پارستان کی ملکہ اور نوجوان کی دلچسپ کہانی
پارستان کی ملکہ اور نوجوان کی دلچسپ کہانی
اسلام و علیکم دوستو پیشہ فدمت ہے قصہ مکار پری پرستان کی شہزادی اور نوجوان سپاہی کا پورے گاؤں میں خوشی کی لہر دور گئی تھی عمر پورے تین سال کے بعد جنگ کے میدان سے لٹکر صحیح سلامت واپس آ گیا تھا
اس کے ساتھ اس گاؤں کے اور بھی کئی نوجوان سپاہی بن کر گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی لٹک نہیں آیا تھا یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب امر 18 سال کا نوجوان لڑکا تھا وہ اپنی ماں کا واحد کفیل تھا دن بر مہنت مزدوری کے بعد جو کچھ ملتا وہ ماں کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیتا تھا اسے اپنی ماں سے بہت محبت تھی اور وہ ہمیشہ یہی کوشش کرتا تھا کہ اس کی ماں کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے اس کی ماں بھی
اور ہر وقت اسے دعائیں دیتی تھی۔ مہ بیٹے پر مشتمل یہ مختصر سا گھرانہ بڑے خوش و خرورم زندگی گزار رہا تھا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ فرمان جاری ہوا کہ ملک کے تمام نوجوان فوج میں بھرتی ہو کر سر حدوں پر پہنچ جائیں۔ کیونکہ ان کے پڑوستی ملک کے بادشاہ نے ان کے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ وہ ملک بہت بڑا تھا۔ اس کی فوج بھی بہت زیادہ تھی۔
اس لئے یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ نوجوانوں کو سپاہی بنائے کر ان کے مقابلے کیلئے بھیجا جائے عمر کا گاؤ زیادہ بڑا نہیں تھا پورے گاؤں کی آبادی 4-500 نقوس پر مشتمل تھی بچوں بڑوں اور اورتوں کو نکال کر کل چالیس نوجوان تھے جنہوں نے فوج میں بھرتی ہو کر میدان جنگ میں جانا کوبول کر لیا تھا انہیں نوجوانوں میں عمر بھی شامل تھا عمر کی بیوہ ماں بہت اداز تھی مگر ملک کی سلامتی کا س
اسی ملکی کی سلامتی کے لیے اس نے اپنے شوہر کو بھی قربان کر دیا تھا تو بیٹے وہ کیسے روک سکتی تھی عمر کا باپ بھی ایک سپاہی تھا اور میدانِ جنگ میں بڑی جوہ مردی سے لڑتے ہوئے بطن کی سلامتی پر قربان ہو گیا تھا ایک سپاہی کا بیٹا ہونے کی سبب عمر بھی بہت باہمت تھا وہ اپنی ماں کو خدا حافظ کہے کر چلا گیا تھا جنگ ہوتی رہی وہ لوگ بہت بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے
اس لڑائی نے تول کھیچا اور پھر تین سال بعد دونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا محایدہ ہو گیا۔ یوں دوسرے سپاہیوں کی طرح عمر بھی واپس اپنے گاؤں آ گیا۔ گاؤں میں اس کا بڑا شاندار استقوال ہوا۔ وہاں کے لوگوں کے پرخلوس رویے نے عمر کو میدانِ جنگ کی تمام تقلیفیں بھلا دی تھی۔ وہ لوگوں سے ملتا ملاتا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ اس کی جنگی خدمات کے اعتراف کے طور پر باکشا
اس کی پشت پر جو تھیلہ لٹک رہا تھا وہ اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا عمر سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنی ماں کے رہنے کے لیے ایک شاندار سا گھر تعمیر کروائے گا اور اس کی خدمت کے لیے ایک کنیز بھی رکھو دے گا مگر جب وہ گھر پہنچا تو اندر جانے سے پہلے اسے گاؤں کے ایک بوڑے شخص نے روک کر کہا بیٹے عمر ہم تمہارے آنے کی خوشی میں تمہیں ایک اپسوثناک خبر سنانا بھول گئے تھے تمہاری ماں
تم ایک سپاہی ہو سپاہی کا دل مزبوط ہوتا ہے امید ہے تم اس صدمے کو ہسکر سا ہوگے بورے کی بات سنکر عمر کی آنھوٹلے اندھرہ چھا گیا اس کے تو بہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جب وہ گھر پہنچے گا تو اس کی ماں من و مٹی کے نیچے جا سوئی ہوگی اس کی آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آنھوٹلے آ
اس نے گھر کے اندر داخل ہونے چاہا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازہ اندر سے بند ہے وہ سوچنے لگا کہ اب اس گھر میں کون رہتا ہے جہاں تک اس یاد پڑتا تھا اس دنیا میں اب اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا پھر اندر کون ہے اس نے علجہ نامیز انداز میں دروازے پر دستگ دی دروازہ پہلی ہی دستگ پر کھل گیا دروازہ کھلنے والی ایک حسین و جمیل لڑکی تھی
وہ 16-17 سال کی ہی ہوگی اس کا رنگ میدے کی طرح ساپ تھا اور چہرے پر بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں تھیں عمر لڑکی کو ٹک ٹکی باندھ کر دیکھنے لگا لڑکی ایک طرف کو اٹھ کر کھڑی ہو گئی جیسے اسے اندر آنے کا راستہ دے رہی ہو عمر اندر داخل ہو گیا تو لڑکی نے دروازہ بند کر دیا اور بولی اندر چلئے آپ بڑی دور سے آ رہے ہیں تھک گئے ہوں گے عمر نے حیرت زدہ ہو کر کہا
مگر آپ کون ہیں آپ کو سب پتہ چل جائے گا میں آپ کی آمت کا 6 ماہ سے انتظار کر رہی تھی لڑکی نے جواب دیا عمر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا وہ کمرے میں آ گیا کمر پر سے تھیلا اتار کر اس نے ایک طرف رکھا لڑکی اس کے لئے شربت لے کر آئی عمر کو بہت پیاس لگ رہی تھی اس نے شربت کو گنیمہ جانا اور ایک ہی سانس میں سارا شربت پی گیا لڑکی اسے بڑے گور سے دیکھ رہی تھی شربت پی کر اس نے پی
آپ اپنے گھر میں مجھے دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے میں یہاں دو سال سے رہتی ہوں آپ کی امی ایک محربان عورت تھی انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹھیوں کی طرح چاہا تھا اپنی ماں کے تذکرے پر عمر کی آنکھیں پھر بھی گئی تھی بھر رائی ہوئی آواز میں بولا اچھی لڑکی یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں اپنی ماں سے آخری مرتبہ مل بھی نہ سکا آپ کو اب سبر کرنا چاہیے آپ کی امی ہر وقت آپ کا
کمرے میں کچھ دیگر تک خاموشی تاری رہی پھر عمر نے پوچھا مگر آپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں لڑکی نے ایک گہری سانس لے کر کہا میرا نام زبیدہ ہے میں پرستان کے بادشاہ کی بیٹی ہوں زبیدہ کی بات سمھ کر عمر اسے آنکھیں پھار پھار کر دیکھنے لگا یعنی کہ آپ پرستان کی شہزادی ہیں اس نے پوچھا ہاں ۔۔۔۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی پرستان میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی اس بادشاہ کا ایک لڑکا بھی تھا اس کا نام شہزادہ پرویز تھا پرستان کے شہزاد پرویز کو انسانوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شوق تھا ایک روز وہ پرستان سے نکل کر انسانوں کی دنیا میں آ گیا یہاں پر اس کی ملاقات ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی سے ہو گئی اس لڑکی کا نام عزرہ تھا
شہزادہ پرویز نے اپنے باب سے چھپ کر اس لڑکی سے شادی کر لی اور انسانوں کی دنیا ہی میں رہنے لگا جب بالسرہ نے اس کی گمشتگی کا سراغ لگایا تو اس پر یہ حقیقت کھلی کہ اس کے بیٹے نے انسانوں کی دنیا میں ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کر لی ہے تو وہ بہت ناراض ہوا اس نے فورا شہزادہ پرویز کو پرستان بلوالیا اور اس کے محل سے باہر جانے پر پاوندی لگا دی شہزادہ پرویز اپنی پیاری بیوی
دنیا بھر کی دوایاں بھی اس کو ٹھیک نہ کر سکی مجبور ہو کر بادشاہ نے اسے صرف اتنی اجازت دے دی کہ وہ جب چاہے بیوی سے جا کر مل سکتا ہے مگر اسے پرستان نہیں لا سکتا شہزادہ پرویز اس پر بھی راضی ہو گیا پھر خدا نے انہیں ایک بیٹی دی اس کا نام انہوں نے زبیدہ رکھا میں وہی زبیدہ ہوں میرے ابا ہم ماہ بیٹی سے آ کر مل جائے کرتے تھے انہوں نے ہمارے رہنے کے لیے ایک محل بنوا د
تو میرے لیے پرستان سے ڈھیر سارے کھلونیں اور مزیدار مٹھائیاں لاتے تھے دنیاں ہی ہسی خوشی بسر ہو رہے تھے میں دیکھتے ہی دیکھتے چودہ برس کی ہو گئی ایک روچ جب میں سو رہی تھی تو میرے اب با پرستان سے آئے انہوں نے امی کو پورے محل میں ڈھونڈ لیا مگر وہ انہیں کہیں نہ ملی انہوں نے مجھے جگہ آیا اور امی کی گمشتگی کی اتلاع دی پھر ہم دونوں نے انہیں ہر جگہ ڈھون
میرے اپا بہت پریشان تھے پندرہ دن تک انہوں نے امی کو تلاش کیا مگر مایوسی کے سوے کچھ نہیں ملا ادھر پریستان میں میرے دادہ یعنی بادشاہ سلامت نے میرے اپا کو بلوالیا جو کہ وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے آپ کی امی کے حوالے کر دیا اور کہا کہ وہ کسی مناسب وقت پر مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے میں آپ کی امی کے پاس رہنے لگی آپ جنگ پر گئے ہوئے
میں ان کے ساتھ ہر طرح سے خوش تھی۔ پھر ایک روز وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی موت میرے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھی۔ میرے اب با جو یہاں کبھی کبھی مصدر ملنے آجایا کرتے تھے، انہیں بھی ان کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ آپ کی امی کے انتقال کے بعد دی، میں نے آپ کے گھر میں رہنے کو ترجیدی۔ پھر ایک روز میرے اب با مجھے لینے کیلئے آ گئے۔ میرے دادا کا انتقال ہو گیا تھا اور اب تخت
اب مجھ پر یا میری امی پر پاوندی لگانے والا کوئی نہ تھا مگر میری امی تو کھو گئی تھی رہ گئی میں تو میں نے اپنے اپا جان سے کہہ دیا کہ جب تک اس گھر کا مالک وابس نہیں آجاتا اس وقت تک میں کہیں نہیں جاؤں گی خدا کا شکر ہے کہ آپ آج وابس لوٹ آئے اب میں اپنے اپا کے پاس پرستان جا سکتی ہوں عمر بڑی دلچسپی سے زبیدہ کی کہانی سن رہا تھا وہ کاموش ہوئی تو اس نے کہا زبیدہ آپ نے تو بڑ
میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرا انتظار کیا آپ اپنے ابا کے پاس ضرور جائئے خدا کرے کہ آپ کی امی بھی مل جائے وہ نہ جانے کہاں ہوں گی؟ زبیتہ اداس ہو کر بولی خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں اب ان سے ملوں گی بھی یا نہیں آپ نے میری امی کی بہت خدمت دی ہے میں آپ کی امی کو ڈھوننے کی کوشش کروں گا تاکہ بدلہ اتار سکوں عمر نے کہا اس کی بات سن کر زبیتہ خوش ہو گئی
پھر اس نے کمرے کے کونے میں رکھا ہوئے ایک خوبصورت کالین نکالا اور بولی یہ جادو کا کالین ہے یہ ہمیں تھوڑے سے وقت میں پرستان پہنچا دے گا ہمیں سے کیا مطلب ہے؟ عمر نے تاججب سے پوچھا میری خواہش ہے کہ آپ دھی میرے ساتھ پرستان چلیں سبیتہ نے کہا چندن میرے محمان رہیگا تیر ہم دونوں مزے سے پورے پرستان کی سہر کریں گے اس کی بات سنکر عمر نے مسکوڑا کر کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے
بچپن میں پریوں کی کہانی سنتا تھا اب پریوں کی سرزمین کو اپنی آپوں سے بھی دیکھ لوں گا ہم یہ سفر رات کو شروع کریں گے ورنے اگر لوگوں نے ہمیں ارتا دیکھ لیا تو حیرت کے مارے بے ہوش ہو جائیں گے میرے اپا بھی رات کو ہی مجھ سے ملنے کیلئے آتے تھے زوبیدہ نے کہا ٹھیک ہے عمر سر ہلا کر بولا میں بھی تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں بہت تک گیا ہوں زوبیدہ بولی ہاں آپ آرام کیج
زوبیدہ چلی گئی اور عمر کروٹ بدل کر سو گیا کھانہ کھا کر وہ لوگ پرستان جانے کی تیاری کرنے لگے زوبیدہ نے کالین زمین پر بچھایا اور وہ دونوں اس پر بیٹھ گئے اور کالین دھیرے دھیرے فضا میں بلند ہونے لگا کافی بلندی پر پہنچ کر اس نے ایک سمت کی طرف تیزی سے اڑنا شروع کر دیا چونکہ رات ہو گئی تھی اس لئے نیچے تاریکی کی سبا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا عمر اور زوبیدہ ادھر اد
یوں ہی کافی وقت گزر گیا اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ کالین کی رفتار کچھ سست پڑھ رہی ہے انہوں نے جھاک کر نیچے دیکھا اور ان کی آفے فٹی کی فٹی رہ گئیں دور دور تک بہت خوبصورت اور آلشان مکانوں کی ایک قطار فیلی ہوئی تھی جو کہ دودھی اور روشنی سے جگ مگا رہی تھی ان کا کالین شاہی باغ میں اس جگہ اترا جہاں زبیدہ کا باپ یعنی بادشاہ چہل قدمی کر رہا تھا اپن
زوبیدہ نے عمر کا تارکوپ بادشاہ سے کرایا وہ عمر سے بھی مل کر بہت خوش ہوا پھر وہ انہیں لے کر محل کے اندر آیا محل کو دیکھ کر عمر حیرت زدہ رہ گیا اتنا خوبصورت اور آلی شان محل اس نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا زوبیدہ بھی یہاں آکر بے ہت خوش نظر آ رہی تھی بادشاہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا زوبیدہ بیٹی کاشاہ اج تمہاری ما بھی اس جگہ اوڑی تو کتنا خوش ہوتیں میں
مہکز ذکر نے زبیدہ کو رنجیدہ کر دیا تھا وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگی بادشاہ نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کروایا اس کا دل بیلانے کیلئے فوراً پریوں کی ناجقہ انتظام کرنے کیلئے کہا زبیدہ اور عمر پہفصورت پریوں کی ناجقانے سے لطف انداز ہونے لگے ناجقانہ ختم ہوا تو وہ دونوں باگ میں آنکلے باگ میں ہر طرف بھینی بھینی خشبہ فہلی ہوئی تھی ان دونوں کو باگ کی سیر کرنے میں ب
وہ چلتے چلتے رک گئی اور امر سے بولی امر آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے امر نے سر ہلا کر بولا آپ کی امی کو ڈھوننے کی میں پوری کوشش کروں گا اس کی بات نے زبیدہ کو مطمئن کر دیا تھا امر سوچ میں پڑ گیا کہ اس نے زبیدہ سے وعدہ تو کر لیا ہے مگر اس کی امی کو کہاں تلاش کرے گا یہ کام بہت مشکل تھا مگر امر ایسا نوجوان نہیں تھا کہ ہمت ہار جاتا
اس نے اہت کر لیا تھا کہ جب تک زبیدہ کی امی نہیں مل جاتی وہ چین سے نہیں بیٹھے گا زبیدہ کی دوستی کئی پریوں سے ہو گئی تھی کیونکہ وہ پرستان کی شہزادی بن گئی تھی اس لئے اسے بڑی عزت دی جا رہی تھی محل کی کنیز پریوں سے بھی اس کی گاڑی چھننے لگی تھی اس وقت وہ انھی کے سات باگ میں چھولہ جھول گئی تھی عمر بادشاہ سے باتوں میں مسلوب تھا ابھی کچھ دیر پہلے بادشاہ سے ایک بوڑی پری مل کر
یہ بڑی بھی میرے رشتے کی خالہ لگتی ہیں جب میں نے تمہاری دنیا میں عزرا سے شادی کی تھی تو سب سے زیادہ شور انہی بڑی بھی نے مچایا تھا میرے ابا عزور کے کان یہی آہا کر بھرتی تھی دراصل یہ اپنی لڑکی کی شادی مصدر کرنا چاہتی تھی انہی کی وجہ سے میری بیوی اور بیٹی نے اتنی مسئیوتیں اٹھائی ہے ان کی بزرگی کا خیال کر کے میں انھیں کچھ نہیں کہتا ہوں ورنہ میرا تو جی بھی نہیں چاہتا کہ ان کی شکل د
اب بھی ان کا اصرار ہے کہ میں ان کی لڑکی سے شادی کرلوں مگر میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا اگر یہ میرے اب بہ حضورﷺ کے کان نہ بھرتیں تو میرے اب بہ کبھی بھی ازرا پر پرستان میں داخل پر پاونڈی نہ لگاتے اس طرح وہ گم بھی نہ ہوتی بیچاری اب نہ جانے کس حال میں ہوگی بادشاپ بہت اداز ہو گیا تھوڑی دیر کے بعد عمر اس سے اجازت لے کر وہاں سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا اس کا کمرہ بھی بہت
وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسی بڑی پری کو دیکھ کر چوک گیا وہ اس کے بستر کے پاس پڑھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھی تھی عمر کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکرہت فیل گئی اس نے کہا میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے تم سے چند ضروری بات کرنا ہے بازشاگی خالہ لگتی ہوں اور بولشن پری میرا نام ہے فرمائیے آپ کو مصدقہ کام پڑ گیا ہے عمر نے دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے خوش اقلاقی سے
بوڑی گلسن پری بولی مجھے شہزادی زبیدہ کی زبانی پتہ چلا ہے کہ تم ایک معمولی سپاہی ہو اور میں جانتی ہوں کہ سپاہی بہت غریب ہوتے ہیں۔ سنو اگر تم میرا ایک کام کر دو تو میں تمہیں اتنی دولت دوں گی کہ تم شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرو گے۔ مجھے دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے آپ اپنا کام بتائیں اگر میرے بس کا ہوا تو میں ضرور کرنے کی کوشش کروں گا۔ عمر نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ بادشاہ کی بی بی کھو گئی ہے۔
بغیر ملکہ کے بادشاہ اچھے نہیں لگتے ہیں لہٰذا تم اس بادشاہ کو مجبور کرو کہ وہ میری لڑکی سے شادی کرنے پر آمادہ ہو جائے گلشن پری نے خوشاندانہ انداز میں کہا وہ تمہارے سمجھانے سے ضرور مان جائے گا عمر کو اس بات کی زرہ سی بھی توقع نہیں تھی کہ گلشن پری اس سے اس قسم کا کام کرنے کو کہے گی وہ سوچ میں پڑھ گیا پھر اس نے کہا آپ مطمئن رہیں میں بادشاہ سے اس مسئلے پر گفتگو کروں گ
عمر کو وہ بوڑی پری بڑی مکار معلوم ہوئی ایک دم سے اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہی تو زبیدا کی امی کی گمشتگی کی ذمہ دار نہیں ہے ہو سکتا ہے اس نے یہ سوچ کر زبیدا کی امی کو کہیں چھپا دیا ہو کہ بادشاہ اس کی طرف سے مایوس ہو کر دوسری شادی اس کی بیٹی سے کر لے یہ خیال اس کے دل کو بھا گیا مگر اس کی تصدیق ضروری تھی اس نے اسی روز واپس اپنی دنیا میں جانے کا فیصلہ کر لیا رات زیادہ ہوئی تو اس نے زب
میں انسانوں کی دنیا میں جانا چاہتا ہوں کیا آپ مجھے وہ جادو کا قالین دے سکیں گی؟ زوبیدہ پریشان ہو کر بولی کیا آپ کا دل پرستان میں نہیں لگ رہا ہے؟ یا فر آپ کو کوئی بات تو بری نہیں لگ گئی؟ نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے عمر نے ہس کر جواب دیا میں یہاں پر بہت خوش ہوں وہ بس ایک ضروری کام یاد آ گیا تھا اگر یہ بات ہے تو فر ٹھیک ہے یہاں کی کوئی چیز بھی استعمال کرنے کے لیے آپ کو اجازت مانگن
بہت بہت شکریہ۔ اچھا زبیدہ، ایک بات تو بتائے، جب آپ اپنی امی کے ساتھ محل میں رہا کرتی تھی، تو وہاں پر آپ کی کتنے ملازم تھے؟ عمر نے پوچھا، صرف ایک، وہ بھی چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا تھا۔ اس کا کام صرف ادنہ تھا کہ وہ بازار سے سودہ سلطھ لا دیا کرتا تھا۔ واقعی گھر کا ہر کام امی خود ہی اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھی۔ زبیدہ نے بتایا، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ
جب میں اپنی امی کی گمشتگی کے بعد محل سے چلی تھی تو اس لڑکے کو بھی نوکری سے جواب دی دیا گیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اب وہ ایک نانوائی کے پاس نوکری کرے گا۔ مگر یہ سب کچھ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ زبیدہ نے حیرث سے پوچھا۔ یوں ہی وقت آنے پر آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ عمر نے جواب دیا۔ پھر اس نے جادو کا کالی نکالا اور اس پر بیٹھ کر اپنی دنیا کی طرف چل دیا۔
اس نے زبیدہ سے اس جگہ کی مطالق اچھتنا دریافت کر لیا تھا جہاں بر ان کا محل تھا اور جس میں وہ اپنی امی کے ساتھ رہتی تھی کالین نے اسے اس کے گھر میں اتارا تھا رات زیادہ ہو گئی تھی اس لئے اس نے کالین کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور بستر پر سو گیا صبح ہوئی تو وہ ناشلے سے فارق ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہوا وہ زبیدہ کے محل کی طرف جا رہا تھا جب وہ ان کے محل کے قریب پہنچا تو اس نے محل کے دروازے پر
اسے تو اس نانبائی کی دکان تلاش کرنا تھی جس کے پاس وہ لڑکہ کام کرتا تھا اور جس کے مطالق عمر کو زبیدہ کی زبانی پتہ چلا تھا کہ وہ ان کی محل میں ان کا ملازم تھا وازار قریب ہی تھا ایک نکڑ پر اسے نانبائی کی دکان نظر آ گئی وہ تندور پر بیٹھا روٹیاں پکا رہا تھا وہ چالیس، پینتالیس سال کا ایک دبلہ پتلا شخص تھا اس کے چہرے پر پسینے کی بوندے چمک رہی تھی اور دھوئے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں
عمر نے اس کے قریب جا کر اس سے کہا مجھے ایک لڑکے کے متعلق معلوم کرنا ہے نانبائی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا میا جاؤ جاؤ میں بہت مسروف ہوں بیکار باتوں کے لیے میرے پاس ذرا سا بھی وقت نہیں ہے عمر نے اپنی جیپ سے ایک اشرفی نکال کر اس کی طرف پھینکی پہلے تو نانبائی مسکر آیا اشرفی اٹھا کر انٹی میں رکھ لی اور ہسکر بولا بھائیہ پوچھو نہ کیا پوچھنا چاہتے ہو عمر نے فرقہ ایک
کیا وہ اب یہاں کام نہیں کرتا؟ ہاں اشرف چند دن میرے پاس رہا تھا یہ تقریباً دیڑھ دو بارس پہلے کی بات ہے مگر ایک روز اس نے نا جانے کہاں سے ایک بہت ہی قوبصورت بلی پکڑ لی تھی اس بلی کو اس نے اس ملکی کی شہزادی کی سال گراہ والے دن بطور توفہ دے دیا تھا وہ شہزادی بلی کو پاکر بہت خوش ہوئی اور اس نے بادشاہ سے کہے کر اشرف کو ہزاروں اشرف کیا ہی نام میں دلو با دیں
اس روز سے اشرف نے میری دکان پر کام کرنا چھوڑ دیا اور شہر میں ایک خوبصورت مکان لے کر چاول کی تجارت شروع کر دی اب وہ بہت امیر ہو گیا ہے اور چند روز بعد اس کی شادی اسی شہر کی ایک بڑے رئیس کی بیٹی سے ہونے والی ہے مگر آپ اشرف کے مطالق کیوں پوچھ رہے ہیں؟ کیا وہ آپ کا دوست تھے؟ میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں ہے مگر اس سے ایک ضروری کام پڑھ گیا ہے عمر نے کہا
پھر وہ نانبائی سے اشرف کی مکان کا پتہ معلوم کر کے اس سے ملنے کیلئے چل دیا۔ اشرف اپنے مکان پر ہی مل گیا تھا۔ اس کی موجودہ آنبان دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے بہت غریب تھا۔ جب امر نے بتایا کہ وہ زبیدہ کے پاس سے آیا ہے تو اشرف بڑی گرم جوشی سے ملا۔ اس نے بتایا کہ جس زمانے میں وہ زبیدہ اور اس کی امی کے ساتھ رہتا تھا، ان کا سنوق اس سے بہت اچھا ہوتا تھا۔ پ
جب کافی دیر ہو گئی تو اشرف نے پوچھا آپ نے اپنی آمت کا مقصد اب تک نہیں بتایا عمر نے جواب میں کہا میں زبیدہ کی گمشدہ امی کو تلاش کرنے کیلئے نکلا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تم ان کی گمشدگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو عمر کی بات سن کر اشرف کے چہرہ سفیت پڑ گیا وہ کمزور سے لہجے میں بولا میں کیا جانوں ان کی گمشدگی کے بارے میں؟ اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر عمر سمجھ گیا کہ وہ ضرور
اس نے ثنکی آمیز انداز میں کہا اشرف شاید تم مجھے نہیں جانتے تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم مجھے سب کچھ صحیح صحیح بتا دو کہ یہ سچ نہیں ہے کہ جس روز زبیدہ کی امی گم ہوئی تھی اس روز ایک بوڑی پری ان کے محل میں آئی تھی حالا کہ یہ بات عمر نے محض اندازی کی بنا پر کہہ دی تھی مگر اس کا اشرف پر بہت برا اثر ہوا اس نے لرستی ہوئی آواز میں کہا میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا مگر
ہوا یوں تھا کہ ایک روز محل میں رات کے وقت ایک بھوڑی پری جس نے اپنا نام گولشن پری بتایا تھا میری مالکن یعنی زبیدہ کی امی سے ملنے کیلئے آئی تھی میرے پیٹ میں شام سے درد ہو رہا تھا اس لئے میں باگ میں ٹہلنے لگا زیادہ دل نہ گزری تھی کہ میری مالکن کے کمرے میں سے تیس تیس بولنے کی آوازیں آنے لگیں میں دور کر کھرکی کی طرف گیا تاکہ دیکھوں کہ کیا ماملا ہے وہاں میں نے گولشن پری اور مالکن کو ب
گلشن پری مالکن پر بہت کرم ہو رہی تھی پھر اس نے نہائت غصے میں میری مالکن پر کچھ پڑھ کر فوکا اور میری مالکن ایک خوبصورت بلی بن گئی بدکشمتی سے جب گلشن پری پلٹی تو اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی اس نے مجھے گردن سے پکڑ کر خدکی سے اندر گھسیٹ لیا اور آنکھیں نکال کر بولی لڑکے تم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے میں خامہ خا لوگوں کو کتا بلی بنانا پسند نہیں کرتی یاد رکھ
اگر تُو نے یہ بات کسی سے کہی تو فر تُجھے چھپ کلی کا بچہ بنا دوں گی ساری عمر دیواروں اور چھتوں پر دورتا فرے گا میں ڈر گیا اور اس سے وادہ کر لیا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گا گلشن پر ہی چلی گئی میں بہت خوفزدہ ہو گیا تھا اس لئے بھاک کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور دروازہ بند کر کے چادر لپیٹ کر چپ چاپ سو گیا میری مالکن کا شوہر جو پرستان کا شہزادہ تھا مالکن کی گمش
میں کوشش کے باوجود بھی اسے کچھ نہ بتا سکا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اگر گلشن پری کو پتہ چل گیا کہ میں نے اس کا راز ابشا کر دیا ہے تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی پھر زبیدہ کا باپ اسے کہیں لے کر چلا گیا میں نے نانوایے کے ہاں نوکری کر لی اپنی مالکن کو جو کے اب بلی بن چکی تھی میں اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا میں اس کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتا تھا پھر ایک روز شہزادی کی سال گراہ کا
میں نے سوچا کہ میں اپنی مالکن بلی کو شہزادی کے حوالے کر دوں تاکہ وہ شہزادی کے پاس ہر طرح کے آرام و آشائیث سے رہے جب میں شہزادی کے پاس پہنچا تو وہ اتنی خوبصورت بلی کو دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھی اسے میرا توحفہ سب سے زیادہ پسند آیا بادشاہ نے بھی خوش ہو کر مجھے پندرہ ہزار اشرقیاں اعنام میں دی یہ تھی وہ کہانی اب تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ میں قسوروار ہوں یا نہیں یہ کہہ کر اشرب خامو
اس میں تمہارا کوئی کسول نہیں ہے اگر تمہیں اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تو یقینن تم یہ بات اپنی مالکن کے شوہر سے نہ چھپاتے بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ زبیدہ کی امی کا پتہ چل گیا ہے اگر ان پر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے تو وہ پھر سے اپنے اصلی روم میں آ جائیں گی اب مجھے شہزادی سے وہ بلی حاصل کرنا پڑے گی مگر یہ کام بہت مشکل ہے اشرف نے کہا وہ اس بلی سے بہت محبت کرتی ہے یہ بات تو ن
کہ وہ بلی کو سیدھے سادے طریقے سے تمہارے حوالے کر دے یہ کامخواہ ممکن ہو یا ناممکن بلی کو ہر حال میں حاصل کرنا ہی پڑے گا عمر اٹھتے ہوئے بولا عشرف کے پاس سے اٹھ کر وہ باہر نکل آیا وہ سوچ رہا تھا کہ کس ترقیب سے شہزادی سے بلی حاصل کی جائے پھر اس کے ذہن میں ایک ترقیب آہی گئی اب اسے رات ہونے کا انتظار تھا رات ہوئی تو عمر نے جادو کا کالین نکالا اور اس پر بیٹھ کر ب
اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بلی کو چرالے گا جادو کے کالی نے اسے مہل کی چھت پر اتار دیا گرمیوں کے دن تھے اس لئے شہزادی اپنی کنیزوں کے ساتھ چھت پر سو رہی تھی شہزادی کے برابر ایک بڑے بڑے بالوں والی ایک خوبصورت بلی بیٹھی اونگ رہی تھی عمر بڑی خاموشی سے آگے بڑا اور بلی کو پیچھے سے دبوچ لیا بلی چوق گئی اور زور زور سے میاؤ میاؤ کرنے لگی
اس کی آواز سن کر پہلے تو شہزادی کی تینوں کنیزیں بیدار ہوئی اور پھر شہزادی بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ انہوں نے جو امر کو اپنے سامنے دیکھا تو حق کا بکھا رہ گئی۔ امر سورتحال سے گھبرا گیا وہ اپنے کالین کی طرف بھاگا۔ شہزادی نے جو اسے اپنی بلی لے جاتے دیکھا تو وہ اپنے پلنگ سے پوٹ کر اس کی طرف لپ کی۔ امر جلدی سے کالین پر بیٹھ گیا اور کالین چھت سے بلند ہونے لگا۔
اس نے عمر کا گربان پکڑ لیا اور آنکھیں نکال کر دانت پیس کر بولی چور کے بچے اب بتا میری بلی کو کہاں لے جا رہا تھا عمر نے جھلا کر کہا عجیب لڑکی ہو تم بھی بلی کے پیچھے پڑھی ہو یہ نہیں دیکھتی ہو کہ کالین فضا میں اُڑ رہا ہے اب تو شہزادی کو بھی اپنی اُڑنے کا احساس ہوا گردن چھکا کر نیچے دیکھا اور دانتوں میں انگلی دبا کر بولی ہائے یہ کیا چکتر ہے کیا تم کوئی جادوگر ہو
اگر میں کوئی جادوگر ہوتا تو شکل سے اتنا شریف نظر نہیں آتا عمر نے اکڑ کر کہا شہزادی ناک چڑھا کر بولی میں تمہاری شرابت کا یقین کیسے کر لوں تمہاری چوری تو میں نے پکڑ لی ہے پھر اس نے چونک کر کہا مگر یہ تم مجھے کہاں لیے جا رہے ہو کالین کو روکو ورنہ میں نیچے کود جاؤں گی کود جاؤں گی تو میرا کیا کر لوگی ہودہی کی ہڈی پسلی ٹوٹے گی عمر نے لاپروائی سے کہا
عمر نے بیزاری سے کہا یہ رونہ دھونہ بند کر دو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں تمہارے محل میں حپازت سے پہنچا دوں گا مگر ابھی نہیں کیونکہ ابھی وہاں پر کنیزوں کی چیخ و پکار سن کر سب لوگ جمہ ہو گئے ہوں گے خامہ خام میری گردن فس جائے گی مگر یہ تو بتا دو کہ اب ہم کہاں جا رہے ہیں شہزادی نے آجز ہو کر پوچھا عمر نے جواب دیا ہم لوگ پرستان جا رہے ہیں پھر اس نے شہزادی کو تمام کہانی سنا دی
پرستان کے شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے شہزادے کی بیوی کو بلی بنا دیا تھا یہ بلی اس لڑکے اشرف کے ذریعے شہزادی کے پاس پہنچی اور اب پرستان جا رہی ہے تاکہ اس پر سے جادو کے اثر کو ختم کیا جا سکے شہزادی بہت حیران نظر آ رہی تھی اب وہ کتائی ناراض نہیں تھی اسے خوشی تھی کہ اب پرستان کے بادشاہ کی بیوی اپنی اصنی شکل میں آ جائے گی تھوڑی دیر بعد وہ لوگ پرستان کی خدود
عمر نے کالین کو ایک ویران سی جگہ پر اتاب لیا وہ ایک پاڑی علاقہ تھا اس نے بلی اور کالین کو ایک گار میں بند کیا گار کے مو کو ایک پتھر سے بند کر کے اس نے شہزادی کو ساتھ لیا اور پھر گلشن پری کے گھر کی طرف چل دیا جب دونوں گلشن پری کے مکان پر پہنچے تو وہ سو رہی تھی بہت دید تک دروازہ کھٹ کھٹانے کے بعد اس نے دروازہ کھولا تھا اس کے چیرے پر ناغواری کے اثرات تھے کیونکہ اسے نینت سے جگہ دیا
مگر جب اس نے عمر کو دیکھا تو وہ خوش ہو گئی آو آو کہو کیا بات ہے عمر اور شہزادی اندر داخل ہو گئے گلشن پری بولی میری بیٹی اپنی مومانی کے گھر گئی ہوئی ہے میں اس وقت گھر میں اکیلی ہی ہوں عمر نے کہا گلشن پری میں نے ایک ایسا چکر چلایا ہے کہ بادشاہ آپ کی بیٹی سے شادی پر آمادہ ہو جائے گا اگر آپ کی بیٹی اس کی بی بی بن گئی تو پھر اس کی قسمت ہی کھل جائے گی آپ کا تعلق ش
پورا پرستان آپ سے ڈرہ کرے گا اور آپ کی عزت کرے گا۔ گلشن پری عمر کی باتیں سن کر خوشی سے فولہ نہیں سما رہی تھی۔ عمر نے پھر کہا میں آپ کا اتنا بڑا کام کروہ رہا ہوں تو کیا آپ میری ایک زراظی مشکل بھی حل نہیں کر سکتی؟ تم بتاؤ تو سحیح میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گی۔ گلشن پری نے بڑے یقین سے کہا عمر نے شہزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس لڑکی کی چھوٹی بہن کو ایک مکار
ہرنی بنا دیا ہے وہ جادو گرنی سب لوگوں کو بہت تنگ کرتی ہے آپ کوئی ایسی ترقیب بتائیں کہ وہ لڑکی ہرنی سے پھر اپنی شکل میں آ جائے اور وہ جادو گرنی بھی لوگوں کو تنگ کرنا چھوڑ دے تم میری مدد پر آمادہ ہو اس لئے میرا بھی فرض ہے کہ میں تمہاری مشکل دور کروں میرے پاس ایک شیشی میں جادو کا پانی ہے جب تم اس پانی کو ہرنی پر چڑکو گے تو وہ اپنی اصلی شکل میں آ جائے گی اس
وہ اگربتی میرے نانا نے بڑی دکتوں کے بعد بنائی تھی اس میں یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کا دھوہ کوئی جادو جاننے والا سنگ لے تو ہمیشہ کے لیے جادو بھول جاتا ہے مگر مہربانی کر کے اُس اگربتی کو یہاں جلانے کی کوشش مطرنا اگر اس کا دھوہ میری ناؤٹ میں چلا گیا تو میں نے وہ جادو جو بڑی مہنت کے بعد سیکھا ہے بھول جاؤں گی عمر نے سر ہلا دیا اور گولشن پری وہ دونوں چیزیں لینے کے لیے چلی گئی
پانی میں زبیدہ کی امی پر چھڑک دوں گا اور پھر اس جادو کی اگربتی کو چپکے سے گلشن پری کے گھر میں جلا دوں گا۔ وہ تمام جادو پھول جائے گی اور پھر دوبارہ کسی کو نہیں ستائے گی۔ اس کی بات سن کر شہزادی مطمئن انداز میں مسکرانے لگی۔ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ گلشن پری وہ دونوں چیزیں وہاں لے آئی۔ عمر نے شکریہ کے ساتھ دونوں چیزوں کو اپنے قبضے میں کیا اور پھر شہزادی کو ساتھ لے کر وہاں سے رو
جہاں پر انہوں نے بلی کو گار میں بند کر دیا تھا وہ گار میں پہنچے تو بلی اپنے پنجوں میں مو چھپائے سو رہی تھی عمر نے اسے آہستہ سے اٹھا کر شہزادی کو دیا اور پھر جادو کے کالین کو بگل میں دبا کر گار سے باہر نکلایا اب وہ دونوں پرستان کے بادشاہ پرویس کی محل کی طرف جا رہے تھے جب وہ محل پہنچے تو بادشاہ سو رہا تھا مگر شہزادی اپنے کمرے میں بڑی اداز بیٹی تھی اسے اپنی ا
وہ جلدی سے بستر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی عمر کیا ہوا میری امی جان کا کچھ پتہ چلا اس نے بڑی بے سبری سے پوچھا اور پھر شہزادی کو پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھنے لگی عمر نے کہا زوبیدہ آپ کی امی مل چکی ہے آپ جلدی سے جا کر اپنے ابا کو بولا لائیں اس کی بات سنکر زوبیدہ کی ہلکی سی چیش نکل گئی وہ اسی وقت جا کر بادشاہ کو بولا لائی بادشاہ آکے ملتا ہوا وہاں آ
عمر نے جواب دیا زبیدہ کی امی کو میں تلاش کر لایا ہوں مگر وہ ہے کہاں؟ بادشاہ نے تاجگ سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا وہ ابھی آپ کے سامنے آ جائیں گی عمر نے اتمینان سے کہا ان کی گمشدگی میں گلشن پری کا ہاتھ تھا وہ اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کرنا چاہتی تھی اس لئے آپ کی بیوی کو اس نے بلی بنا دیا تھا یہ بلی جو آپ دیکھ رہے ہیں آپ کی بی بی ساحبہ ہی ہیں زبیدہ نے لپک کر شہزادی کی گود
اور اسے اپنے سے چمتا کر فوٹ فوٹ کر رونے لگی۔ عمر نے آگے بڑھ کر اس سے بلی لے کر اسے زمین پر رکھ دیا۔ بازشاہ بھی فٹی فٹی نظروں سے بلی کو دیکھ رہا تھا۔ عمر نے گلشن پریکی دی ہوئی شیشی میں سے پانی نکال کر اسے بلی پر چڑکا اور بلی اسی وقت انسانی روپ میں آ گئی۔ زوبیدہ اپنی ماں سے لپڑ گئی۔ بازشاہ کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور اس کا چہرہ مسرد سے
کہ اس نے مجھے میرے شوہر اور بیٹی سے دوبارہ ملبا دیا ورنہ میں تو بالکل مایوس ہو گئی تھی پھر اس نے بادشاہ کے کہنے پر اپنی کہانی سنائی اس نے کہا اس روز میں اپنے کمرے میں تھی کہ ایک بوڑی پری اندر داخل ہوئی اس کے چہرے پر گسے کے آسار تھے اس نے کہا کہ میری وجہ سے اس کی بیٹی کی شادی پرویس سے نہیں ہو سکی اس لئے اگر میں اپنی خیریت چاہتی ہوں تو اسی وقت یہ مہل چھوڑ کر کہیں دور نکل
کہ میں اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی میری اس بات سے وہ ناراض ہو گئی اور اس نے مجھے جادو سے بلی بنا دیا بادشاہ کی آنکھیں گسے سے سرخ انگار ہو گئیں اس نے نہائت کہر آلود لہجے میں کہا ہم اس گولشن پری کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اسے ایپرطناق سزا دیں گے کہ وہ زندگی پر یاد رکھے گی عمر نے جلدی سے آگے بڑھ کر کہا جہاں پنا آپ کو آپ کی کوئی ہوئی بی بی مل گئی ہیں گ
اس کے لئے کیا اتنی ہی سزا کافی نہیں کہ اس نے جو جادو بڑی مہنت اور توجہ سے سیکھا تھا وہ اسے بھول جائے؟ وہ اسے کیسے بھول سکتی ہے؟ بات شاہ نے حیرس سے کہا دراصل وہ بوڑی پری میرے پاس آئی تھی کہ میں آپ کو اس کی بیٹی سے شادی کرنے پر مجبور کروں مجھے چوکے اس پر شک ہو گیا تھا اس لئے میں نے واپس اپنی دنیا میں جا کر اس بات کا پتہ چلا لیا تھا کہ گلشن پری نے آپ کی بیوی کو بلی بنا د
میں اور میرے ملک کی شہزادی اس بلی کو لے کر پرستان میں آ گئے میں نے چالانگی سے کام لیتے ہوئے بوڑی پری کو ایک فرضی کہانی سنائی کہ شہزادی کی چھوٹی بہن کو ایک جادوگرنی نے ہرنی بنا دیا ہے تم کچھ مدد کرو گلشن پری مجھ سے بہت خوش تھی اس نے مجھے جادو کا پانی دیا تھا اور ایک اگربتی دی جادو کے پانی کا کرشمہ آپ نے دیکھی لیا ہے اور اگربتی کے مطالق گلشن پری نے یہ بتایا تھا کہ اگر اس کا د
تو ہمیشہ کیلئے اپنا تمام جادو بھول جاتا ہے میں اب گلشن پری کے گھر جا رہا ہوں وہ اپنی خواب گھا میں سو رہی ہوگی میں یہ جادو کی اگربتی وہاں جلا کر آ جاؤں گا اور وہ سوتے ہوئے اس کا دھونا سنگتی رہے گی جب صبا ہوگی تو وہ اپنے سارا جادو بھول جائے گی عمر کی بات سن کر سب لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا عمر چلا گیا بادشاہ نے اپنی بی بی عزرہ سے کہا یہ نوجوان بہت
جو ہم سب ملکر دو سال میں بھی نہ کر سکے۔ ملکہ اس کی بات سنکر بولی، میں نے اپنی پوری زندگی میں عمر جیسا خوب روز ذہین لڑکا نہیں دیکھا۔ میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنی بیٹی زبیدہ کی شادی عمر سے کروں گی۔ زبیدہ اس کی بات سنکر شرما گئی اور شہزادی کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے چلی گئی۔ بادشاہ زیر لب مسکرانے لگا۔ اس رات شہزادی زبیدہ کی محل میں رہی۔
دوسرے دن اس نے پورے پرستان کی سیر کی اور پھر رات کو زوبیدہ کی ماہ عزران نے اسے ڈھیر سارے توفے دے کر اسے امر کے ساتھ واپس اس کے محل میں بھیج دیا شہزادی کی گمشدگی نے وہاں ایک ہنگامہ ورپکر رکھا تھا مگر جب شہزادی وہاں پہنچی تو سب کے دم میں دم آیا شہزادی نے اپنی کہانی اپنے ماباب کو سنائی اور پرستان سے لایغ ہوئے توفے انھیں دکھائے اس کے ماباب اس کی واپسی سے بہت خوش تھے انھوں نے
اسی رات عمر دوبارہ پرستان روانہ ہو گیا جادو کا کالینوں سے بڑی تیزی سے زوبیدہ کے مہل کی طرف اڑائے چلا جا رہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ پرستان پہنچ گیا بادشاہ پرویز اور ملکہ عزران نے عمر کو اپنے فیصلے سے آگہ کر دیا تھا کہ وہ اس کی شادی اپنی بیٹی زوبیدہ سے کرنا چاہتے ہیں عمر نے ان کی فیصلے کے آگے سر جھکا دیا چند روز بعد عمر کی شادی پرستان کی شہزادی زوبیدہ سے ہو گئ
اور یوں ایک سپاہی اپنی زہانت اور بہادوری کی بنا پر پرستان کے شہزادی سے شادی کر کے ایک خسی خوشی زندگی گزارنے لگا۔
What's Your Reaction?