ہیراماں ٹوٹے اور بادشاہ کا عجب قصہ

ہیراماں ٹوٹے اور بادشاہ کا عجب قصہ

Nov 21, 2024 - 10:19
 0  6
ہیراماں ٹوٹے اور بادشاہ کا عجب قصہ
ہیراماں ٹوٹے اور بادشاہ کا عجب قصہ


ایک چڑیمہ اور قسمت کا ہیٹا مو اندرے گھر سے نکل جاتا دن بر بھوکہ پیاسا جال بچائے جنگل میں بیٹھا رہتا شام تک مشکل سے دو چار جنگلی پرندے پستے خرید کو وہی غنیمت ہوتے کوئی خدا کا بندہ دو چار پیسے دیکھ کر چھڑوا دیتا یا ترس کھا کر خرید لیتا تو کہیں روکھی سوکھی سے پیڑ برتا کبھی کئی کئی دن تک پاکے بھی ہو جاتے کوئی جانور ہی نہ آتا اور


کہ نہ صدقے کے کام کا نہ کھانے پالنے کے مطلب کا چنے چوانے کیلئے بھی پیسے نہ ملتے دونوں میہ بیوی تو پیٹ پر پتھر بانت کر صبر بھی کر لیتے مگر نہ سمجھ چھوٹے چھوٹے بچے بلکتے رہ جاتے اسی طرح جھیکتے پیٹے بسر ہو رہی تھی کہ ایک دن چڑی مار کی بیوی کہنے لگی دیکھنا کہیں یہ بیپتا ہم پر اس لئے تو نہیں پڑی کہ ہم بے زبان جانوروں کا صبر سمیٹتے ہیں خدا ج


وہ بیچارے اپنے گھروں سے بے گر اور بال بچوں سے الگ بچھڑتے ہیں اور ظلم اٹھاتے ہیں سوالگ۔ چڑی مارنے کہا مگر کریں تو کیا کریں باب دادا سے یہی پیشہ چلا آتا ہے و دانے اسی میں ہمارا رسک اتارہے۔ بیوی نے کہا اچھا ایک کام تو کیا کرو جو جانبر بکنے سے رہ جائیں ان کے دانے پانی کا تو خیال رکھو۔ چڑی مارنے کہا اپنے ہی بچوں کا پیٹ نہیں پلتا ان کے لئے کہاں سے آئے؟ بیوی نے کہا


پھر جو کھانے کے ہوں انہیں خواہی دیا کریں اس سے تو اچھا ہے کہ پھٹکی میں پھڑک پھڑک کر مر جاتے ہیں چڑی مار نے کہا یہ تو ہمارے ہاں قسم ہے اور سب جانبر کھانے کے بھی تو نہیں ہوتے بیوی نے کہا تم تو قسم کو لیے پھرتے ہو پاکوں میں تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے ان باتوں کو چھون دو بچے تو پاکیں نہیں کریں گے مرتا کیا نہ کرتا بیوی کی یہ بات چڑی مار کی سمجھ میں بھی آ گئی اس نے ہامی بھر لی اور کہا خ


کل سے یہ بھی کر کے دیکھ لو اور کچھ نہیں تو بھوکے رہنے ہی سے بچ جائیں گے دوسرے دن حضب معمول چڑی مار پٹکی جال قپہ اور لاسہ لے جنگل پہچا اتفاق کی بات کہ شام ہونے آئی اور چھوٹا بڑا اچھا برا کوئی پرندہ نہ پھسا مایوس ہو کر اپنا سامان سمیٹ رہا تھا کہ ایک نئی وزاکر نیحیت پوپ سورت طوٹا جال میں آ گیا چڑی مار کی خوشی کا کیا پوچھنا آج قسمت کھل گئی


مومانگے دام بھی نہ ملے تو دو چار روپیے تو کہیں گئے نہیں شہر آیا تو دیکھا ہرطال ہے کوئی گاہک نہ ملا رات ہو گئی تھی تقدیر کو جھیکتا گھر کا راستہ لیا بیوی منتظر تھی دیکھتے ہی بولی کہ او کیا لائے چڑی مارنے کا اری ہمارے نسیم میں تو فاکے ہے لائے کیا آج یہ توتہ ملا تھا تو گاہک نہیں ملا خدا کی مار ان ہرطالوں پر غریب کہاں سے کھائیں چوک پر چڑیا کا بچہ بھی نہیں سارا


بیوی نے کہا تو پھر کیا ہوا ہنڈیا تو چڑ جائے گی چڑھی مارنے کا توتا کھائے گی کیا ایک تو کھانے کی چیز نہیں دوسرے گوشت کتنا نکلے گا اس میں تو پر ہی پر ہوتے ہیں بیوی نے کہا بس تم بیٹھے رہو میں پڑھوستن سے نون مرچ اور آٹا بھی مانگ لاتی ہوں آج تو اسے پکانا ہے چاہے بوٹی بوٹی بھی ہستے میں نہ آئے یہ کہہ کر عورت فٹکی کے پاس گئی کہ توتے کو نکالے توتا معمولی تو


ہزار داستان پرستان کا جانور اس نے جو سنا کہ عورت اپنی ذت پر اتر آئی ہے بغیر ہنڈیا گرم کیے نہیں رہے گی گھبرا کر بولا مائی ان مٹھی بر پروں کو بکھیر کر کیا کرے گی میرے گوشت میں کیا مزہ مال مسالہ بھی رائے گا جائے گا روکھی سوکھی روٹی کھا کر رات کھاڑ دے مجھے حلانا کر تم چڑی مار میری قدر کیا جانو نصیب کے دھنی تھے جو ہیرا منت توتا تمہارے ہاتھ لگ


ایک بوٹی اور چلو بر شوربے کی لالج میں گھر میں آئی ہوئی لکھٹمی کو ہاتھ سے ناکھو اور اتنا سبر نہیں تو سبہ بادشاہ کی خدمت میں مجھے پیش کر دو تو تمہارے دلدور پار ہو جائیں گے عورت نے جو طوٹے کو اس طرح بولتے ہوئے سنا تو حق حیران کہ جانور کیا واقعی بولتی چڑیا ہے ادھر چڑی مار بھی طوٹے کی باتوں سے متاجب ہو کر اٹھ بیٹا وہ اپنے بڑوں سے ہیرامنطوٹے کی کہانیہ سل چکا تھا


اور خدا نے ہمارے دن پیر دیئے کیسا پکانا رہندنا اور کس کا سانا دونوں میہ بی بی صبح کے انتظار میں جاکتے اور طرح طرح کے خیالی پلاؤ پکاتے رہے خدا خدا کر کے دن نکلا چڑی مار ناہ دھو اجلے کپڑے پہن توتے کا پنجرا لے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور توتے کا پنجرا پیش کیا پرستان کا توتا جیسے سبز پری بادشاہ دیکھتے ہی آشک ہو گیا قیمت موچھی چڑی


کہ توتہ بولا۔ حضور انمول چیز کا مول کیا؟ راجہ اندر کے باک کی چڑیا ہوں۔ نصیب کی گردش سے اس غریب کے فندے میں فس گیا۔ ایک رات اندری گزری، صبح سے پھر ستارہ چمپ اٹھا۔ خدا شکر قوروں کو شکر ہی دیتا ہے۔ اب جو آپ کی خدمت میں ہوں، یہ غریم مجھے کیا جانے؟ لیکن میرے صدقے میں اس کے بار بچے پل جائیں گے۔ بادشاہ پہلے تو صورت پر فریبتہ ہوا تھا۔ یہ لچھدار گفتہ کو جو س


خزانچی کو حکم دیا کہ چڑی مار کی پھٹکی میں جتنی عشرفیاں آئے دے دو ادھر تو چڑی مار نہال نہال اپنے گھر روانہ ہوا اور ادھر بادشاہ توتے کا پنجرہ ہاتھ میں لے اپنی خواب گاہ میں آ گیا رنگ برنگ کی بولیاں اور ملک در ملک کے قصے سن کر دنگ ہوا جاتا تھا گرس کے توتے نے بادشاہ کو ایسا مولیاں اور بادشاہ توتے کا ایسا گرویدہ ہوا کہ کسی بات کا ہوش نہ رہا آٹھوں پہ


سلطنت کا کاروبار تو ایک طرف چاہتی سے چاہتی بیگم تک سے بات نہ کرتا عورتے غریبوں کی ہوں یا امیروں کی حسد ان کے دل میں داخل ہے شوہر کے مقابلے میں انسان تو انسان انھیں جانبر تک سے بیر ہوجاتا ہے اس بادشاہ کی کئی بیویاں تھی توتے اور بادشاہ کی محبت دیکھ کر اندر ہی اندر جلنے لگیں سمجھیں کہ توتے میں کوئی بھید ہے جو بادشاہ کا دل ہم سے فر گیا غریب توتے کی دشمنی میں سب ایک ہو گئیں


مشورے ہونے لگے کہ کسی طرح اس سبز قدم کا کام تمام کرنا چاہیے سوکناپے کی آگ جب بھڑکتی ہے تو مرے یا مارے نہیں بچتی ہر وقت اس تاک میں رہتی کہ کب موقع ملے اور بیچارے کی ٹانگیں چیو دے لیکن بادشاہ سلامت طوتے کو اکیلا چھوڑتے تو ان کی مراد براتی وہ مہل میں رہتے تو آنکھوں کے سامنے رکھتے باہر نکلتے تو ساتھ لے جاتے اتفاق کی بات کہ بادشاہ کو کسی مہم پر جانا


کہ توتے کا پنجرا رہ گیا بیگموں کو ایسا موقع فضا دے اب کیا کریں کوئی بحانہ بھی تو ہونا چاہیے کیوں کہ آپس میں بھی تو سوک ناپے کی لاکھ ڈاٹ تھی ڈر تھا کہ اپنی سرخ روبی کے لیے کوئی بھانڈا نہ پھور دے اُلٹی ہم پر ہی مسئیبت آ جائے اس لیے سمجھ جو زیادہ چلتی ہوئی تھی اس نے سلا دی کہ آؤ توتے سے پوچھیں کہ ہم میں سے خوبصورت کون ہے منشعہ نہ تھا کہ ا


جت بادشاہ کی قواب گاہ میں پہنچی اور ہیرا منسے کہنے لگی میہ مٹھو تمہاری سناخت کی بڑی دھوم ہے کہتے ہیں کہ تم نے دنیا کی بہت سیریں کی ہیں ہم تو جب جانے یہ بتاؤ ہم میں سے تم کس کو پسند کرتے ہو توتا ان کی نگاؤں سے تار گیا کہ ڈال میں کچھ کالا ہے ایسے ایسے تریہ چرتر اس کی جھٹکیوں میں پڑے ہوئے تھے سمل کر بولا جناب میں نے آپ سب کو آج پہلی مرتبہ دیکھا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ پ


اگر میری نظر کا امتحان ہی منظور ہے تو مجھے پنجرے سے نکالیے میں ایک ایک کے پاس آوں سر سے پاؤں تک دیکھوں پھر بتا سکتا ہوں کہ کون سب سے بڑھ کر خوبصورت ہے پہلے تو یہ ڈری کے پنچھی کا کیا بھروسہ جل دے کر اڑ گیا تو اور آفت آئی لیکن وہی ہر آفہ جس کی یہ تجویز تھی اپنا منصوبہ بگرتے دیکھ کر چپکے سے بولی بوہ، سوچ کس بات کا ہے کمرے کے سارے دریچے اچھی طرح بند کر د


ہم اتنی ہیں مڑیا مرول کر رکھ دیں گی چھوڑانچے اپنی دانست میں پورا بندو بست کر کے توتے کو پجری سے باہر نکالا ہیرامن کمرے میں چاروں طرف اڑھنے لگا ادھر تو اس نے اپنے پروں کو کھول لیا اور ادھر ایک روشن دان پر بھی نگا پڑ گئی جو کھلا رہ گیا تھا شازادیہ بیتاب تھی بار بار اپنا سوال دوراتی تھی مگر میہ مٹھو برابر تاولے کاتے جاتے تھے آخر ایک دفع


کیا بکواس لگائی ہے چڑھے لو جیسی شکل ہیں اور یہ ناظر سات سمندر پار والی شہزادی کی لونیا بھی تم سب سے ہزار درجے حسین ہیں اتنی بڑی بات توتی سے سن کر بادشاہ کی بیویا کیوں کر آپے میں رہتی سب ہلہ کر کے جھپٹی کہ ایک ایک پر نوش ڈالیں یہ اچھکاہی کی اور ہی رمن فرلاتہ بھر روشندان میں سے نکل یہ جا وہ جا ساری کی ساری ہاتھ ملتی اور ایک ایک کا مو دیکھتی رہ


شاہی مہل کے پچوالے دریا کے قریب ایک لکلہارے کی جھوپڑی تھی ہیرہ منھ اڑ کر وہاں جا بیٹھا لکلہارے کی بیوی نے جو ایک نئی طرح کا طوطہ دیکھا جھڑ دوپٹھا ڈال کر پکڑ لیا بیچاری بےولاد تھی طوطے کی باتوں سے جی بہلانے لگی اب بادشاہ کی سنو ہیرہ منھ کے بغیر سفر عذاب ہو گیا آٹھ دس دن جوٹو کر کے گزارے اور مارا مارا اُلٹا یا سی


اندر باہر قیامت آگئی لونیاں باندیاں نوکر چاہ کر سہم سہمیں فرتے تھے مگر کوئی نہیں بتاتا تھا کہ توتا کہاں گیا جب کسی طرح توتے کے غایب ہونے کا راز نہیں کھلا تو حکم دیا شہر میں گلی گلی کوچے کوچے ڈھلورا پیٹا جائے کہ جو ہمارے توتے کا پتہ بتائے گا اسے پکڑ کر ہمارے پاس لاائے گا جو مانگے گا وہ پائے گا لکڑھارے نے بھی ڈھلورے کی آواز سو لی ب


چلو خدا نے ہمیں گھر بیٹھے دولت دی بیوی راضی نہیں ہوتی تھی لیکن انعام کا لالچ اور حکم کا ڈر جلدی جلدی توتے کو لے شاہی ڈیوڑی پر جاہ خبر کی دربان دوڑے بادشاہ کو معلوم ہوا کہ ہیرمن آ گیا تو باگ باگ ہو گیا ہزاروں روپیے لکڑھارے کو انعام دیئے لکڑھارا تو غریب سے عمیر ہو کر اپنے گھر کو چلا اور یہاں بادشاہ نے اکیلے میں توتے کو آن


میری اتنی محبت کا بھی خیال نہ آیا توتے نے جواب دیا حضور جو کہے سر آقو پر لیکن قسور ماف ہم جانوروں کو کوئی کیسا ہی بے مربط نا آشنا اور کمزرف کہ لے فر بھی انسان جیسے حسد کرنے والے احسان فراموش اور ظالم نہیں اور ساری داستان سنا دی کہ حضور کے اقبال سے جان رہ گئی ورنہ کبھی کا ستکے ہو گیا ہوتا توتے نے کچھ ایسی لسانی سے


بیگموں کی دشمنی اور سات سمندر والی شہزادی کا قصہ بیان کیا کہ ایک طرف ان سب کی صورتوں سے نفرت دوسری طرف اس شہزادی کے دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا راج ہٹوے خدا کا کہر ہوتا ہے قوراً بیگموں کو آبادی سے دور جنگل بیا بان میں چھڑو دیا اور توتے سے کہا کہ اگر اپنی اور میری سلامتی چاہتا ہے تو مجھے اس شہزادی تک پہنچا دے ہیرمن بولا بہتر تو یہ ہے کہ آپ اس خیال سے باز آجائیں


وہاں تک پہنچنا آسان نہیں اور اگر آپ کو یہی زدہ ہے تو خیر جیسا میں کہوں ویسا سامان مہیا کریں میں حاضر ہوں اس کے مہلوں میں پہنچا دوں گا آگے آپ جانے اور آپ کا کام بادشاہ نے پوچھا وہ کیا سامان ہے توتا بولا ایک پردار گھوڑہ مہیا کیجئے بادشاہ بہت سٹ پٹایا کہ پردار گھوڑہ کہاں سے آئے توتے نے بادشاہ کو پریشان دیکھ کر کہا کہ آپ پریشان نہ ہو مجھے اسٹول میں لے چلیں جس گھوڑے


اسے کہیں ارقیے اور روزانہ اکلے میرے ساتھ چل کر جو بوٹھیا میں بتاؤں وہ لایئے اور اپنے ہاتھ سے اس گھوڑے کو کھلائیے پھر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھئے تنانچہ ایک گھوڑا چھانٹ کر ارقیے رکھا گیا اور جیسی بوٹھیا توتا کہتا گیا بادشاہ لاہ لا کر کھلا تا رہا چند روز میں کیا دیکھتا ہے کہ گھوڑے کے پر نکلائے اور اس کے جسم میں بجلی سی کوندنے لگی جب گھوڑ


اب آپ چاندھی کے چھوٹے چھوٹے بوہز سے پھول بنوائیے اور سفر کا دوسرا ضروری سامان کر کے چلیئے حکم کی دیر تھی پھول بھی بن کر آ گئے حرجیوں میں روپیے اشرفییں بھری بادشا گھوڑے پر اور ہیرہ من بادشا کے کندے پر دونوں شہر سے نکل کر جنگل میں پہنچے تو توتا بولا اب ہمارا اصلی سفر شروع ہوتا ہے ایک چابک گھوڑے کو لگائئیے لیکن یاد رکھئے کہ دوسرا ہاتھ نہ


تو بنا بنایا کام بگڑ جائے گا چابوک لگنا تھا کہ گھوڑا پر پول کر اڑا اور ہوا میں تیرتا ہوا بجلی کسی تیزی کے ساتھ چلا جنگل پاڑ دریہ میدان اور سمندر آنکھوں کے نیچے سے نکلے جاتے تھے چلتے چلتے شام کے لگ بھگ گھوڑا ایک عجیب و گریب آلیشان مہل کے سامنے زمین پر اترا مہل سے تھوڑی دور ایک بہت اوچا دیایت گھندار درکت تھا عیرہ من نے باد


شہزادی کا مہل یہ ہی ہیں آپ اتمینان سے گھوڑے کو بان کر یہاں آرام فرمائیں جی چاہے تو میوا بھی کھالیں میں زرا مہل کی سنگل لے کر آتا ہوں تاججب نہیں کہ آج ہی آپ کا مطلب پورا ہو جائے بادشاہ تو خانے پینے میں مشکل ہوا بھوٹے نے یہ کام کیا کہ مہل سے لے کر اس درخت تک چاندی کے پول بکھیر دیئے اور درخت کی فنند پر بیٹھ کر بادشاہ کو آواز دی کہ آپ بھی پتوں میں چھپ کر کسی گدہ پر چل کر بیٹھ


کہ چاندنی رات میں سیر کو نکلا کرتی تھی۔ آدھی رات ہوئی تو مہل کا چور دروازہ کھلا اور شہزادی دو چار لونیوں کے ساتھ چاندنی کی بہر دیکھنے باہر آئی۔ عجب سمجھ دیکھا کہ زمین پر دور تک ستارے سے چمک رہے ہیں۔ اٹھائے تو چاندی کے پول تھے۔ بولی شہزادی انہیں سمیٹ سمیٹ کر اپنے آچھل میں جمک کرنے لگی اور بڑھتے بڑھتے درخ کے نیچے تک آ گئی۔ وہاں گھوڑا


چاوکی اور الٹے قدموں جانا چاہتی تھی کہ ہیرہ من نے اشارہ کیا اور بادشاہ کود کر سامنے آ گیا لونیا تو چیکھیں مارتی ہوئی بھاگی شہزادی مو دیکھنے لگی بادشاہ کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے مگر توتی نے ڈاٹ کر کہا مورخ دیکھتا کیا ہے اپنا کام کر یہ سنتے ہی بادشاہ نے شہزادی کی کولی بھر گھوڑے پر بٹھایا اور سوار ہوا ایک چابک رسیت کیا گھوڑا پھر


بادشاہ کو سماننا مشکل ہو گیا گھبرات اور جنڈی میں گھوڑے کو ایک چابک اور لگا دیا کہ رفتار میں تیزی آ جائے اور گھر پہنچ کر اس کے خوش میں لانے کا بندوبست کریں بادشاہ کو بالکل یاد نہیں رہا کہ توتے نے کیا کہا تھا اور دوسرا چابک مارنا تلسم کے قائدے کے خلاف ہے چابک کیا پڑا کہ شامت آ گئی یہ معلوم ہوا کہ گھوڑے سے پروں کی طاقت جاتی رہی مٹی کا تھوہ ہو گیا بجائے آگے بڑھنے کے


اور پلک جپکتے گھوڑا اور تینوں لک بدک میدان میں آ پڑے ہیرمن بہت پڑھ پڑھایا چیکھا جلیایا کہ نادان یہ کیا غضب کیا اپنے سے مسیبت مل لی لی کہ یہ کرائے پر پانی کھر دیا اب دیکھئے کیا آفتیں آتی ہیں خدا جانے یہ کونسا ملک ہے اور کس کی عمل داری ہے رات کا وقت چاندوی ڈوب چکا تھا چاروں طرف بالکل اندھرہ بادشاہ شرمندہ گھوڑا بیکار شہزادی بے ہوش نہ کوئ


تھوڑی دیر توتا ملامت کرتا رہا اور بادشاہ سنتا رہا اس کے بعد وہ مثل مشہور ہے کہ مایوسی میں نیند ہوب آتی ہے پچلی پہر کی ٹھنڈی اوہ جو لگی تو بادشاہ سو گیا اور ایسا سویا کہ کروٹ نالی ادرت کو نیا کرش میں دکھانا مقصود تھا اس علاقے کا شہزادہ وہیں کہیں شکار کی گھات میں پڑا ہوا تھا صبح ہی ایک ہرن کا پیچھا کرتا ہوئے ادر سے گزرہ بادشاہ پن نظر پڑی کہ بے خبر سو رہا ہے


بال پریشان بے عشی کی حالت میں نیت میں کھوٹ آئی چپکے سے اٹھا اپنے گھوڑے پر بٹھایا اور چلنے ہی کو تھا کہ شہزادی کو ہوش آ گیا اس نے گل مچایا تو بادشاہ کی بھی آنکھ کھل گئی اٹھتے ہی جھپتا کہ شہزادی کو چھیلے توتا الک پر مارنے لگا اتنے میں شہزادے کے ہمراہی آ گئی اب کیا تھا بادشاہ بیچارا اکیلا مسیبت کا مارک کیا کر سکتا تھا شہزاد


بادشاہ کی مشکیں بانکر ذریب کی آکھیں بھی نکال لی اور گھوڑا بھی لے گئی کسی نے کسی طرح تڑت تڑت کر بادشاہ نے ہاتھ پاؤں تو کھل لیے لیکن آنکھوں سے اندھا اپنی بے کسی پر آٹھ آٹھ آنسو رونے لگا توتا لاکھ پرستان کا ہزار داستان سہی تھا تو آخر جانور انسان کسی خدمت کیوں کر کر سکتا پھر بھی اس نے بادشاہ کی بہت تسلی تشپی کی جو کچھ ہونا تھا ہو چکا


آپ سبر سے کام لے میں سب سے بہلے آپ کی آنکھوں کے لیے بوٹی تلاش کرتا ہوں اور اس کے بعد شہزادی کو ڈھونلو گا خدا نے چاہا تو انجام با خیر ہے اب توتا دونوں وقت طرح طرح کے فل کھانے کو لاتا اور بوٹی کا عرق آنکھوں میں لگاتا خدا کی شان چھے سات ہی دن میں ڈھیلے بننے شروع ہو گئے ادھر تو بادشاہ ایک درکت کے نیچے فکیروں کی طرح تقدیر کے فرنے کا منتظر ہے ادھر سنئیے کہ ش


اور اسے شادی پر رضامند کرنا چاہا شہزادی اول اول تو انکار کرتی رہی جب دیکھا کہ شہزادہ اپنے وقت کا حاکم جت کا پورا ہے تو کہا کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں خوشی سے آپ کے ساتھ شادی کروں تو چھے مائینیں مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیجئے اور میرا گھوڑا بھی میرے حوالے کیجئے بادشا نے منظور کر لیا شہزادی گھوڑے سمیت الگ ایک مکان میں رہنے لگی شہزادے کا جب جی چا


اس نے اپنے دل بھیلانے کا یہ سامان نکالا کہ سب و شام پرندوں کو دانا ڈالا کرتی طرح طرح کے جانور آتے اپنی اپنی بولیاں بولتے اس کا وقت گزر جاتا خیال تھا کہ بے زبان کھائیں گے ان کی آدمہ خوش ہوگی شاید ان کی دعا سے خدا مجھ کو اس سے رہائی دے کئی ہفتے اسی طرح گزر گئے بادشاہ کی آنکھیں اچھی ہو گئی گھوڑے کی گھاس میں کوئی ایسی پتی آتی تھی کہ اس کے پر میں اڑن


توتا بھی بادشاہ کی نگرانی سے نشنٹ ہو کر دور دور کے ڈھابے مارنے لگا ایک دن ہیرمن نے دیکھا پرندوں کے جھلڑ باپ کی ایک ایمارت میں چلے جاتے ہیں یہ بھی ان کے پیچھے بھولیا کیا دیکھتا ہے وہی ساتھ سمندر پار والی شہزادی دانچوگا رہی ہے توتا اس کے ہاتھ پر بیٹھ کر بولنے لگا شہزادی چوکی مگر جانور سے کیا ڈردی توتے کو آدمی کی طرح بولتا دیکھتے ہیران ضرور ہوئی


کہ کس طرح تمہاری تلاش میں گھر سے نکلا تمہارے لیے سلطنت پر لات ماری آکھیں نکلوائیں، تقنیقیں اٹھائیں اور یہ باتیں کچھ اس طرح سے بیان کی کہ شہزادی بیچین ہو گئی اور کہنے لگی کچھ بھی ہو اسی وقت مجھے اس کے پاس لے چلو توتا بولا جلدی کرنا شیطان کا کام ہے دن دہاڑے تمہارا چلنا اقن مندی نہیں سو دشمن سو دوست کسی نے شہزادے کو خبر کر دی تو بادشاہ کی مفت


اور تمہارے ساتھ نہ جانے وہ کیا سلوک کرے مناسب یہ ہے کہ رات کو میں آوں گا گوڑا اپنے پاس بنوالینہ اور تیار رہنا آگے خدا مالک ہے یہ کہ کر توتا خوش خوش بادشاہ کے پاس آیا اور کہا آپ نے تو اپنے اوپر آفت لانے میں کوئی کمی نہیں کی تھی لیکن خدا نے رحم کیا شہزادی کا پتہ لگ گیا ہے رات کو چلئے اور شہزادی کو لے کر اپنے گھر سے داریے بلکہ وہاں پہنچتے ہی بہارہ چائیے


پہلے تو وہ آپ سے شادی کرنے پر راضی ہوتی یا نہ ہوتی اب اس کے دل میں آپ کا خیال پیدا ہو گیا ہے اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں بادشاہ خوشی کے مارے اچھل پڑا وقت گزارنا دو بھر ہو گیا غرز یہ کہ رات ہوئی ہیرامن چلا شہزادی ہر طرح سے لیس گھوڑے کی لگام پکڑے منتظر تھی توتا گھوڑے کی گردن پر بیٹھ کر بولا بسم اللہ رکام میں پیر رکھئے شہزادی کا سوار ہونا تھ


وہ چلا اور ایک دم بھر میں درکھ کے سامنے جا کھڑا ہوا بادشاہ بھی تیار تھا جھٹ پیٹ پر چابک چٹھکایا ایک ہی اُڑان میں بادشاہ اپنے مہل میں تھے خوشی کے نکارے بجنے لگے دوست شاد، دشمن پاومان ہوئے بڑی دھوندھام سے شادی ہوئی خودانت دن فیر دیئے ہیرہ من کی بفاداری دیکھئے کہ سارے مہل میں بادشاہ کے بچوں سے بات کرتا ان کا جی بہلاتا


کھولے بندوں اہلہ گیلہ پھرا کرتا اور پرستان جانے کا نام بھی نہ لیتا بے بفا و توتہ چشم انسانوں سے تو ایسا جانبر ہزار درجے اچھا

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow