باورچی کا بیٹا اور شہزادے کا عجب قصہ
باورچی کا بیٹا اور شہزادے کا عجب قصہ
پرانے زمانے میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جو انتہائی دولت مند اور بڑی شان و شوقت والا تھا۔ اس کی دولت کا چرچہ دور دور تک فیلہ ہوا تھا۔ اللہ نے اسے سب کچھ دیا تھا لیکن وہ اولاد کی دولت سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اور اس کی ملکہ ہر وقت اداز اور گمگین رہتے تھے۔ دونوں مل کے خدا سے دعایں کرتے کہ اے خدا ہمیں بھی اولاد کی نعمت بقش دے۔ مگر ابھی تک ان کی گود ہری نہیں ہوئی تھی۔
تاہم وہ اپنے قسمت سے مایوس نہیں ہوئے تھے انہیں کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک روز ان کی تمنى ضرور پوری ہوگی ایک روز بادشاہ اپنے دربار میں امیر و بزیروں کے ساتھ بیٹھا ہوگا تھا کہ خادمہ نے عرص کیا حضور ایک فقیرنی آپ کے حضور پیش ہونا چاہتی ہے اسے ضرور پیش کیا جائے بادشاہ نے اسی وقت حکم دیا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک بوڑی فقیرنی حاضر ہو گئی اس نے جھکر ب
بادشاہ سلامت اگر اجازت ہو تو ایک بات پوچھو سرور پوچھو تمہیں اجازت ہے اس پر فقیرنی بڑے معتب لہجمے بولی آلی جا آپ کو خدا نے تخت و تاج دیا ہے بے انتہا مال و دولت سے نوازہ ہے مگر اس کے باوجود آپ مجھے اداز نظر آتے ہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے جواب میں بادشاہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولا اے بزرگ فقیرنی ہم اداز کیوں نہ ہو
اس تمام مال و دولت اور شان و شوقت کے باوجود ہم اولاد سے محروم ہیں بادشاہ کی یہ بات سنکر فقیر نینای دونوں ہاتھ باندھ کر کہا حضورِ والا آپ کی یہ تمنا پوری ہو سکتی ہے وہ کیسے؟ مجھے جلدی بتاؤ بادشاہ بیتاب ہو کر پوچھنے لگا اگر ہم صاحبِ اولاد ہو گئے تو تمہیں مو مانگا انعام دیا جائے گا جواب میں فقیر نینای اپنی گٹری میں سے کوئی جڑی بوٹی نکالی اور بادشاہ کو پیش کرتے ہوئ
بادشاہ سلامت اس بوٹی کو پکایا جائے پہلے اس کا آدھا اصہار ملکہ کو کھلایا جائے اور پھر اس کا باقی آدھا اصہار اس باورچن کو کھلا دیا جائے جو اسے پکائے فکیرنی یہ بات بتا رہی تھی اور بادشاہ بڑی توجہ اور اشتیار سے سن رہا تھا فکیرنی اپنی بات چاری رکھتے ہوئے کہنے لگی یہ بوٹی خانے سے ملکہ اور باورچن دونوں امیس سے ہو جائیں گی اور دونوں کے ہاں ایک ایک بیٹا پی
بادشاہ نے یہ سنا تو بہت خوش ہو گا اس نے فکیر نی کو بہت سا انام و اکرام دیا اور بوٹی لے کر محل میں پہنچا دی ساتھ ہی حدائت کی کہ بوٹی کو ابھی پکایا جائے اور فکیر نی کے کہنے کے مطابق آدھی ملکہ کو اور آدھی پکانے والی باورچن کو کھلا دی جائے بادشاہ کے حکم کی دیر تھی اسی وقت بوٹی پکائی گئی اور آدھی ملکہ اور آدھی باورچن کو کھلا دی گئی
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ملکہ اور باورچن دونوں ایک ہی وقت امیث سے ہو گئیں اور پھر ایک ہی دن دونوں کے ہاں ایک ایک بیٹا پیدا ہوا جیسے ہی یہ خبر بالشاہ کو ہوا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اس نے اسی وقت جشن منانے کا اعلان کیا اور ہر طرف خوشیاں منائی جانے لگی امیروں وزیروں کو منصف عطا کیے گئے خادموں اور نوکر چاکروں کو انعامات دیئے گئے اور غریبوں فقیروں میں جی کھول کر دولت
جب دونوں لڑکے تھوڑے بڑے ہوئے تو ایک ساتھ پڑھنے کے لئے جانے لگے دونوں خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ زہین بھی تھے اس لئے بڑی تیزی سے علم حاصل کرنے لگے اگرچہ وہ دونوں ہوشیار اور اقلمن تھے تاہم باورچی کا بیٹا بادشاہ کے بیٹے سے کہیں زیادہ زہین اور ہوشیار تھا یہی وجہ تھی کہ وہ علم حاصل کرنے میں زیادہ تیس تھا گو اُن میں سے ایک بادشاہ کا بیٹا تھا اور دوسرا باورچ
لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کو بھائی کہ کر پکارتے تھے اور بھائیوں ہی کی طرح ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے جب دونوں جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک روز بادشاہ کا بیٹا کہنے لگا بھائی چلو آج شاہی باگ کی سیر کریں جواب میں وابر چی کا بیٹا بولا میں اس وقت تک باگ میں نہیں جاؤں گا جب تک میرا باپ باگ کو خوشنما اور خوک سورت نہیں بنا دے گا
اتفاق کی بات یہ کہ ان دنوں شاہی باگ کی دیکھبھال مناسب طور پر نہیں ہو رہی تھی اور وہ صحیح حالت میں نہیں تھا جگہ جگہ گھانس اور جھاڑیاں اُگائیں تھی اسی وجہ سے وابرچی کا بیٹا اُداز تھا اسے اُداز دیکھ کر اس کا باپ پوچھنے لگا بیٹا کیا بات ہے تم اس قدر اُداز کیوں ہو؟ جوا میں لڑکے نے کہا تم بادشاہوں کے باگ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتے ہیں مگر ہمارے بادشاہ کا باگ
آخر ہمارا باگ خوبصورت کیوں نہیں ہے؟ دوسری طرف لڑکے کی اس بات کا علم جب بادشاہ کو ہوا تو اس نے اسی وقت حکم دیا کہ شاہی باگ کو جس قدر حسین بنائے جا سکتا ہے بنائے جائے اسے اتنا خوبصورت بنائے جائے کہ اس کی مثال نہ ملے بادشاہ کے حکم کی دیر تھی کہ اسی وقت باگ کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں مہرین تعمیرات
مجسمِ ساز بہترین مالی لکڑی کا کام کرنے والے کاریگر اور دوسرے لوگ بھیج دیا گئے جنہوں نے چند ہی روز میں باگ کو اس قدر حسین اور شاداب بنا دیا کہ وہ اپنی مثال آپ بن گیا اس طرح جب باگ کی آرائش و زیبائش مکمل ہو گئی تو دونوں بھائی باگ کی سیر کو گئے واقعی اس وقت باگ انتہائی حسین اور دیدہ زیب تھا ہر طرف فول ہی فول کھلے ہوئے تھے اور سر سبز و شاداب پودے اور درخت لہرہ رہے تھے
یہ دیکھ کر وہ دونوں بہت خوش ہوئے اور آپس میں باتہ کرتے ہوئے ادھر ادھر تہلنے لگے تہلتے تہلتے اچانک بادشاہ کے بیٹے کی نظر ایک مجسمے پر پڑی یہ مجسمہ ایک بادشاہ کی حسین و جمیل بیٹی کا تھا اور اس میں اس کا صرف چہرا اور دھڑ دکھایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ فنکاری کا عال نمونہ تھا اور پتھر کا ہونے کے باوجود زندگی سے بھر پور تھا یوں لگتا تھا جیسے شہزادی ابھی بول پ
بادشاہ کا بیٹا تھوڑی دیر تک مجسمے کو بڑے گور سی دیکھتا رہا اور پھر کہنے لگا بھائی یہ مجسمہ کس قدر حسین شہزادی کا ہے ہاں واقعی یہ بہت خوبصورت ہے اس نے جواب دیا جس پر بادشاہ کا بیٹا بولا جس شہزادی کا مجسمہ اس قدر حسین ہے وہ قدر کتنی خوبصورت ہوگی یقیناً وہ اس مجسمے سے کہیں زیادہ حسین ہوگی اتنا کہے کر وہ کسی سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں
کاش میں اسے حاصل کر سکتا مگر میں اسے قریح حاصل نہیں کر سکوں گا باورچی کے بیٹے نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بولا دلیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے مگر یہ کام مجھے ناممکن معلوم ہوتا ہے اس وقت بادشاہ کے بیٹے کے لحجے میں مایو سی کی جھلک تھی جسے اس کے بھائی نے بھی محسوس کر لیا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ کہنے لگا اگر تم اسے حاصل کرنے کیلئے جاؤ تو میں تمہارے ساتھ چلوں گا
لیکن یہ ہے کون اور کہاں ہوگی؟ کہیں تو ہوگی تلاش کرنے پر کیا نہیں ملتا؟ باورچی کے بیٹے نے اس کی حمد بند آئی اور اس طرح ان دونوں نے شہزادی کی تلاش میں جانے کا ارادہ کر لیا دونوں نے ضروری ساز و سامان لیا وڑے تیار کیے اور والدین سے اجازت لے کر شہزادی کی تلاش میں چل پڑے اگرچہ وہ دونوں شہزادی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے مگر انھیں امید تھے کہ ایک نا ایک روز اس تک ضرور پہنچ جائیں گ
وہ دونوں اپنے گھوڑوں کو سر پٹ دولاتے چلے جا رہے تھے چلتے چلاتے جب وہ ایک مہل کے پاس پہنچے تو شام ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا پھیلنے لگا آپس میں کہنے لگے یہ رات بسر کر لینی چاہیے چنانچہ انہوں نے گھوڑے روک لئے اور اس قلعے نمہ مہل کے پاس چلے گئے یہ مہل سارے کا سارا سہرنگ کا تھا اور آسپاس کوئی شخص نظر نہیں آ رہا تھا تھوڑی دیر تک مہ
جب وہ قلعے کے اندر گئے اور ادھر ادھر دیکھا تو وہاں بھی کوئی آدم ذات دکھائی نہ دیا ہیران ہو رہے تھے کہ یہ کیسا محل ہے جہاں کوئی آدمی نہیں ہے بہر صورت انہیں رات کو بسر کرنی ہی تھی ایک مناسب جگہ دیکھ کر انہوں نے اپنے گھوڑے بان دیئے اور خود بیٹھ گئے کھانے پینے کا جو سامن ساتھ لایا تھے وہ نکالا اور کھا کر سونے کیلئے لیٹ گئے بادشا کا بیٹا کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا تھا وہ ل
یوٹو باورچی کا بیٹا بھی تھکا ہوا تھا مگر وہ اپنے دل میں سوچنے لگا ایک تو یہ اجنبی جگہ ہے اور دوسری عجیب و گریب ہے ایسا نہ ہو ہم دونوں سو جائیں اور کوئی ہمیں نقصان پہچائے ہو سکتا ہے یہاں کوئی جن یا بھوٹ ہو اس لئے مجھے جاکتے رہنا چاہیے یہ سوچ کر اس نے بادشاہ کے بیٹے کو سونے دیا اور خود جاکتا رہا یوٹو باورچی بھی لیٹا ہوا تھا لیکن پوری طرح ہوشیار تھا اور ا
اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے کان ہر آہٹ پر لگے ہوئے تھے۔ اگر ہوا سے بھی زراسی سرسرہٹ ہوتی تو وہ چوک پڑتا۔ رات بیت رہی تھی اور جب رات کے گیارہ بجے تو اسے ایک طرف سے پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے دیکھا تو اس طرف سے تین نوجوان اور قوبصورت لڑکیاں آ رہی تھی۔ انھیں دیکھتے ہی وہ پہلے سے زیادہ حوشیار ہو گیا۔ اس ویران قلعے میں یہ لڑکیاں کون ہے؟ اس نے دل میں سو
کہ دیکھو لڑکیاں کیا کرتی ہیں۔ تینوں لڑکیاں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی ان کے قریب ہی آکر بیٹھ گئیں اور آپس میں تاش کھیلنے لگی۔ وہ ایک دوسرے سے بات کر رہی تھی اور کھیل بھی رہی تھی۔ ادھر باورچی کا بیٹا لیٹا ہوئے ٹک ٹکی لگائے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اسی طرح تاش کھیلتے ہوئے انہیں کافی وقت گزر گیا اور جب بارہ بجے میں تھوڑا بکفہ رہ گیا تو ایک ط
اس نے لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سلام میری بیٹھیوں سلام ابا جان تینوں لڑکیوں نے یک زبان اسے جواب دیا وہ بولا شخص بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گیا اور بولا میں تمہیں سنانے کیلئے ایک خبر لائے ہوں کون سی خبر ہے ابا جان ہمیں بتاؤ لڑکیوں نے بڑے اشتیار سے دریافت کیا اس پر بولا کہنے لگا ایک بہت ہی دولت مند بادشاہ کا بیٹا اپنے گھڑے پر سوار ہو کر آیا ہے اور اس کے سات
وہ ایک بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا وہ کیوں؟ دنکیوں نے تاججب سے باب سے سوال کیا وہ کامیاب کیوں نہیں ہوگا؟ اسے کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ جواب میں بولا بولا وہ اور اس کا بھائی یہ بات نہیں جانتے کہ وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر شہزادی کو تلاش نہیں کر سکتے وہ شہزادی کو صرف اسی صورت میں تلاش کر پائیں گے جب اپنے گھوڑوں کی
اس وقت بابر چی کا بیٹا خاموشی سے لیٹا ہوا بوڑے کی تمام باتیں غور سے سن رہا تھا اب تو باقی اس کی نیند اڑ گئی تھی ادھر بوڑا کہہ رہا تھا ایک بات اور ہے وہ کیا ہے لڑکیوں نے پھر سوال کیا اور جواب میں بوڑے نے کہا وہاں دیبار کے سانت لوہے کی ایک چھڑی رکھی ہوئی ہے یہ چھڑی بھی انہیں اپنے سانت لے جانی چاہیے کیونکہ آگے چل کر ایک دریا آئے گا اگر یہ اس چھ
اس طرح یہ دریا پار کر سکیں گے اس کے بغیر دریا پار کرنا ان کے لیے ناممکن ہوگا پھر جیسے ہی ٹھیک 12 بجے کا وقت ہوا بوڑا اور لڑکیاں وہاں سے چلی گئی لیکن باورچی کے بیٹے نے ان کی تمام باتیں ذہین نشین کر لی تھی چنانجہ جو ہی سبہ ہوئی وہ اٹھا اور گھوڑوں کو چارہ ڈالا اس کا بھائی بھی بیدار ہو چکا تھا دونوں نے ناشطہ کیا اور چلنے کی تیاری کرنے لگے باورچی کا ب
وہ محل میں ایک جگہ گیا اور اس نے وہاں سے لوہے کی چھڑی لے لی اس کے بعد اس نے بودے کے دونوں گھوڑے کھولے اور انہیں لے آیا یہ کیا کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم اس نے جواب دیا اور اپنے گھوڑوں کی زینے اتار کر ان گھوڑوں پر ڈالیں پھر بھائی سے کہنے لگا آؤ اب چلیں اس طرح انہوں نے اپنے گھوڑے وہیں چھوڑے لوہے کی چھڑی ساتھ لے اور بودے کے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنے اگل
چلتے چلاتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں دریا تھا اور جسے پار کرنا ناممکن تھا لیکن باورچی کا بیٹا بوڑے کی بتائی ہوئی لوہے کی چڑی اپنے ساتھ لے آیا تھا لہذا اس نے آگے بل کر پانی پر چڑی ماری اور اس کے ساتھ ہی دریا کا پانی پھٹ گیا دریا کے پارٹ میں ایک راستہ بن گیا تھا جس سے گزر کر وہ دریا کے پار چلے گئے جب وہ دریا کے پار نکل گئے تو پانی کا پارٹ پھر سے مل گیا اور وہ دونوں
اسی طرح چلتے چلتے سفر کرتے ہوئے وہ دونوں اسی شہزادی کے شہر میں پہنچ گئے جس کا مجسس مہا انہوں نے اپنے باغ میں دیکھا تھا وہ وہاں پہنچ تو گئے تھے مگر اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شہزادی تک کیسے پہنچیں یہی کچھ سوچتے ہوئے بادشاہ کا بیٹا کہنے لگا شہزادی کو حاصل کرنا تو بات کی بات ہے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس تک پہنچے کیسے گھبراؤ نہیں کوئی نہ کوئی سب
باورچی کے بیٹے نے اسے تسلی دی اس کے بعد وہ کہنے لگا میرے ذہن میں ایک ترقیب آئی ہے وہ کیا تو میں بتاتا ہوں پہلے تم میرے سانت آو وہ دونوں ایک سنار کے پاس گئے اور باورچی کا بیٹا سنار سے کہنے لگا ہمیں سونے کا ایک بارہ سنگہ بنا دو اس کے ساتھ ہی اس نے کہا یہ بارہ سنگہ اتنا بڑا ہو کہ اس کے پیٹ میں ایک آدمی بیٹھ سکے اور اس کو پہیے بھی لگے ہونے چاہیے سنار نے ج
کہ اس کی تیاری میں چند روز لگیں گے اور اس پر بہت قیمت آئے گی قیمت کی پروہ نہ کرو تم جو کہو گے تمہیں ملے گا انہوں نے سنار کو یقین دلائیا اور سنار نے بارہ سنگہ تیار کرنا شروع کر دیا جو چند ہی روز میں مکمل ہو گیا یہ بارہ سنگہ خاصہ بڑا تھا اور اس کے چھوٹے چھوٹے پہیے تھے اور اس سے تہبی کیا جا سکتا تھا اس کے نیچے پیٹ میں ایک دروازہ تھا جس میں سے ایک آدمی اندر داخل ہو کر پیٹ میں بیٹھ س
اس کے علاوہ اس کے اندر ایک کلوک تھا جس کی آواز بڑی سرلی تھی جب بارا سنگے کو کھیچا جاتا تو اس کے اندر سے بہت ہی سرلی آواز سنای دیتی یہ بارا سنگہ اپنی جگہ ایک عجوبہ دکھائی دیتا تھا جب بارا سنگہ تیار ہو گیا تو بابرچی کے بیٹے نے بادشاہ کے بیٹے کو اس کے اندر داخل کر دیا اور خود اسے کھیچتا ہوگا اس بازار میں لے آیا جو شاہی مہل کے قریب تھا بارا سنگہ ایک تو سونے کا تھا
دوسرا اسے کھیچتے وقت بڑی سلیلی آواز نکلتی تھی اور تیسرا یہ کہ اس قدر خوبصورت تھا کہ جو بھی اسے دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا جب آورچی کا بیٹا اسے کھیچتا ہوا بازار میں لایا ان اس وقت شہزادی اپنی چھے کنیزوں کے ساتھ پالکی میں بیٹھ کر عبادت کے لیے جا رہی تھی جو ہی اس کی نظر بارہ سنگے پر پڑی وہ رک گئی اسے یہ بہت ہی دلچسپ دکھائی دیا کیونکہ اس نے آج تک اس قسم کا کوئ
وہ اس وقت تو چند لمے وہاں ٹھہر کر چلی گئی لیکن عبادت سے واپس پر اس نے وہاں اپنی پالکی رکھوالی باورچی کے بیٹے نے جب شہزادی کو دیکھا تو وہ اسے ادھر ادھر کھیچنے لگا جس سے اس کے اندر لگا ہوا کلوپ چلنے لگتا اور سوریلی آوازیں نکلنے لگتی شہزادی کو یہ منظر اتنا پسند آیا کہ وہ وہاں رکھ کر اس سے لطف انداز ہونے لگی اسے وقت کا بھی احساس نہ رہا یہاں تک
میں اس بارہ سنگے کو کھیچ کر گھر نہیں لے جا سکتا اس لئے رات بھر کے لیے اسے یہی چھوڑ جاتا ہوں اس پر شہزادی نے اس سے کہا اس قدر قیمتی اور دلچسپی چیز کو یہاں چھوڑنا مناسب نہیں ہے تم اسے شاہی مہل میں میرے کمرے میں پہنچا دو باورچی کا بیٹا تو خود یہی چاہتا تھا وہ فوراً راضی ہو گیا اور شہزادی سے کہا آپ ٹھیک کہتی ہیں میں ایسا ہی کرتا ہوں اس نے تو یہ بارہ سنگہ بنوایا ہ
کہ کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو شہزادی کے پاس پہنچا دے اور اب یہ موقع خودبہ خود ہاتھ آ گیا تھا وہ چپکے سے بادشاہ کے بیٹے کو کہنے لگا میں تمہیں شہزادی کے پاس چھوڑ کر چلا آوں گا اور رات کو خود بھی تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا اور پھر ہم شہزادی کو ساتھ لے کر اپنے گھوڑے پر نکل جائیں گے اس طرح باورچی کا بیٹا سونے کا بارا سنگا شہزادی کے پاس چھوڑ کر چلا آیا اور پ
وہ اس کی موسیقی سنتی اور خوش ہوتی۔ اسے دل بہلانے کی یہ اچھی چیز مل گئی تھی۔ رات تک اس کے ساتھ کھیلتی رہی، یہاں تک کہ خواب گاہ میں جانے کا وقت ہو گیا۔ جیسے ہی وہ خواب گاہ میں جانے لگی، اس کے ساتھ ہی بادشک کا بیٹا بارہ سنگے کے پیٹ میں سے باہر نکل آیا۔ شہزادی کے بہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بارہ سنگے کے اندر ایک نوجوان چھپا ہو گا ہے۔ اس نے جب اپنے سامنے ایک ہسین ن
بادشاہ کے بیٹے نے اس طرح حق کا بکت دیکھا تو نرم لہجے میں بولا شہزادی مصدروں نہیں پھر اس نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہیران ہونے کی ضرورت نہیں میں فلا بادشاہ کا بیٹا ہوں اور تمہیں لےنے کیلئے آیا ہوں یوں تو شہزادی پہلی نظر میں ہی اسے دل دے بیٹھی تھی تاہم وہ ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پائی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ ابھی تک ہیران کھڑی تھی بادشاہ کے بیٹے نے اسے بتا
کہ یہ سارا ڈھونگ محض تم تک پہنچنے کے لیے رچائے گیا تھا اور جو نوجوان یہاں بارہ سنگہ چھوڑ کر گیا ہے وہ میرا بھائی ہے شہزادی نے جب اس کی پوری بات سنی تو اسے اتمینان ہوا بیسے بھی وہ نوجوان پر فریفتہ ہو چکی تھی اس نے کچھ دیر تک سوچا اور پوچھنے لگی مگر ہم یہاں سے جا کیسے سکتے ہیں یہ بات تم مجھ پر چھوڑ دو بادشاہ کے بیٹے نے جواب دیا اور پھر بتایا میرا بھائ
اس کے ساتھ دو تیز رفتار گھولے بھی ہوگے جن پر سوار ہو کر ہم آسانی سے چلے جائیں گے پہلے تو شہزادی کچھ ہچکے چائی مگر پھر وہ اس کے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی اور اب وہ دونہ باورچی کے بیٹے کا انتظار کر رہے تھے پھر جیسے ہی اس کا بھائی رات کو آیا تو وہ دونہ پہلے ہی سے تیار بیٹھے تھے چنانچہ تینوں دبے دبے پاؤں نکلے بادشاہ کا بیٹا اور شہزادی ایک گھولے پر باورچی کا
اور وہاں سے اس طرح ہوا ہو گئے کہ محل میں کسی کو کان و کان خبر نہ ہو سکی دوسری صبح شہزادی کو نین سے بیدار کرنے والے موسیقہ رائے اور حسوِ معمول اس کی خواب گا کے باہر موسیقی کی دھونے بجانے لگے لیکن کافی دیر ہو جانے کے باوجود شہزادی کے بیدار ہو جانے کے کوئی آثار دکھائی نہ دیئے حالانکہ پہلے تو وہ فوراً بیدار ہو جاتی تھی انہوں نے کھڑکی کے پاس جا کر آواز دی لیکن اس کا بھی انہیں
یہ دیکھ کر موسیقیار گھبرہ گئے اور بھاگے بھاگے بادشاہ کے پاس گئے اور آرس کیا حضور آج شہزادی بیدا نہیں ہو رہی ہیں یہ سن کر بادشاہ نے کہا کوئی بات نہیں اسے ابھی گھنٹہ بھر کے لیے مزید سونے دو رات وہ سونے کے بارہ سنگے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیر تک جاکتی رہی ہوگی موسیقیار چلے گئے اور تقریباً ایک گھنٹے بعد پھر جا کر شہزادی کی خواب گا کے باہر موسیقی کی دھ
مگر اب بھی انھیں شہزادی کے بیدار ہونے کے آسال دکھائی نہ دئیے۔ انھوں نے کھڑکی کے پاس جا کر پکارا بھی اور وہاں سے کوئی جواب نہ پا کر وہ فر بھاگے بھاگے بادشاہ کے پاس گئے اور عرض کرنے لگے حضور شہزادی اب بھی بیدار نہیں ہو رہی۔ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ اسے اب تک بیدار ہو جانا چاہیے تھا۔ بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بھی فکر ہوئی۔ وہ جلدی سے شہزادی کی خواب گا کی طرف گیا اور اس کا
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں شہزادی کا نام و نشان نہ تھا صرف سونی کا بارہ سنگہ پڑا ہوا تھا جس کے پیٹ کا دروازہ خلہ ہوا تھا اس نے اسی وقت سپاہیوں کو پکارا اور حکم دیا شہزادی کا پیچھا کیا جائے اور ہر صورت میں اسے تلاش کر کے واپس لایا جائے بادشاہ کا حکم ملتے ہی شاہی سپاہی شہزادی کے پیچھے دولے لیکن بہت دیر ہو چکی تھی
اس دوران میں بادشاہ اور باورچی کا بیٹا شہزادی کو لے کر اسی دریہ کے پاس پہنچ چکے تھے جسے وہ پار کر کے آئے تھے وہاں پہنچ کر باورچی کے بیٹے نے پھر لوہے کی چڑی دریہ کے پانی پر ماری اور پانی کا پٹ پھٹ گیا دریہ نے انہیں راستہ دے دیا اور وہ پار نکل گئے جب ان کا پیچھ کرنے والے شاہی سپاہی وہاں تک پہنچے تو اس وقت وہ تینوں دریہ پار کر کے دور جا چکے تھے اور بادشاہ کے بھیجے ہوئے
وہ تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ ڈورتے چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ پھر اسی سیحر رنگ کے مہل کے پاس پہنچ گئے جہاں آتے وقت انہوں نے رات پسر کی تھی اور اس وقت بھی شام ہو رہی تھی جب وہ وہاں پہنچے تو اس وقت تینوں تھکے ہوئے تھے انہوں نے مہل میں جا کر دونوں گھوڑے وہی بان دیئے جہاں سے کھولے تھے لوہے کی چڑی بھی اسی جگہ رکھ دی جہاں سے لی تھی اور قد سونے کیلئے ل
مگر باورچی کا بیٹا تھکا ہوا ہونے کے باوجود بھی نہ سویا وہ اپنے دل میں سوچنے لگا مجھے سونا نہیں چاہیے یقین ان آج کی رات بھی کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی یہی کچھ سوچ کر وہ سویا نہیں اور چوکنہ ہو کر لیٹا رہا پھر جیسے ہی رات کے گیارہ بجے اس نے دیکھا وہی تینوں لڑکیاں آئیں اور ان کے قریب بیٹھ کر تاش کھیلنے لگیں پھر جب بارہ بجنے میں کچھ وقت رہ گیا تو وہی سف
سلام بیٹیوں! سلام ابا جان! تینوں لڑکیوں نے ایک سانت جواب دیا اس کے بعد وہ اپنے باپ سے پوچھنے لگی ابا جان کوئی اچھی خبر؟ اس پر ان کا باپ کہنے لگا بادشاہ کا بیٹا شہزادی کو تو لے آیا ہے مگر یہ اس کی نہ ہو سکے گی وہ کیوں ابا؟ لڑکیوں نے قدر حیران ہو کر باپ سے سوال کیا اور پھر اس کا جواب سنے بغیر پوچھنے لگی شہزادی اس کی کیسے ہوگی؟ جواب میں بولا کہنے لگا
جب بالشاہ کا بیٹا واپس پہنچے گا تو اس کی سوتیلی ما تازہ پانی سے بھرا ہوگا ایک گلاس لاے گی جس میں زہر ملا ہوگا ہوگا اگر اس نے وہ پانی پیلیا تو فوراً مر جائے گا اور اگر اس نے وہ پانی نہ پیا تو اس کی ما ایک گھوڑا لاے گی اس گھوڑے پر بارود ہوگا اگر وہ اس پر سوار ہوگا تو اس کی ما اسے آگ دکھا دے گی اور وہ گھوڑے سمیت اٹ جائے گا
اور اگر وہ گھوڑے کو آگ نہ لگا سکی تو پھر وہ رات کو ان کی خواب گامیں آئے گی اور آگ لگا کر دونوں کو جلا دے گی مگر ابا جان اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ لڑکیوں نے باپ کی بات کاتتے ہوئے دریافت کیا جباب میں گھوڑے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اگر اس وقت ان کے کمرے میں کوئی ہو اور دونوں کی جسموں کو اپنی زبان سے چاٹ لے تو پھر آگ انہیں جلا نہیں سکے گی آگ کا ان پر اثر نہ ہوگا
لڈکیوں نے تاج جب سے باب کی طرف دیکھا اس پر بوڑے نے بتایا لیکن یہ کہ ان کا جسمے چاتنے والے نے اگر اپنی کہانی کسی کو سنا دی تو اس کی اپنی زندگی ختم ہو جائے گی جب وہ اپنی کہانی سناتے سناتے آخری الفاظ تک پہنچے گا تو فوراً پتھر کا ہو جائے گا جب بوڑے نے اپنی بات مکمل کی اس وقت رات کے ٹھیک بارہ بجے تھے اور یہ ان کے جانے کا وقت تھا
لہذا جیسے ہی بوڑے نے اپنی بات ختم کی اس کے ساتھ ہی بوڑا اور تینوں لڑکیاں غایب ہو گئیں ادھر بابرچی کا بیٹا لیٹا ہوا جاگ رہا تھا اور اس نے لڑکیاں اور بوڑے کی ساری گفتگو سن لی تھی جب صبح ہوئی تو اس نے اپنی گھوڑوں پہ تیار کیا شہزادہ اور شہزادی بھی بیدار ہو چکے تھے انہوں نے ناشطہ کیا اور اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر پھر سے سفر پر روانہ ہو گئے جب وہ ا
اس کے ہاتھ میں تازہ پانی سے بھرہ ہوا گلاس تھا جو اس نے بادشاہ کے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا پیارے بیٹے یہ تازہ پانی کا گلاس پی لو تاکہ جب تم اپنے باپ کے پاس جاؤ تو تھکے ہوئے دکھائی نہ دو اس نے گلاس آگے بڑھایا ہی تھا کہ باورچی کا بیٹا جلدی سے بولا یہ پانی مطہ پینا ہم نے اب تک تکا بٹ میں اس قدر طبیل سفر تے کیا ہے اب تھوڑا سا رہ گیا ہے وہ بھی تے کر لیں گے
اس طرح وہ آگے بڑھ گئی مگر ابھی تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ بادشاہ کی بیٹے کی سوتیلی ماہ پھر سامنے آ گئی اب اس کے ساتھ ایک گھوڑا تھا وہ کہنے لگی پیارے بیٹے اس تازدم گھوڑے پر سوار ہو جاؤ تاکہ تم تھکے ماندے گھوڑے پر اپنے باپ کے پاس نہ جاؤ باورچی کا بیٹا پھر آگے بڑھا اور اسے منع کرتے ہوئے بولا اس گھوڑے پر سوار مطہ
اسی طرح اس نے بادشاہ کے بیٹے کو نہ زہریلا پانی پینے دیا اور نہ بارود والے گھوڑے پر سوار ہونے دیا اور وہ صحیح سلامت اپنے گھر تک پہنچ گئے مگر باورچی کا بیٹا ابھی تک فکر من تھا وہ اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ ابھی ایک خطرہ اور باپی ہے رات کو جب بادشاہ کا بیٹا اور شہزادی اپنے کمری میں سوئے ہوں گے تو اس کی سوطلی ماہ آگ لگا دے گی
وہ ان دونوں کو بچانے کیلئے تجبیزہ سوچنے لگا اور جو ہی رات ہوئی وہ ان کے کمرے میں جا کر چھپ گیا پھر جب بادشاہ کا بیٹا اور شہزادی دونوں سو گئے تو وہ تلوار سنت کر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا اتنے میں اس نے دیکھا کہ سوتیلی ماں دبے پاؤں کمرے میں آئی اور کمرے میں آگ لگا کر وہاں سے بھاگ گئی جیسے ہی وہ گئی اس نے لپک کر بادشاہ کے بیٹے اور شہزادی کے جسموں کو چاٹ لیا جس کی وجہ سے آ
مگر اتفاق سے بادشاہ کا بیٹا جاک پڑا اس نے دیکھا تو باورچی کا بیٹا ان کے کمرے میں تلوار سوٹے کھڑا تھا وہ چونک پڑا اور اس کے دل میں شک پیدا ہو گیا اس نے خیال کیا کہ اس کا بھائی اسے قتل کرنے کے لیے آیا ہے یہ خیال کر کے اس نے شور کر دیا اور اسی وقت باورچی کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر صبح اسے فانسی کی سزا دی گئی وہ بیچارہ پریشان تھا اور دل میں سوچ رہا تھا
کہ اگر میں نے سب کچھ بتا دیا تو پتھر کا بن جاؤں گا اور اگر نہیں بتا تا تو فانسی پر چڑھا دیا جاؤں گا وہ شش و پنج میں گرفتار تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے آخر اس نے فیصلہ کیا کہ سچ بتا دینا چاہیے ہوا کچھ بھی کیوں نہ ہو موت تو دونوں صورتوں میں ہیں پھر کیوں نہ سچ بتا کر مراجائے چنانجے جیسے ہی اسے فانسی کے تختے پر لے جایا گیا اس نے بادشاہ کے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مجھے چند
تاکہ میں سچ سچ ساری بات بتا سکوں پھر چاہے مجھے فانسی پر چڑھا دیا جائے تمہیں اجازت ہے بادشاہ کے بیٹے نے اسے اجازت دے دی اور اس نے اپنی کہانی سنانا شروع کی میرے بھائی سنو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور بڑے گور سے اس کی بات سن رہے تھے شہزادی کی تلاش میں جاتے ہوئے جب ہم سیہارنگ کے مہل میں پہنچے تھے اور وہاں ر
تو تم سو گئے تھے لیکن میں جاکتا رہا تھا جب رات کے گیارہ بجے تو وہاں تین لڑکیوں آئیں اور تاش کھیل لگی تھوڑی دیر کے بعد ایک سفید بالوں والا بورا آیا جو ان لڑکیوں کا باپ تھا اس نے محل میں رات کو پیش آنے والا پورا واقعہ بیان کیا جب وہ شہزادی کو لے کر آئے تھے اور آتے میں پھر اسی محل میں رات گزاری تھی باورچی کے بیٹے نے اس رات میں پیش آنے والے حالات کا بھی ذکر کیا اس کے س
اور ان کے باپ کی ساری گفتگو بھی بیان کی اور بتایا کہ میں نے بوڑے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تمہیں شہزادی تک پہنچایا اور اسی کی ہدایت کے مطابق تمہیں جان بچائی اس طرح اس نے شروع سے آخر تک پوری کہانی سنائی اور جب اپنی بات مکمل کرتے ہوئے ان الفاظ تک پہنچا میں تلوار لیے تمہیں اور شہزادی کی حفاظت کیلئے کھڑا تھا اگر میں تم دونوں کا جسم نہ چاٹتا تو تم دونوں آگ میں جل جاتے جیسے ہی
اس کے ساتھ ہی وہ پتھر کا بن گیا ادھر بادشاہ کے بیٹے کو جب ساری حقیقت کا علم ہوا تو اسے بہت افسوس ہوا وہ اپنے دل میں سوچنے لگا میرے بھائی نے میرے ساتھ اتنی نیکی کی اور میں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا اس نے میری جان بچائی اور میں اس کی جان لے رہا ہوں اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کا بھائی پتھر کا کیوں بنا ہے اور اس کا علاج بھی اسی بوڑے کو معلوم تھا جو سیارنگ کے مہل میں رہتا تھا اس نے اسی وقت ا
میرا گھوڑا فورا تیار کیا جائے اور جب اس کا گھوڑا تیار ہو گیا تو وہ اس پر سوار ہو کر اسی مہل کی طرف روانہ ہو گیا اس وقت اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کسی طرح اُڑھ کے وہاں پہنچ جائے ایک ایک لبنہا اس پر بھاری گزر رہا تھا لیکن سفر تو آخر سفر تھا اسے راستہ تو تیگ کرنا ہی تھا اور راستہ بھی دن بھر کا تھا اسی لیے وہ گھوڑے کو سر پٹ دوڑا تا ہوئے چلا جا رہا تھا
بلکہ گھوڑے کو تیس سے تیس تر دوڑا تا رہا یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اسی سیحرانکے مہل میں پہنچ گیا وہاں جاکر اس نے پہلے کی طرح گھوڑے کو ایک طرف بان دیا اور قد اسی جگہ لیٹ گیا جہاں باورچی کا بیٹا لیٹا تھا آہستہ آہستہ شام گہری ہوتی گئی اور پھر رات کے اندھیرے فھیلنے لگے بادشاہ کا بیٹا خاموشی سے لیٹا ہوا تھا اس وقت وہ بلکل حوشیار تھا اور اس کے
اسی طرح رات گزرتی گئی اور پھر جب کیارہ بجی کا وقت ہوا تو اس نے دیکھا کہ مہل کی ایک جانب سے تین حسین و جمین لڑکیاں آئیں اور اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ کر تاش کھیل لے لگی وہ اس طرح بےحسو حرکت لیٹا ہوگا تھا جیسے سو رہا ہو مگر وہ سویا نہیں تھا بلکہ پوری طرح چوکنہ ہو کر جاگ رہا تھا بڑے گور سے لڑکیوں کی باتیں بھی سن رہا تھا اور ان کی ہر حرکت پر اس کی نظریں تھی
لڑکیاں تاش کھیل رہی تھی اور وہ ان پر نظریں جمعے لیٹا ہوا تھا پھر جب بارہ بجے میں کچھ وقت باقی تھا تو اس نے دیکھا وہاں ایک سفید بالوں والا بولا آیا اور اس نے آتے ہی کہا سلام میری بیٹیوں سلام ابا جان تینوں لڑکیوں نے ایک ساتھ جواب دیا اور پھر اپنے باپ سے پوچھنے لگیں ابا جان کوئی خبر؟ اس پر بولا بولا راز ظاہر ہو چکا ہے اور راز ظاہر کرنے والا پتھر بن چکا ہے
مگر ابا جان اب وہ دوبارہ زندہ کب اور کیسے ہوگا؟ لڑکیوں نے اپنے باپ سے سوال کیا جیسے ہی انہوں نے یہ سوال کیا بادشاہ کا بیٹا اور بھی زیادہ ہوشیار ہو گیا اب وہ پہلے سے بھی زیادہ توجہ سے ان کی باتیں سن رہا تھا اس کے دوبارہ زندہ ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ کیا ہے؟ لڑکیوں نے جلدی سے پوچھا جس کے جواب میں بولے نے بتایا
ہمارے تیر کھانے میں ایک ڈبہ ہے جس میں مرہم ہے اگر کوئی شخص یہ مرہم لے جائے اور تھوڑا سا مرہم پتھر بنے ہوئے اس نوہ جوان پر مل دے تو وہ پہلے کی طرح پھر سے زندہ ہو جائے گا اتنی بات کہ کر بولا خاموش ہو گیا اور پھر حسرت بھرے لہجے میں بولا ہمارے مہل پر بھی جادو کا اثر ہے اگر کوئی شخص یہی مرہم یہاں کی ہر چیز پر تھوڑا مل دے تو ہم سب بھی جادو کے
جو ہی بولے نے یہ الفاظ کہے این اس وقت رات کے ٹھیک بارہ بچ گئے اور اس کے ساتھ ہی بولا اور اس کی بیٹھییں غائب ہو گئیں اب وہاں صرف بادشاہ کا بیٹا رہ گیا تھا جو تنہا لیٹا ہوا صبح کا انتظار کر رہا تھا جو ہی صبح ہوئی بادشاہ کا بیٹا جلدی سے اٹھا اور ادھر ادھر گھوم کر تیخانہ تلاش کرنے لگا اسے زیادہ دیر نہ لگی اور تیخانہ مل گیا پھر اس نے وہاں مرحم کا وہ ڈبہ بھی ڈھون لیا ج
اس وقت اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس نے آزمانے کی خاطر تھوڑا سا مرہم مہل کے آہدے میں پتھر کے جانبروں پر ملا اور دیکھا کہ پتھر کے وہ جانبر زندہ نظر آ رہے تھے کتے بلنیاں اور دوسرے جانبر ہر طرف گھوم رہے تھے یہ دیکھ کر اس نے وہاں کی ہر چیز پر تھوڑا تھوڑا مرہم لگایا یہاں تک کہ مہل کی دیوار پر بھی ملا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف زندگی کی چہل پہلے
پلنگ چپکتے میں رستہ بستہ دکھائی دے رہا تھا وہاں کی ہر چیز جادو کے اثر سے نجات پاچھ چکی تھی یہ سب کچھ کرنے کے بعد بادشاہ کا بیٹا جلدی سے اپنے گھولے پر سوار ہوا اسے ایڈ لگائی اور گولی کسی تیزی سے اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا اس وقت وہ گھنٹوں کا سفر لمحوں میں تیر کرتا ہوا جا رہا تھا کیونکہ وہ جلدی سے جلدی اپنے شہر پہنچ جانا چاہتا تھا اور ہوا بھی یہی وہ
وہاں جاتے ہی وہ سب سے پہلے سیدھا اپنے بھائی کے پاس گیا جو پتھر بنا ہوا تھا اس نے جلدی سے ڈبہ نکالا اور اس میں سے تھوڑا سا مرحم نکال کر اس پر مل دیا مرحم کا لگانہ تھا کہ اس کے ساتھ ہی باورچی کا بیٹا زندہ ہو گیا اور انگلائی لیتے ہوئے بولا اوہ میں کس مزے کی نین سو رہا تھا بھائی تم سوے نہیں تھے بلکہ پتھر بن گئے تھے بادشاہ کے بیٹے نے اسے بتایا اور پھر اپنی پوری کہانی سن
کہ کس طرح وہ اسی سیحرنگ کے مہل میں گیا اور وہاں سے مرحم لایا ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ اب وہ مہل اور وہاں کی ہر چیز جادو کے اثر سے آزاد ہو چکی ہے کیونکہ اس نے ہر چیز پر مرحم لگا دیا تھا یہ سب کچھ بتانے کے بعد اس نے اپنے بھائی سے مافی مانگتے ہوئے کہا بھائی مجھے ماف کر دو یہ میری گلطی تھی کہ میں نے تم پر شک کیا اور میری وجہ سے تمہیں تکلیف برداشت کرنی پڑی
تکلیف تو تمہیں ہوئی جو میری وجہ سے پھر سفر کرنا پڑا اور نا جانے کتنی مشکلوں سے مرہم لائے دونوں بھائی ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھر سے پہلی سی محبت کے ساتھ اکھٹے رہنے لگے بادشاہ کے بیٹے نے اپنے بھائی کے لیے ایک خوبصورت لڑکی تلاش کر کے اس کی شادی کر دی اور اسے اپنی سلطنت کے ایک علاقے کا حکمران بنا دیا جہاں اس کے لیے ایک آلیشان مہل تعمیر کر دیا گیا
اس طرح وہ سب ہسی خوشی زندگی گزارنے لگے
What's Your Reaction?