الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ کہانی

الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ کہانی

Nov 20, 2024 - 15:31
 0  6
الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ کہانی
الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت ہے فتنہ اور غانم کی کہانی کسی زمانے میں شہر دمشک میں ایک سودگر رہتا تھا جس کا نام عیوب تھا بڑا مشہور بڑا مالدار اور صاحب حشمت اور شریف النفس اس کا لڑکہ تھا غانم اور ایک لڑکی تھی الکنب غانم کا آغاز جوانی ہی تھا کہ عیوب کا انتقال ہو گیا عیام عزا گزارنے کے بعد غانم نے اپنے مال کا جائزہ لیا


اس میں سو گھڑے اُمدہ کپڑا تھا جس پر بغداد کے نام کی پرچیاں لگی ہوئی تھی گانم نے ماں سے ان کا حال پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ تمہارے والد بیماری سے پہلے بغداد جانے والے تھے اور ان کی عادت تھی کہ جدھر مال لے جانا ہوتا یا جہاں کے لئے مال خریدتے اس پر اس مقام کے نام کی پرچی لگایا کرتے تھے اب ان کا انتقال ہو گیا ہے تم یہ مال یہیں فروخت کر دینا گانم نے اس وقت تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن دل میں تح کر ل


کہ میں اس مال کو ضرور بگڑاد لے کر جاؤں گا۔ ایک روز جبکہ غانم کی والدہ خوش تھیں، اس نے معن لے کر بگڑاد جانے کی اجازت چاہی۔ معنے بیٹے کی عمر اور نا تجربکاری کی بنیاد پر روکنا چاہا۔ لیکن غانم بڑا اصرار کرتا رہا۔ مجبوراً اس نے اجازت دے دی اور غانم کپڑے کی وہ گٹھرییں لے کر بگڑاد روانہ ہو گیا۔ دمشک اس زمانے میں خلفہ عباسیہ کے معتہت تھا۔


اور امیر المومنین خلیفہ حرون الرشید کی طرف سے محمد ابن زبینی ابن سلیمان وہاں حاکم مقرر تھے غانم نے بغداد پہنچ کر ایک معقول مکان کراے پر لیا اور چند روز کی سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آرام کیا اس کے بعد مال کا نمونہ لے کر بازار گیا بغداد کے سودگروں نے کپڑا بہت پسند کیا اور مناسب نرقوں پر خرید لیا غانم ایک روز فروقت شدہ مال کی قیمت وصول کرنے کے لیے بازار پہنچا


تو دیکھا اکثر کپڑے کی دکانیں بند ہیں دریافت حال پر معلوم ہوا کہ ایک مشہور کپڑے کا تاجر مر گیا ہے اور سب اس کی تجہیز اور تکفین کے لئے گئے ہوئے ہیں غانم بھی مرہوم صودہ گرگے گھر پہنچا اور جناعزے کے ساتھ شریخ ہو کر قبرستان تک گیا اس کے بعد باقی لوگوں کے ساتھ دوبارہ مرہوم کے مکان پر پہنچا وہاں جا کر غانم کو معلوم ہوا کہ اور لوگ شب کو یہیں رہیں گے اور فاتح خوانی بگیرہ ہوگی


گانم کو خیال آیا کہ ایسا نہ ہو میری عدم موجودگی میں ملازم مال وغیرہ لے کر فرار ہو جائیں۔ اس لئے وہ اپنے مکان کی طرف واپس لوٹا لیکن جب شہر کے قریب آیا تو یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا کہ شہر پنہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ مجبوراً ملحقہ قبرستان میں بنی ہوئی ایمارت میں رات گزارنے کا ارادہ کر کے اندر چلا گیا۔ ابھی گانم کو لیٹے ہوئے کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ تین آدمی ایک سندوق اٹھائے قبرستان میں داخل


غانم نے یہ سمجھ کر کہ معلوم نہیں کون ہیں اور کیا لا ہے ہیں، ایک درخت کی آدمے چھپ گیا۔ ان آدمیوں نے جو بظاہر غلام معلوم ہوتے تھے ایک قبر نماغ گڑھا کھوڑا اور اس سندوق کو اس میں دبا کر مٹی ہموار کر دی اور ہاموشی سے واپس چلے گئی۔ غانم کے دل میں رفائے استجاب کی خواہش اتنی بڑھی کہ نتائج سے بے پروہ ہو کر اس نے گڑھے کو مٹی سے ساف کیا اور سندوق کو نکال کر کھولا۔


اسے امید تھی کہ اس میں یا تو کسی شخص نے اپنا مال دفن کیا ہے یا کسی مسیبتناک جرم کو چھپانے کے لیے یہ کاروای کی گئی ہے جس وقت سندوک کا ڈھکنا اٹھایا تو اس نے دیکھا کہ ایک نوجوان اور بہت حسین زندہ عورت اس میں بند ہے یہ دیکھ کر اسے بہت تاجب ہوا اور عورت کو نکال کر خلی ہوا میں لٹا دیا جب اس کو حوش آیا تو اس نے غالباً اپنی کنیزو کا نام لے کر پکارنا شروع کیا اور جب کوئی جواب نہ ملا


تو حیران ہو کر اپنے چاروں طرف دیکھنے لگی پھر قبرستان کو پہچان کر بڑھ بڑھ آئی کیا قیامت کا دن آ گیا ہے؟ اتنے میں غانم اس کے قریب آیا اور تسلی تشفی دے کر جو کچھ واقعہ گزر تھا اس کو بتایا عورت نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی کہ میں اس دوبارہ زندگی کے لیے صرف آپ کی ممنون ہوں صبح سووے رے شہر جا کر ایک گدھہ لے آنا اور اسی طرح سندوق میں بند کر کے مجھ


گو میں پیدل چل سکتی ہوں لیکن ممکن ہے اپنے لباس اور وزا قطع سے پہچان لی جاؤں گانم نے جو اس کی صورت دیکھ کر آشک ہو چکا تھا تعمیل عرشات کا وادہ کیا چرانچے صبح اُس عورت کو بدستور سندوق میں بند کر کے شہر سے ایک گدھا لائیا اور سندوق اس پر رکھ کر اپنے گھر لے آیا پھر بازار سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لائ کر سامنے رکھی دونوں نے ناشطہ کیا دورانِ تعم میں گانم نے اس کا حال دریافت کیا وہ کہنے


میرا نام فتنہ ہے اور خلیفہ حارون الرشید کی کنیز ہوں خلیفہ مجھ پر بہت محربان تھے زوبیدہ خاتون کو یہ ناغوار تھا اسی نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے بہرحال میں خدا کے بعد تمہاری شکر گزار ہوں کہ مجھے زندہ درگو ہونے سے بچایا میں امید کرتی ہوں کہ تم فلحال اس واقعے کا کسی سے ذکر نہیں کرو گے کیونکہ اگر زوبیدہ بیگم کو معلوم ہو گیا غانم نے اس کو اتمیناں دلائیا کہ آرام کے ساتھ


میں اس معاملے میں بلکل خامش رہوں گا۔ اس کے بعد وہ بازار گیا اور دو خادماءیں فتنہ کے لیے لے آیا تاکہ اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ فتنہ نے کہا کہ مجھ پر تمہارے احسانات بڑتے ہی جا رہے ہیں اگر خدا کو منظور ہوا اور میرے حالات بدلے تو انشاءاللہ میں بھی کسی وقت تم سے کوتا ہی نہیں کروں گی ہر وقت کے قربنہ گانم کی آتش محبت کو تیس کر دیا وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ فتنہ کا دل بھی سوزش سے کھالی نہیں


لیکن اس نے زبت سے کام لیا کیونکہ فتنا آمانت تھی ابھی اس کو کوئی حق نہیں تھا کہ فتنا کو ہاتھ لگا سکتا زوبیدہ فتنا کو زندہ دفن تو کرا بیٹھی لیکن بہت متفقر تھی کہ جب خلیفہ واپس آکر پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گی وہ جانتی تھی کہ خلیفہ کو فتنا سے بہت لگاؤ ہے آتے ہی تلب کریں گے مجبور ہو کر زوبیدہ نے اپنی دائی کو بلایا جو بڑی ہوشیار اور لگائی بجھائی کے فن میں یکتا تھی


دائی تمام حالات سن کر بولی کہ آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں میں ایک فرضی مردت تیار کرتی ہوں آپ اعلان کر دیجئے کہ اچانک فتنہ مر گئی فر اس کی قبر پر ایک امدہ مقبرہ بنوہ دیجئے تاکہ بعد میں کوئی دیکھ بھال نہ ہو سکے یہ تجویز زبیدہ نے بھی پسند کی بڑیا نے ایک فرضی مردت تیار کیا اور محلات میں مشہور کر دیا کہ فتنہ کا انتقال ہو گیا ہے دائیہ نے چند رازدار کنیزوں کے ساتھ گسل و تک


تاکہ کسی کو شبہ کا موقع نہ ملے جعفر کو اطلاع کرائی گئی اور بڑے تسکو احتشام سے فرضی فتنہ دفن کر دی گئی زبیدانہ خود اتنے رنجو ملال کا مظہرا کیا گویا اس کی اپنی بڑی بہن مر گئی ہے ایک امدہ قسم کے مکبرے کا حکم دے دیا گیا جس کی تعمیر میں زبیدانہ خود دلچسپی لی غرز کے خلیفہ کی بافصی سے پہلے پہلے سب مراسم پورے کر دئیے گئے جب خلیفہ


تو وہ بہت رنجیدہ ہوئے اور مکبرے پر جا کر خود فاتح پڑی لیکن دوسرے ہی دن اپنے کاروبار سلطنت میں ایسے مشکول ہوئے کہ گویا کوئی خاص حادثہ نہیں ہوا تھا فتنہ نے بھی یہ حالات غانم کی زوانی سنے وہ کہنے لگی خدا کا شکر ہے میں زندہ سلامت ہوں اور خدا نے چاہا تو دشمنوں کی چالیں انہیں کے خلاف مسیبت کا باس بنیں گی جب فتنہ کو خلیفہ کی آمت کا علم ہوا تو اس نے اپنی تجویز پر عمل در آمت شرو


غانم کو ایک خط لکھ کر دیا کہ فلان شخص کو دے آو خلیفہ حرون الرشید دو پہر کے خانے کے بعد کیلولا کے لئے لیٹے تو ایک مقرب خاص کنیز نور اللہار پنکھا کرنے لگی جب ہر طرف خاموشی ہو گئی تو اس نے خلیفہ سے عرس کیا کہ حضور فتنہ زندہ ہے خلیفہ نے کہا تُن بے بکوف ہو گئی ہے اس کو تو مرے ہوئے کئی ہفتے ہو چکے ہیں وہ بولی کہ حضور یہ خط ملاحظہ فرمایا آج ہی ایک عزیز کی معرفت مج


خلیفہ نے خط لے کر پڑھا تو سکتے کی حالت میں رہ گئے دیر تک دماغ میں مختلف قیالات کا حجوم رہا اس کے بعد خلیفہ نے تنہائی میں زبیدہ کو بلایا اور خط دکھا کر اصل حالات دریافت کیے ایک مرتبہ تو خط پڑھ کر زبیدہ سرد ہو گئی لیکن وہ بہت ذہین اور باحوصلہ عورت تھی خط کے مطالعے کے دوران ہی میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے کیا جواب دینے چاہیے


اتفاقاً خطمِ فتنہ نے اپنا غانم کے یہاں رہنا وغیرہ تو سب کچھ لکھ دیا لیکن زبیدہ کے مطالق صرف اس قدر لکھا تھا کہ ان کے بارے میں سب کچھ زبانی عرض کروں گی خط پڑ کر زبیدہ نے خلیفہ سے کہا کہ مجھے مدد سے فتنہ کی چال چلن کے بارے میں شکوک تھے آپ کے جانے کے بعد وہ شکوک اور بڑھے میں نے اس کو روکنے چاہا تو وہ حرم صراہ سے نکل گئی میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ خبر مشہور ہو


کیونکہ فتنہ کے مطالق بگداد کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ آپ کی منظور نظر ہے مجبورا میں نے یہ سوانگ تیار کیا اور فرضی مکبرہ بھی بنوادیا جب آپ آئے تو میں نے اس واقعے کا ذکر آپ سے نہیں کیا کیونکہ آپ کو صدمہ پہنچتا یہ صحیح ہے کہ میں نے شکوک کی بنہ پر کچھ سکتی کی لیکن اب وہ آپ سے مل کر میری کچھ شکایت کرنا چاہتی ہوگی بلا کر سن لیجیے کیونکہ وہ آپ کی محبوب ہے کنیز کا فکر تو مجھے حاصل ہے یہ دوسری ب


کہ ملکہ کہلاتے ہوئے بھی آپ کی نظروں سے گری ہوئی ہوئی ہوں۔ خلیفہ یہ سب حالات سن کر بہت برحم ہوئے۔ زبیدہ کو بہت پیار سے تسلی دے کر رقصت کیا اور کہا کہ اگر تم اس حالت میں اس کنیز کو قتل بھی کر دیتی تو تمہیں اختیار تھا۔ اس کے بعد باہر آ کر حکم دیا کہ غانم سودگر دمشک کو گرفتار کر کے اس کا معل و اسباب زبط کر لیا جائے۔ فتنہ کو لا کر محل شاہی میں زیر حراست رکھا جائے۔


اس وقت کوتوال شہر سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر غانم و فتنہ کی گرفتاری کیلئے روانہ ہوا۔ اتفاقا فتنہ کو خبر پہنچ گئی کہ کوتوال غانم کی گرفتاری کیلئے آتا ہے۔ چنانچہ اس نے سب سے پہلے غانم سے کہا کہ تم غلاموں کا لباس پہن کر نکل جاؤ میں اپنا انتظام کر لوں گی۔ جس وقت غانم ایک غلام کی وزا میں باہر نکلا تب تک سپاہیوں نے مکان کا محاصرہ کر لیا تھا۔ لیکن اس کو غلام سمجھ کر جانے دیا۔


اس کے بعد کوتبال اندر آیا فتنہ کو سلام کیا اور شاہی حکم سنائیا فتنہ نے کہا میں تیار ہوں کوتبال نے غانم کے مطالق دریافت کیا فتنہ نے کہا وہ تو بہت روز سے باہر گیا ہوئا ہے اور اس کا معلو اسباب میری تحویل میں ہے آپ اس کی حفاظت کا انتظام کیجئے کوتبال نے کل سامان سربہ مہر کر کے بیت المال میں رکھنے کیلئے بھیج دیا فتنہ محل کے زنانہ مجلس میں قید کر دی گئی


کوتوال نے سب واقعہ دربار خلافت میں عرص کیے حارون الرشید کو جب معلوم ہوا کہ غانم نہیں ملا تو بہت ناراض ہوئے جعفر کو حکم دیا کہ اس وقت والی دمشک کو حکم لکھو کہ غانم ابن عیوب کا مال و اسباب بیت المال میں داخل کر دیا جائے اگر وہ خود موجود ہو تو گرفتار کر کے بغداد بھیج دو وہ نہ ملے تو اہل خانہ کو شہر بدر کر دو یہ حکم جس وقت والی دمشک کو ملا


عجرہ فرمان شاہی کا حکم دے کر غانم کے گھر بھیجا غانم کی ماہ اور بہن اس کی کوئی اتلاع نہ ملنے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں کہ سپاہی حکم شاہی لے کر پہنچے سب سے پہلے غانم کے متعلق سوال کیا وہ کہنے لگی کہ وہ معلو اسباب لے کر بغداد گیا تھا اور مدد سے کوئی خبر اس کی نہیں ملی ہم سخت پریشان ہیں جو افسر تامیل حکم کے لیے گیا تھا اس کو بہت افسوس ہوا کہ ان بے گناہوں پر کیوں ظلم کیا


ہو سکتا ہے کہ غانم نے کوئی سخت جرم کیا ہو لیکن اس کی سزا بھی اسی کو بھگتنی چاہیے لیکن دربار خلافت کے احکمات ٹالنا بھی اس کے بس کی بات نہ تھی مجبورا ان اورتوں کو بگداد سے آیا ہوا حکم سنایا اور کہا گو میں جانتا ہوں کہ تم بے گناہ ہو لیکن خلیفہ کا حکم ہے اس کی تعمیل ضرور ہوگی اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم یہاں سے سیدھی بگداد چلی جاؤ اور امیر المومنین کے دربار میں عرس کرو


کہ ہم بلا قسور زیرے عطاب لائی گئی ہیں مجھے یقین ہے کہ داد رسی ہوگی اس عرصے میں تمہارا مال و اسباب حکومت کی زیرے نگرانی رہے گا بس یہی وہ ممکن ریائیت ہے جو میں تم سے کر سکتا ہوں غانم کی والدہ اور ہمشیرہ حاکم کے حکم کے مطابق بے یار و مددگار دمشک سے نکلیں تمام شہر میں اس ظلم کا چرچا تھا آج تک امیر المومنین نے کبھی ایسا حکم نہیں دیا تھا یہ بڑی ہی زیادتی ہوئی


گریبوں کیلئے کوئی معمون ملجح نہیں رہا تھا کچھ زادے راہ ساتھ لے کر روتی ہوئی بغداد کی طرف روانہ ہوئی خلیفہ حارون الرشید فتنہ کو قید کر کے چند روز بہت غم و وسے کی حالت میں رہے لیکن زبیدہ نے بہت ہوشیاری اور اقلمندی سے ان کا رخ اس طرف سے فیر کر عمر سلطنت کی طرف فیر دیا یہاں تک کہ چند روز بعد خلیفہ سب کچھ بھول کر عمر ضروریہ کی انجام تہیمیں منحمق ہو گئے اسی طرح کچھ


ایک روز خلیفہ سنانہ مجلس شاہی کی سمت سے گزرے تو انہیں فتنہ کے رونے کی آواز آئی تو دفتن پچھلے واقعات یاد آ گئے چنانچہ اسی وقت محافظین کو حکم دیا کہ فتنہ کو حاضر کرے فتنہ آئی تو بہت جوش کی حالت میں تھی ہاتھ بند کر کہنے لگی کہ آپ خلیفہ ہیں اور آپ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے لیکن آپ جبکہ خلیفہ ہیں وہ احکم الحاکمین تمام عامل کا نگراہ ہے


آپ نے غانم کے مطالب جو کچھ احکام صادر فرمایا ہیں وہ بے دوز انصاف ہیں بغیر تحقیقت آپ نے اس کو مجرم قرار دے دیا اور بالفرض وہ مجرم بھی ہو لیکن اس کی ماں اور بہن کا کیا قصور تھا وہ بیچاریاں کیوں شہر بدر کرا دی گئیں اور ان کا معلو اسباب چھین کر بلا سہارہ چھوڑ دیا گیا مجھے اب تک یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ نے مجھے کسے جرمے میں قید کیا ہے غانم ایک شریف اور دیانت دار آدمی ہیں


اس نے مجھ پر احسان عظیم کیا، میری جان بچائی، عزت و عبرو کی حفاظت کی معلوم نہیں اس گریب پر کیوں اطاب شاہی نازل ہوا فتنہ نے غصے کی حالت میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو عام حالات میں کوئی بھی خلیفہ کے سامنے کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا خلیفہ نے کہا بے شک گانم کی والدہ اور بہن کے مطالق غلط حکم دے دیا گیا لیکن تم محل سرائی سے باہر کیوں گئیں؟ فتنہ نے کل واقعات سنائے


خلیفہ اس سے بہت متاثر ہوئے ممکن تھا وہ زبیدہ سے کچھ پوچھ کچھ کرتے لیکن فتنہ نے جس جوش کے ساتھ غانم اور اس کے گھر والوں کی وقالت کی تھی اس نے خلیفہ کے دل کے بائید و گوشوں میں شک کی چنگاری کو روشن کر دیا خلیفہ نے خیال کیا کہ ممکن ہے زبیدہ نے جوشی رقابت میں اس کے ساتھ ظلم کیا ہو لیکن بہرحال یہ غانم کی طرف معل ہو چکی ہے خلیفہ کا یہی شک زبیدہ کی ساری کاروائی کی


چشم پوشی کا باس بن گیا انہوں نے غانم کا قصور ماف کر دیا اور ایک اعلان عام کے ذریعے غانم کو اس کی والدہ اور ہمشی را کو دربار میں بلایا لیکن غانم کا کوئی پتہ نہیں چلا فتنہ انتظار کرتی رہی کہ مافی کا اعلان سن کر وہ جہاں کہیں بھی ہوگا ضرور آ جائے گا لیکن وہ نہ آیا تو مایوس ہو کر فتنہ خود غانم کی تلاش میں نکلی فتنہ خیر خیرات کرتی ہوئی ایک راست گزر رہی تھی کہ اسے ایک سودہگر


جو سخواوت میں بہت مشہور تھا فتنہ نے اس کو 1000 دینار دیئے کہ یہ میری طرف سے خیرات کر دینا سودگر نے فتنہ کا لباس فاخرہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ کسی معزز خاندان سے معلوم ہوتی ہے اس لئے عدب کے ساتھ ارس کیا کہ حضور کل سے دو نو وارد عورتیں میرے مکان پر ٹھہری ہوئی ہیں جو بہت خستہ حال ہیں اگر آپ کو بار نہ ہو تو غریب خانے پر چل کر اپنے ہاتھ سے ان کو انائت کیجئے


فتنہ نے ان کا حال دریافت کرنا چاہا تو سودگر نے عرص کیا کہ حضور میں نے ان کی زبون حالی دیکھ کر فلحال ان کے حالات دریافت کرنا مناسب نہ سمجھا چنانچہ فتنہ فوراً اس کے مکان پر روانہ ہوئی سودگر کی بیوی نے نیحیت عزت و احترام سے بٹھایا اور خاطر توازو کی فتنہ نے کہا کہ مجھے ان نو وارد عورتوں سے ملاو سودگر کی بیوی فتنہ کو ان کے پاس لے گئی اور وہ نو وارد عورتیں بیٹھی ہوئی رو رہ


فتنہ نے ان کو تسنی تشفی دی اور کچھ دینار پیش کر کے ان کا حال دریافت کیا غانم کی ما نے کہا کہ ہماری مسیبت کا باز خلیفہ کی محبوبہ فتنہ ہے میں عیوب نامی سودگر کی بیوی ہوں میرا بیٹا غانم یہاں مال تجارت لے کر تجارت کی غرس سے آیا تھا اس پر کسی ظالم نے فتنہ کے اگوا کا الظام لگایا اور گرفتار کرا دیا نامعلوم میرے بیٹے کا کیا حال ہے اور کس جگہ ہے اور اس کے بعد


حاکم دمشک کے تمام مظالم بیان کر کے زار و قطع رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ اگر اب بھی غانم صحیح سلامت مل جائے تو ہمارا رنج و گم سب دور ہو جائے یہ سن کر فتنہ بولی کہ تمہاری مسیبت کا باعث میں ہوں اب خلیفہ نے غانم کا گناہ ماف کر کے اس کا تمام مال و اصباب اصل سے دوگنا کر کے اطا کر دیا ہے اور تمہاری تلبی خلیفہ کے یہاں ہے کئی دن سے تمہاری تلاش میں منادی ہو رہی ہے


بیان کیے۔ ابھی یہ عورتِ غانم کی تلاش کا آئندہ پروگرام سوچھی رہی تھی کہ وہی سودگر اندر آیا اور کہنے لگا کہ دہات سے میرے شفہ خانے میں ایک نوجبان مریض آیا ہے۔ حال پوچھتے ہے تو روتا ہے، حال نہیں بتاتا۔ فتنہ سب کو تشفی دے کر سودگر کے سات مریض کے پاس آئی۔ یہاں آکر دیکھا تو وہ غانم تھا۔ لیکن بہت کمزور اور لاغر ہو گیا تھا۔ فتنہ نے قریب بیٹھ کر آواز دی اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟


غانم نے آنکھا کھول کر اس کو دیکھا وہ ایک احسرد کے ساتھ بے ہوش ہو گیا سودہ گر نے لخ لخہ سنگھایا کچھ دیر بعد غانم کو خوش آیا تو اس نے فتنا کے مطالق پوچھا سودہ گر نے کہا وہ انقریب آئے گی خلیفہ نے تمہارا قصور ماف کر دیا ہے جب تم تندرست ہو جاؤ گے تو اتمینان سے سب حالات سن لینا فتنا اندر آئی اور غانم کی والدہ کو مبارک بات دی کہ غانم مل گیا ہے لیکن اس وقت بیم


وہ بیتاب ہو کر اٹھی کہ چلو مجھ کو ملاو فتنہ نے کہا کہ اس وقت آپ لوگوں کا اس سے ملا مناسب نہیں ہے کہیں شادی مرگ نہ ہو جائے ماہ بہن نے خدا کا شکرہ ادا کیا اور سوادہ کر کے یہاں ہی رہنے لگی چند روز کے معالجے اور پر مسرت معاہل نے غانم کو تندرست کر دیا غانم کے سحتیاب ہو جانے کے بعد فتنہ نے اس کو بہن اور والدہ کے ساتھ خلیفہ کے سامنے پیش کر دیا خلیفہ حارون الرشید ان کو دیکھ کر بہت مسرور ہو گئے


فرغانم کی سر گزشت سنی اس نے عرص کیا کہ اگرچہ گرفتاری کا حکم سن کر میں دیہات میں بھاگ گیا تھا وہاں ادھر ادھر فرطہ رہا اسی دوران میں بیمار ہو گیا جب حالت زیادہ خراب ہو گئی تو ایک رحمدل شخص نے بغداد لا کر ایک معزز تاجر کے شفہ کھانے میں داکل کر دیا یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ میری گرفتاری کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور یہی مجھ سے میری والدہ اور بہن ملی خلیفہ نے ک


وابس کر دیا اور بہت کچھ مزید عطا کیا اس کے بعد فتنہ کو آزاد کر کے غانم سے شادی کر دی غانم کی بہن کی اپنے بہت بڑے درباری سے شادی کرا کر اس توہین اور ذلت کی تلافی کر لی جو ان بے قسور عورتوں پر ہوئی تھی

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow