چار چالک دوست اور تاجر کا قصہ
چار چالک دوست اور تاجر کا قصہ
ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے وہ چاروں بے ہت نکمے اور کام چور تھے وہ ہر وقت یہی چاہتے کہ ہمیں کوئی بھی کام نہ کرنا پڑے مگر کھانے پینے اور رہنے کی ہر چیز میثہر ہوتی رہے ان چاروں میں سے جو سب سے بڑا تھا وہ بہت چلاک اور ذہین تھا اس نے انھیں لوگوں کو بے وقوب بنا کر پیسے بڑھو رنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا اس نے کہا
کہ ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں وہاں کے لوگ ہمارے لیے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کیلئے اجنبی ہوں گے ہم گاؤں کی امیر لوگوں کے پاس جا کر جوٹ موٹ کی کہانیہ سنایں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے تینے دوستوں نے اس طریقے سے اتفاق کیا چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے سفر شروع کر دیا پھر وہ اپنے گاؤں سے دور
وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جا کر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں سناتے اور بات دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو کچھ نہ کوئی دے ہی دیتے جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور کچھ عرصے بعد گاؤں کے لوگ ان کی چلاکے اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ جاتے تو پھر یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور پھر وہاں کے لو
اسی طرح کرتے کرتے انہوں نے اچھا خاصہ مال جمع کر لیا اور انہیں جھوڑ بولنے میں بھی مہارت ہو گئی۔ ایک دفعے چاروں یوں ہی سفر کرتے کرتے ایک دور دراس کے گاؤں میں پہنچے۔ وہاں ایک ہوتل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں کمیر و کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے پاس اس کا کیمتی سمان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے کیمتی لواز پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے مو میں پانی بھر آیا
اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سارا مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سے سب سے بڑے کے ذہن میں ترقیب آئی۔ پھر اس نے ترقیب تینوں کو بتائی۔ تو تینوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ چنانچہ یہ چاروں دوستاجر کے پاس پہنچے۔ سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا اگر آپ رضمند ہو تو ہم آپ کے ساتھ ایک خیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ خیل یہ ہے
کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنایں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹے ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا سمان لے لیا جائے گا تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہتی مزدار ہوگا میں اس کیلئے تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا
چاروں دوست تاجر کی یہ بات سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانییں اس کو سنایں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا یہ چھوٹ ہے ایسا نہیں ہو سکتا اور پھر ہم جیت جائیں گے اسی طرح تاجر کا سارا مال قبضے میں کر لیں گے ضروری ہے ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوتل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار جیت کا فیصلہ کر سکے تاجر نے کوئی سوچتے ہوئے کہا
چاروں دوستے نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کی چودری کو بلائے گیا اور وہ ان پانچوں کے سال بیٹھ گیا پہلے دوست نے اپنی کہانی شروع کی کہنے لگا میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور میرے باپ سفر پر روانہ ہوئے راستے میں اُنے آم کا ایک درخ نظر آیا میری ماں نے وہاں رکھ کر میرے باپ سے کہا مجھے آم کھانے ہیں
آپ درخ پر چڑھ کر آم توڑ لائیں میرے باپ نے کہا یہ درخ کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں میں اس پر نہیں چڑھ پاوں گا لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا میں جو ابھی ایک چھوٹا سا بچہ ہی تھا مجھے جوش آیا اور میں چپکے سے ماہ کے پیٹ سے نکلا اور درخ پر چڑھ کر آم توڑے لا کر ماہ کے سامنے رک دئیے اور پھر واپس پیٹ میں چلا گیا
میری ما اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجی کی طرف سواری نظروں سے دیکھا تاجی نے کہانی سنتے ہی کہا ارے واہ! کیا ہی زبردس کہانی ہے ما کے کام آئے ہو یہ کہانی کیسے جھوٹی ہو سکتی ہے نہیں یہ تو بالکل سچی کہانی ہے پہلے دوست نے جب یہ سنا تو مو بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا اب دوسرے دوست کی باری آئی
وہ کہنے لگا میری عمر ابھی صرف چھے سال تھی مجھے شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا ایک دفع میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دورے خرگوش نظر آیا میں اس کی پیچھے دور پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا جب میں اس کی قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کر دیا اب تو میں بہت گبرا گیا
میں نے شیر سے کہا دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو خدا کے لئے مجھے جانے دو لیکن شیر نے میری بات نہ مانی اور ڈھارنے لگا پھر مجھے بھی بہت غصہ آ گیا میں نے ایک زوردہ تھپڑ شیر کو مارا شیر وہیں دو تکڑے ہو کر مر گیا واہ واہ کیا بہدوری ہے پندے کو ایسا ہی بہدور ہونا چاہیئے
یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہو سکتی تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے اپنے تیسرے دوست کو چکے سے آنکھ ماری کہ تُو کو ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے چنانچہ تیسرے دوست نے اپنی کہانی سنانا شروع کی مجھے مچنیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی
اور وہاں پانی میں جال ڈال کر میں بیٹھ گیا کئی گھنٹے جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی میں نے پاس کھلے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریہ میں مچھیروں نہیں ہے کیا ان مچھیروں نے مجھے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھیروں نظر نہیں آئی میں یہ سن کر ہیران ہو گیا اور میں نے دریہ میں گھوٹا لگا دیا دریہ کی تی میں پہنچ کر میں نے دیکھا ایک بہت بڑی مچھیروں بیٹھی ہوئی ہے
اور اس کے پاس تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو بڑھے مزد سے کھائے جا رہی ہے۔ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس سے بڑی مچھلی کو ایک زبردس مکہ رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔ پھر میں نے وہیں دریہ کی تیمیں بیٹھ کر آگ جلائی۔ وہیں بھی مچھلیاں پکائیں۔ پھر انھیں کھا کر دریہ سے باہر آ گیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔ تیسرے نے کہانی س
تاجین نے کہا بہت اچھی کہانی ہے دریگ کی سب سے چھوڑی مچلیوں کو ازادی دلائی کتنا نیکی کا کان کیا ہے بالکل سچی کہانی ہے اب باری چوتے دوست کی تھی اس نے کہنا شروع کیا میری عمر صرف دو سال تھی ایک دن میں جنگل میں گیا وہاں خجوروں کے بڑے بڑے درخ تھے اور ان پر بہت زیادہ خجورے لگی ہوئی تھی میرا بہت دل چاہا کہ خجورے کھاؤں چنانچہ میں درخ پر چڑا
اور میں نے وہاں پیٹ بھر کر خجورے کھائیں میں نے درق سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا کہ میں نیچے اترنے اترنے گر جاؤں گا میں درق کے اوپر ہی بیٹھا رہا یہاں تک کہ شام ہو گئی اچانک میرے ذہن میں ایک ترقیب آئی کہ میں کیوں نہ گاؤں سے سیڈی لا کر اس کے ذریعے نیچے اتروں چنانچہ میں گاؤں گیا وہاں سے سیڈی لا کر درق کے ساتھ لگائی اور پھر اس کے ذریع
اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کی جانب دیکھا کہ وہ ضرور کہدے گا نہیں یہ کہانی تو جھوٹی ہے لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتے سے ہاتھ ملائیا اور کہنے لگا کیا زبردر ذمہاں پایا ہے ایسی ترقیب تو کسی بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے یہ تو بلکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے تاجر نے بات ختم کرتے ہوئے کہا اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں
اور ہمارا سارا مال تاجر نہ لے وڑے کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی تاجر نے اپنی کہانی اس طرح شروع کی میں نے بہت سال پہلے خوبصورت باگ لگایا تھا اس باگ میں ایک سنیرے رنگ کا بہتی نائیاب درخ تھا میں اس کی گھو بھیفاتت کرتا تھا اور اس کو روز پانی دیتا یہاں تک کہ ایک سال کے بعد اس درخ پر چار سنیرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے وہ سیب بھی بہت خوبصورت تھے اس لئے میں نے ان کو کب
ایک دن میں اپنے باگ میں کام کر رہا تھا کہ اچانک چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا چونکہ یہ چاروں آدمی میرے ہی باگ کے ایک درک سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے جب مجھے یہ سب پتا چلا تو میں بہت دکھی ہو گیا لیکن خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے ہی موجود ہیں
یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے عسان خطہ ہو گئے اور وہ کافی تیر تک چپ رہے جب گاؤں کے بڑے چودری نے یہ سب کوئی دیکھا تو اس نے ان سب کو مخادب کرتے ہوئے پوچھا ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے تاجر کی اس کہانی کوئی جھوٹ کہیں تو ان کو سارا مال تاجر کا ہو جاتا اگر سچ کہے تو تاجر کے غلام قرار پاتے
چناجہ چارو دوست خاموش ہو گئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی نہ میں کاؤں کے چودری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چارو تمہارے گلام ہیں یہ سن کر وہ چارو تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور معافیوں مانگنے لگے تاجری نے چودری سے کہا یہ چارو بھاکتے ہوئے میرا سارا سمان بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے چلو میں ان کو ازاد کرتا ہوں لیکن ان کے بعد جو بھی مال ہے وہ میرا ہے
چنانچہ گاؤں کے چودریوں ان چاروں دوستوں کے بعد جتنا بھی مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا وہ چاروں بہت ہی زیادہ مایوس ہوئے انہیں اپنے جھوٹ کی نیاد بڑی سزا ملی تھی چاروں دوستوں نے فیصلہ کر لیا کہ آنیدے کبھی بھی جھوٹ کا سارا نہیں لے گے اور مہنت کر کے روضی کمائیں گے پھر وہ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے سچی توب
What's Your Reaction?