قصہ بھٹو کے کہاز کا

قصہ بھٹو کے کہاز کا

Nov 21, 2024 - 10:38
 0  5
قصہ بھٹو کے کہاز کا


اسلام علیکم پیارے دوستو داستان 5 سودگر اور ایک اجنبی مسافر پیش خدمت ہے تیسرا اپیسوٹ قصہ بھوتوں کے جہاز کا احمد نے چند لغوں کی خاموشی کے بعد ایک طویل سانس لی اور ایوں گویا ہوا دوستو میں اپنی ہی زندگی کا ایک واقعہ سناوں گا میں نے یہ واقعہ آج تک کسی کو نہیں سنایا مگر تم سب پر مجھے پورا بھروسہ ہے اس لئے سنو یہ قصہ بھوتوں کے جہاز کا ہے


احمد نے اپنا قصہ اس طرح شروع کیا میرے والد ایک معاملی تاجر تھے ولزورہ کے مقام پر ان کی چھوٹی سی دکان تھی وہ نہ تو بہت مالدار تھے نہ ہی بہت خستہال ان کو ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے کہیں ڈوب نہ جائے اس لئے تجارت کے معاملے میں بہت محتاط تھے اور فنک فنک کر قدم رکھتے تھے میری پروبرش انہوں نے بہت سادگی مگر توجہ کے ساتھ گئی جلدھی میں اس لاق


جب میں 18 برس کی عمر کو پہچا تو میرے والد نے کاروبار کو فیلانے کی کوشش کی مگر کچھ ہی دنوں بعد اچانک وہ چلوسے شاید انہیں یہ احساس ہر دم ستاتا رہتا تھا کہ سمندری تجارت میں انہوں نے ایک بڑی رقم لگا دی ہے اور انہیں یہ ڈر تھا کہ ساری رقم کہیں غارت نہ ہو جائے نفے کی جگہ نقصان نہ اٹھانا پڑے بہرحال جل ہی مجھ پر یہ بات کلی کہ ان کی موت میرے لیے مبارک ثابت ہوئی ہے


چند ہفتوں بعد ہی وہ جہاز جس پر ان کا سامان لڑا ہوا تھا غرقاب ہو گیا اس طوایے سے میرے حوصلے پست نہیں ہوئے بچہ کچا سامان میں نے اونے پونے بیش دیا اور قسمت آزمائی کے لیے پردیس جانے کی ٹھانی میرے ساتھ صرف ایک شخص تھا میرے والد کا ایک پرانا خادم اسے ہر دم میری فکر لگی رہتی تھی اس لیے اس نے میری بدحالی کے باوجود میرا ساتھ نہ چھوڑا ہم ایک جہاز پر سوار ہوئے اس کا روک ہ


پھر اچانک پندرہ روز بعد جہاز کے قپتان نے خبر دی کہ سمندر میں ٹوفان آنے والا ہے در سے اس کی آواز کھانپ رہی تھی اور چہرہ تاریک ہو گیا تھا اس راستے پر اس کا پہلہ سفر تھا سو اسے کچھ بھی اندازہ اس بات کا نہ تھا کہ ٹوفان کیا مول اختیار کرے گا اور اس سے بچنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس نے بعدبان سمیٹ لئے جہاز ادھر ادھر ڈولتا آگے بڑھتا رہا رات آئی بہت ٹھنڈی اور ان


یکا یک اندھرے سے ایک اور جہاز نمودار ہوا اور ہمارے جہاز کے گرد چکر کاتنے لگا اس جہاز کے عرشے سے عجیب انوکھی اور ڈراونی آوازیں اٹھ رہی تھی کبھی ان آوازوں پر شور کا گمان ہوتا کبھی کہ کا ہوگا توفان میں بھی شدت پیدا ہو گئی تھی ہمارے حواز گم ہو گئے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ سب کیا ہے کپٹان میرے قریب ہی چپ چاپ کھڑا ہوا تھا اس کی آنکھوں سے ڈر جھاک رہ


ہم اب دوگ جائیں گے۔ اس نے درد بھری آواز میں کہا یہاں چاروں طرف موت مڑلا رہی ہے اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ اور پوچھتا ہمارے جہاز کا سارا عملہ ہمارے قریب آ کھڑا ہوا اور سب کے سب سے سکھنے لگے یہ موت کا جہاز ہے ایک ساتھ انہوں نے کہا ہماری بدنسی بھی ہمیں یہاں کھیچ لائی ہے ہوا کا شور اور تیز ہو گیا سمندر کی سطح پہلے سے بھی زیادہ بےقرار ہو گئی اور توفانی لہرے خوب


ہمارا جہاز کسی مرجعہ ہوئے پتے کی طرح ادھر ادھر ڈولنے لگا قپتان نے قرآن شریف کی ایک جلدھ نکالی اور اپنے ایک ساتھی سے درخواست کی کہ وہ تلاوت شروع کر دے لیکن اس وقت اللہ نے بھی ہماری دعا قبول نہ گئی مشکل سے ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ہمارا جہاز ایک چٹان سے ٹکرائیا جلدی جلدی حفاظتی کشتیاں نکالی گئی اور ہم سب ان پر بیٹھے ہی تھے کہ ہمارا جہاز س


لیکن ابھی تو اور بھی مسیبتیں آنی تھی دوفان کا کہر اسی طرح جاری تھا اور ہمارے لیے کشتیوں کو کابومے رکھنا بھی دشوار ہو گیا میں نے اپنے بوڑے خادم کو اپنی باہوں میں چکڑ لیا اور ہم ایک ساتھ دعا کرنے لگے کہ پربردگار ہمیں اس عذاب سے نجات دے پتہ نہیں کب تک ہم اسی طرح لہروں کے تھپڑے کھاتے رہے آخرکار آسمان پر صباہ کی سفیدی فیلنے لگی ہم نے خدا کا شکرہ دا کیا


جہاز کے دوسرے ساتھیوں کو پھر میں نے نہیں دیکھا میں بہوش ہو گیا تھا دوبارہ غوش آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے بفدار خادم نے مجھے سینے سے لگا رکھا ہے اور ہم ایک کشتی پر سوار ہیں خادم نے خدا جانے کن جتنوں سے ایک کشتی ڈوبنے سے پہلے پکڑ لی تھی پھر اپنے ساتھ مجھے بھی اس پر چڑھانے میں کامیاب ہو گیا تھا اب ہوا ساکت تھی اور سمندر خاموش دور دور کہیں توفان کا نام و نشان


لیکن اچانک ایک اور جہاز ہمیں دکھائی دیا اس جہاز کا فاصلہ ہم سے بہت زیادہ نہیں تھا اور دھیرے دھیرے وہ ہماری طرف آ رہا تھا جب جہاز اور قریب آ گیا تو مجھے دھیان آیا کہ یہ تو وہی جہاز ہے جس نے پچھلی رات ہمارے عوسان گم کر دیئے تھے ڈرکی ایک لہر سر سے پیر تک دوڑ گئی مجھ پر کپ کپی سی تاری ہو گئی اس ویران جہاز کو دیکھ کر میرے دل ڈوبنے لگا اس پر کوئی آدم تھا


پھر مجھے خیال آیا کہ کیا پتہ خدا نے ہماری مدد کیلئے ہی یہ جاز بھیجاو میں اسی خیال سے چلانے لگا کہ شاید اس جاز میں اندر کوئی چھپا بیٹھاو جاز کے عرشے سے ایک لمبی رسی لٹک رہی تھی اپنے ہاتوں کو چپو کی طرح چلاتے ہوئے ہم کشتے اس رسی تک لے گئے اور اسے پکڑنے میں کامیاب بھی ہو گئے میں نے ایک بار پھر پوری قبوز سے ایک آواز بلند کی مگر اس جاز میں زندگی کا کوئی بھی نام و ن


اس رسی کے سہارے ہم کسی نہ کسی طرح جہاز پر پہنچ گئے اور پھر اف جہاز پر قدم رکھتے ہی ہم نے ایک ایسا بھائیانک منظر دیکھا کہ اس کے تصور سے بھی سر چکرانے لگتا ہے جہاز پر ہر طرف کون کے ڈھبے تھے اور کوئی پچیس تیس لاشیں سب کے سب ترکی لباسوں میں ملبوس سب سے بڑے بادوان کے پاس کیمتی چمگدار کبڑے پہنے ایک شخص کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں ننگی تلو


اور اس کے ماتھے پر ایک لنبی قیل جڑی ہوئی تھی اس قیل نے بادوان کے ستون سے اسے جکڑ دیا تھا وہ بھی بے جان تھا میرے پاؤں پتھر جیسے ہو گئے اور سانس لینہ دوبار ہو گیا میرے ساتھی نے بھی جب یہ منظر دیکھا تو حیرت اور خوف کے سبب ٹھٹک کر رہ گیا بڑی مشکلوں سے ہم نے اپنے حواز درست کیے ہوصلے سمیٹے اور اللہ کا نام لے کر آگے بڑے ہر قدم پر ہمیں یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ


ہمارے چاروں طرف حد نظر تک پانی ہی پانی تھا اور اس بیرانے میں شاید بس ہم دو ہی انسان تھے ہم اس خیال سے اپنی آواز اوچی نہیں ہونے دیتے تھے کہ کہیں اس جہاز کا مردہ قپتان اچانک زندہ نہ ہو جائے یا فرش پر بکھری ہوئی لاشوں میں سے کوئی حرکت نہ کرنے لگے آخرکار ہم گرتے پڑتے ان سیڑیوں پر پہنچے جو جہاز کے کیبن کی طرف جاتی تھی پھر ہم اچانک رک گئے ہاموشی سے ا


پھر میرا بڑا خادمیوں گویا ہوا حضور یہاں کوئی بھیانک واردات ہوئی ہے ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ان کے درمیان زندہ رہنے سے تو بہتر ہے کہ ہم آگے بڑھیں وہ سکتا ہے نیچے کہیں قاتل چھپے بیٹھے ہو پھر بھی بھلا کب تک ہم ان لاشوں کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں اس نے میرے دل کی بات کہہ دی تھی خود میں بھی یہی سوچ رہا تھا ہم نے ہمس سے کام لینے کی ٹھانی اور نیچے چلے گئی یہاں بھی


بس ہمارے قدموں کی چاپ سنای دیتی تھی رہداری میں بہت دھیمی روشنی تھی ہم ایک دروازے کے سامنے رک گئے کوار سے میں نے اپنے کان لگائے کہ کچھ سن سکوں وہاں بھی خاموشی تھی میں نے دروازہ کھولا اور ایک بڑے سکیبن میں قدم رکھا وہاں عجیب افراد تفریقہ عالم تھا سارے فرش پر کپڑے، زروف، اصلحے اور دوسری بہت سے چیزیں بخری پڑی تھی یہ ایک بھی ایسی چیز


کچھ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہاں کسی زبردست زیافت کا احتمام کیا گیا ہوگا ہم اس کے بعد دیگر تمام کے بنوں کا موائنہ کرتے فرے اور ہماری آنکھیں حیرہ سے پھٹ پڑیں قسم قسم کے قیمتی سامان، زر و زوہر ملبو ساتھ ایک سے ایک نادرہ کار چیزوں سے تمام کمرے اٹھے ہوئے تھے یہ منظر دیکھ کر کچھ ڈھارس بندی دل نے کہا کہ وہاں اب کوئی زیرو نظر نہیں آتا تو پھر اس کے مالک بس ہم ہی ٹھہ


میں یہ سوچھی رہا تھا کہ میرے خادم ایورہیم نے دبی زبان سے کہا ہم زمین سے بہت دور ہیں اس لئے کیا مال و اسباب کیا زر و زباہر سب بیکار ہیں کوئی صورت ایسی دکھائی نہیں دیتی کہ ہم با حفاظت زمین تک پہنچ جائیں ان کمروں میں خانہ بھی بافر تھا طرح طرح کے لذیذ پغوان اور امدہ امدہ مشروبات ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا اور شکر اس خدا کا عدہ کیا جو اپنے بندوں کو ہر حال میں رس


پھر ہم دوبارہ عرشے کی طرف گئے اور ایک بار پھر ان لاشوں کو دیکھتے ہی ہمارے رگوں میں سنسنی دور گئی ہم نے یہ تیکیا کہ ایک ایک کر کے تمام لاشوں کو سمندر میں فینک دے اور اس منظر سے چھٹکار پائیں لیکن ہم انہیں اپنی جگہ سے ایک انچ بھی کھسکانا سکے لگتا تھا کہ وہ فرش سے چپک گئی ہیں انہیں اٹھانے کے لیے ہمیں تختوں کو چیرنا پڑے گا مگر ہمارے پاس اوزارگی نہیں تھے ذرا خیال کرو ازیزو


ہم نے جب جہاز کے قپتان کے ہاتھ سے تلوان نکالنی چاہی تو محسوس ہوا کہ اس کی بے زبان املیوں کی گرفت اور مضبوط ہو گئی ہے وہ ٹس سے مسنا ہوا جو اتو کر کے دن گزرا شام تک ہم بھانت بھانت کے بس بسوں میں گھرے رہے رات آئی تو میں نے ابراہیم سے کہا کہ اب پڑھ کر سو جائیں میں ابھی کچھ اور دیر عرش پر ٹھہرنا چاہتا تھا اور اس فکر میں تھا کہ اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی ترقیب ذہن میں آئے


اسی عالم میں دو گھنٹے گزر گئے پھر چاند نکلا اور ہر طرف دودیا روشنی فیل گئی پھر مجھے نینت سے آنے لگی میں نے لاکھ چاہا کہ نینت کے غلبے سے بچوں لیکن تھکن سے برا حال تھا عرش پر ایک کونے میں لیٹ کر میں نے آنکھیں بند کر لی اسے نینت کے بجائے غنودگی ہی کہنا چاہیے کیوں کہ میں آنکھیں بند کیے کیے لہروں کے ثپیڑے اور ہوا کے جھوکوں کا شور سن رہا تھا پھر اچانک م


کانوں سے ٹکرائیں۔ میں نے اٹھنا چاہا لیکن گھٹنیں مفلوز ہو کر رہ گئے تھے اور میں کوشش کے باوجود اپنی آنکھیں کھول نہیں پا رہا تھا۔ آوازیں اب اور ساف ہوتی گئی اور یوں محسوس ہوا جیسے بہت سارے لوگ نشے میں ادھر ادھر لڑکھا رہے ہیں۔ کبھی کبھی اس قسم کے احکامات بھی سنائی دیتے کہ بادوان پھول دی جائے یا رسییں اور کس دی جائیں۔ دھیرے دھیرے میرے حواز جواب دیتے گئے۔ میں


اور کہیں دور سے جنگی اسلحوں کے ٹکرانے کی آوازیں آنے لگی۔ آنکھ کھلی تو کافی وقت گزر چکا تھا۔ سورت سر پر تھا اور اس کی تیز قرنیں میرے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ میں نے حیران آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا۔ رات کی ساری باتیں ایک ایک کر کے یاد آئیں۔ توفان، جہاز، عجی بنو کی آوازیں سب خواب سے محسوس ہونے لگیں۔ لیکن جب میں جماعی لیتا ہوا اٹھا تو کیا دیکھا؟ کہ سب کچھ پجھل


عرش پر اسی طرح لاشے پڑھی ہوئی تھی جہاز کا قپتان پہلے ہی کی طرح ہاتھ میں ننگی تلوان لئے جہاز کے مستول سے چپکا ہوا تھا رات کے ڈراؤنے خوابوں کا خیال آتے ہی میرے خشک ہوتوں پر ایک بے جانسی مسکرات فیل گئی میں نے ابراہیم کی طرف دیکھا وہ کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اداس اور خیالوں میں گم میرے آقا ابراہیم نے مجھے دیکھتے ہوئے آواز دی میں اس جہاز پر ایک اور رات گزارنے کے بجائے س


میں نے دھیمی آواز میں کہا کیوں کیا بات ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا میں چند گھنٹوں کیلئے سویا تھا پھر اپنے قریب ہی عرش پر بھاکتے ہوئے قدموں کی گونج نے مجھے جگا دیا پہلے تو میں نے سوچا کہ آپ ہوں گے لیکن پھر پھر یہ خیال آیا کہ اتنا شور ایک اکلے آدمی کے بس کی بات تو ہے نہیں آخرکار بھاری قدموں سے میں سیڑیاں فلانگ تک ہوگا نیچے اترا اور اس کے بعد مجھے کچھ بھی یاد نہیں سوائے اس لمحے کے


اوش آنے پر میں نے کیا دیکھا کہ وہ آدمی جو جہاز کے مستول سے چپکا کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے اور جس کی پیشانی پر کل ٹھکی ہوئی ہے ایک میز کے قریب بیٹھا شراب پی رہا ہے اور گا رہا ہے اس کے پاس ہی ایک اور شخص بیٹھا ہوئا ہے اور وہ بھی پینے میں مسروف ہے یہ سب سنتے ہوئے میں نے سوچا کہ جس بات کو میں خواب سمجھ رہا ہوں وہ خواب نہیں میں نے سچ مچ لاشوں کو ہسدے بولتے پیتے پلاتے دیکھا تھا


آگے کا سفر کیا کچھ تباہ ہی نہ لائے گا؟ اس سے نجات کی شاید کوئی صورت نہیں۔ میں نے جب مایوسی کی باتیں شروع کی تو ابراہیم نے ایک لمحے کے لیے غور سے میری طرف دیکھا۔ آبھری اور بولا ایک ترقیب ذہن میں آئی ہے کیا کیا؟ چلدی بتاؤ میں نے بے کراری سے کہا اس نے بتایا کہ اس کے مرہوم دادا نے جو بہت جہاں دیدہ شخص تھا اور جس نے دور اجنبی ملکوں کے لمبے لمبے سفر کیے تھے اور جو بہت


اس نے ابراہیم کو ایک بار ایک منتر سکھایا تھا اس منتر کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم رات بھر جاکتے رہے پل بھر کے لیے بھی پلگ چھپکنے نہ پائے اور جاکتے رہنے کی ترقی بھی یہ ہے کہ جس وقت بھی آنکھر کربھی ہونے لگیں قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دی جائے میں نے بولے خادم کی رای سے اتفاق کیا ہم اس کمرے سے ملی ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹری میں چلے گئے دروازے میں کئی ع


اندر کا سارا حال دیکھ سکیں تب ہم نے اپنی کوتھری کے قوال بند کیئے فرش کے چاروں کونوں پر اسماءِ الہی میں سے چار اسم لکے پھر اتنی تیاریوں کے بعد رات کے آنے والے ہنگاموں کا ہم انتظار کرنے لگے گیارہ بجے کے قریب مجھ پر گنودگی سی چھانے لگی میں نے فوراً قرآن شریف کی کچھ آیتیں دوھرائیں حواز بجہ ہوئے نیند غایب انجانے بس بسوں کا ڈر بھی کچھ کم ہوا


رسیہ چرمراہیں تخت پر بھاری قدموں کی گونج سنائی دی اور ایک ساتھ بہت سی ملی جولی آوازوں کا شوٹ۔ دم سادھے سرہ سیمہ اور حیران چند لمحوں تک ہم یوں ہی بیٹھے رہے۔ پھر یوں محسوس ہوا کہ کوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا ہے۔ ابراہیم نے ابن دادہ کا سکھایا ہوگا منتر پڑھنا شروع کر دیا۔ تم چاہے اوپر آسمانوں سے آئے ہو، چاہے گہرے پانی کی تحصے، تم چاہے زمین سے آئ


جو ہمیشہ جلتی رہے گی ہمارے سات دعا کے لئے ہاتھ اٹھاؤ اس رب کے حضور جو ستاروں سے آگے ہے میں یہ بتا دوں کہ جادو منتر کی باتوں پر میں نے کبھی یقی نہیں کیا تھا اس وقت بھی دل عبراہیم کے اس منتر کی طاقت پر پھروسے کے لئے آمادہ نہیں ہو رہا تھا میں چپ چاپ سنتا رہا سنتا رہا اور اچانک سارے بدن میں سن سنی سی دوڑ گئی مجھے ایسا لگا کہ سر کے سارے بار جڑوں پر تنکر کھڑے


سامنے کا دروازہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھلا پھر وہ لمبا تڑنگا مزبوط جسم والا قپتان جس کی لاش جعاز کے مستول سے چک کی کھڑی تھی اسی دروازی سے اندر داکل ہوا اس کے ماثے پر جڑی ہوئی لمبی کیل اب تک اپنی جگہ پر تھی البتہ اس کی تلوار کمر سے بندی ہوئی تھی اور اس کا ہاتھ کھالی تھا اس کے پیچھے ایک اور شخص تھا بہت قیم تھی اور زرق برک لباس پہنے ہوئے مجھے یاد


کہ اس شخص کو بھی میں نے عرش پر پڑھی ہوئی لاشوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ کپٹان کا چہرہ زرد تھا، داری گھنی اور کالی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی، کچھ اس اندازے سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی کہ میرا خوف بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم جس دروازے کے پیچھے چھپے ہوئے تھے، وہ بالکل اس کے پاس سے گزرہ مگر ہم دونوں پر اس کی نظر نہیں پڑھی۔ تھر کپٹان اور وہ دوسرا شخص کمرے کے بیچوں بیچ پ


لیکن ہم ان کی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے کیونکہ وہ کسی عجیب و غریب زبان میں گفتگو کر رہے تھے اس گفتگو کے دوران کبھی کبھی ان کی آواز چیخ جیسی سنای دیتی اور ان کے لحجے میں تیزی آ جاتی لگتا وہ غصے میں ہے اسی جوش میں کپٹان میز پر مکن مارنے لگا ماحول کچھ اور دراؤنا ہو گیا دفتن وہ دوسرا شخص بالکل بہشیوں کے انداز میں کہکہ ہی لگانے لگا اور اٹھتے ہوئے کپٹان کو اپ


اور کمر سے تلوار کھیچ لی پھر دونوں کمرے سے نکل گئی ہم نے اتمینان کا ایک طویل سانس لیا ایسا لگا کہ کوئی بہت بڑی بلا سر سے ٹل گئی ہے مگر یہ ہماری خامو خیالی تھی ابھی تو اور بھی بہت کچھ ہونا تھا اور شپر شورو گول پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہمیں ایسا لگا کہ لوگ بھاگ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں جیکھ رہے ہیں پاغلوں جیسی آوازیں نکال رہے ہیں اور کہ کہیں لگا رہ


ہم دم سادے کھڑے رہے ہمیں ڈر لگ رہا تھا کہ ایک دو پل میں جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا اسلحوں کی جھنکار، چیکھ و پکار، ڈاڈ ڈپٹ اور شور اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا کش دیر بعد سن نا ٹچ آ گیا بالکل اچانک جب کافی دیر تک کوئی آواز سنائی نہیں دی تو ہم دروازے کی اوٹ سے باہر نکلے اور ڈرتے ڈرتے آگے بڑے پھر


کپتان کی لاش جہاز کے مستول سے چپکی کھڑی تھی اور عرشے پر ادھر ادھر لاشیں بکھری ہوئی تھی ہم نے ایک بار پھر کوشش کی کہ لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں فینگ دے اس بار بھی ناکامی ہوئی ابراہیم کا منتر بیکار ثابت ہوا اگلی رات بھی وہی تماشہ ہوا اور اس سے اگلی رات بھی وہی شورو گل، ہنگا ماؤ، مارکاٹ، مجنونانہ چیغیں اور دیوانہ بارک کہ کہے پھر سن ناٹا سارا ڈرامہ جونکت


میں اور ابراہیم گھنٹوں اس طبہ حال پر گفتگو کرتے رہے لیکن اس عذاب سے نکلنے کی کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی سوائے اس کے کہ جہاز کو کسی طرح اس جگہ سے کھسکایا جائے اور ہم سمندر کو پار کرتے ہوئے زمین تک پہنچنے کی کوشش کریں وظاہر یہ کام دو آدمیوں کے بسکا نہیں تھا مگر سمندری سفر کا ہمیں خاصہ تجربہ تھا اس لئے ہم نے سوچا کہ پچھلے تجربوں سے کچھ فائدہ اٹھایا جائے ا


جہاز کے نچلے کیبن میں ڈھونڈ نکالے اور ہزار جتنوں کے بعد جہاز کا روک مشرق کی سمت موڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہمیں امید تھی کہ اس طرح ہم جلد ہی خشکی تک پہنچ جائیں گے۔ سفر کے پہلے دن ہوا نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ جہاز کی رفتار خاصی تیز اور تسلی بکش رہی۔ لیکن رات آتے ہی ہوا کا روک ایک دم بدل گیا اور اس کے تھپیڑے ہمارے چہروں سے ٹکرانے لگے۔ اب جہاز کو ہوا کی مخال


ہماری ہر کوشش بیکار گئی جعاز اگر چندگز آگے بڑھتا تو کوئی اندیکی قوت اسے پل بھر میں کئی گز پیچھے دھکل دیتی حواز تو گم تھے ہی اسی عالم میں آنکھیں بھی بوچھل ہونے لگیں اس حال میں عرش پر جمعہ رہنا خطری سے خالی نہ تھا ہمیں یقین تھا کہ رات کا اندیرہ زرا اور گہرا ہوتے ہی تمام لاشیں ایک بار پھر حرکت کرنے لگیں گی اور ان کی پرانی جنگ کا سلسلہ پھ


اور اللہ کا نام لے کر دروازے کی اوٹ میں فرش پر پڑے رہے۔ ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ اس رات ہمیں گہری نید آئی۔ دوسری صبح آکھ کلی تو پتہ چلا کہ ہم جہاں سے چلے تھے ٹھیک اسی مقام پر دوبارہ واپس آ گئے ہیں۔ یہ حقیقت کتنی بھیانک تھی، ہماری ساری مہنت عقارت گئی تھی۔ ہمارا دل ڈوبنے لگا، یہ سوچ کر کہ زندگی میں اس عذاب سے چھٹکارا پانا شاید ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔


بھوتوں سے بھرے ہوئے اس جعز پر ہم بھلا کتنے دن گزار سکتے تھے آخر ایک نا ایک دن کھانے پینے کا سامان ختم ہونا تھا پھر پھر کیا ہوگا فاقوں کی موت ہم جتنا سوچتے جاتے دل اتنا ہی بیٹھتا جاتا ہم نے سوچا کیوں نہ اپنے آپ کو سمندر کی لہروں کے سپرد کر دے یہ موت اس ڈر کی عذاب سے تو بہتر ہوگی مگر ابراہیم نے کہا ایک بار پھر اسی منطر کو آزمائے جائے عزیز


میں نے ہامی بھر لی کہ شاید اس بار خدا ہماری فریاد سن لے ہم نے اس منطر کی کئی نقلیں تیار کی اور انہیں تاویز کی شکل دے کر جہاز کے بعد وانوں سے لٹکا دیا دن بھر ہوا سازگار رہی اور ہمارا سفر جاری رہا رات آئی تک پھر بھات مہات کے بسبسے پریشان کرنے لگے خدا کا شکر ہے کہ رات کافی دیر تک جب تک ہم جاکتے رہے ہوا کا روک ہمارا ساتھ دیتا رہا ہم نے شکریہ ادا کیا کہ خدا نے ہ


اگلے روز نیند و چٹنے پر ہم نے ڈرتے ڈرتے آنکھا کھولیں یہ ڈھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں جہاز پھر اسی جگہ پر واپس نہ آ گیا ہو مگر آپ کے ایسا نہیں ہوا تھا ابراہیم کا منتر کام کر گیا تھا اور ہم نے کافی راستت تیقر لیا تھا آگے کی سات دن اور سات راتیں بھی اسی طرح سات خیریت کے گزری کوئی انہونی بات نہیں ہوئی سفر سلامتی سے جاری رہا اور ہم آگے بڑھتے گئے پھر اے ا


آٹھ وے دن کی صبح آئی اور ہمارے لیے مسردت کا پیغام لائی میں اور ابراہیم سربا سجود ہو گئے کہ خدا بند کریم نے ہماری التجاب با لاخر قبول کر لی تھی اور اب زمین کا کنارہ ہماری نظروں کے سامنے تھا ہم نے شکرانے کی نماز پڑھی دن بھر اور رات بھر ہم نے ساحل کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور دوسرے دن ہمیں ایک شہر کے آسار دکھائی دیئے برجیاں، محرابیں، مینار، گمبت اور شہر پ


ہم نے ایک چھوٹی سی کشتی نکالی جہاز کی بادبان سمیٹے اور لنگڑ دال دیئے پھر اس کشتی پر بیٹھ کر زمین تک پہنچے شہر پنا کے فارٹک تک رسائی آدھے گھنٹے میں ہوئی وہاں ایک راہگیر نظر آیا اس نے حیرث سے ہم عجنبیوں پر نظر کی ہمیں پردیسی جان کر ہماری مدد کو آیا اور ہمیں بتایا کہ سامنے آبادی ملک ہندوستان کے ایک شہر کی ہے ہمارے دل خوشی سے خل اٹ


راگیر سے پتہ نشان پوچھ کر ہم نے ایک سرائی کی رالی کہ قیام کا انتظام کریں اور سفر کی تھکان دور ہو سرائی کا مالک بھی عزت سے پیش آیا ہمارے لیے خوب امدہ امدہ لذیذ کھانا تیار کیا ہم نے ڈٹکر کھایا کھانے کے بعد ہککے کی گڑگڑڑی لگائی اور اس سے پوچھا کہ اس آبادی میں کوئی بزرگ ایسا بھی ہے جو کچھ جادو ٹونی کا علم رکھتا ہو اس نے جواب دیا کہ ہاں ایک بزرگ ایسا


پھر وہ ہمیں اپنے ساتھ لے جانے پر آمادہ ہو گیا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم اس کے ساتھ چلے وہ ہمیں ایک تنگ سی گلی میں لے گیا اور ایک معمولی سے مکان کے دروازے پر رک گیا پھر اس نے ہمیں بتایا کہ وہ مرد بزرگے اسی مکان میں رہتا ہے اور اس کا نام ملیج ہے اس کے کہنے پر ہم اس مکان میں داخل ہو گئی اندر ایک بولا دکھائی دیا سر اور داری کے بال بالکل سفید اس نے پوچھا کیا چاہتے


اس نے جواب دیا کہ ملیج وہ خود ہے ہم نے اپنی پوری کہانی کیا سنایی سفر کا سارا حال بتایا تھر اس سے سوال کیا کہ ان لاشوں کو کس طرح جہاز سے ہٹایا جائے ملیج نے کہا کہ اس کی صرف ایک صورت ہے ان لاشوں نے اپنی زندگی میں کسی بڑے گناہ کا ارتقاب کیا ہے اور عذاب میں مبتلا ہیں اب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ جس تکتے پر لاش چپکی ہوئی ہے اسے جہاز سے اکھاد کر خوشکی پر لائے جائے اس طرح سارا سحر


شرط یہ ہے کہ ہم اسے بالکل راز رکھیں اور آدمی تو آدمی کسی پرندے کو بھی اس واقعے کی ہوا نہ لگے۔ اس منصوبے میں کامیابی کے بعد جہاز کے سارے خزانے پر ہمیں پورا اختیار ہوگا۔ ملج نے بس یہ مطالبہ کیا کہ ہم اسے انام کے طور پر اس خزانے کا ایک حقیر سا حصہ دے دیں۔ اس کے بدلے میں وہ اور اس کے چند غلام لاشوں کو جہاز سے اٹھانے میں ہماری مدد کریں گے۔ ہم نے اس کی شرط مان لی، وہ خود اور اس کے پانچ غلام ہمارے ساتھ ہو لئے۔


ان کے پاس بڑی بڑی کلھڑیاں اور کچھ دوسرے وزار تھے ہم جاز پر واپس پہنچے تو وقت تھوڑا ہی گزرہ تھا دھوم میں زیادہ تیزی نہیں آئی تھی ہم نے فوراً اپنا کام شروع کر دیا گھنٹے بھر میں ہم نے چار لاشیں وہاں سے مئے تختوں کے نکال لیں ملچ کے چند گلام لاشوں کو دفنانے کے لیے کنار پر لے گئی لوٹ کر انہوں نے بتایا کہ جو ہی لاشوں کو انہوں نے زمین پر رکھا وہ قدبہ قدمٹی


اور وہ کبرے کھوڑنے اور انہیں دفنانے کی زحمت سے بھی بچ گئے دن بر ہم لگا تار مہنت کرتے رہے شام ہوتے ہوتے ساری لاشے کنارے تک پہنچا دی گئیں اور آپ ہی آپ ٹھکانے لگ گئیں زمین پر پہنچتے ہی وہ لاشیں قد بقد مٹی کی طرح بکھر جاتی تھی مٹی مٹی میں مل گئی اب صرف کپٹان کی لاش بچی تھی جہاز کے مستول سے چپکی ہوئی ہم نے اس کے ماتے سے کین لکالنی چاہی مگر ن


یا حُدہ یہ کیا معمہ ہے؟ اب جہاز کے پورے مستول کو کس طرح جہاز سے الگ کر کے زمین تک نیجائے جائے؟ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا لیکن ملیج کے پاس اِس سوال کا جواب بھی موجود تھا اس نے ایک گلام کو حکم دیا کہ ایک برتن لے کر کنارے پر جائے اور اسے مٹی سے بھر کر وابس لائے گلام حکم بجھا لائے ملیج نے برتن اپنے ہاتھ میں سمالا مو ہی مو میں کوئی منتر پڑھا اور چھٹکی بھر مٹی برتن سے نک


اچانک کپتان نے اپنی آنکھیں کھول دیں پتلیاں حرکت میں آ گئیں پھر اس نے ایک لمبہ سانس لیا اور اس کی پیشانی سے زکم کی جگہ پر خون کا پھوارا سا ابل پڑا اب وہ کیل آسانی سے نکل آئی اور وہ بے سدھ ہو کر ایک گلام کے بازوہ میں جھول پڑا یہاں مجھے کون لایا ہے چند لمحوں بعد اس نے سوال کیا ملج نے جواب دینے کے بجائے بس انگلی اٹھا کر میری طرف اشارہ کیا میں تمہارا شکر گزار ہ


تم نے بہت بڑے عذاب سے مجھے نجات دلائی ہے پچھلے پچاس برس میں نے اسی تقنیف میں گزارے ہیں ہر رات میری روح جس میں میں لوٹ آتی تھی اور مجھ سے کہتی تھی کہ زمین پر چلو آج میرے ماتے پر مٹی لگتے ہی میری روح کو قرار آ گیا ہے اب میں اپنے عزیزوں تک پہنچ جاؤں گا میں حیران ہوا پھر اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا قصہ پورے کا پورا سنائے اس نے اپنا قصہ اس طرح شروع کیا اب سے پچ


میں ال جزائر کا ایک معزیز شہری تھا پھر بدی کا نشہ مچ پر تاریح ہوا اور سر میں سمائی کہ کسی ترقیب سے دولت حاصل کروں سو میں نے ایک جہاز کھریڑا اور سوچا کہ سمندر میں آتے جاتے تجارتی جہازوں کا مال لوٹا جائے وقت گزر تر آ ایک روز ایک درویش ہمیں ملا اور ہم سے درخواست کی کہ اپنے جہاز پر ہم اسے کچھ دور پہنچا دے میرے ساتھی بدماش قسم کی لوگ تھے درویش سے بھی وہ ہسی م


اس پر فپتیاں کستے اسے تنگ کرتے آخر ایک روز درویش کو جلال آ گیا اس نے ہمیں بددوہ دی میں اس وقت اپنے ایک رفیق کے ساتھ میں نوشی میں مسروف تھا مجھے بھی غصہ آ گیا میں نے خنجر نکالا اور اسے سیدھا درویش کے قلب میں اتار دیا درویش نے مرتے مرتے ہمیں ایک اور بددوہ دی تم جب تک زمین پر نہیں پہنچ جاتے نہ مردوں میں ہو گئے نہ زندوں میں یہ کہتے کہتے اس نے اپنی آنکھیں مونلیں اور


اس کی بدعا کا بھی ہم نے کچھ اثر نہ لیا اور اس کی لاش سمندر میں فینگ دی آخرکار اس کی بدعا رنگلایی اسی رات میرے کچھ سانتھی کسی بات پر مجھ سے ناخوش ہو گئے اور میرے خون کے پیاسے نظر آنے لگے میں اور میرے چند رفیق ایک طرف تھے بقایا دوسری طرف دونوں جتھوں میں زبردست جنگ ہوئی ہم ہار گئے دشمنوں نے مجھے مستول سے لگا کر میری پیشانی میں ایک لمبی میکھ ڈھوک دی میرے بق


پھر پدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ ساتھی جو ہمارے دشمن ہو گئے تھے اپنے زکموں کی تابناہ لا کر ایک کے بعد ایک چل بسے جہاز ایک قبرستان بن گیا میری آنکھوں کی روشنی کم پڑتی گئی اور سانس رک رکھ کر چلنے لگا مجھے یقین ہو گیا کہ میں بھی بس تھوڑی ہی دیر کا مہمان ہوں لیکن میں پوری طرح مرنے کے وجائے ایک قسم کے فالج کا شکار ہو گیا تھا اگلی رات ٹھیک اسی وقت جب ہم نے درویش کی لاش سمندر


کہ ایک بار پھر میں زندہ ہو گیا ہوں میرے تمام سانتھی بھی کروٹ لے کر اٹھ بیٹھے ہم سب غوش میں تھے لیکن صرف وہی کرنے پر مجبور تھے جو کچھ ہم نے پسلی رات کیا تھا اے اجیزوں پچاس برس اسی حال میں گزر گئے ہم مردوں میں ہیں نہ زندوں میں پھر ہم بھلا کیوں کر زمین تک پہنچ سکتے تھے ہم تو یہ دعاوی کرتے تھے کہ کوئی بھیانک طوفان آئے اور جعاس کے ٹکلے ٹکلے ہو جائیں


اور مٹی کا لمسہ میں خوی ہوئی زندگی بکش دے لیکن ہماری قسمت میں یہ بھی نہ تھا اب میں مر تو سکتا ہوں میرے عزیزوں تم نے اس کہر سے مجھے نجات دلائی ہے میں تمہارا شکر گزار ہوں اور اظہار تشکر کے طور پر اپنا جہاز اور اپنا سارا خزانہ مال و اصباب جو کچھ بھی جہاج پر ہے تمہاری نظر کرتا ہوں یہ کہتے کہتے کپٹان لڑک گیا ہم اسے بھی کنارے لائے اور اس کا بدن بھی خاک ہو کر م


ہم نے اس کی مٹی ایک سندوکچے میں سمیٹی پھر اس سندوکچے کو کنارے پر ہی دفن کر دیا اب ہم نے اتمینان کا سنس لیا اور دوسری باتوں پر توجہ کی سب سے پہلے تو ہم نے یہ کیا کہ ملج اور اس کے غلاموں کو دھیر سارے توفے طاہیب انام و اکرام سے نوازہ پھر کچھ ملازم تلاش کیے جو آگے کی سفر اور تجارت میں ہمارا ہاتھ بٹا سکیں پھر ہم نے مزدور اور کاریگر بلوائے اور ان سے جہاز کی مرمت کروائ


اسے شہر لے جا کر بیچ دیا اور بدلے میں دوسرے انواع و اقسام کی چیزیں خریدی خوب نفہ کمائے پھر کاروبار میں قدہ نے اتنی برکت دی کہ نو مہینے بعد جب میں ملک ملک کی سیر کرتا طرح طرح کے عجائبات دیکھتا ہوا واپس اپنے وطن بلزورہ پہنچا تو دوست عجیز پڑوسی اور اہل شہر میرے ٹھارٹ بڑھ دیکھ کر حیران ہو گئی کچھ نے حست کیا کچھ خوش ہوئے اور رشک کی


شاید جوہ رات کی وادی ڈھونڈ نکالی ہے جس کی خوج سندباد جعازی کو تھی عزیزوں جب سے اب تک یہ رسم چلی آتی ہے کہ بلزورہ کا ہر نوجوان عمر کے 18 ورس کی حت پار کرتے ہی قسمت آدمائی کے لیے میری طرح گھر چھوڑ کر نکل جاتا ہے اور شکر ہے اس پروردگار کا کہ اس کے کرم سے بہراور ہوتا ہے نفہ کماتا ہے پھر وطن لوٹ آتا ہے میں نے واپسی کے بعد سے آسائش کی زندگی گزاری ہے ہر پانچ میں برس ہج کو جاتا ہوں


اور خدا کے حضور سجدہ شکرہ دا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ بھوتوں کی جعز کا کپٹان اور اس کی جانسار رفیقوں کی خطائے اللہ ماف کرے اور ان کی مغفرت فرمائے احمد کی کہانی کو سبھی نے بڑے گور سے سنا اور اسے بہت پسند کیا اگلے روز کافلے نے ایک اور منزل تے کر لی پھر جب اہل کاروہ سفر کی تھکان اتارنے کے لیے ایک پور فضہ مقام پر قیام کے ارادے سے رکے اور خواہ پی کر ساتھ بیٹھے تو سلیم نے


جو سب سے کم عمر تھا مخاطب ہو کر کہا تم عمر میں ہم سے چھوٹے ہو اور تمہاری سیحت کی شادہ بھی دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ تم نے کبھی رنج نہیں دیکھا سو اب تم ہمیں کوئی دلچسپ قصہ سناؤ تاکہ اگلے سفر کے لیے ہم تازہ دم ہو سکیں اس نوجواننے کے نام جس کا ملش تھا یہ سن کر ایک کہکہ لگایا اور بولا تمہارا حکم سر آنکھو پر مگر رسمِ دنیا ہے کہ چھوٹے اپنے بڑوں کو پہلے موقع دیتے ہیں


زالی اقوس عمر اور تجربے میں میرے بزرگ ہیں میں دیکھتا ہوں کہ آٹھو پہر وہ کسی سوچ میں گم رہتے ہیں اور چہرے پر متانت چھائی رہتی ہے ہم پہلے ان سے ان کی کہانی سنے تاکہ ان کی ادازی کا بھیت کھلے زالی اقوس ایک یونانی تاجر تھا حسین چہرا مضبوط جسم اور عمر بھی ابھی کچھ زیادہ نہیں تھی یہ بات اور ہے کہ اس کے چہرے پر ہمیشہ سنجیدگی اور ادازی تاری رہتی تھی اس کا اقیدہ اس کے ساتھی


پھر بھی سب اس کی عزت کرتے تھے اور اس کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے زالی اکوس کا ایک ہاتھ کٹا ہوگا تھا ملیج کی باتیں سن کر اس نے ایک پلکی خاموشی کے بعد دھیرے سے کہا یہ میری عزت افصائی ہوگی میں تم سب سے اپنا کوئی راز چھپا کر نہیں رکھنا چاہتا دیکھو میرا ایک ہاتھ کٹا ہوگا ہے اس کا سبب کیا ہے میں تمہیں بتاؤں گا تب تم خود ہی جان جاؤں گے کہ میری اداسی کا بھیت کیا ہے تمہیں یہ پت


کہ میں اتنا چپ کیوں رہتا ہوں تو سنو یہ کہانی کٹے ہوئے ہاتھ کی ہے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow