غریب لڑکا اور جن کا عجب قصہ
غریب لڑکا اور جن کا عجب قصہ
اسلام علیکم پیش خدمت ہے کہانی بہربان جن اسلم ایک بہت ہی سیدہ سادہ اور نیک لڑکا تھا پڑھنے لکھنے میں بہت ہی ہوشیار اور ذہین تھا لیکن قدرت نے اس کے ساتھ ایک بڑا ہی بھیانک مزاگ کیا تھا اس کی صورت ایسی عجیب و غریب اور بے دھنگی تھی جسے دیکھ کر لوگ بے اقتیار ہسدیا کرتے
کالا کالا چہرا جس پر پکوڑے جیسی ناک، گھنی بھویں اور ہبشیوں کی طرح گھنگریہ لی بال اس پر ستم جے کے چیچک کے بڑے بڑے داگ، چوڑا چوڑا پھیلہ ہوا چہرا اور چھوٹا سا گول سر یہ سب چیزیں مل کر ایک ایسی حیت پیدا کر دیتے تھے کہ لوگ اسے دیکھ کر بے اکتیار ہنس دیا کرتے تھے اور وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا تھا ان باتوں کو تو وہ کسی نہ کسی طرح سہن بھی کر لیت
خاص شکائت یہ تھی کہ اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماہ چل بسی تھی نہ تو اس نے ماہ کی شکل کبھی دیکھی اور نہ ہی اسے ماہ کا سچا پیار ملا اس کا باپ شاکر حسین ایک آفس میں کلا رکھ تھا پہلی بیوی کی موت کے کچھ ہی مہینوں بعد اس نے دوسری شادی کر لی سوتیلی ماہ کا سلوک اسلم کے ساتھ ہمیشہ ہی ظالمانہ ہوا کرتا تھا وہ ہمیشہ اسے جھرکتی ڈانتتی اور مارتی تھی دھر کے تمام کام اسی سے کرواتی تھی
اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود نہ تو اسے اچھا کھانے کو بلتا اور نہ ہی پہننے کو۔ اس کی عجیب و گریب شکل و صورت کی وجہ سے باپ بھی اس سے کوئی خاص ہمدردی یا محبت نہیں رکھتا تھا۔ اسی طرح ظلم سہتے سہتے اسلم چودہ سال کا ہو گیا۔ وہ اٹھی کلاس میں پڑھتا تھا اور ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آیا کرتا تھا۔ اس کی شکل و صورت کا اس کے ساتھ بھی مزاک اڑائی کرتے تھے۔
اس سے مروب رہتا تھا تمام ہی لڑکوں کیلئے حساب سب سے زیادہ مشکل مضمون تھا لیکن اسلم حساب میں بہت تیس تھا اور اکثر وقت استاد سے پہلے ہی جواب نکال لیا کرتا تھا تمام اساتزہ بھی اس کی زہانت کے مطرف تھے اسلم کا سکول اس کے گھر سے تقریباً 2 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اور یہ راستہ اسے روزانہ پیدل تی کرنا پڑتا تھا جبکہ اس کے سوتلے بھائی بھی رکشے میں بیٹھ کر سکول جائے کرتے تھے
اردو میڈیم کے ایک معاملی سکول میں پڑھتا تھا اور اس کے سوتے لے بھائی بہن انگریزی میڈیم کے سکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے اسلم کو اس بات کا گم نہیں تھا کہ اسے پیدل آنا جانا پڑتا ہے اس کو تو اس بات کا گم تھا کہ دپہر کے کھانے کے لیے جو چیزیں اس کے سوتے لے بہن اور بھائی کو دی جاتی تھی اسے ویسا کبھی کچھ نہیں دیا جاتا تھا اسے تو رات کی بچی ہوئی روٹی، سبزی یا دال دی جاتی تھی
یہی وجہ تھی کہ وہ دپہر کی چھٹی میں بالکل الگ تھلگ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتا تھا تاکہ اس کا کوئی ساتھی اسے نہ دیکھ لے اسلم خود دار بھی بہت تھا بھوکہ رہنا اسے منظور تھا لیکن وہ مانگ کر کوئی چیز نہیں کھاتا تھا رحم کھا کر اگر اسے کوئی چیز دے بھی تو وہ قبول نہیں کرتا تھا ایک دن کی بات ہے کہ حسب معمول اسلم صبح پانچ بجے بیدار ہو گیا کارپوریشن کے نل سے اس نے گھر میں پانی بھڑ دیا پھر رات کے
جھوٹے برطن تھے انہیں دھو دیا اور دود لانے چلا گیا دود لا کر گندے کپڑے دھونے بیٹھ گیا اس طرح کام کرتے کرتے سبا کے 9 بچ گئے اس کے سکول جانے کا وقت ہو گیا جب وہ سکول جانے کی پوری تیاری کر چکا تبھی رکھشے والے کا لڑکا آیا اور کہنے لگا آج اس کے اپا کو ضروری کام ہے اس لئے وہ رکھشہ لے کر نہیں آئیں گے ان کی سوتے لی ماہ نے اسلم سے کہا کہ وہ پہلے اپنے بھائی بہن کو ان کے سک
اس طرح کرنے سے اس کے اپنے سکول پہنچنے میں دیر ہونی ضروری تھی لیکن وہ اپنی ماہ کا کہنا تعل بھی نہیں سکتا تھا۔ دل پر سبر کر کے اور سبر کا کروہ گھونٹ پی کر اس نے اپنا اور اپنے بھائی بہن کا بستہ کاندھے پر لٹکایا۔ سکول جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جلدی جلدی میں وہ اپنا کھانے کا ڈبہ لینا بھی بھول گیا۔ پہلے تو اپنے بھائی بہن کو اُن کے سکول میں چھوڑا اور وہاں سے اپنے سکول کے لیے
1.5 کلومیٹر دور تھا۔ کسی طرح گرتے پڑھتے وہ اپنے سکول پہنچا لیکن دیر ہو چکی تھی اور پہلا پریئرڈ ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ قائدے کے مطابق 15 منٹ سے زیادہ دیر ہو جانے پر تالب علم کو ہیڈ ماسٹر کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اسے بھی ہیڈ ماسٹر کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلے تو ہیڈ ماسٹر نے اسے بہت ساری نصیحتیں سنائیں پھر عبرت کی خاطر سزا بھی دی۔
یہ بات اسے بہت ناغوار گزری لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا وہ کلاس میں آ کر بیٹھا تو کلاس ٹیچر نے بھی اسے باتیں سنائی اور کہا کہ تم اتنی دیر سے آئے ہو اس لئے تمہاری آج کی حاضری نہیں لگے گی چار پرییڈ کے بعد کھانے کی چھوٹی ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ روٹی کا ڈبہ لانا بھول گیا ہے پو سکول سے نکل کر باگ کی طرف جانے لگا تو اس کے ایک ساتھی نے اسے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی لیکن اس نے منظ
کھانا کھا کر آیا ہے۔ اتنا کہ کر وہ باق کے ایک گوشے میں ویٹ گیا۔ نلکا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیا اور بھوک کو بھیلانے کی کوشش کرنے لگا۔ کھانے کی چھٹی کے بعد چار پریئٹ اس نے کسی طرح گزارے اور چھٹی ہوتے ہی وہ اپنے سوتے لے بھائی بہن کو لینے کے لیے ان کے سکول کی طرف بھاگا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ رکشی والا آیا تھا اور دونوں بچوں کو لے کر چلا گیا ہے۔ اسلم کو بڑا افسوس ہ
اور دکھ بھی ہوا کہ اسے اتنی دور دورتے ہوئے آنا پڑا اب یہاں سے گھر جانا تھا شام ہو چلی تھی بھوک کی وجہ سے اسے چکرسہ محسوس ہو رہا تھا اس نے مختصر راستے سے گھر جانے کا فیصلہ کیا جب اہت ویران اور سنسان رہتا تھا شام کو لوگ اس راستے سے جاتے ہوئے گھبراتے تھے اصلم اگر دیر سے گھر پہنچتا تو یقینہا اس کی ماہ اس کی کوئی بات نہیں سنتی اور مارنا شروع کر دیتی بس اسی خوف سے اس نے اس و
ابھی اس نے مشکل سے ادھا راستہ طے کیا تھا کہ اچانک اسے چکر آیا اور وہ چکرا کر گر پڑا دو تین منٹ کے بعد اس کے عسان بجا ہوئے تو اس نے اپنے اطراف و جوانب کا جائزہ لیا وہ سڑک کے کنارے املی کے ایک درخت کے نیچے پڑا ہوا تھا درخت کے جڑ کے پاس ایک گڑھا تھا جو شاید گٹر کا پائپ بچھانے کے لیے کیا گیا تھا گڑھا تقریباً چار فوٹ گہرا تھا کام کرنے والے گڑھا کھوڑ کر جا چکے تھ
اسلم کی نظریں اس گڑھے میں گئیں وہاں اس نے ایک چمکتی ہوئی چیز دیکھی اس نے اس چمکتی ہوئی چیز کو وور سے دیکھا لیکن کچھ ساف دکھائی نہیں دیا کیونکہ اس چیز کا کافی زیادہ حصہ مٹی میں دبا ہوا تھا اور صرف تھوڑا سا حصہ ڈوبتے ہوئے سورج کی زردکنوں میں عجیب طرح چمک رہا تھا اپنے جستجو کے جذبے کے تحت وہ اس چمکتی ہوئی چیز کو پانے اور اصلیت جاننے کے لیے
اور مٹی میں دبھی ہوئی اس چیز کو آہستہ آہستہ نکالنے کی کوشش کرنے لگا تھوڑی کوشش میں وہ اس چیز کو نکالنے میں کامیاب ہو گیا وہ ایک بڑے سائز کی کتھائی رنگ کی بوٹل تھی جس کا مو اچھی طرح بند کیا ہوا تھا بوٹل کافی پرانی لگ رہی تھی ایسی بوٹل اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی بوٹل کے مو پر ایک اجیب طرح کا کارک لگا ہوا تھا بوٹل میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بوٹل کو لے کر وہ گ
اپنے بستے سے اچھی طرح بوٹل کو صاف کیا بوٹل جھیل مل جھیل مل چمتنے لگی لیکن پھر بھی اسے کوئی چیز بوٹل کے اندر دکھائی نہیں دی پھر اس نے اپنے بستے میں سے پرکار نکالا اور اس کے نوکیلے حصے سے بوٹل کے کارک کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا کارک بہت زیادہ پرانہ تھا پرکار کی نوک سے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور بوٹل کا مو کھل گیا جیسے ہی بوٹل کا مو کھ
اور بڑی زور کی گرگراہت کی آواز پیدا ہوئی ایسا محسوس ہوا کہ دور کہیں بادل گرج رہا ہے بجلی کرک رہی ہے پھر اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا اور اسلام ایک جتکے سے دور جا گرا پھر اس نے دیکھا کہ اس کسیف دھوے نے ایک شکل اختیار کرنی شروع کر دی اور اس کے سامنے ایک بہت بڑا جن کھڑا ہوا کہ کےہے لگا رہا تھا جن کی لمبی چوٹی اس کے شانے پر لٹک رہی تھی اور سر اس کا املی کے درکت سے
جن کی بھیانک شکل دیکھ کر اسلم ڈر گیا اور بستہ اٹھا کر بھاگنے لگا تبھی جن نے جھک کر اسے اپنے ہاتھ سے اس طرح اٹھایا گیا وہ پلسٹک کا معمولی کھیلونا ہے خوف کے مارے اسلم کی چیخ نکل گئی جن نے اسے اپنے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر کھڑا کر دیا اور کہا بچے آج سے 300 سال پہلے مجھے ایک بہت بڑے عالم اور عامل نے اس بوٹل میں بند کر دیا تھا اور یہاں ایک گڑھا کھوٹ کر بوٹل کو دفن
آج تو نے مجھے اس طویل قید سے آزاد کیا ہے میں تجھ سے بہت خوش ہوں اور تیری کوئی بھی تین خواہشیں پوری کر دوں گا بیان کر اسلم تو بیچارہ خوف کے مارے تھر تھر کام پ رہا تھا وہ کیا بولتا کسی طرح اس نے اپنے حواز اکٹھا کیے اور کہا جن چاچا اگر تم میری تین خواہشیں پوری کرنا چاہتے ہو تو مجھے تھوڑا وقت دو تاکہ میں سوچ سوچ کر اپنی تین خواہشیں بیان کر دوں ابھی تا مجھے
میرے سوتے لیمہ میرا انتظار کر رہی ہوگی مجھے بہت سارے کام کرنے ہیں جن نے کہا ٹھیک ہے اگر تُو سوچ سوچ کر اپنی خواہشیں بیان کرنا چاہتا ہے تو مجھے انکار نہیں ہے لیکن پہلی خواہش تو تُجھے ابھی اور اسی وقت بتانی ہوگی اسلم نے جن سے جانے کی بہت اجازت مانگی جب وہ راضی نہ ہوا تو اس نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا اچھا جن چاچا میری پہلی خواہش یہ ہے کہ تُو مجھے خوبصورت بنا
میرے اس بھیانک شکل کی وجہ سے سب میرا مزاق اڑاتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں مجھے حقیر اور ضلیل سمجھتے ہیں اسلم کی اس خواہش کو سن کر جن نے ایک زوردار کہکہ لگایا پھر اس نے اسلم کو زمین پر لٹا دیا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ پیروں تک لے گیا اسلم کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس کی کھال ادھر رہا ہے مارے تکلیف کے اس پر گشی سی تاری ہو گئی پھر جن نے پیروں سے سر تک ایک
اسلم کو محسوس ہوا گوئے اسے جلتے ہوئے تیل کے کڑاہ میں ڈال دیا گیا ہے وہ چیخ نہ چاہتا تھا لیکن چیخ نہیں نکل سکی پھر تیسری بار جن نے سر سے لے کر پیروں تک ہاتھ پھیرا اسلم کو محسوس ہوا کہ گرم بھٹی سے نکل کر وہ سر سبز اور شاداب ٹھنڈے علاقے میں آ کھڑا ہوا ہو بہت تازگی اور فرحت اسے محسوس ہوئی جن نے اسے اٹھا کر کھڑا کر دیا اور کہا لے بچے اب تیری شکل بہت خوبصورت ہو گئ
رہ گئی دو خواہشیں تو جب تُو کہے گا میں انھیں پورا کر دوں گا میں چند باتوں کی تُجھے ہدایت کرتا ہوں اگر ان پر تُونے عمل کیا تو ہمارا معاہدہ قائم رہے گا ورنہ ٹوٹ جائے گا اگر تیری طرف سے معاہدہ ٹوٹا تو میں تیری شکل اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک بنا دوں گا کہ تُجھے آئینہ دیکھنے سے بھی خوف آئے گا پہلی بات تو یہ کہ تُو کسی کو مطبطانا کہ میں تیرے قبضے میں ہ
کسی کے سامنے مجھے طلب نہیں کرنا تیسری خواہش صرف دنیاوی چیزوں سے تعلق رکھنے والی ہونی چاہیے بول منظور ہے؟ اسلم نے اقرار میں سر ہلائیا پھر جن نے اپنی چوٹی سے دو بال ٹوڑے اور اس کی دونوں ٹانگوں میں بان دیئے اور کہا جب بھی مجھے بلانا ہو ایک بال کو ٹوڑ کر آگ میں جلا دینا میں حاضر ہو جاؤں گا ٹھیک ہے اچھا اب میں چلتا ہوں اور تو بھی جا اسلم نے جلدی سے اپنا بست
گھر کی طرف روانہ ہوا جن نے زمین پر پڑھی ہوئی بوٹل کو اٹھایا اور زور سے ایک پتھر پر پٹک دیا بوٹل کے ٹکڑے چاروں طرف بکھر گئے جن نے ایک گرزدار کہکہ لگایا اور غائب ہو گیا شام ہو چکی تھی اور اندھیرا آہستہ آہستہ ہر چیز پر مسلط ہوا جاتا تھا کافی وقت گزر چکا تھا اسے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اسے ابھی گھر کے بہت سارے کام کرنے تھے اسلم نے دل میں سوچا کہ آج اس کی خ
اس تاخیر کے لیے اس کی ضرور پیٹائی ہوگی، یہ سوچ کر وہ اور تیزی سے اپنے قدم اٹھانے لگا۔ جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا سوتیلا بھائی گدو اور بہن مننی مکان کے سامنے کھیل رہے ہیں۔ سامنے کی دیوار سے لگی اس کے ابا کی سائکل کھڑی ہوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ گھر آ چکے ہیں۔ ما بھی گھر میں ہوگی، آج سب کے سامنے اس کی مرمت ہوگی۔ دل میں ہندیشوں کا توفان لیے وہ گھر کے
اس کے بائی بہن نے اسے اندر جاتے دیکھا تو وہ دور کر اس کے قریب آئے حیرت سے اسے دیکھنے لگے گدو نے اسے کہا ارے کون ہوں تم اور تمہیں کس سے ملنا ہے اسلم نے سوچا کہ شاید وہ اس سے مزاک کر رہا ہے اس نے گدو سے کہا ہٹو مجھے جانے دو پہلے ہی مجھے آج کافی دیر ہو گئی ہے اس کے بہن اور بھائی اسے حیرت سے دیکھنے لگے وہ انہیں ایک طرف کرتا ہوا گھر میں داخل ہوا اس کے بائی بہن بھی اس کے پیچھے مک
اسلم کے والد سامنے کے کمرے میں بیٹھے ہوئے کوئی رسالہ دیکھ رہے تھے جب اسے اندر آتے دیکھا تو انہوں نے رسالہ نیچے رکھا اور اس سے پوچھا کیوں بھئی کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ اس طرح گھر میں کیوں گھو سے چلے آ رہے ہو؟ اپنے والد کے مو سے یہ سوالات سن کر اسے حیرت بھی ہوئی اور گھبرہت بھی اس کے زبان گنگ سی ہو کر رہ گئی اس کے سوتیلے بہن بھائی بھی کمرے میں پہنچ چکے تھے اسلم کے والد نے ان سے
اسلم ہیران کھڑا تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اس کے بھائی، بہن اور اس کے والد اسے پہچان نہیں رہے ہیں پھر اس کے والد نے زرا کڑک کر پوچھا بولتے کیوں نہیں کون ہو تم؟ اسلم نے ڈرتے ڈرتے کہا جی اپو میں اسلم ہوں اسلم ایک دم وہ کرسی سے یوں اٹھکڑے ہوئے گوئے انہیں بجلی کا عشاک لگا ہو تم اسلم ہو وہ چند لمحیں اسے حیرت سے دیکھتے رہے پھر انہوں نے اندر کے کمرے کی طرف مو کر کے آواز دی
اسی وقت اندر کے کمرے سے نکل کر اس کی سوتے لی ما آئی اور حیرت سے اسلم کو دیکھنے لگی اسلم کے والد نے اس کی امہا سے پوچھا اسلم کہاں ہے؟ اسلم تو آج سکول سے ابھی تک نہیں آیا جانے کہاں پھیرتا رہتا ہے اگر میں کچھ کہوں تو لوگ کہیں گے کہ سوتے لی ما ہے بچے پر ظلم کرتی ہے پھر اسلم کی طرف دیکھ کر انہوں نے کہا یہ لڑکہ کون ہے؟ اسلم نے جلدی سے کہا امی میں اسلم ہوں آپ کا اسلم
آج مجھے سکول سے گھر آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی اسلم کی ماہ نے تاجوب سے کہا تم اسلم ہو ہرگز نہیں تم جھوٹ بولتے ہو نہیں امی میں سچ بول رہا ہوں میں ہی اسلم ہوں آپ کا بیٹا اسلم آج صبح رکھشی والا نہیں آیا تھا تو میں ہی گدو اور مونی کو اپنے ساتھ لے کر گیا تھا وہاں انہیں سکول میں چھوڑ کر میں اپنے سکول میں چلا گیا تھا چھٹی ہونے کے بعد پھر میں گدو کے سکول گیا تھا معلوم ہوا کہ رکھشی والا آیا
اور دونوں رکشے میں بیٹھ کر چلے گئے وہاں سے گھر آنے میں مجھے دیر ہو گئی اسلم کی ماں نے حیرت سے اس کے والد کی طرف دیکھا پھر اس نے کہا یہ سب سچ ہے لیکن تم اسلم نہیں ہو امی میں سچ کہتا ہوں میں اسلم ہی ہو اتنا کہ کر اسلم رونے لگا پھر گدو اور مونی کی طرف مڑکر اس نے کہا گدو تم نے بھی بجے نہیں پہچانا یاد ہے نا آج میں تمہارا بستہ اپنے کندھے پر رکھ کر سکول لے گیا تھا مونی میری پیاری بہن
تُو بھی مجھے نہیں پہچان رہی ہے یاد ہے آج سبا جب میں تُجھے سکول لے جا رہا تھا تو آدھے راستے میں تیرے پیر درد کرنے لگے تو میں نے تُجھے اپنے کندے پر بٹھا لیا تھا تُو بھی مجھے نہیں پہچان رہی ہے تم لوگ مجھے مارو پیٹو لیکن ایک بار کہدو کہ میں اسلم ہوں گر میں سبھی لوگ ہران ہو کر ایک دوسرے کی صورتوں کو تک رہے تھے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ یہ وہی اسلم ہے آخر اس کے ابو نے
اسلم نے اپنا بستہ انہیں دے دیا اس کے ابو نے بستے سے تمام کابیاں اور کتابیں نکال لیں اور ایک ایک کابی کتاب کو عولت پھلٹ کر دیکھنے لگے کابیاں اور کتابیں اسلم کی ہی تھی اور ان پر اسی کا نام لکھا ہوا تھا بستہ بھی اسی کا تھا پھر انہوں نے گور سے اس کی طرف دیکھا کپڑے بھی اسلم کے تھے اور چپل بھی اسلم ہی کی تھی انہوں نے کہا یہ تمام چیزیں تو اسلم کی ہے لیکن تم اسلم نہیں ہو ابو جی میں سچ کہتا ہوں میں ہی اسلم ہوں
تھوڑی دیر تک اس کے ابو کچھ سوچتے رہے پھر اپنے بیوی کے ساتھ اندر کے کمرے میں چلے گئے تھوڑی دیر بعد پھر اسی کمرے میں آئے اور اسلم سے کہا دیکھو تم سچ سچ بتا دو کہ تم کون ہو اور اسلم کہاں ہے اور اسلم کی یہ ساری چیزیں تم کو کہاں سے ملی ہے اسلم نے روتے ہوئے کہا ابو جی میں سچ کہتا ہوں میں ہی اسلم ہوں نہیں تم اسلم ہو ہی نہیں سکتے
یہ سچ ہے کہ یہ بستہ، یہ کافی کتابیں، یہ کپڑے اور چپل جو تم پہنے ہوئے ہو اسلم ہی کی ہیں لیکن تم اسلم نہیں ہو سچ سچ بتا دو کہ تم کو کس نے یہاں بھیجا ہے اور اسلم کہا ہے کیا تم اسلم کے دوست ہو؟ اسلم سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بے تہاشا رونے لگا ابو آپ مجھے مارئے جتنا چاہے مارئے لیکن ایک بار کہ دیجئے کہ میں ہی آپ کا بیٹا اسلم ہو خدا کی قسم میں اسلم ہوں
اندر کے کمرے میں گئی اور ایک ف اپنے ساتھ لے کر آئی۔ اس ف میں اسلم اپنی امی ابو اور بہن بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جو ایک نمائش میں کھچوائی گئی تھی۔ وہ ف اسلم کے ہاتھ میں دے کر اس کی امی نے کہا اچھا بتاؤ اس فوٹو میں تمہاری تصویر کونسی ہے؟ اسلم نے فوٹو میں اپنی تصویر پر انگلی رکھ کر کہا دیکھئے امی یہ ہے میری تصویر میں گدو اور منی کے بیچ میں بیٹھا ہوں اور یہ فو
امی آپ میرا یقین کیوں نہیں کرتی کہ میں اسلم ہوں خدا کی قسم میں ہی آپ کا بیٹا اسلم ہوں اچھا تم ادھر آو میرے ساتھ اسلم کے ابو نے کہا وہ اسے لے کر اندر کے کمبرے میں گئے اور انہوں نے اسلم کو ایک آینے کے سامنے کھڑا کر دیا اور فوٹو اس کے ہاتھ میں دے کر کہا دیکھو فوٹو والے اسلم میں اور تم میں کیا فرق ہے اسلم کی نظر جیسے ہی آینے پر پڑی اس پر حیرت ہو کے پہاڑ ٹوٹ گئے
اسے یوں لگا کہ آئینے کے سامنے وہ نہیں کھڑا ہے، کوئی اور ہی لڑکا ہے، یقیناً وہ اسلم نہیں تھا۔ حیرت سے کبھی وہ فورٹو کی طرف دیکھتا تھا، تو کبھی آئینے کی طرف۔ کہاں وہ بد صورت اور بد حیت لڑکا جو تصویر میں تھا اور کہاں یہ خوبصورت دلکش اور وجیح نوجوان جو آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تھا، وہ خود اپنے آپ کو نہیں پہچان سکا۔ آئینے کے سامنے جو لڑکا کھڑا تھا اس کا گورہ گورہ رنگ،
اور دلکش بال ہر چیز بدلی ہوئی تھی۔ یقینن وہ اسلم نہیں تھا، کوئی اور تھا۔ اسلم نے دل میں سوچا کہ واقعی جن نے اسے بہت خوبصورت بنا دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے معاباپ کو بتا دیتا کہ جن نے اسے خوبصورت بنایا ہے تو جن اسے ناراض ہو جائے گا اور اسے اور زیادہ بچ صورت بنا دے گا اور اس کی باقی دوخواہشیں بھی پوری نہیں کرے گا۔ یہ سوچ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اسے خاموش دیکھ کر اس کے والد نے ذرا ڈانتے ہوئے کہ
سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو اور تم کو کس نے یہاں بیجا ہے اور اسلم کہاں ہے اگر تم نے سب کچھ صحیح نہیں بتایا تو ہم تمہیں پولیس کے حوالے کر دیں گے اور وہ لوگ تمہیں اتنا ماریں گے کہ تمہارے ہوش ٹکانے آجائیں گے اس لئے یہی پر بتا دو کہ تم کون ہو میں سچ کہتا ہوں ابو جی میں ہی اسلم ہوں مجھے کسی نے نہیں بھیجا ہے بلکہ میں خود ہی یہاں آیا ہوں کیونکہ یہی میرا گھر ہے آپ میرے ابو ہیں شاکر حسین اور یہ میری امی ہے
یہ میرا چھوٹا بھائی گدو اور چھوٹی بہن مننی ہے میں اسلم ہوں خدا کی قسم میں اسلم ہوں اتنا کہہ کر اسلم رونے لگا پھر تمہارا چہرہ اور رنگ کیسے تبدیل ہو گیا؟ اس کی امی نے پوچھا اسلم سناطے میں آ گیا جن کی بات بتا نہیں سکتا تھا اچانک اسے کہانی یاد آئی جو اس نے کتاب میں پڑھی تھی اس نے وہی کہانی بتانا مناسب سمجھا اس نے اپنی سوتلی ماں سے کہا امی میں جب گدو اور مننی کے سکول پہ
تو مجھے چپراسی نے بتایا کہ رکھشے والا آیا تھا اور گدومنی کو لے کر چلا گیا میں نے کیوں کہ صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اور روٹی کا ڈبہ لے جانا بھی بھول گیا تھا اس لئے مجھے بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی گدومنی کے سکول سے اپنے سکول اور اپنے سکول سے ان کے سکول میں آنے جانے میں بہت تھک گیا تھا جب میں گھر واپس آ رہا تھا تو ایک املی کے درخ کے پاس مجھے چکر آیا میں زمین پر گر پڑا اور تھوڑی
میں نے خواب دیکھا کہ ایک نحایت ہی خوبصورت پری مجھے دیکھ کر نیچے اتری اور میرے پاس آئی مجھ سے کہا کیوں اسلم تو اتنا اداز کیوں ہے میں نے پری سے کہا پری باجی میری شکل بہت بھیانک ہے اور بری ہے سب لوگ مجھے دیکھ کر ہستے ہیں اور مجھ سے نفرت کرتے ہیں میرا مزاق اڑاتے ہیں اسی لئے میں اداز ہوں مہربانی کر کے مجھے خوبصورت بنا دو اس پری کو مجھ پر رحم آیا اس کی ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا
اس دندے کو اس نے میرے جسم پر پھیرا اور چلی گئی اسی وقت میری آنکھ کھل گئی میں نے جلدی سے بستہ اٹھایا اور گھر چلا آیا بس راستے میں یہی واقعہ میرے ساتھ ہوا اتنا کہ کر اسلم خموش ہو گیا اس کے ابو نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی پری خواب میں دکھائی دے اور آدمی کی شکل و صورت تبدیل ہو جائے نہیں یہ سب بقواز ہے من گھڑت کہانی ہے اب سچ سچ بتا دو کہ تم کون ہو اور تم کو کس نے یہاں بھیجا ہے
اور ہمارا بیٹا اسلم کہاں ہے؟ اب بو یقین کرو میں ہی اسلم ہوں آپ کا نیا اسلم یہ سن کر اس کے ابو کو ہُسا آ گیا انہوں نے ایک زوردار تمانچا اس کے گال پر مارا اور کہا جھوٹ بولتا ہے تُو تُو اسلم ہو ہی نہیں سکتا ضرور کسی نے سازش کیا ہے اور تُجھے اسلم کی جگہ یہاں بھیج دیا ہے تاکہ اسلم کے نانا کی چھوڑی ہوئی دس ایکر زمین تُجھے مل جائے جسے وہ اپنی وسیعت میں اسلم کو دینے کے لئے لکھ گئے ہیں
16 سال کی عمر میں اس کی رجسٹری اسلم کے نام سے ہونے والی ہے مجھے اس سازش میں اسلم کے معمو شیر علی کا ہاتھ نظر آتا ہے شیر علی کو پہچانتا ہے تھو ہاں وہ میرے معمو ہے جو دھامن گاو میں رہتے ہیں انہوں نے ہی تجھے یہاں بیجا ہے نہیں میں تو ان سے ملا بھی نہیں ہوں گزشتہ سال عید میں ان سے ملاقات ہوئی تھی تب سے میں نے انہیں اب تک نہیں دیکھا ہے ابو میں سچ کہتا ہوں میں اسلم ہوں آپ کا بیٹا اسلم تُو ایسے نہیں مان
اس کے اب بھنے چلا کر کہا میں تجھے پولیس کے حوالے کر دوں گا تب ہی تو سب کچھ سحیح بتائے گا کہ تُو دراصل کون ہے اسلم کہاں ہے اور تجھے یہاں کس نے بھیجا ہے چل میرے ساتھ اتنا کہہ کر اس کے اب بھنے اس کی کلای پکر لی اور کھینستے ہوئے اسے باہر لے چلے اسلم نے چلا کر کہا امی مجھے بچا لیجیے امی مجھے بچا لیجیے میں ہی اسلم ہوں گدو روک لے اب بھنے میں سچ کہتا
اور رونے چیلانے کا ان پر کچھ حصر نہ ہوا۔ اس کی ابو سے کھینستے ہوئے لے چلے۔ محلے کے لوگوں نے بھی بچے کو لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ ہران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔ لیکن اصلیت کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اسلم راستے بھر رو تا رہا، چیکھتا رہا اور کہتا رہا کہ وہی اسلم ہے۔ لیکن اس کے ابو پاروز کا کچھ حصہ نہیں ہوا۔ انہیں کچھ رحم نہ آیا۔ اسی طرح اسے کھینستے
پولیس انسپیکٹر کے سامنے اسے لے جا کر پیش کیا اور کہا ساہب یہ لڑکہ آج شام ہمارے گھر میں آیا اور کہتا ہے کہ یہ لڑکہ ہمارا اسلم ہے جبکہ اس کی شکل و صورت ہمارے بیٹے سے بالکل نہیں ملتی پھر اسلم کے اب بھو نے اپنی جیب سے ف نکالی اور پولیس انسپیکٹر کو اسلم کی تصویر دکھا کر کہا کہ یہ ہمارا بیٹا اسلم ہے اور یہ لڑکہ کہہ رہا ہے کہ یہ اسلم ہے ہمارا بیٹا بھی ابھی تک سکول سے واپس
جبکہ اس نے جو کپڑے اور چپل پہنے ہیں وہ بھی ہمارے بیٹے اسلم کی ہے اور بستا جو گھر لایا ہے وہ بھی اسلم کا ہے مجھے لگتا ہے کوئی گہری سازش ہے جو اسلم کو ملنے والی جائیداد کو حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے اسلم وہاں کھڑا روتا رہا اور کہتا رہا کہ وہی اسلم ہے لیکن اس کی بات پر یقین کرنے والا کوئی نہیں تھا انسپیکٹر نے گور سے فото دیکھی لیکن ف اور اسلم میں کوئی مشابہت نہیں تھی
اس نے شاکر علی سے پوچھا آپ کو کسی پر شک ہے؟ شک تو کسی پر نہیں ہے ہاں مجھے ایسا لگتا ہے کہ کسی نے ہمارے بیٹے اسلم کو مار ڈالا ہے اور اس کے کپڑے چپل اور بستا دے کر اور اس کے حالات بتا کر اس لڑکے کو ہمارے گھر بھیز دیا ہے تاکہ اسلم کے نانا کی چھوڑی ہوئی جائداد اس لڑکے کو مل سکے آپ لوگوں کے علاوہ اسلم کے اور کون رشتہ دار ہیں؟ اسلم کا ایک معمو ہے شیر علی جو دھامن گاؤں میں رہت
لیکن اس کا ہمارے گھر آنا جانا نہیں ہے اگر اسلم ختم ہو جائے گم ہو جائے تو اس کی جائیداد کسے ملے گی؟ انسپیکٹر نے پوچھا یقینی طور پر شیر علی کو ہی ملے گی کیونکہ وہ ہی وارس ہے اچھا ٹھیک ہے انسپیکٹر نے شاکر علی سے کہا ہم تحقیقات کرتے ہیں انسپیکٹر نے ہاتھ ملایا اور ان کو رخصت کیا رپورٹ ریجسٹر میں لکھی اور شاکر علی سے فورٹو لے کر اپنے پاس رکھ لی
شاکی رلی کے جانے کے بعد انسپیکٹر نے اسلم سے پوچھا ہاں بیٹے دیکھو گھبرانا نہیں سب کچھ بلکل سچ سچ بتا دینا ہم کچھ نہیں کریں گے ہاں بتاؤ کیا نام ہے تمہارا اسلم تمہارے والد کا کیا نام ہے شاکی رلی تمہارے کتنے بھائی بہن ہے میرا سگہ بہن بائی کوئی نہیں ہے ایک سوتیلہ بھائی اور ایک سوتیلی بہن ہے اسلم نے کہا کیا نام ہے ان کے انسپیکٹر نے پوچھا
بائی کا نام اجاز ہے سب اسے گدو کہتے ہیں بہن کا نام فرحت ہے لیکن سب اسے منی کہتے ہیں اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے کچھ کھانا وغیرہ کھایا ہے یا نہیں انسپیکٹر کی اس بات کر سن کر پھر آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے اس نے روتے ہوئے کہا نہیں سر میں نے سبا سے کچھ نہیں کھایا ہے اچھا اچھا رونا نہیں اچھے بچے روتے نہیں ہمت سے کام لو پھر انسپیکٹر نے ایک سپاہی کو آواز دی وہ آیا تو اس سے کہا کہ ب
یہ سبا سے بھوکا ہے۔ انسپیکٹر نے دس روپے کا ایک نوٹ سپاہی کو دیا اور وہ چلا گیا۔ پھر اسے کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ تھوڑی دیر میں سپاہی بریڈ، دود اور انڈے کا املیٹ لے کر آیا۔ اسلم نے باہر جا کر موہد دھویا اور اطنی منان سے بیٹھ کر کھانے لگا۔ بھوک بہت زور کی لگی ہوئی تھی۔ اس نے سپاہی کی لائی ہوئی تمام چیزیں کھالیں۔ پانی پیا تو اس کی جان میں جان آئی توانائی پیدا
تھوڑی دیر بعد انسپیکٹر اس کے پاس آیا اور کہا تم نے کھانا کھا لیا جی ہاں سر اور کوئی تکلیف؟ انسپیکٹر نے پوچھا جی نہیں سر اسلم نے کہا اچھا اب دیکھو ناہیت ایمانداری کے ساتھ یہ بتا دو کہ تم دراصل کون ہو اور کس نے تم کو شاکر علی کے گھر بھیجا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے اسلم نے کہا انسپیکٹر صاحب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی اسلم ہوں
شاکر علی میرے والد ہے مجھے کسی نے نہیں بھیجا ہے بلکہ میں اپنے ہی گھر میں آیا ہوں پھر تمہاری چکل اور رنگت کیسے تبدیل ہو گئی؟ انسپرٹر نے پوچھا ساہب میں خود ہیران ہوں بس خواب دیکھ کر ہی میری حالت کیسے تبدیل ہو گئی؟ اسلم نے جواب دیا خواب کونسا خواب؟ ساہب میں نے خواب میں ایک پری دیکھی اور اسے اپنی بچ سورتی کے مطالق بتایا اسے میری حالت پر رحم آیا
اور ترس کھا کر اس نے اپنے جادو کے دندے سے مجھے خوبصورت پنا دیا اور میری آنکھ کھل گئی اس واقعے کے بات سے میری شکل و صورت تبدیل ہو گئی ہے لیکن افسوس کوئی اس پر یقین نہیں کر رہا ہے اور اسی کی وجہ سے میں گھر سے بے گر ہو گیا ہوں مجھے پولیس اسٹیشن آنا پڑا انسپیکٹر نے ہر طریقے سے اس سے پوچھ کر دیکھ لیا لیکن اس نے ان باتوں کے علاوہ اور کوئی بات نہیں بتائی جب انسپیکٹر نے دیکھا کہ وہ کسی صورت
تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا کچھ دیر تک وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ رات کو لڑکے کو اچھی طرح کھانا کھیلا دینا اور اسی کمرے میں اس کے سونے کا بندبست کر دینا اور خبردار اس سے کچھ پوچھنا نہیں اور نہ ہی اسے ہاتھ لگانا بس اس پر نظر رکھنا کہ لڑکا کیا کرتا ہے سباہ پھر اسے دیکھیں گے رات میں دس بجے کے قریب شاکل علی پھر پولیس اسٹ
اپنے اصلی بیٹے کے مطلق پوچھنے لگے۔ انسپیکٹر نے کہا ہم نے اس لڑکے سے ہر طریقے سے پوچھ کر دیکھ لیا ہے ابھی کوئی خاص بات تو معلوم نہیں ہو سکی کل سبا دیکھیں گے اور تمہارے بیٹے کا حولیہ بھی میں نے تمام پولیس اسٹیشنوں کو بھیج دیا ہے اگر وہ کہیں ملا تو آپ کو خبر کر دی جائے گی شاکیر علی وہاں سے اپنے گھر چلے آئے اسلم کے نہ ہونے سے آج اسلم کی سوتے لی امی کو سب کام خود ہی کرنے پڑے
اسلم کی ایک دن کی گیرحاضری سے ان سب کو اسلم کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا رات کا کام تو کسی نہ کسی طرح ہو گیا تھا لیکن کل سبہ اٹھ کر انہیں اور بہت سارے کام کرنے تھے جو اکیلا اسلم کر دیا کرتا تھا رات میں سپاہی نے ہوتل سے لا کر کھانا کھلا دیا اور ایک اک کوٹری میں سونے کو شطرنجی اور کمبل دے دیا کھانا کھا لینے کے بعد اسلم نے شطرنجی بچھائی اور آرام سے لیٹ گیا
لیٹے لیٹے سوچنے لگا کہ آج کا دن کتنا عجیب و گریب گزرہ بوتل کے جن نے جہاں اس کی بچ سورتی کو ختم کیا وہیں اس کے ماباب بھی اس سے چھوٹ گئے حوالات کی ہوا کھانی پڑی وہ تو اچھا ہوا کہ انسپیکٹر اچھا آدمی ہے کوئی سخت مزاج آدمی ہوتا تو مار مار کر بھرکس نکال دیتا اگر خوف میں صحیح بات اس کے مو سے نکل جائے تو جن اسے اور بھی بچ سورت اور بھیانک بنا دے گا یہی سب باتیں سو
بے خبر سو گیا، دن بھر کا تھکا ہوا تھا، اس لئے آرام سے سو تا رہا۔ سپاہی برابر اس کی نگرانی کر رہے تھے لیکن کوئی شک کی بات نظر نہیں آئی۔ حسب معمول صبح پانچ بجے اسلم جاگ اٹھا۔ سپاہی بھی جاگ رہے تھے۔ اس کے کہنے پر سپاہیوں نے اسے باہر نکالا، موہا دھو کر اس نے فجر کی نماز ادا کی اور پھر اپنی کوٹری میں جا کر بیٹھ گیا۔ اسلم کی نیکی اور معسوم چہرے کی وجہ سے سپاہی ب
اس کی چائے پانی وغیرہ کا اچھا انتظام ہو گیا تھا صبح نو بجے انسپیکٹر آیا تو اسے اپنے آفیس میں طلب کیا اور اسلم کے آنے کے بعد اسے کرسی پر بیٹھنے کا اعشارہ کیا جب وہ بیٹھ گیا تو انسپیکٹر نے اس سے کہا کیوں میٹے اسلم نیند وغیرہ تو ٹھیک سے آئی جی ہاں جناب مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اچھا ایک بات بتاؤ کہ تمہاری سوتیلی ماں اور تمہاری والد کا تمہارے ساتھ سلوک کیا تھا ان
سر وہ لوگ جو کچھ میرے لیے کر سکتے تھے انہوں نے میرے لیے کیا پھر بھی مجھے اپنے گھر میں اتنا آرام نہیں تھا جتنا میرے بہن بھائی کو حاصل ہے شاید بڑا ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ زیادہ ہی کام کرنا پڑتا ہے اسلم نے جواب دیا تمہاری سوتیلی ما تمہیں مارتی پیٹھتی بھی تھی انسپیکٹر نے پوچھا جی ہاں سر مجھ سے کوئی گلطی ہو جائے نقصان ہو جائے یا دیر ہو جائے تو مجھے م
کیوں کہ میرے ساتھ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ تو ہو کر ہی رہتا اسلم نے جواب دیا اچھا یہ بتاؤ کہ شیل علی کا تمہارے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا انسپیکٹر نے پوچھا انہیں بھی مجھ سے کوئی ہمدردی یا محبت نہیں ہے بلکہ وہ بھی مجھ سے بے ہی نفرت کرتے ہیں کیوں؟ انسپیکٹر نے پوچھا شاید اس لیے کہ مجھے جو دس اکر زمین ملنے والی ہے میں نہ ہوتا تو وہ انہیں کے پاس رہتی اسلم نے جواب دیا
اب یہ بتاؤ کہ اسلم کہاں ہے؟ انسپیکٹر نے پوچھا کون اسلم؟ اسلم تو میں ہی ہوں اسلم نے کہا نہیں میں اس اسلم کی بات نہیں کر رہا فوٹو والے اسلم کی بات کر رہا ہوں انسپیکٹر نے جواب دیا اچھا وہ اسلم وہ تو پری کی جادو کی چڑی سے غایب ہو گیا اور اس کی جگہ یہ نیا اسلم ہے جو آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے اسلم نے جواب دیا اچھا ٹھیک ہے
ابھی ہم تم کو تمہارے سکول لے کر جائیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ تم کو کتنا پہچانتے ہیں اور کتنا تم ان کو پہچانتے ہو انسپیکٹر نے کہا جی سر میں تیار ہوں یعنی پوری تیاری کر کے آئے ہو انسپیکٹر نے کہا نہیں سر میں اپنے اسعادزہ اور ساتھیوں کے مطالعک آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا اور تب آپ کو یقین آجائے گا کہ اسلم میں ہی ہوں اسلم نے کہا اچھا تمہارا سکول کتنے بجے شروع ہوتا ہے انسپیکٹر نے پوچھا
9.50 پر اسمبلی ہوتی ہے اور 10 بجے کلاس شروع ہوتا ہے پہلا پریئٹ سرہمید لیتے ہیں انگریزی کا دوسرا پریئٹ کمال سر کا ہوتا ہے حساب کا اور تیسرا ٹھیک ہے ٹھیک ہے اتنا ہی کافی ہے باقی سکول چل کر دیکھیں گے پونے 10 بچ گئے ہیں ذرا چائے وغیرہ پی لیں تو سکول چلیں انسپیکٹر نے کہا اسی وقت سپاہی کو بھیج کر انسپیکٹر نے چائے مگوائی خود بھی پی اسلم کو بھی پلائی اس طرح
چائے پی لینے کے بعد وہ باہر آئے ڈو سپاہیوں کے ساتھ اسلم کو جیپ گاڑی میں بٹھا دیا گیا انسپیکٹر خود سامنے بیٹھ گیا اور جیپ گاڑی سکول کی جانب روانہ ہو گئی دس بچکر دس منٹ پر وہ سکول پہنچ گئے انسپیکٹر نے سکول کے کمپاؤنٹ سے دس پندرہ گز کی دوری پر جیپ رکھوائی ایک سپاہی کو ساتھ لے کر نیچے اترا اور دوسرے سپاہی کے ساتھ اسلم کو بیٹھنے کا کہا ساتھی یہ بھی کہ
اتنا کہہ کر وہ سکول کی طرف بڑھا سکول میں داخل ہوا اور سیدھا ہیڈ ماسٹر کے آفیس میں پہنچا ہیڈ ماسٹر صاحب انسپیکٹر کو دیکھ کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے ہاتھ ملایا اور کرسی پر بیٹھنے کو کہا جب انسپیکٹر کرسی پر بیٹھ گیا تو ہیڈ ماسٹر نے کہا کہیئے انسپیکٹر صاحب آپ نے کیسے زحمت کی؟ میں ایک لڑکے کے مطالبے معلومات حاصل کرنے آیا ہوں ہجتم جماعت کا تعلی
میں ان کے کلاس ٹیچر کو بلواتا ہوں۔ ہیڈ ماسٹر نے گھنٹی بجائی۔ چپڑاسی آیا تو اس سے کہا حمید صاحب کو بلا کر لاؤ تھوڑی دیر میں حمید صاحب آفیس میں گئے۔ انہیں ہیڈ ماسٹر نے انسپیکٹر صاحب کی آمت کا مقصد بتایا تو حمید صاحب نے کہا اسلم پڑھنے لکھنے میں بہت ہوشیار ہے فرما بردار بھی ہے سکول بھی باقایدہ آتا ہے آج اتفاق سے نہیں آیا اس کی کوئی
ایسی تو کوئی خاص عادت اس میں نہیں ہے کوئی ایب بھی اس میں نہیں ہے ہاں ایک بات ہے کہ اس کی صورت عجیب بے ڈھنگی ہے جس کی وجہ سے اکثر لڑکے اسے ستاتے رہتے ہیں اور وہ احساس سے کم طریقہ شکار ہو جاتا ہے لیکن صاحب وہ پڑھائی کے معاملے میں کافی آگے ہے انسپیکٹر صاحب نے وہ ف جیب سے نکالی جو اسلم کے والد انہیں دے کر گئے تھے حمید صاحب کو ف دکھا کر انہوں نے پوچھا کہ اس تصویر میں اسلم کون ہے
حمید صاحب نے فوراً اسلم کی تصویر پر انگلی رکھ دی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے بھی ان کی تائد کی کیونکہ وہ دو سال سے سکول میں سب سے زیادہ نمبر لے رہا تھا۔ اسی لیے تمام اساتزابہ خوبی پہچانتے ہیں۔ حمید صاحب سے انسپیکٹر نے کہا اچھا اب آپ جا سکتے ہیں۔ جب وہ چلے گئے تو ہیڈ ماسٹر نے انسپیکٹر سے پوچھا۔ انسپیکٹر صاحب آخریر معاملہ کیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لڑکہ محمد اسلم
اس کے جگہ نیا لڑکا شاکر علی کے گھر پہنچ گیا ہے اور وہ نیا لڑکا خود کو اسلم کہہ رہا ہے اس کی ماباب، بہن، بھائی کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ وہ اسلم ہے لیکن وہ نیا لڑکا جتنی بھی باتیں بتا رہا ہے، بالکل صحیح صحیح بتا رہا ہے اس کی صورت اور اس فورٹو والے اسلم کی صورت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس کا کہنا ہے کہ خواب میں ایک پری نے اس کی صورت میں تبدیلی کر دی اور اسے بچ صورت سے خوبصورت بنا دیا ہے انسپیکٹر نے کہ
ابھی وہ نیا لڑکہ کہاں ہے؟ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا اسے ابھی بلواتا ہوں اتنا کہ کر انہوں نے باہر کھڑے ہوئے سپاہی سے کہا کہ لڑکے کو لے کر آ جائے وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد اس کے ساتھ اسلم آفیس میں داخل ہوا اسلم نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو سلام کیا ہیڈ ماسٹر صاحب نے سلام کا جواب دیا اور اسے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے کیونکہ ایسا خوبصورت اور سہت مند لڑکہ ان کے سکول میں
میں اسلم ہوں۔ ہاں میں نے تمہیں پہچان لیا کہ تم اسلم نہیں ہو۔ سر میں ہی اسلم ہوں آپ کو یاد ہے گزشتہ سال میں نے پورے سکول میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے۔ تو آپ نے اپنی جانب سے ایک خوبصورت پن مجھے انام کے طور پر دیا تھا۔ وہ ابھی میری پیٹی میں رکھا ہوا ہے۔ اور کل میں دیر سے آیا تھا تو آپ نے مجھے سزا بھی دی تھی۔ یہ باتیں سن کر ہیڈ ماستر صاحب ہران رہ گئے۔ انہوں نے انسپیکٹر صاحب سے کہا
بالکل صحیح کہہ رہا ہے لیکن میں کسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ آج سے پہلے میں نے اس لڑکے کو کبھی دیکھا تک نہیں ہے سر میں ہی اسلم ہوں آپ جو کچھ بھی میرے مطالق پوچھئے میں بتانے کو تیار ہوں کیونکہ میں ہی اسلم ہوں اتنا کہہ کر اسلم کی آنکھیں آنسووں سے بھیگ گئیں اسے لے کر زرا کلاس میں چلتے ہیں انسپیکٹر نے ہیڈ ماسٹر سے کہا ٹھیک ہے چلیئے انسپیکٹر صاحب، ہیڈ ماسٹر اور اسلم تینوں ہ
انھیں دیکھ کر تمام بچے احترام سے کھڑے ہو گئے ہیڈ ماسٹر نے تمام بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا جب تمام بچے بیٹھ گئے تو ہیڈ ماسٹر نے کہا تم میں سے کوئی لڑکا اس بچے کو پہچانتا ہے تمام لڑکیں ہران ہو کر ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگے کلاس کا ایک لڑکا بھی اس سے پہچان نہیں سکا پھر انسپیکٹر نے اسلم سے پوچھا کہ تم ان لڑکوں کو پہچانتے ہو جی ہاں سر ہر ایک کو اچھی طر
یہ بتاؤ کہ اس کلاس کا منیٹر کون ہے؟ اس کلاس کا منیٹر جاوید ندیم ہے یہ پہلے بینچ پر بیٹھا ہوا ہے فٹبال کا اچھا کھلاڑی ہے لیکن انگریزی اور حساب میں بہت کمزور ہے اسلم کے مو سے یہ باتیں سن کر تمام لڑکے ہران رہ گئے خود ہمید صاحب بھی ششدر رہ گئے کیونکہ اسلم نے جتنی باتیں بتائی تھی بالکل سچ تھی اچھا یہ بتاؤ تم کہاں بیٹھتے تھے؟ سر میں اس کھڑکی کے پاس تیسری بینچ
وہ ہے میری خالی جگہ۔ اسلم نے عشارے سے بتایا سب لڑکوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ اس طرح ایک ایک کر کے اسلم نے اپنے تمام ساتھیوں کے نام اور اساتزہ کے نام بتا دئیے۔ ہیڈ ماسٹر اور کلاس ٹیچر نے اس بات کا اطراف کیا کہ یہ لڑکا جو کچھ کہہ رہا ہے، بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ اس کے بعد ہیڈ ماسٹر نے لڑکوں کو بتایا کہ یہ لڑکا جو تمہارے سامنے کھڑا ہے، تمہارا ساتھی اسلم ہے۔
کچھ لڑکوں نے کہا نہیں سر یہ اسلم نہیں ہے یہ اسلم ہو ہی نہیں سکتا کہا وہ بچ سورت لڑکا اور کہا یہ خوبصورت ہو اور وجیہ نوجوان اسلم میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے اسلم نے سوھیل کو مخاطب کر کے کہا سوھیل تم کو یاد ہے کل میں روٹی کا ڈبہ نہیں لائے تھا اور تم نے مجھے اپنے ساتھ مل کر کھانے کی دعوت دی تھی میں ہاتھ چڑا کر باق کی طرف بھاگ گیا تھا ہاں اسلم نے کل یہی کہا تھا جو تم کہہ رہے ہو لیکن تم اسلم نہیں ہو
میں اسلم ہی ہو سوہیل میرے دوست میری بات کا یقین کرو اچھا کل تو مجھ سے مانگ کر میری حساب کی کاپی لے گئے بولو وہ کاپی ابھی تمہارے پاس ہے کہ نہیں ہاں وہ کاپی میرے پاس ہی ہے اور وہ کاپی مجھے تم نے نہیں اسلم نے دی تھی اور تم اسلم نہیں ہو میں اسلم ہی ہوں میرے دوست میں تم لوگوں کو کیسے یقین دلاؤں کہ خواب میں ایک پری نے میری شکل اور صورت بدل دی اور اب مجھے کوئی پہچان نہیں رہا ہے جبکہ میں ہر ایک کو پہچان
اسلم کی حساب کی کوپی تمہارے پاس ہے سوہل۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سوہل سے پوچھا۔ یا سر یہاں لے کر آؤ۔ سوہل نے وہ کوپی ہیڈ ماسٹر صاحب کو دی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے وہ کوپی الٹ پلٹ کر دیکھی۔ آخری صفحے پر لکھے ہوئے سوال کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے اسلم سے کہا۔ کیا تم اس سوال کو حل کر سکتے ہو؟ جی ہاں سر، الجبرا کا یہ سوال میں آسانی سے حل کر سکتا ہوں۔ ہیڈ ماسٹر
اور اسلم سے کہا اچھا اس سوال کو حل کرو اسلم نے چوک لیا اور ایک منٹ میں اس کا صحیح جواب لیک بوٹ پر لکھ دیا ہیڈ ماسٹر نے اسے شاب باز دی اور کہا تمہارا جواب بالکل صحیح ہے پھر بھی ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ تم اسلم نہیں ہو تمام لڑکے ہران تھے کہ جادو کی کہانیوں کی بات حقیقت کیسے ہو گئی ہیڈ ماسٹر اور انسپیکٹر صاحب اسلم کو لے کر کلاس سے چلے آئے
انسپیکٹر کو سرویز کرتے ہوئے دس سال ہو چکے تھے لیکن ایسا عجیب و غریب کیس نہ تو اس نے کبھی خود حل کیا اور نہ کبھی سنا یہ اپنی نویت کا پہلہ کیس تھا اس لئے وہ اس میں خاص طور سے دلچسپی بھی لے رہا تھا اس کے علاوہ اسلم کے بھولے بھالے ماسوم چہرے اور دلکش شخصیت کی وجہ سے بھی وہ اسلم کا ہم درد بن گیا تھا انسپیکٹر نے جیپ اس راستے پر مور دی جہاں اسلم کو نیند آئی تھی اور خواب میں پری دکھائی دی ت
وہ اس جگہ کو بھی دیکھنا چاہتا تھا۔ اسلم کی رہنمائی میں جیپ وہاں پہنچ گئی جہاں اسلم کوچ جین ملا تھا۔ انسپیکٹر نے جیپ رکھوائی اور اُتر کر باہر آیا۔ املی کے درکت پاس کے گڑھے میں مزدور موجود تھے جو گڑھا کھوڑ رہے تھے۔ اس نے آسپاس کی چیزوں کو غور سے دیکھا۔ وہیں ایک جنگہ بوٹل کے کچھ ٹکڑے پڑے ہوئے تھے اور بہت سے ٹکڑے گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی میں دب
پھر اسے پھینک دیا۔ اسلم کو جیپ میں بٹھایا اور پولیس اسٹیشن واپس چلا گیا۔ ان سب کاموں میں ایک بچ چکا تھا۔ انسپیکٹر نے اسلم کے کھانے کا انتظام کر دیا۔ مختلف تھانوں میں فون کر کے پوچھا کہ کوئی گمشدہ لڑکا ملا ہے یا نہیں۔ لیکن کسی بھی کھانے سے گمشدہ لڑکے کے ملنے یا عوارہ لڑکے کے پکڑے جانے کی کوئی خبر نہیں ملی۔ پھر انسپیکٹر نے شہر کے تمام اخباروں کے آفیسز میں فون کی
اور شام کی پرس کانفرنس طے کر لی تاکہ اس عجیب و گریب کیس کے مطالق لوگوں کو بھی معلوم ہو جائے سادھی اخباروں میں اسلم کا فورٹو بھی شائع کر دیا جائے تاکہ اگر یہ لرکا کسی دوسری جگہ سے یہاں پہنچا ہو تو اس کا سراغ مل سکے شام کو پرس کانفرنس میں تمام بڑے اخباروں کے نمائندے شامل ہوئے اس کانفرنس میں انسپیکٹر نے اسلم کے والد ہیڈ ماسٹر صاحب اور اس کے کلاس ٹیچر ہمید صاحب کو بھی ب
انسپیکٹر نے پورے واقعات تفصیل سے بیان کیے۔ اسلم کے والد، اس کے کلاس ٹیچر اور ہیڈ ماستر صاحب نے انسپیکٹر کی بات کی تصدیق کی کہ اسلم نے ایک بات بھی غلط نہیں کہی۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلم اور اس لڑکے میں بال برابر بھی مشابہت نہیں ہے۔ اخواروں کے نامانگاروں نے مختلف طریقے سے اسلم سے سوالات کیے۔ اس نے اپنی شکل کی تبدیلی کے مطلب وہی فری والی کہانی بیان کی۔
دوسرے دن شہر کے تمام اخباروں میں اسلم کی عجیب و گریب کہانی اس کی تصویر کے ساتھ شایہ کی گئی ساتھ ہی عوام سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ اس لرکے کو کوئی جانتا ہو کسی نے کہیں دیکھا ہو تو وہ اخبار کو یا پولیس اسٹیشن میں اطلاع دے اخباروں میں تصویر چھپنے کے دوسرے دن اسلم کا معمو شیر علی پولیس اسٹیشن پہنچا اور انسپیکٹر سے ملاقات کی اسلم کو اس کے سامنے لائیا گیا تو اسلم نے اسے فوراً پہچان ل
اور آج سے پہلے کی ملاقات کی پوری تفصیل اس کے سامنے بیان کر دی۔ شیر علی نے اطراف کیا کہ اس لڑکے نے جو کچھ بیان کیا ہے، سب کچھ صحیح ہے۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یہ لڑکہ اسلم ہے۔ یہ ضرور کوئی گہری سازش ہے جو اس زمین کو حاصل کرنے کیلئے کی گئی ہے جو میرے والد اسلم کے نام لکھ گئے ہیں۔ انسپیکٹر صاحب یہ اسلم نہیں ہے، اگر یہ اسلم نہیں ہے تو پھر یہ کون ہے؟ انسپیکٹر نے پوچھا اور سازش کرنے وال
ایسا تو نہیں ہے انسپیکٹر صاحب کہ اسلم کو کسی نے قید کر کے رکھ لیا ہو اور اس کو تمام باتیں سکھا کر اس لڑکے کو بھیج دیا ہو ایسا کون لوگ کر سکتے ہیں؟ انسپیکٹر نے پوچھا شاکی رلی اور اس کی رشتہ دار شاکی رلی اگر ایسا کرتا تو بچے کو پولیس اسٹیشن میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اسے مارنے پیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟ بلکہ اولٹا وہ تو تم پر شک کر رہا ہے مجھ پر وہ کیا شک کرے
اور میں کہہ دیتا ہوں کہ جب تک اصلی اسلم سامنے نہیں آئے گا، زمین میرے ہی پاس رہے گی۔ اصلی اسلم کہاں چھوپا ہوا ہے؟ انسپیکٹر نے کہا، مجھے کیا معلوم؟ شیر علی نے جواب دیا، اچھے ٹھیک ہے شیر علی ہم معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ دراصل معاملہ کیا ہے۔ اچھا میں چلتا ہوں انسپیکٹر صاحب، اتنا کہہ کر شیر علی جانے کیلئے اٹھا، تب ہی اس کے ذہن میں کوئی بات آئی، وہ رک گیا
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اسلم مر گیا ہو اور اس کی روح اس لڑکے کے جسم میں داخل ہو گئی ہو اگر ایسا ہوا ہے تو اس لڑکے کی اپنی روح کہاں گئی اور اسلم کی لاش کا پتہ بھی تو چلنا چاہیے اس لڑکے کا بھی کوئی نہ کوئی ہوگا ماں، باپ، بھائی، بہن ابھی تک تو کسی نے اسے پہچانا نہیں ہے سبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلم نہیں ہے اگر یہ اسلم نہیں ہے تو پھر یہ کون ہے؟ انسپیکٹر صاحب کی بات کا شیلری نے کچھ جواب نہیں دیا
What's Your Reaction?