دو دوستوں کی کہانی

دو دوستوں کی کہانی

Oct 24, 2024 - 14:13
 0  6
دو دوستوں کی کہانی
دو دوستوں کی کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستوں پیش خدمت ہے دو دوستوں کی کہانی بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی شہر میں دو دوست رہتے تھے ایک کا نام اکل گوہر تھا دوسرے کا خوش نصیب یہ دونوں بچپن کے ساتھی تھے ایک ہی مکتب میں پڑھا ایک ہی خوش نویز سے لکھنا سیکھا دونوں کے مکان قریب تھے ہر کام ایک دوسرے کی سلحہ سے کرتے تھے جب تک ماں باپ زندہ رہے دونوں کو کسی بات کی تقنیف نہیں تھی


دن کے وقت پڑھنے لکھنے میں مسروف رہتے، رات کو شترنج وغیرہ کھیلتے۔ دونوں لڑکے جوان ہونے پر نیحائت شکیل و جمین نگلے ماباب کو اب ان کی شادی کی فکر ہوئی ان دونوں کی ایک شرط تھی کہ شادی کریں گے تو دو صغی بہنوں سے کریں گے تاکہ ہماری یہ بچپن کی دوستیں ہمیشہ قائم رہے دونوں گھروں میں لڑکیاں تلاش کی جانے لگیں ماباب چاہتے تھے جیسے خوبص


مگر دو صغی بہنوں کی ملنے میں دشواری ہوئی کچھ عرصہ تلاش میں بزرگیا خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شہر میں کوئی بواہ فائلی اور ان دونوں دوستوں کے ماں باپ فوت ہو گئے مہینہ دو مہینہ ان کے رنج میں بزرگیا جو کچھ جمہ پونی تھی سب خرچ ہو گئی عامدانی کا کوئی زریعہ نہیں تھا اب روزگار کا خیال آیا اپنے شہر سے دل وچاٹ ہو گیا تھا ایک دن دونوں نے مشورہ کیا کہ مکان کرای پر دیکھ کر


روپیا پاس نہیں رہا تھا خدا کے بھروسے پر ایک دن گھر سے نکل پڑے شہر سے باہر جانے کے بعد انہوں نے کہا اب ہم کو الگ الگ قسمت آزمائی کرنی چاہیے اگر دونوں ساتھ رہے تو ایک کمائے گا دوسرا کھائے گا اتنی عمر ماں باپ کے بھروسے پر گزری اب خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے گرز یہ باتیں کر کے کچھ دور تو وہ ساتھ چلے سامنے ایک باغ نظر آیا وہاں بیٹھ کر د


انشاء اللہ اسی باغ میں ملیں گے چلتے وقت دونوں مل کر روے اور پھر ایک مشریب کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف چل پڑا پہلے خوش نصیب کا قصہ سنو یہ صبح کے وقت روانہ ہوا تھا چلتے چلتے تھک گیا تو دوپہر کو جنگل میں کسی درخت کے نیچے پڑھ کر سو گیا کئی گھنٹے سو تا رہا جب آنکھ کھلی تو دن ڈھل گیا تھا گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور اپنے کپڑے جھالنے لگا


اس پر جو نگا پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنجی سونے کی ہو گئی ہے وہ بہت حیران ہوا بڑی دیر تک یہ راز سمجھ میں نہیں آیا آخر سوچتے سوچتے اسے خیال آیا کہ بڑے بولوں سے سنا تھا کہ دنیا کے عجائے بات میں ایک پتھر ایسا ہوتا ہے جس کو کسی دھات پر رگڑ دیا جائے تو سونا بن جاتا ہے اس کو پارس پتھر کہتے ہیں یہ سوچ کر جس جگہ وہ سو رہا تھا وہاں جا کر دیکھا اسے ایک چھوٹا سا ب


اس نے فوراً اٹھا لیا اس کی قسمت سامنے آگئی تھی اس وقت اس کی جیم میں صرف چار پیسے تھے اس نے پتھر کو ایک پیسے پر رگلا تو وہ چمکتہ ہوا سلہری ہو گیا وہ خوشی سے اچھل پڑا باقی تینوں پیسے بھی اس نے سونے کے بنالئے اب شام ہو رہی تھی سامنے ایک بڑے شہر کی فصیل نظر آ رہی تھی وہ دن بھر کا بھوکہ پیاسا تھا مگر اس وقت اس میں طاقت آگئی تھی وہ سمجھ رہا تھا د


تیس تیس قدموں سے شہر کی طرف روانہ ہوا اور سورج گروب ہونے سے پہلے شہر کے اندر داخل ہو گیا لوگوں سے پوچھ کر ایک اچھی دکان میں بیٹھ کر بڑیا قسم کا خانہ خائیا اور دکاندار سے کسی اچھی سرائی کا پتہ پوچھ کر رات کو وہاں جا کر سویا پہلے زمانے میں ہوتل وغیرہ تو ہوتی نہیں تھی لوگ سرائی میں ہی ٹھہرا کرتے تھے ایک سونے کا پیسہ اس نے دکاندار کو دیا وہ خوش ہو گیا اور سمجھا کہیں کا رئیس ز


صبح اٹھ کر وہ بازار کی طرف نکلا اور چند لوہے کی سلاخ خریدی سونے کا پیسہ لوہر کو دیا اور کہا سلاخوں کی قیمت لوہر لوہر نے بہت سے روپیاں واپس کیے خوش نسیب نے سرائے میں آکر ان سلاخوں پر پارس پتھر رگلا وہ سب سونے کی ہو گئی اب تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی کھانا کھا کر بازار گیا اور ایک سنار کی دکان پر کئی ہزار میں ایک سلاخ فروکت کر کے اپنے واسطے بیشقیمت لباس خریدا


اب اس کو مکان کی ضرورت تھی دوسرے دن لوگوں سے ذکر کیا روپیہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے ایک آلشان مکان کرای پر مل گیا فرنیچر خرید لیا کئی ملازم رکھے اور بڑے ٹھاد سے زندگی بسر کرنے لگا جب خدا کسی کو دولت دیتا ہے تو خوشہ مدی اور مفتوحورے شمعہ پر پروانوں کی طرح گرنے لگتے ہیں خوش نصیب کے پاس بھی دن رات مجمعہ رہنے لگا


نواب صاحب نواب صاحب کہتے لوگوں کا مو خشک ہوتا تھا انسان کی خاصیت ہے اپنی تاریف سن کر خوش ہوتا ہے یہ بھی ہر شخص کی روپیے پیسے سے مدد کرتا تھا کئی بگڑے رئیز بھی مساہب بن گئے تھے ایک دن ان لوگوں نے کہا نواب صاحب یہاں ایک توائف نیحائت حسین اور بہترین گانے والی ہے کسی دن آپ تشریف لے چلیں اور اس کا گانہ سنے ہم بھی آپ کی تفیل میں سن لیں گے خوش نصیب نے بہت اک


میاں تم بھی کیسی بے وقفی کی بات کرتے ہو ہمیں کیا غرص پڑی ہے کہ اس کے مکان پر جائیں اس کو یہی بلوا کر گانہ سنیں گے ہزار دو ہزار اس کو دے دیں گے مساحب نے جواب دیا نواب صاحب یہی تو مشکل ہے کہ وہ کسی کے یہاں جان نہیں سکتی بادشاہ سلامت کی ملازم ہیں اگر پانچ ہزار بھی کوئی دے تو نہیں جائے گی اس کو اجازت نہیں ہے سپاہی اس کے دروازے پر ہر وقت پہرہ دیتے ہیں


البتہ اس نے بادشاہ سلامت سے یہ اجازت لے لی ہے کہ اگر کوئی شوپین رائی سے زیادہ اس کے گھر پر آئے گا تو اسے گانہ سنا دیا کرے گی۔ یہ سن کر خوش نصیب کو اس کے دیکھنے اور اس کا گانہ سننے کا شوق ہوا۔ رات کو خانے کے بعد کمتی پوشاک پہنی اور دو گھوڑوں کی گالی پر سوار ہو کر مای مساہبین کے اس کے بالہ فانے پر پہنچ گئے۔ ننی جان توائف اور اس کی بوڑی ما نے بڑے طباق سے انہیں مسنت پر بٹھایا۔ مسا


ہمارے نواب صاحب بھی ننی جان کا گانہ سننے آئے ہے کوئی اچھی سی چیز سناو انعام سے مالا مال کر دیں گے غرز سازندے بلائے گئے اور گانہ شروع ہوا خوش نسیب تو اس عورت اور اس کی آواز پر فریفتہ ہو گئے ٹک ٹک کی باندھے اس کو دیکھے جاتے تھے گیارہ بجے گانہ ختم ہوا ننی جان نے کہا نواب صاحب اب آپ تشریف لے جائئے لڑکی بادشاہ سلامت کے ہاں جائے گی ابھی سواری آتی


وہ چاہتے تھے کچھ دیر اور بیٹھیں مگر پہلا دن تھا 1000 روپیا دے کر کھڑے ہو گئے دونوں ما بیٹھیوں نے جھکر سلام کیا وڑیا نے ہزاروں دعائیں دی اور کہا نواب صاحب جس وقت آپ کا دل چاہے آج آیا کیجئے خوش نسیب ان دونوں ما بیٹھیوں کی خوشا مدانہ بات وپن لٹو ہو گئے وہاں سے آکر آدھی رات تک سرد آہیں پھر تے رہے دوسرے دن تو اپنے دل پر جبر کر کے تو نہیں گئے تیسرے د


گاڑی مانگوائ کر سرشام ہی پہنچ گئے ننی جان اور اس کی ماں نے بڑی آو بھگت سے بٹھایا وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ بہت بڑا رئیس ہے دو تین گزلیں سن کر ایک ہزار روپیہ دے دیا بادشاہ کے ہاں سے تو ایک مہینے میں ایک ہزار ملتا تھا خوش نصیب دس بجے رات تک وہاں رہا آج اس نے چلتے وقت ایک سونے کا خاص دان پڑیا کو دیا اس کی آنکھیں فٹی کی فٹی رہ گئیں ہزاروں دعایاں د


کہ وہیں بیٹھے بیٹھے خوش نصیب دونوں ما بیٹی کی آنکھیں بچا کر کبھی اس کے پاندان پر پارس پتھر رگڑ دیتا کسی دن اس کی مسحری کے پائے سونے کے کر دیتا بڑیا بہت چالانک اور جہاں دیدا تھی وہ سمجھ گئی کہ ضرور اس کے پاس پارس پتھر ہے ایک دن کہنے لگی بیٹا تم اس شہر میں ابھی نئے نئے آئے ہو یہاں کے لوگ بڑے مطلبی ہیں میں نے تمہارے مساحبوں کو دیکھ لیا ہے تم کو نیک اور ش


میں تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر یہ مشورت دیتی ہوں کہ تم میرے ہاں آ جاؤ خدا کے فضل سے میرا مکان بہت بڑا ہے اپنا سب سامان یہیں لے آؤ نوکروں کو بھی الیدہ کر دو یہاں چار نوکر موجود ہیں ننی جان نے بھی ماں کی ہاں میں ہاں ملائی نواب صاحب آپ کو میری جان کے قسم کل سے آپ غریب خانے میں تشریف لے آئیں ورنہ یہ آپ کے مساہب آپ کو تبا کر دیں گے میں ان کو بہت جانتی ہوں اس کے علاوہ میں بغیر آپ کے


اب تو آپ گھنٹہ دو گھنٹہ تشریف لاتے ہیں یہاں آ جائیں گے تو ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہیں گے خوش نسیب تو اپنے اسے چاہتے تھے فوراً راضی ہو گئے دوسرے دن اپنے مکان کا سب کیمتی سامان ننی جان کے ہاں بھیجو آ دیا باقی کا سامان دوستوں کو دے دیا سب نے بہت سمجھایا نواب صاحب ان اورتوں کی باتوں میں نہ آئے یہ کسی کی نہیں ہوتی آپ کو تباہ اور بربات کر دیں گی صرف گانہ


مگر خوش نصیب نے کسی کی بات نہ مانی اور رات کو اس کے گھر چلے گئی بڑیا نے ایک کمرا خاص طور سے آرادسٹہ کر کے ان کو دیا خدمت غار ہر وقت ہاتھ باندے کھڑے رہتے تھے اب ننی جان کے ہاں ہر چیز سونے کی نظر آتی تھی خوش نصیب کو خوش کرنے کو اس نے اپنی بیماری کا بحانہ کر کے بادشاہ کے ہاں سے کچھ دن کی چھٹی لے لی تھی الگرز دونوں ما بیٹیوں نے بڑی خاطر توازوں سے رکھا ایک د


وہ مچلی کی طرح تڑپنے لگی چہرہ سرک ہو گیا آنکھیں نکلی پڑتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے ہوش ہو گئی مو سے جھاگ نکلنے لگے اس کی ماں نے رونا پیٹھنا شروع کر دیا ہائے اس بندی کی تو ایک ہی لڑکی ہے میں اس کے بغیر کس طرح زندہ رہوں گی خوش نسیم نے روتے ہوئے کہا امہ جان آپ جس حکیم اور جس ویت کو کہیں میں اسے لے آوں بڑیا نے جواب دیا نہیں بیٹ


اس کی دو فوپیاں اسی سر کے درد میں جوان مر چکی ہیں آج میری بچی کے بھی وہی سردرد اٹھا ہے بس تھوڑی دیر کی مہمان ہیں ہائے میں کیا کروں گی خوشنسیب نے روتے ہوئے کہا بادشاہ سلامت کے ہاں اطلاع کروائی جائے شاہی تبیب کے پاس ضرور کوئی دوہ ہوگی بڑیا بولی بیٹا اس کی چھوٹی فوپی کے جب یہ درد اٹھا تھا تو ایک فقیر نے بتایا تھا کہ اگر کہیں سے پارس پتھر مل جائ


پھر زندگی بھر یہ بیمار نہیں ہوگی مگر پارس پتھر کس کو مل سکتا ہے اب دیکھو یہ جوان لڑکی آنکھوں کے سامنے تڑپ رہی ہے مگر ہم کوئی علاج نہیں کر سکتے خوش نسیب نے سنتے ہی کہا امہ جان آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا پارس پتھر میرے پاس موجود ہے لیجئے اس نے اپنی جیب سے فوراً وہ پتھر نکال کر دے دیا گھڑیا ہزاروں دعائیں دینے لگی اسی وقت بیٹی کے ماتھے پر رگلا


اور مو سے جھاگ نکلنے بند ہو گئی جس میں جو اکڑ گیا تھا وہ بھی ڈھیلا پڑ گیا تھوڑی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھول دی اور بڑی کمزور سی آواز میں کہا مجھے کچھ پلاؤو پیاس لگی ہے خوش نصیب نے فورا شربت کے وڑا چمچے سے پلایا غرز تین دن تو وہ بیمار رہی چوتھے دن بلکل تندرست ہو گئی خوش نصیب نے بڑیا سے پارس پتھر مانگا تو ما بیٹھیوں نے چیکھنا چلانا اور گالیا


جوٹے مکارکا بھی تونہ پارس پتھر کی شکل بھی دیکھی ہے کہیں دنیا میں کسی کو آج تک ملا بھی ہے خوش نصیب ان اورتوں کی مکاری پر حیران رہ گیا اس نے کہا تمہارے ہاں یہ سب چیزیں سونے کی کس نے بنایا ہے دونوں چلائیں یہ سب چیزیں بادشاہ سلامت کے ہاکی ہیں تو موہا کیا بناے گا ہم نے ترس کھا کر تجھے اپنے ہاں رکھ لیا تھا جا نکل جا ہمارے گھر سے خوش نصیب کو بہت گسہ آیا


میں بادشاہ سلامت سے جا کر کہتا ہوں ابھی تمہارے ہاں پلس لے کر آتا ہوں ننی جان نے اپنے نوکروں کو بلوا کر کہا دیکھو اس آدمی کے ہاتھ پاؤں میں زنجیر بان دو اس کے کپڑے اتار کر ٹاٹ کے کپڑے پہناؤں اور ہمارے فلا فلا باگ میں لے جا کر ایک درخت سے بان دو اور اس کے ہاتھ میں ایک باس دے دو توتے اُڑایا کرے گا صبح شام دو روٹیاں ڈال اور ایک کٹورہ پانی کا دے دیا کرنا اگ


باک کے چوکیدار کو سمجھا دینا اگر یہ کہیں بھاگنے کی کوشش کرے تو پولیس میں دے دینا گراز پشنسیب اپنی بے بکوفی سے ان مکار عورتوں کی قید میں پڑ گیا اب تمام دن توتے وڑایا کرتا تھا اس کے پاس جانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں تھی باک کے فاتق پر چوکیدار بیٹھا رہتا تھا اب اکل گوہر کا حال سنو وہ مشنک کی طرف روانہ ہوا تھا چلتے چلتے شام ہو گئی سامنے کسی شہر کی


مگر فاتق تک پہچتے پہچتے شام ہو گئی دروازہ بند ہو گیا وہ باہر ہی زمین پر لیٹ گیا اس نے سوچا اچھا ہے نئے شہر میں صبح کے وقت داخل ہونا چاہیے تھک کر چور ہو گیا تھا لیٹتے ہی سو گیا صبح سوبرے جب اٹھا تو اس کو قریب ہی ایک بستی نظر آئی وہاں جا کر اس نے کوئے پر موہاں ڈھویا ایک جوڑا کپلوں کا ساتھ تھا وہ پہنا سورت شکل کا بہت اچھا تھا تیار ہو


اس کی جیم میں صرف چار آنے کے پیسے تھے۔ ایک بھٹیارے کی دکان پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد شہر میں ادھر ادھر گھنگنے لگا۔ ایک سڑک پر اس نے دیکھا کہ لوگ ایک طرف ادب سے کھڑے ہو گئے۔ اس نے پوچھا، بھائیوں کیا بات ہے؟ تم سب سڑک کے کنارے کیوں کھڑے ہو گئے؟ لوگوں نے کہا، اس وقت ہمارے وزیر صاحب ہواپوری سے واپس جاتے ہیں، ہم سب سلام کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔


سب نے جھک کر سلام کیا اکل گوھر نے بھی جھک کر سلام کیا اس کی صورت شکل دیکھ کر وزیر سمجھ گیا کہ یہ کوئی اجنابی شخص ہے گاری رکھوکر اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کے حالات پوچھے اکل گوھر نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کیا عرض کرو حضور کبھی ہم آگے کچھ نہیں بولا مو پر رمال رکھ کر رونے لگا وزیر بہت رحم دل آدمی تھا وہ سمجھا یہ کہیں کا رئیس زیادہ ہے اور


کچھ مسئیبت پڑھی ہوگی اپنا حال بتاتا نہیں اس نے تسلی دے کر کہا آؤ میری گاڑی پر بیٹھ جاؤ اس نے جھکر سلام کیا اور گاڑی میں سوار ہو گیا راستے میں وزیر نے کہا میہا صاحب زادے گھبرانے کی بات نہیں ہے آج میں تمہیں بادشاہ سلامت کے دربار میں لے چلوں گا اور کوئی معقول جگہ تم کو مل جائے گی الگرز وزیر نے اپنے مکان پر آکر اکل گوہر کو درباری لباس پہنوائیا اور اپنے ساتھ لے


بادشاہ سے تمام حال بیان کیا بادشاہ نے بھی وہی سوال کیا کہاں سے آئے ہو اور کون ہو یہاں بھی اس نے وہی جواب دیا کیا عرص کرو جہاں پناہ کبھی ہم؟ اس مرتبہ وہ ہیچکیوں سے رہنے لگا بادشاہ بھی نو عمر تھا اقل گوہری کے برابر ہوگا اس کو اس کے حال پر ترس آیا تسلی دے کر اس کی تعلیم بگیرہ کے مطالب دریافت کر کے اپنے خاص مساہبوں میں رکھ لیا


اس کے مصاحبوں میں اتنا حسین و جمیل نوجوان کوئی نہیں تھا سب اس کے باپ کے زمانے کے آدمی تھے قصہ مختصر رہنے کو مکان ملا خدمت کے لیے کئی کئی ملازم ملے اقل گوھر بڑی ٹھارٹ کی زندگی گزارنے لگا صبح سے دو پہر تک دربار میں رہتا ہر شخص کی باتیں سمتا اور اس کے مطالق گور کرتا بہت اقل مند اور چالانگ تھا دو آدمیوں پر اس کو شوبہ تھا ایک خزانچی اور دوسرا پوٹو


اکثر شام کے وقت یہ معمولی لباس پہن کر لوگوں کی حالات معلوم کرتا رہتا تھا جب اس نے اچھی طرح تحقیق کر لی تو ایک دن تخلیہ میں شترنچ کھیلتے ہوئے اس نے بادشاہ کو تمام حالات بتائے بادشاہ نے کہا ہم نے پہلے بھی اسی قسم کی شکایتیں سنی ہیں اگر ہم چاہیں تو کھڑے کھڑے ان لوگوں کو سزا دے سکتے ہیں مگر یہ سب پرانے آدمی ہیں ان کے علاوہ بابا جان مربون کی وسیعت تھی کہ بغیر ثبوت کے


تم کہتے ہو خزانچی نے آدھا خزانہ خالی کر دیا اور پوطول شہر لوگوں کی عورتوں کو پریشان کرتا ہے یہ سب ہم برداش نہیں کر سکتے کل سبہ ان دونوں کو عبرتناک سزا کا حکم دیں گے اقل گوھر نے ہاتھ بان کر کہا حضور میں ان دونوں کاموں کا ذمہ لیتا ہوں فضا نے چاہا تو خزانہ بھی پورا بھر جائے گا اور پوطول ہمیشہ کیلئے توبہ کر لے گا


کیا فائدہ پرانے لوگوں کو سزا دینے سے کام وہ ہونا چاہیے کہ سامب بھی مر جائے اور لاتھی بھی نہ ٹوٹے واطشان نے مسکرہ کر کہا ہمیں تمہاری رائے سے اتفاق ہے مگر یہ لوگ پرانے گھاگ ہیں تم کس طرح ان کو رائے راست پر لا سکتے ہو اقل گوہر نے کہا حضور کل جس وقت کوتوال صاحب دربار میں آئیں اور آپ کو سلام کریں تو آپ ان کی طرف گسے سے دیکھیں اور مو فیر لیں بس پھر میں اپنی کاروائی کروں گا


بادشاہ مسکرہ کر خاموش ہو گئی دوسرے دن دربار میں جس وقت کوتوال نے آکر بادشاہ کو سلام کیا تو انہوں نے نفرت اور گسے سے مو موڑ لیا کوتوال سہم گیا کچھ دیر بیٹھ کر اپنی بیماری کا عزر کر کے واپس گھر چلا گیا شام کو اکل گوہر پریشان صورت بنائے کوتوال کے ہاں پہنچا وہ اکثر جائے کرتا تھا اور وہاں کا رنگ دیکھتا تھا ناج گانہ شراب کباب کسی کی بیوی کو اگبہ کرنے کا قصہ سنت


کسی کی لڑکی اڑھا لانے کے مشورے ہوتے تھے آج جس وقت پہچا تو کوتوال خاموش بیٹھا ہک کا پی رہا تھا اس کو دیکھتے ہی کوتوال کھڑا ہو گیا اور کہا میہ اکل گوہر تم تو بادشاہ سلامت کے خاص مساہب ہو کچھ معلوم ہے آج وہ مجھ سے ناراض کیوں تھے اکل گوہر نے رومال سے اپنی آنکھا پہنچتے ہوئے کہا کیا کہوں کوتوال صاحب میں تو ڈر گیا اجنابی آدمی ہوں کسی دن میری باری بھی نہ آئے


جو سزا بادشاہ سلامت نے آپ کیلئے تجویز کی ہے اس کو سن کر میرے تو رونگتے کھڑے ہو گئے اور میں آپ کو اطلاع کرنے چلا آیا ہوں پرسوں سرے بازار آپ کو سو کولے لگوائے جائیں گے اور عمر قید ہوگی کسی جاسوس نے آپ کے مطالق بادشاہ سلامت سے جھوٹی جھوٹی باتیں لگائی ہیں اور یہ کہا ہے کہ کل رات کو فلاں فلاں رئیس کی لڑکی کو آپ اگوہ کروانے والے ہیں اور آپ اس قدر رشوت لیتے ہیں کہ ریائیت تنگ آ گئی ہے


یہ تمام باتیں سنکر بادشاہ سلامت کو بہت ہی وصا آیا ہے آپ کے آنے کے بعد ہر درباری پر ڈاٹ پڑی ہے یہ باتیں سنکر کوتوال کے حواز جاتے رہے اس نے کہا میہ اقل گوھر کچھ تدبیر کرو میری عزت کا سوال ہے تم نیحائت اقل من نوجوان ہو میں نے سنا ہے بادشاہ سلامت تمہاری رائے کو پسند کرتے ہیں اور تمہارے مشورے پر امل کرتے ہیں خدا کے واسطے میرے حال پر رہم کرو میں زندگی بھر احسان من


اکل گوھر نے جواب دیا پوٹوال صاحب یہ بات ضرور ہے کہ بادشاہ سلامت ہر معاملے میں مجھے نا چیز سے سلا مشورہ کرتے ہیں اور میری ناکے سرای کو پسند فرماتے ہیں مگر یہ معاملہ کچھ ایسا سنگین ہے کہ انہوں نے مجھ سے مشورہ نہیں کیا اگر میں دقل دوں تو ایسا نہ ہو کہ مجھے کھڑے کھڑے نکال دے سنا ہے بادشاہ جس سے ناراض ہوتے ہیں اس کا روڑیا پیسہ جائیداد گھر کا تمام سامن ذپت کر لیا


میں پہلے ہی مسیبت کا مارا غریب الوطن ہوں اگر میرے ساتھ یہی قصہ پیش آیا تو بتائے میں کیا کروں گا اور کہاں جاؤں گا کوتوال نے کہا میاں 20 ہزار روپیے تو تم ابھی مصدر میں لے لو اگر خدا نہ خواستہ تم پر کوئی مسیبت پڑی تو کام آئے گا مگر میری عزت بچانے کی کوشش کرو اقل گوہر نے کہا فرض کیجئے میں نے اپنا سر حتیلی پر رکھ کر بادشاہ سلام السک کہہ دیا کہ کوتوال صاحب کے یہاں روز


وہاں سوائے خودہ رسولﷺ کے ذکر کے اور بےہودہ بات میں نے نہیں دیکھی وہاں تو بزرگوں اور آلموں کا مجمع رہتا ہے کسی دشمن نے جھوٹی خبریں پہنچائی ہیں اور آپ کی سزا ماف کر دی گئی لیکن دو چار دن کے بعد باکشا سلامت کا کوئی جاسوس آیا یا وہ خود بیس بدل کر آئے اور آپ کے ہاں کا وہی حال دیکھا تو مجھے اور آپ کو توب کے مو پر اڑا دیا جائے گا کوتوال نے کہا


بیٹا میں توبہ کرتا ہوں اور کسم خاتا ہوں کہ آئندہ یہاں کوئی اس قسم کی بات نہیں ہوگی کل سے میں مسلح بچھا کر بیٹھتا ہوں اور انشاءاللہ زندگی بھر خدا کی عبادت میں گزاروں گا کوتوال اسی وقت اندر گیا اور بیس ہزار عشرفیوں کی تھیلی اکل گوھر کے حوالے کی اس نے کہا کوتوال صاحب اگر بادشاہ سلامت نے مجھے نکال دیا تو فقیر کا بھیز بدل کر

20:35
یا زنانے کپڑے پہن کر نگلوں گا آپ مجھے کوئی ایسا راستہ بتا دیجئے کہ میں آسانی سے نکل جاؤں کوتوال نے اس کو ایک خوفیہ دروازے کا پتہ بتا کر کہا بیٹا مجھے امید ہے کہ بادشاہ سلامت کو تمہارے کہنے کا یقین آ جائے گا اور ایسا وقت نہیں آئے گا کہ تمہیں بھاگنے کی ضرورت پیش آئے غرز اقل گوھر بیس ہزار اشرفیوں کی تھیلی بگل میں دبا کر اپنے گھر آیا اور آرام سے س


فوراً تلبی ہوئی۔ اس نے تمام قصہ سنا کر کہا حضور اب قوتبال صاحب نے توبیٰ کر لی آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے اپنا وقت عبادت اللہی میں گزاریں گے اب میری ایک گزارش ہے آج جس وقت وہ دربار میں سلام کیلئے حاضر ہوں تو حضور زرا مسکرہ کر ان کا سلام لیں وہ بہت خوف زدہ ہے مطمئن ہو جائیں گے بادشاہ نے کہا ہم خود نہیں چاہتے کہ باوہ جان مرکون کے زمانے کے ملازموں کی بیزتی ہو


اکل گوہر نے ہاتھ باندھ کر کہا حضور یہ کام تو ایسا ہو گیا ہے کہ کسی کو کان و کان خون نہیں ہوئی وزیر صاحب کو بھی معلوم نہیں وہ اکثر فرمایا کرتے ہیں بادشاہ سلامت کو چاہیے کوتوال کو بر طرف کر دیں ریایا پریشان ہو گئی ہے کچھ دیر کے بعد اکل گوہر اپنے گھر آیا اور دربار میں جانے کی تیاری کرنے لگا وہ آج سب سے پہلے دربار میں پہچا کوتوال سب سے آخر میں ڈرہ سہما آیا


اس کی حالت 6 مائنے کے بیمار سے بتر ہو گئی تھی بالکل خاموش اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا درباریوں نے اس کی حالت دیکھ کر مزاز پرسی شروع کر دی اس نے اپنی بیماری کا بحانہ کیا تھوڑی دیر کے بعد چوب داروں نے بادشاہ کی آواز لگائی سب معتب ہو کر کھڑے ہو گئے بادشاہ سب کا سلام لیتے ہوئے اپنے تخت پر بیٹھ گئے اتوال کا سلام بھی انہوں نے خندہ پیشانی سے لیا اس کی جان میں جان آئی


اکل گوھر کی طرف شکر گزاری کی نظروں سے دیکھنے لگا وزیر نے آگے بڑھ کر کہا حضور آج کوتوال صاحب علیل ہیں جراہم کے مقدمات کل پیش کیے جائیں گے ان کو گھر جانے کی اجازت دے دی جائے باتشاہ نے کہا اچھی بات ہے آپ کہہ دیجئے وہ چلے جائیں کوتوال نے جھکر سلام کیا اور الٹے قدموں خوشی خوشی اپنے گھر کو چلا گیا سیگلوں گریبوں محتاجوں کو کھانا کھلایا ہزاروں روپیا خیرات کیا


مسجد میں جا کر شپرانے کے نفل پڑے رات کو اقل گوھر اشرفیوں کی ٹھیلی لے کر آیا اور کہا کوتوال صاحب میں نے اپنا سر ہتیلی پر رکھ کر بادشاہ سلامت سے آپ کی سفارش کی پہلے تو بہت ناراض ہوئے اور کہا ہماری نظروں کے سامنے سے دور ہو جاؤ معلوم ہوتا ہے تم کو بھی کوتوال نے اپنے ساتھ شریق کر لیا ہے جب میں نے قسمیں کھائیں اور کہا حضور وہ بلکل بے گناہ ہیں اگر ان کو سزا دی گئی تو س


اگر میرے کہنے کا حضور کو یقین نہیں ہے تو دو چار دن کے بعد کسی جاسوز سے وہاں کے حالات معلوم کروالیں مگر کل ان کو سزا نہ دی جائے کچھ دیر سوچنے کے بعد فرمایا اچھا ہمیں تمہاری بات پہ یقین ہیں ہم نے ماف کیا پوٹوال نے کھڑے ہو کر اس کو گلے سے لگا لیا اور آپ دیدہ ہو کر کہا بیٹا میرے کوئی اولاد نہیں ہے آج سے میں تمہیں اپنا بیٹا بناتا ہوں اور کل ہی اپنی جائیداد اور روپیا پیسا تمہ


اکل گوھر نے جواب دیا نہیں کوتوال صاحب میں پردیسی آدمی کچھ ایسا ہی وقت پڑا تھا کہ یہاں آ گیا آپ کی جائداد اور روپیا پیسہ آپ کو مبارکو میں تو یہ 20,000 عشرفیوں بھی آپ کو واپس کرنے آیا ہوں کوتوال نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے میں عشرفیوں واپس کیسے لے لوں اپنے بچوں کو کوئی کچھ دے کر واپس لیتا ہے میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا اکل گوھر تو چاہتا ہی یہ تھا


تھوڑے انکار کے بعد اشرفیوں کی تھیلی لے کر خوشی خوشی اپنے گھر آ گیا اب اس کو خزانچی کی فکر تھی ایک ہفتے کے بعد اس نے بادشاہ سے کہا حضور کل صبح جس وقت خزانچی سلام کے لیے حاضر ہو تو آپ اسی طرح گسے اور نفرس سے اس کی طرف دیکھئے جس طرح قوتوال کو دیکھا تھا کل رات کو میں اس کے پاس جاؤں گا خدا نے چاہا تو تمام جوارات اور اشرفیوں کے تھوڑے خزانے میں پہ جائیں گے بادشاہ نے خوش


حقیقت میں اکل گوہر یہ تمہارا ہی کام تھا کہ قوتوال جیسے آدمی کو تم نے ٹھیک کر دیا ہم خود بھیس بدل کر گئے تھے واقعی وہ جائے نماز پر بیٹھا تھا اور شریف لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے اکل گوہر نے ہاتھ بان کر کہا حضور کا اقبال تھا میری کوئی حقیقت نہیں قصہ مختصر دوسرے دن دربار میں جس وقت خزانچی نے جھکر سلام کیا بادشاہ نے ایک کہر آلود نظر اس پر ڈالی اور آگے بڑھ گئے خزانچی


بوڑا آدمی تھا ہاتھ پاؤں کھاپنے لگے مگر اپنی کرسی پر خاموش بیٹھا رہا اس کے دل میں چور تھا سمجھ گیا کسی ذریعے سے بادشاہ سلامت کو خبر ہو گئی ہے دربار برخواست ہوا تو حزان چی لڑھ کھڑا تا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا رات کو اکل گوہر اس کے گھر پہنچا وہ بستر پر پریشان پڑا تھا اس کو دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا آو ویٹا میں تو فت تمہار


آج دربار میں بادشاہ سلامت نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا ہے کہ کبھی نہیں دیکھا ہے اگر تمہیں کچھ خبر ہو تو بتاؤ میں تو بہت پریشان ہوں اقل گوہر نے جواب دیا خزانچی صاحب کیا بتاؤ بادشاہ سلامت تو بہت ناراض ہیں کل بزیر صاحب کو لے کر خزانی کا موائنہ کرنے جائیں گے کسی دشمن نے خبر دی ہے کہ بیش قیمت جوارات اور اشرفیوں کے طوڑے خزانچی صاحب کے ہاں چلے گئے ہیں


کل کسی وقت بادشاہ سلامت وزیر صاحب اور کوتوال صاحب کو لے کر خزانت دیکھنے جائیں گے اور آپ کو بھی بلایا جائے گا اگر فیرست کے مطابق جوارات وگرہ نہ نگلے تو بڑی سخت سزا آپ کے لئے تجبیز کی گئی ہے آپ بزرگ آدمی ہیں میں نے سوچا آپ کو خبر کر دوں دیکھئے اپنے نوکر کے کپلے پہن کر آیا ہوں خزانچی نے کہا بیٹا بھگوان تمہارا بھلہ کرے تم نے مجھے آگا کر دیا


بے شک مجھ سے غلطی ہو گئی تھی اور کچھ جوہ رات میں لے آیا تھا اب تم میری مدد کرو تم بادشاہ کے خاص مساہب ہو میں رات و رات سب خزانے میں پہنچا دوں گا اکل گوہر نے وہی تمام باتیں خزانچی سے کی جو پوٹوال سے کی تھی خزانچی نے فوراً پچیس ہزار روٹیے کی عشرفیاں اکل گوہر کے حوالے کر دی اور کہا تم بادشاہ سلامت کو یقین دلا دو کہ وہ خبر خزانچی کے کسی دشمن نے اڑائی ہوگی حضور شوک سے خزانے


وہ تو آپ کا بہت خیر قواہ ہے دیکھو بیٹا بڑا پے میں رسوایی نہ ہو غرز اقل گوھر اشرفیوں کی تھیلی لے کر گھر آ گیا دوسرے دن دربار میں بادشاہ نے اس کا سلام خندہ پیشانی سے لیا خزانچی کی حالت بہت خراب تھی مگر بادشاہ کی نظرے انائت دیکھ کر بو خوش ہو گیا دربار برخواست ہونے پر بادشاہ نے کہا ہم خزانے کا موائنہ کرنا چاہتے ہیں خزانچی نے ہاتھ بانکر کہا


حضور جس وقت چاہیں موائینا فرماے بادشاہ نے دوسرے دن پر ملتوی رکا ورز اب اقل گوہر کو اپنا گھر چھوڑے ایک سال ہونے والا تھا وہ اپنے دوست خوش نسیب سے ملنے اور اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے بےقرار تھا ایک دن اس نے وزیر سے کہا آپ بادشاہ سلامت سے کہ کر مجھے ایک مہینے کی چھٹی دلوادے میرا ایک چھوٹا بھائی ہے کسی دوسری طرف قسمت آزمائی کے لیے نکلا تھا


میں اس کو تلاش کر کے لاوں گا اور اپنے ہی پاس رکھوں گا آپ میرے محسن ہیں مجھے امید ہے کہ اس موقع پر بھی آپ میری مدد فرمائیں گے وزیر نے اس کو اطمینا دیا وہ اگل گوہر کو بہت چاہتا تھا اور اس سے اپنی بیٹی کی شادی کا پوائش من تھا مگر ابھی وہ اس کو پرخ رہا تھا اس وقت اس کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ اس کا کوئی بھائی بھی ہے کیونکہ وزیر کی دو لڑکیاں تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ دو بھائیوں سے


تاکہ دونوں ایک ہی گھر میں رہیں اس نے خیال کیا کہ اس کا بھائی بھی ایسا ہی شکیل و جمیل جوان ہوگا وزیر نے اس کو اتمینا دلائیا اور کہا چھٹی تو میں تم کو دلوہ دوں گا مگر شرط یہ ہے کہ تم ایک مہینے کے بعد یہیں آ جانا اقل گوھر نے کہا بھلا میں آپ جیسے شفیق بزرگ اور بادشاہ سلامت جیسے قدردان حاکم کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں بے شک بھائی کو تلاش کرنے میں کچھ وقت لگے گا


اگر دس پانچ دن کی دیر ہو جائے تو مجھے ماف کر دیا جائے وزیر نے کہا دس پانچ دن کی کوئی بات نہیں اقل گوھر وزیر کا شکریہ عدہ کر کے اپنے گھر آیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا اس کو امید تھی کہ وزیر ضرور بادشاہ سے میری سفارش کرے گا دوسرے دن وزیر نے بادشاہ سے اقل گوھر کی چھٹی کیلئے کہا اور ساتھ ہی اپنا ارادہ بھی ظاہر کیا حضور میرے کوئی لڑکا نہیں ہے


میں چاہتا ہوں کہ اس نوجوان سے اپنی لڑکی کی شادی کر دوں اور حضور وزارت کا کلمدان اس کے سفرد کر دیں میں اب بولہ ہو گیا ہوں اقل گوھر سے زیادہ اقل منھ اور خیرقوہ آدمی میری نظر سے تو کوئی نہیں گزرہ بادشاہ نے اس رائے سے اتفاق کیا رات کو شطرنج کھیلتے میں انہوں نے اقل گوھر سے کہا وزیر نے تمہاری چھٹی کے لیے کہا ہے ہماری تجبیز یہ ہے کہ وزیر کی لڑکی سے تمہاری شادی کر کے تمہیں و


تم جلد سے جلد واپس آ جانا اقل گوہر کی تو خوشی سے باچھے کھل گئی اس نے جھکر بادشاہ کو سلام کیا اور شکریہ ادا کر کے اپنے گھر آیا رات کو وزیر سے ملنے گیا اس نے کہا تمہارے ساتھ دس سپاہی کیے دیتے ہیں تنہا جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر وہ راضی نہ ہوا الگرز بسبا سبے رے اشرفیہ اپنی کمر سے باندھ کر ہتیار لگا کر بھوڑے پر سوار ہوا اور جس راستے سے آیا تھا اسی طرف چ


اس وقت وہ نیحیت قیمتی لباس پہنے تھا چلتے چلتے شام ہو گئی سامنے ایک باگ فولوں سے لڑا ہوا نظر آیا اقل گوھر اس میں داکل ہو گیا مالیوں وغیرہ نے جھک جھک کر سلام کیا اور باگ کی بارہ دری اس کے واسطے کھول دی وہ بستر پر آرام سے لیٹ گیا تھکا ہوا تھا فورا ہی نید آ گئی رات کو کوئی گیارہ بجے پانی پینے اٹھا چاندنی کھلی ہوئی تھی وہ باگ میں ٹھیلنے لگ


گویا بہت سے پرندے التے ہوئے آ رہے ہیں آسمان کی طرف نگا اٹھائی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک اڑان خطولہ چلا آ رہا ہے یہ جلدی سے درختوں کے جھنڈ میں چھپ گیا وہ خطولہ تھوڑے فاصلے پر آ کر اترا اس میں سے دو پرییاں نیچے اتر کر آئیں ان کے ہاتھوں میں دو شیشیاں تھیں انہوں نے ایک شیشی میں سے کوئی چیز روی میں لگا کر سنگھی دونوں بندریاں بن گئی اور درختوں پر چڑھ کر کودنے فاندھ


پکے پکے فل کھائے کچے توڑ توڑ کر زمین پر فہکے تھوڑی دیر میں سارا باگ بروات کر دیا جب ایک بھی فل نہیں رہا تو نیچے اتر آئیں اور دوسری شیشی میں سے روی پر کوئی شہ لگا کر سنگی اسی وقت اپنی اصل حالت میں آ گئیں یہ تماشہ دیکھ کر اکل گوھر فوراً درفتوں میں سے نکل کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا تم دونوں اودھم مچا رہی ہو وہاں راجہ اندر کے یہاں بڑی دیر سے تمہارا انت


ابھی ایک دیو نے جا کر شکایت کی ہے کہ لال سبز پریان دو شیشیاں چرا لے گئی ہیں اور آدم ذات کے باگ میں جا کر بندریاں بن کر نقصان کر رہی ہیں راجہ اندر نے کالے دیو کو حکم دیا ہے کہ فورا میں ان شیشیاں کے دونوں کو پکڑ کرلاو یہ سن کر مجھے تمہارے اوپر رحم آ گیا اور میں دیو سے پہلے اُڑ کر یہاں آیا ہوں جلدی سے یہ شیشیاں میرے حوالے کر دو اور بتاؤ یہ کس جگہ سے لای ہو میں وہاں لے جا کر رکھ دوں گا


دونوں پرییاں ڈر گئیں شیشیاں اکل گوھر کے حوالے کرکے کہا فلا فلا جگہ سے لایا ہیں تم لے جا کر رکھ دو اس نے کہا تم جلدی جاؤ اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھو میں کہہ دوں گا وہ دونوں بیمار ہیں وہ دونوں اسی وقت اڑن خطولے پر بیٹھ کر اڑ گئیں اکل گوھر نے دونوں شیشیاں پر نشان لگا کر اپنی جیب میں رکھ لی اور آرام سے سو گیا صبح ذرا دیر سے اس کی آنکھ کھ


باگ کے تمام مالے اور رخوالے بیٹھے رو رہے تھے اس نے ان کو بتایا رات کو پریوں نے آکر تمہارا باگ برباد کیا ہے ان لوگوں نے کہا حضور اس شہر پر کئی مہینوں سے یہی آفت آئی ہوئی ہے سارے باگ اُجڑ گئے ایک یہی باگی رہ گیا تھا سنا ہے دو بندریوں آتی ہیں وہ رات بھر میں اُجڑ کر چلی جاتی ہیں اقل گوھر نے کہا میں نے اب ان کا انتظام کر دیا ہے آئندہ کسی کا نقصان نہ ہوگا


کچھ دیر کے بعد ناشتہ کر کے وہ روانہ ہوا اور دوپہر کو اسی باگ میں آیا جہاں سے دونوں دوستے جدہ ہوئے تھے آج پورا ایک سال گزر چکا تھا لوگوں سے خوش نصیب کے مطالق دریافت کیا سب نے جواب دیا یہاں کوئی شخص اس نام کا نہیں آیا تین دن تک اکل گوھر یہاں ٹھہرا رہا کہ شاید آج آئے چوتھے دن وہ مشرق کی طرف روانہ ہوا کئی گھنٹے چلنے کے بعد اسے ایک شہر کی دیوار نظر آئی اس نے سوچ


گوڑے کو ایڈ لگائی اور دس منٹ کے اندر شہر میں داخل ہو گیا لوگوں سجنبی نوجوان کو دیکھنے لگے اور آپس میں بات کرنے لگے کہ کہیں کا شہزادہ آیا ہے چند لوگوں نے آگے بڑھ کر سوالات شروع کیے آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں کس سے ملنا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اگل گوھر نے کہا بھائیوں میں اپنے بھائی سے ملنے آیا ہوں ایک سال گزرا وہ یہاں آیا تھا اس عرصے میں نہ تو اس نے اپنی خیریت کا خط لکھا نہ گ


میں پریشان وکر اس کی تلاش میں آیا ہوں اگر آپ لوگوں میں سے کسی کو اس کا پتہ معلوم ہو تو مہربانی کر کے اس کے پاس پہنچا دیں دو چار آدمیوں نے کہا معلوم ہوتا ہے وہ جو پچھلے سال ایک رئیس زادے یہاں آئے تھے وہی آپ کے بھائی ہوں گے آپ ہی کی طرح پوپ سورت تھے اقل گوہر سوچنے لگا وہ بیچارہ تو وریب آدمی تھا یہ لوگ رئیس زادہ کہتے ہیں وہ اسی فکر میں تھا کہ ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا


آپ نباب خوشنسیب کے مطالب نہیں پوچھ رہے؟ اکل گوھر جلدی سے بولا ہاں بھائی ہاں میں انہی کے مطالب پوچھ رہا ہوں اگر آپ ان کو جانتے ہو تو مہربانی کر کے میرے ساتھ چلیں ایک شخص نے کہا آپ جاننے کو کہتے ہیں میرا دن رات ان کے پاس بیٹھنا تھا اکل گوھر نے گھبرا کر پوچھا بھائی وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا زندہ تو ہے مگر مردوں سے بتر حالت میں ہے ابسوز نب


اور ایک بدماش عورت کے فندے میں فس گئے اس نے ان کی تمام دولت پر قبضہ کر لیا اور ان کو ٹاٹ کے کپڑے پہنا کر اپنے باگ میں ٹوٹے اُڑانے پر رکھ لیا ہے اب وہ تمام دن باس ہاتھ میں لئے ٹوٹے اُڑایا کرتے ہیں پہلے تو ان کے پاؤں میں زنجیر پڑی تھی مگر اب سنا ہے آزادی سے فرتے ہیں لیکن باگ کے دروازے پر سخت پہرا ہے کوئی ان سے نہیں مل سکتا یہ سن کر اکل گوہر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے

35:39
کہ اس کے پاس اس قدر دولت کہاں سے آگئی تھی؟ گھر سے تو ہم دونوں خالی ہاں چلے تھے۔ اقل گوہر اس شخص سے باک کا پتہ پوچھ کر وہاں پہنچا۔ وہ شہزادوں کا سا لباز پہنے گھولے پر سوار تھا۔ باک کے چوکیدار نے نیحائیت عدب سے کہا حضور باک کے اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ اقل گوہر نے ڈاٹ کر کہا کس کی اجازت نہیں ہے؟ چوکیدار بولا مالک کی اس نے پوچھا اس با


چوکیدار نے کہا، حضور ننی جان توائف مالک ہیں۔ اقل گوھر نے مسلحت اسی میں سمجھی کہ بجائے ڈاڈ ڈپٹ کے اس وقت چوکیدار کو حنام دے کر کام نکالنا چاہیے۔ اس نے دو اشرفیوں چوکیدار کے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا، کسی سے ذکر نہ کرنا ہم سیر کر کے چلے جائیں گے۔ چوکیدار دس روپی مہوار کا غریب آدمی تھا۔ دو اشرفیوں اس نے خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔ جھک کر سلام کیا اور کہا


حضور شوخ سے باگ میں جائیں میں کسی سے ذکر نہیں کروں گا اکل گوہر نے اندر جا کر ایک درکت سے اپنا گھوڑا بان دیا اور آگے بڑھا خوش نصیب باس ہاتھ میں لئے جانوروں کو اڑا رہا تھا سوک کر کانٹا ہو گیا تھا داری بڑی ہوئی تھی سر کے بال بڑھ کر کندوں پر پڑے تھے ناکون بڑے ہوئے ایک بہشی اور دیوانہ معلوم ہو رہا تھا اس کی حالت دیکھ کر اکل گوہر کے آنسو نکل آئے ب


اس نے اسے بالکل نہیں پہچانا یہ قیمتی لباز پہنے تھا عیش و آرام کی زندگی گزار کر آیا تھا خوش نصیب نے کہیں کا رئیس زیادہ سمجھ کر جھک کر سلام کیا اکل گوھر نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگا لیا اور کہا تم نے مجھے پہچانا نہیں میں تمہارا بچپن کا ساتھی اور دوست اکل گوھر ہوں یہ سن کر خوش نصیب چیخیں مار مار کر رونے لگا بڑی دیر تک دونہ روتے رہے پھر خوش نص


خدا کے باستے مجھے اس مسیبت سے نیجاد دلاؤ اور اپنے ساتھ لے چلو اگر ہم دونوں ساتھ ہوتے تو میں اس حالت کو کیوں پہنچتا؟ اقل بوہر نے کہا گھبرانے کی بات نہیں میں آ گیا ہوں ایک ہفتے کے اندر اندر تمہارا پارس پتھر بھی تم کو واپس مل جائے گا اور جو جو چیزیں اس بدماش عورت کے ہاتھ تم نے سونے کی بنائی ہے ایک ایک کر کے سب واپس لے لوں گا فلحال تم اسی طرح رہو بے شک میں چوک


تاکہ تمہارے چہرے پر رونک آ جائے غرز اکل گوہر اس کو اتمینان دلا کر واپس آیا اور شہر کے جوہریوں کے ہاں ان کو اتر دان بنانے کا اوڈر دیا اور ایک اتر دان سونے کا جڑا و موتیوں کی جھالر کا بنوایا دوسرے دن ایک دکان کرای پر لی اس کو آراز تک کیا اور اتر فروش کے ہاں سے بہترین اتر خرید کر رکھے ایک ہفتے کے اندر اندر شہر میں شہرت ہو گئی شوکین لوگ اتر خریدنے آنے لگے


نمونے کے طور پر توہفتن دیتا تھا ہوتے ہوتے یہ خبر ننی جان کے ہاں بھی پہنچ گئی اس نے خاص آدمی کو بھیجا اور کہلوایا کہ بڑیاں بڑیاں اطر اور نئی وزا کے اطر دان لے کر ہمارے گھر پر آئے پہلے تو اقل گوھر نے انکار کیا اور کہا جس کو خرید نہ ہو دکان پر آکر خریدے اس آدمی نے رازدارانہ طریقے سے کہا صاحب وہ پردہ نشین ہیں اور بادشاہ سلامت کی خاص ملازم ہیں شاید آپ نے سنا ہوگا نن


اگر آپ کے اطر دان اور اطر ان کو پسند آ گیا تو آپ کو مو مانگی قیمت دیں گی اور انام الگ ملے گا ان کے گھر میں ہر چیز سونے کی ہے اکل گوہر کی دلی مراد بر آئی تھی مگر اس نے لاپروایی سے کہا بھائی خدا کے فضل سے مجھے کسی کے انام و اکرام کی ضرورت نہیں ہے بے شک اپنی چیز کی قیمت ضرور لیتا ہوں میرا دستور تو نہیں ہے کہ لوگوں کے گھر جاؤں مگر تم مجبور کر رہے ہو تو دکان بند کرنے کے بعد رات کو آؤں


میری دکان میں بہت قیمتی سامان ہیں نئے نوکروں پر چھوڑ نہیں سکتا ننی جان کے نوکر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی وہ اکل گوہر سے کافی مرحوب ہو گیا تھا وہاں سے جا کر بڑی تاریف کی دونوں ما بیٹیوں کو اس کو دیکھنے کا شوق ہو گیا رات کو اس نے ایک سونے کا خاص دان دوسرا جڑاؤ جو خاص طور پر بنوائی تھا رشمی رمال میں باندھا اور بڑیاں قسم کے اتر ایک سندوقچی میں رکے اور وہ دونوں ششیا


ایک سونیکی ڈیبیا میں رکھ کر گاری میں بیٹھ کر ننی جان کے ہاں پہنچا خود بھی بیش کیمت لباز پہنے ہوئے تھا اس کی نوکر نے جا کر اطلاع کی فوراً بلائے گیا دونوں ماں بیٹھییں دیکھ کر ہیران رہ گئی کہ معمولی اتر بیچنے والا اس قدر ٹھاٹ سے رہتا ہے اقل گوھر نے ایک سرسری نظر ان کے ہاں کی سامان پر ڈالی در حقیقت ہر چیز سونیکی تھی اس کا خون کھولنے لگا وہ سو


جس شخص کی بدولت یہ سب سازو سامان ان کم بختوں کو میثر آیا اس کی کیا حالت بنا رکھی ہے ننی جان کی معنیہ اس کو کالین پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا سودگر صاحب آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھئے ننی جان بھی بولی بڑی دیر سے آپ کا انتظار تھا ذرا اپنے اتر اور اتردان دکھائیے اکل گوھر نے بیٹھتے ہوئے کہا دکان پر گاہک بہت تھے اس وجہ سے دیر ہو گئی اس نے پہلے سونے کا


دو چار خشامت خورے بھی موجود تھے تاریف کرنے لگے اس نے دوسرا جُڑاو اطردان نکالا سچے موٹیوں کی چھالر جھلمل جھلمل کر رہی تھی ننی جان تو دیکھتے ہی تڑپ گئی اس نے اپنی ماں سے کہا امہ یہ اطردان تو میں ضرور لوں گی میں نے آج تک ایسی خوبصورت چیز نہیں دیکھی اور بیٹھنے والے بھی واہ واہ سبحان اللہ کہنے لگے اب اکل گوھر نے اطر کی شیشیوں میں سے ایک ایک فوریری سب کو سم


سارا کمراہ خشبو سے مہک گیا دونوں ماں بیٹیوں کو اتر بہت پسند آئی ننی جان نے اکل گوہر سے کہا اس سونے کی سندوقچی میں کیا ہے اکل گوہر نے کہا یہ نائیاب چیز ہے اس کے قیمت بہت زیادہ ہے گوڑیا بولی کیا تم سمجھتے ہو ہم قیمتی چیز نہیں خریط سکتے سودگر صاحب اگر تم کہو تو ہم تمہارے برابر سونہ تول سکتے ہیں اکل گوہر نے کہا بے شک بے شک


آپ ٹھیک کہتی ہیں مگر میرا اطر بھی ایسا ہے کہ دنیا کے پردے پر آپ کو نہیں ملے گا میں نے ایک پری کو کسی آفت سے بچایا تھا اس نے توفتن مجھے پرستان کے اطر کی دو ششیاں دیتھی ننی جان بولی پھر تو میں ضرور سنگ کر دیکھوں گی پرستان کا اطر کیسا ہوتا ہے اقل گوہر نے کہا مگر میں صرف نمونے کے طور پر دوں گا فروخت نہیں کروں گا ننی جان بولی اچھا سنگاؤ تو کیسا ہے


اکل گوھر نے اپنے کمر بند میں سے سونے کی کنجی نکال کر سندوقچی کھولی اور ایک روئی کی فوریری میں شیشی میں سے وہ چیز لگا کر ننی جان کو دی اس کے سونگتے ہی وہ بندریہ بن گئی سب سے پہلے اس نے اپنی ماں کے بال نوچ ڈالے اس کے بعد جو لوگ وہاں بیٹھے تھے سب کو نوچنا اور کاتنا شروع کر دیا ہر شخص ڈر کے مارے ننگے پاؤں بھاگا بڑیا نے رونا پیٹنا شروع کر دیا ہائے میری بچی کو کیا


بڑھیا اپنا ماتہ اور سینہ پیٹ رہی تھی بندریہ کمرے کی ہر چیز توڑ رہی تھی نوکر چاکر سب بھاگ رہے تھے بڑھیا نے اقل گوھر کو پوسنا شروع کیا بڑھیا تجھے غارت کرے یہ تونے میری بچی کو کیا چیز سنگا دی وہ بولا میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا پرستان کی چیز ہے تمہاری لڑکی نے قدہ ہی لے کر سنگی بڑھیا بولی ارے کم باکت اب اس کو آدمی بنا


اکل گوھر نے کہا پارس پتھر میرے حوالے کرو ابھی تمہاری لڑکی انسان بن جائے گی بڑیا نے بگل کر کہا پارس پتھر ہمارے پاس کہاں سے آیا جو تمہارے حوالے کریں اکل گوھر نے اپنی چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا بڑیا تو چھوٹ بول رہی ہے مجھے پری نے بتایا تھا کہ تیرے پاس پارس پتھر ہے اگر نہیں دیتی تو تیرا ہی نقصان ہے زندگی بھر تیری لڑکی بندریا ہی رہے گی وہ اپنی چ


بندریہ نے اپنی ما کا مون نوجھ کر خونم خون کر دیا اس نے روتے ہوئے اکل گوہر سے کہا تھیرو میں پارس پتھر لاتی ہوں وہ رک گیا بڑیا اپنے بکسہ کھول کر پتھر نکال لائی اور اکل گوہر کو دیتے ہوئے کہا لو یہ پتھر اور میری لڑکی کو انسان بنا دو اکل گوہر نے پتھر لے کر اپنے چاندی کے بکسے پر رگلا اور وہ سونے کا ہو گیا جب اس کا اتمنان ہو گیا تو اس نے بڑیا سے کہا


بدماش عورت، تُونے ایک شریف آدمی کو دھوکہ دے کر اس سے پتھر حاصل کر لیا اور اس غریب کو غلام بنا کر رکھ لیا تیری سزا یہ ہے کہ ہمیشہ تیری لڑکی بندریہ بنی رہے یہ کہا کر اقل گوھر چلنے لگا گُڑیا اس کے قدموں پر گر پڑی اور گڑھا کر کہنے لگی خدا کے باستے میری بچی کو انسان بنا دو میں فش نسیب کو ابھی بلوائے دیتی ہوں میرے حال پر رحم کرو بندریہ پودھ فاند رہی تھی اق


ابھی اس آدمی کو بلوا کر میرے سپرت کر بڑیا نے اپنی نوکروں کو آواز دی مگر سب ڈرکر چھپ گئے تھے وہ خود پوٹھے سے اتر کر نیچے گئی اور نوکروں سے کہا ابھی باگ میں جا کر توتے اُڑانے والے کو لے کر آو اور اس کا ایک جوڑا کپنوں کا بھی لے تے جاؤ تاٹ کے کپڑے اُتروا دینا تھوڑی دیر میں خوش نصیب کو نوکر لے کر آگئے بڑیا نے کہا لو یہ آ گیا اب جلدی کرو


سندوقچی میں سے روئی نکال کر اس پر دوسری شیشی میں سے ایک کترا ٹپکایا اور بندریا کی طرف بڑا وہ اس کو نوجنے کو دوری اس نے اپنے پاؤں سے جوٹا اتار کر دس جوٹے بندریا کے کس کس کے لگائے بڑیا رونے چیکھنے لگی ارے میری بچی کو مارتے کیوں ہو وہ بہت نازو کی پلی ہوئی ہے اکل گوہر نے جواب دیا میرہ بھائی بھی بہت نازو کا پلہ ہوا تھا جس کا تجھ بدماش عورت نے یہ حال کر دیا


اگر ایک دیو کو بھی بلالوں تو ابھی دونوں کو کچہ چوہ جائے گا بلکہ تمہارے بادشاہ تک کو لے جا کر قید کر دے بڑیا ہانچ جوڑ کر کھڑی ہو گئی وہ خوش نصیب کے قدموں میں بھی گر پڑی بیٹا میرا خسور ماف کر دو اور اپنے بھائی سے کہو میری بچی کو انسان بنا دے غرز اقل گوھر نے بندریہ کو دل بھر کر مارا اور روئی اس کی ناک سے لگا دی وہ فورا اپنی اصل حالت پر آ گئی اور م


گوھر اپنی چیزیں اٹھا کر خوشنسیب کو سانتھ لے کر کوٹھے سے نیچے اتر گیا چلتے چلتے بڑیا سے کہہ گیا آیندھا کسی شریف آدمی کو ڈھوکا دیا تو میں پھر آکر تم دونوں کو بندریہ بنا دوں گا سڑک پر آکر اس نے ایک گاڑی کرای پر لی اور سیدھا اپنی دکان پر آیا وہاں سے سب سامان اٹھا کر اس نے گاڑی میں رکھا اور جس سرائے میں ٹھہرا تھا وہاں آ گیا اس نے راتھی کو


اب اس کی صورت انسانوں کیسی نکلی صرف کمزور مالوک ہوتا تھا اسی رات کو اپنا سامان ٹھیک کر کے صبح سوبرے جانے کو تیار ہو گیا خوش نسیم نے کہا بھائی اتنی جلدی کیوں کرتے ہو کل اتمینان سے چلنا اقل گوھر نے ہسکر کہا ارے میرے یار اتنا پچھ کھو کر بھی اقل نہیں آئی اس وقت تو میں نے اپنی حکمت عملی سے بڑیا کو ڈرہ دیا کیا خبر صبح وہ عورت بالسہ کے ہاں فریاد ل


تم کو یہاں بچہ بچہ جانتا ہے خوشنسیب نے کہا ہاں بھائی کہتے تو ٹھیک ہو ننی جان بادشاہ کے ہاں ملازم ہیں اکل گوہر بولا اور کسی بات سے تو میں ڈرتا نہیں مگر یہ اندیشہ ہے کہ تمہارا پارس پتھر ہاتھ سے نہ جاتا رہے ورز ابھی کچھ رات باقی تھی کہ اکل گوہر نے خوشنسیب کو اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھایا اور صبح ہونے سے پہلے کئی میل دور نکل گیا


جہاں سے دونوں نے الگ الگ سفر شروع کیا تھا یہاں بیٹھ کر کچھ کھایا پیا اور اپنے شہر کی طرف روانہ ہوئے شام تک وہ اپنے وطن پہنچ گئے اور اپنے محل میں گئے دونوں کے اپنے مکانوں میں رہنے والوں کو خبر ہوئی اور سب محلے والے بھی جمع ہو گئے حال احبال پوچھنے لگے اکل گوھر کو دیکھ کر سب بہت خوش ہو گئے مگر خوش نصیب کی حالت پر افسوس کیا کہ اس کو کیا ہو گیا اس نے بیم


صبح اکل گوہر مکان کی تلاش میں نکلا کئی دن کی کوشش کے بعد ایک بہت بڑی حویلی خریدی اور اسے قیمتی فرنیچر سے آرادسٹ کریا کئی ملازم رکھے اور ایک معتبر آدمی کو داروگا بنائیا اور اس کو ہدایت کر دی کہ ایک نیحائیت خوبصورت باگ لگوایا ہم دو مہینے کے بعد اپنی شادیوں کر کے آئیں گے اس وقت تک ہر کام ممکن ہو جائے خوش نسیب کو اس نے خوب طاقتور گزائیں کھلا کھلا کر پہلے جیس


اس کو ڈیڑھ مہینہ وزر گیا خوش نسیب کہتا تھا کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے آرام سے اپنے گھر میں رہیں گے مگر اقل گوہر نے کہا میں وادہ کر کے آیا ہوں وہاں کے وزیر اور بالشاہ کا احسان مند ہوں بالشاہ نے کہا ہے کہ وزیر کی دو لڑکیاں ہیں تم دونوں بھائیوں سے ان کی شادی کرو دیں گے اور مجھے اپنا وزیر بنایں گے میں نے بڑی بڑی ترقیبوں سے عزت اور شعرت حاصل کی ہے


تم کو تو اپنی خوش نصیبی سے پارس پتھر مل گیا تھا مگر تم نے اپنی بے بکوفی سے اسے گوا دیا اور چھے مہینے ولاموں سے بتر زندگی بسر کی اگر میں نہ پہنچتا تو پندرہ بیس دن میں ختم ہو جاتے اگر میں تمہارے کہنے پر عمل کروں تو آئندہ کی کیا خبر تم اور کسی کے دھوکے میں آکر وہ پتھر کسی کے حوالے کر دو اور پھر وہی حالت ہو جائے جس سے تنگ آکر ہم نے اپنا وطن چھوڑا تھا میا اگر ت


اس کے علاوہ میں ایک نصیحت اور کرتا ہوں اگر وزیر کی لڑکی سے شادی ہو جائے تو یہ نہ کرنا کہ ان کے ہاں کی ہر چیز کو سونے کی بنانے لگ جاؤ ورنہ لوگوں کو شوہ ہوجائے گا اپنا راز کسی پر ظاہر مطرح کرنا تم بھی پڑے لکھے آدمی ہو وہاں جو امدہ ملے اس کو خوشی سے قبول کرنا اور محنث سے کام کرنا خوش نصیب نے جواب دیا اب میں تمہارے کہنے پر عمل کروں گا بلکہ پارس پتھ


اکل گوھر نے کہا نہیں بھائی شاید وہ میرے پاس سے خود ہی غایب ہو جائے اگر میرے پاس رہنے کی چیز ہوتی تو مجھ کو ہی ملتی میری قسمت میں مہنت کر کے کمانہ لکھا ہے قصہ مختصر ڈیڑھ مہینے کے بعد اکل گوھر اور خوش نسیب وہاں پہن جے دونوں گھوڑوں پر سوار قیمتی لواز پہنے ہوئے تھے شہر کے لوگوں نے اکل گوھر کو پہنچان کر جھک جھک کر سلام کرنے شروع کر دئیے وہ سمجھ گئ


اکل گوھر سیدہ وزیر کی ہاں پہنچا اور اپنی آمت کی اطلاع کروائی وزیر فوراً باہر نکل آیا خوش نسیب کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دونوں کو گلے لگا کر کہا میا ہم تو سمجھتے تھے تم ہمیں دھوکہ دے گئی ہو کئی مرتبہ بادشاہ سلامت نے بھی پوچھا خیر دیر آئے درست آئے اکل گوھر نے جواب دیا جناب بھائی کو تلاش کرنے میں دیر لگی مافی چاہتا ہوں و


پردیس جا کر ایسا ہی ہوتا ہے ہم تو اس سے خوش ہوئے کہ تم وادے کے سچے ہو اپنے بھائی کو لے کر آ گئی اقل گوھر نے کہا جناب، بات دراصل یہ ہے کہ بھائی کو ساتھ لے کر میں اپنے وطن گیا وہاں جا کر یہ معلوم ہوا کہ ہمارے مالک کا بالشاہ مر گیا ہے جس نے ہمارے والد اور پورے خاندان کو قتل کروا دیا تھا صرف ہم دونوں بھائی بھاگ نکلے تھے اب اس بالشاہ کا بیٹا تخت نشین ہوا ہے وہ بہ


اس نے ہماری تمام جائداد اور روپیا پیسہ ہم دونوں بھائیوں کو واپس کر دیا لوگ ہماری تلاش میں تھے بادشاہ سلامت نے ہمیں بلا کر کہا کہ ہم تمہارے باپ کی جگہ تم کو رکھنا چاہتے ہیں مگر میں نے معافی مانگ لی کہ حضور ابھی مجھ میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ اتنا بڑا اعضا سمال سکوں خوشنسیب خاموس بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا وزیر نے پوچھا بیٹا تمہارے والد کے سپرد کونسا اعضا تھ


جناب وہ وہاں وزیر تھے یہ سن کر وزیر اپنی دل میں بہت خوش ہوا اس نے کہا بیٹا میں تو پہلے ہی دن سمجھ گیا تھا کہ تم آلہ خاندان کے چشم و چراگ ہو اقل گوہر نے گردن چھوکا کر کہا یہ تو جناب کی زردہ نوازی ہے اس نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگی اور دونوں گھر میں آئے نوکر موجود تھے فوراً مکان کھولا گیا تھاکے ہوئے تھے اپنے بستروں پر لیٹ گئے خوش نس


وزیر کے بیٹے بن گئے میں تو تمہاری شکل دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا اقل گوھر نے کہکاہ لگا کر کہا پردیس میں کون کسی کو جانتا ہے یاد رکھو ہمیشہ دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو زلیل نہ کرو خدا کے فضل سے تمہارے باس پارس پتھر ہے دونوں ایسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے آخر سو گئے صبح کو اٹھے تو وزیر دونوں کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ دونوں کو دیکھ کر بہ


اور اکل گوھر سے دیر سے آنے کا سبب دریافت کیا۔ اکل گوھر نے پوری کہانی سنائی کہ بھائی کو تلاش کرنے میں وقت لگ گیا اور جو اپنے وطن کی کہانی وزیر کو سنائی تھی وہی کہانی بادشاہ کو بھی سنا دی۔ بادشاہ بھی اکل گوھر کو بہت پسند کرتا تھا اس کے جانے کا سن کر اسے بہت افسوس ہوا لیکن آخرکار اس نے اجازت دے دی اس کے بعد وزیر کی دونوں لڑکیوں سے اکل گوھر اور خوش نصیب کی شاد


وزیر نے بہت سا سادو سامان گھوڑے اونٹ ان کے ساتھ کیے اور وہ وہاں سے لوٹ کر اپنی وطن واپس آ گئے اور اپنی حویلے میں ہسی خوشی زندگی گزارنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow