دو دوست اور تلسیمی شہزادیاں

دو دوست اور تلسیمی شہزادیاں

Nov 2, 2024 - 11:04
 0  5
دو دوست اور تلسیمی شہزادیاں
دو دوست اور تلسیمی شہزادیاں


 پیارے دوستو کسی شہر میں ایک مچھیرا رہتا تھا اس کی ایک بیوی اور تین لڑکے تھے یہ بہت غریب آدمی تھا اس کی روزی اور زندگی صرف مچھلی کے شکار پر تھی اسی وجہ سے اس شکاری کی اور اس کے بال بچوں کی بڑی مشکل سے زندگی بھسر ہوتی تھی وہ ہر روز مچھلی پکننے کے لیے دریہ کے کنادے چلا جاتا تھا دن بھر مہنت مشکل کرت


وہ لے کر اپنے گھر آتا۔ رات کو اس کی بیوی یہی مچھلی پکاتی اور خدا کا شکر کر کے وہ اور اس کی بیوی بچے کھا کر سو جاتے۔ اسی صورت سے یہ خاندان مدد سے زندگی گزار رہا تھا۔ ایک روز مچھیرے کی بیوی نے کہا تم اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو روز اپنے ساتھ لے جائے کرو۔ ممکن ہے ہماری قسمت جاگے اور خدا ہم کو اس سے زیادہ روزی دے۔ مچھیرے بولا بہت اچھی بات ہے دوسرے دن


کچھ شکار لڑکے نے اور کچھ اس کے باپ نے کیا آج اللہ نے برکت دی دونوں باپ بیٹے اور دنوں سے زیادہ مچلیاں لے کر گھر آئے آج اس نے اور اس کی بیوی بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا پیا اور کچھ مچلی بیج دی دوسری دن اپنے منجلے بیٹے کو ساتھ لے کر ربانہ ہوا اس روز خدا نے پہلے دن سے بھی زیادہ دیا اس نے اور اس کی بیوی بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا اور جو کچھ مچلی بچی وہ بازار جا کر بی


تیسرے دن اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر وہ دریا کے کنارے پہنچا۔ اس بچے کا نام شےخ ترار تھا۔ مچھے رے نے اپنا جال پھیکا اور تھوڑی دیر بعد اسے کھیچا۔ جال بہت بھاری معلوم ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے کو بکارا۔ ان دونوں نے زور لگا کر کھیچا۔ جب جال پانی سے بہر آیا تو انہوں نے دیکھا۔ اس میں ایک بہت بڑی مچھلی ہے۔ اتنی بڑی اور ایسی خوبصورت مچھلی نہ کبھی


مچیرہ بہت خوش ہوا اس کی بانچیں کھل گئیں اور اپنے جی میں سوچنے لگا آج تو ضرور ہماری قسمت جاگ جائے گی میری بیوی بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوگی ہم اسے بازار میں لے جا کر بیچیں گے تو بہت سارا پیسہ ملے گا بچوں اور اس کی ماہ کے کپڑے بہت پڑھ گئے ہیں سب کو نئے کپڑے لا کر دوں گا اور انھیں اچھی اچھی چیزیں لا کر کھلاوں گا سوچا اس کو گھر تک لے جانا تو دشوار ہے لا


مگر پھر دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کرنا چاہیے؟ اس کی سمجھ میں ایک اور بات آئی اس نے اپنے لڑکے سے کہا بھٹا یہ مچلی ہم ثابت لے جائیں اور بہشاہ سلامت کے حضور توفہ پیش کریں وہ بہت انعام و کرام دیں گے میں اور میرے بھوکے لنگے بچے مالا مال ہو جائیں گے اچھا میرے بھٹے شیخ ترار تم یہیں اس مچلی کے پاس بیٹھو اس کی حفاظت کرو میں بازار جا کر اونٹ لاتا ہوں


شیخ ترار بولا، اچھا اب با جان یہ بہت اچھی بات ہے۔ وہ مچلی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا باپ اونٹ لے لے چلا گیا۔ اب ترار کیا دیکھتا ہے کہ مچلی اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اس نے کہا، شیخ ترار، اِدھر دیکھو، تم میرے ساتھ دیکھنے کی کرنے کو تیار ہو۔ ترار یہ بات سنکر حیران رہ گیا اور اپنے جی میں کہنے لگا، ارے یہ کیا قصہ ہے؟ مچلی اور آدمیوں کی طرح بات کرے۔


اس نے جھٹ مچلی کی طرف مو کر کے کہا کہو بھی مچلی تم کیا کہتی ہو اور مصدر سے کیسے نیکی چاہتی ہو میں ضرور نیکی کروں گا مچلی بولی تم مجھے جال سے نکال دو میں اپنے بچوں کو دھوٹ پلہ آوں میں ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گی شیخت رار بولا نہیں تم جاؤ گی تو پھر واپس نہیں آو گی اور میرا باپ آ جائے گا تو مجھے خوب مارے گا مچلی بولی


نہیں میں بچوں کو دھوٹ بلا کر بہت جلد واپس آجاؤں گی اور وہ یہ کہہ کر جال میں تڑپنے لگی آخر اس کی بیکراری اور پریشانی دیکھ کر شیخ ترار کو اس پر ترس آیا شیخ نے اسے جال سے نکالا اور دریہ میں چھوڑ دیا مچلی نے جال سے چھٹکارا پا کر اپنا رستہ لیا شیخ ترار بہت دیر تک بیٹھا ہوا مچلی کا رستہ دیکھتا رہا مگر مچلی نہ آئی آخر اس کا باب واپس آ گیا اس نے خالی جال دیکھ کر پوچ


مچلی کہاں ہے؟ شیخ ترار بولا اب با جی اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جا کر اپنے بچوں کو دھوٹ پلائے ہوں تم مجھے چھوڑ دو دھوٹ پلائے کر میں واپس آ جاؤں گی اس نے کہا میرے ساتھ نیکی کرو اس کی حالت دیکھ کر مجھے اس پر بڑا تھرس آیا اور یہ بھی خیال ہوا کہ بھوک کے مارے اس کے بچوں کا کیا حال ہوگا میں نے اسے چھوڑ دیا وہ چلی گئی اور ابھی تک واپس نہیں آئی شیخ ترار کی بات سن کر


مچیرے کو سخت ہوسا آ گیا اس نے کہا ابھی وہ پگلے نالائک تُس سے کس نے کہا تھا کہ ایسا کام کرنا یہ کہہ کر شیخ ترار خوم مارنے لگا اور گالیاں دھینے لگا وہ گالیاں سُنتا اور مار کھاتا رہا مگر جب برداشت کی تاب نہ رہی تو وہ بھاک کھڑا ہوا اس کا باپ بھی ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے لپکا آگے آگے ترار تھا اور پیچھے اس کا باپ گالیاں دیتا جا رہا تھا اور مارتا جا رہ


کہ وہ چلتے چلتے تھک گیا کیونکہ وہ بوڑا آدمی تھا اور ترار ایک دوسرے راستے سے غائب ہو گیا مچھیرا ہاپتا کامتا واپس آ گیا ترار الگ رستے پر چلا جا رہا تھا اور بار بار مڑکر دیکھتا جا رہا تھا کہ کہیں اس کا باپ تو اس کے پیچھے نہیں آ رہا آخر وہ بہت دور نکل گیا اب اس نے دون نہ بھاگنا بھن کیا اور آجتا آجتا چلنے لگا وہ تھک کر چور ہو گیا تھا مگر مرتا کیا نہ کر


تھوڑی دور اسے ایک اور لڑکہ نظر آیا ترار اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے پوچھا تم کون ہو یہاں کیوں کھڑے ہو اور کہاں جا رہے ہو کہاں سے آ رہے ہو وہ بولا میرا نام حسن ہے میرے باپ نے مجھے ماراتوں میں بھاگ آیا اسی شہر میں میرا گھر ہے ترار بولا اچھا تو آو ہم دونوں ساتھ رہیں گے میرا بھی یہی قصہ ہے اب یہ دونوں ساتھ ساتھ شہر پہنچ گئے


اور ایک نان بائی کی دکان پر پہنچ کر بیٹھ گئے دکان کے بس بیٹھے بیٹھے شام ہو گئی اب نان بائی نے ان کو دیکھ کر کہا بچوں میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑی دیر سے یہاں بیٹھے ہو مگر تم نے کھایا پیا کچھ نہیں آخر کیا بات ہے وہ بولے چچہ جان خدا کی قسم ہم بہت غریب اور دن پر کے بھوکے پیاسے ہیں ہمارے ماباپ نے گھر سے نکال دیا ہے نہ پیسے ہیں اور نہ کہیں رات گزارنے کا ٹکانہ


سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اور آپ سے کیا کہیں؟ یہ سن کر نان بائی کھڑا ہو گیا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے وہ بڑا رحمدلور نیک آدمی تھا جت ان کے لئے کھانا نکال کر لایا اور بولا یہ لو کھاؤ پیو اور خوش ہو جاؤ پھر نان بائی نے ان سے کہا میرے بچوں چاہو تو یہی دکان کے اندر راتور سو سکتے ہو شیخت آرو حرسن نے کہا چچا جان اللہ آپ کو خوش رکھے


اور اس کا اچھا بدلہ دے یہ کہہ کر وہ دکان میں گھس گئے اور سو گئے نان بائی دکان بند کر کے اپنے گھر چلا گیا اور خوشی خوشی سو گیا صبح اٹکل بازار آیا اپنی دکان کھولی اور اپنا کام کرنے لگا اس نے لڑکوں سے کہا میرے بچوں تم چاہو تو میرے پاس ہی رہو اور میری دکان کا کام کرو جو کچھ خدا مجھے دے گا اس میں سے میں تم کو بھی دوں گا شیخ حسن اور شیخ طرار نے کہا


بہت اچھا جچہ جان اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر دے ہم ایسا ہی کریں گے۔ دوسرے دن نان بائی نے اپنی عادت اور معمول سے دونہ تگنا زیادہ عاطا منگوایا اور گوند دیا۔ روٹیاں تیار کییں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سب روٹیاں بک گئیں۔ اس کے کاروبار میں بڑی برکت اور ترقی ہوئی اور یہ حال ہوا کہ ایک پیالے کی جگہ دس پیالے سانن خرچ ہونے لگا۔


جو بھی ایک بار اس کی دکان پر آتا اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے جا کر یہ کہتا کہ چلو شیکھ ترار کی دکان پر چل کر روٹی کھائیں۔ وہاں کی روٹی اور سنن بہت مزدار اور اچھی ہوتی ہے۔ ایک دن ایک مغربی شخص نان بائی کی دکان پر آیا اور اس نے کہا مجھے تازی روٹی پکا دو، ایک روٹی کی قیمت ایک اشرفی دوں گا۔ مگر اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک لڑکے کے ہاتھ یہ روٹی میرے گھر تک بجھوہ دی


میں اپنے کسی بچے کو زیادہ دور نہیں بھیج سکتا۔ مغربی بولا، اس سڑک تک بھیج دو، یہ لو ایک اور اشرفی۔ نان بائی سیدہ اور شریف آدمی تھا۔ بولا ٹھیک ہے۔ اس نے جلدی تازہ روٹیاں تیار کرا کے شیخ ترار کو دھی اور بولا، میرے بچے روٹیاں لو اور ان کے گھر تک پہنچا دو۔ شیخ ترار بولا، اچھا چچہ جان میں حاضر ہوں۔ وہ روٹیاں لے کر مغربی کے ساتھ چل دیا جب اس کے گھر پہنچا۔


تو مغربی نے طرار سے کہا میرے بچے تم بیٹھ جاؤ اندر جانے کی ضرورت نہیں اور یہ روٹی تم کھالو میں ابھی تمہیں ایک اور انوکہ تماشہ دکھاتا ہوں تمہارے سامنے خزانے کا مو کھولتا ہوں جس قدر روپے پیسہ تم چاہو اس میں سے لے لینا شیخ طرار بچہ تو تھا ہی وہ حیرت میں تھا اور تھوڑا ڈرہ ہوا بھی تھا اس نے مغربی سے کہا نہیں چچہ جان مجھے تم غائب کر دوگے


تم گھبراؤ نہیں، لو یہ دس اچھرفیہاں، اگر کوئی پوچھے کہ یہ کہاں سے آئی تو تم میرا نام بتا دینا، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ یہ کہہ کر دس اچھرفیہاں شیخ ترار کے ہاتھ میں دے دی، شیخ ترارہ شرفیہاں پاکر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا چچہ جان آپ بہت اچھے آدمی ہیں، آپ کا جو حکم ہو، پھر مغرب بھی اس کو ساتھ لے کر ایک پہاڑی پر پہنچا جو اس کے گھر کے سامنے ہی موجود تھی۔


مہل کے دروازے کے قریب مغربی نے ایک آگ سلگائی اور کچھ خشبودار چیزیں جلائی پھر کچھ منتر پڑھنے لگا یہ تماشہ شیخ ترار کھڑا گور سے دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد خود بخود مہل کا دروازہ کلتا ہوا دکھائی دیا اب مغربی نے شیخ ترار سے کہا میرے بچے یہ بہت خزانہ ہے اس میں تم اتر کر جو کچھ مانگو مجھے دیتے رہو پھر جو کچھ تم سے ہو سکے لے کر بہر آ جاؤ


ڈھرنا نہیں میں تو یہیں کھڑا ہوں۔ شیخ ترار بے کھٹ کے اس میں اتر گیا جو کچھ مغربی پوچھتا وہ اس کا جواب دیتا رہا۔ مغربی نے جب بہت سی چیزیں نکلوالی تو شیخ ترار کو اسی خزانے کے اندر بند کر دیا۔ وہ بچارہ غریب بچہ بہت چیکھتا چلاتا رہا مگر اضال مغربی کو اس پر زیادہ ترس نہ آیا۔ نانبائی اور شیخ حسن دن بار اس کا راستہ دیکھتے رہے اور وہ سخت پریشان تھے کہ شیخ ترار کہا


اور کم بہت مغربی کہاں بھگا کر لے گیا حسن کو رات برس گم میں نید نہ آئی دوسرے دل پھر یہ مغربی ایک عرب کے لباس میں نان بائی کی دکان پر پہنچا اس کو ایک اشرفی دی اور بولا میں کچھ روٹیاں اور آپ کی محربانے چاہتا ہوں آپ اپنے بیٹے کو اجازت دیجئے کہ روٹیاں میرے گھر تک پہنچا دے نان بائی کھڑا ہو گیا اور اس نے غصہ میں کہا نہیں میں اپنے بچے کو نہیں بیچ سکتا


کل ایک مغربی میرے ایک بچے کو لے گیا وہ اب تک غائب ہے اب تم آئے ہو اور چاہتے کہ اس بچے کو بھی چھین لے جاؤ۔ عربی بولا لو یہ ایک عشرفی اور بچے کو اجازت دو کہ وہ میرے گھر کی حد تک روٹیاں پوچھاتے اور فوراً واپس آ جائے میرا گھر قریب ہے ایسا اب نہیں ہو سکتا۔ نانباہی نے عشرفی لے کر حسن سے کہا لو یہ روٹیاں لے کر شخص کے ساتھ جاؤ اور روٹیاں پوچھا کر فوراً واپس آو۔


کہیں اپنے بھائی کی دنا غائب نہ ہو جانا۔ حسنؑ بولا بہت اچھا چچہ جان وہ روٹیاں لے کر عرب کے پیچھے پیچھے چلا اور اس کے گھر پہنچا مغربی کہنے لگا بیٹا حسنؑ بیٹھ جاؤ اور یہ روٹیاں تمہیں کھا لو میں تم کو ایک تماشہ دکھاؤں گا اور تمہارے سامنے خزانے کا دروازہ کھو لوں گا حسنؑ بولا بہت اچھا چچہ جان اور وہ بیٹھ کر روٹیاں کھانے لگا کھ


مغربی نے کل کی طرح آک سلگائی، خشبودار چیزیں جلائی اور کچھ منتر پڑھ کر پھوکنے لگا۔ اس کے سامنے خزانے کا دروازہ کھل گیا۔ اب مغربی بولا، جاؤ حسن اس میں ادر جاؤ، جو کچھ میں کہوں وہ نکال کر مجھے دیتے جاؤ، پھر جو کچھ تم لا سکو وہ لے آنا۔ حسن بڑا حوشار اور چلاک لڑکا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ ضرور اسی شخص نے ترار کو غائب کیا ہے اور مجھے بھی اسی طرح پھسانا چا


اگر ترار کی زندگی ہوئی تو اسے بھی اس کے پندے سے نجات دلاؤں گا۔ وہ کہنے لگا نہیں چچہ جان آپ اُترئیے اور میں یہاں سے لیتا ہوں اور دھونی بھی پوچاتا رہنگا۔ مغربی سمجھا کہ ترار تو مر بھی گیا ہوگا۔ اس نے مجبور ہو کر کہا ٹھیک ہے اور وہ اُترنے لگا۔ شیخ ترار جس کو مغربی نے کل بند کر دیا تھا دروازہ کھلتے دیکھ کر درار کی آر میں چھپ گیا۔ جب مغربی جادوگر اُتر گیا


اور چیزیں اٹھانے کے لیے چھکا تو شیخ طرح چپکے سے باہر نکل آیا اور اس سے جو کچھ ہو سکا خزانے کے اندر سے لے آیا حسن بہت خوش ہوا اس نے فوراً چلتی ہوئی خشبود اور چیزوں کو بجھا دیا خشبو کے بجھتے ہی خزانے کا دروازہ بند ہو گیا مگر بھی ابھی کچھ اٹھانے بھی نہ پایا تھا کہ چلایا مگر حسن نے اس کی کوئی پروانہ کی اور دروازے میں تعلیل ڈال کر دونوں چل دیئے


اب حسن اور شیخ ترہ دونوں پہار سے باتے کرتے اور کسے سناتے ہوئے اترے اور سیدھے مغربی کے گھر پہنچ کر دروازہ کھول کر اندر گئے اور ایک جگہ آرام سے بیٹھے پھر باہر آئے بازار گئے اور اپنی ضرورت کی جیزیں لا کر اتمانان سے مغربی کے گھر میں رہنے لگے انہوں نے ایک دن مغربی کے گھر میں ایک شمہ دان دیکھا جس میں سات مومبتیاں لگی ہوئی تھی حسن نے ان کو غور سے دیکھا اور ترار سے بولا


یہ شمع دان تو انوکہ اور نرالہ مالوں ہوتا ہے خیرہ آج رات کو اسے روشن کریں گے شام کو کھانے پینے اور اپنی تمام ضرورتوں سے فارق ہو کر حسن نے مومبتیاں جلائی اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ شمع دان کے پاس سات خوبصورت نوجوان لڑکیاں نکلیں اور نکلتے ہی گانے اور ناشنے لگیں ان کی آواز ایسی پیاری تھی کہ دونوں خوش ہو گئے مومبتیاں جب جل کر ختم ہوئی


تو یہ لڑکیاں بھی غائب ہو گئیں اس مغربی کے گھر کے پہلو میں ایک اور گھر تھا جس میں فکی نامی بڑا امیر آدمی رہتا تھا وہ ناج گانے اور ہسی مزاقے آوازیں سن کر اٹھا ایسا امدہ اتنا اچھا گانہ اس نے کبھی نہیں سنا تھا صبح ہوتے ہی یہ اپنے گھر سے نکلا اور اس نے جا کر باشا کے وزیر سے جو رات کو گزرا تھا وہ تمام حال سنا دیا وزیر کو بڑی حیرت ہوئی اس نے جا کر


اس قصے کی خبر بازشاہ سلامت تک پہنچا دی۔ شام کو وزیر اور بازشاہ فکیروں کا بھیس بدل کر فکی کے گھر پہنچے اور رات بھر چھپ کر ناج دیکھتے اور گانہ سنتے رہے۔ جب گانہ بجانا ناج رنگ ختم ہوا تو بازشاہ اور وزیر اپنے محل کو روانہ ہوئے اور فکی اپنے گھر میں سو گیا۔ صبح ہوتے ہی بازشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور حکم دیا شیخ ترار اور شیخ حسن کو حاضر کیا جائے


تو بازشاہ نے ان سے پوچھا یہ رات بر تمہارے یہاں ناج گانہ کیسے ہوتا ہے؟ کیا تم جادوگر ہو؟ انہوں نے جواب دیا نہیں بازشاہ سلامت ہم جادوگر نہیں ہیں ہمارے پاس ایک شمہدان ہے جو ہمارے باب چھوڑ کر مرے ہیں وہی شمہدان ناج دکھاتا ہے اور گانہ بھی سناتا ہے انہوں نے سادگی اور صفائی سے بازشاہ سلامت کو پورا قصہ سنا دیا وہ جھوٹ نہیں بولے بازشاہ نے ان سے کہا جاؤ


اور وہ شمہ دان ہماری خدمت میں حاضر کرو ہم بھی وہی گانہ اور ناج دیکھنا چاہتے ہیں دونوں گھر پہنچے اور شمہ دان لا کر بادشاہ کے دربار میں حاضر کر دیا بادشاہ بولا اسے ہمارے محل میں رکھ دو اور تم اپنے گھر جاؤ ترار اور رسل بچارے کیا کرتے وہ بادشاہ کے خوف سے کچھ نہ کہ سکے مگر ان کو شمہ دان ہاج سے جانے کا بڑا دکھ تھا اب ادھر کی سنئیں بادشاہ گانہ سنے اور ناج دیکھنے


بڑی مشکل سے دن کٹا اور رات آئی رات ہوتے ہی بادشاہ نے شمہ دان کی ساتوں مومبتیوں کو جلائیا مومبتیوں کا جلنا تھا کہ شمہ دان کے اندر سے ساتھ حبشی غلام اپنے ہاتھوں میں کوڑے لئے ہوئے نکل آئے اور بادشاہ کو اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو گیا حبشی غلام غائب ہو گئے بادشاہ کی اس مار پیر سے بری حالت ہو گئی تھی اس نے صبح ہوتے ہی فوراً حکم دیا کہ حکیم کو بلاو


مگر اپنا قصہ شرم کے مارے کسی سے نہ کہا حکیم حاضر ہوا اس نے باشا کی چوٹوں اور زخموں کو دیکھا اور حکم دیا باشا کو ہمام میں لے جایا جائے اور ایک بکرا زبا کر کے اس کی خال لائیں باشا کے نوکر فورا بکری کی خال لے آئے حکیم نے زخموں پر دوا چڑک کر زبا کی ہوئے بکری کی خال میں باشا کو لپیٹ دیا اور خال کے اوپر شاہی لباس پہنا دیا باشا ہمام سے نکل آئے


اور اپنے شاہی تخت پر آ بیٹھے۔ وزیر نے حاضر ہو کر خیریت اور مزاد پرسی کی۔ بادشاہ نے شرم کے مارے رات کا قصہ چھپایا اور بناوٹی حسیحس کر کہا بہت خوش اور آرام سے ہوں۔ وزیر بولا حضور ایک دن کیلئے شمع دان مجھے بھی دے دیں میں بھی اس کا کمال دیکھوں۔ بادشاہ بولا اچھا ہمارے کمرے سے منگوالو وزیر نے فورا چار آدمی شاہی مہل بھیج دئیے اور کہا


وہ شمع دان لے کر میرے محل میں پہنچا دو۔ دن بر وزیر اسی امیر سے وڑا خوش ہو رہا تھا کہ رات کو مزیدار گانہ سنے گا لڑکیوں کا ناج دیکھے گا۔ شام کو وہ اپنے گھر پہنچا تمام ضروری کاموں سے فرصت با کر شمع دان مانگوایا اور ساتوں مومبتیوں کو روشن کر دیا۔ مومبتیوں کا جلنا تھا کہ فورا سات غلام کھوڑے ہاتھوں میں لیے ہوئے نظر آئے۔ ان کی خوفناک صورتیں دیکھ کر


انہوں نے آتے ہی وزیر کو مارنا شروع کر دیا اور اتنا مارا کہ وہ بھیحوش ہو گیا اب حبشی غلام غائب ہو گئے رات بر وزیر زقمی حالت میں بڑا تڑپتا رہا زقموں سے اس کا برا حال تھا ادھر باشا نے صبح ہوتے ہی وزیر کی خرید معلوم کرنے کے لئے آدمی بھیجے وزیر نے رو رو کر رات کا قصہ سنایا ان لوگوں نے واپس جا کر جو کچھ دیکھا اور سنوہ تھا باشا کو بتا دیا وزیر کی مار پیٹ کا حال سن


بازشاہ بہت مسکر آیا پھر اس نے فوراً اپنے حکیم کو بلا کر اور بکری کی خال دے کر وزیر کے گھر بیجا حکیم جی نے پہنچتے ہی حکم دیا کہ وزیر صاحب کو ہمام میں پہچا دیا جائے آدمیوں نے وزیر کو ہمام میں پہچا دیا حکیم نے تمام زخموں پر دوائے لگا کر بکری کی خال وزیر کے جسم سے لپیٹ دی اور خود وہاں سے رکھست ہو کر اپنے گھر آ گیا اب وزیر اٹھا اور کرہاتا ہوا دربار میں


بازشاہ نے مسکرہا کر اس سے پوچھا کہ یہ وزیر صاحب کیا حال ہے؟ وزیر بولا اچھا ہوں حضور اللہ کا شکر ہے۔ دربار میں فکی صاحب بھی حاضر تھے۔ وہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے بازشاہ سے التجا کی حضور ایک دن کیلئے مجھے بھی شمع دان انایت کیا جائے میں بھی اس کے کمالات دیکھوں گا دوسری دن واپس بھیج دوں گا۔ وزیر بولا ضرور ضرور میرے گھر سے لے جائے اور تماشہ دیکھئے۔


پھر اسی وقت اپنے نوکر کو حکم دیا کہ شمع دان فکی کے گھر بھیج دیا جائے فکی صاحب اس کے ساتھ گئے اور خوشی خوشی وزیر کے گھر سے شمع دان لے کر اپنے گھر پہنچے اور بڑی بیچینی سے رات ہونے کا انتظار کرنے لگے خدا خدا کر کے دن کٹا رات ہوتے ہی انہوں نے ایک بند کمرے میں جہاں کے سوا کوئی اور نہ تھا ان ساتوں مومبتیوں کو جلانا شروع کیا مومبتیوں کی جلتے اس میں سے ساتھ حفصی گلام


سات کوڑے ہاتھوں میں لیے ہوئے نکل آئے۔ ان کی صورت دیکھتے ہی فکی کے حستان خطہ ہو گئے۔ مو پر ہوایاں اونے لگی۔ ڈر کے مارے اس کی عواز تک نہ نکلی۔ ان ہبشیوں نے بڑے غصے کی نظر سے اپنے تیور بدل کر ان کو دیکھا اور ہنٹروں سے فکی صاحب کو مارنا شروع کر دیا اور انھیں لہو نہان کر ڈالا۔ فکی بہوش ہو کر گر پڑا اور یہ ہبشی غائب ہو گئے۔ صبح بازشاہ سلامت نے حکی


فکی صاحب کے گھر پہنچنے کا حکم دیا حکیم نے پہنچتے ہی فکی کو ہمام میں لچا کر بکری کی کھال لپیڑ دی اور کھال کے اوپر ان کا لباس پہنا دیا اور حکیم صاحب اپنے گھر واپس آ گئے فکی صاحب کراتے اور ہائے ہائے کرتے بڑی مشکل سے بادشاہ کے دربار میں حضر ہوئے اور رات کا سارا کسہ سنا دیا بادشاہ تو پہلے ہی غصے میں بھرا ہوا تھا ان کا راستہ دیکھ رہا تھا وہ وزیر


اس نے چلا کر کہا یہ ساری مسئیبت تم دونوں کی لائی ہوئی ہے اب بتاؤ کہ یہ بلا کوئن دور کرے گا اور اس سے کیسے چھٹکارہ حاصل ہوگا اچھا ہوا کہ تم دونوں نے بھی وہی مسئیبت دیکھی جو ہم دیکھ چکے ہیں پھر حکم دیا کہ شیخ ترار اور شیخ حسن کو بلاو اسی وقت چار سپائی دوڑے اور دونوں کو پکڑ لائے اور باشا کے سامنے حاضر کر دیا باشا نے دونوں سے پوچھا وہ گانہ وہ ناج


وہ حسین آوازیں کہاں گئیں؟ وہ ناچنے والے خوبصورت لڑکیاں کہاں گئیں؟ اس کے بعد تینوں پر جو کچھ گزری تھی وہ انہوں نے کہاں سنائی؟ شیخ ترار کھڑے ہو کر اداب بجھا لیا پھر اس نے ادب سے کہا حضورِ والا وہ سب یہیں شمع دان میں موجود ہیں بادشاہ بولا اچھا ہم پھر اس کو سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں اگر وہ گانا نہ ہوا وہ نازلین اورتیں نہ آئیں اور ناچ نہ دکھایا گیا


تو ہم تم دونوں کو سکت سزا دیں گے بلکہ قتل کر آ دیں گے۔ شیخ ترارہا جوڑ کر بولا حضور ہمارا کیا قصور ہے ہمیں کچھ خبر نہیں کہ یہ کیا بات ہے اس کا بھیت تو ہمارا مرہوم باپ ہی جانتا ہوگا ہم نے تو اب تک وہی دیکھا ہے جو حضور اور وزیر صاحب اور فکی کے مکان سے دیکھ چکے ہیں پھر اگر حضور شمعدان ان سے گاننا سننا ہی چاہتے ہیں تو آج کی رات ہماری مہمانی قبول کیجئے


اور ہمارے غریب خانے پر تشریف لا کر گانہ سنیے اور ناش بھی دیکھئے۔ بادشاہ نے قبول کیا اور بولا ہم ضرور آئیں گے۔ پھر اسی وقت وزیر کو حکم دیا کہ شمہ دان ترار اور حسن کے گھر پہنچا دیا جائے۔ وزیر نے اسی وقت چار آدمیوں کو حکم دیا کہ فکی کے گھر سے وہ شمہ دان ترار کے گھر پہنچا دو اور جلدی واپس آجاؤ۔ حسن اور ترار اپنے گھر چلے گئے۔ اب وزیر نے بادشاہ سے کہا حضور


شمہ دان ان کے مالکوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ پاچھا بولا ہم رات کو وہیں چل کر شمہ دان کا گھانہ سنیں گے۔ جیسے پہلے سنا تھا اور اپنے ہمرا چند ہتھیار بند فوجی بھی ساتھ لے چلیں گے۔ ہم پر خدا نہ کرے کوئی مسیبت آئی یا حملہ ہوا تو یہ لوگ دشمنوں کو ختم کر دیں گے۔ تم ور فکی بھی اپنے کپڑوں میں ہتھیار چھپا کر لے چلنا تاکہ بروے وقت میں کام آئیں اور دشمنوں کو ٹھکانیں لک


حضور یہ اچھی بات ہے اور ایسا ہونے بھی چاہیے۔ چنانچہ شام ہوتے ہی باشا اپنے چند درباریوں، فوجی سرداروں اور حفشی گلاموں کو ساتھ لے کر شیخ ترار و حسن کے گھر روانہ ہوا۔ ترار و حسن نے باشا کے پہنچنے سے پہلے ہی اعلیٰ قسم کے فرش اور کشمیری شالے مہل سے لے کر گھر تک بچا دی تھی۔ باشا اور اس کے تمام ساتھی ترار کے گھر پہنچے۔ دونوں نے باشا اور اس کے ساتھیوں کا شاندار استقبال کیا


اندر لا کر اچھی جگہ پر بٹھا دیا اور ان کے سامنے کسم کسم کے پچاس نہائی لذید کھانے لا کر چن دئیے۔ غرض کہ خوب آو بھکت اور خاتن مدارت کی، باشا اور وزیر یہ تاربار دیکھ کر حینان اور حق کا بکہ رہ گئے۔ حسن اور طرار کی خوب تاریف کی، سب نے سیر ہو کر خانہ کھایا اور بڑے خوش ہوئے۔ پھر کسم کسم کے شربت ان لوگوں کے سامنے پیش کی گئیں۔ پھر ان دونوں نے دستر خان اٹھا کر بہترین فرش بچھا


اور شمہ دان کے ساتوں شمہوں کو روشن کر دیا بادشا اور اس کے ساتھ کےوں نے دیکھا کہ چمچم کرتی ساتھ ہسین نوجوان لڑکیاں شمہ دان سے نکلیں اور ناجنے گانے لگیں آلہ ادر جی کے ساز بجنے لگے خوشی سے ان کا عجیب حال تھا ان کے ہوش ارنے لگے دیر تک ناج گانا ہوتا رہا پھر ساتوں پریوں نے ناج گانا بند کر دیا اور حسن و طرار کے سامنے ساتھ تھیلیاں اشرفوں سے بھری ہوئی لائکر رکھی


اور شمع دان میں واپس چلی گئی بادشاہ اور اس کے ساتھی سب کے سب یہ حالت دیکھ کر حیرت میں تھے کسی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا تماشا ہے اور کیا تلسم تھا بادشاہ نے اپنے وزیر کے کان میں کہا اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ وزیر بولا حضور یہ تو خدایی کے ہاتھ میں ہے یا آپ کے بادشاہ بولا میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی شہزادی ناظمین کو حسن سے بیاد ہوں اور یہ لوگ یہیں رہیں


وزیر بولا بہت مناسب ہے دونوں بچے اسی قابل ہیں بادشاہ نے حسن کو بلایا اور اپنا خیال ظاہر کیا اور بولا میری تمنا ہے کہ میں اپنی ناظلین کی شادی تم سے کر دوں اور جو کچھ میرے پاس زولت اور حکومت ہے اس میں سے آدھی تمہیں دے دوں حسن بولا نہیں بادشاہ سلامت آپ یہ شادی میرے بڑے بھائی ترار سے کر دیں مجھے بہت زیادہ خوش ہوں گی میں تو اس لاق نہیں مگر وہ ضرور اس قابل ہے


باشا بولا بہتر ہے باشا نے اسی وقت قاضی اور گواہوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا ترار نے بھی حسن کو سمجھانے بجھانے اور مجبور کرنے سے قبول کر لیا قاضی نے نکانامہ لکھوایا نکا پڑھایا اور شادی کی خوشیاں ہونے لگیں چالج دن تک سبا سے شام تک سارے شہر میں خوشیاں ہوتی رہی اور ہر طرف دھوم مچ گئی ایک روز حسن نے اپنے بھائی ترار کو بلایا اور تنہائی میں چپکے چپکے اس سے بولا


بھائی جان اب میں اپنے گھروالوں میں جانا چاہتا ہوں اور ان سے ملنا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیجئے اور خوشی خوشی رکھست کیجئے ترار یہ سن کر حیران رہ گیا وہ سمجھتا تھا کہ اب حسنؑ کبھی اسے نہیں چھوڑے گا اسے حسنؑ سے بے ہت محبت ہو گئی تھی اور حسنؑ کے سیوہ اس کو یہاں تھا ہی کون اس نے جواب دیا یہ نہیں ہو سکتا جب تک میں زندہ ہوں تم سفر نہیں کر سکتے اور نہ تم مجھ سے جلا ہوسک


حسنؑ بولا مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ اجازت دے دیں میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے میرا مقصد پورا ہو گیا اب میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا طرارؑ بولا اچھی بات ہے میں نراز نہیں ہوں مگر یہ تو سوچو تمہارے جانے کے بعد میں تنہا رہ جاؤں گا میرا یہاں جی کیسے لگے گا میرا یہاں ہے ہی کون ماباب اور بھائیوں کی یاد ہر وقت ستاتی ہے تم جانتے ہو وہ کس قدر غریب ہیں


کس مشکل اور تنگدستی سے زندگی بسر کرتے ہیں خدا جانے میری جدائی میں میری مہا کا کیا حال ہوگا یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے حسن نے اسے سینے سے لگایا آنسو پنجھے کسلی دی اور بولا آج میں تم کو ایک راز بتاؤں گا گھبراؤ نہیں مجھے خوشی سے جانے دو اب ترار خوش ہو گیا اور حسن کو پوچانے کے لئے آیا اور یہ دونوں سمندر کے کنارے پہنچ گئے جب رخصت ہونے لگے


تو ایک دوسرے سے گلے ملے۔ شیک ترار بولا میرے حسن بھائی یہ تو بتاؤ کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اور کہاں کا سفر کرنا چاہتے ہو پھر کبھی ملو گے بھی یا نہیں؟ حسن نے آگے بڑھ کر اپنے کپڑے اتارے اور اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی نکال کر ترار کو دھی اور اس سے بولا جب کبھی تم مجھے بلانا چاہو اس انگوٹھی کو رگننا میں فورا تمہارے پاس حاضر ہو جاؤں گا اب میں تمہیں اپنا


میں اپنی ماں کے پاس جا رہا ہوں اور میری ماں وہی مچلی ہے جسے تم نے اپنے باپ کے پندے سے نجات دلائی تھی۔ میری اسی ماں نے مجھے تمہاری مدد کے لئے بھیجا تھا اور تاکیت کی تھی کہ میں تمہارے ساتھ کوئی ایسی نیکی کروں جیسی نیکی تم نے میری ماں کے ساتھ کی ہے۔ یاد رکھو نیکی کبھی برباد نہیں چاہتی۔ اچھا اب تم اپنے گھر جاؤ دلہل مبارک ہو اللہ نے چاہا۔


تو تمہارے ماں باپ اور بھائی بھی تم سے جلد آکر ملیں گے میری دلی تمنا ہے خدا تم کو خوش اور سلامت رکھے خدا حافظ اب حسن نے دونوں پان دریہ میں ڈال کر ڈپکی لگائی اور فورا پانی میں غائب ہو گیا ترار کو حسن کی جوڑائی کا بہت دن تک غم رہا اب ترار اپنی بیوی نازلین شہزادی کے ساتھ رہنے لگا مگر اس کا دل ہمیشہ اداز رہتا تھا ان کے بہت سے بال بچے بھی ہو گئے مگر وہ شیخ


زندگی بھر بھلا نہ سکا 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow