درویش سپاہئی اور شہزادی کا قصہ

درویش سپاہئی اور شہزادی کا قصہ

Oct 30, 2024 - 20:10
 0  4
درویش سپاہئی اور شہزادی کا قصہ
درویش سپاہئی اور شہزادی کا قصہ


اسلام علیکم  پیارے دوستو ایک دفعہ بازشاہوں میں ایک بہت بڑی جنگ ہوا اور بہت دنوں تک جاری رہی جب لڑائی خدم ہو گئی تو فوج کے بہت سے سپائیوں کو نوکری سے بر طرف کر دیا گیا کیونکہ اب ان کی کوئی ضرورت نہ تھی تمام سپائی اپنے اپنی تنخواہ لے کر گھر کو چل دئیے ان میں سے ایک سپائی تھا جو دل کا بہت سخی تھا


وہ اپنی نوکری کے دنوں میں اپنی تمام تنخواہ خرچ کردیا کرتا تھا۔ چنانچہ جب اسے نوکری سے بر طرف کیا گیا تو اس کی تنخواہ کے صرف چار آنے پیسے نکلے۔ وہ یہ چار آنے کے پیسے ہی لے کر روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک نان بائی سے تین آنے کی روٹی خریدی اور ایک آنے کے پیسے جیم میں ڈال لئے۔ وہ آگے چلا تو ایک بہت پہنچاوہ درویش ملا۔ جب اس نے سپاہی کو دیکھا تو درویش نے سپاہی سے


اب تمہیں کیا خیرات دوں؟ جب میں فوج میں نوکر تھا تم ان دنوں ملتے تو تمہیں مومانگی مراد دیتا اب تو میرے پاس اس روٹی اور چار پیسوں کے سوا کچھ بھی نہیں مگر تم بھی میری طرح بھوکے ہو اس لئے جو کچھ میرے پاس موجود ہے اس میں سے آدھا تم لے لو مجھے ضرورت پڑی تو میں بھی تمہاری طرح بھیک مانگ لوں گا سپاہی نے آدھی روٹیاں اور دو پیسے فقیر کو دے دئیے اور آگے کو چل دیا درویش


کہ اٹھ کر سپاہی کے پیچھے پیچھے ہو لیا تھوڑی دور چل کر درویش نے اپنا بھیس بدل لیا اور ایک اور فکیر کے بھیس میں سپاہی سے جا ملا اور بھیک مانگنے لگا سپاہی نے وہی جواب دیا اور پھر اپنے باقی کھانے میں سے ایدہ کھانا اور ایک پیسہ فکیر کو دے دیا درویش دعائیں دیتا ہوا چلا گیا مگر تیسری دوہا پھر اپنی صورت بدل کر سپاہی کو جا پکڑا اور پھر اس سے ب


سپاہی کے پاس اب صرف ایک پیسہ اور دو روٹیاں رہ گئی تھی۔ اس نے ایک پیسہ اور ایک روٹی فکیر کو دے دی اور باقی ایک روٹی ایک کوئے کے کنارے بیٹھ کر خود کھالی۔ پانی پیا اور اللہ کا نام لے کر آگے چل دیا۔ سپاہی ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ وہ ہی درویش پھر سپاہی کو آ ملا۔ از دوہ درویش نے بھی سپاہی جیسا لباس پہن رکھا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی فوج سے نکل کر آ


درویش نے سپاہی سے کہا کہو دوست کہاں سے آ رہے ہو تمہیں کتنا سواب ملے گا اگر مجھے کسی سرائے میں سے روٹی کھلو دو بھوک کے مارے میرا برا حال ہو رہا ہے سپاہی بولا بھائی اگر کچھ دیر پہلے آتے تو تمہیں ایک روٹی کھلا دیتا اب تو میرے پاس کچھ نہیں چار آنے کے پیسے مجھے اپنی دنخواہ سے ملے تھے ان میں سے تین آنے کی میں نے روٹی کھالی ایک آنا میرے پاس نگت


مگر راستے میں تین فکیروں نے مجھ سے سوال کیا میرے پاس جو کچھ بھی تھا میں نے ان کو دے دیا صرف ایک روٹی بچی تھی جو تھوڑی دیر پہلے میں نے خود کھالی اب تو قسم سے کھانے کو پیسا بھی نہیں آؤ کٹھے چلتے ہیں کہیں سے بیک مان کر پیٹھ بھر لیں گے درویش بولا تمہیں بیک مانگنے کی کیا ضرورت ہے مجھے بیماریوں کو علاج کرنے آتے ہیں اگر کوئی بیمار مل گیا تو کھانے پینا کی ص


بھئی تمہیں تو ہنر آتا ہے تم تو کمال ہوگے مجھے تو کچھ نہیں آتا تمہارا اور میرا کیا جوڑ ہم اکیلے ہی بھیک مانگتے ہوئے چلے جائیں گے اللہ رضک دینے والا ہے کسی نہ کسی طرح بیٹھ بھر دے گا درویش بولا نہیں اکیلے جانے کی کیا ضرورت ہے تم میرے ساتھ آؤ میں جو کچھ کماؤں گا اس میں سے آدھا تمہیں دے دوں گا سپائی نے خوش ہو کر کہا یہ بات ہے تو بسم اللہ چلو میں تیار ہوں


گرز دونوں دوست ہستے بولتے آبادی کی طرف روانہ ہو گئے وہ ایک آبادی میں پہنچے مگر انہیں جو پہلا گھر نظر آیا وہاں سے رونے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں دونوں دوست ادھر کو چل دئیے جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ایک زمیدار کا گھر تھا اور وہ بہت سخت پیمار ہے صرف چند گھنٹوں کا مہمان معلوم ہوتا تھا درویش نے زمیدار کے نوکر سے کہا کہ ہمیں اندر لے چلو ہم تم


نوکر انہیں اندر اسی کمرے میں لے گیا جہاں زمیدار لیٹا ہوا تھا پاس ہی اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی اور ننے ننے بچے ماں کو روتا دیکھ کر بے چین ہو رہے تھے اور چیخیں مار مار کر رو رہے تھے درویش نے زمیدار کی بیوی بچوں کو تسلی دی اور انھیں چپ کر آ کر کہنے لگا کہ میں ابھی مریض کو ٹھیک کیا دیتا ہوں یہ کہہ کر درویش نے جیب سے ایک دوایی کی شیشیں نکالی اور اس میں سے ایک خوراک زمی


کہ زمیدار کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ ہوش میں آ گیا اور تھوڑی دیر بعد انرست ہو کر اٹھ بیٹھا میہ بی وی درویش کے پیروں سے لپٹ گئے اور کہنے لگے ہماری جان ہمارا مال سب کچھ موجود ہے آپ جو چاہے لے لیں ہم تمام عمر آپ کی گلامی کرنے کو تیار ہیں درویش بولا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں میں کچھ نہیں لوں گا زمیدار نے بہت کہا مگر درویش کچھ بھی لینے پر راضی نہ ہوا


سپاہی بار بار درویش سے کہتا تھا کہ کچھ تھوڑا بہت قبول کر لو گزارے کی صورت تو ہو جائے گی مگر درویش کہتا کہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا آخری زمیدار کی بیوی ایک بگری کا بچہ لے کر آئی اور کہنے لگی کم از کم اس کو تو قبول کر لیجئے ورنہ یقین فرمائے ہمیں بہت دوکھ ہوگا درویش اسے بھی لینے پر راضی نہ ہوا مگر سپاہی نے اس کو مہند سے کہا کہ اسے لے لو


اس کی ہمیں ضرورت پڑے گی۔ آخر درویش نے بکری کا بچہ لے لیا اور سپاہی سے کہا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں اس کی خواہش ہے تو تم اس سے اٹھا کر لے چلو سپاہی بولا بہت خوب اس کو اٹھانا کونسا منوبوج اٹھانا ہے میں لئے چلتا ہوں چنانچہ سپاہی نے بکری کی بچے کی ٹانگے رسی میں بان کر اسے اپنی پیٹ پر اٹھا لیا اور دونوں دوست وہاں سے چلتے بنے وہ باتیں کرتے کرتے


اب بکری کے بچے کو اٹھائے سپاہی تھک گیا تھا ادھر آتے کلہو اللہ اپڑ رہی تھی اس نے درویش سے کہا بھائی اب یہاں ٹھہر کر کچھ آرام کر لیں پھر آگے چلیں گے اگر کہو تو بکری کے بچے کے کباب بھون لوں درویش بولا تمہارا دل چاہتا ہے تو شوک سے کباب بناؤ مگر میں اس بکھیڑے میں نہیں پڑوں گا تم اس کو بھونو اور کھاؤ اور میں اتنی دیر میں ذرا ادھر ادھر ٹہلتا ہ


سپاہی بولا تم شوک سے ادھر ادھر ٹھلو مجھے کباب بنانے خوب آتے ہیں میں ابھی تیار کر لیتا ہوں درویش تو ادھر ادھر ٹھلنے لگا اور سپاہی نے بکری کے بچے کو زبا کیا کچھ لکڑیاں کٹھی کر کے آگ سلگائی اور کباب بھوننے لگا سپاہی نے کباب ٹھیار کر لئے اور اپنے دوست درویش کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا مگر درویش کا کہیں پتہ نہ تھا سپاہ


کہ کسی ایسی جگہ سے بھوٹی توڑوں کہ درویش کو معلوم نہ ہو اس نے کباب کو اُلٹا بلٹا کر دیکھا تو اسے بکری کے بچے کا دل دکھائی دیا سپاہی نے سوچا کہ درویش کہاں دل کو دیکھتا پھیرے گا اور یہ ہوتا بھی مزیدار ہے اسی کو کھالوں چنانچہ سپاہی نے دل نکال کر کھا لیا سپاہی نے دل کھایا ہی تھا کہ درویش صاحب واپس آ گئی اور بولے یہ تمام کباب تم خود کھالو


مجھے صرف اس بچے کا دل دے دو میرے لئے وہ ہی بہت کافی ہے سپاہی اب بڑا پریشان ہوا اور کچھ تو اس کی سمجھ میں نہ آیا چاکو لے کر کباب کے سینے میں دل کو تلاش کرنے لگا دل کہیں ہوتا تو اسے ملتا آخر تھوڑی دیر بعد بولے صاحب مجھے تو دل کہیں نہیں دکھائی دے رہا ترویش بولا تاجو ہے کہ اس میں دل موجود نہیں آخر گیا تو گیا کہاں گیا


سپاہی بولا مجھے تو کچھ معلوم نہیں مگر یار ہم بھی بڑے بھولے ہی ہیں بھلا بکری کے بچے میں دل کہاں سے آیا ان کے تو دل ہوتا ہی نہیں درویش بولا سجمچ مجھے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا مگر سب جانوروں کا دل ہوتا ہے تو بکری کے بچے کا کیوں نہیں ہوتا سپاہی کہنے لگا نہیں بھائی یقین مانو بکری کے بچے کا دل نہیں ہوا کرتا میں بھی بہت احمق ہوں


کہ تم سے دل کا نام سن کر اسے کباب میں تلاش کرنے لگا۔ ترویش بولا اچھا اگر دل نہیں تو میں کچھ نہیں کھاؤں گا تم شوق سے سارا کھالو سپاہی بولا جتنا مجھ سے کھایا جائے گا میں کھا لیتا ہوں باقی کو رمال میں باندھ لوں گا پھر تمہیں کہیں بھوک لگی تو کھا لینا غرض سپاہی نے آدھے کے قریب کھا لیا اور باقی آدھے کو رمال میں باندھ کر ساتھ لے لیا اور آگے کو ربانہ ہو گئ


کہ راستے میں ایک ندی آئی درویش نے سپاہی سے کہا کہ تم آگے بڑھو ندی میں سے دیر کر نکلنا ہوگا سپاہی بولا نہیں پہلے تم بسم اللہ کرو سپاہی نے دل میں سوچا کہ اس کو آگے بیجوں گا اگر پانی گیرا ہوا تو اس کی جان چلی جائے گی میری تو جان بچ جائے گی آخر درویش پانی میں اترا پانی اس کے گھٹوں تک آیا وہ آسانی سے گزر کر دوسرے کنارے جا کھڑا ہوا اور سپاہی


اب تم بھی آچاؤ سپاہی پانی میں اترا تو درویش نے دعا کی کہ یہ ندی پانی سے بھر جائے سپاہی ندی کے بیچوں بیچ تھا کہ پانی کا وہ زور ہوا کہ سپاہی کی کمر تک آ گیا سپاہی نے مدد کے لیے درویش کو پکارا اور کہا بھائی بچانا بھائی بچانا پانی کے زور سے میرے پاں اکھڑ رہے ہیں درویش بولا پہلے یہ اکرار کرو کہ بکری کے بچے کا دل تم نے کھایا ہے


سپاہی بولا نہیں نہیں میں نے نہیں کھایا پانی سپاہی کی گردن تک آ گیا سپاہی پھر چلایا بھائی زرا پانی مٹر کر میرا ہاتھ پکڑ لو ترویش پھر بولا پہلے اکراہر کرو کہ بکری کے بچے کا دل تم نے کھایا ہے سپاہی نے وہی چواب دیا نہیں میں نے نہیں کھایا پانی کا زور اور بڑھ گیا اور پانی سپاہی کے مو تک پہنچ گیا سپاہی نے مشکل سے کہا خدا کے لیے مجھے بچاؤ میں ڈوب رہا ہوں


درویش بولا، اب بھی اس بات کا اقرار کر لو کہ بکری کے بچے کا دل تم نے کھایا ہے، تو میں تمہیں بچا لوں گا۔ سپاہی نے پھر وہی جواب دیا، نہیں نہیں میں نے دل نہیں کھایا۔ درویش کو سپاہی کی اس بات پر بہت غصہ آیا اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس جھوٹے آدمی کو پانی میں غرک ہونے دیا جائے۔ مگر پھر اس نے سوچا، اگر یہ جھوٹا ہے مگر اس میں اتنی خوبی تو ہے کہ یہ رحم دل ہے اور مسیبہ زدہ آدمیوں کی مدد کرتا ہے۔


آخر اس نے ایک روٹی کے سوا اپنا تمام کھانا اور پیسے مجھے دے ڈالے تھے یہ سوچ کر درویش کو اس پر رحم آ گیا اس نے دعا کی تو پانی اتر گیا اور اس نے خود آگے بڑھ کر سپاہی کا ہاتھ تھاما اور اسے کھینچ کر باہر نکال لیا دونوں دوست پھر آگے روانہ ہوئے راستے میں درویش سپاہی کو جھوٹ سے بچنے کی نصیتیں کرتا رہا اور بار بار کہتا رہا اگر تم نے دل نکال کر کھا لیا تھا تو مجھ


اس میں ہر جی کیا ہے میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا مگر سپاہی نے تمام نصیاتیں سنی ان کے لیے درویش کا شکریہ دا کیا مگر اپنا کسور نہ مانا وہ دونوں اکٹھے سور کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے دیس میں پہنچ گئے وہاں انہیں معلوم ہوا کہ وہاں کے باشا کی بیٹی بڑی سخت پیمار تھی اور اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی سپاہی نے درویش سے کہا دوست یہ بڑے مزے کا موقع ہے شہزاد


وہ اگر اچھی ہو گئی تو یہ سمجھ لو کہ تمام عمر کا چین مل جائے گا درویش سپاہی کی بات سن کر چوب چاپ آگے چلتا رہا اور سپاہی تھا کہ بار بار کہہ رہا تھا بھائی زرا قدم اٹھا کر چلو اگر دیر ہو گئی تو موقع ہاس سے جاتا رہے گا لیکن درویش اور بھی آسٹا آسٹا چلنے لگا سپاہی نے بہت منت سماجت کی مگر درویش پر کوئی اثر نہ ہوا یہاں تک کہ باشا کے مہل تک پہنچتے پ


شہزادی کی موت کی خبر سن کر سپاہی کو بہت رنج ہوا اس نے تو شہزادی کی بیماری کا حال سن کر نا جانے کیا کیا منصوبے بنا لئے تھے کبھی وہ سوچتا تھا محل بنوائیں گے کبھی اس کا ارادہ تھا کہ گھوڑہ گاڑی اور ہاتھی کی سواری کریں گے کبھی وہ خیال کرتا تھا کہ نیائیت امدہ امدہ لباس پہنیں گے اب جو اس نے شہزادی کے مرنے کا حال سنا تو اس کی تمام امیدے دم توڑ گئیں وہ درویش پر د


تم اجیم ناماقول آدمی ہو تمہاری ایک زراسی سستی نے بنا بنایا کام بگاڑ ڈالا تم نے میرے تمام سپنے زائع کر دئیے اتنا سمجھایا کہ بھلے آدمی، زرا قدم اٹھا کر تیز تیز چلو مگر تم نے میری ایک نہ سنی اب سر پکڑ کر رو درویش بولا مجھے کونسا پیسوں کی ضرورت تھی جو میں اپنی ٹانگوں کو تھکاتا اللہ مدد دینے والا ہے ضرورت پڑی تو وہ اپنی انائیت سے سیک


سپاہی بولا تمہیں ضرورت نہیں تھی مجھے تو تھی نا بڑے دوست بنے پھرتے ہو دوست کے لیے اتنی تکلیف بھی نہ اٹھا سکے درویش کو پھر سپاہی کی روٹیاں دینے کا احسان یاد آ گیا وہ کہنے لگا اچھا بھائی بگڑتے کیوں ہو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا میں اب شہزادے کا علاج کر کے اسے زندہ کر دیتا ہوں پھر تو خوش ہو جاؤ گے سپاہی نے درویش کو گلے لگا لیا اور کہن


اگر یہ بات ہے تو کیا فکر ہے چلو تو پھر مہل میں چلتے ہیں دونوں دو شاہی مہل میں داخل ہوئے تو وہاں ہر طرف قعرام برپا تھا کوئی رو رہا تھا کوئی بین کر رہا تھا کوئی چاتی پیٹ رہا تھا درویش نے جاتے ہی کہا یہ روننا پیٹنا بند کرو میں شہزادی کو زندہ کر دیتا ہوں سب لوگ ہران ہو کر خاموش ہو گئے اور جلدی جلدی درویش کو اس کملے میں لے گئے جہاں شہزادی کی


درویش نے نیش کو دیکھا اور خدمتگاروں سے کہا مجھے کچھ اندھن اور ایک پانی سے بھرا ہوا برطن لادو جب سارا سمان آ گیا تو درویش نے لوگوں سے کہا تم سب باہر چلے جاؤ میں اپنا کام شروع کرتا ہوں تمام لوگ کمر سے نکل آئے صرف سپاہی باقی رہ گیا درویش نے اس کو ٹھینے سے منع نہ کیا اور شہزادی کو زندہ کرنے میں مشکول ہو گیا پہلے سے نے شہزادی کے بدن کی بوٹی بوٹی کر ڈالی


پھر ہڈیوں کے ٹکڑے علاق کر کے انہیں پانی کے برطن میں ڈال دیا اور نیچے آگ سلگا دی شہزادی کا باقی گوشت بھی ہڈیوں سے علادہ ہو گیا اور صرف سفید ہڈیاں برطن میں رہ گئیں درویش نے پھر ہڈیوں کو نکال کر میس پر رکھا اور ان کو جوڑ کر ان پر ایک کپڑا ڈال دیا کپڑا ڈالنے کے بعد تین دوایس نے ایک منتر پڑا اور کہا کہ لڑکی اٹھ کر بیٹھ چاؤ کپڑا


بادشاہ نے آکر بیٹی کو دیکھا تو اسے اپنے چھاتی سے چمٹا لیا اور مارے خوشی کے دیوانہ ہو گیا۔ بادشاہ نے درویش سے کہا، مانگ کیا مانگتا ہے؟ مو مانگی مراد دوں گا، اگر آدھی سلطنت بھی مانگے تو میں دینے سے دریگ نہ کروں گا۔ درویش بولا، ساہب میں نے کسی انام کی امید میں علاج نہیں کیا۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ سپاہی نے غصے سے درویش کے اکونی ماری اور کہہنے لگا، کم بخت۔


اکل ماری گئی ہے میں نے تجھے علاج کرنے کو کہا ہی کیوں تھا مجھے تو روپیے کی خواہش ہے نا نہیں تو شہزادی کیا میری مالکتی تھی درویش تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر اس نے انکار کر دیا سپاہی کے گسے اور مایوسی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا بادشاہ نے اس کے چہرے سے تار لیا کہ سپاہی کو انام کی ضرورت ہے اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ درویش کو عشرفیوں میں تول دو اور جتنی عشرفیاں چڑیں


آخرکار درویش کو تولا گیا اور اشرفیوں کا ڈھیر کا ڈھیر اسے انام میں ملا درویش نے کچھ اشرفیوں خود اٹھائیں اور باقی سپاہی پر لات دیں اور دونوں دوست پھر اکتھے چل پڑے ایک جنگل میں پہنچ کر دونوں دوست تھرا آرام کرنے کے لیے ٹھہر گئے درویش بولا آو بھائی اس جگہ اشرفیوں کو بھات لیں سپاہی بولا بڑی خوشی سے درویش نے اشرفیوں کا ڈھیر لگا کر انہیں تین حصوں


کہ ہسسیدار تو ہم صرف دو ہیں یہ تین ہسے کیسے؟ کہیں اس درویش کا دماغ تو نہیں پھیر گیا؟ آخر اس سے رہا نہ گیا وہ درویش سے پوچھنے لگا ساہب یہ دو آدمیوں کیلئے آپ تین ہسے کیسے کر رہے ہیں؟ درویش بولا بھائی میں نے یہ تین ہسے برابر برابر کے بنائے ہیں ان میں سے ایک ہسا میرا ایک تمہارا اور ایک ہسا اس کا ہے جس نے بکری کے بچے کا دل کھایا اب تو سباہی بڑا پریشان ہوا


کتنی دوہا وہ اس چوری سے انکار کر چکا تھا اور درویش کی ہر نصیت پر یہی کہتا آیا تھا کہ میں چوری سے کوسو دور بھاگتا ہوں اور اب اکرار کیسے کروں؟ سامنے شرفیوں کا ڈھیر لگا دیکھ کر اس کے مو میں پانی بھر آیا وہ اتنی شرفیوں کو کیسے چھوڑ سکتا تھا؟ آخر کچھ دیر بعد بولا بھائی سچ تو یہ ہے کہ بگری کے بچے کا دل میں نے ہی کھایا تھا اصل میں میں نے یو ہی مزاک میں تم کو نہ بتایا


درویش بولا دل تم نے کھایا یہ کیسے ہو سکتا ہے تم تو بہت قسمیں کھا چکے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ بکری کے بچے کا دل تو ہوتا ہی نہیں سپاہی بولا ارے میا وہ تو بزاگ کی باتیں تھیں بکری کے بچے کا دل کیوں نہیں ہوتا جیسے ہمارا دل ہوتا ہے ویسے ہی بکری کے بچے کا دل بھی ہوتا ہے درویش نے کہا میا سپاہی لو سنو اب ہمارا تمہارا ساتھ نہیں نبے گا


تم نے میرا لحاظ نہیں کیا یہ ان اشرفیوں کی محبت ہے یہ لو اشرفیاں تم رکھ لو اور اب سے تمہارے اور میرے راستے جدہ جدہ درویش نے اشرفیاں سپاہی کو دیں اور اسے خدا حافظ کہہ دیا سپاہی کو اشرفیاں ملی تو اس کی خوشی میں اس نے درویش تو کیا کوئی بھی ہوتا سپاہی پرواہ نہ کرتا وہ اشرفیاں سمیڑتے سمیڑتے بولا بہت خوب جیسے تمہاری مرضی اللہ بیلی


درویش ایک دوسرے راستے پر چل پڑا اور تھوڑی دیر میں نظروں سے اُجل ہو گیا سپاہی نے دل میں سوچا کہ میرا دوست تھا تو بہت خوب آدمی مگر اچھا ہوا کہ وہ چلا گیا اب اپنا کسور ماننے کے بعد مجھے اس سے ملنے اور بات چیت کرنے میں شرم آتی تھی اس نے بانکر عشرفیوں کو کاندے پر لادا اور اپنی راہ پر چل پڑا اب سپاہی کی کیا کہنے تھے روپے کی ریل پیل تھی دن عید تھے اور راتے ش


بڑے مزے میں زندگی گزر رہی تھی دل کا صخی تو وہ روزِ اول سے تھا خوب دولت اڑائی کیا مجال کہ کوئی سوال کرے اور وہ پورا نہ کرے اس کی دریادلی کے سامنے تو کارون کا خزانہ بھی کم تھا کچھ عرصے کے بعد جبیں خالی ہو گئیں اور بچارہ پہلے کی طرح چڑے کا چڑا رہ گیا اتفاق کی بات تھی کہ انہی دنوں سے خبر ملی کہ ایک دوسرے دیس کے راجہ کی بیٹی بیمار پڑی ہے راجہ تمام


مگر لڑکی کی بیماری تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور لڑکی چند دنوں کی محمان تھی۔ سپاہی نے سوچا کہ یہ مزے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ میرے دوست نے جس طرح شہزادی کو زندہ کیا تھا اور جو منتر پڑا تھا وہ تو مجھے معلوم ہی ہے۔ اگر ہاتھ ٹھیک پڑا تو بس زندگی بھر کا آرام آ جائے گا۔ یہ سوچ کر سپاہی اس ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ آندھی کی طرح اُٹا ہوا جا رہا تھا۔ تین دن کا را


اور مہل میں جا پہنچا جب وہ مہل میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ آج ہی سبا راجکماری مر گئی اس نے سوچا کہ اچھا ہی ہوا شہزادی مر گئی بیماری کی تو دعا مجھے معلوم نہیں مگر مردے کو زندہ کرنے کا طریقہ تو آتا ہے یہ سوچ کر وہ سیدہ راجہ کے دربار میں پہنچا اور آداب بچالانے کے بعد کہنے لگا میں آپ کی لڑکی کو زندہ کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں راجہ نے سنتو رکھا تھا


کہ پچھلے دنوں کسی طرح ایک شزادی زندہ ہو چکی ہے۔ اس نے اپنے وزیروں سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ وزیر بولے حضور، راجکماری تو مر ہی چکی ہے، اب اور کیا بگڑ سکتا ہے؟ آپ اسے علاج کرنے دیں۔ اگر اس نے راجکماری کو اچھا کر لیا، تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی؟ اگر یہ دھوکے باز ہے تو اس کا سر اڑا دیجئے گا۔ چنانچہ راجہ سپاہی کو اس کمرے میں لے گیا، جہاں اس کی


اب ہلاج کرو۔ سفاہی نے لڑکی کو دیکھ کر درویش کی طرح پانی سے برا ہوا برتن اور اندھن منگوائی لیا اور سب کو باہر چلے جانے کو کہا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو اس نے دروازہ بند کر کے راجکماری کا گوشت کارڑنا شروع کر دیا۔ اس نے شہزادی کے بدن کے ٹکڑے کر کے انھیں کیتلی میں ڈال دیا۔ پانی اپلنے لگا گوشت پوشت الیدہ ہو گیا اور صرف ہڑیاں باقی رہ گئیں۔ اس نے اسی طرح ہڑ


اور انھیں جوڑنا شروع کیا مگر وہ جب ہڑیاں جوڑنے لگا تو اسے یہ یاد نہ رہا کہ کون سی ہڑی کہاں لگانی ہے آخر اسے جس طرح سمجھ میں آیا اس نے ہڑیوں کو جوڑ دیا اور اوپر چادر ڈال دی چادر ڈال کر منتر پڑنا شروع کیا تین بار پڑ کر چادر اٹھائی اور کہا اٹھو شہزادی اٹھ کر بیٹھ جاؤ مگر وہاں کسی میں جان ہو تو اٹھے غرض اس نے پھر ہڑیوں کو جوڑا توڑا اور


مگر کچھ بھی نہ ہوا وہ بچارہ بار بار ہڈیوں کو روٹ پڑھ کر جوڑتا رہا اور منتر پڑھتا رہا مگر شہزادی ٹس سے مسنا ہوئی تو سپاہی کے ہوچ اڑ گئے کہ یہ تو لینے کے دینے پڑھ گئے وہ تو اس امیث سے آئے تھے کہ اشرفیوں کے تھلیں ملیں گے اور سونے کی ریل پیل ہوگی اب اس کی یہ حالت تھی کہ اس کی جان کے لالے پڑھ گئے خوف کے مارے سپاہی کا برا حال تھا موت اس کی آنکھوں


وہ سوچنے لگا کہ زور کا کھڑاکا ہوگا راجہ کا سپاہی آئے گا اور سپاہیوں نے مجھے پاسی پر چڑا دینا ہے اتنے میں سپاہی کیا دیکھتا ہے کہ کمرے کی کھڑکی خود بخود کھل گئی اور اس کا دوست درویش سامنے کھڑا تھا درویش نے وہی سپاہی جیسا لباس پہن رکھا تھا اور اس کی شکل اور سورت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ناراض ہے سپاہی کو دیکھتے ہی اس نے کہا اوے چکند


سپاہی درویش کو دیکھتے ہی اس کے پیروں میں گر پڑا اور کہنے لگا بھائی خدا کے لیے میری مدد کر ورنہ میں چند گھنٹوں کا محمان ہوں درویش بولا ابھی ناماکل تجھے یہ کیا سوجی تھی کہ تم شہزادی کو زندہ کرنے چل پڑے سپاہی نے ہاتھ جوڑ کر کہا بھائی پیٹ بری بلا ہے تم نے جو کچھ دیا تھا وہ سب میں نے اڑا ڈالا اور کچھ نہ بچا تو پھر میں کیا کرتا یقین مانو م


بس اب تو خدا کے لیے میری چھٹکاری کی کوئی تدبیر کرو درویش کو ابھی تک وہ سپاہی کی روٹیاں دینے کا احسان یاد تھا وہ بولا اس دفعہ تو میں تیری مدد کر دیتا ہوں مگر یاد رکھنا دوبارہ تُن نے ایسی حرکت کی تو خطا کھائے گا ہاں ایک بات یہ بھی سن لے کہ راج کماری کو تو میں زندہ کر دوں گا لیکن اگر راجہ سے تُن نے اینام میں ایک پیسا بھی لیا تو اچھی بات نہیں ہوگی سپاہی بولا


یہاں جان کے لالے پڑے ہیں تم خدا کے لیے راجکماری کو زندہ کر دو بس اس کے بعد میری توبہ اگر پھر کبھی ایسی حکت کروں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا چنانچہ درویش نے ہڈیوں کو پھر نئے سیلے سے ٹھیک تنا جوڑا پھر ان پر کپڑا ڈال کر اپنا وہی منطر پڑا اور راجکماری ہستی بولتی اٹھ بیٹھی درویش جس راستے سے آیا تھا اسی سے غائب ہو گیا اب سپائی کی خوش


جان بچی سو لاکھوں پائے فوراً دروازہ کھول کر راجہ کو اندر بلایا راجہ بیٹی کو زندہ دیکھ کر اس سے لپڑ گیا اور خوشی کے آسو بھانے لگا تمام محل میں خوشی کا دور دورہ ہو گیا ڈھول باجے بجنے لگے اور غریبوں محتاجوں کو خیرات دینے کے لیے خزانوں کے مو کھول دئیے گئے راجہ نے سپاہی کا بہت شکریہ دا کیا اور بولا اب مانگ کیا مانگتا ہے سپاہی گبرہ گیا کہ اب کیا کریں


کہ انام میں کچھ نہیں لے گا۔ ادھر اس کے مومے پانی بھر آیا کہ اس وقت تو مومانگی مراد ملتی ہے۔ آخر اس نے دل میں سوچا کہ روپے ہی کی تو ضرورت تھی جس کی وجہ سے وہ اتنے بڑے خطرے میں بے دھڑک کود پڑا اب اگر میں کچھ نہیں لوں گا تو کھاؤں گا کیا خاک آیندھا کیا ہوگا دیکھا جائے گا۔ اس وقت تو وعدہ تورنا ہی کچھ مناسب معلوم ہوتا ہے آخر اس نے راجہ سے کہا حضور میں کیا انام


راجہ نے انعام میں گاریاں روپے پیسے سے لڑوائ کر سپائی کے حوالے کر دیں اور بڑی عزت سے اس کو محل سے رکھست کر دیا۔ سپائی بار نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ درویش اس کے سامنے کھڑا تھا۔ سپائی اسے دیکھ کر کھاپ اٹھا اور دل میں سوچنے لگا دیکھیں اب یہ کیا حفدہتا ہے؟ وہ ڈرتا ڈراتا اس کے پاس آیا اور خاموچ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ درویش بولا میں نے تجھے منع کیا تھا کہ ایک پیسہ بھی نہ لینا۔


اور تو یہ گاریاں کی گاریاں لڑوای لے جا رہا ہے؟ سپاہی نے منص سے کہا بھائی میں نے تو بہت انکار کیا مگر راجہ نے دبردستی مجھے انام دے دیا پھر بلا میں کیا کر سکتا تھا درویش کو سپاہی پر بہت غصہ آیا مگر وہ اپنے غصے کو پی گیا اور بولا چھا میں یہ تیری خطابی ماف کرتا ہوں لیکن میں کہہ رہا ہوں کہ اب اگر تونے مردہ زندہ کرنے کی کوشش کی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا


سپاہی نے اب کانوں کو ہاتھ لگایا اور بولا مجھے اس کی کیا ضرورت پڑھی ہے کہ مال و دولت کے اس ڈھیر کو چھوڑ کر ہڑیاں اُبالتا پھر ہوں درویش بولا مگر حضرت یہ مال و دولت کدنے دنوں کی محمان ہے کل پھر وہی کورے کے کورے رہ چاؤ گے اچھا دیکھو میں تمہارے ہمیشہ کے آرام کی کوئی صورت بنا دیتا ہوں تمہارے بٹوے میں آج سے یہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ تم جس چیز کی خواہش


مگر دیکھو اب اگر تم نے وعدہ توڑا تو تمہاری جان کی خیر نہیں۔ سپاہی بولا سبحان اللہ اگر ایسی نعمت کسی کے پاس موجود ہو تو اس کا سر فرا ہے کہ روپیہ کمانے کو مارا مارا پھیرے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تمہارا کیسے شکریہ دعا کروں۔ دونوں دوست گلے مل کر رکھسد ہو گئے۔ سپاہی نے ایک گھر خرید کر اپنی تمام دولت اس میں لا رکھی اور پھر مزے اڑھانے لگا۔


سپاہی کے پاس مال و دورت اس قدر تھا کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میرے بٹوے میں کیسے خوبی ہے۔ آخر پہلے کی طرح اس کا تمام روپیاں خرچ ہو گیا اور وہ پھر ننگا بھوکا ہو کر رہ گیا۔ بٹوے میں چارانے کے پیسے تھے وہ کھانا کھانے کیلئے ایک سرائے میں جا دھمکا۔ کچھ سالن اور روٹی لے کر پیٹ بھرا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟ وہ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ناغ میں مرگوں کے کباب کی خوشبو آئی۔


تو بھٹیاری نے چولے پر دو مرگوں کے کباب چڑا رکھے تھے اور انھیں بھون رہی تھی۔ سپاہی کبابوں کی امدہ خشبہ سے بیتاب ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کسی طرح یہ کباب اڑھانے چاہئے مگر اس کے پاس تو کچھ بھی پیسہ نہ تھا، وہ کباب کیسے لیتا؟ اتنے میں اسے خیال آیا کہ درویش نے کہا تھا تم جو کچھ بھی چاہو تمہارے بٹوے میں موجود ہو جائے گا۔ اس نے سوچا اس بات کو بھی ازمان کر دیکھا جائ


وہ بھٹیاری کو پیسے دینے کے لیے سرائے سے باہر نکلا اور بولا خدا کرے وہ مرگ جو بھٹیاری بھون رہی ہے چولے پر سے اڑکر میرے بطوے میں آ جائے کہنے کی دیر تھی کہ بطوہ پھول گیا اور اس نے کھول کر دیکھا تو بھنا بھنایا مرگا بطوے میں موجود تھا اب تو سپاہی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ دل میں کہنے لگا میں بھی کتنا احمق ہوں دو دن سے پیسوں کی فکر میں گھلا پھر رہا تھا


اللہ تعالیٰ میرے یار کی عمر دراس کرے وہ تو مجھے ایسی نمت دے گیا کہ ساری دنیا کا باشا میں ہی ہوں سپاہی آگے چل کر سڑک کے کنارے ایک درد کی چھاؤں میں بیٹھ گیا اور مزے لے لے کر کباب کھانے شروع کر دئیے سپاہی نے ایک مرغا ہی کھایا تھا کہ دو بھلے آدمی ادھر سے گزرے مرغ کے کباب کو انہوں نے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا سپاہی نے تار لیا اور انہیں بلا کر بھولا


تمہارا دل اگر اس مرگے کھانے کو چاہتا ہے تو شوق سے لو میرا پیٹ ایک ہی کباب سے بھر گیا ہے ان دونوں مسافروں نے سپاہی کا شکریہ دا کیا اور مرگ کا کباب لے کر خوشی خوشی سرائے میں پہنچے کہ وہاں پر کچھ روٹی وغیرہ خرید کر اسے مزے سے کھائیں گے اتفاق کی بات جس وقت سپاہی نے مرگی کے کباب اڑائے تھے تو بھٹیاری کسی کام کیلئے چولے کے آگے سے اٹھ گئی تھی وہ جو واپس آ


میہ و میوی دونوں ہیران رہ گئے کہ کباب گئے تو گئے کہاں گئے مسافر ہمارے سامنے خالی ہاتھ رکست ہوئے تھے کوئی کتا بلی ہوتا تو بھی کچھ کھڑکا ہوتا اور اگر لے بھی جاتا تو ایک کباب لے جاتا دونوں کے دونوں کیسے غائب ہوئے اب یہ دونوں مسافر جو سرائے میں آئے تو بھٹیاری دیکھتی ہے کہ ایک بھنا بھنایا مرغا ان کے پاس تھا اس نے اپنے میہ سے کہا ذرا دیکھو تو ان مسافروں کے پاس ایک مرغ


اور وہ بھی تازہ پکا ہوا مجھے تو یہ اپنا ہی کباب دکھائی دیتا ہے پٹیارے نے آکر ان دونوں مسافروں کی گردن ناپی اور بولا بے ایمان چور دن دہارے ڈاکا مارتے ہو اور دیدہ دلیلی ریدو دیکھو کیسی بے تکلیفی سے میرا چوری کا مال میری ہی سرائی میں حضم کرنے آ گئے ہو بہت خوب اپنے ہاتھوں سے اس کے پیسے نکالو ورنہ پیٹ پیٹ کر بورتا بنا دوں گا ان دونوں نے بہ


کہ میا ہم کوئی چورو چکے نہیں ہیں ہمیں ایک سپاہی راستے میں ملا تھا اس نے یہ ہمیں کباب دیا ہے ہمیں کیا معلوم کہ اس نے یہ کباب خریدا تھا یا چرائیا تھا مگر بھٹیارہ کبن کی سنتا بولا اوے لچو میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والا مجھے پاغل سمجھا ہے وہ سپاہی تو میرے سامنے خالی ہاتھ رکست ہوا تھا بس اب پیسے نکالنے کی سوچو ان بیچاروں کے پاس اتنے پیسے کہاں تھے


کہ وہ مرگی کا دام ادا کر سکیں بٹیارے نے ان کو پیٹ پیٹ کر ادموہ کر دیا اور آخر سراح سے دھکے دے کر باہر نکال دیا سپائی نے ان بھلے آدمیوں کو کباب دے کر اپنی رالی پیٹ بھرا ہوا تھا بٹوے کی کرامات کا یقین ہو چکا تھا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا وہ لمبی لمبی ڈنگیں بھرتے ہوئے چلے جا رہا تھا اور دل میں کہہ رہا تھا کہ بٹوے کی بدولت روے پیسے اور خانے پینے کی فکر سے تو وہ ا


اب باقی کی تمام عمر بے فکری سے دیس دیس کے سفر کر کے گزاروں گا وہ چلے جا رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہے او جار جنگل میں ایک بہت وڑا شاندار کلا کھڑا تھا سپاہی نے دل میں سوچا یہ کسی بے کلے کو کیا سوجی کہ ورانے میں ایسا امدہ کلا بنا دیا وہ اور آگے بڑا تو اس نے دیکھا کہ قریب ایک ٹوٹی پھوٹی سرائے بھی موجود تھی سپاہی سرائے کی طرف چل دیا اور سرائے والے سے جا


میں ایک روز یہاں ٹھہرنا چاہتا ہوں میرے پاس کوئی مال و اصباب تو موجود نہیں ہے بس اکیلی جان ہوں کہیں بھی جگہ دوگے تو میں پڑھ کر رہلوں گا سرائی والا بولا میا یہاں تو کسی کمرے میں تل لکھنے کو بھی جگہ نہیں مسافروں کی وہ بھرمار ہے کہ خدا کی پناہ کہیں اور ٹھہرنے کا انتظام کرو سپائی بولا سامنے یہ اتنا بڑا قلع موجود ہے اور لگتا ہے خالی ہے کیوں نہ میں اس میں ٹھہر جاؤں


میاں اس قلعے کا نام نہ لو خدا کسی دشمن کو بھی ادھر نہ بھیجے کئی مسافر وہاں رات بسر کرنے گئے تھے مگر آج تک ہم نے کسی کو واپس نکلتے نہیں دیکھا سپاہی بولا اگر یہ بات ہے تو میں آج کی رات اسی میں بسر کروں گا سرائے والے نے بہت سمجھایا میاں کیوں اپنے زندگی کے پیچھے پڑے ہو پڑے بڑے دل گردے والے گئے تھے کہ ہم آگر بتائیں گے کہ قلعے میں کیا ہے اور کس نے مقابل

33:21
تو اس کو زندہ نہیں چھوڑیں گے مگر جب وہ اندر گئے تو پھر آج تک کسی کو نہ معلوم ہوا کہ ان کو اثمان کھا گیا یا زمین نکل گئی سپاہی بولا میہا تم کہے کو فکر کرتے ہو مجھ سے اگر کسی کا پالا بڑا تو میں اسے دیکھ لوں گا لاؤ اگر موجود ہو تو کچھ سالن روٹی دے دو پھر اللہ حافظ سرائی والے نے اسے بہت سمجھایا مگر سپاہی کہاں سنتا تھا ایک رومال میں روٹی اور سال


کلے میں داکل ہوا تو کلے کو ایسا سجایا گیا تھا کہ اس کی دیکھ کر آنکھیں کل گئیں اس نے ایک کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور پھر خوب کلے کی سہر کی تمام کمروں میں ایسا امدہ سامان موجود تھا گویا کمرے دلہن کی طرح سجے ہوئے تھے مگر نہ کوئی آدم نہ کوئی آدم ذات تھا جب سپائی گھوم گھوم کر تھک گیا تو آخر ایک مسئری پر پڑھ کر سو گیا آدھی رات کا وقت ہوگا کہ کمرے میں کھڑکا ہوا


سپاہی نے آنکھیں کھولی تو کیا دیکھتا ہے کہ آٹھ خوفناک دیو ایک دوسری کا ہاتھ پکڑ کر اس کی مسئری کے چاروں طرف ناچ رہے تھے اور آجتہ آجتہ اس کی مسئری کے قریب ہاتے جا رہے تھے سپاہی بولا ابھی نامہ کھلو دیکھتے نہیں کہ میں سورہا ہوں ناچنا ہے تو باہر آنگن میں جا کر ناچو یہاں کیوں ادھم مچا رکھی ہے اگر زیادہ ستایا تو جھوٹے مار کر سر گنجا کر دوں گا مگر دیو کس کی


اسی طرح ناشتے رہے اور مسئری کے قریب قریب آتے گئے سپاہی نے پھر کہا اب یہ کیا بہرے ہو سنائی نہیں دیتا میں کیا کہہ رہا ہوں یہاں سے دم دبا کر بھاگ جاؤ برنا زندہ نہیں چھوڑوں گا دیو نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہ کی ناچ کے ساتھ گھانا بھی شروع کر دیا اور وہ گل مچایا کہ تمام قلعہ سر پر اٹھا لیا اب تو میہ سپاہی غصے کے مارے اٹھکھڑے ہوئے


اور ایک کرسی اٹھا کر دیو کے سر پر دے ماری اور کہنے لگے لاتوں کے بھوٹ باتوں سے تھوڑا مانتے ہیں دیکھو اب میں تم اچھی طرح سیدھا کرتا ہوں میں تم سے نہیں ڈرنے والا میں نے تمام عمر فوج میں کاتی ہے اور لڑنے مرنے کا کام کیا ہے دیو کو کرسی لگی تو سب کے سب سپاہی پر پل پڑے سپاہی اکیلا اور وہ آٹھ مقابلہ ہو تو کیسے کوئی سپاہی کو ثبت رسید کرتا تھا


کوئی اس کے بال نوچ رہا تھا کوئی کپڑے پھار رہا تھا اور وہ ہستے جا رہے تھے اب تو غصے کے مارے سپاہی تھرٹرا اٹھا جیب سے بٹوہ نکال کر کہنے لگا تم پر خدا کی مار ہو تم سب کے سب اسی وقت میرے بٹوے میں آ جاؤ کہنے کی دیر تھی کہ سارے کے سارے دیو بٹوے میں کود پڑے اور بٹوہ پھول گیا سپاہی نے بٹوہ بند کر دیا اور مسئری پر لیٹ کر مزے سے سو گیا


صبح کے وقت سپاہی کلے سے نکلا اور سرائے میں پہنچا سرائے وانے نے سپاہی کو دیکھا تو ہیران رہ گیا اور اسے ساتھ لے کر کلے کے مالک کے پاس پہنچا سپاہی نے کلے کے مالک کو تمام آبیتی سنائی اور بولا اب شوک سے کلے میں چل کر رہیے اب کوئی دو آپ کو نہیں ستانے آئے گا کلے کے مالک کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اس نے سپاہی کو بہت سارا انعام و کرام دیا اور دو تین دن اس کی خوب مہمان نو


قلعے کے مالک نے اسے بتیرا سمجھایا کہ تم تمام عمر میرے پاس رہو میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے جو چاہو کھاؤ جو چاہو پیو مگر سپاہی نے اس کی ایک نامانی اور بولا کہیں بھی ٹھہرنے سے میری طبیت خراب ہو جاتی ہے مجھے کچھ آوارا گردی پسند ہے آخر سپاہی قلعے سے رکست ہوا ایک چکڑا لے کر اپنا بٹوہ اس پر لادا اور اس کو ہاکتا ہوا شہر کی طرف چل دیا


ایک لوہار کی دکان پر اس نے اپنی گاڑی روکی اور لوہار سے بولا میں اپنا بٹوہ تمہارے ہرن پر رکھتا ہوں اس پر چوٹے لگاؤ لوہار نے اس کی بات مانی اور سپاہی نے کئی مزدور لگاگر اپنا بٹوہ چکڑے سے اتارا اور لا کر ہرن پر رکھ دیا لوہار اتنے بڑے بٹوے کو دیکھ کر پریشان ہو گیا آخر اس نے اور لوہاروں کو بھی مدد کیلئے بلا لیا اور سب نے مل کر بٹوے پر ووٹ چوٹے لگانا شروع کی صبح


سارے لوہار ہوتوڑے برساتے رہے آخر شام کے وقت سپاہی نے بٹوہ کھولا تو دیکھا سات دیو تو مر چکے تھے مگر ایک ابھی بھی زندہ تھا بٹوہ کھولتے ہی وہ زناٹے کے ساتھ نکلا اور ایسا بھاگا کہ پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا سیدھا دوزک کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں جا کر پناہ لی اس کے بعد میا سپاہی نے بہت سفر کیا شہر شہر گاؤں گاؤں پھیرے اور تمام دن


کافی عرصے کے بعد سپائی بوڑا ہو گیا مگر اس کی موت آنے کا نام نہ لے رہی تھی بڑاپے کی وجہ سے سپائی بہت کمزور ہو گیا خالہڑیوں سے الگ تھی گال پچک گئے تھے آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا سپائی نے موت کا بہت انتظار کیا آخر جب بلکل نامید ہو گیا تو وہ تھک ہار کر ایک بہت پہنچے ہوئے درویش کے پاس گیا اور کہنے لگا میں سفر کرتے کرتے تھک گیا ہوں موت مچھے نہیں آتی


آپ مجھے آسمان کا راستہ بتا دیں میں خود ہی چل کر وہاں پہنچ جاؤں گا درویش نے جواب دیا کہ آسمان کے دو راستے ہیں ایک راستہ تو بہت مسئکہ ہے خوب کھلی چوڑی سڑک ہے اور دوسرا خطرناک ہے راستے میں پہاڑ آتے ہیں اور ان پر بہت چھوڑی سی پکڑنڈی ہے اس راستے پر سفر کرنے سے بہت تقلیف ہوگی پہلا راستہ دوزک کو جاتا ہے اور یہ دوسرا راستہ جنت کو تم کس پر س


سپاہی بولا میاں اب بڑاپے میں میں کسی مشکل راستے پر نہیں چل سکتا میں تو دوزک کے راستے پر ہی چھاؤں گا آسمان پر پہنچ کر دیکھا جائے گا درویش نے راستہ بتا دیا اور سپاہی چل پڑا چلتے چلتے ایک دروازے کے سامنے چاہ پہنچا یہ دوزک کا دروازہ تھا سپاہی نے دروازہ کھٹکٹایا تو چوکیدار نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا کہ کون آیا ہے یہ چوکید


جو بطوے سے نکل کر بھاگا تھا اس نے جو سپاہی کو دیکھا تو سر پر پاں رکھ کر اپنے سردار کے پاس بھاگ گیا اور کہنے لگا دروازے پر ایک سپاہی آیا ہے مگر اسے اندر نہ آنے دینا اس کے پاس ایک ایسا بطوے ہے کہ وہ تمام دوزک کو اس میں بند کر دے گا میں ایک دفعہ اس کے بطوے میں پھس گیا تھا بس میری قسمت یہ اچھی تھی جو میں صحیح سلامت اس کے بطوے میں سے نکل آیا میں نے تو اسی دن سے دنیا میں قسم کھالی تھی


دیو کی بات سن کر ان کا سردار خود کھڑکے پر آیا اور کہنے لگا ہم آپ کو اندر نہیں آنے دیں گے کسی اور طرف کا راستہ لیجیے سپاہی بولا اچھا اگر دوزک میں نہیں آنے دیتے تو مجھے جنت کا راستہ بتا دو دوزک کے سردار نے اسے راستہ بتا دیا اور سپاہی ہاپتا کھاپتا جنت کے دروازے پر جا پہنچا سپاہی کیا دیکھتا ہے کہ جنت کا دروقہ اس کا وہی پرانا دوست درویش تھا جس نے اس سے ک


تروش نے سپاہی کو دیکھا تو کہنے لگا فرمائیے ادھر آپ کہاں راستہ بھول پڑے؟ سپاہی بولا بے خدا کے لیے مجھے اندر آنے دو میں تو خود ادھر نہیں آیا تھا سیدھا دوزک کا ہی راستہ لیا تھا مگر وہاں بھی مجھے کسی نے گسنے نہ دیا اب تم ہی رحم کرو میں اپنے سب گناہوں سے توبہ کرتا ہوں تروش بولا نہیں صاحب یہ جگہ آپ جیسے جھوٹوں کے لیے نہیں ہے سپاہی رو پ


اور کہنے لگا اب خدا کے لئے میرے گناہ ماف کر دو میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے سپاہی نے بہت منت سماجت کی مگر درویش نہ مانا آخر سپاہی نے بٹوہ نکال کر درویش کو دیا اور کہنے لگا اچھا تو یہ لو اپنا یہ توفہ بھی رکھ لو اب میں اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا درویش نے بٹوہ لے لیا اور جنت میں ایک درت کی شاخ پر ٹانک دیا درویش کا بٹوہ ٹانکنا تھا کہ سپاہی بولا


میں چاہتا ہوں کہ میں خود اس بٹوے میں پہنچ جاؤں کہنے کی دیر تھی کہ سپاہی بٹوے میں جا پہنچا اب تو درویش بھی مجبور ہو گیا سپاہی کو بٹوے سے نکالا اپنے افسر سے اس کی شفارش کی اور بولا اس شخص میں ساری اچھی آتیں ہیں صرف یہ بات بری ہے کہ اسے جھوٹ بولنے کی عادت ہے مگر اب اس نے سچے دل سے توبہ کی ہے میرے خیال میں اب اسے جنت میں رہنے کی اجازت دی جائے افسر نے درویش کی شفارش س


اور سپاہی کو جنت میں رہنے کی اجازت دے دی 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow