میری باری بھابھی ایک جنزادی اللہ ہر گھر میں ایسی بھابھی ہو

میری باری بھابھی ایک جنزادی اللہ ہر گھر میں ایسی بھابھی ہو

Nov 1, 2024 - 13:40
 0  8
میری باری بھابھی ایک جنزادی اللہ ہر گھر میں ایسی بھابھی ہو
میری باری بھابھی ایک جنزادی اللہ ہر گھر میں ایسی بھابھی ہو


ارے سکلین، اس سے آگے مچ جاؤ، آگے کھنا جنگل ہے اس سے آگے خطرناک جانور بھی ہیں بس یہیں پر ہمہیں ہیرن مل سکتے اب اگر یہاں سے نہیں ملا تو اس سے آگے جانا بہت خطرناک ہے یہ میرے دوست سلیم کی آواز تھا اور وہ مسلسل مجھے آگے بڑھنے سے روک رہا تھا بکر میں سنی انسنی کرتے ہوئے آگے جانے لگا جب میں اتنی دور آگیا تو اس سے آگے چند قدم جا کر دیکھنے میں کیا مزائقہ تھا


اس کی بات کو میں نے چھوٹ کیوم میں اڑا دیا آرے کچھ نہیں کہتے یہ جنگلی جانور فکر مات کرو ابھی دیکھنا میں کیسے ہیرن شکار کر کے آجانگا سکلین رک جاؤ مات جاؤ تم نہیں جانتے کہ وہاں پر جن بھوٹ بھی ہیں میں اس کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال رہا تھا مگر اس کی جن بھوٹ والی بات سن کر میرا کہک کا اپل پڑا آرے تم ہس رہی ہو وہ مجھ پر مسنوی غصے سے گھورتے ہوئے کہنے لگا


زاہری سے بات ہے یاہر ہنسنے والی بات تو ہے اتنی مزاہیہ باتیں کر رہے ہو اوپر سے میرے ہنسنے پر بھی تمہیں غسا رہے ہیں چھوڑو یار یہ آج کل کے زمانے میں جن بوتوں کا ذکر کون کرتا ہے کون ان کے وجود پر یقین رکھتا ہے اب کی بار اسلم گہرا سانس لے کر رہ گیا تم سے تو بات کرنے ہی فضول ہے اب چلو یہاں سے مگر اب میں وہاں سے بھاکتے ہوئے کافی آگے نکل آیا تھا


کیونکہ مجھے دور سے دو چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ آنکھیں ہیرن کے علاوہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی میں وہاں تک آیا تو اب اسلم مجھ سے اچھے خاصے فاصلے پر رہ گیا تھا اسلم بہت ڈربوک تھا چھوٹی چھوٹی بات پر وہ سحم جاتا اسے امیشہ ایسی باتوں پر یقین ہوتا وہ جنوں بوتوں کے واقعات سنا کر مجھے ڈرانے کی کوشش کرتا رہتا


اور اس کی یہ باتیں سن کر میں اپنی ہزی کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کرتا اب جب میں وہاں سے کافی فاصلے پر آگیا تو میں نے ان چمکتی ہوئی آنکھوں کو قریب سے دیکھا اب وہ آنکھیں مسلسل میری طرف دیکھ رہے تھے مگر پھر اچانک وہاں سے وہ جانور غایب ہو گیا میں نے تارش آن کی اس کی روشنی میں دیکھنے لگا مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا تب ہی مجھے اپنے پیچھے سرسرہٹ کی آواز سنائی دی


میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں پر کوئی تھا جو مجھے دیکھ کر درختو کے پیچھے چپ گیا تھا میں بری طرح سے حیران پریشان رہ گیا یہ کون تھا اور مجھے دیکھ کر چپ کیوں گیا میں شروع سے ہی متجسس طبیعت کا مالک تھا اور اب جب اس طرف جانے لگا تو ایک طرف سے مجھے اسلم کی بھی آوازیں سنا دی رہی تھی وہ مجھے مسلسل پکار رہا تھا مگر میں اس کی پکار کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی راستے پر چلنے لگا


اور پھر میرے ہاتھ میں اس کا آن چلا گیا اب جب میں نے تارش کی روشنی اس کے چہرے پر کی تو اس کا حسن دیکھ کر مبوط ہو کر رہ گیا اس کی بڑی بڑی سہرنگیز آنکھیں ستوہ ناک، لمبی زلفیں جو کھلی ہوئی تھی اس کے پاؤں تک کو چھو رہی تھی وہ کالے لباس میں ملبوس تھی وہ حسن و خبسوطی کا شاہکار مالوم ہو رہی تھی تم کون ہو؟ اور اس جنگل میں کیا کر رہی ہو؟


میں نے اسے سوال کیا تو وہ بری طرح سے کھبرا گئی کہنے لگی میں راستہ بھٹک کر یہاں پر آگئی ہوں میں ساتھواری بستی میں رہتی ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ لڑکی سچ کہہ رہی ہے یا جھوٹ آدھی رات کو اس جنگل میں کسی لڑکی کا کیا کام اور وہ یہاں پر کیا کر رہی تھی جو راستہ بھٹک کر آگئی تب ہی اسلم میرے پاس آگیا کیا کر رہے ہو یار کب سے تمہیں آوازیں دے رہا ہوں


میں نے پلٹ کر اسلم کی طرف دیکھا تو مجھے اسلم پر زندگی میں پہلی بار سخت گسا آیا میں اسے نظر انداز کر کے دوبارہ لڑکی کی طرف متوجہ ہونے والا تھا مگر یہ کیا؟ لڑکی تو وہاں پر کہیں بھی نہیں تھی اب میں تارچ کی روشنے میں اسے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی اسلم کو میں نے گسے سے دیکھا تو کہنے لگا کیا ہو گیا ہے؟ کہیں تم پاگل واغل تو نہیں ہو گئے؟ کسے ڈون


اور یہ تمہارے چہرے پر ہواییں کیوں رہی ہیں؟ اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہو؟ اسلم کو میرے کوف سے دیکھا اگر وہ یہاں پر نہ آتا اگر میں اس کی طرف متوجہ نہ ہوتا تو وہ لڑکی ابھی بھی یہاں موجود ہوتی اور میں اس کے بارے میں اس کی معلومات لے چکا ہوتا زندگی میں پہلی بار میں کسی لڑکی کی خوبصورتی سے متاثر ہوا وہ لڑکی نہ جانے کہاں چلی گئی تھی اب میں اسلم کو غصے سے خورتا ہوا واپس ہو گیا


سارا مزا خراب ہوکے رہ گیا تھا کھر آیا تو امہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی بیٹا تمہارے یہ شوک کسی دن میری جان لے کر رہیں گے جانتے بھی ہو کہ جنگل میں ترہ ترہ کے خطرناک جانوریں جب تک تم واپس نہیں آتے میں یہی سوچ کر پریشان ہوتی رہتی ہوں کہ کہیں تمہیں کوئی نقصان نہ پانچا دے مگر ایک تم ہو جسے مہا کا احساس ہی نہیں امہ میشہ کی طرح غصہ کرنے لگی میں نے پھر انھیں مشکل سے منایا


پچھلے کچھ دن سے امہ کی طبیت خراب تھی امہ کہنے لگی کہ تم شادی کرلو بہو کھر میں آئے گی تو مجھے بھی سکھ نصیب ہو جائے گا میں بھی سکون سے سانس لے سکوں گی امہ کا یہ کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے وہی حسین سرابہ گھوم کر رہ گیا وہ لڑکی اس کا خوبصورت چانسا چہرا جیسے میرے دل و دماغ میں رچ بس گیا تھا اور امہ مجھے خیالوں میں دیکھ کر کہنے لگی کہ کیا بات ہے


کہیں کسی لڑکی پر تمہارا دل تو نہیں آگیا؟ ان کی بات پر میں دل کھول کر ہنسا امہ آپ بھی نہ اور پھر میں کچھ دن جب نوکری پر جانے لگا تو امہ پھر سے وہی بات دورانے لگی اور میں انہیں کہنے لگا کہ جب میں واپس ہوں گا تو میں اس موضوع پر آپ سے بات کروں گا میں نے سوچ لیا تھا کہ میں دوبارہ اسی جگہ پر جائوں گا اور دیکھوں گا کہ آس پاس کی بستی میں وہ لڑکی اگر مجھے نظر ہاتی ہے


یا اس کے بارے میں کوئی معلومات مل سکتی ہے تو میں امہ کو ضرور بتاؤں گا کیونکہ اس لڑکی کو بھلانا میری لیے آسان نہیں تھا کام کے دوران بھی امہ کی مجھے کالیں آتی رہی امہ کو بخار تھا جس وقت میں وہاں سے آیا تھا تب بھی ان کی طبیت خراب تھی ان کے پاس ہے کسی نہ کسی کا ہونا ضروری تھا امہ کے لئے میں نے ایک ملازمہ کا بندوبست کر دیا تھا بگر امہ کو وہ لڑکی بالکل پسند نہیں تھی ایک تو وہ بہتی زی


سارا وقت وہ باتوں میں لگا دیتی، کام وہ بالکل بھی ڈھنگ سے نہیں کرتی اور سپائی کے نام پر گند کو کونوں کدروں میں چھپا دیتی اور امہ کو ان ساری باتوں سے بہت الجن ہوتی امہ کہتی تھی کہ اگر میری بہو ہوتی تو وہ میری طرح نفاصت پسند ہوتی وہ میری مرضی کے مطابق کام کرتی کھر کو محبت سے سجاز سمار کر رکھتی یہ کام والی تو اسے تو صرف پیسوں کا لعلچ ہوتا ہے اور کام بھی صحیح طریقے سے نہیں کرتی


تب میں امہ کی بات سن کر مسکرہ دیا کرتا ان دنوں امہ کسی لڑکی کی تاریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتی تھی کیا بتاؤ تمہیں لڑکی بہت پورتیلی ہے سارے کھر کے کام کاج منٹو میں کر دیتی ہے بہت پیاری بچی ہے مکرر قسمت نے اسے ملازمہ بنا دیا امہ کی باتیں میں بے دلی سے سنتا رہتا اور پھر کچھ دن ہوئے تھے جب امہ کہنے لگی کہ میری طبیت بہت زیادہ خراب رہنے لگی ہے میرا بخار ات


کہ تم کھر آو تو تم سے ملنے کو میرا دل چاہ رہا ہے اور میں پھر اپنے تمام تر کام کا جلدی نبتا کر کھر میں آیا دروازے پر میرے استقبال ایک اجنبی لڑکی نے کیا تھا جس کے چہرے پر نقاب تھا اس کی کالی کالی آنکھیں نقاب سے صاف نظر آ رہی تھی میں ان آکھوں کے سہر میں کھو کر رہ گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ آنکھیں میں نے کہیں دیکھ رکھی ہوں وہ بات کیے بغیر خاموشی سے سارے کام نبتا آئے جاتی


امہ کی طبیت واقعی بہت خراب تھی یہ دیکھ کر مجھے اپنے اپر گسا آنے لگا کہ میں اتنا لاپروہہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ماہ کی سیحت سے وافل رہتا مجھے ان کا خیال ہونے چاہیے تھا انھیں لے کر میں پیر سے ڈوکٹر کے پاس گیا ان کے تمام ٹیسٹ کروائے اور کھر واپس جاتے ہوئے آدھی رات کا وقت پید گیا تھا امہ کہنے لگی کہ شہر میں کسی رشتہ دار کے کھر رک جاتے ہیں آدھی رات کو سفر


ہمارا کھر ایک چھوٹے سے کسبے میں واقع تھا اس کسبے اور شہر کے درمیان ایک چھوٹا سا جنگل پڑتا تھا اور امہ رات کی وقت اس جنگل سے گزنے سے ہیچ کچا رہی تھی اور میں امہ کی باتوں کو ہنسی میں اڑا رہا تھا امہ آپ بالکل بچوں جیسی باتیں کرتی ہیں کبھی کبھی ان باتوں پر مجھے بہت ہنسی آتی ہے امہ سر پر ایک چپت رسید کر کے رہ جاتی تم بہت بطتمیز ہو گئی ہو مہا کا مزاق ا


امہ کہنے لگی کہ یہ بات بھی مناسب نہیں ہے گھر میں وہ لڑکی اکیلی ہوگی اور جوان جہان لڑکی کو اکیلے چھوڑنا مناسب نہیں ہے میں نے اپنی زماداری پر ہی تو اسے ملازمت پر رکھا ہے اور اس کی افازت کرنا بھی امارہ فرص بنتا ہے امہ کی بات سن کر میں چونک پڑا مطلب کہا امہ رات کو وہ لڑکی یہی پر رہتی ہے میں اس بات سے بےخبر تھا کہ امہ نے مجھے پہلے بھی یہ بات بتائی تھی


کہ وہ لڑکی ہر وقت ہی ان کے ساتھ رہتی ہے ان کی خدمت کرتی رہتی ہے مگر میں نے اس بات پر گور نہیں کیا تھا اب جب میں نے اس بات پر سوچا تو حیران رہ گیا امہ اُس لڑکی کا اپنا ہاں ہے امہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی اور کہنے لگی بیٹا وہ اپنی دنیا کے ستائی ہوئی ہے ایکلی ہے بیچاری ماباب سر سے گزر چکے ہیں مامو مامی کے ہر پر پڑی ہوئی ہے


اور مامی نے اسے اپنے نکٹو بیٹے کے پلے باننا جاہا تو اس نے اتجاج کیا وہ لڑکی تو بے زبان ہے، خاموشی سے پورے کھر کے کام کاؤچ کرتی رہتی تھی مگر مہمانی سے یہ بات بھی کوارا نہیں ہوئی وہ پہلے پہلے اسے بہت مارتی، ٹھپٹی، ڈانٹی مگر اب وہ چاہتی ہے کہ ساری زندگی اللہ میاں کی گائے اسی کے کھونٹے کے ساتھ بندھی رہے وہ چلتر باز عورت یہ جانتی تھی کہ ایسی خدمت گزار اور خامو


تب ہی تو وہ اس لڈکی کو ہمیشہ کے لیے کھر میں پسانا چاہتی تھی مگر سلمہ نے یہاں پر اکل مندی کی اور اپنے معامو کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئی اب میں آپ کے بیٹے سے شادی نہیں کر سکتی ممانی کو تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ لڈکی جو بلکل ڈبو سی تھی وہ اس کے آگے سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتی تھی اس کے بیٹے سے شادی سے انکار کر رہی تھی اور یہ بات اسے گوارہ نہیں تھی


اس نے سلمہ پر گنونے علظمات لگا کر اسے کھر سے باہر نکال دیا بچاری رات کے وقت کھر سے نکلی تھی ممانی کی منتے کرتی رہی کہ میں کہاں جاؤں گی میں جوان جہان لڑکی ہوں مجھ پر رحم کرو ایسا نہ ہو کہ مجھے دیکھ کر کوئی اپنی نیت خراب کر بیٹھے مجھے اپنی عزت کے لالے پڑ جائیں مامو نے بھی اپنی صغی بھانجی سے آنکھیں پھر لی اور ایسے میں بچاری جب رات کے اندھیرے میں میرے


تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ لڑکی کتنے برے حالوں میں میرے پاس آئی تھی؟ امہ جب اپنی بات کہ کر رکھی اب کی بار میں نے کب کا رکھاوہا سانس بھال کیا امہ آپ خود سوچیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کیا اس لڑکی کا اور کوئی رشتہ دان نہیں ہوگا جو اس کی مدد کر سکے اور وہ لڑکی آپ کے پاس کیوں آئی ہے؟ کس نے بتایا تھا آپ کے بارے میں اسے؟ امہ کہنے لگی کہ بیٹا اس کا خاندان میں کوئی نہیں ہے اور تم ہر کسی پر


ہر کسی کو ایک نگاز سے دیکھتے ہو وہ بچی بہت اچھی ہے خبردار اگر تم نے اس کے بارے میں کوئی ایسی ویسی کوئی الٹی سیدھی بات کی اس کے بارے میں کچھ بھی سوچا تو اور مجھے کیا ضرورت ہے اس کے بارے میں سوچنے کی میرے پاس سوچنے کے لیے اسی اجنبی حسینہ کا چہرہ کافی تھا اس کی آنکھیں، اس کے بال اس کا چاند چہرہ مجھے بھولتا ہی نہیں تھا اگر وہ مجھے بھولتی تو ہی میں کسی اور کے بارے میں


تب بھی جنگل سے گزرتے ہوئے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ لڑکی ایک جگہ پر کھڑی ہو اور مجھے دیکھ کر مزکر آ رہی ہو میں نے اکدام گاری پر بریک لگائی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس طرف دیکھنے لگا وہ مجھے بدستور مزکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی امہ میری حالت دیکھ کر مجھے ٹوکا دینے لگی کیا بات ہے کیوں یہاں رکھ گئے ہو چلدی چلو میرا تو دلی ہول رہے میرا سان


تو وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا یہ میرا وحم تھا میں نے خودکلامی کی تو امہ میری بات سن کر چانکی کیا مطلب کیسا وحم؟ اور امہ کو کوئی بات کہہ کر میں انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا کھر آیا تو سلوانے دروازہ کھلا حسب معمول اس کے چہرے پر نقاب تھا اس کی آنکھیں آیا تھیں بکر وہ جھکی ہوئی تھے میں لاکھ خواہش ہونے کے باوجود بھی اس کی آنکھوں میں جھاں کر نہیں دیکھ پایا اس نے پھر جب میرے سامنے کھانا لائک


تو میں نے زندگی میں اتنا لذیذ کھانا پہلی بار کھایا تھا اور بھوک نہ ہونے کے باوجود بھی وہ سارا کھانا چٹ کر گیا امی نے میری دلچسپی بھانپ لی تھی وہ بہت مزے کا کھانا بناتی ہے سلمہ اس کے ہاتھ میں بہت زائقہ ہے میں کہتی ہوں کہ یہ بچی جس کھر میں جائے گی اس کھر میں رونوک ہو جائے گی امہ کے لحظے میں اس کے لیے اشتہاک تھا وہ میری ماں تھی ان کی باتوں کے محفوم کے بارے میں مجھ سے زیادہ بہتر


کہ ان کے انداز میں کون سے جذبیں پشید آئے مگر میں اس لڑکی کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا وہ کھر کی ملازمہ تھی اور میرے ساتھ اس کا کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا کچھ دن امہ کے پاس رہ کر میں پھر سے اپنے کام پر آ گیا سارا دن افس میں رہتا شام کے وقت گھر واپس جاتا اور اس دوران وہ لڑکی ایک پل کے لیے بھی میرے ذہن سے محب نہیں ہوتی اسلم کے ساتھ میرا پھر سے دو سے تین بار اس جنگل میں جا کر شکار کرنے کا پروج


میں دل ہی دل میں یہ خیال بھی رہتا کہ کاش وہ لڑکی مجھے دوبارہ مل جائے کاش میں ایک بار پھر سے اسے دیکھ سکوں اس سے باتے کر سکوں اس سے پوچھ سکوں کہ وہ کون ہے کہاں رہتی ہے کیا کرتی ہے مگر شاید میرے نصیب میں دوبارہ اس سے ملنا نہیں تھا اس دن میں اپنے دوست کے ساتھ داتا دربار پر گیا میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں نے سنا تھا کہ یہاں آکر جو منت مانگی جاتی ہے وہ پوری ہوتی ہے اور میں اسی نیت سے اس دربار پر گیا


ایک بار اس سے بات کر سکوں وہ میرے سامنے آئے تو میں جی بھر کر اس کا دیدار کر سکوں اور شاید یہ قبوریت کی کھڑی تھی جب میں دربار سے باہر نکلا تو سامنے ہی سیڑیوں پر میری نظر پڑی وہ لڑکی دنیا جہان سے بے نیاز نظر آ رہی تھی اس کی آنکھیں کسی غیر مرائن نکتے پر مرکوز تھی اردگیٹ سے بے نیاز تھی اور اس کی آنکھوں میں سوچ کی گہری پرچھائیاں تھی ایک لمح میں میں اسے پہسچان


یہ وہی لڑکی تھی آج بھی وہ کالے رنگ کے لباس میں تھی آج بھی اس کے دائیں کندھے پر ٹپٹا تھا اور بائیں کندھے پر بال پھیلے تھے اور یہ بال اس کے گھٹنوں تک چھو رہے تھے میں بھاکتا ہوں اس کے پاس گیا اس کے پاس پانچتے ہوئے میرا سانس پول گیا اس نے چونک کر مجھے دیکھا اس کی آنکھوں میں شنا سائی کی رمک تھی اور میرے چہرے پر واضح پسند دیت کی تھی میں کتنی دیر پلکیں چپکائے بنا اسے دیکھتا رہا


مگر وہ کوئی بات کیے بغیر محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اور میں بھی پلکن چپکائی بناو سے دیکھ رہا تھا نجانے کیوں ان آنکھوں میں دیکھ کر مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے ہی آنکھیں میں نے کہیں اور بھی دیکھ کی مگر کہاں مجھے یاد نہیں آرہا تھا اور پھر اسلم وہاں پر آگیا کیا کر رہے ہو تم؟ کب سے ڈونڈ رہا ہوں تمہیں؟ اس کی بات سن کر میں دانت کچھ کچھا کر آگیا کیونکہ آ


میں کتنی دیر وہاں پر اسے ڈھونٹا رہا مگر مجھے وہ دوبارہ نہیں ملی میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں حسلم کو کچا چوبا جائوں اسے اس بات پر حیرت تھی کہ میں یکدام اتنا غصے میں کیوں آگیا تھا میں نے اسے کہا کہ میں جب بھی اس لڑکی سے بات کرتا ہوں تم درمیان میں آ جاتے ہو اور پھر وہ لڑکی نہ جانے کہاں گائب ہو جاتی ہے اب کی بار وہاکھا باکھا رہ گیا کون سی لڑکی تم وہاں پر اکیلے تھے؟ اس در


یہی تو میں تم سے کہہ رہا تھا کہ تم اس درکھ سے کیا پاتے کر رہے ہو؟ کیا یہ درکھ تمہاری مات چکا ہے؟ تب اس کی بات پر میں چپ ہو گیا وہی سا ہی تھا، بذوک مزاق کرنے والا مجھوز کے مزاق پر کبھی ہنسی نہیں آتی تھی اور اب تو مجھوز پر غصہ آ رہا تھا اس کی مزید کوئی بات سنے بغیر میں غصہ سے جنجلائے ہوئے انداز میں اپنے کھر آ گیا میں نے ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ قرائے پر لیا ہوا تھا میں اپنا


میں نے فریچ کھول کر دیکھا تو فریچ کھا لی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کھانا بنانا پڑے گا یا پھر باہر سے مگوانا پڑے گا باہر کا کھانا میں کھانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میری طبیعت بازار کا کھانا کھا کر عجیب سی ہو جاتی میں چاہتا تھا کہ کھر کا سکون بھرا کھانا کھا سکوں تب ہی مجھے اپنے کھر کا منظر یاد آ گیا سلمہ کے ہاتھ میں بہت زائقہ تھا جو وہ کھانا بناتی تھی


غیر عرادی طور پر میں اس لڑکی سلمہ کے بارے میں سوچنے لگا نجانے وہ کون تھی کہاں سے آئی تھی کہیں امہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے کہیں وہ کسی گروہ کے ساتھ تعلق تو نہیں رکھتی جو کسی گھر میں خاموشی سے کھوچ جاتی اور پھر سفایا کر کے وہاں سے بھاگ جاتے ہیں اس کا خیالہ نہیں تھا کہ میں بے چین ہو گیا تب ہی دروازے پر بلکی اواز سنائی دی دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی لڑکا کھڑا


اس بچے کو دیکھ کر میں حران رہ گیا میں تو یہاں پر آس پاس کسی کو بھی نہیں جانتا تھا ایک دو لوگوں سے میری سلام دعا تھی اور یہ بچہ بھی میری لیجنے بھی تھا میں پھر بیرانی لے کر خرکے اندر آ گیا بیرانی سے بہت مزے کی خوشبو آ رہی تھی میں دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ مجھے اپنے کھانے کیلئے مہنت نہیں کرنی پڑی کھر کا کھانا کھانے کو دل چاہ رہا تھا اور کھر کا بناوہ کھانا ہی


ایسے لذیذ کھانے میں نے اپنی پوری زندگی میں چکھے تک نہیں تھے۔ میں وہ پوری پلیٹ چٹ کر گیا اور حیران تھا کہ کسی کے ہاتھ میں اتنا ٹیسٹ کیسے ہو سکتا ہے۔ دل چانے لگا کہ دوبارہ اس بچے کے کھر جائوں اور اسے کہوں کہ وہ روزانہ ہی مجھے کھانا بنا کر دے دیا کریں۔ پھر اپنی سوچ پر خود ہی ہی ہی آئی۔ سلمہ بھی ایسا ہی لذیذ کھانا بناتی تھی اور آتے وقت میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اسے کہوں کہ


مگر پھر نجانے کیا سوچ کر میں خاموش ہو گیا تھا اب نجانے امہ کی فکر تھی جو مجھے بار بار اپنی طرف کھیچنے لگی تھی کہاں تو میں مہنے میں ایک آدھا بار وہاں جاتا اور اب ہر ہفتی امہ کے پاس جانے لگا امہ بھی بہت خوش رہنے لگی تم بہت اچھا کرتی ہو بٹا جو ہر ہفتے آکر مجھ سے مل جاتے ہو تمہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں ٹھنڈک آ جاتی ہے دل پور سکون ہو جاتا ہے میں نے


آپ بھی تو میرے پاس نہیں رہتی کتنی بار آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میرے کھر پر رہیں مگر آپ یہاں سے چلنے پر تیاری نہیں کیسے جاؤں بٹا تمہارے ساتھ ساری زندگی اسی کھر میں گزاری ہے اس کھر میں میری بہت سے یادیں وہ بستا ہیں یہاں پر تمہارے باپ کی خشبہ محسوس ہوتی ہے تمہارا بچپن یہی گزرہ ہے اسی سین کو دیکھتے ہوئے میں ماضی میں کھو جاتی ہوں تمہارا بچپن یاد آنے لگتا ہے


میری باقی کی زندگی گزارنے کے لیے کافی ہیں میں یہ سب چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہمیشہ کی طرح امہ جذباتی ہو گئی تھی اور میں بھی ان کی بات سن کر جذباتی ہو گیا تھا یہ موزو ایسا تھا کہ میں اس پر گھنٹو امہ سے باتیں سن سکتا تھا مجھے بھی ابھی اپنے اپا سے بہت محبت ہے بہت لادلا تھا میں ان کا بہت پیار کرتے تھے مجھ سے ایسی کون سی خواہش تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تھی


مگر ان کی زندگی کم تھی وہ مجھے ہمیشہ اپنے قدموں پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے مگر خدا کی کرنی جب میری تعلیم مکمل ہوئی اور میں جوہ پر لگا تو اب بھوہ امیہ چھوڑ کر چلے گئے اس دن میں بہت رویا تھا بہت تڑپا تھا اور امی کو سبھالنا تو میرے لئے بہت مشکل ہو کیا بہت مشکل سے امی زندگی کی طرف واپس لوٹ کر آئی تھی تب بھی ان کی یہی بات تھی کہ میں شادی کرلوں اور دو سال سے میں انہیں اس بات کیل


ابھی تک مجھے ایسی کوئی لڑکی نہیں ملی تھی جسے دیکھ کر میرے دل کے دھڑکن بیتر تیب ہو جائے اور وہ لڑکی ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر میں اپنا بھول گیا مگر وہ کون تھی، کہاں رہتی تھی میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا اگر اصلم دو بار ہمارے درمیان میں نہ آتا تو میں اس کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہوتا امہ کو بھی اس کے بارے میں بتا چکا ہوتا آدھی رات تک میں امہ سے باتے کرتا رہا پھر


اگلہ دن بھی میرا مسروفیت بھرا تھا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا حساس ہی نہیں ہوا جب گھر آیا تو امہ کی طبیت بہت خراب تھی کہنے لگی کہ مجھے پیٹ میں سخت تکلیف ہو رہی ہے امہ سے میں نے کہا میرے ساتھ ہی اسپتار چلیں مگر امہ نے میری سنی آنسنی کر دی کہنے لگی میں دوائہ کھا لوں گی مجھے افاقہ ہو جائے گا اس دوران سلمہ بھی مسلسل امہ کو یہ کہتی رہی کہ آپ کو کسی ڈاکٹر کو


ایسے میں ان کی طبیت زیادہ خراب ہو سکتی ہے مگر امہ اس کی بھی سنی انسنی کرتی رہی اور آدھی رات کا وقت تھا جب امہ کی طبیت اچانک بیگڑ گئی درد سے وہ تڑپنے لگی کہنے لگی کہ سلمہ کو بلاو وہ مجھے ایسی دوائہ دیتی ہے کہ درد میں تڑپتے ہوئے مجھے رام آجاتا ہے میں نے امہ کی ساری دوائیں دیکھ لی انہیں پینکلر بھی دے دیا مگر کسی دوائہ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھ


ایسی حالت میں مجھے کون سے دوا دینی ہے؟ اب جب میں سلمہ کے کمرے میں آیا تو کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا کتنی دیر میں دستک دیتا رہا دروازے پر مگر سلمہ نے دروازہ نہیں کھولا اب میں اسے مصلسل اوازے دینے لگا مگر ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ گھوڑے گدے بیج کر سوری ہو ایک طرف امہ در سے تڑپ رہی تھی اور دوسری طرف سلمہ بھی دروازہ نہیں کھول رہی تھی میں بھاکتے ہوئے کھڑکی کی


پورا کمرا خموشی میں ڈوبا تھا اور سلمہ کا کہیں نام و نشان نہیں تھا میں کھڑکی سے بھی سلمہ کا آوازے دیتا رہا مگر سلمہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا میں بھاکتی و امہ کی کمرے میں آیا تھوڑی دیر بعد سلمہ بھی کمرے میں آگئی میرا حیرت سے مو کھلے کا کھلا رہ گیا کتنی دیر سے میں تمہارے دروازے پر دستک دے رہا ہوں تم نے دروازہ کیوں نہیں کھلا وہ گڑھ بڑھا کر کہنے لگی میں واش روم میں تھی اور


لائٹ بھی آف نظر آ رہی تھی تبھی میری اس کے ہاتھ پر نظر پڑی اس کے ہاتھ میں ایک عجیب سا محلول تھا اس نے وہ دوائی امہ کو پلائے اور امہ یکتم بھلی چنگی ہو گئی ایسے لگ رہا تھا جیسے انہیں کوئی درد ہی نہ ہو اور وہ بالکل نارمل نظر آنے لگی پھر اس سے باتیں کرنے لگی میں حران پریشان تھا کہ یہ کیا ہے میں نے امہ سے اس بارے میں بات نہیں کی مگر سوچ رہا تھا کہ سلمہ سے اس دوائی کے ب


اس کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں یہ خیال بھی بار بار کھونج رہا تھا کہ میں نے تو اس کے کمبرے میں اسے دیکھا تھا مگر وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئی آخر وہ کہاں تھی اور میری نظرو کے سامنے سے کیسے اجل رہ سکتی تھی امہ کی طبیت خرابی کا لحاظ کر کے میں کافی دن تک گاؤں میں ہی رہا اور بار بار امہ سے کہتا کہ میرے ساتھ شہر چلیں مگر وہ میرے ساتھ چلنے کیلئے تیار ہی نہیں تھی اور پھر انہوں نے میرے سامنے


تو نہ صرف میں تمہارے ساتھ شہر میں چلنے پر تیاروں بلکہ تم یہ گھر بھی بیش دینا اور بیوی کے ساتھ شہر والے گھر میں شفٹ ہو جانا مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا امہ کی بات سن کر مجھے خوشقوار حیرت کا حیثان ہوا میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی میکر میں اس خواہش کو زبان پر لانے سے ہج گچا رہا تھا امہ محض شادی کی بات پر مان لینے کی وجہ سے اتنا بڑا فیصلہ کر رہی تھی مکر جب تک اس


میں امہ کو کوئی امید نہیں دلانا چاہتا تھا اس لڑکی کے علاوہ میں کسی اور سے شادی کرنا بھی نہیں چاہتا تھا اس کے بعد میں کھر واپس آیا اب ہر دوسرے تیسے دن وہ بچہ میرے لیے کبھی کچھ تو کبھی کچھ لے کر آجاتا میں مسکرہا کر اسے دیکھنے لگتا ایک دن میں نے اسے اپنے کھر کے اندر بلایا تو وہ کہنے لگا میری باجی مجھے بنا کرتی ہے کہ کسی کے بھی کھر کے اندر نہیں جانا چاہیے اور آپ کے لیے کھانا


اس کی بات سن کر میں چونکا تمہاری باجی کا کیا نام ہے؟ بگر اس نے اس بات کا جواب نہیں دیا اور مسکورہ کر مجھے دیکھتا رہا کہہنے لگا آپ یہ برتن مجھے واپس دے دیں پھر میں نے برتن دھو کر اس کے ہاتھ پر رکھتی ہے بگر میں بار بار یہی سوچ رہا تھا کہ اس کی باجی کون ہے؟ وہ میرے لیے کھانا کیوں بنا کر بھیجتی ہے؟ بچے سے پوچھتا تو وہ مسکورہ دیتا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس بچے کو خاص طور


کہ اپنے گھر کی کوئی بھی بات وہ بتاتا نہیں تھا پھر ایک دن میں نے اس کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا اس دن وہ میرے لیے کریلے گوشت لے کر آیا تھا کریلے گوشت مجھے امیشہ سے ہی پسند تھے میں امی سے فرمائش کر کے کریلے گوشت بنائیا کرتا اور اب جب میں نے وہ برطن واپس دیئے تو وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلنے لگا میں دوہور سے اس کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا


جیسے ہی وہ اس کے اور میرے درمیان فاصلہ بڑھا میں فوراں سے دروازہ بند کر کے چھپتے چھپاتے اس کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ بچہ گلیوں میں سے ہوتے ہوئے آگے جانے لگا اور میں حیران پریشان رہ گیا۔ اس بچے نے تو کہا تھا کہ وہ اسی گلی میں رہتے ہیں۔ چند گھر چھوڑ کر اس کا گھر ہے، مگر اب وہ کہاں جا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ کافی آگے نکل آیا۔ اب گھروں کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا اور وہ ایک لمبی سی گ


اس گلی میں ایک طرف ہیسپتال تھا اور دوسری طرف ایک بہت بڑا کالج تھا یہاں پر چھوٹی موٹی دکانیں تھیں مگر کسی کی رہائش کا نہیں تھی اور وہ بچہ اسی گلی میں جا کر جیسے گم ہو گیا میں اس گلی میں گیا، وہاں پر آگے ویران جگے تھیں، دور دور تک جنگل تھا اور اس کے ایک طرف کبرستان بنائوا تھا میں نے وہاں پر ایک دکاندار سے اس بچے کے بارے میں پوچھا اس دکاندار سے میری ایلیکس ایلیک تھی


دکاندار میری بات سن کر کہنے لگا میں نے تو کسی بچے کو نہیں دیکھا کس کی بات کر رہے ہو مگر میں اپنے گھر آ گیا دو سے تین بار میں نے اس بچے کا پیچھا کیا مگر حیرت انگیز طور پر وہ میری نظروں کے سامنے سے غائب ہو جا تھا اوز دن وہ میری آنکھوں کے سامنے سے ایسا اوجل ہوا کہ میں بری طرح سے ڈر گیا سمجھ نہیں آتی کہ اسے زمین نگل گئی آسمان کھا گیا جب میں اپنے فلیٹ میں واپس آیا


تو میں بخار سے بری طرح سے تڑپ رہا تھا خوف سے برا حال تھا کال کر کے میں نے اسلم کو اپنے پاس بلایا اسلم بھی میری حالت دیکھ کر پریشان رہ گیا کیا بات ہے یار کل تک تم بھلے چنگے تھے آج اچانک سے اتنا بخار کیوں چڑھا لیا اور پھر میں نے وہ بات اسلم کو وطا دی ساری بات سن کر وہ بھی حیران پریشان رہ گیا کہنے لگا یار یہ معاملہ تو پوری سرار ہی لگ رہے


اب ایسی کون سی لڑکی ہے یہاں پر جو روزانہ تمہارے لیے کھانا بھیجے گی؟ اب ایسے بھی گھبرو جوان نہیں ہو تم۔ وہ مسلسل میرا مزاق اڑارا تھا اور میں بکل سنجیدہ تھا۔ کہنے لگا، یار وہ بچہ اچانک سے میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔ اب تم خود بتاؤ کہ کوئی انسان ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ اسلم بھی سوچ میں پڑ گیا کہہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس فلیٹ میں کوئی گربرڈ ہے۔ ا


ایسا نہ کہ کل کلان کو کوئی بڑی مسئیبت بن جائے، لینے کے دینے پڑ جائے، بات اس کی بھی ٹھیک تھی۔ اب مجھے بھی ڈر لگنے لگا، اگر وہ کسی اور مخلوق سے تعلق رکھتا تھا تو میں مزید ان لوگوں کی انایات نہیں لینا چاہتا تھا۔ میں امیشا سے ان باتوں کا مزاق اڑاتا تھا کہ جنات اس دنیا میں نہیں ہوتے، اگر وہ ہوتے بھی ہیں تو ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے، وہ انسان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔


میرے اپنے الفاظ گویا میرا مزاق اڑا رہی تھے میں پھر کچھ ٹائم اسلم کے ساتھ رہا مکرر میرا بخار اترنے کی بجائے جیسے بڑھتا جا رہا تھا اور پھر بوس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کچھ دن رسٹ کرنا جائیے رسٹ کرنے کے بعد ہی میں کام پر توجہ دے پاؤں گا اور پھر اس کی بات مان کر میں اپنے کھر آ گیا امہ بھی مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئی کیا بات ہے میرا بیٹا اتنا کمزور کیوں ہوج


کیوں کہ میں انہیں کچھ بھی بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس دوران سلمہ نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا وہ امہ کی بھی بہت خدمت کرتی میں دیکھتا کہ وہ انہیں وقت پر دوا دینے کے ساتھ کھر کے سارے کام کاج کرنے کے بعد کبھی تیل کی شیشی اٹھا کر ان کے سر کا مساج کرنے لگتی تو کبھی ان کے پاو پر مالش کرنے لگتی یہ سارے کام وہ اتنی پھٹی سے کرتی کہ میں ہران رہ جاتا کہ کوئی بھی لڑکی بغیر تھکی


لیکن یہ لڑکی لگتا تھا بہت مزبوط اصاب کی مالک تھی رات گئے تک مسروف ہوتی اور پھر اپنے کمرے میں رپوش ہوجاتی اور سبے سے پہلے کمرے سے باہر نہیں نکلتی کئی بار میں رات کو سہن میں چہل قدمی کرتا رہتا کئی بار اس کے کمرے کی طرف میری نظر اٹھتی کئی بار میں نے کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے کمرے پر نظر دڑائی تو وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئے میں حیران ہو کر سوچتا کہ اگر


کیوں کہ ہمارے کمرے میں بیٹھ کے علاوہ تو ایسی کوئی بھی جگہ نہیں تھی کہ اسے زمین پر سونے کی عادت تھی میں کئی بار سوچ رہا تھا کہ اس سے بات کروں مگر میں یہ سوچ کر ججگہ کیا کہ وہ کیا سمجھے گی کہ میں اس کے کمرے میں چھاکتا رہتا ہوں پھر اس دن امہ مجھے کہنے لگی کہ بیٹا میں تمہیں کچھ کہنا چاہتی ہوں تمہیں کیا میری محبت پر شک ہے میں نے امہ کو کہا کہ کیسی باتیں کرتی ہیں اور میں بھلا آپ پر


تب وہ کہنے لگی کہ میں نے تمہارے لیے ایک فیصلہ کیا ہے میں چاہتیوں کہ تم سلمہ سے شادی کرو ان کی بات سنکر میں ہران رہ گیا امہ! وہ اس گھر کی ملازمہ ہے کیسی باتیں کر رہی ہیں امہ کو میری بات سنکر غصہ آیا بیٹا وہ ملازمہ نہیں ہے حالات نے اسے ملازمہ بنا دیا بنا وہ بھی ماباب کی شہزادی تھی لادلی تھی مگر قسمت نے اسے یہ کرنے پر مجبور کر دیا مگر لڑکی بہت زیادہ خود دار ہے بہت اچھی ہے


اور میرا سر بے اختیار نفی میں ہل گیا یہ سیچ تھا کہ میں نے اس میں کسی قسم کی خرابی نہیں دیکھی امہ کہنے لگی کہ ایسی لڑکیا کسمت والوں کو ملتی ہیں میں اس سے بات کروں گی اس کا تمہارے بارے میں کیا خیال ہے امہ کو میں منع کرنا چاہتا تھا کہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں مگر وہ سلمہ کو لے کر اتنی سنجیدہ تھی اور اتنی خوش نظر آ رہی تھی میں چاہتے ہوئی بھی ان سے یہ خوشی نہیں چھین پا رہا تھا پھر امہ نے نجان


مگر میں اسے غور سے دیکھنے لگا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنے لگا تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ بہت مشکوک حرکتے کرتی ہے پورے دن میں ایک بار بھی ارام نہیں کرتی اسے میں نے کبھی سوتے نہیں دیکھا وہ بس رات کو کمرے میں جاتی اور منٹوں میں سارے کام مکمل کر لیتی ایسا کیسے ممکن تھا؟ وہ ایسا کیا کھاتی تھی جو وہ اتنی پورتیلی تھی؟ اس کے بعد دو تین بار امہ کی طبیعت خراب ہوئی تو اس نے امہ


میں حران رہ گیا اوز دن جب میں کچھن میں آیا تو وہ سامنے کھانہ بنانے میں مسروف تھی اور اس وقت خلاف معمول اس کے چہرے سے نقاب بھی اٹھا ہوا تھا میں اکدام اس کے سامنے آگیا میں نے آج تک اس کا چہرا نہیں دیکھا تھا مگر اسے دیکھنا چاہتا تھا جیسے ہی میری طرف پلٹ کر دیکھا تو میں دم بخود رہ گیا کیونکہ یہ تو وہی لڑکی تھی جو میں نے جنگل میں دیکھی تھی جسے دیکھ کر میں اپنا بھول گیا وہ بھی مجھے سامنے دیک


اس نے چہرے پہ نقات کر لیا مگر جو منظر میں دیکھ چکا تھا اسے میری یادائش نہیں مٹا سکی میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس بات پر مجھے خوش ہونا چاہیے یا حیران وہ لڑکی میرے کھر میں موجود تھی اور میں اس بات سے لا علم تھا میں کچھ بھی کہے بغیر اپنے کمرے میں واپس آ گیا سوچ سوچ کر پاغل ہو رہا تھا کہ یہ لڑکی آخر ہے کون ہے اور یہ کھر میں کیا میری وجہ سے آئی ہے؟ کیا میری وجہ سے ملازمہ بننے کا ڈھون


اسے میں نے شہر میں بھی دیکھا تھا تو یہ شہر میں کیسے گئی؟ اور اچانک واپس کیسے آگئی؟ میں جتنا سوچتا جا رہا تھا اتنا میرا دماؤ گلشتا جا رہا تھا میں یقین نہیں کر پارہا تھا کہ سلمہ وہی لڑکی ہے اور وہ بھی جیسے میری بیچہنی کو بامپ گئی مجھ سے کہنے لگی کہ مجھے لگتا ہے آپ کچھ پریشان ہیں اس نے مجھے پہلی بار مخاطب کیا تھا اور تب میں اسے گور سے دیکھتا رہ گیا


اسے بتایا کہ امہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے کیا چاہتی ہے اپنے جذبات بھی اسے بتائے اس سے محبت کا اظہار کیا مجھے لگتا تھا کہ اسے اس بات پر کوئی اطرحات نہیں ہوگا یہ سن کر وہ خوش ہو گئی مگر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی کہنے لگی کہ ہر چیز ہمارے نصیب میں نہیں ہوتی جو چیزیں ہمیں اچھی لگتی ہیں کبھی کبار ہمارے لیے ممنو ہوتی ہیں وہ ہم سے دور رہتی ہے ہم سے چھین جاتی


کہ جو چاہے اسے پالے۔ اس کی بات میرے سر کے اوپر سے گھوم کر رہ گئی۔ کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہتی ہو؟ تو وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ کہنے لگی۔ اس دن میں نے جنگل میں پہلی بار آپ کو دیکھا تھا۔ آپ کو دیکھتے ہیں آپ پر دل ہار گئی اور یہ میری بےحتیاتی تھی کہ آپ کی بھی مجھ پر نظر پڑ گئی کیونکہ میں آپ کو دیکھتے ہیں بے خود ہو گئی تھے۔ آپ نے آپ پر اختیار کھو بھیٹھی۔ جبھی تو آپ کو میری


اور جب مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ کی بیمار ما ہے جو کھر میں اکیلی ہے تو میں آپ کی ماہ کی خدمت کرنے کے لیے اس کھر میں آگئی تھی ان کے کام کر کے مجھے خوشی ہوتی ہے سکون ملتا تھا اور جس طرح میں آپ کی ماہ کی خدمت کرتی تھی ان کے کام آتی اسی طرح سے آپ کے آب باس بھی رہتی آپ کی موجود کی کو محسوس کرنا میرے لئے خوشقوار ترین تجربہ تھا آپ کے لئے اپنے آج سے کھانا بنانا آپ کے کام کرنا


آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان چیزوں سے مجھے کتنی خوشی ملتی تھی اپنے بارے میں اس کے خیالات سن کر میں کھل کر ہنسا اور میرا سہر و خون بڑھ گیا یہ سوچ کر کے کہ جس لڑکی کو میں پسند کرتا ہوں وہ بھی مجھے دیوانوں کی طرح چاہتی ہے ہمارے درمیان تو کوئی ظالم سماج بھی نہیں تھا امہ بھی میری اسی لڑکی سے شادی کروانا چاہتی تھی اور وہ لڑکی بھی مجھے پسند کرتی تھی تو پھر مجھے اسے ح


یہی بات میں نے اسے کی تو وفصدہ انداز میں ہس پڑھی اور کہنے لگی مشکل نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے درمیان بہت بڑی رکاوت ہے اور وہ ہے ہم دونوں کے خمیر میں فرق میرا خمیر آگ سے اٹھا ہے آپ کا مٹی سے یہ سن کر میرا تیمہاگ بھک سے اڑ گیا میں کئی قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کیا مطلب کیا کہنا چاہتی ہو تم وہ چند قدم آگے بڑھائی


یہی کہ میں ایک جن زادی ہوں اور آپ کی محبت میں گرفتار ہو کر یہاں چلی آئی خود پر کابو نہیں رکھ پائی آپ کی قربت چاہتی تھی مکر یہ بھول گئی کہ ہم دونوں کبھی ایک نہیں ہو سکتے اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی اور میں بے یقینی سے اسے دیکھتا جلا جا رہا تھا امہ اب سلمہ کے لیے اپنی پسندیت کی کا اظہار کرتی اور مجھے بھی کہتی تھی کہ تم بہت خوش قسمت ہو اگر تمہاری اس کے ساتھ شادی ہو جاتی ہے


مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے اور میں امہ کی بات پر خاموش ہو کر رہ گیا اب امہ کو کیا بتاتا کہ ان کے ساتھ ساتھ میری بھی دلی خواہش ہے مگر یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی ہے اور پھر اس دن سلمہ کہنے لگی میں مزید خود پر جبر نہیں رک سکتی تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا پھر تمہیں کسی اور کا ہوتا دیکھنا یہ کام اتنا آسان نہیں ہے میں جانتی ہو کہ تمہاری مہا کا تم پر حق ہے


وہ تمہارے لیے بہت کچھ سوچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہو کہ وہ مجھے پسند کرتی ہیں مگر وہ میری اصلیت نہیں جانتی اور میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے نفرت کریں تم میرے بعد بھی اپنی ماہ کو میری اصلیت نہیں بتاؤ گے پھر وہ میشہ کے لیے وہاں سے چلی گئی نجانے وہ اپنی دنیا میں چلی گئی تھی یا محض مجھ پر اپنی موجود کی اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس دن کے بعد سے میں نے اسے نہیں دیکھا تھا


اس کی موجود کی کو بھی محسوس نہیں کیا تھا اس کے اچانک چلے جانے سے امی بہت اداس تھے بہت دن تک روتی رہی پریشان رہی کہنے لگی کہ نجانے بچی کی سال میں ہوگی کہیں تم نے اسے ایسا ویسا کچھ تو نہیں کہا کہ وہ چلی گئی اور میں امی کو یقین دلا دلا کر تھک گیا کہ میں نے اسے کچھ بھی نہیں گا وہ اپنی مرضی سے گئی ہے کتنے ٹائم تک امی اس کا انتظار کرتی رہی


جب وہ نہیں آئی تو پھر امہ نے ایک اچھی سی لڑکی دیکھ کر میری شادی تہکر دی اور پھر اپنے وعدے کے مطابق امہ نے مجھے یہ گھر بھی بیچنے کی جازت دی تھی اب میرے لئے اس گھر میں تکلیف تیادتھی اسی گھر میں میں نے سلمہ کو چلتے پٹھتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر یہ سب یاد کرنا اب میرے لئے بھی اسان نہیں تھا امہ اور اپنی بیوی کو لے کر میں اس شہر میں آگیا تھا


ایک چھوٹا سا کھر میں نے لے لیا تھا میری اپنی جوپ میں بھی ترقی ہو گئی تھی اور پھر اس کے بعد میں نے ایک چھوٹا سا سائیڈ بزنس بھی شروع کر دیا تھا دن بدن میں ترقی کی راہ پر گمزن تھا مگر میرے دل کا ایک کونہ جیسے ابھی اندر سے خالی تھا آج بھی میں اسے اسی طرح سے یاد کرتا رہتا تھا آج بھی میرے دل میں اس کے لیے ویسے ہی محبت تھی جیسی کہ شروع دن سے ہی تھی


میں نہیں جانتا تھا کہ وہ میرے آسپاس ہے یا پھر وہ مجھے چھوڑ کر کہیں چلی گئی ہے یا وہ ابھی بھی مجھ سے محبت کرتی ہے یا پھر وہ مجھے بھول گئی ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں تو اسے آج تک نہیں بھول پایا میں زندگی میں اب بہت آگے بڑھ گیا ہوں میرے بچے بھی اب بہت بڑے ہو گئے ہیں سکولوں میں جانے لگے مگر میں آج بھی بچوں کی طرح کبھی کبھی اسے یاد کر کے رو پڑتا ہوں


ایسے وقت میں سب کے سامنے اپنے آنسوں چھپا کر سب کے ساتھ ہنسی بکھیرنا مجھے بہت زیادہ عجیب سا لگتا ہے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow