پھول بیچنے والی لڑکی کی بہت ہی دلچسپ کہانی

پھول بیچنے والی لڑکی کی بہت ہی دلچسپ کہانی

Oct 15, 2024 - 11:52
Oct 15, 2024 - 11:59
 0  4
پھول بیچنے والی لڑکی کی بہت ہی دلچسپ کہانی
the flower seller girl very intresting story


بسم اللہ الرحمن الرحیم ہمارے چانل میں خوشام دید جس طرح تیری ماہ نے میری زندگی جہاننم بنائی تھی اسی طرح میں بھی تجھے اسی دوزق میں پھینکوں گی میں مسلسل دو گھنٹوں سے گھٹنوں میں مو چھپا کر روے جھلی جا رہی تھی لیکن مامی کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے بے ہد نفرت کرتی ہے لیکن اتنی نفرت


ان کے دل سے تو ہر اچھائی برائی کا خوف ہی ختم ہو گیا تھا محلے میں رہنے والا عرشد جو مجھے بچپن سے ہی پسند کرتا تھا آج اس نے اپنی ما کو میرے رشتے کے لیے بھیجا تھا لیکن مامی نے اسے دھکے دے کر نکال دیا کہنے لگی کہ اس کا رشتہ میں نے تیقر دیا ہے آنیدہ کبھی میری دہلیز پر اس کا رشتہ لینے نہ آنا نہ صرف ان کی بے عزتی کی بلکہ صاف لفظوں میں بتا دیا کہ میری اور عرشد کی شادی کب


عرشد کی ماں کے جاتے ہی مامی نے مجھے بالوں سے پکڑا اور دیوار میں دے مارا کہنے لگی آوارا لڑکی تجھے اسی کام کے لیے میں باہر بھیجتی تھی کہ تجھے آکر گلی محلے کے لڑکوں سے آنکھ مٹکا کرے تیر ماموں کو آنے دے دیکھنا میں کیسے انہیں آگ لگاتی ہوں وہ کل ہی تجھے اس گھر سے نکال دیں گے پھر میں ان کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر تھک گئی کہ مامی اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے


عرشد نے خود اپنی ما کو مجھے بنا بتائے اس گھر میں رشتے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہ میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی مجھے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ جیسے ہی مامو شہر سے لٹیں گے تو مامی نا جانے انہیں کیا کیا کہا کر بھڑکائیں گی اب میں خاموش تھی کچھن میں جا کر کام کرنے لگی رو رو کر میری آنکھیں لال ہو چکی تھی بس اپنے نصیب پر رو رہی تھی خدا نے نا جانے میری زندگی میں ک


میرا نام نایاب ہے میری زندگی بھی سب لوگوں کی طرح خوبصورت ہو سکتی تھی اگر میرے ماں باپ اس دنیا میں میرے پاس ہوتے میری بدقسمتی یہ تھی کہ میری ماں زندہ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس موجود نہیں تھی بلکہ جیسے ہی میں اس دنیا میں آئی وہ ابو سے تلاق لے کر اپنے کسی پرانے عاشق سے شادی کر چکی تھیں اور میں نے بچپن سے ہی یہ سنا تھا کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں اپنے شہر کے ساتھ رہ رہی تھیں


اب بھو نے اس بات کا دل پر صدمہ لے لیا ایک دن آفس میں کام کر رہے تھے جب اچانک انہیں ہٹ ٹیک ہوا اور وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے اس وقت میری عمر صرف سال تھی دوسری طرف میری امی کی شادی وٹے سٹے میں ہوئی تھی اسی لیے جیسے ہی امی نے تلاق لی تو دوسری طرف میری پھپھو جو میرے معامو کی بیوی بھی تھی وہ مجھ سے شدید نفرت کرنے لگی


لیکن چونکہ وہ دونوں اچھی زندگی گزار رہتے اس لئے ان دونوں کی طلاق نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی ان کے بھائی کا انتقال ہوا یعنی میرے ابو کی وفات ہوئی تو ان کی نفرت چار گناہ بڑھ گئی اب وہ ہر وقت مجھے میری ماں کا تانا دیتی کہتی کہ اسے بھی دنیا میں آنے کی کیا ضرورت تھی ضرور یہ بھی اپنی ماں کی طرح گل کھلائے کی وہ میری دادی اور معامو کو کہتی کہ اسے کسی یتیم کھانے میں جا کر پھینگ دیں


نور جہاں میری ماں کا نام تھا واقعی انہوں نے ایسا کام کیا تھا جو کوئی بھی شریف عورت تو نہیں کر سکتی تھی امی تو مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور اب بھو از دنیا سے چلے گئے اب مجھے پالنے کی ذمہ داری دادی کے سر تھی لیکن ان کی بوڑی ہڈیوں میں اتنی جان نہ تھی پھر ایک دن انہوں نے میرے معمو کو بلوائی کہنے لگی یہ تمہاری بہن کا گند ہے اسے اپنے گھر لے جاؤ ایسا نہ ہو کہ اسے


مامو نے اس وقت تو میرے سر پر ہاتھ رک دیا لیکن اپنی بیوی کے آگے مجبور تھے ان کی بیوی بات بے بات ان کی آوارہ بہن یعنی میری ماہ کا نام لے لے کر ان کا جینا حرام کرکے رکھتی تھی میں ماسوم جس کا کوئی کسور بھی نہیں تھا اس سارے معاملے میں بری طرح پس رہی تھی اب تو محلے پڑھاؤس کے لوگ بھی مجھے نفرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اور آکر مامی سے کہتے تھے کہ اس پر خاص نظر رکھا کرو


ایسا نہ ہو اپنی ماں کی طرح بد کردار نکلے دیکھو تو صحیح شادی کے بعد بھی اپنے عاشق سے رابطے میں تھی تبھی تو فوراً تلاق لے کر اس کے ساتھ رات کے اندھیرے میں گھر سے بھاگ گئی لیکن مامی نے بھی قسم کھائی تھی کہ میں اپنے بھائی کے مرنے کا بدلہ اس عورت کی بیٹی سے لے کر رہوں گی اس کا نصیب ایسی جگہ پھوڑوں گی جہاں پر اس کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا یہ سر پٹخ پٹخ کر رو


وہ ساری دنیا کو کہتی رہتی تھی کہ میرے بھائی کی موت کی ذمہ دار یہ اور اس کی مہ ہے۔ وہ میرے بھی باپ تھا۔ میں بھلا کیسے سوچ سکتی تھی کہ میرا باپ مجھ سے جدہ ہو جائے؟ ہاں مہ کا پیار تو میرے نصیب میں نہیں تھا لیکن باپ کا مرنا میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ ایسے میں میں ہر وقت خاموش رہنے لگی۔ مامو کے بھی چار بچے تھے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھی۔


اسی طرح وہ بھی مجھے بڑی بہن سمجھ کر عزت نہیں دیتے تھے بلکہ مجھے ملازمہ سمجھ کر ہر وقت حکم چلاتے رہتے بچپن سے ہی پورے گھر کی ذمہداری میرے کندوں پر تھی چاہے پھر وہ کھانا پکانا ہو گھر کی سفائی سُتھرائی یا کپڑے دھونا اکسر اتوار والے دن میں کپڑے دھوتی تھی اس دن بھی میں کپڑے چھت پر سُکھانے جا رہی تھی جب سامنے والی چھت پر کھڑ


مجھے عجیب سا خوف محسوس ہوا بالٹی اٹھا کر میں فورا نیچے آ گئی اب میں کپڑے سکھانے سے تنگ آ گئی تھی کیونکہ جب بھی چھت پر جاتی تو وہ لڑکا نہ جانے کہاں سے اپنی چھت پر پہن جاتا اور مسکورہ مسکورہ کر دیکھتا رہتا تھا پھر چم دنوں بعد اس نے ایک سفید کاغس چھت پر پھینکا میری جان نکل گئی اگر مامی نے یہ کاغس دیکھ لیا تو شاید وہ مجھے زندہ درگور کر د


کامتے ہاتھوں سے جیسی کاغز اٹھا کر پڑا تو اس پر لکھی تحریر پڑھ کر میرے ہوش اڑ گئے میرا نام عرشد ہے میں آج سے نہیں بلکہ بچپن سے آپ کو پسند کرتا ہوں آپ کے چہرے کی معصومیت اور اداسی دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے گھر میں کتنے ظلم کا شکار ہیں کل میں اپنی ماں کو رشتے کے لیے بھیجوں گا امید ہے کہ آپ کی طرف سے انکار نہیں ہوگا


وہ عورت دوسرے دن ہی رشتہ لے کر آ گئی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ مجھ پر قیامت بن کر یہ دن گزرے گا مامی نے تو اس عورت کی اتنی بے عزتی کی کہ وہ برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئی اور مجھے مامی نے دھمکی دی کہ جیسے ہی تمہارا مامو آئے گا تو میں اسے تمہارے کرتوت بتاؤں گی اب مجھے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ ضرور مامی ایک کی دو لگا کر انہیں نا جانے کیا کیا کہیں گی


اور پھر مامو مجھے کہیں گے کہ جس طرح تمہاری ما نے کیا اب وہ سب تم کرنا چاہتی ہو پھر شام کو ہی مامو گھر واپس آ گئے مامی نے زور زور سے چیختے ہوئے مامو کو بتایا کہ کس طرح پڑاوست سے رہنے والے عرشد سے تمہاری بھانجی کا چکر چل رہا ہے اور یہ ہمیں آج بتا چلا ہے مامو نے مجھے ایک لفظ بھی نہ کہا لیکن مامی سے کہنے لگے کہ میں اس کا بندوبست کرتا ہوں اس کے ارادے خطرناک لگ رہے ہیں


میں خوف سے کھاپ کر رہ گئی لیکن دوسرے دن جو ہوا وہ تو میرے وحم و گمان میں بھی نہیں تھا چار لوگ اندر آئے ان کے ساتھ ایک اجنابی آدمی تھا جس کی عمر اچھی خاصی تھی تبھی مامی نے میرے سر پر لال تپٹا ڈال دیا پھر مکاری اور نفرت سے کہنے لگی تیرا صحیح بندوبست ہوا ہے ایسی لڑکیوں کے ساتھ یہی ہی ہونا چاہیے چل اب نکاح نامے پہ سائن کر دینا چپ کر کے خبرتار جو مو سے ایک لفظ ب


میں اس اچانک آنے والی افتاد پر بری طرح گھبرا گئی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرے سگے معمو مجھ سے یہ سلوک کریں گے وہ ناجانے کس آدمی سے میرا نکاح کر رہا تھے دو آنسو نکل کر میری گود میں گرے تھے میں جانتی تھی کہ میرا نصیب بہت خوٹا ہے میرے نصیب میں کبھی بھی کوئی خوشی نہیں لکھی لیکن مجھ پر ظلم کرنے والے میرے اپنے ہوں گے یہ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا


پھر میں نے خاموشی سے نکاح نامے پر سائن کر دیا مامو نے میرے سر پر ہاتھ رکھا کہنے لگے جو کچھ تم نے کیا ہے امید ہے کہ دوبارہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں کرو گی آج کے بعد میرا تم سے کوئی تعلق نہیں میں نے تمہاری ذمہداری اس لئے اٹھائی تاکہ تم اپنی ماں کی طرح کبھی میرا سر نہ جھکاؤ لیکن آج تم نے مجھے شرم سار کر دیا ان کی آنکھوں میں میرے لئے نفرت تھی


میرا دل چاہ رہا تھا کہ چیخیں مار مار کر روں کہ مامو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں اگر کوئی مجھے پسند کرتا ہے تو اس میں میرا کیا کسور ہے لیکن اب سفائی دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا انہوں نے میری زندگی کا فیصلہ کر دیا تھا میں نے اپنی سفائی میں ایک لفظ بھی نہ کہا خاموشی سے اس اجنبی کے ساتھ گھر سے باہر چلی آئی میں نے سنا تھا جب مامی میری چھوٹی کزن سے کہہ رہی تھیں ارے اس لڑکی کی شادی تو ہم


یہ آدمی جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ جھگی بستی کا رہنے والا ہے اچھا ہے اس سے بھیک مغنگوائے گا اس کی اوقات ہی یہی تھی میں تو چاہتی تھی کہ یہ شادی ہو کر کسی جھوپڑی میں جائے نہ کہ یہ مہل میں جانے کا خواب دیکھ رہی تھی تو کیا سچ میں مامو نے میری شادی ایک فقیر سے کی ہے وہ آدمی آگے آگے چلا جا رہا تھا اور پھر مامی کا کہا سچ ثابت ہوا جب اس نے مجھے ایک جھگی بستی میں لا کر بٹھا دیا


وہ ایک جھگی ہی تھی وہاں پر ایک بستر پڑا ہوا تھا جو شاید اُس ہی آدمی کا تھا اس نے مجھے نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئی جہاں پر ایک کپڑا بچھا ہوا تھا پھر وہ آدمی مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگا میں کل سڑک پر کھڑا تھا ویسے تو بھیک مانگنا میرا روزانہ کا معمول ہے کیونکہ میں ایک درویش صفت آدمی ہوں اسی لئے مانگ کر ہی


کہنے لگا مجھے اپنی بھانجی کے لیے رشتے کی تلاش ہے۔ میں کسی تم جیسے آدمی سے ہی اس کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس کی بات سن کر خوش ہو گیا۔ شادی کی خواہش کس آدمی کو نہیں ہوتی۔ میں نے تو اپنی زندگی سے اس لفظ کو ہی نکال دیا تھا۔ کیونکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے جیسے جھگی میں رہنے والے آدمی کو بلا کون اپنی بیٹی دے گا۔ لیکن جب تمہارے معمو نے مجھ سے تم سے شادی کرنے کا


اب میں نہیں جانتا تھا کہ تمہارے نصیب میں ہاتھ پھیلانا لکھا ہے یا نہیں لیکن میں تمہیں پیٹ بھر کر کھانا ضرور کھلاوں گا وہ آدمی جو اب میرا شہر بن چکا تھا مجھے یقین دلاتے ہوئے کہنے لگا لیکن میں بے بسی سے روئے جا رہی تھی دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سمجھا جاؤ میں نے کبھی بھی کسی محل کی خواہش نہیں کی تھی لیکن کیا سچ میں ہی میں ایک بکاری کی بیوی بن گئی ہوں


اس بات کا مجھے خود یقین نہیں آرہا تھا میرے شہر نے مجھے ہاتھ بھی نہ لکایا وہ مجھ سے کہنے لگا کہ تمہارا رونا بتا رہا ہے کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو لیکن تم فکر نہ کرو جب تک تمہارا دل راضی نہیں ہو جاتا میں تمہیں کبھی بھی کسی بات کے لیے مجبور نہیں کروں گا یوں میرے اور اس کے درمیان اجنبیت کا گہرا رشتہ قائم ہو گیا دوسرے دن وہ اپنے کام پر جلا گیا


میں جھگی کی صاف ستھرائی کرنے لگی چند میلے کچھ ایلے برطن پڑے تھے پھر میں نے گھڑے میں پانی دیکھا تو برطنوں کو صاف کر کے رکھ دیا ابھی تھوڑی دیر گزری تھی جب کچی بستی میں رہنے والی عورت چلی آئی مجھے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی پھر حیرت سے کہنے لگی ارے! اتنی خوبصورت لڑکی ہماری جھگی بستی میں کیا کر رہی ہے تم اس آدمی کی بیوی بن گئی ہو میں نے س


میں نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تو وہ خود ہی کہنے لگی ای رے یہ تو بڑا عجیب آدمی ہے کسی عورت سے بات تک نہیں کرتا تھا حلاکہ جھگی میں رہنے والی کئی لڑکیاں اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن اسے اس کچی بستی میں آئے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں اس بستی میں رہنے والے آدمی کہتے ہیں کہ یہ کسی عامل کا خاص بندہ ہے نا جانے کیا کیا عمل کرتا رہتا ہے تم اس سے بچ کے رہنا


میں بری طرح خوف کا شکار ہو گئی تھی اس عورت کی باتیں مجھے خوف دلائ رہیں تھی لیکن اب میں بھلا یہاں سے کہاں جا سکتی تھی آخر کو میرا اس آدمی سے نکاحہ ہو چکا تھا پھر شام ہوتے ہی وہ واپس چلا آیا تحلی میں سے کھانا لے کر آیا تھا بالکل درویشنو والا ہو لیا تھا اپنی ساری مالائیں اتار کر اس نے سائیڈ میں رک دی پھر بڑے سے تھال میں کھانا ڈال کر مجھے دے دیا اس کھانے سے بہت لذیز خش


میں بے اختیار اس کی خشبو سے متاثر ہو کر کھانا کھانے پر مجبور ہوئی کھانا کھا کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا خدا جس حال میں بھی رکھے اپنے بندوں کا پیٹ تو بھر ہی دیتا ہے چاہے کوئی جھومپڑی میں ہو یا محل میں اور ایسے ہی خدا نے اس آدمی کے ذریعے میرے نصیب کا کھانا یہاں بھیج دیا میں اس عورت کی کہی ہوئی باتیں اس سے پوچھنا چاہتی تھی لیکن اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی بلکہ پورے دن کی روزگ


اچھے خاصے پیسے اس نے کمالیت ہے پھر وہ مجھے کہنے لگا کہ کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا لیکن میرے پاس پہننے کے لیے ایک بھی لباس نہیں تھا پھر وہ کہنے لگا ٹھیک ہے اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے تو میں یہ اپنے پاس زمہ کر لیتا ہوں جب بھی تمہیں ضرورت پڑے اس ڈبے میں سے نکال لینا ایک بکاری ہونے کے باوجود اس کا دل بہت بڑا تھا پھر میں رات کو اسی


حلا کہ مچھروں نے مجھے پوری رات سونے نہیں دیا لیکن پھر بھی اپنے نصیب پر سبر کرتے ہوئے میں نے اپنا تپٹا سر تک تان لیا پھر اجانہ کی مجھے قدموں کے چلنے کی آواز آئی جیسے یہاں سے کوئی اٹھ کر گیا ہو میں نے فورا نہیں پلٹ کر دیکھا تو گھبرا گئی اس آدمی کا تو جھگی میں نام و نشان بھی نہیں تھا اب وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر کہاں چلا گیا میں یہاں سے باہر بھی نکل کر نہیں جا سکتی تھی جان


جو اپنی اپنی بیویوں یا خاندان کے ساتھ یہاں پر آباد ہیں۔ کوئی بھی مجھے دیکھ کر بری نظر ڈال سکتا تھا۔ اسی لیے میں دبکی یہیں بیٹھی رہی لیکن مجھے شدید غصہ آ رہا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ جیسے یہ آدمی واپس آئے گا تو میں اس سے پوچھوں گی کہ یہ آدھی رات کو کہاں اٹھ کر گیا تھا۔ پھر دو تین گھنٹے گزر گئے لیکن وہ واپس نہ آیا۔ اب میں ہی آنکھیں مونت کر سو گ


بھیک مانگنا اس کا روز کا معمول تھا میں نے غصے سے اسے دیکھا پھر وہ مجھے نظر انداز کر کے خاموشی سے اس جھوپڑی سے باہر چلا گیا حالانکہ میں پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ آدھی رات کو اٹ کر کہاں گیا تھا لیکن نہ جانے کیوں میری حمد ہی نہ ہوئی پھر رات کے جما برطن میں صبح دھونے لگی میں نے پوری جھوپڑی کی ساف سُتھرائی بھی کر دی بے اختیار میری نظر اسی ڈبے پر پڑی جس میں وہ آدمی


جیسے ہی میں نے وہ ڈبہ کھول کر دیکھا تو حیرت سے دنگ رہ گئی وہ پورے کا پورا پیسوں سے بھرہ ہوا تھا کیا اس بکاری نے اتنی دولت زمہ کر رکھی تھی؟ میں یہ سوچ کر حیران تھی مجھے غصہ بھی آیا کہ جب اتنے پیسے اس کے پاس ہے تو کوئی گھر کیوں نہیں لے لیتا؟ آخر کوئی انسان عزت سے بھی اپنی زندگی گزار سکتا ہے نہ کہ ایک فکیر کی طرح بھیک مان کر پھر شام کو وہ واپس آیا تو میں نے اس کا لایا ہوا ک


وہ میرے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگا کیا ہوا ابھی تک تم ان حالات کو سمجھ نہیں بائی دیکھو اپنا دل چھوٹا نہ کرو جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے ہو سکتا ہے کہ آج میں فقیر ہوں لیکن کل کو بادشاہ بن جاؤ میں اس کی بات سن کر حیران ہوئی پھر جھجکتے ہوئے کہنے لگی مجھے ویسے ہی لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے لیکن کل رات آپ کو آدھی رات کو یہاں سے جاتے ہوئے دیکھا تو میں


میں نے پہلی بار اپنے شہر سے کوئی بات کی تھی وہ میری بات سن کر مسکر آیا کہنے لگا گھبرانے کی ضرورت نہیں میرا ایک ضروری کام ہے میں ہر جمعے رات کی رات کو وہاں پر ضرور جاتا ہوں لیکن آج رات کہیں نہیں جاؤں گا میرا تم سے وعدہ ہے اب میں اس کی بات سمجھ گئی بظاہر وہ ایک فکیر درویش آدمی تھا لیکن اس کا لہجہ بہت مہربان تھا پھر میں نے اس کا لائیہ ہوا کھانا بھی کھا لیا تھوڑی دیر ت


پھر کہنے لگا تم نے اپنے نور سے میری اس جھوپڑی کو منور کر دیا ہے دیکھو آج یہاں سے کتنی روشنیاں پھوٹ رہی ہیں اس کا لحجہ ایسا تھا کہ بے اختیار میرے ہاتھوں میں پسینے آنے لگے وہ میری تاریف کر رہا تھا لیکن میں کچھ بھی نہ کہ پائی میرے نصیب میں شاید یہی لکھا تھا کہ میں اس جھوپڑی میں اپنی زندگی گزاروں مجھے اپنے نصیب سے کوئی گلا نہ تھا پھر میں اپنا سر جھکا کر کہنے لگی


چاہ ہو تو مجھے بھی اس جھگی بستی میں رہنے والے اور آدمیوں کی طرح اپنے کام میں شریف کر سکتے ہو میں بھی عورتوں کی طرح بھیک مانگنے کو تیار ہوں وہ میری بات سن کر حیران رہ گیا پھر کہنے لگا ایسا سوچنا بھی مطھ میں نے اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے خواب دیکھے ہیں بس چند دنوں کی بات ہے پھر ہمارے حالات ایسے بدلیں گے کہ تم دیکھتی کی دیکھتی رہ جاؤ گی وہ مجھے نئی آنس دلارہ


لیکن مجھے ایسی کوئی امید نہ تھی میں جانتی تھی کہ میں ایک بھکاری کی بیوی ہوں اور ہمیشہ بھکارن بن کر اپنی زندگی گزاروں گی لیکن ایک دن وہ کام پر گیا تو اسے واپس آنے میں بہت دیر ہو گئی چاروں طرف اندھیرے پھیل گئے تھے ساری کچی بستی میں رہنے والے لوگ اپنی اپنی جھوپڑیوں میں چلے گئے تھے میں ایکلی ہی اس کا انتظار کرنے لگی ابھی تک بھوکی بیٹھی تھی تبھی اچ


جیسے کوئی باہر سے جھاںک رہا ہو میں نے دو تین دفعہ آواز دے کے پکارا کہ کون ہے وہاں، کون ہے لیکن وہاں سے کوئی آواز نہ آئی میں کونے میں سمٹ کے بیٹھ گئی دل ہی دل میں خدا کو یاد کرنے لگی کہ میرے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے تھوڑی ہی دیر کے بعد کسی کا ہاتھ اندر آیا عجیب کالا کلوٹا بڑے بڑے بالوں والا ہاتھ جس کا پنجا انسانوں جیسا نہیں بلکہ کسی


میں نے ایک چیخ ماری تھی تبھی آسپاس کے سارے لوگ اٹھ کر بھاگے چلے آئے ارتے میرے اردگیٹ جما ہو گئیں میں بلگ بلگ کر رونے لگی تبھی ایک عورت کہنے لگی تیرے لوگ کے کام ہی ایسے ہیں نا جانے وہ کیا کیا حرکتیں کرتا پھرتا ہے اس کے ایک شیطان عامل سے رابتے ہیں تبھی تو تجھے تنگ کرنے کیلئے یہ مخلوق آتی ہے ہم بھی اس سے بہت پرشان ہیں وہ نا جانے کیا کیا کہہ رہی تھی


لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا بس میں اپنے شہر کا انتظار کر رہی تھی جو آ کر مجھے ہر پریشانی سے بچا لیتا تھا اگر وہ میرے پاس ہوتا تو کبھی بھی میں نہ ڈرتی لیکن اس رات میں جس بری طریقے سے ڈری تھی اس کے بعد میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اس سے کہوں گی کہ ہمیں یہاں نہیں رہنا بلکہ کسی شریف محلے میں جا کر رہنا چاہیے تھوڑی دیر بعد میرا شہر واپس آ گیا وہ بہت پریشان دکھ


تو کہنے لگا میں مافی مانگتا ہوں تم سے دراصل میرا کام کرنا بہت ضروری تھا اگر اسے ادھورہ چھوڑ دیتا تو سب کچھ اُلٹا ہو جاتا وہ نا جانے کیا کیا کام کرتا پھر رہا تھا یہاں کے رہنے والے لوگ سچ ہی کہہ رہے تھے یہ آدمی ٹھیک نہیں ہے اب میں مسلسل روے جا رہی تھی پھر اس آدمی سے کہنے لگی کہ مجھے یہاں نہیں رہنا بہت ڈر لگتا ہے تم کسی اور جگہ پر گھر لے لو پھر


ابھی میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہے ابھی مجھے اس پیشے کو جاری رکھنا ہے ہاں جب کوئی کاروبار شروع کر دیا پھر سوچوں گا وہ میری بات پر بلکل بھی رزامن نہیں تھا پھر اس نے مجھے اپنا ایک گہرا راز بتایا جسے سن کر میرے ہوش فناہ ہو گئے وہ مجھ سے کہنے لگا جانتی ہو اس دن جانبوچ کر تمہیں ڈرانے کے لیے کوئی تمہارے پاس آیا تھا کون تھا وہ میں حیرت سے اس سے پوچھنے لگی وہ گہری سوچ


پھر کہنے لگا وہ کوئی انسان نہیں بلکہ خلای مخلوق تھی میں جانتا ہوں وہ کس لئے تمہیں تنگ کرنے آئی تھی تاکہ میں ان کا پیچھا چھوڑ دوں لیکن میں بھی اپنا کام پورا کرکے رہنگا دراصل میرے کچھ جنات کے ساتھ تعلقات ہیں اس کی بات سن کر تو میں ہواس باختا ہو گئی مجھے اس سے خوف محسوس ہونے لگا مجھے یوں ڈرتا دیکھ کر وہ کہنے لگا گھبراؤ مط وہ بہت نیک جنات ہیں کسی کو تن


ہا لیکن اگر کوئی دوسری مخلوق کسی انسان کو تنگ کرتی ہے تو وہ اس کی مدد ضرور کرتے ہیں دراصل پہلے میں ایک درگا پر رہتا تھا وہاں پر ایک عامل کا آنا جانا تھا مجھے شروع سے ہی درگا پر رہنا اچھا لگتا تھا لیکن پھر اس عامل نے مجھے وہاں سے نکلوا دیا کیونکہ اس درگا پر وہ اپنے ایک آدمی کو بٹھانا چاہتا تھا پھر میں نے حالات سے مجبور ہو کر اس جھگی بستی میں آکر رہنے لگا


میرے اپنے خاندان نے مجھے یتیم خانے میں پھینگ دیا تھا ماباب کے مرنے کے بعد کوئی بھی مجھے اپنے پاس رکھنا نہیں جاتا تھا پھر جب میں بڑا ہوا تو ایک دن یتیم خانے سے فرار ہو گیا کیونکہ وہاں کا انچارج مجھ پر بہت ظلم کرتا تھا مجھ سے ایسے ایسے کام کرواتا کہ میرا نازک وجود اسے برداشت نہیں کر باتا تھا پھر میں نے درگا پر رہنا شروع کیا اور درگا کی سفائی ستھرائی کر کے اپنا گزار


ناچار میں اس جھگی بستی میں آکھا رہنے لگا پھر میں نے اس بستی میں رہنے والے دیگر لوگوں کے پیشے کو اپنا لیا لیکن اچانک یہ ایک رات کو میں کچی سڑک پر بیٹھا تھا جب میرے پاس ایک آدمی آیا وہ میرا چہرا دیکھ کر کہنے لگا نوجوان تم اس کام کے لیے نہیں بنے ہو کیا تم میرا ایک کام کرو گے میں اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو گیا تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے آؤ میرے ساتھ وہ مجھے لے کر ایک گھنے ج


وہاں اس کا گھر دیکھ کر میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ کسی خوبصورت مہل کی طرح تھا پھر وہ مجھے حیران دیکھ کر کہنے لگا یہ ہی میرا گھر ہے میں جنات کا بادشاہ ہوں میرے پاس بہت مال و دولت ہے میں سمجھو کہ تمہاری قسمت بدلنے آیا ہوں لیکن بدلے میں تمہیں میرا چھوٹا سا کام کرنا پڑے گا میں دولت پانے کے لیے ہر کام کرنے کو تیار تھا پھر اس نے جو کام کرنے کے لیے مجھے کہا تھا وہ بہت خ


وہ کہنے لگا کہ میری ایک کیمتی انگوٹھی اسی جنگل میں گر گئی تھی لیکن وہ کسی انسان کے ہاتھ لگی ہے اور وہ ایک خطرناک شیطانی آمل ہے جو کسی قیمت پر میری انگوٹھی دینے کو تیار نہیں میں اس کے پاس بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دھوکے سے مجھے اپنے پاس قید نہ کر لے لیکن تم میری مدد کر سکتے ہو تم ایک انسان ہو اور ایک فکیر بھی تم فکیر بن کر اس آمل کے آستانے پر جا سکتے ہو


پھر جب اس نے مجھے آمیل کا پتہ بتایا تو میں حیران رہ گیا کہ وہ آمیل کوئی اور نہیں بلکہ وہی تھا جس نے مجھے درگاہ سے نکلوائی تھا اب میں اگر اس کے سامنے جاتا تو وہ ضرور مجھے پہچان لیتا اسی لیے میں نے اپنا ہولیا ہی بدل لیا اپنے چہرے پر بڑی بڑی داری رکھ لی میں کسی بڑی عمر کے آدمی کی طرح نظر آنے لگا حالانکہ میری عمر اتنی نہیں تھی اب ہر جمعے رات کو میں اس کے آستانے پر ر


کسی بھی طرح موقع پا کر میں وہ انگوٹھی اس سے حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن پورے چھے مہینے ہو گئے ہیں میں اس کا کام نہیں کر پایا ایسا لگتا ہے کہ شاید میرے نصیب میں دولت لکھی ہی نہیں ہے اپنی قسمت بدلنے کا خواب جو میں نے دیکھا تھا اس کی تابیر کبھی سچ نہیں ہوگی اب ہر دفع وہ بادشاہ میرے پاس آتا ہے مجھ سے اپنے کام کے بارے میں پوچھتا ہے یہ سن کر مایوس ہو جاتا ہے کہ میں نے ابھی تک اس کا کام نہیں کیا لیکن


میں کسی طرح بھی کر کے وہ انگوٹھی اس آمل سے حاصل کر کروں گا میرے سامنے بیٹھا یہ شخص پورازم لہجے میں مجھے اپنی عجیب و غریب کہانی سنا رہا تھا جبکہ میں حیرت سے اسے دیکھے جا رہی تھی جب اچانکہ اس نے اپنا سب کچھ اتار کر رکھ دیا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ اچھا خاصا خوبصورت ناجوان تھا جو نہ جانے کیوں اپنا ایسا ہلیا بنا کر رکھتا تھا میرے دل کو تھوڑی تسلی ہوئی


کہ میری شادی کسی ادھیر عمر آدمی سے نہیں بلکہ ایک نوجوان سے ہوئی ہے اب نہ جانے کیوں وہ مجھے اچھا لگنے لگا اپنے دل کی ساری باتیں بتا کر وہ اپنے دل کا بوچ ہلکا کر چکا تھا پھر مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگا میں تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میرے نصیب میں ایک ایسی لڑکی لکھی ہوگی جو بہت ماسوم اور سبر والی ہے اُس دن اچانک ہی تمہارا وہ مامو میرے پاس آیا مجھ سے کہنے لگا میں اپ


کیونکہ وہ ایک آوارہ اور بدقردار لڑکی ہے مجھے شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا میرے دل میں خیال آیا کہ کوئی لڑکی بھلا کسی فقیر سے کیسے شادی کر سکتی ہے ضرور وہ لڑکی نکاحہ کے وقت انکار کر دے گی یا گھر سے بھاگ جائے گی یہی بات جاننے کے لیے میں جو ہی نکاحہ کرنے تمہارے گھر آیا تو حیران رہ گیا جو لڑکی آوارہ اور بدقردار ہو وہ کبھی بھی اس رشتے کے لئے راضی نہ ہوتی


میں سمجھ گیا تھا کہ تم نہیں تمہارے گھر والے کسوروار ہے تم تو میری زندگی میں کسی بہار کی صورت میں داخل ہوئی ہو میں اپنی خاطر نہیں تمہارے لیے اپنی زندگی ضرور بدل لوں گا اب میں چپ چاپ سر جھکائے اس کی باتیں سن رہی تھی پھر میں نے اس سے اپنی عجیب خواہش کا اظہار کیا اور کہنے لگی کیا تم مجھے اس جن ذات بادشاہ سے ملوہ سکتے ہو میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں وہ دیکھنے میں کیسا ہے میری بات سن کر وہ مسکر


کہنے لگا وہ ہر کسی کے سامنے نہیں آسکتا لیکن میں اس سے گزارش کروں گا کہ وہ تمہارے سامنے ایک بار خود کو ظاہر کرے اور ہاں جب میں اس کا کوئی کام کرنے جاتا ہوں تو اس کے دشمن جن ذات تمہیں ڈرانے ضرور آئیں گے لیکن ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جنات باتشاہ بہت طاقتور ہے کبھی بھی کسی خطرے کو ہمارے قریب نہیں آنے دے گا پھر میں اس سے کہنے لگی کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا کام جلدی ہو تو اس سلسلے


وہ میری بات سن کر حیران ہوا تو میں اسے کہنے لگی کہ وہ آمیل آپ کو اچھی طرح پہنچانتا ہے لیکن مجھے نہیں میں عورتوں کی بھیڑھ میں جا کر بڑے آرام سے یہ کام کر سکتی ہوں وہ بے یقینی سے مجھے دیکھنے لگا پھر میں اداز لہجے میں کہنے لگی میں نے بھی اپنی زندگی میں کئی خواب دیکھے تھے لیکن یہ خواب نہیں دیکھا تھا کہ میری شادی کسی راہ چلتے فکیر سے ہو جائے گی لیکن اب مجھے اپنی زند


اگر ہم دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں یوں اس چھوٹی سی جھوپڑی میں بھی بہار آگئی تھی اب میں اپنے رب کی رضا میں راضی تھی جس نے میرے لیے بہترین فیصلہ کیا تھا بلا شبا یہ ایک اچھا انسان تھا لیکن اس نے خود اپنے نصیب کو بدلنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے میں میں اس کے ساتھ تھی پھر دوسرے دن اس نے مجھے ڈھے روں کپڑے لا کر دیے ایک بڑی سی چ


پلہار، بندے اور نا جانے کیا کیا میں اس کی محبت پر شرمنداسی ہو گئی ابھی تک میں نے اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تھا لیکن جس طرح وہ میرے لیے یہ سب چیزیں لائیا تھا بے اختیار مجھے اپنے دل میں اس کے لیے محبت محسوس ہونے لگی پھر اس نے سرگوشی میں کہا کہ ابھی اس بستی کے لوگوں کے سامنے کسی بھی بات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ یہ سب بیچھے پڑ جائیں گے میں بھی اس کی بات اچھی طرح سمج


دوسرے دن اس کی لای ہوئی چادر اڑھی اور دبے پاؤں اسی عامل کے آستانے پر جا پانجی میں جانتی تھی کہ جس طرح سے علاقے کی دوسری اورتیں اس کے آستانے پر جمع ہوں گی اسی طرح میں بھی ان کی بھیڑ میں گھوز کر بیٹھ جاؤں گی پھر میں اندر تو چلی گئی لیکن مجھے وہ انگوٹھی حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملا خاموشی سے عامل کے سامنے بیٹھی رہی اس کی چہرے پر شیطانیت تپک رہی تھی جیسے ہی میں


پھر میں خوفزدہ سے لہجے میں اس سے جھوٹ کہنے لگی کہ عامل بابا میری شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اولاد نہیں ہوئی میں بس آپ سے علاج کروانا چاہتی ہوں اس نے میری بات سن کر سر ہلائیا پھر اپنا بھاری ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا کہنے لگا ٹھیک ہے ہر جمعرات کو آستانے پر آ جانا اور ہاں ڈھے روں نوٹ بھی لے کر آنا کیونکہ میں بغیر پیسوں کے کسی کا علاج نہیں کرتا


پھر اس کی مریدنی کہنے لگی جلد ہی تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی بس پیسے لانا نہ بھولنا میں سمجھ گئی کہ یہ صرف پیسوں کے لیے اپنا آستانہ چلا رہا ہے جوٹا سچا علاج کر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے اب میں بے بسی سے اپنی جھوپڑی میں واپس آ گئی دل میں بار بار یہ خواہش جاگ رہی تھی کہ کاش میں اپنے شوہر کی مدد کر پاؤں اس کے لیے مجھے جو بھی کرنا پڑے میں کرنے کو تیار ہ


دوسرے دن میں اپنا بھیز بدل کر اس علاقے میں جا پہنچی جہاں پر آمل کا گھر تھا میں نے سنا تھا کہ اس کی دو بیویاں ایک بڑے سے گھر میں رہتی ہے وہ لوگوں سے خوب مال لوٹ کر دولت مند ہو چکا ہے جیسے ہی میں نے دروازے پر دستق دی تو اس کی بیوی نے دروازہ کھولا مجھے سر سے پاؤں تک دیکھ کر کہنے لگی کون ہو تم بی بی؟ میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا میں کہنے لگی کہ میں کام کے سلسلے میں یہاں آئی


مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس گھر میں ناکرانی کی ضرورت ہے وہ کہنے لگی ہاں ناکرانی کی ضرورت تو ہے لیکن ہم بغیر کسی جان پہنچان کے تمہیں کیسے اس گھر میں کام کے لیے رکھ لیں میں بے بسی سے کہنے لگی مالکن میں ایک غریب عورت ہوں دور کچی بستی میں رہنے والی بھلے مجھے کم پیسے دے دینا لیکن مجھے سارے کام کرنے آتے ہیں وہ اس بات پر خوش ہو گئی کہنے لگی ٹھیک ہے کل


میں اس آمیل کے گھر جا کر وہ انگوٹھی حاصل کروں گی کیونکہ آستانے پر سب کے سامنے اس سے وہ انگوٹھی لینا بہت مشکل ہے میرا شہر کہنے لگا میں کبھی بھی تمہیں نوکرانی نہیں بلکہ ایک ملکہ کی طرح دیکھنا چاہتا ہوں تمہیں آمیل کے گھر کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو میں اس کی بات پر حسی کہنے لگی اگر جن ذات بادشاہ کا وہ کام ہو گیا تو وہ ہمیں مالا مال کر دے گا پھر ہم دونوں مل کر ای


ہماری زندگی بدل جائے گی۔ ایسے ہی کئی سپنے ہم نے اپنی آنکھوں میں سجا لیا۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہنے لگے تھے۔ سچ بات ہے کہ اگر دل میں محبت ہو تو انسان کو جھومپڑی بھی مہل کی طرح لگنے لگتی ہے۔ پھر دوسرے دن صبح ہی صبح میں کام پر جانے لگی۔ میرا شہر بھی اپنے کام پر چلا گیا۔ اب آمیل کے گھر آکر مجھے زندگی کے عیش و آرام کا پتہ چلا۔


وہ مہارانی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ان کا گھر نہیں بلکہ جنت ہے۔ یہ سارا مال و دولت اس آمل نے لوگوں کو بے وقوف بنا کر ہی تو حاصل کیا تھا اور اپنے بیوی بچوں کو خوب بائش کروارا تھا۔ میں چہرے پر نقاب لگائے، سارا کام کاج کرتی رہتی۔ میں انہیں اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتی تھی۔ پھر اس دن میں گھر کا کام کاج کرتی پھر رہی تھی جب آمل اُس گھر میں آیا۔


عامل کی بیویاں دونوں اس کے آگے پیچھے پھرنے لگیں پھر مجھے معلوم ہوا کہ شاید وہ کپڑے تبدیل کرنے آیا ہے ایک ایک کر کے اپنی ساری چیزیں اتار کر اس نے کمرے میں رکھ دی تب ہی میرا دل اچھل کر ہلک میں آیا جب میں نے ایک سفید ہیرے کی انگوٹھی سامنے میز پر رکھی ہوئی دیکھی اسی انگوٹھی کا ذکر تو مجھ سے میرے شہر نے کیا تھا تو کیا یہ وہی انگوٹھی ہے دل چاہ رہا تھا کہ ہاتھ ب


لیکن آمل کا خوف مجھے اس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دی رہا تھا اب میں بے چینسی ہو کر ارد گرد چکر لگانے لگی دو تین دفعہ مجھے موقع ملا لیکن نجانے کسا خوف مجھ پر ہاوی ہو جاتا میں اس معاملے میں بلکل بے بس ہو گئی مایوسی سے واپس اپنی کٹیاں میں لٹائی جہاں پر میرا شہر بھی آ چکا تھا ہم دونوں نے مل کر کھانا کھایا اور میں اپنے شہر سے کہنے لگی کہ آج مجھے پورا موقع م


لیکن پھر اتنا ڈر لگا کہ میں نے اسے چھوہ بھی نہیں پھر میرا شوہر کہنے لگا کہ جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے میں نہیں شاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے اس لئے موقع دیکھ کر ہی وہ انگوٹھی حاصل کرنا وہ مجھے سمجھا رہا تھا اور میں اس کی بات اچھی طرح سمجھ گئی لیکن اس رات میں جھوپنی میں سوئی جب مجھے کسی نے آواز دے کر اٹھایا جیسے ہی میں اٹھ کر بیٹھی تو حیران رہ گئی میرا شوہ


سامنے ایک عجیب و غریب سا چہرے والا شخص بیٹھا تھا لیکن اس کا لمبا، چوڑا وجود اور گلے میں پہنے ہوئے خوبصورت موٹیوں کا ہار بتا رہا تھا کہ یہ وہ ہے جس کا ذکر میرے سامنے میرے شہر نے کیا تھا کون ہے آپ؟ میں گھبرا کر اس سے پوچھنے لگی وہ میری بات سن کر مسکر آیا کہنے لگا گھبراؤ مط لڑکی میں جنات کا بادشاہ ہوں پہلے صرف تمہارا شہر میری مدد کر رہا تھا لیکن اب جب


میں تمہیں ایک راز بتانے آیا ہوں تمہارے اندر کا ڈر تمہیں وہ انگوٹھی اٹھانے نہیں دیتا میں اس گھر میں نہیں جا سکتا کیونکہ اس شیطانی آمل نے نجانے کتنے جن ذاد اپنی قید میں کر رکھے ہیں لیکن اگر دوبارہ تمہیں وہ انگوٹھی اٹھانے کا موقع ملے تو میری ایک چیز اپنے پاس رکھ لو اگر تم نے وہ چیز ان کے گھر میں رکھ دی تو وہ سب اسی وقت بہوش ہو جائیں گے یوں تم بڑے آرام سے اپنا کام کر کے واپس


کہنے لگا جیسے ہی اس کا ڈھکن کھولو گی تو اس میں سے نکلنے والی خشبو ان کے حواز پر چھا جائے گی جس کے اثر سے وہ سب بےحوش ہو جائیں گے یوں ایسا موقع دوبارہ تمہیں نہیں ملے گا لیکن یاد رکھنا یہ بوٹل ٹوٹنی نہیں چاہیے اور نہ ہی اسے کسی اور کے سامنے کھولو گی وہ جنات کا بادشاہ میری مدد کرنے آیا تھا میں اسے شکر گزار نظروں سے دیکھنے لگی اور اپنے شہر کو بھی یہ راز نہ بتایا دوس


لیکن مجھے یہ موقع نہ ملا اب میں معیوس سی ہو گئی شیشے کی بوٹل میں نے اپنے پاس سمبھال کر رکھ لی تھی در بھی لگا ہوا تھا کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے اور بادشاہ کی دی ہوئی یہ بوٹل ضائع نہ ہو جائے آمیل ہر وقت وہ انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن کر رکھتا تھا جنات کی بادشاہ کی انگوٹھی پر وہ کس قدر قابض ہو چکا تھا یہ کسی کی امانت تھی لیکن اس نے ذرا بھی خیال نہیں کیا میں دیکھتی تھی کہ اس کے


پھر ایک دن میں نے سنا جب وہ اپنی ایک بیوی سے کہنے لگا کہ اس انگوٹھی کی میرے پاس آ جانے کی وجہ سے میری طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور آستانے پر رش بھی رہنے لگا ہے ایسا لگتا ہے میں جلدھی اس شہر کا سب سے بڑا آمل بن جاؤں گا اور میری سب سے بڑی خواہش پوری ہو جائے گی اس کی بیوی کہنے لگی آں میں پھر دعا کرتی ہوں کہ جلدھی تم کامیاب ہو جاؤں میں دل میں سوچنے لگی کہ جو دوسروں کا مال د


وہ کبھی بھی اپنی زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب میں موقع کی تلاش میں تھیں۔ بلاخر میرے ہاتھ وہ موقع آگیا۔ ایک دن عامل کی بیوی موجود نہ تھیں۔ جبکہ دوسری مجھے گھر کے کام کاش کا حکم دیتی پھر رہی تھی۔ عامل جلدی گھر واپس آیا، اپنی بیوی کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔ شاید اسے جلدی کہیں پہنچنا تھا۔ تب اس نے کپڑے بدلنے شروع کیا اور وہ انگوٹھی اتار کر میز پ


میں جلدی سے کمرے میں گئی جیسے اس کی بیوی باہر آنے لگی تو میرا پورا وجود خوف سے تھر تھر کھاپ رہا تھا لیکن میں نے وہ شیشے کی بوٹل نکالی اور پھر جیسے اس کا ڈھکن کھولا تو میں حیران رہ گئی سوائے میرے وہاں پر کھڑا ہوا ہر شخص بےحوش ہو گیا وہ انگوٹھی سامنے جگ مگا رہی تھی میں نے جلدی سے اسے اپنے ہاتھ میں اٹھایا اور وہاں سے فرار ہو گئی میرے قدم لرز رہے تھ


شکر تھا کہ گلی میں کوئی بھی شخص موجود نہ تھا پھر جیسے ہی میں اپنی جھگی میں پہنچی تھوڑی ہی دیر بعد میرا شہر آگیا میں نے اس کے سامنے وہ انگوٹھی دکھائی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں نے اتنی جلدی وہ انگوٹھی حاصل کر لی میں نے اسے حقیقت نہ بتائی کہ ایک دن اس کا وہ جن ذات بادشاہ میرے سامنے آیا تھا اور اسی کی مدد سے میں نے یہ انگوٹھی حاصل کی ہے پھر میں اسے کہنے لگی کہ اب ہمیں یہاں نہیں رہنا چ


شام کے سائے بھی پر پھیلانے کو تھے جلدی جلدی ہم نے اپنا سامان سمیٹا اور یہاں سے فرار ہو گئے پیدل ہی پیدل چلتے ہم اس جھگی بستی سے بہت دور نکل آئے تھکن سے چور وجود لئے اب ہم اس گھنے جنگل میں آ گئے تھے بھوک پیاس سے میری حالت بری ہو رہی تھی پھر میرا شہر سرگوشی میں کہنے لگا ادھر ہی مجھے وہ جنات کا بادشاں نظر آیا تھا ہو سکتا ہے کہ وہ امگوٹھی لینے یہیں پ


میں دل ہی دل میں ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں اُس عامل کا کوئی آدمی ہمیں تلاش نہ کر لے لیکن دور سے آتا ہوا ایک شخص نظر آیا جس کا وجود لمبا چوڑا تھا پھر میں اس کی شکل پہنچان گئی یہ وہی جنات کا باتشا تھا جو اُس دن میرے سامنے جھگی میں آیا تھا جیسے ہی میرے شہر نے اس سے انگوٹھی پیش کی تو وہ نہائت خوش نظر آنے لگا پھر اس نے اپنے وعدے کے مطابق اپنے قبیلے کے ڈھےر


پھر میرے شوہر سے کہنے لگا تم نے اور تمہاری بیوی نے میری قیمتی انگوٹھی مجھے واپس دینے میں میری مدد کی ہے اسی لیے اگر بعد میں بھی تمہیں کبھی میری ضرورت پڑے تو بس ایک بار یہاں پر آجانا میں تمہیں اسی جنگل میں دوبارہ بھی ضرور ملنے آؤں گا اب ہم اس دھےر ساری دولت کو لے کر شہر آگئے یقین نہیں آرہا تھا کہ رات و رات ہماری قسمت بدل گئی یوں میرے شوہر نے اس دولت سے کارو بار کر ل


آج ہمارا اُس شہر میں ایک نام تھا، ایک پہجان تھیں۔ چند سال گزرے تھے جب میرے شہر شہر کا رئیس آدمی بن گئے۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ہم نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ایک جھگھی میں گزارہ تھا، جہاں میرا شہر ایک بھکاری اور میں ایک بھکاری کی بیوی تھیں۔ میں نے اس حال میں بھی شکر ادا کیا تھا اور اس حال میں بھی بہت خوش تھی۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ چاہے تو وہ ذرے کو ہی


آج کوئی بھی بکاری میری دہلیز پر آتا ہے تو میں کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی جب میرے شہر سے کوئی پوچھتا ہے کہ یہ سب آپ کو کس کے نصیب سے ملا ہے تو وہ سب کے سامنے کہتا ہے کہ میری بیوی جس نے مجھے جب کبول کیا تھا جب میں ایک فکیر تھا اور آج یہ میری ساری مال و دولت اسی کی ہے وہ مجھ سے بے تحاشا محبت کرتا ہے اور اس کی محبت پا کر میں اپنے آپ کو


پھر کئی سال گزر گئے آج میرے دو بچے ہیں ایک دن دل میں خیال آیا کہ جا کر مامو مانی کا حال پوچ کراؤ ان کا گھر بالکل خالی اور ویران پڑا تھا مجھے بہت خوف محسوس ہوا سامنے مامو بیٹھے تھے جو وقت سے پہلے بوڑے دکھائی دی رہے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ مجھے معاف کر دو بیٹی میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا کیونکہ تمہارے جانے کے کئی دنوں بعد مجھے اسی


کہ اس لڑکی نے تو مجھے کبھی آنکھ ہٹھا کر بھی نہیں دیکھا میں اسے بچپن سے چاہتا تھا مجھے اپنے کیے پر بہت افسوس ہوا لیکن میں نے کہا کہ مامو جو ہوا اچھا ہوا آج میں اپنے گھر میں راج کر رہی ہوں آپ نے میری قسمت کا اچھا فیصلہ کیا تھا مامی جو بستر کی مریض بنی ہوئی تھیں معلوم ہوا کہ ان کے دونوں بیٹے شادی کر کے انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے جبکہ ایک بیٹی جس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی


پھر میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں آپ سے ملنے ضرور آیا کروں گی میں نے مامی کا بہت اچھے ہسپتال سے علاج کروایا کافی حط تک وہ ٹھیک ہو چکی تھیں اب میں اپنی جنت میں بہت خوش ہوں کہتے ہیں کہ جو دوسروں کے لیے برا سوچتا ہے کبھی بھی اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا لیکن میں نے اپنے نصیب پر سبر کیا اور مجھے اس کا فل رب نے بہت جلد عطا کر دیا آج میں اپنے شہر کے ساتھ حسی خوشی زندگی گزار رہی ہوں


ناظرین اگر آپ کو آج کی یہ کہانی اچھی لگی ہو تو ویڈیو کو لائک ضرور کریں اگر آپ کو ایسی دہشت ناک دل کو جکر دینے والی کہانیاں پسند ہیں تو ایسی ایک کہانی روزانہ سننے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کریں اجازت چاہتے ہیں اللہ حافظ

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow