا۔ وہ چیخ مار کر وہاں سے ہٹی۔ وہ ناغ اسے مسلسل گھور رہا تھا۔ اور بار بار زبان نکال کر سیسی کی آواز نکالتا ہوا گیا اسے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سمرا جبکہ پیچھے گھر کی دیوار سے چپکی روئے جا رہی تھی اور چیخ تے ہوئے میرب کو بلا رہی تھی۔ میرب وہاں آئی تو سمرا کی اتنی بری حالت دیکھ کر فوراً اس سے پوچھا
سمرہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو اس کی نظروں کے تاکو میں جیسے ہی میرب نے دیکھا تو اس کی بھی جان نکل گئی سامنے 3 سے 4 فٹ کا لمبا کائلا ناگ دراخت سے اُلٹا لٹکا ان کی جانے بے ہتوصیلی نظروں سے دیکھ رہا تھا میرب نے آو دیکھا نتاو سمرہ کا ہاتھ زور سے تھاما اور وہاں سے لے کر چلی گئی سمرہ سے تو بھاکا بھی نہیں جا رہا تھا بگر میرب حمد کر کے اسے گھر کے رہائشی حصے میں لے آئی
وہاں پانچتے ہی مورے نے حرانی سے ان دنوں کو دیکھا اور پوچھا لڑکیوں کیا بات ہے کیوں اندہ دن بھاگتی پھر رہی ہو خیر تو ہے سمرا تو خموش رہی مگر میرے پھولتی سانس کے ساتھ بولی مورے ہمارے پیچھے ناغ یا کالا ناغ مجھے لگتا ہے وہ سمرا کے پیچھے پڑ گیا ہے مورے نے حیرت سے سمرا کو دیکھا تو اس کے تو سانسی نہیں مل رہے تھے اسی لمحے بل کھاتے ہوئے زمین پر بہوش ہو گئی
میرب کو پہلی بات بھول کر سمرہ کی بہوشی کی فکر پڑ گئی مورے خود پریشان تھی کچھ دن سے انہیں بھی سمرہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی انہیں میرب کی بات پر سو فیصد درست ہونے کا گمان ہوا مگر ابھی تو سمرہ کو ہوش میں لانا ان کیلئے سب سے اہم تھا تھوڑی تگو دو کے بعد سمرہ ہوش میں آ گئی مگر وہ کسی کو بھی پہنچان نہیں رہی تھی مورے نے اسے بہت کچھ یاد دلائیا مگر اسے اپنا نام اپنی شناق تک
وہ بٹر بٹر بس سب کو دیکھے جاری تھی جبکہ اسے یہ لوگ یہ دنیا بڑی عجیب لگ رہی تھی فورا سے بابا حقیم کو لے کر آئے تو حقیم نے اس بات کی تصدیح کی کہ بچی اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہے اب یہ حالیں تو صدمے کی وجہ سے ہے یا کل کے کاتے سامپ کا زہر اس کے دماغ پر پہنچ چکا ہے کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا وہ حقیم کی بات تو سنتی رہی مگر پھر اچانکہ اس نے جھپٹ کر حقیم کا ہاتھ پکڑ کر اپ
تو سب چیخیں مارتے ہوئے ایک طرف ہو گئے ان کی چیخوں سے وہ مزید بپھر گئی سمرا ایک چھلانگ لگا کر اٹھی تو وہاں کوہرام مچ گیا حکیم کے گہنے پر اسے کمرے میں بند کر دیا گیا باہر وہ سب کھڑے تھے جبکہ کمرے کے اندر سمرا اکلی تھی وہ دروازے کو بجاتے ہوئے سیسی کے آوازیں نکال رہے تھے ان کے کھر میں ایک عجیب قیامت برپاہ تھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا حل ہے شام تک وہ س
پھر انہوں نے ایک سپیرے سے رابطہ کیا کہ شاید وہ سمرہ کا علاج کر سکے سپیرہ بہت حکمت والا تھا اس نے رمال پر ایک خشبو لگائی اور جیسے ہی وہ کمرا کھولا تو رمال پہلے کمرا کے اندر پھینک دیا دو منٹ بعد وہ جب کمرا میں داخل ہوا تو سمرہ مدہوشی کے حالم میں اس رمال کو ناک سے لگائے پار بار سونگ ری تھی سپیرے نے اسے چھو کر دیکھا مگر وہ لڑکی تو آلمِ مدہوشی میں تھے اسے کیا پر واقع
سپیرے نے اس کے جسم پر ایک کٹ لگا کر تھوڑا سا خون نکالا اور ایک شیشی میں بند کر لیا پھر ویسے ہی اسے کمرے میں بند کر کے باہر سے طالعہ بھی لگا دیا ساتھ یہ ادائے تھی کہ جب تک وہ نہ کہے کوئی اس کے کمرے کو کھولے گا نہیں ادھر جب خوشبو کا حصر ختم ہوا تو سمرہ بھی حوازوں میں لوٹنے لگی مگر وہ کمرے میں بند تھی اس نے دروازہ بجایا مگر کسی نے بھی دروازہ نہیں کھولا مورے! بابا! میرب! سب اسے نظر
اسے سب یاد بھی آگیا تھا مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ ابھی کچھ تیر پہلے اسے کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے سمرہ کو یوں کمرے میں بند کر کے الک تعلق رکھا ہوا تھا جب وہ چیک چیک کر تھک چکی اور اس کا گلہ بیٹھ گیا تو وہ خود بھی ایک کونے میں دوبکھ کر بیٹھ گئی تب اسے احساس ہوا کہ اس کے ساتھ برا ہو چکا ہے ای غالبا وہی ناک تھا جس کی سمرہ نے جان بچائی تھی اور اب وہ ہاتھ دو کر اس کے پیچھے پڑ چکا تھا
کافی دیر ایسے ہی بیٹھنے کے بعد اس نے یوں ہی گردن موڑی تو اس کے ساتھ چارپائی پر وہی ناک کندلی مارے بیٹھا تھا وہ اچھل کر پیچھے ہوئی تو سامپ اس کے مزید قریب آ گیا وہ جیسے چیخیں مار کر پیچھے ہوتی سامپ پھر چلتا اس کے نزدیک آ جاتا مگر اسے کچھ کہتا نہیں تھا بس یوں ہی خاموشی سے اس کے ساتھ بیٹھ جاتا باہر بیٹھے سب افراد بھی سمرا کی چیخوں پر خوفصدا ہوتے مگر سپی
اگر وہ گردی سے کمرا کھول دیتے تو ہو سکتا تھا کہ اس سب کے ساتھ بھی یہ ہی ہوتا جو اس بچی کے ساتھ ہو رہا تھا مورے نم آنکھے لیے بڑی برداش سے بیٹھی تھی جب جب سمرا چیفتی تو انہیں اپنا دل ہیلک میں آتا محسوس ہوتا اندر کمرا میں سمرا بھی سمجھ چکی تھی کہ وہ سامپ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچانے والا تو ڈرتے ہوئی اس سے مخاتب ہوئی کہ تم کیا چاہتے ہو مجھے چھوڑ دو ماف کر دو
یہ سنتے وہ سام پہ ایک چھلانگ لگا کر اس پر گرا اور اپنا زہر اس کے مو میں ڈال کر واپس اپنی جگہ پر آگیا سمرہ کو لگا کہ اس سے زیادہ زہریلہ اس دنیا میں کچھ نہیں ہوگا جیسے ہی وہ زہر اس کے مو میں گیا وہ پیاسے پرندے کی طرح تڑپنے لگی اس کا پورا بدن زلزلوں کی زد میں آگیا کچھ تیر بعد وہ بہوش ہو گئی بگر وہ بہوش ہی اس کی ایک دنیا سے تھی دوسری دنیا میں اسے ہوش آ چکا تھا اس نے خود کو ایک پت
یہ سب کالے بنے خواب تھا مگر سمرہ اسے جھی رہی تھی جیسے اس نے آنکھیں کھوری تو اس کے پاس ایک نوجوان لڑکا آیا جو دکھنے میں قبولے صورت تھا البتہ اس کی آنکھیں گہری سے آتی کہ کوئی ایک مرتبہ دیکھتا تو دیکھتا رہ جاتا کون ہوں تم؟ سمرہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی تو وہ لڑکا اس کے قریب پتھر پر بیٹھتا ہوا بولا میں وہی ہوں جس کی تم نے جان بچائی تھی سمرہ کو سب یاد آنے لگا کیسے کی
تڑک کر بولی تو سامنے بیٹھا لڑکہ ہنس دیا پھر نرمی سے بولا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں بتاؤ کیا تم میری دلہن بنو گی؟ سمرہ کی تو حیرت کی انتہانہ رہی کیسی باتیں کر رہے ہو تم انسان ہوں میں اور میں لڑکے نے اسی کی انداز میں پوچھا تو چند لمحے وہ خاموش رہی دیکھو دیکھو تو ایک مرتبہ مجھے کیا میں تمہارے جیسا نہیں ہوں شاید اسے برا لگا تھا سمرہ خاموش رہی وہ اس کے
تم جیسی زندہ اور بہادر دل لڑکی میرے قبیلے میں تو نہیں ہے اگر اس دنیا میں ہے تو کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ میں اسے اپنے قبیلے میں لے آوں یہ کہتے وہ بڑی اداز سے مسکرائیا سمران نے نفی میں سر ہلائے اور کہا کہ تم ایک سامپ اور میں انسان ہوں دور رہو مجھ سے تمہیں کہ یہ بات کا علم نہیں ہے کہ تم بھی انسان نہیں رہی سمران نے چونک کر لڑکے کو دیکھا جو اسے عجیب نقاہوں سے دیکھ رہا تھا کیا کہنا کیا چاہ رہے تم انس
سمرا تڑک کر بولی وہ الوطا بڑے پرسکون انداز میں بولا انسان تھیں مگر اب تم نہیں ہو تمہارے جسم میں میں نے زہر اندیل آئے پہلے تھوڑا تھوڑا کر کے تمہارے خون کو زہری راکیا اب تمہارے تھوک تک میرا زہر پانچ چکا ہے تم کسی بھی طرح سے انسان نہیں رہی ہاں جسامت کا مسئلہ ہے تو وہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے میں انسانی روپ میں آسکتا ہوں تو کیا پریشانی اور اگر زیادہ ہی ہوا تو چند مہینوں کا چل
اس نے بخوشی پوچھا تو سمرا پیچھے ہو کر بیٹھی مجھے واپس جانا ہے اپنی امہ اپ با کے پاس اس کا لحظہ روحانسہ ہو جگہ تھا موگیر موگیر نام ہے میرا اور تم مجھے اسی نام سے یا جس نام سے چاہو پکارو موگیر انہیں اس کی پہلی بات پر بالکل دہان نہیں دیا مجھے اپنے والدین کے پاس جانا ہے سن رہے ہیں تم اب وہ سنجید کی سیس سمرا کو دیکھ کر بولا ٹھیک ہے چلی جو مگر تم کب
سم سے شادی نہیں کروں گی وہ دو ڈوک انداز میں بولی تو مغیر ایک طم سے مسکرائیا اور بولا مد کرو شادی مگر میرے نام پر تو بیٹھ سکتی ہو نا سمراہ جن جلا گئی مجھے واپس جانا ہے اس نے چوبا کر کہا تو مغیر نے دکھ سے آنکھیں بند کی اور نرمی سے بولا میں چاہوں تو تمہاری کوئی بات بھی نہ مانوں میں تمہارے سامنے نہ کسی سوال کا جواب دے ہو نہ کسی عمل کا مگر تمہاری ہی ہر بات کا حیترام کر دو کی
اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے بے شک مجھے وہ سب کرنا پڑے جو مجھے تم سے دور کر دے میں ایسا ہی کروں گا ٹھیک ہے تو میں واپس بھیج دوں مگر یہ مجھ سمجھنا کہ تمہارے پیچھے نہیں آنگا انتظار کرنا میرا یہ کہتے ہی مغیر نے سمرہ کی آنکھوں پر سختی سے ہاتھ رکھا وہ درچ سے کرائی مگر جب آنکھیں کھوڑی تو کمرے میں موجود تھی اور کمرے کا دروازہ اب تک بند تھا لیکن کمرے میں وہ ناگ نہیں تھا سمرہ بھاکر درواز
کسی نے بھی دروازہ نہیں کھولنے دیا سمرہ اندر کھڑی چیخ رہی تھی کہ مجھے باہر نکالا وہ ناگ دوبارہ آجائے گا مگر اس کی تمام چیخیں بے سود تھیں کچھ دیر بعد وہ سپیرا آیا تو اس کے حکم کے مطابق دروازہ کھولا گیا جیسے ہی دروازہ کھلا سمرہ باہر بھاگنے لگی مگر سپیرا بھی اسی رفتار سے بین بجانے لگا جس نے آہستہ آہستہ سمرہ کو مدوش کرنا شروع کر دیا تو وہ تڑپ تھی کمرے کے
میں نے صرف خدا ترسی کے لیے اس ناگ کو بچایا تھا خدا کا نام ہے اس سپیرے کو منع کر دو میں بے بس سوری ہوں میں بادہ کرتی ہوں کسی کو نقصان نہیں پانچ جاؤں گی بس اس بین کو بند کروائے دیں وہ تڑپ رہی تھی بھلک رہی تھی مگر سپیرہ مسلسل بین بچا رہا تھا کشتیر بعد جب اس کے جسم میں بلکل طاقت نہیں رہی تو وہ لڑکھڑا کر فرش پر گر گئی تب سپیرہ آگے بڑھا اور اسے کوئی دوایی پلائی
جیسے ہی وہ دوائی سمرہ کے حلق میں اتری وہ چیکھیں مارنے لگی ہاتھ پاؤں مارتی ہوئے بنپانی مچھلی کی طرح لگ رہی تھی جس سے اس کی زندگی چھینی جاری ہو کشتیر تک اس کی حالت ایسے خراب رہی مورے مسلسل رو رہی تھی جبکہ میربانہ چپ کروانے میں ہی حلقان ہوئے جاری تھی البتہ بابا ہوصلے میں تھے سپیرے نے دوائے پلانے کے بعد سمرہ کے ہاتو کی انگلیوں میں سوئی کے ساتھ نشان کیے
جن میں خون کے کترے ٹپکنے لگے جب ایک ہاتھ کی پانچھوں گیوں میں سے ساتھ ساتھ کترے کون کے نکل گئے تو ایسا ہی اس نے دوسرے ہاتھ کے ساتھ کیا پھر ان بوٹلوں کو بند کر کے اپنے ٹھیلے میں رکھتے ہوئے بولا فلال تو میں نے اس کے خون میں موجود سارا زہر نکال دیا مگر احتیاط کیجئے گا دوبارہ سے کوئی سامپ اس بچی کو کارت نہ لے اگر ایسا ہوا تو اس کی جان بچانا مشکلی نہیں ناممکن ہو جائے گا
ساتھی اسے وہ سب کچھ بتا دیا جو کچھ لمحی پہلے اس کے ساتھ بھیتا تھا سب دم صادے اس کی بات سن رہے تھے مگر ہمت کسی میں بھی نہیں تھی کہ سوال جواب کرتے سمرہ بول کر چپ ہو گئی تو میرب نے چپکے سے اسے گلاس میں نید کی گولی ڈال کر پلا دی تاکہ وہ پر سکون رہے اور بلا وجہ کی باتیں نہ سوچتی پھیرے اس گولی کا اثر ہوا اور وہ گہری نید سو گئی موری نے سب کو کمرے سے نکال دیا تاکہ اس کے نید میں خلل نہ
وہی ناگ اس سے ذرا دور کندلی مارے بیٹھا تھا سمرہ اسے دیکھ کر اب کی مرتبہ بالکل ڈری نہیں سہمی نگان سے اسے دیکھتی رہی پتہ نہیں کیوں مگر سمرہ کو محسوس ہوا جیسے وہ سامپ رو رہا تھا اس کی آنسوں سے آنسوں نکل کر زمین میں جذب ہو گیا پھر وہ وہاں رکا نہیں اور کھرکی سے چلا گیا اس کے جاتے ہی سمرہ کو اپنا وجود دکھ میں گھرا محسوس ہوا جیسے اس نے مغیر کے ساتھ زیادتے کیوں وہ نیڈالو کر بست
پھر کچھ دن تک سکون رہا مگر اس سکون میں بھی سمرہ کئی مرتبہ بے سکون ہو چکی تھی وہ ناگ اس کے قریب نہیں آتا تھا بس دور سے اسے دیکھتا اور چلا جاتا میرب نے بھی ناگ کو یوں خود سے دور جاتے دیکھا مگر جب وہ دکھائی دیتا تو سمرہ اکدم سے پریشان ہو جاتی اس دن بھی ایسے ہی ہوا وہ دھوپ میں بیٹھی مالتے کھا رہی تھی جب میرب بھی وہاں آگئی کچھ دیر بعد سمرہ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو واپس مو
جب وہ آگے نہیں آیا تو سمرہ نے کسی سہر کے زیرا اثر میرب کو دیکھتے ہوئے پوچھا میرب اب یہ میرے قریب کیوں نہیں آتا کیا تمہیں علم ہے ایسا کیوں ہے میرب نے چونکر بہن کو دیکھا جس کے لحظے میں دکھ بول رہا تھا چند لمحے تو وہ خاموش رہی پھر آج تک ہی سے بولی سپیرے نے تمہارے خون سے زہر تو نکار لیا تھا مگر اس سے پہلے یاد ہے نا کہ تمہیں ایک دوایہ پلائی تھی وہ دوایہ مشکی ہوئی تھی یعنی اس سے ا
انسانوں کو وہ مہک نہیں آتی وہ مہک سامپوں کے لئے انتہائی ناغوار ہوتی ہے اگر وہ کسی ایسی مہک کے قریب چلے جائیں تو ان کی موت واقعے بھی ہو سکتی ہے لیکن اول تو وہ قریب آنے کی کوشش نہیں کرتے اگر آ بھی جائیں تو بچنا ہی ممکن نہیں ان کا تب ہی سمرہ نے یک لفظ جملہ کہا تو میرے اپ نے اس بات میں سر ہلا دیا یعنی وہ ناغ میرے قریب آنا چاہتا ہے میکر آ نہیں پا رہا بے بیس ہے سمرہ خود سے ہی
میرب اسے گور سے دیکھتی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جو سمرہ اسے سمجھانا چاہ رہی تھی میرب جانتی ہو یہ ناگ مجھ سے محبت کرتا ہے کہیں دور کھوے کھوے اس نے کہا تو میرب ایک تم سے صدی ہو گئی سمرہ خاموش ہوئی تو اس نے چونک کر وہی سوال پوچھ لیا جس کا جواب سمرہ کے پاس بھی نہیں تھا کیا تم بھی محبت کرتی ہو یا کرنے لگی ہو؟ سمرہ نے حرانی سے بہن کو دیکھا مگر خاموش رہی
کیونکہ اس کے پاس اس بات کا جواب واقعی میں نہیں تھا بتاؤ نا میرب نے اسرار کیا تو سمرہ سوچتے ہوئے بولی محبت کا تو علم نہیں مگر مجھے افسوس ہوتا ہے جانتی ہو نا میں واپس آنا چاہتی تھی اگر موغیر نہ جاتا نہ بھیجتا مگر وہ مجھ سے محبت کرتا تھا اور اسی محبت میں اس نے مجھے یہاں بھیج دیا لیکن ہم نے اس کے ساتھ کیا کر دیا سمرہ نے اس سوالیاں نگاہوں سے میرب کو دیکھا تو اب کی مرتبہ وہ خاموش تھی پ
مگر میرب کو بھی دکھسا ہو رہا تھا سپیرے نے کیا بتایا تھا کہ اگر دوبارہ سے کسی سامپ نے مجھے کارٹ لیا تو میں نہیں بچوں گی یہی نا میرب نے ناسمجی سے اس بات میں سر ہلا دیا سمرہ پھر بولی اور اگر وہ سامپ مجھے کارٹ لے تو اس کی مہک کی وجہ سے وہ بھی نہیں بچے گا ہے نا سمرہ نے اگلا سوال کیا تو میرب اب بھی اس کی بات نہیں سمجھ سکی محض اس بات میں ہی سر ہلا کر رہ گئی تم یہ سب کچھ کیوں پوچ
میرب نے اب حیرانی سے اپنا سوال داگ دیا سمرہ نے مسکرہ کر اسے دیکھا میں یہ بھی جانتی ہو کہ ساری عمر میری شادی نہیں ہو سکے گی وہی کہانی جو تم مجھے سناری تھی کہ جو اس لڑکی کا شوہر بنتا تھا وہ مر جاتا تھا سامپ اسے مہر دیتا تھا ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوگا جو میرا شوہر بنے گا یہ ناغ اسے مہر دے گا ہے نا میرب خموش رہی تو وہ پھر بولی بتاؤ نا ایسا ہی انا میں جانتی ہو
میرب نے بے بسی سے اس بات میں سر ہلا دیا اور میری وجہ سے تمہارے شادی میں بھی رکاوٹ ہوگی کوئی تم سے شادی نہیں کرے گا یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے کہ بہن کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ تمہارے ساتھ بھی ہو میرب نے کچھ نہیں کہا کیونکہ سمرہ بالکل حقیقت بتا رہی تھی اور خاندان والے محلے والے سبھی مورے بابا سے دور رہیں گے کون چاہے گا کہ اس کے خاندان پر ہمارے گھر کا بھی تھوڑا سا اثر پڑے میرب بالکل خاموش تھی
اس کی باتیں سن رہی تھی مگر سمجھ نہیں رہی تھی کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کہہ رہی ہے جانتی ہو میرب میں بھی ساری عمر پشتاوے اور دکھ میں رہوں گی کہ نہ محبت پاسکی نہ دے سکی یہ کہہ کر وہ چارپائی سے کھڑی ہوئی جا کہاں رہی ہو اب میرب نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی درخت کے قریب بیٹھے ناک کو دیکھ رہی تھی جس نے اسے محبت کا دعویٰ کیا تھا سمرہ نے میرب کو دیکھا
پشتاوے ختم کرنے اتنا بول کر وہ تیزی سے درخت کے جانے بھاگی اس سے پہلے کہ میرب اس کی طرف لپک کر اسے روکتی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی وہ ناگ اور سمرہ دونوں ہی دنیا سے جات چکے تھے
What's Your Reaction?