جن زادہ اور پھول چننے والی لڑکی کی دلچسپ کہانی
جن زادہ اور پھول چننے والی لڑکی کی دلچسپ کہانی
چاندی رات تھی ہر طرف چاند کی روشنے اجالا کر رکھا تھا آسمان چاند کی روشنے کی وجہ سے جکمک آ رہا تھا میں اپنے گھر کے ٹیرس پر ٹہر رہی تھی جب میری نظریں خوبصورت باگ پر پڑی اس باگ میں لگے ہوئے پھول کی خشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی مجھے وہ خشبو وہت قریب سے محسوس ہو رہی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ خشبو مجھے اپنی طرف کھیچ رہی ہو رات کافی ہو چکی تھی
لیکن خشبہ اتنی تیز تھی کہ میں خود پر کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے میرا خود پر کابو پانا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا تب ہی میں نے اپنی نانی سے نظر بچاتے ہوئے کھر کا دروازہ کھلا اور دھیمے پاؤں سے باگ کی طرف جانے لگی آج سے پہلے میں نے اتنا خوبصورت اور پھولوں سے بھرا باگ کبھی نہیں دیکھا تھا یہاں پر لگے ہر پھول کی خشبہ ایک الگ منظر پیش کرتی دکھائی دی رہی تھی جیسے ہی میں
مجھے تھوڑا سا خوف محسوس ہونے لگا تھا مجھے بھاری پن لگنے لگا میں نے خبراتے ہوئے اپنے اٹکیٹ دیکھا لیکن مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھے کسی کی نکاہ بہت گھور کر دیکھ رہی ہو مگر جیسے ہی میں گھور کرتی تو مجھے کوئی بھی اپنے اٹکیٹ دکھائی نہ دیتا میں نے واپس گھر جانے کا سوچا لیکن پھولو کی خشبو نے مجھے اپنی طرف مت
جیسے ہی میں نے باگ کے اندر قدم رکھا، بیز ہوا نے مجھے آگے رہا میں گیلی مٹی کی خشبو میرے دل کو بھا گئی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے بارش کی چند بودیں مٹی پر آگے ریوں اور پوری فضا کو مہکا دیاوا مجھے خوف پیارہ تھا لیکن میں ہمت کرتے ہوئے باگ کی سیر کرنے لگی آدھی رات کا وقت تھا، مجھے وقت کا تائیون نہیں رہا تھا باگ اس قدر خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا جیسے دیک
سامنے لگے گلاب کے پول پر جیسے ہی میری نظر پڑی میں نے گور کیا تو وہ پول میری آکھوں کے سامنے ہی کھل کر بڑا ہو گیا تھا پورے باگ میں اتنا بڑا گلاب کا پول میں نے نہیں دیکھا تھا میں اس پول کو دیکھ کر خوف صدا ہونے کے ساتھ حیران بھی تھی اور خوش بھی میں جیسے ہی اس پول کے پاس گئی اور اسے سونگنے لگی تو میرے کانوں میں ایک میٹھی سی آواز پڑی جسے سن کر میں کھبرا گئی میرے پیچھے کھڑا کوئی کہہ ر
میرے کانوں نے یہ ایرفاہ سنے تو ایک لہر سے ہی میرے جسم میں دورنے لگی میں نے جیسے ہی پیچھے مڑھ کر دیکھا کوئی نہیں تھا میں بہت زیادہ ڈر گئی ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرے قریب بہت کوئی کھڑا میری خوبصورتی کی تاریف کر رہا ہوں میں اس انجانے سے احساس کو محسوس کر سکتی تھی مکر وہ مجھے دکھائے نہیں دی رہا تھا یہ منظر دیکھتے ہوئے میں بہوش ہو گئی صبح جب میری آنک
پھر جیسے ہی میں نے اٹھ کر نانی سے کچھ پوچھنا چاہا تو نانی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تم رات کو اٹھ کر دوسرے کملے میں کیوں چلی گئی تھی؟ میں احران پریشان نانی کی طرف دیکھ رہی تھی مجھے اس بات کا بخو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ نانی رات والے واقعے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے میں یہ سوچنے لگی کہ میں تو بہوش تھی پھر آخرر مجھے گھر کون لے آیا میں بھی یہ سوچ رہی تھی کہ مجھے پھ
مجھے اپنی تاریف سن کر بہت خوشی ہوتی میں یہ بھول جاتی کہ میری تاریف کرنے والا آج تک مجھے دکھائی نہیں دیا میں نے اسے آج تک دیکھا نہیں تھا بس یہی سنا تھا اور اس کی آواز میرے دل پر گہرا اثر کر گئی تھے میں اب دن رات اس کی سوچوں میں کھوئی رہتی ہر وقت میرے کانوں میں اسی کی آواز کھونٹی رہتی یہ سوچتے ہوئے مجھے خود پر فاقر ہونے لگتا کہ کوئی مجھے اس قدر چاہ سکتا
اپنی خوبصورتی کو نیارتے ہوئے میں گہری سوچ میں ڈوبھی تھے آج سے پہلے کبھی کسی نے میری تنی تاریف نہیں کی تھی آج اپنے آپ کو آینے میں دیکھ کر مجھے خود پر بہت پیار آرہا تھا میں اپنی خوبصورتی پر اطرحانے لگی اس ایک پنے میں مجھے مہکا کر رکھ دیا تھا اس کا لمس میں ابھی بھی خود پر محسوس کر سکتی تھی میں آکھیں بند کرتی تو مجھے اس پنے میں ملی ہوئی اپنایت کبھی بھول نہیں سکتے
میں بے سبری سے اس انتظار میں تھی کہ کب چاند کی چاندنی پورے آسمان پر پھیلے اور میں اپنے دل کا سکون حاصل کرنے کے لیے اس باغ میں پھر سے جاؤں میرے کانوں میں ابھی تک یہ الفاظ گھونج رہے تھے اس نے مجھے ایک پول سے بھی زیادہ حسین کہہ کر پوکارا تھا میں خود کو پول سے بھی زیادہ نرم اور نازک محسوس کرنے لگی تھی میں بے ہاتھ خوش تھی تب ہی میرے کانوں میں ممانی کی آواز پڑی جو مجھ سے کھر کے کاموں میں لے کر مج
کہ سارا دن تم آینے کے آگے ہی کھڑی رہتی ہو سجنے اور سمرنے کے علاوہ تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے کھر کے کاموں میں بھی ہاتھ مٹا لیا کرو ہر وقت بس تمہیں سجنے سمرنے کی پڑھی رہتی ہے میں ممانی کی ساری باتیں سن رہی تھی لیکن آج نہ جانے ممانی کی کسی بھی ایک بات کا مجھ پر کوئی حصر نہیں ہو رہا تھا کیونکہ میں ابھی تک اسی کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی میری نظر بار بار دیوار پہ ٹنگی ک
ایسے لگتا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو میں نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ انتظار کی کھڑیاں بہت لمبی ہوتے ہیں آج میں نے یہ جان بھی لیا تھا کہ واقعے انتظار کی کھڑیاں بہت زیادہ لمبی ہوتے ہیں اور تھکا دینے والی ہوتی ہیں میں اب رات کا اندھیرا چھانے کا انتظار کر کر کے تھک چکی تھی تب بھی میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ممانی نے مجھے کان سے پکڑتے ہوئے کہا کہ چلو جا کر کھر کی سفائی کرو
اور تم ہو کہ اپنے حسن کی تاریف ہی کیا جا رہی ہو تبھی مزکوراتے ہوئے میں نے ممانی سے کہا کہ میں اپنے حسن کی تاریف نہیں کر رہی بلکہ لوگ میرے حسن کی تاریف کرتے ہیں بے ساختا میرے مو سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ آپ لوگوں کی پاس رہتی ہوں تو آپ لوگوں کو میری قدر نہیں اور ایک وہ ہے جو میری تاریف کرتا نہیں تھاگتا اس نے آج مجھے احساس دلائے تھا کہ میں کس قدر خوبصورت اور قیمتی ہوں مجھے آج پہلی دفعہ اس ب
کہ میں بھی کسی کے لیے کچھ اہمیت رکھتی ہوں ممانی حران ہو کر کمرے کا جائزہ لے نیلگی تھی میں خبرہ گئی کہ آج میری خیر نہیں ممانی مامو سے پتہ نہیں کیا کیا بولیں گی تب ہی میں نے ممانی سے کہا کہ یہ تو ایک خوبصورت خواب تھا آپ میرے کمرے میں کیا دیکھ رہے ہیں میرے خوابوں کی دنیا میں جھانک کر دیکھیں اچھا بس بس یہ فضول قسم کی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے نجانے کہاں کہ خواب دیکھ کر میرے ساتھ ز
ممانی نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے مجھے ٹوک دیا آج مجھے اپنی ممانی کی کوئی بات بری نہیں لگ رہی تھی ان کا میرے ساتھ جو روائیہ تھا وہ مجھے کچھ بھی برا نہیں لگ رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ آج ہر ایک کے مو سے نکلی ہوئی بات مجھ پر کچھ اثر نہیں کر رہی کام کرنے کے بانے جیسے ہی میں نے باہر ٹیرس پر نکل کر دیکھا باہر کا منظر دیکھ کے حیران رہ گئی میرا نام عائشہ ہے اور میں ا
اس گاؤں کی لوگ بہت ہی رحم، دل اور نرم مزاج تھے میرے اپا فروٹ کی رڑھی لگاتے تھے کھر کا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا امہ خریلہ خاتون تھی کھر سبالنے کے ساتھ امہ کھر کے خراجات میں کبھی بھی اپا کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی کیونکہ گاؤں کے اکثر لوگ امہ سے اپنا کوئی نہ کوئی کام کرواتے اور اس کی اجرت دے دیا کرتے تھے امہ وہ پیسے بھی کھر کے خراجات میں ہی لگا دیتی امہ
کم امدن ہونے کے باوجود بھی کھر میں پیار محبت کی وجہ سے سکون ہوتا تھا امہ ابا کی شادی کو چار سال ہونے کو تھے لیکن ابھی تک امہ اور ابا اولاد کی خوشی سے محروم تھے میری نانی جو کے صواد کی رہنے والی تھی جب نانی نے دیکھا کہ امہ کو اب تک اولاد کی کوئی خوشی نصیب نہیں ہوئی تو میری نانی امہ سے ملنے کے لیے گاؤں سے آئی نانی کے ہاتھ میں پانی کی ایک بوٹل تھی
نانی امہ سے تحقید کرنے لگی کہ یہ پانی اولاد کی نیت سے پڑھا ہوا ہے میں نے اس پر بے شمار پڑھائیاں کیے تب یہ پانی جا کر پینے کے قابل ہوئے نانی امہ سے کہنے لگی کہ تم یہ پانی تین ماہ تک استعمال کرو اللہ نے چاہا تو تمہیں اولاد کی خوشی ضرور اطا کرے گا میری نانی پانچ وقت کی نمازی اور تحجد گزار تھی اکسری اپنی علاقے میں نانی دم دروت کرتی ان لوگ نانی کے دم سے فیضیاب بھی ہوتے
امہ اور ابا نے نانے کی بات پر امل کرتے ہوئے پانی پینا شروع کیا ابھی پانی پیتے امہ اور ابا کو ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اللہ نے انہیں اولاد کی خوشخبری سے نوازہ امہ اور ابا کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھے امہ اور ابا بے سبری سے اپنی پہلی اولاد کا اس دنیا میں آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک دن اچانک امہ کی حالت بہت خراب ہونے کی وجہ سے امہ مجھے پیدا کرتی اس دنیا سے رکست ہو گئی
میں وہ بدنسیب بیٹی تھی جس نے پیدا ہوتے اپنی ماں کو کھو دیا تھا اب با امہ سے بہت محبت کرتے تھے امہ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے یہی وجہ تھی کہ امہ کے گزر جانے کے بعد اب با اداز رہنے رکے تھے مجھے ننی سی بچی کی پرویرش اب با کے لیے کرناا ممکن تھی اس لئے سب کے کہنے پر اب با نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا یہ شادی اب با اپنے لیے نہیں بلکہ میرے لیے کر رہے تھے
تاکہ مجھے مہا کا پیار مل سکے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ابا نے دوسری شادی تو کر لی لیکن میری سوتیلی مہا کسی صورت مجھے نہیں سمحادی تھے میں دنیا کے رحم و کرم پر پلنے لگی گھنوالے بہت اچھے تھے جو میرا ہر طرح سے خیال رکھتے مجھے پڑھنے کا بہت شوک تھا لیکن میری سوتیلی مہا نے مجھے سکول کا مو تک دیکھنے نہیں دیا تھا اٹھتے بیٹھتے میری سوتیلی
کہ یہ منوس ہے، آپ کی بیوی کو نگل گئی ہے ابا جو کہ مجھ پر جان نچاور کرتے تھے آخرکار ایک نئے ایک دن اپنی بیوی کی باتوں میں آہ ہی گئے دیکھتے ہی دیکھتے ابا کی محبت بھی میرے لئے کم ہوتی چلی گئی شاید ابا بھی مجھ سے نفرت کرنے لگے تھے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ میری صغی ماں کا روائیہ بہت اچھا تھا اس وجہ سے گاؤں کے لوگ میری بہت مدد کرتے، خیال رکھتے میری صغی ماں کے ا
میری سوتیلی ماں سے یہ بات بھی برداش نہیں ہوتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ میں بڑی اور جوان ہوتی چلی گئی تھی میری سوتیلی ماں مجھ سے پورے کھر کا کام لیتی اور خود سارا دن ارام کرتی گاؤں والے بھی اکسر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تمہاری سوتیلی ماں کی تو نیندی پوری نہیں ہوتی سارا دن سوئی رہتی ہے رات کو کیا یہ گاؤں کا پہرہ دیتی ہے امہ جب یہ باتیں سنتی تو سارا غصہ مجھ پر نکال دیتی
اسی لئے تو لوگ مجھے بات لگا جاتے ہیں کھر کے کاموں کے بعد جب میں تھاکھار کر اپنی سوتیلی ماں سے کھانے کو کچھ مانکتی تو بدقسمتی سے مجھے ہمیشہ کھانے کی جگہ ماں کھانے کو ملتے میں اپنی صغی ماں کو یاد کر کے بہت روٹی میں نے اپنی ماں تو نہیں دیکھی تھی لیکن اس بات کو محسوس ضرور کر سکتی تھی کہ ماں کی معامطہ کیسے ہوتی ہوگی میں یوں روٹی تربتی تو مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے میری ماں میر
اور مجھے دلستہ دے رہی ہو۔ ایک روز میں نے ابا سے کہا کہ میرا قصور کیا ہے؟ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ ایک آپ ہی مجھے پیار کرنے والے تھے اور امہ نے آپ کو بھی میرے خلاف بھڑکا کر مجھ سے دور کر دیا۔ میں بہت زیادہ روئی اور ابا کو کھر کے تمام حالات بیان کیے۔ مگر میری ابا پر تو نجارے کس قسم کا جادو کیا گیا تھا کہ ابا کو کوئی بات بھی سمجھ نہیں آتے وہ ہر بات میں اپنی بیوی کی ط
ان کی نظر میں میں بالکل مکمل طور پر غلط تھی پہدائش کے دن سے لے کے اب تک صرف میں ہی غلطی پر نظر آتی تھی اپنی امام کو تو میں نے دیکھا نہیں تھا میں ابا کی دوسری بیوی کو ہی اپنی ماں سمجھتی تھی مکر اس نے مجھے کبھی اپنی علاوہ نہیں مانا شاید اسی لئے اللہ نے اسے علاوہ کی خوشی سے محروم رکھا تھا مجھے بہت تیز بخار ہے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے آج مجھ سے کھر کا کام نہیں ہوگا
یہ تو تمہارا روز کا کام بن چکا ہے تم روز ہی بیماری کا بحانہ کر کے کام سے جان چڑھو آتی ہو یہ ہی آل تمہاری ماں کا بھی ہوتا ہوگا کیونکہ تم شکل سے نہیں کتوتو سے بھی اپنی ماں پر ہی گئی ہو جب بھی میری سوتیلی ماں مجھے اس طرح کی جلی کٹی باتیں سنا تھی تو میں پھورٹ پھورٹ کر رہنے لگتی اور اپنی سوتیلی ماں سے کہتی کہ آپ نے میری ماں کے ساتھ وقت نہیں گزارا گاؤں والوں نے میری ماں کے ساتھ وقت گزارا
لیکن آپ جب بھی بولتی ہیں میری ماں کے خلاف ہی بولتی ہیں میرا اس طرح سے کسی بھی بات کو لے کر جواب دینا میری سوتیلی ماں سے برداش نہیں ہوتا تھا وہ اب با کو میرے خلاف بھڑکاتی اور مجھے خوب ڈانٹ پڑھواتی خود بھی مارنے کے لیے اس نے کبھی اپنے ہاتھ نہیں روکا تھا میرے سر سے دوپٹا کھینچتے ہوئے میرے بالوں سے مجھے پکڑ کر کھینچ کر اٹھایا اور کہا کہ کھر کا کام کیا کرو میں روتے ہوئے بیم
میں دل میں سوچ رہی تھی کہ شادی تو ابا نے میرے سکون کے لیے کی تھی لیکن میری زندگی کو بے سکون بنا کر رکھ دیا میرے پاس سوائے اپنی بے بسی پر آنسو بھانے کے اور کچھ بھی نہیں تھا کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا کہ میں یہ کھر بار چھوڑ کر کہیں دور چلی جاؤں مگر جاتی بھی تو کہاں جاتی میرے تو کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا میری سوتے لی مہ کا جب جی چاہا مجھے مار لیتی جب جی چاہا مجھے ک
اور جب اس کا من چاہتا سارا دن بھوکا رکھتی تازی روٹی تو میں نے کبھی بھی کھا کر نہیں دیکھی تھی ہمیشہ بچی ہوئی روٹی اور باسی روٹی ہی کھانے کو ملتے میں پھر بھی کسی سے گلا نہیں کرتی تھی سبر شکر کر کے وہی روٹی کھا لیتی نوبت یہاں تک آ گئی کہ سوتے لی ماں نے مجھے سالن تک دینا بند کر دیا باسی روٹی کے ساتھ پانی کا ایک کٹورہ دی دیتی اور کہتی اسی میں ڈوبو ڈوبو کر روٹ
کوئی میرا دکھ سننے والا نہیں تھا کم از کم اس گھر میں تو میرا اپنا کوئی بھی نہیں تھا میں نظر بچا کر گاؤں میں اپنی سہلیوں کے گھر اگر چلی جاتی تو اس کی بھی مجھے بہت سخت سزا سنائی جاتی اس لئے میں نے اپنی سہلیوں کے گھر جانا بھی چھوڑ دیا تھا اور میری سوتیلی ماں کے رویے کی وجہ سے گاؤں والوں نے بھی ہمارے گھر آنا جانا بلکل بند کر دیا تھا لیکن سب لوگ میری تکلیف کو محسوس کرتا ہے
کہ کسی طرح اس کی نانی تک خبر پہنچا دی جائے آئیشہ اپنی نانی کے پاس چلی گئی دی آئیشہ اپنی نانی کے پاس چلی جائے گی تو سکھ کے زندگی گزار لے گی یہاں پر تو یہ ظالم لوگ اس کی جان لے کر ادام لے گے میں بھی دل میں دعا کرتی کہ میری نانی ایک دفعہ یہاں چکر لگائے اور مجھے ساتھ لے جائے نانی ابا کی شادی کیلئے رضا من نہیں تھی اسی وجہ سے جب ابا نے شادی کی تھی نانی نے نراضگی کی وجہ
نانی نے ہمیشہ کے لیے اس کھر سے مو موڑ لیا مجھے نانی پر بھی کبھی کبھی افسوس ہوتا کہ ٹھیک ہے آپ کو نرازگی تھی تو اب با سے رہتی میرا اس میں کیا کسور تھا آپ نے تو کبھی اپنی بیٹی کی اولاد بھی سمجھ کر مجھے پوچھ کر نہیں دیکھا تب ہی میری ایک صحیلی نے مجھے خبر دی کہ تمہاری نانی تمہیں خت لکھ کر بھیجتی ہے لیکن وہ خت تمہارے تک 5 نانی دیا جاتا ڈاکیہ سے خت لیتی تمہاری سوت
کہ میری نانی کو میری یاد سرور آتی ہوگی تب بھی تو وہ بار بار خط لکھ کر بھیج دی ہیں لیکن وہ خط مجھ تک پہنچ ہی نہیں پاتا میں دل میں دعا کرنے لگی کہ خدا میری مدد کرے میری نانی کو مسیحہ بنائے کر میرے پاس بھیج دے پانچ وقت کی نماز تو میں ادا کرتی تھی اس لئے میرے دل کو یہ تسلی تھی کہ ایک نئے دن خدا میری ضرور مدد کرے گا میں اپنی صحیحی کے ساتھ مل کر ایک پلان بنا رہی تھی
اس نے نوٹ کیا کہ ڈاکیہ کن کن تاریخوں میں خط لے کر ہمارے گھر آتا ہے میری سہلی نے اسی تاریخ میں ڈاکیہ سے میرے نام کا خط لےتے ہوئے کہا کہ میں آیشیہ تک پہنچا دوں گی ڈاکیہ گاؤں کے ہر گھر کو بہت اچھے سے جاندا تھا اس لئے میرے نام کا خط ڈاکیہ نے میری سہلی کے ہاتھ میں تھما دیا میری سوتیلی ماں کی نظر سے بشتے ہوئے جب میری سہلی مجھ سے ملی تو مجھے وہ خط پ
اپنی نانی کا اپنے لیے اتنا پیار دیکھ کر مجھے اپنی قسمت پر رونہ آ رہا تھا میں یہ سوچنے رکھی کہ کاش میں اپنی نانی کے پاس رہ لیتے کم سے کم پیار کے دو بول تو سننے کو ملتے کیونکہ مجھے لکھنا پڑنا نہیں آدادہ اس لئے میں نے صحیح لی سے ہی کہہ کر میری نانی کو میری طرف سے خط لکھ کر بھیجا میں نے اسے کہا کہ اس میں لکھنا کہ ان کی نوازی کس کس طرح کے ظلم سہ رہی ہے یہ بھی لکھنا کہ کس مشکلات
میری صحیلی نے میرے موز سے نکلا ہر لفظ اس خط میں قید کر لیا جیسے ہی ڈاکیہ آیا تو میری صحیلی نے میری طرف سے ڈاکیہ سے ڈاکیہ سے ھلتجاہ کرتے ہوئے خط اس کے حوالے کر دیا اور اس سے کہا کہ اس پتے پر بھیج دے ڈاکیہ بھی میرے گھر کے حالات جانتا تھا اس لئے اس نے بھی وہی کام کیا جو ہم نے اسے سمجھایا تھا ہم میں اپنی نانی کی ایک خط کا انتظار کرنے لگی کئی دن گزر گئ
نانی نے میرے خط کا جواب تک نہیں دیا میں یہ سوچ کر رونے لگی کہ نانی جو مجھے مہینے میں 6 خط لکھ کر بھیجتی تھی میرا حال احوال پوچھتی تھی اب میرے خط لکھنے پر میری نانی نے میرے بارے میں کچھ جاننا ضروری نہیں سمجھا میں نے تو اپنی ہر تکلیف خط میں لکھ کر بھیج دی تھی اب نانی کا مجھ سے اس طرح کا تعلق ہونا میری سمجھ سے باہر تھا میں گہری سوچ میں ڈوبی تھی جب میری سوتے لی ماہ نے آکر چ
کہ اٹھ کر کام کر لو سارے گھر کا کام بکھرا پڑھا ہے اور تم یہاں رام فرماری ہو میں نے اپنی سوتیلی ماں کی طرف دیکھا میری آنکھوں میں آنسوں تھے وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگی تمہیں تو اپنی ماں کی طرح سوائے رونے کی اور کوئی کام نہیں آتا سارے دن گھر کے کام کر کے تھک جاتی ہو اور تم یہاں پر آنسوں باہاتی رہتی ہو نہ جانے تم پر ایسا کون سا ظلم ڈایا جا رہا ہے جس کی تم آ
میں کئی دفعہ تو اپنی سوتیلی ماں کو جواب دیتی اور کئی دفعہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتی کہ اس میں اس کا بھی کوئی کسور نہیں پیسے اور حوز کی لالچ نے اسے اندہا کر دیا ہے یہ صرف وہی سوچتی اور کرتی ہے جو اس کا جی چاہتا ہے انسانی جذبات کے ساتھ میری سوتیلی ماں کا دور تک کوئی تعلق نہیں تھا یہ سوچتے ہوئے میں خاموش ہو جاتی اور کہتی کہ مجھ سے زیادہ اور بے بس اور غریب تو یہ ہے
میں اپنی سوتیلی ماں کے بارے میں یہ سوچ رہی تھی کہ جب ایک زوردار ٹھپڑ میرے گال پر آن پڑا میرے چودھوں تباک روشن ہو گئے میں نے جیسے ہی گردن کھوما کر دیکھا تو میری اپا گسے سے لال پیلے ہوتے مجھے دیکھ رہے تھے اور کہنے لگے کہ میرے سامنے تو تم اپنی ماں کا کہنا مانتی نہیں میرے بعد اس کا کیا عیشر کرتی ہوگی وہ بیچاری سچی کہتی ہے کہ وہ تم سے اس قدر تنگ آ چکی ہے میں ب
میں یہ جانتی تھی کہ میں چاہے جو مرضی کہلوں ابا کو میری کسی بھی بات پہ یقین نہیں آئے گا ابا کی آنکھوں پر محبت کی جو پتی میری سوتے لی ما نے باند رکھی تھی اس پتی کو اٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن سے بات تھے میں روتے ہوئے خموشی سے کھر کا کام کرنے لگی میں نے اپنے دل کو یہ بات سمجھا لی تھی کہ میرا یہاں کوئی نہیں ہے مجھے ایسے ہی گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی گزارنی ہے جب تک یہ سانسیں انہیں ا
میری آنکھوں سے لگتار آنسوں بہ رہ تھے لیکن میری ابا اور سوتیلی ماہ کو مجھ پر زرہ برابر ترس نہیں آرہا تھا دونوں خوب مزے سے کھانا کھا رہے تھے جبکہ میں صبح سے بھوکی پیاسے صرف کام کیا جا رہی تھی میں یہ سوچ کر رو رہی تھی کہ تبھی دروازے پر زور داردستک ہوئی ایک دم سے ابا خبراتے ہوئے میری سوتیلی ماہ سے کہنے لگے کون ہے جو اتنی زور سے دروازہ پیٹ رہا ہے لگتا ہے آج تو یہ درواز
جیسے ہی ابا نے دروازہ کھلا تو ابا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اور زبان لڑھ کھڑا نیلگی تب ہی کسی نے ابا کو دروازے سے ہٹنے کا کہا جیسے ہی ابا دروازے سے ہٹے تو ایک بوڑھی عورت کھر کے اندر داخل ہوئی جس کے ہاتھ میں کچھ سامان پکڑا ہوا تھا اور وہ کھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے مسلسل ابا سے ایک ہی سوال کر رہی تھی کہاں ہے میری بیٹی؟ کہاں ہے آئیشا؟ ابا کے م
اب با کی زبان مصلسل لڑھ کھڑا رہی تھی کہ تبھی اس عورت کی نظر مجھ پر پڑے میری سوتلی ماہ چارپائی پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اس عورت نے میری سوتلی ماہ کے طرف گھورتے ہوئے کہا یقین ان وہ جاڑو پوچھا ہاتھ میں لیے بیٹھی ہے وہی عائشہ ہے میں کھبرا کر اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور قریب آکر سلام کرتے ہوئے کہنے لگی جی میں ہی عائشہ ہوں اس عورت کی آنکھوں سے موٹے م
اور زارو قتار روہنے لگی میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ بھائی تھی کہ یہ عورت کون ہے تب بھی اس نے مجھے پیار کرتے ہوئے بتایا کہ میں تمہاری نانی ہوں میرا دل تو خوشی سے پھولے نہیں سمارا تھا میرے کانوں میں اتنی پیاری آواز پڑھی تھی میں اتنے سالوں سے جو باتیں اپنے دل میں لئے بیٹھی تھی آج نانی کا پیار پا کر ساری باتیں روتے ہوئے نانی سے کہنے لگی نانی نے میرے سر پر پیار دیتی ہوئے اب با سے
تم نے اسے بھی کھر کی نوکرانی بنائی کر رکھا ہوا ہے مجھے تو لگتا ہے تم میری بیٹی کے ساتھ یہی سب سلوک کرتے ہوگے نجانے اس جوڑیل نے تمہیں ایسا کیا کر دیا کہ تمہیں اچھے برے کی تمیزی بھول گئی اب با سر جھکا ہے بیٹھے تھے کہ تب بھی میری سوتیلی ما اپنی چارپائی سے نیچو تر کھڑی اور نانی سے کہنے لگی زبان سمار کر بات کر بڑیا تمہیں اتنا احساس ہے تو اس کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر
تبھی نانی امام اس کے قریب گئی اور اس کے مو پر ایک زوردار تماؤچرہ مارتے ہوئے کہنے لگی کہ تم اس قدر بد وقت عورت ہو کہ میں جب جب اپنی نوازی کو خط لکھتی رہی تم خط کو چولے میں جلا تھی رہی میری نوازی تک ایک بھی خط نہیں پانچنے دیا آج جب مجھے نوازی کا ایک خط ملا تو میرا دل پھٹنے کو تھا میرا جی چاہ رہا تھا کہ تمہیں جان سے مار دوں لیکن کیا کروں اپنے کیے کی سزا تو تم دنیا میں بھگت کر جاؤ گی
کہ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اپنا ضروری سمان پکڑھ لو کیونکہ جو تمہارے حالات مجھے دکھائی دے رہے ہیں ان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ تمہارا یہاں کچھ بھی نہیں سوائے تن کے کپڑوں کے نانی ما کا اتنا گہنہ تھا کہ نانی ما میرا ہاتھ تھا میں مجھے کھر سے لے کر نکل گئی ہمیں نانی ما کے ساتھ صواد میں ان کے کھر رہنے لگی نانی ما کا کھر بہت خوبصورت تھا اردگیر پہاڑی پہ
میں نانی امہ کے گھر آکر بے ہاتھ خوش تھی نانی امہ بھی مجھے اپنے ساتھ رکھ کر اس قدر خوش تھی کہ ایسے لگتا کہ برسوں کی نانی مہا کی پریشانی دور ہو گئی ہو لیکن میری ممانی مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر بلکل خوش نہیں تھی میرے ایک ہی معمو تھے میرے معمو بھی مجھ سے بہت پیار کرتے ہے میرے بہت خیار لگتے ہیں میری ممانی مجھے ایک آنکھ بھی برداش نہیں کرتی تھی میں یہ سوچ کر
کہ وہاں پر تو ابا اور سوتیلی ما دونوں ہی مل کر ظلم کرتے تھے یہاں پر اگر ممانی کچھ کہیں گی بھی تو نانی تو ہے نہ مجھے بچانے کیلئے اور مجھ پر محبت جتانے کیلئے یہ سوچتے ہوئے میں صبر شکر کر کے یہاں رہنے لگی ممانی کی سختیہ ایسی نہیں تھی جیسی کہ میری سوتیلی ما کی تھی نہ ہی وہ اس طرح کے ظلموں ستم کرتی تھی جیسے کہ میری سوتیلی ما مجھ پر ڈھایا کرتی تھی یہ سوچتے ہوئے میں نے
مجھے بھی یہاں آئے ہوئے کچھ دن ہوئے تھے کہ ایک دن اچانک نانی ماں مجھے بری طرح سے گر گئی تھے ہنے کافی چوٹ آئے تھے نانی ماں کے گرنے کی وجہ سے ممانی کو موقع مل گیا تھا اب ممانی مجھ پر روپ جمحنے لگی اور کھر کا سارا کام مجھ سے لے نے لگی مجھے بھی کام کرنے میں کوئی اطراع نہیں تھا کیونکہ ممانی کام تو مجھ سے سارا لے تھی لیکن کھانے کو بھی دیتی تھی میں ویسا
اس لیے مجھے کام کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی مجھے کافی دنیاہ آئے ہو گئے تھے لیکن اب تک میں نے نانی ماں کا گھر کا اوپر والا پورشن نہیں دیکھا تھا جاندی رات میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھے ہوا میں سانس لینے کا اپنا ہی ایک مزا تھا مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا جب یہ ہوا مجھے چھو کر گزرتی تھی میں ممانی سے پوچھ کر اوپر والی پورشن میں چلی گئی ٹیر
تو چاندھنی رات میں اسمان پر چمکتے تارے بہت خوبصورت منزر پیش کر رہے تھے میری نظر جہاں تک جاتی مجھے سر سبز و شادہ پہاڑ دکھائی دیتے توی نانی کے کھر کے بلکل قریب میری نظر پڑی تو مجھے ایک بہت خوبصورت باگ نظر آیا میں اس باگ پر گور کرنے لگی اور دل میں سوچنے لگی کہ صبح کے وقت تو یہاں پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا اب یہ باگ کیسے اور کب بنا اب میں یہی سوچ رہی تھی
یہ خشبہ اس قدر تیز تھی کہ اس خشبہ نے میرے دل و دماغ پر قابو پا لیا میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسی جگہ پر کھڑی تھی گلاب کے پھول کی خشبہ تیز سے تیز ترہو تھی چلی جا رہی تھی اور یہ خشبہ میرے پر پوری طرح سے ہاوی ہو چکی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کرنے جا رہی ہوں میں دھیمے دھیمے قدم نیچے اترنے لگی اور کھر والوں سے نظر وچاتے ہوئے میں کھر سے باہر ن
تو یہ خشبو اور زیادہ تیز ہو گئی تھی اور اس نے مجھے پوری طرح سے اپنا دیوانہ بنا لیا میں بنا کچھ سوچے سمجھے باگ کے اندر داخل ہوئی جیسے ہی میں نے باگ میں ایک ادم رکھا تو تیز ہوا نے مجھا کھرا ہر طرف ہوا میں خشبو مہک رہی تھی ہوا میں گلاب کی خشبو کے ساتھ گیلی مٹی کی بھی خشبو آنے لگی مجھے گیلی مٹی کی خشبو بے ہید پسند تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے دور کہ
میں حیران ہو کر اپنے ادگیب دیکھنے لگی مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مجھے کوئی دیکھ رہا ہو اب مجھے تھوڑا سا خوف آنے لگا لیکن میرا خود پر بس نہیں چل رہا تھا ہیسے لگ رہا تھا کہ میں کسی کے قابو میں ہوں اور اسی طاقت کے مطابق آگے بڑھتی چلی جا رہی ہوں مجھے اپنا وجود کسی کے اختیار میں محسوس ہو رہا تھا میں تیز دیز قدم جیسے ہی باک کے اندر جاتی گ
جو میرے سامنے ہی کھلا اور کلتے ہی بڑا سا ہوتا چلا گیا میں اس پھول کو دیکھ کر حیران تھی وہ پھول سارے باگ کے پھولوں میں سے بلکل علاق تھا سب سے نمائیہ نظر آ رہا تھا اس کی خشبو بھی بہت تیس تھے جیسے ہی میں اس گلاب کے پھول کے قریب گئی اور اسے سونگنے لگی تو میرے کانوں میں میٹھی ایسی آواز پڑی تم اس پھول سے کہیں زیادہ خوبصورت اور حسین ہو میں نے جیسے ہی یہ آواز سنی
اپنے ارد گرد گور کیا لیکن مجھے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا مجھے ایسے محسوس رہا تھا جیسے میرے بہت قریب ہو اور کوئی میری خبصورتی کے قصیدے پڑ رہا ہو مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا لیکن میرے قدم خوف کے مارے ایک جگہ پر جم کر رہ گئے میں نے ہمت کرتے ہوئے جیسے ہی کھر جانے کا سوچا یہ آواز مجھے اپنے قریب سے سنائی دینے لگی میں خوف صدا ہوتے ہوئے بےہوش ہو گئی
میں خود کو ہر کے اندر دیکھ کر حیران تھی اور سوچنے لگی کہ میں تو باگ میں تھی آخرکار ہر کھر کیسے پانجی؟ تب ہی میں نانی سے پوچھنے لگی جیسے ہی سہن میں گئی تو نانی مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی تم رات کو دوسرے کمبرے میں کیا کرنے گئی تھی؟ مجھے اس بات کا بہت بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ نانی ماں کو اس بات کا بلکل بھی علم نہیں ہے کہ میں رات کو کھر میں ہی نہیں تھی بلکہ اس باگ میں تھی میں خاموش رہی
تبھی نانی ما نے مجھ سے کہا کہ جاؤ جا کر اپنا موہا دور ناشطہ کر لو میں جیسے ہی اپنے کمرے میں گئی تو شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی خوبصورتی کے بارے میں ذوچھنے لگی میرے کانوں میں پھر سے وہی الفاظ گونجنے لگے کوئی بہت خوبصورتی سے میری تاریف کر رہا تھا اور مجھے اس کے مو سے، اس کی میچی آواز سے اپنی تاریف سننا اچھا لگ رہا تھا میں آینے میں خود کو دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں خ
مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی میرے بہت قریب ہے اور مجھے بہت اچھے سے جانتا ہے یہ سوچتے ہوئے میں اپنے بال بنا رہی تھی کہ تب ہی ممہا نے میرے کمبرے میں آئی اور مجھ سے کہنے لگی مہا رانی اگر فارغ ہو گئی ہو اپنے حسن کو دیکھنے سے فرصت مل گئی ہو تو آکے کھر کے کچھ کام کاز میں میرا ہاتھ بٹا دو سارا دن یہاں تو تم بستر توڑتی رہتی ہو
ممانی غصہ سے کہتی ہو چلی گئی تھے اور میں اب تک خود کو آینے میں دیکھ رہی تھی میرے ساتھ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ میرے پر کسی کی کوئی بات اثر نہیں کر رہی تھی میں بے سبری سے رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی سارا دن میں جب جب ٹیرس پر جانے کی کوشش کرتی ممانی کوئی نہ کوئی کام میری زمہ لگا دیتی اب میں بے سبری سے رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی میرے دل میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ کب رات ہو
اور کب میں اس خوبصورت باقے زیارت کروں؟ اب میرا دل بہت بے تاب ہو رہا تھا کیونکہ آج میں نے دل میں یہ بات ٹھان لی تھی کہ میں اس خوبصورت آواز کا پیچھا کروں گی اور اس آواز کے مالک کا دیدار کرکے ہی رہوں گی میں بھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ میری نانی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھ سے کہا کہ اپنے بال باندھ کر رکھا کرو کھر میں بال کھول کر مد کھوما کرو مجھے نانی ماہ کی یہ بات سمجھ نہیں آرہ
نجانے کیوں نانیمہ آج مجھے خود پر بہت پیار آ رہا ہے میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں اپنے بال کھول کر ست سمر کر بیٹھوں نانیمہ نے میری بات سنی تو عیران ہو کر میرا چہرہ دیکھنے لگی اور مجھ سے کہنے لگی کہ کیا تمہیں پہلے بھی ایسا کبھی کچھ محسوس ہوتا تھا میں نے نانی امہ کو نامیں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ نہیں بس رات سے ہی مجھے خود پر بہت پیار آ رہا ہے میری بات سننے کے بعد نانیمہ کے چہر
میں نے بہت دفعہ نانی ما سے پریشان ہونے کی وجہ جاننا چاہی لیکن نانی ما میری بات کو ہر دفعہ اطلاع دیتی اور مجھ سے یہی کہتی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میں پریشان تو نہیں ہوں میں تو تمہیں دیکھ کر خوش ہو رہی ہوں جبکہ ایسا تو بالکل بھی نہیں تھا نانی ما کے چہرے پر ایک عجیب سی پریشانی تھے جو کہ میری بات تو اسے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھے صبح سے شام اور شام سے رات ہونے گو تھی آسمان پر تارے چم
اور چاند کی روشنی آج بھی پورے آسمان کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں چاند کی روشنی کی وجہ سے آسمان جگ مگارہ تھا تب ہی میں اپنی نانی کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ میں کچھ دیر کے لیے ٹیرس پر جا رہی ہوں اگر آپ کو کسی قسم کا کام ہوا تو مجھے بتا دیجیے گا میری بات سنتے ہی نانی مانے کہا کہ ٹیرس پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں تم میرے پاس یہاں بیٹھو مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہے نان
مکر میرا دل ٹیرس پر جانے کے لیے مسلسل تڑپ رہا تھا نانی ما نے میرا ہاتھ ٹھمتے ہوئے کہا دیکھو آئشا میں تمہیں اپنے ساتھ اس گھر میں لے کر تو آئیوں لیکن میں تمہیں یہ بتانا بھول گئی ہو کہ اس گھر میں کچھ اثرات ہیں محران ہو کر نانی ما کا جہرا دیکھ رہی تھی تبھی نانی ما نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس گھر میں جس قدر عبادت کرتی ہو اور وزائف کرتی ہو میں نے کچھ جنات کو اپ
اس لئے جب تک تمہاری شادی نہیں ہو جاتی تم اپنے بال نہیں کھولو گی نانی ماں کی بات کو سن کر مجھے بہت زیادہ ڈر لگنے لگا تھا اب مجھے اس گھر سے بھی خوف آنے لگا تھا میں نے نانی ماں کے ساتھ لگتے ہوئے کہا کہ نانی مجھے اپنے کمبرے سے تو کافی خوف آتا ہے لیکن میں تو یہ سمجھتی تھی کہ شاید میرا وہم ہے نانی ماں نے میرے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ چیزیں کچھ نقصان نہیں پہن
لیکن پھر بھی احتیاط بہت ضروری ہے اس لئے میں تمہیں بار بار ٹیریس پر جانے سے روکتی ہوں نانی مہا کے مو سے پھر جب میں نے ٹیریس کا نام سُرا تو میرا دل پر سے ٹیریس پر جانے کو تڑپنے لگا میرے کانوں میں وہی میٹھی سی آواز گھونچنے لگی تھی اب مجھ سے نانی مہا کی باتیں مزید نہیں سُنے جا رہے تھے میں سمجھ رہی تھی کہ نانی مجھے صرف ڈرارہ رہی ہے لیکن اس میں کتنی سچ
جیسے آپ کہتی ہے میں ویسا ہی کروں گی میں اپنے بال نہیں کھولوں گی لیکن آپ مجھے یہ سب کچھ آج ہی کیوں بتا رہی ہیں نانی ما نے کہا کہ اس لئے بتا رہی ہوں کہ تم مجھ سے پوچھے بغیر کوئی بھی قدم نہ اٹھا لو اب نانی ما جتنا مجھے سمجھا رہی تھی میرے کانوں میں آواز اتنی ہی تیز ہوتی جا رہی تھی کوئی مسلسل میرے کانوں میں یہ الفاظ دورائے جا رہا تھا تم اس پھول سے بھی زیادہ حسین ہو تم اس
مسلسل یہ آواز میرے کانوں میں کھونج رہی تھی۔ اب میرا خود پر بیس نہیں شوڑ رہا تھا۔ میں نانی ما کی بات سنتے ہوئے ایک دم سے اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی۔ نانی ما مجھے ایس طرح سے ایک دم سے کھڑے ہوتے دیکھ کر کھبراس ہی گئی۔ نانی ما مجھ سے سوال کرنے لگی، آئیشا، تمہاری طبیت تو ٹھیک ہے؟ کیا ہوا ہے؟ میں نانی ما کو کوئی بھی جواب دیے بغیر کمرے سے باہر جانے لگی۔
لیکن میں اُن کی ایک نا سنتوے کمبر سے باہر چلی گئی نانی ما کے پاؤں پر کافی زیادہ چوٹ آئی تھی اس لئے وہ میرا پیچھا نہیں کر سکتی تھی وہ مجھے مو سلسل پکارتی رہی اور میں ان کی پکار کو نظر انداز کرتے ٹیریس کی طرف جانے لگی جیسے ہی میں ٹیریس پر پہنچھی تو میری نظر اسی باگ پر پڑی گلات کی خشبو میرے تن من میں بستے چلی جا رہے تھے میرا خود پر قابو نہیں رہا تھا
میں دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی کھر سے باہر جانے لگی جیسے ہی میں باگ کے قریب پانچی تو مجھے کچھ دیر کے لیے اپنے ہواست قائم ہوتے محسوس ہوئے جیسے ہی میں نیت گرد دیکھا تو میں نے خود کو اتنی سنسان جگہ پر دیکھا کہ خوف زدہ ہو گئی تھی تبھی مجھے پیر سے گلاب کی خشبو آنے لگی اس طفہ خشبو اس قدر تیز تھی کہ میں خود پر کنٹرول نہیں کر پائی اور باگ کے اندر جانے لگی
میرا جی چاہا کہ میں اسے سونگوں جیسے ہی میں نے اسے سونگنا چاہا تو میرے کانوں میں پھر سے وہی آواز پڑی تم اس گلاب سے بھی کہیں زیادہ حسین ہو اس بار میں نے پیچھے مڑھ کر دیکھا تو سفید لباز میں خوبصورت لڑکا میرے پیچھے کھڑا تھا جو مزکوراتے ہوئے مجھے مسلسل دیکھ رہا تھا اسے اس جگہ پر دیکھ کر میں بہت زیادہ کبرہ گئی لڑکا پلک جھپکتے ہی میرے قریب آگیا میں
وہ میری اقریب آتے ہوئے بھی میری خوبصورتی کی تاریفیں کرنے لگا اس کی آواز میں ایسی مطھاس تھیں جو میری دل کو اپنے قابومیں کر رہی تھی میں مکمل طور پر اس کے اختیار میں تھیں میرا مجھ پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں صبح جب آنکھ کھلی تو میں نے پھر سے خود کو اسی کمرے میں بایا میں جیسے ہی کمرے سے نکلی تو میری نانی ما مجھے دیکھ کر پرشان ہونے لگی میری نان
جیسے ہی نانی ما نے مجھ سے پوچھا کہ تم رات کو کسی باگ میں گئی تھی کیا تو میں ہواس باختا ہو گئی میں ہران ہو کر نانی ما کے طرف دیکھنے لگی اور ان سے کہنے لگی آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ میں سب سے نظریں بچا کر باگ میں روانہ ہو جاتی نانی ما میری بات سنتے ہوئے سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس وقت ٹیرس پر مطلح جانا لیکن تم نے میری ایک نہیں سنی تمہارے سات
میں احران پریشان ہو کر نانی ماں کی طرف دیکھ رہی تھی تب ہی میری آنکھوں کے سامنے ایک سفیت پوش لڑکا نمودار ہوا میں اسے دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گئی نانی ماں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے نا میں نے تمہیں اگاہ بھی کیا تھا کہ یہ میری نوازیہ اسے دور رہنا لیکن تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے وہ زوردار ہواز میں ایک قحقہ لگا کر ہنسنے لگا اور میری طرف
اس کی آواز سن کر میں خوف صدا ہو گئی وہ آواز جو مجھے مٹھی لگتی تھی آج وہ عجیب و گریب سا رہزہ لیا وہ لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے حران ہوگے کہا کیا دیکھتی ہو میں ایک جن زادہ ہوں اور کئی سالوں سے تمہاری نانی کے قبضے میں ہوں اور اس کے کام کرتا چلا رہا ہوں میں نے جس دن تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا پہلی نظر میں ہی تم سے محبت ہو گئی تھی اب اگر تم میری نہیں ہو
یہ الفاظ سن کر میری تو جان ہی نکل گئی نانی ما میرے آگیا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے کہنے لگی میرے ساتھ مقابلہ مٹ کرنا تُم میری نوازی کے پاس بھی بھٹکے تو میں جان سے مار دوں گی وہ جن زیادہ مصلسل خوف ناک شکر لئے کہہ کے لگاتے رہا اور نانی ما مصلسل اسے دھمکاتی جا رہی تھی وہ اکدام نانی ما کی نظروں سے اجل ہو گیا اور سن کے بعد سے میری طبیعت خراب رہنے لگی مجھے عجیب و گریب قسم
میرا علاج بہت سے جگہوں پر کروایا گیا لیکن میری طبیعت ٹھیک انہیں کا نام ہی نہیں لے رہے تھے میں ایسے تھی جیسے بس میرا آخری وقت آ جکا ہو تبھی نانی ما نے اپنے استاد سے رابطہ کیا نانی ما نے جن سے علم سکھا تھا ان کے پاس مجھے لے گئے نانی ما کے استاد نے نانی ما کو نصید کی کہ تم اپنی نوازی کی اگر جان بجانا چاہتی ہو تو تمہارے پاس جتنے بھی جنات ہیں تمہارے قبضے میں جنات یا پریہ یا جو ب
ان سب کو خدا کی رضا کیلئے ازاد کر دو جیسے تم ان جنات کو ان سب مخلوق کو ازاد کر دو گی جو اس وقت تمہارے قبضے میں ہیں ویسے ہی تمہاری نوازی بھی اس پریشانی سے ازاد ہو چائے گی نانی ما نے جیسے ہی استاد کی بات سنی تو اس کی بات کو مانتے ہوئے فوراً سے سب جنات کو ازاد کروہا دیا اور ازادی کے بدلے نانی ما نے میری جان مانگی وہ جن زادہ جو بری اطرح سے مجھ پر آشک ہو چکا تھا
کیوں کہ اس کے لیے بھی اس کی ازادی زیادہ مائنے رکھتی تھی اس نے اپنی ازادی پر اپنی محبت کو قربان کر دیا ایسے وہ میری جان چھوڑ کر چلا گیا اور مجھے رب طلہ نے دوبارہ زندگی اطاقی میں ابھی اپنی نانی مان کے ساتھ ہی رہ رہی ہوں نانی مان ایک اچھی جگہ میرا رشتہ دیکھ کر میرا رشتہ تیقر دیا اور مجھے دھوم دھاں سے رکھست بھی کر دیا میری ممانی کا روائیہ بھی میرے ساتھ بہت اچھ
اور ٹیریس پر جاتی ہو تو مجھے وہ وقت جیاد آ جاتا ہے اور میں بری طرح سے خوف زدہ ہو جاتی ہوں جب جب میں خوف کے مارے پریشان ہوتی ہوں تو رحم مجھے اپنی آگوش میں لے رہتے ہیں ان کی آگوش میں آنے کے بعد مجھے دنیا کا ہر غم بھول جاتا ہے میرے سبر کا پھل اور میری نانی ماں کی دعاوں کا سلا رب تعالیٰ نے مجھے رحم کی شکل میں تاکیا میری دعا ہے کہ رب تعالیٰ میری اور رحم کی جوڑی تاہیات قائم رکھے
What's Your Reaction?