شیشے کی شہزادی اور لکڑہارا کا بیٹا

شیشے کی شہزادی اور لکڑہارا کا بیٹا

Oct 30, 2024 - 19:49
 0  4
شیشے کی شہزادی اور لکڑہارا کا بیٹا
شیشے کی شہزادی اور لکڑہارا کا بیٹا


 اسلام علیکم پیارے دوستوں بہت عرصہ گزرہ ملک سیستان پر ایک نایت رہن دل اور نیک بادشاہ حکومت گیا کرتا تھا اس بادشاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت بیٹے سے نماز رکھا تھا جس کا نام شہزادہ خرم تھا بادشاہ نے شہزادہ خرم کو دینی و تدریسی تعلیم کے علاوہ پنون جنگی سے بھی روچناس کروا دیا تھا شہزادہ خرم بہت بہادر


وہ ہر مسیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا جب وہ جوان ہوا تو بادشاہ نے اس کی شادی ہمسائیہ ملک کی شہزادی رکھسانہ سے کر دی اور تخت و تاج شہزادہ خرم کے حوالے کر کے قد یادِ الہی میں بشگول ہو گیا شہزادہ خرم اور شہزادی رکھسانہ تعدل و الصاف سے ملک پر حکومت کرنے لگے شہزادی رکھسانہ اور شہزادے خرم کو شکار سے بھی بہت لگاؤ تھا وہ اکثر اپنا تخت اپنے وزیر کے حوال


دوردراس جنگلوں میں نکل جائے کرتے اور خوب شکار کھیلتے۔ ان کی عادت یہ تھی کہ یہ دونوں اپنے ساتھ زیادہ لوگوں کو نہیں لے جاتے تھے۔ صرف چار پانچ گلام ہوتے تھے جو ان کی خدمت پر مامور تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے، شہزادی اور شہزادہ دونوں شکار کی غرس سے ایک دوردراس کے ملک میں واقع جنگل کی جانب روانہ ہوئے۔ وہ اپنے ملازموں کے ہمرا ایک نخلستان سے گزر رہے تھے کہ اچانک اثمان پر ایک بہت بڑا


اور تیزی کے ساتھ شہزادی رکھسانہ پر جبٹا۔ اس سے قبل شہزادہ خرم اور شہزادی رکھسانہ کچھ سمجھتے۔ اس پرندے نے شہزادی رکھسانہ کو اپنے پنچوں میں دبوچا اور تیزی سے فضا میں بلند ہوتا چلا گیا۔ اس اچانک آئی آفث سے شہزادی بکلا گئی اور پرندے کے پنچوں میں بوری طرح چیکھنے لگی۔ شہزادہ خرم بھی یہ دیکھ کر گھرہ گیا۔ اس نے سوچا تیزی سے اس پرندے کے بیچھے گھوڑہ


لیکن اچانک اس کے مو سے ایک دل خراش چیکھ نکل گئی اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی کمر میں کسی نے گرم سلاح ختار دی ہو اس نے پلٹ کر دیکھا اس کے ساتھ آنے والے ملازم کیکا لگا رہے تھے اور اس کی پشت پر ایک تیر پیوس تھا آخری الفاظ اس سے یہ سنای دیئے شزادہ صاحب ہمیں حکم ملا تھا کہ جیسے ہی شزادہ صاحبہ کو کوئی حادثہ پیش آئے آپ کو فوراً قطر کر دیا جائے


یہ الفاظ اس کے ملاظموں میں سے ایک نے کہے تھے اور اس کے ساتھ ہی شہزاد خرم کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا اور وہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹ سے نیچے گر گیا کافی دیر بعد اسے ہوش آیا تو خود کو گھاس بوس کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی چھوپڑی میں پایا چھوپڑی میں پانی کے مٹکے اور سوا ایک چٹائے کے اور کچھ بھی موجود نہ تھا شہزادہ خرم کو اپنی کمر میں بینتہا تقلیف محسوس ہو رہی تھی اس نے اٹھنا چاہا


مگر درد کی شدت سے اس کے مو سے کراہہ نکل گئی وہ دوبارہ لیٹ گیا اور سوچنے لگا یہ کون سی جگہ ہے اور اسے یہاں کون لائیا اسی وقت جھوپڑی کے دروازے کے پاس ہلکا سا کھٹا ہوا شہزادے نے چوکر دیکھا ایک سار سکتر برس کی بڑیا جو شکل اور سورت سے انتائی خوفناک لگ رہی تھی وہ داخل ہوئی اس کا سارا چیرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا آنکھیں چھوٹی چھوٹی مگر خون عال


بڑیا شکل اور سورت سے چوڑے لگ رہی تھی اس نے ہاتھوں میں لکڑیوں کا بڑا سا گٹھا اٹھا رکھا تھا نا جانے کیوں شہزادے کو اس بڑیا سے بہت خوف مصنف ہونے لگا کون ہوں تم؟ شہزادے نے بڑیا کو دیکھتے ہوئے پوچھا جواب میں بڑیا نے ایک مکرو قیقہ لگایا اور بولی میں شیطان کی نانی ہوں تم مجھے نخلستان میں زخمی حالت میں پڑھے ہوئے ملے تھے میں کئی روز سے بھوکی ت


اب تیار ہو جاؤ میں تمہیں کھانے آئی ہوں واہ تمہارا خون اور تمہارا گوشت کس قدر لذید ہوگا مچھنو جوان کا خون بہت پسند ہے بڑیا کی بات سن کر شزادہ لرز اٹھا اس کا جی چاہا کہ فورا نہیں اٹھ کر ایک ہی جتکے سے اس منوس بڑیا کی گردن اس کے تن سے جدہ کر دی مگر وہ اپنے خیال کو عملی جامعہ نہ پہنا سکا کیونکہ ایک تو وہ خود زخمی تھا اور دوسرا اس کے پاس تلوار بھی موجود نہ تھی


شاید منوس بڑیا نے اس کی تلوار کہیں چھپا دی تھی بڑیا نے لکڑیوں کا گٹھا ایک طرف رکھا اور پاؤں گسیٹ دی ہوئی شہزادی کی جانی بڑھی شہزادہ فورا چکنہ ہو گیا اسے بڑیا کے آنکھوں سے مسفرت کی چمک دیکھ کر خوف آ رہا تھا بڑیا شہزادے کے قریب آئی اور اس نے آنکھیں بند کر کے کوئی منتر پڑنا شروع کر دیا شہزادہ بری طرح بکھلا گیا اس نے سوچا کہ اگر بڑیا نے جادو کر کے


تو وہ بڑی آسانی سے اسے کھا جائے گی۔ اس سے فورا ہی کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ بڑیا آنکھیں بند کر کے بڑی توجہ سے منتر بلوڑا رہی تھی۔ اب تو شہزادے سے رہا نہ گیا۔ وہ فورا کوہنیوں کے بل اٹھا۔ دردگی ایک شدید لہر اس کی رگوں میں سرائیت کر گئی۔ مگر وہ اس قدر آسانی سے اور خوفناک موت ہرگز کبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر ایک چٹکے سے اس


اور اسے زوردار جھٹکا دیا کہ بڑیا اپنے عمل سے باز آجائے اچانک جھٹکا لگنے سے بڑیا کے مو سے چیکھ نکل گئی اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں شہزادہ نے دیکھا اس کی آنکھیں انگارے کی معند سرخ ہو رہی تھی مگر ساتھ ہی بڑیا کا رنگ زرد ہو گیا آرے چھوڑو میرے بال چھوڑو تمہیں کس نے بتا دیا کہ میری ساری طاقت میرے بالوں میں ہے مجھے بے بس کرنے کا راز تمہیں کیسے معلوم


درد کی وجہ سے شہزادہ نے اپنے ہوت بھیچے ہوئے تھے۔ بھوڑیا کی بات سن کر اس نے اتمنان کا سانس لیا اور اس کے بال اور زیادہ مضبوطی سے بھیچ لئے۔ اب تو بھوڑیا بھی بھری طرح چیکھنے چلانے اور زور رونا لگی۔ کبھی وہ شہزادہ کو گسے سے گالیاں بکھنے لگتی اور کبھی اس کی منت سماجت کرنے لگتی۔ مگر شہزادہ خرم نے اس کی ایک نہ سنی کیونکہ وہ جانتا تھا اگر بھوڑیا کے بال اس کے ہاتھ سے نکل گئے


وہ بے بسی کی موت مارا جائے گا جب بڑیا نے دیکھا کہ شہزادہ اس کی ایک نہیں سن رہا تو وہ اسے لالج دینے لگی ارے شہزادے چھوڑ دو میرے بال دیکھو میں تمہیں دنیا کا سب سے امیر آدمی بنا دوں گی تمہیں بہت بڑے ملک کا بادشاہ بنا دوں گی میں تمہیں غلام بن چاؤں گی تم جو کہہوگے میں اسے پورا کروں گی تمہیں تمہیں خدا کا واسطہ میرے بال چھوڑ دو کیا تم مجھے اس درست سے رجات دل


کچھ لامیں سوچ کر شہزادہ نے اس سے پوچھا ہاں ہاں کیوں نہیں میں پل بھر میں تمہیں تنرس کر سکتی ہوں بڑیا نے جلدی سے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں چھوننے پر تیار ہوں مگر تم اپنے سب سے بڑے دوتا کی قسم کھاؤ کہ تم مجھے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچاؤگی اور میرا کہاں مانوگی شہزادہ کی بات سن کر بڑیا چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گئی مگر آخر اسے قسم کھانا ہی پڑی


اس کے لیجے اور آنکھوں میں سچائی گی جلک دیکھ کر شہزادہ نے اس کے بال چور دیئے بڑیا تیزی سے اچل کر بیچھے اٹ گئی اور شہزادہ خرم کی جانی محسرت بنی نگاؤں سے دیکھتے ہوئے بولی تاش میں نے قسم نہ کھائی ہوتی تو تمہارا گوشت اور خونت اتمناں سے بیڑھ کر کھاتی بیرحال اب میں قسم ہی کھا چکی ہوں تو تم آکھیں بن کر لو اور سیدھے لیڈ جاؤں میں تمہیں ابھی ٹھیک کر دیتی ہوں لیکن خبر د


اپنی آنکھیں ہر قسمت کھولنا ورنہ نتیجے کہ تم خود ہی زمیدار ہو گئے بوڑیا نے تنبی کی اور شہزادہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اسی وقت اسے ایسا لگا جیسے اس کے زخم پر ہزارہ چوٹیا رینگ رہی ہو اور اس کا گوشت نوچ رہی ہو شہزادہ نے جلدی سے آنکھیں اور اوٹ مضبوطی سے بھیچ لئے اسے چن لمحوں تک برداش کرنا پڑا پھر آجسا آجسا اس کا درد کم ہوتے ہوتے


اب آنکھیں کھولو نوجوان اسے بڑیا کے آواز سنای دی اور شہزادہ نے آنکھیں کھول دی یہ دیکھ کر وہ خوشی سے اچھل پڑا کہ نہ صرف اس کا درد ختم ہو چکا تھا بلکہ اس کے زخم بھی حیرت انگیز طور پر مدمل ہو گیا تھا شہزادہ نے بڑیا چڑیل کا بہت بہت شکریہ دا کیا پھر اسے اپنی بیوی شہزادی کا خیال آ گیا اس نے بڑیا سے اسی بارے میں سوال کیا تو بڑیا نے آنکھیں بند


کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں تو وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟ تم پریشان کیوں ہو گئی؟ شہزادے رخصانہ تو ٹھیک ہے نا؟ شہزادے نے اسے پریشان دیکھ کر بیچینے سے پوچھا نہیں شہزادے خیریت نہیں ہے دراصل بات یہ ہے کہ تم جس وزیر پر اعتماد کرتے ہو اصل میں وہ اگادار اور خودگرز انسان ہے وہ کافی عرصے سے ملکہ باشا بننے کا خواب دیکھ رہا تھا


مگر تمہارے باب کے آگے اس کی ایک نہ چلی چنانچہ وہ وقت کا انتظار کرتا رہا اسی اثنہ میں اس کا ایک آدمی دوست بن گیا جو ایک بہت بڑا جادوگر تھا وزیر نے جادوگر کو ساری حقیقت بتائی تو اس نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ وزیر کی ضرور مدد کرے گا اس جادوگر جس کا نام کرم آچو ہے اسے تمہاری بیوی بہت پسند آئی اس لئے اس نے وزیر سے کہا وہ تمہاری بیوی سے شادی کرے گا اور تمہیں ختم کر دے


وزیر نے اس کی بات مان لی اور اس دن تم شکار کی گرس سے لکلے تو مکار وزیر نے اپنے آدمی تمہارے ساتھ بھیج دیئے اور حکم دیا کہ جیسے ہی شہزادی کے ساتھ کوئی حاکسہ بیش آئے یا وہ مر جائے یا کہیں گم ہو جائے تو تمہیں فورا تیر مار کر قتل کر دیا جائے اور ہوا بھی ایسے ہی ہر آستے میں جادوگر نے ایک بہت بڑے پرندے کا روپ ڈھارا اور شہزادی کو اٹھا کر لے گیا


اور وزیر کے ساتھی نے تمہیں تیر مار دیا بڑیا کی بات سنکر شہزادہ بولا اچھا تو یہ ساری کارستانی وزیر کی ہے شہزادہ نے نفرہ سے ہوت بھیچ لئے اس کا چیرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگا میں اسے اس غداری کی ایسی سزا دوں گا کہ اس کی روح تک کھانپ ہوتے گی فلحال میں پہلے سدام راج جادو کر سے نمٹ لوں جس کی قید میں میری بیوی ہے پہلے میں اسے چھڑوانا چاہتا ہوں کیا تم می


صرف اتنا بتا دو وہ بدبخت رہتا کہاں ہے اور اس نے شہزادی کو کہاں رکھا ہوا ہے؟ شہزادے کی بات سن کر بڑیا نے پھر آنکھیں مڑھلیں اور تھوڑی دیر بعد کر آنکھیں کھول کر کہا شہزادے جادوگر چین کے شمال میں موجود نیلی پہانیوں کے غار میں رہتا ہے اس نے تمہاری بیوی کو شیشے کے بھٹ میں تبدیل کر کے اسے غار میں رکھا ہوا ہے اور شہزادی اصلی حالت میں صرف اسی صورت میں آسکتی ہے


جب تک اس کے بھوط پر اس جادوگر کا خون نہ ڈالا جائے اور جادوگر کو مارنا اتنا آسان نہیں وہ ایک بہت بڑا جادوگر ہے وہ ایک ہی بھوک مار کر تمہیں جلا کر راک کر سکتا ہے میرا مشورہ مانو تو اس کے مقابلے سے باز رہو اور اپنی شہزادی کو بھول جاؤ بڑیا نے مشورہ دیتے ہوئے کہا اور غصے کی شدت سے شہزادی کا رنگ سرخ ہو گیا میں اتنا بے گرک نہیں ہوں بڑیا


میں ہر صورت میں اس جادوگر کو ختم کروں گا اور اس کی کیسے میں شہزادی کو چھڑا لاؤں گا تم میری مدد نہیں کر سکتی تو مد کرو ابھی میرے بازوں میں اتنا دم ہے کہ میں اس جیسے کئی جادوگروں کا مقابلہ کر سکتا ہوں شہزادے نے غصہ سے کہا اور بڑیا کے چیرے پر مسکرات پھیل گئی تم اس جادوگر کے مقابلے کی قابلیت رکھتے ہو یہ لو میرے سر کے بال اسے اپنے جیب میں رکھ لو کسی قسم کا کوئی جادو تم پر


اور اگر کبھی میری ضرورت محسوس ہو تو انہیں دھوپ دکھا دینا میں تمہاری مدد کو آچاؤں گی۔ بڑیا نے اپنے چند بال نوچ کر شہزادے کو دے دئیے اور بولی بار والے درھت کے ساتھ ایک آلانسر کا گوڑا بندہ ہوا ہے۔ اس پر بیڑھ کر نیلی پہاڑیوں تک چلے جاؤ گوڑا تمہیں جادوگر کے غار تک پہنچا دے گا اور یہ لو تمہاری تلوار۔ بڑیا نے چٹائے کے نیچے سے تلوار نکال کر شہزادے کو دے دی۔


شہزادہ نے اس کا شکریہ دھا کیا اور جوپڑی سے باہر آ گیا واقعی باہر ایک درھت کے ساتھ ایک اعلانسل کا ربی گھوڑا بندہ ہوا تھا شہزادہ نے گھوڑے کو کھولا اور اس پر بیٹھ گیا اور ایک جانی بھاگنے لگا اس کی رفتار تیز سے تیز ہوتی چلی گئی گھوڑا تیز رفتاری سے دور رہا تھا دو دن اور دو راتیں مسلسل سفر کرنے کے بعد آخرکار شہزادہ اپنی منزل کے قریب پہنچ گیا د


اسے نیلی پہاڑیوں میں موجود ایک بہت بڑا غار کا دہانہ دکھائی دی گیا۔ وہ گھوڑے کو آجتہ آجتہ غار کے قریب لے آیا اور گھوڑے سے اتر گیا۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ گھوڑا اسے منزل پر پوچانے کے بعد واپس بڑیا کے پاس چلا گیا ہے۔ وہ غار کے دہانے کی جانی بڑھنے لگا۔ اسی وقت اس نے غار سے سینکرو خوفناک بلائیں نکل کر اپنی جانی باتی دکھائی دیں۔ بلائیں بے ہت خوفناک تھیں۔

13:25
اور دوسرے ہتھیار بھی موجود تھے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے شہزادے کے قریب آ کر اس پر پل پڑھی شہزادہ بری طرح گھبرا گیا مگر یہ دیکھ کر اس نے اطمنان کا سنس لیا کہ جو بلا اس پر کسی ہتھیار سے وار کرتی ایک شولہ سا چمک تھا اور وہ بلا فورا جل کر بھثم ہو جاتی شہزادہ سمجھ گیا یہ سب کچھ بڑیا کے دیوے بالوں کی بدولت ہو رہا تھا پھر شہزادہ نے میان سے اپنی طلوار نکال لی


اور پورتی سے بلاؤں پر وار کرنے لگا بلاؤں کٹ کر کر گرنے لگیں کچھ دیر میں میدان صاف ہو گیا پھر وہ غار کی جانی بڑا مگر ٹھٹک کر رک گیا کیونکہ جادوگر غار کے بار کھڑا تھا شہزادہ تلوار ہاتھ میں لیاراتے ہوئے بڑی پورتی سے پنٹرے بدل کر اس پر وار کرنے لگا آخرکار شہزادہ نے جادوگر کا سر تن سے جدہ کر دیا اور اس کا خون ایک بوٹل میں بھر لیا


پھر غار کے اندر داخل ہو کر شیشے کے بُت پر ڈال دیا تو وہ شیشے کا مجسمہ اپنے اصلی شکل میں آ گیا شہزادہ شہزادی کو بٹھا کر اپنے گھوڑے پر اپنے ملک پہنچایا اور غدار وزیر کو قتل کر کے بڑے مزے سے زندگی گزارنے لگا پیارے دوستو گلچراغ ایک لکھا ہارے کا بیٹا تھا وہ بہت گریب گھرانے میں پیدا ہوا گھر میں صرف تین افراد تھے گلچراغ اس کا باپ اور ما


گلچراغ بچپنی سے بہت خوبصورت تھا پاس پنوز کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیدہ، تیرا بیٹا تو گدڑی میں لال ہے غریر کے گھر اتنا خوبصورت بیٹا پیدا ہو جانا ان سب کے لیے بڑی حیرت کی بات تھی لیکن گلچراغ بچپنی سے اچھی عادتوں کا مالک تھا وہ باپ کے ساتھ جنگل میں بھی چلا جاتا تھا حالانکہ ابھی وہ بہت چھوٹا تھا لیکن جس طرح بھی ہو سکتا تھا وہ اپنے باپ کا ہاک ب


درکتوں سے لکڑیاں کارتا تھا اور گلچراغ جنگل میں بکھریویں چھوٹی چھوٹی لکڑیاں تلاش کر کے ان کا چھوٹا سا گٹھڑ بناتا تھا اور باپ کے ساتھ ہی شام کو گھر واپس آ جاتا۔ چھوٹی چھوٹی لکڑیاں گھر میں چلانے کی کام آتی تھی اور بڑی لکڑیاں باپ بستی میں بیچ کر گھر کا خرچہ چلاتا تھا۔ اکثر گلچراغ کے ماباپ جب اکیلے بیٹھتے تو اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔ ماں کہت


بہتو شکر ہے خدا کا کہ اس نے کوئی بیٹی نہیں دی ورنہ اس کی شادی بیا کا مسئلہ اٹا ہم تو اس کے لیے کچھ بھی نہ کر پاتے گلچراگ کا باپ ٹھومڑی سانس لے کر خاموش ہو جاتا تھا پھر اس وقت گلچراگ کی عمر تقریباً 8 سال تھی جب ایک دن وہ جنگل میں لکڑیاں جمع کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک بوڑے فقیر کو دیکھا جو لڑک ہڑاتا ہوا اس طرف آ رہا تھا گلچراگ کے باپ نے کہا ارے


یہ فکیر تو بھیمار لگتا ہے دیکھو تو کیسے لڑکڑا کر چل رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ گر جائے آؤ انہیں زیادہ دیکھیں اور اس کی مدد کریں دونوں باپ بیٹے تیزی سے آگے بڑھ کر اس فکیر کے پاس پہنچ گئے گلچراک کے باپ نے گرتے ہوئے فکیر کو ہاتھوں میں ٹھاما اور اسے گرنے سے بچا لیا گلچراک بھی ساتھ تھا گلچراک کے باپ نے پوچھا بابا جی آپ بھیمار ہیں


جواب میں فکیر نے اسے عجیب سی نگاؤں سے دیکھا اور بولا نہیں بیٹا میں بھیمار نہیں ہوں بلکہ تین دن سے بھوکا ہوں اور بھوک کی وجہ سے اب مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا ارے ارے آئیے بابا جی زرا سے ہمارے پاس ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے دونوں باپ بیٹا فکیر کو سہارہ دے کر اس جگہ لے گئے جہاں ان کا کھانا بغیرہ رکھا ہوا تھا گلچراک کا باپ


اپنے اور بیٹے کیلئے روزانہ صبح کو روٹیاں بنوائ کر لے آتا تھا۔ تھوڑا بہن سالن، گوڑی یا چینی وغیرہ ساتھ لاتے تھے اور اسے دونوں باپ بیٹے مل کر کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ بھوکے فقیر کو زمین پر بٹھا کر اسے کھانا دے دیا گیا۔ فقیر اتنا بھوکا تھا کہ زرا سی دیر میں دونوں باپ بیٹے کا کھانا چٹکر گیا اور درد کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ بابا جی آپ آ


ٹھیک ہے بھٹا جاؤ اپنا کام کرو اور دونوں باپ بھٹا ایک بار پھر لکڑیاں وغیرہ چلنے میں مسروف ہو گئے وہ خاموشی سے اپنا کام کر رہے تھے تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے فقیر کو اٹھتے ہوئے دیکھا اب وہ ٹھیک نظر آ رہا تھا وہ خود ہی آجتا آجتا چلتا وہ ان کے پاس پہنچا اس نے محبت سے ان دونوں کو دیکھا اور بولا بھٹا نہ میں کوئی درویش ہوں نہ کوئی عالمیہ ولی کہ تمہارے بارے


لیکن ایک بات کہوں تجھ سے بیٹا اس بچے کا نام کیا ہے؟ کل چراغ بالکل ٹھیک نام رکھا تم نے یہ چراغ ہی کی طرح روشن ہے اور پول کی طرح نازک اور شغفتہ ہے بیٹے میں اس کے معتھے پر جو چمک دیکھ رہا ہوں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ آخر ایک دن اس کی تقدیر کا ستارہ ایسا کھلے گا کہ دیکھنے والے دیکھیں گے یہ بہت بڑا آدمی بن جائے گا اور جو کوئی بھی کسی ضرورت مند


اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہوتا اور اس کی مدد ضرور کرتا ہے تم دونوں بھی ایک دن آخرکار ایش و شرط کی منزلیں تھی کرو گے اور بہت بلندی پر بہنچو گے شکریہ بابا آپ اٹھ کیوں گئے آپ ہمارے ساتھ چلیں ہم آپ کو اپنے گھر میں رکھ لیں گے اللہ کے فضل و کرم سے جو کچھ بھی ہم کھاتے بھیتے ہیں اس میں سے تھوڑا سا ایسا آپ کو بھی اسانی سے مل سکتا ہے فقیر نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولا


نہیں بھٹے بس ٹھیک ہے یہ کہہ کر فکیر چلا گیا دونوں بات بھٹے بھوکے کام کرتے رہے انہیں ذرا بھی افسوس نہیں تھا کہ انہوں نے اپنا کھانا بوڑے فکیر کو کھلا دیا بلکہ اس بات پر دونوں بہت سادہ خوش تھے کہ انہوں نے کسی کی مدد کی شام کو وہ عادت کے مطابق لکڑیاں وغیرہ لے کر گھر پہنچ گئے اور انہیں گھر آنے کے بعد ہی کھانا کھایا کوئی خاص بات نہیں تھی کسی کی مدد کر دینا


جس کا ڈھول پیٹا جاتا البتہ رات کو گلچراک کے باپ نے اپنی بیوی کو فقیر کے بارے میں تفصیل بتائی خاص طور سے فقیر نے گلچراک کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ گلچراک کے باپ نے اپنی بیوی کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی اور بولی اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا اللہ جس کی مدد کرنا چاہتا ہے ضرور کرتا ہے اور پھر تم دیکھو میرا بیٹا کتنا خوبصورت ہے بچپن ہی سے سب کے سب یہی کہ


کہ وہ شہزادہ ہے اور تم دیکھ لینا شہزادے کو ایک دن باشاہت مل ہی جائے گی۔ گلچراغ کی ماہ حس دیتی تھی اور کہتی تھی خدا کرے ایسا ہی ہو۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا گلچراغ واقعی ہی لمبا چوڑا اور خوبصورت جوان نکلا۔ بستی کے سارے لوگ اسے دیکھ کر بورے لکڑ ہارے کو دواعی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تیری تقدیر بہت اچھی ہے کہ خدا نے تجھے ایسا خوبصورت اور ہونیار بیٹا دیا۔


گلچراگ اپنے باپ کو ساتھ ضرور لے جاتا تھا لیکن اب وہ اپنے باپ کو کوئی کام کرنے نہیں دیتا تھا کیونکہ لکڑ ہارا بھورا ہو گیا تھا اور گلچراگ کہتا تھا بابا جی آپ نے مہنت مزدوری کر کے مجھے جوان کر دیا اگر اب بھی آپ مہنت مزدوری کرتے رہے تو لانت ہے میری جوانی پر میں جوان ہو کر کیا کروں گا ارے نہیں بیٹا انسان کے ہاتھ پاؤں چپ تک چلتے رہتے ہیں وہ اچھا رہتا ہے


میں تو تیرے ساتھ آ کر بڑی خوشی محسوس کرتا ہوں اب جب تُم مجھے انگلی پکڑ کر یہاں تک ساتھ لاتا ہے تو مجھے تیرا بچپن یاد آتا ہے اس وقت میں تُجھے انگلی پکڑ کر لایا کرتا تھا بیٹا والدین اسی لئے اولاد کی عرض کرتے ہیں اس کی پرورش کرتے ہیں کہ ان کا بڑاپے کا سہارہ ہوں اور خدا نے تجھے میرا بڑا اچھا سہارہ بنایا ہے یہ تو میرا فرض ہے بابا بیرحال


باب بیٹے میں محبت کی باتیں ہوتی رہتی تھی ایک دن گلچراگ بازار سے گزر رہا تھا بازار کے بڑے چوک پر کچھ آوارہ لڑکی بیٹھے ہوئے تھے یہ لڑکے ہمیشہ یہاں نظر آتے تھے ان میں سے کچھ کے ساتھ گلچراگ کی سلام دعا بھی تھی اس وقت بھی گلچراگ وہاں سے گزر رہا تھا تو ایک لڑکی نے اسے آواز دی لی ارے بھائی گلچراگ اب تو ہماری طرف سے مو پھیر کر نکل جاتے ہو کبھی ک


نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں میں کام سے جا رہا تھا تم نے بلا لیا تو تمہارے پاس آ گیا یار تم اتنی مینت کیوں کرتے ہو تمہارا باپ لکڑ ہارا ہے ہمارے ساتھ بیٹھا کرو دیکھو کیسی ایش کرتے ہیں ہم لوگ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا باپ جو کچھ بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ اسے اس کا نام لو میں نے تمہارے بارے میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی


ہم بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کہہ رہے ہم بس کہہ رہے تھے کہ کبھی کبھی ہمارے پاس بھی آجائے کرو اسی وقت ایک آواز ان کے کانوں سے ٹگرائی تقدیر کا حال معلوم کر لو آنے والے وقت کے بارے میں معلوم کر لو لڑکے اس کی طرف متوجہ ہو گئے یہ ایک درمیانی عمر کا دبلہ پتلا سا آدمی تھا جو بگل میں ایک بستہ سا دبائے یہ آوازیں لگاتا چلا جا رہا تھا ایک لڑکے نے ہسکر کہا


چل بھائی، ذرا ہم اپنی تقدیر کا حال معلوم کر لیں۔ اس کے بعد اس لئے شخص کو آواز دی اور وہ آسطہ آسطہ چلتا ہوا ان کے قریب آ گیا۔ تقدیر کا حال بتاؤ گے بابا؟ جی بابو جی، میں تقدیر کا حال بتاتا ہوں۔ تمہیں سب کی تقدیر کا حال کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟ بس میرا علم مجھے بتا دیتا ہے۔ آپ میں سے کون اپنے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہے؟ نہیں بابا، ہم تمہیں خاص سبک دینا چاہتے ہیں۔ سبک، کیس


یہ بات کرتے ہی ایک لڑکے نے اُس شخص کا گریبان بکڑ لیا پھر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور پھر سارے کے سارے اس آدمی کو مارنے لگے ارے ارے بھائی میں نے تمہارا کیا کسور کیا ہے کیوں مار رہے ہو مجھے گوچراغ اکدم غصے میں آ گیا اور بولا ہر جاؤ پیچھے سب لوگ یار ذرا تم دیکھو اس کو ہماری تقدیر کا حال بتانے چلا ہے اور اسے اپنی تقدیر کا حال معلوم نہیں یہ نہیں معلوم تھا


کہ ہم لوگ اسے بلایں گے اور بلا کر ماریں گے تو پھر یہ ہماری تقدیر کا آل کیسے بتا سکتا ہے تم چھوڑو اسے اور پیچھے ہٹ جاؤ کل چراغ نے انہیں کہا کل چراغ تم ہم سے جگڑا مول لے رہے ہو میں کہتا ہوں چھوڑو اسے ورنہ میں تم میں سے ایک ایک کی خبر لوں گا تو لو ذرا خبر سب لڑکے لڑنے ملنے پر آمادہ نظر آنے لگے نجومی بولا نہیں بھائی تمہاری محربانی تم نے بجھے بچ


خدا تمہیں اس کا سلا دے گا۔ گلچراغ کے ان دوستوں نے اسے خونی نگاؤں سے دیکھتے ہوئے کہا بھائی گلچراغ، تم نے ہم سے دشمنی مول لے لی ہے جو کچھ ہم تیرے ساتھ کریں گے وہ تمہیں سوچ بھی نہیں سکتا میں معافی چاہتا ہوں تم سے میں نے تم سے کوئی دشمنی مول نہیں لی پر اس بوڑے بابوں کو اس طرح مارنا اچھی بات نہیں تھی بس چل اپنا کام کر گلچراغ اس آدمی کو لے کر چل پڑا اس بچارے کو کافی چوٹ


گول چراگ نے اس سے افسوس زدہ لہچے میں کہا مجھے افسوس ہے بابا یہ کچھ پیسے ہیں میرے پاس آپ رکھ لی جیئے آپ کو ضرورت ہوگی تیری محربانی بیٹا سج بات یہ ہے کہ میں بہت غریب آدمی ہوں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے آتا جاتا مجھے بھی کچھ نہیں ہے بس الٹی سیدھی باتے لوگوں کو بتا کر تھوڑے بہت پیسے مجھے مل جاتے ہیں جس سے میں اپنے بچوں کا خرچ چلاتا ہوں اللہ تعالی آپ کی مد


میں خود بھی غریب آدمی ہوں بس یہ پیسے رکھ لیں۔ گلچراغ نے جتنے پیسے اس کے پاس تھے اس آدمی کو دے دیئے اور وہ دعائے دیتا ہوا چلا گیا۔ گلچراغ کی ساری زندگی اسی طرح کے باگیاں سے بھری ہوئی تھی۔ چہاں بھی ہو جس طرح بھی ہو سکتا تھا وہ دوسروں کی مدد کیا کرتا تھا اور اس کے دل میں سے لے کا کوئی لالچ نہیں ہوتا تھا۔ جس راستے سے گلچراغ اور اس کا باپ جنگل میں جاتے تھے وہ کبرستان سے ہو کر


اور جب بھی وہ کبرستان سے گزرتے فاتحہ پڑھ کر جاتے تھے اس دن بھی گل چراک ایک کبر کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے کبر سے ہلکی ہلکی آوازیں اُبرتی بھی سنی کیا ہوا؟ اس کے بھاپ نے پوچھا بابا جی اس کبر سے آوازیں آ رہے ہیں آوازیں؟ کیسی آوازیں؟ بھاپ نے کبر سے کان لگائے تو اندر سے آواز آئی بچالو مجھے بچالو تمہیں خدا کا وستہ مجھے بچالو


باب بیٹھا ایک دوسری کی شگل دیکھنے لگے یہ آواز گلچراگ نے بھی سنی تھی اب کیا کریں بابا کبر کھو دو گلچراگ کے باپ نے کہا کیا واقعی ہاں ہاں بیٹھا کبر کھو دو گلچراگ کے باپ نے کہا اور دونوں باب بیٹھا مل کر اس کبر کی خدائی کرنے لگے تھوڑی دیر تک وہ خدائی کرتے رہے اس کے بعد پتھر کی سلے ہٹائی تو نیچے ایک انتہائی خوبصورت لڑکی کو لیٹھے ہوئے دیک


وہ بہت اعلیٰ درجے کے لباس میں ملبوس تھی اس کے بال سنیرے تھے اور وہ بہت ہی عسیل نظر آ رہی تھی ارے یہ تو زندہ ہے گلچراک کے باپ نے کہا ہاں بابا اس کی سانسے چل رہی ہیں غالبا یہ ہمیں مدد کے لیے پکار رہی تھی چلو نکالو اسے اس دن دونوں بار بیٹے نے جنگل سے لکلیاں کھاتنے کا ارادہ ترک کر دیا اور نیم بھی ہوش لڑکی کو اٹھا کر اپنے گھر لے آئے گلچراک کی ماں نے


جس پر مٹی لگی ہوئی تھی اور وہ بالکل حسین شہزادی جیسے نکل آئی تھوڑی دیر کے بعد لڑکی کی حالت بہتر ہو گئی بیٹی تم کون ہو؟ لڑکی بولی میں منک روشان کی شہزادی ہوں شہزادی؟ ہاں شہزادی میرا نام گلنار ہے میرے باپ کو مجھ سے زیادہ محبت تھی لیکن میری ماں مر چکی تھی میرے باپ نے دوسری شادی کر لی


اور میری سوتیلی ما مجھ سے بری طرح جھلنے لگی وہ طرح طرح سے میرے خلاف سازشیں کرتی تھی جبکہ میرا باپ مجھے بہت زیادہ چاہتا تھا پھر ایک دن جب میں سہر کے لیے نگلی تو میری سوتیلی ما نے اپنے آدمی میرے پیچھے لگا دئیے انہوں نے مجھے اگوا کیا اور میری گردن دبا دی پھر یہ سمجھ کر کہ میں مر چکی ہوں وہ مجھے یہاں کبرستان میں دفن کر گئے میں نہیں جانتی تھی


کہ میں کبر کے اندر کس طرح زندہ رہی لیکن میں زندہ تھی اور جب مجھے ہوش آیا تو میں نے چیکھنا چلانا شروع کر دیا اور آپ لوگوں نے میری جان بچالی اس نے گلچراک ادھر دیکھا اور یوں لگا جیسے گلچراک اسے پہلی ہی نظر میں پسند آ گیا ہو وہ گردن جگا کر خاموش ہوئی تو گلچراک کے باپ نے کہا بیٹا گلچراک تم ملک روشان چاہو اور جس طرح بھی ہو سکے شہزادی کے باپ سے ملاقات کرو


ٹھیک ہے بابا میں تیاری کرتا ہوں آپ ذرا گھر کا خیال رکھیں فکر مد کرو بھٹا گل چراغ ملک روشام کی طرف چل پڑا ادھر روشام میں قیامت مچیز ہوئی تھی شہزادی گلنار کا باپ بھیستر سے جا لگا تھا اسے بیٹی کی موت کی تلا دے دئی گئی تھی اور یہ بتا دیا گیا تھا کہ اسے کوئی درندہ اٹھا کر لے گیا ہے گل چراغ کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح روشام کی بادشاں سے ملے پھر


اور جڑی بھٹیاں لے کر وزیر کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ وہ بازشاہ کا علاج کرنا چاہتا ہے وزیر نے اس سے کہا کہ بازشاہ کا علاج اس کی بیٹی کی تراش میں ہے گلچراگ بولا کہ میں بازشاہ کا علاج کر کے اسے ٹھیک کر دوں گا وزیر بہت وفادار تھا وہ گلچراگ کو بازشاہ کے پاس لے گیا تب گلچراگ نے بازشاہ کے کان میں پوری کہانی دھورا دی اور بازشاہ جو کئی دن سے بستر پر بڑا ہوا تھا اٹھ کر بیٹھ گیا


کیا تم سچ کہتے ہو نو جوان جی بادشاہ حضور شزادی گلنار زندہ سلامت میرے گھر پر موجود ہیں آپ اپنے سپائیوں کو میرے ساتھ بھیجے میں خود چلتا ہوں تمارے ساتھ بادشاہ نے کہا وزیر کو تیاریاں کرنے کا حکم دیا سب ہیران تھے کہ یہ کیسا حقیم ہے کہ اس نے ایک لمحے میں بادشاہ کو کھڑا کر دیا بادشاہ نے بقاعدہ اپنے آدمی تیار کیے اور اس کے بعد وہ منزلیں تیقرتا ہوا


آخرکار گلچراک کے گھر پہنچ گیا وہاں اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا بیٹی نے باپ کو پورا باکہ سنایا تو باپ نے بیٹی کو گلے لکا ریا اور پھر گلچراک کی طرف حک کر کے بولا بیٹے تم میرے ساتھ چلو میں نے اپنا فرص پورا کر دیا جناب آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں اسی میں میری خوشی ہے بادشاہ اپنی بیٹی کو لے کر روشام چلا گیا سب سے پہلے اس نے اپنی دوسری بیوی کو گرفتار کر آ کر قیج


اُدھر شہزادی گلنار ہر وقت گل چراک کو یاد کرتی رہتی تھی۔ آخر کاریس نے اپنے باپ سے کہہ دیا کہ وہ گل چراک سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ باپ تو خوشی سے اس بات کیلئے پہلے سے ہی تیار تھا۔ سوچ رہا تھا کہ پہلے ذرا یہاں کے حالات سے نمٹ لے اس کے بعد وہاں جا کر اس نوجوان کو گلے لگا لے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ گل چراک کے گھر پہنچا اور اس کے باپ سے بات چیت کر کے کہا۔


کہ وہ اپنی بھٹی کی شادی گلچراگ سے کرنا چاہتا ہے۔ گلچراگ کا باپ تو خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ ایسی دھوندھام سے شادی ہوئی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئی۔ اس طرح گلچراگ کو ملک و شام کا بازشاہ بننے کا موقع مل گیا۔ شہزادی اس سے بہت محبت کرتی تھی اور کہتی تھی کہ گلچراگ تم نے میری جان بچائی ہے۔ اب میری زندگی تمہارے حوالے ہے۔ آخرکار گلچراگ نے اپنی بستی کو بہت شاندار ب


اور باشا سے درخواست کی کہ وہ حکومت کرتا رہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہ ہی رہی تھا اور خوشال بستی گولچراہ کو دعائیں دیتی رہی کہ اس کی وجہ سے بستی کی تقدیر بدل گئی تھی 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow