ایک آندھی فقیر کی دلچسپ کہانی

ایک آندھی فقیر کی دلچسپ کہانی

Oct 17, 2024 - 11:03
Oct 17, 2024 - 11:05
 0  3
ایک آندھی فقیر کی دلچسپ کہانی
ایک آندھی فقیر کی دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمتھا قصہ اندھا فقیر بہت مدد ہوئی ملک ایران کے مشہور شہر تبریز میں ایک گریب اندھا فقیر رہتا تھا وہ مو اندھرے اٹھا باہی ہاتھ میں لکڑی کا ایک بڑا سا پیالہ لیتا اور داہی ہاتھ میں لٹھی سمال کر بازاروں میں بھیک مانگنے نکل کھڑا ہوتا سارا دن گلی گلی کوچے کوچے بھیک مانگتا اور جب سورج مغرب کی برف چھکنے لگتا


تو شہر سے باہر اپنی ٹوٹی فوٹی جھوپڑی میں رات بسر کرنے آجاتا۔ اندھے فکیر کی آواز میں بڑا درد تھا، بھیک مانگتے ہوئے وہ ترہ ترہ کی نصیات آمے جملے اوچی آواز میں کہتا جاتا۔ یہ جملے ان لوگوں کے دلوں پر بہت اثر کرتے، جن کے دروازوں پر اندھا فکیر روزانہ بھیک مانگنے جائے کرتا تھا۔ کبھی وہ کہتا، اے لوگوں گرور نہ کیا کرو، گرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے


جس نے غرور کیا وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوا اور آخرت میں بھی ذلیل و خوار ہوا اے لوگوں انصاف اور دیانت داری سے کام لو یاد رکھو جو دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے خدا اس سے ایک روز سب کچھ چھین لیتا ہے اے لوگوں مجھے دیکھو کبھی میں بھی تمہاری طرح آنکھوالا تھا کبھی اس شہر میں میری بھی بڑی عزت تھی لیکن آج اپنے گناہوں کی سزا پا رہا ہوں خدا کے لیے کبھی کسی کو دھوکہ نہ دینا


اس قسم کی آوازیں لگاتا ہوا ایک روز وہ شہر کے گلی کوچوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک امیر آدمی نے اس سے کہا بابا میں بہت عرصے سے تمہیں دیکھ رہا ہوں اور جو آوازیں لگاتے ہو وہ بھی سنتا ہوں ایسا لگتا ہے تم نے بڑی مسئبتیں جھیلی ہیں آو آج میرے پاس بیٹھو اور اپنی تمام کہانی سناؤ فکر مد کرو جس قدر بھیک تمہیں دن بھر گھوم کرنے کے بعد شہر سے ملتی ہے وہ میں تمہیں دوں گا


شرط صرف یہ ہے کہ اپنی دکھ بھری داستان سچ سچ سناو اندھے فقیر نے اپنی لاتھی اور بھیک مانگنے کا پیالہ وہی زمین پر رکھ دیا اور اس نیک دل امیر آدمی کو دعائے دیتے ہوئے بولا میہاں خدا تمہیں خوش رکھے مجھ گریب کی آب بیتی سن کر کیا کرو گے بس جو میں کہا کرتا ہوں اس پر عمل کیے جاؤ میں ایسا زلیل اور سنگ دل شخص ہوں کہ میری داستان سننے کے بعد تم مجھے دھتکار کر اپنے گھ


امیر آدمی نے اندے فاکیر کو یقین دلائیا کہ وہ ہرگیز ایسا نہیں کرے گا بلکہ وہ تو عبرت حاصل کرنے کے لیے اس سے کہانی سننے کا خواہش مند ہے اندے فاکیر نے ٹھنڈی آہ بھر کر یوں اپنی کہانی شروع کی جناب میں شہر تبریز ہی کا رہنے والا ہوں اور اپنے باپ کا اقلوتہ بیٹا تھا اس نے بڑی شفاقت اور محبت سے میری پرورش کی میری ماں مجھے چھوٹا سا چھوڑ کر ہی مر گئی تھی


اور میری دیکھبھال کرنے والا میرے باپ کے سوا اور کوئی نہ تھا میرے باپ نہائیت غریب آدمی تھا سارا دن گھوم پھر کر مختلف چیزیں بازاروں میں بیجھتا وہ اپنی کام میں بڑا مہنتی اور دائانت دار تھا اس لئے خدا نے اس کے کاروبار میں برکت دی آہستہ آہستہ اس کے پاس خاصی دولے جمع ہو گئی اور اس نے شہر کے ایک بارونک بازار میں دکان خرید لی کچھ عرصی بعد اس نے جوارات کی خرید و فروقت کا کاروبار شروع کیا


شہر میں باپ کی بڑی شاکھ تھی دوسرے تاجر اور جہری اسے زبانی وعدے پر ہزاروں لاکوں کے جوارات دے دیا کرتے تھے اور سارے شہر میں بلکہ تمام ملک میں میرے باپ کی ایمانداری اور شرافت کی دھوم تھی ہر شخص اس کی عزت کرتا تھا رفتہ رفتہ میرے باپ اپنی ان ہی خوبیوں کے باس ملک کا سب سے دولت منج جہری بن گیا مجھے اس نے برابر اپنے ساتھ کاروبار میں شامل رکھا اور تجارت کی اوچ نیچ ا


وہ کہا کرتا تھا کہ بیٹا یہ سم مال و دولت اور کاروبار میرے بعد تمہارا ہے اور تم ہی اسے سمالو گے لیکن یاد رکھو دیانت مہنت اچھی ساکھ کاروبار کی جان ہے جب تک تم ان باتوں پر عمل کرتے رہو گے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور اگر خدا نہ خواستہ تم نے تجارت میں بے ایمانی فرعیب اور دھوکے کو دکھل دیا لوگوں سے جھوٹے وادے کر کر کے مال خریدنا شروع کیا انہیں رقم عدنہ کی تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف یہ تمام د


تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے گی بلکہ تم خدا اور اس کی مخلوق کے سامنے بھی ضریل ہو گئے لہذا یہ تیقر لو کہ کیسے ہی حالات تیش کیوں نہ آئے ایمانداری اور دیانت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا میں اپنے باپ کی یہ قیمتی باتیں اور امدہ امدہ نصیاتیں دن رات سنتا اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کرتا کچھ عرصے بعد میرے باپ دوسرے تاجروں کے ساتھ موٹی خلیدنے کے ارادے سے بہرین کے سفر پر گیا اسے اس کاروبار میں


مگر چند دن کے اندر اندر وہ بیمار ہو کر مر گیا باب کے مرتے ہی دنیا میری آنکھوں میں اندھیری ہو گئی ایسا لگا اس گم سے میں اپنے حوش و حباش کھو بیٹھوں گا کسی بات اور کسی کام میں جینا لگتا تھا ہر وقت باب کی صورت نگاہوں کے سامنے رہتی ایک کونے میں مو چھپائے آنسو بہاتا رہتا آہستہ آہستہ یہ حالت دور ہونی شروع ہوئی میں نے کاروبار کی طرف دھیان دیا دوسرے تاجروں نے بھی میرا


اور ہر قسم کے مشورے اور مدد کا وادہ کیا۔ غرز میں دکان پر بیٹھنے لگا اور وہ تمام لگے بندے گاہاک جو میرے باپ کی زندگی میں جوارات خریدنے کے لیے دکان پر آتے تھے اب بھی آنے لگے۔ کچھ عرصے تک میں اپنے باپ کی وسیعت کے مطابق ایمانداری سے کاروبار چلا تا رہا۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی دھون میرے سر پر سوار ہو گئی۔ میں چاہتا تھا


کہ دکان میں جتنی تجوریاں رکھی ہے ان سب میں سونے کی اشرفیاں اور ہیرے جوارات نیچے سے اوپر تک بھرے ہو اور میں انھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہوں دولت کمانے کی یہ حوض روز براتی ہی گئی یہاں تک کہ میں اپنے باپ کی تمام نصیحتیں بھول گیا اور کاروبار میں بے ایمانی سے کام لے نیلگا میں نے محسوس کیا کہ گاہاکوں کو دھوکا اور فرعب دے کر میں زیادہ دولت کمہ سکتا ہوں کبھی کبھی میرا دل ملامت


لیکن جو جو دولت کے خزانیں میرے پاس جامہ ہوتے گئے دل نے لانت ملامت کرنی بھی چھوڑ دی اب میں دھڑل لے سے لوگوں کو لوٹ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے لگا ایک روز میں اپنی دکان کھول کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص آیا اس کا لباس بو سیدہ اور فٹا ہوا تھا چہرے پر رنج اور گم کے آسار تھے اس نے آتے ہی مجھے سلام کیا اور دعایاں دینے لگا میں سمجھا کوئی بھیک منگا ہے صبح صبح


اور میں نے اسے دھتکار کر بھگانا چاہا لیکن اس نے آفوں میں آنسو بھر کر کہا جناب میں فقیر یا بھکاری نہیں ہوں کبھی میرا شمار بھی اپنے شہر کے خاتے پیتے لوگوں میں تھا لیکن بدقسمتی سے حالات ایسے خراب ہوئے کہ فاکوں تک نوبتہ پہنچی اب مجبور ہو کر میں اپنی بچی ہوئی دولت کا آخری حصہ لے کر بازار میں آیا ہوں یہ کہہ کر اس شخص نے اپنی گدری میں سے ایک بہت قیمتی لال نکال کر میرے سامنے ر


بچپن سے لے کر جوان ہونے تک میں نے ایک سے ایک قیمتی ہیرے اور جواہر دیکھے تھے لیکن اس جیسا لال کبھی نظر نہیں آیا تھا ایسا امدہ نگینہ تو بادشاہوں کے خزانے ہی میں ہوا کرتا ہے میں اس لال کو دیکھ کر دل میں خوش تو بہت ہوا مگر مکاری سے کام لے کر یوں ہی بے پروائی سے اسے دیکھا اور ماتھے پر بل ڈال کر کہا میہ یہ کیا اٹھا لائے؟ اس میں کوئی خاص بات تو ہے نہیں پھر بھی بولو کیا دی دوں اس کا


اس شخص نے حیرث سے میری طرف دیکھا اور بولا جناب آپ اس شہر کے سب سے بڑے جہوری ہیں یہی سوچ کر میں آپ کی دکان پر آیا تھا کہ اس قیمتی پتھر کی صحیح قیمت مجھے عطا کریں گے یقین کیجئے کہ میرے پاس جتنے بھی قیمتی جواہر تھے یہی ان سم میں بیمثال ہے اور اب آپ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی خاص بات نہیں اس شخص کی یہ بات سن کر میں نے ایک بار پھر اس لال کو ہاتھ میں اٹھایا اور خوب گور سے دیکھا بھلا بے شک وہ


اس کی قیمت ایک ڈیڑھ لاکھ عشرفیوں سے کیا کم ہوگی لیکن میں نے مایوسی سے گردن ہلاتے ہوئے کہا ارے صاحب آپ کو دھوکہ ہوا ہے یہ لال اس قدر قیمتی نہیں اس میں تو کئی ایب ہیں شاید آپ نے ان ایبوں پر غور نہیں کیا پہلا ایب تو یہ ہے کہ اس کا رنگ ایک سا نہیں کہیں سے ہلکا ہے کہیں سے گہرا پھر وزن بھی کچھ زیادہ نہیں اور سب سے بڑا سبب یہ کہ اس کے جگر میں ایک داگ ہے


اگر یہ ایب اس میں نہ ہوتے تو یہ لاکھوں کی ملکیت کا ہوتا اب تو اس کے قیمت چند اینار سے زیادہ نہیں یہ کہہ کر میں نے لال اس کے سامنے دھر دیا اور بے پروایی سے دوسرے کاموں میں یوں مسروف ہو گیا جیسے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے اگرچہ اندر سے میرے دل میں بڑی ہلچل مچ رہی تھی کہ یہ شخص لال کو اٹھا کر کسی دوسرے جہری کی دکان پر نہ لے جائے مگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجبوری کے ہاتھوں بہت پریشان تھا


اچھا جناب جو آپ فرماتے ہیں وہ درست ہوگا مگر اس وقت تو یہ لال مجھ سے خرید لیجئے آپ کا بڑا احسان ہوگا مجھ پر اس کی یہ بات سن کر میں سمجھ گیا کہ شکار فس چکا ہے اور یہ اپنا قیمتی لال میرے ہاتھ اونے پونے بیش ڈالے گا میں نے ہمدرد بن کر کہا ارے میا اس میں احسان کی کیا بات ہے جو خدمت مجھ سے ہو سکتی ہے وہ کرنے کیلئے تیار ہوں فرمائیے اس کے کتنے پیسے دے دوں اجی جناب اب


جو قیمت آپ مناسب خیال کریں دے دے پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے 1000 دینار دے دوں لیکن پھر بے ایمانی نے مجھے ورگل آیا کہ 1000 دینار تو بہت زیادہ ہے اگر دینے ہی ہیں تو 20 درہم دے کر یہ لال ہتھیا لو حالانکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ 20 درہم میں تو ایک معمولی موطی بھی نہیں ملتا تو اتنا بیش قیمت لال کیسے ملے گا جس کی قیمت کم از کم ایک لاک سونے کی اشرفیہ ہوں


غرز میں نے سندوق کھول کر بیس درہم کے سکھیں نکالے اور اس شخص کے ہاتھ میں ٹھما دیئے اس نے انتہا حیرت و تاججب سے پہلے ان بیس درہم کے سکھوں کو دیکھا پھر میری جانب تکنے لگا جنابِ عالی کیا صرف بیس درہم انایت فرمائیے گا؟ اس نے پوچھا اس لال کی قیمت صرف بیس درہم؟ تو اور کیا ساری دکان تمہیں دے دوں؟ میں نے ناراض ہو کر کہا اگر یہ قیمت منظور نہیں تو جاؤ راستہ ناپو


وہ کوئی بہت ہی شریف اور گیرت مند آدمی تھا اس نے تھنڈی آہ بھری مجھے سلام کیا اور 20 درہم کی معمولی رکم وصول کر کے چلا گیا اس کے جاتے ہی میں نے جھپٹ کر لال اٹھایا اسے چوما اور جھٹ سے اپنی تجوری میں بند کر دیا وہرے میرے مولا سبا سبا ہی کے سے زبردست نفے کا دھندہ کرا دیا اب میں اسی لال کے اوز ڈیڑھ لاکھ سونے کی عشرفیہیں بڑی آسانی سے جب چاہے حاصل کر سکتا تھا اس


میں مو اندیرے اپنی دکان پر آیا اس وقت سارا بازار بند تھا میں ہی ایسا دکاندار تھا جو سورج نکلنے سے بھی پہلے دکان کھولنے کا عادی تھا تاکہ گاہک سب سے پہلے میری دکان پر ہی آئے تھوڑی دیر بعد میں نے باہر سڑک پر گھوڑے کی ٹاپو کی آواز سنی یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی گاہک آیا ہے میں نے دکان سے باہر جھاکا کیا دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا


یکا یک وہ گھوڑے کی پیٹ پر سے زمین پر گرا اور کوئی آواز نکالے بغیر مر گیا سوار کے گرتے ہی کئی راہ گیر اور کام کاج پر جانے والے مزدور اور ایسے ہی دوسرے آدمی دوڑے ہوئے آئے اور آتے ہی مجھے گھیر لیا کیونکہ بدقسمتی سے میں گھوڑ سوار کے گرتے ہی اپنی دکان سے نکل کر اس کے قریب پہنچ گیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ جو کچھ اس کی جیم میں ہوگا وہ نکال کر اپنے قبضے میں کرلوں گا


کوئی جھوٹے مارنے لگا، کسی نے گھو سے لگائے اور کوئی مجھے لکڑی سے پیٹھنے لگا وہ سب ایک آواز ہو کر یہی کہتے تھے کہ گھڑ سوار کو تم نے مارا ہے میں لاک دوہائی دیتا کہ میں نے اسے مارنا تو ایک طرف ہاتھ تک نہیں لگایا لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی آنن فانن لوگوں نے میری مشکے باندھ لی میں نے اپنے تاجر بھائیوں اور دوسرے ان دکانداروں کو مدد کے لیے پکارا جو اپنی اپنی دکانیں کھول چک


سب دور کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ دراصل وہ سب میری بے ایمانیوں اور دھوکے سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے اور مجھ سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اتنے میں شہر کا کوتوال سپاہیوں سمیت آ گیا۔ وہ بھی مجھ سے جلتا تھا کیوں کہ ایک موقع پر میں نے اس کی بیوی سے سونے کے ایک ہار کی چار گنا قیمت بسول کی تھی۔ کوتوال نے آتے ہی پہلے تو میری خوب ٹھکائی کی، پھر گرفتار کر کے شہر کے حاکم کی عدالت میں لے


شہر کا حاکم نہائت بدماش اور بے ایمان آدمی تھا ایک مرتبہ وہ میری دکان پر آیا تھا اور حکومت کا روب جتا کر کچھ جوہرات لے جانے کی کوشش کی تھی مگر میں نے اسے بے عزت کر کے نکال دیا تھا اب جو اس نے مجھے اس حال میں دیکھا تو بہت خوش ہوا اور یہ سن کر کہ میں نے گھر سوار کو جان سے مار ڈالا ہے فوراً میرے سزاہِ موت کا حکم دے دیا میں نے اس کی بڑی منت سماجت کی بہت قسمیں کھائی کہ میں تو اس گھر س


اور نہ میری اس سے کوئی دشمنی تھی میں اسے کیوں ہلاک کرتا مگر حاکم نے میری کسی بات پر کان نہ دھرا اور جلادوں کو بلا کر مجھے ان کے حوالے کر دیا قتل کے مجرم کو سورج نکلنے سے پہلے موت کے گھات اتارہ کرتے تھے چنانچہ جلاد نے مجھے موت کی کوٹری میں رات بھر کے لیے بند کر دیا میں اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو چکا تھا کہ یکا یک آدھی رات کے وقت کوٹری کا دروازہ کھلا اور شہر کا حاکم اندر داخل ہ


میں اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا وہ اکیلا ہی آیا تھا اور جلات کو اس نے دروازہ خلوا کر رکھست کر دیا تھا جناب خدا کے لیے مجھ بے گناہ پر رحم کیجئے میں جھپٹ کر اس کے قدموں پر گر پڑا میں بالکل بے گناہ ہوں حاکم نے کہ کہا لگایا تم بہت بدماش اور بے ایمان آدمی ہو ہم تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں میں تو مدد سے اس فکر میں تھا کہ تم کسی طرح میرے فندے میں فسو اب صبح سورج نکلنے سے پہلے پہل


حضور میں اپنے کیئے پر نادم ہوں ایک روز آپ میری دکان پر تشریف لائے تھے اور میں آپ سے گستاکی کے ساتھ پیش آیا تھا اس کی معافی چاہتا ہوں اکیلے معافی سے کام نہ چلے گا بے بقوف جوری حاکم نے مجھے دھمکاتے ہوئے کہا ہم نے سنا ہے تُونے بڑی دولت جمع کر لی ہے کچھ اس میں ہمارا بھی حصہ ہے یا نہیں اب میں اس کمینے کا مطلب سمجھا وہ مجھ سے جانبخشی کی رشوت مانگ رہا تھا میں نے کامت


جناب جو حکم کریں پیش کر دوں ٹھیک ہے وہ ہزکر بولا اب آئے سیدھی راہ پر اسی وقت مو پر کفڑہ لپیٹ کر ہمارے ایک آدمی کے ساتھ اپنی دکان پر جاؤ اور ایک لاک اشرفیوں کے جواہر تھیلی میں بند کر کے اس کے حوالے کر دو پھر صبح ہماری عدالت میں پیش ہونا رحم کی ایک درخواست تمہاری جانب سے عدالت میں دی جائے گی ہم نے چند گواہوں کا انتظام کیا ہے جو یہ گواہ ہی دیں گے کہ تم نے اس


اس کے بعد ہم تمہاری رہائی کا حکم دے دیں گے اور ایوں اس موضی حاکم کو ایک لاکھ عشرفیوں کے ہیرے جواہر رشوت میں دے کر میں نے اپنی جان بچائی اس واقعے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں نصیت پکڑتا اور آیندھا کے لیے دھوکے فرعیب اور بے ایمانی سے توبہ کر لیتا لیکن ہوا یہ کہ پہلے سے بھی زیادہ دولت کمانے کا لالچ بھوٹ بن کر مجھ پر سوار ہو گیا شہر کے حاکم کو ایک لاکھ عشرفی


اس نقصان کو جلد سے جلد پورا کرنے کی دھون لگی ہوئی تھی میں نے تے کر لیا کہ جب تک اتنی رکم نہیں کمالوں گا ایمانداری کو اپنے قریب نہ بھٹکنے دوں گا ایک دن کا ذکر ہے میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا کہ دو اورتیں زرک برک لباز پہنے دکان کے سامنے آن کھڑی ہوئی ایک اورت کی گود میں چھوٹا سا بچہ تھا جسے اس نے کپڑا اڑا رکھا تھا دوسری اورت کے ہاتھ میں ایک خوبصورت تنکو کی


ان کی آواز میرے کانوں تک آسانی سے پہنچ رہی تھی بچے والی عورت نے اپنی کمیز کی جیم میں ہاتھ ڈالا اور بہت سی سونے کی اشرفییں نکال کر دوسری عورت کو دیتے ہوئے بولی یہ اشرفییں لے جاؤ اور حاجی جلال جوہری کی دکان پر جا کر اسے دے دو کہنا کہ خانم نے یہ اشرفییں بھیجی ہے کل تم جو اس کے ہاں سے چند انگوٹھییں اور ہر وغیرہ لے کر آئی تھی ان چیزوں کی آدھی قیمت ہے حاجی جلال سے کہنا کہ با


اب جن جن زیبروں کی ہمیں ضرورت ہے ہاجی سے کہنا کہ جلد تیار کر دے کیونکہ شادی میں اب دس ہی دن باقی رہ گئے ہیں میں یہی رکھ کر تمہارا انتظار کر رہی ہوں جلدی اس کا جواب لے کر آنا کہ وہ کپ تک نئے زیبر تیار کر دے گا خانم سے عشرفیوں لے کر دوسری عورت چلی گئی میں نے سوچا یہ عورت بڑی مالدار معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے جیب سے عشرفیوں نکال کر گنے بغیر ہی دوسری عورت کو دے دی تھی


اور حاجی جلال جوری سے اسی لیے زیور کی فرمائش کی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے بڑے عدب سے ان کو سلام کیا اور کہا اے معزز خاتون آپ وہاں سڑک پر کب تک کھڑی رہیں گی؟ یہاں میری دکان میں آکر بیٹھ جائیے۔ یہ سنتے ہی وہ عورت کچھ شرم آئی پھر جھجکتی ہوئی آئی اور دکان کے بیرونی حصے میں بیٹھ گئی میں نے کہا معزز خاتون کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ حاجی جلال جوری سے آپ نے کون کون سے زیور ک


یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ حاجی جلال کچھ اچھا تاجر نہیں ہے وہ زیادہ رقم وصول کرنے میں بہت بدنام ہے اچھا یہ بات ہے عورت نے حیرت سے کہا مگر اب کیا ہو سکتا تھا ہم نے تو اس سے بہت سے چیزیں خریدی ہیں کپڑے، ہیرے، جواہر اور سونا وغیرہ اصل میں میری چھوٹی بہن کی شادی وزیر کی لڑکے سے ہونے والی ہے دس دن شادی میں باقی ہیں اور ابھی بہت سا زیبر اور کپڑا خریدنا ہے کل ہم نے ح


واز جوہرات ہمیں پسند نہیں آئے۔ اس نے کہا تھا کہ ایک دو دن میں اُمدہ اُمدہ ہیرے آئیں گے، پھر آنکر لے جائیے گا۔ عورت کی یہ باتیں سن کر میری رال ٹپکنے لگی۔ میں نے سوچا گاہک بہت امیر معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ میں اپنے ہیرے جوہر بیچوں تو ہزاروں کے وارے نیارے ایک آن میں کر سکتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے کہا محترم خاتون، اگر آپ حکم دے تو میں ایسے نقیس اور ق


جو یہاں کسی جوری کے پاس آپ کو نہ ملیں گے قیمت کی آپ فکر نہ کیجئے جس قدر ممکن ہو سکا قیمت میں ریائیت کر دوں گا یہ سنتے ہی اس عورت نے خوش ہو کر کہا ہاں ہاں ضرور دکھائیئے اگر پسند آئے تو خرید لوں گی لیکن شرط یہ ہے کہ خریدنے سے پہلے میں یہ جوہر اپنے مکان پر بھیجوں گی تاکہ میری بہن بھی پسند کر لے جس کی شادی ہونے والی ہے خدا کرے اسے آپ کے دکھائے ہوئے حیر


پھر تو ہم مہمانگی قیمت پر بھی خرید لیں گے خانم کی یہ بات سن کر مارے لالج کے میرے مو میں پانی بھر آیا میں نے کہا محترم خاتون جو ہیرے اور زیبر میں آپ کو دکھاؤں گا وہ سب کے سب لا جواب اور بیش قیمت ہیں جیسا کہ میں نے کہا پورے بازار میں کسی اور جعوری کے پاس اتنا امدہ اور نفیس مال نہ ہوگا ہم ایسی چیز آپ ہی جیسے قدر دانوں کے لیے سمحل سمحل کر رکھتے ہیں اور ہر آنے والے گاہک


ابھی میں یہ چکنی چپڑی باتیں کر ہی رہا تھا کہ دوسری عورت واپس آ گئی اس نے ایک خوبصورت موتیوں کا ہار نکال کر خانم کو دیتے ہوئے کہا حاجی جلال نے یہ ہار تیار کر کے دے دیا ہے اور وہ سلام عرض کر کے کہتا ہے کہ انشاءاللہ واقعی زبر کل پرسوں تک ضرور تیار ہو جائے گا اس نے یہ بھی کہا ہے کہ قیمت کی اسے اتنی جلدی نہیں ہے جب جی چاہے رقم بیجوہ دیجئے گا


خانم نے بے پروائی سے دوسری عورت کی یہ بات سنی اور ہار کو عولت پولیٹ کر دیکھتے ہوئے بولی ہوں یہ بھی کوئی ہار ہے مجھے یقین ہے کہ دلہن اسے کبھی پسند نہ کرے گی جی تو چاہتا ہے کہ اسے ابھی حاجی صاحب کے پاس واپس بیجو آ دوں مگر یہ خیال کر کے رکھ لیتی ہوں کہ ان سے ہمارا پرانا لیندین ہے اچھا خیر اب آپ مہربانی فرما کر وہ جوہر دکھائیے جن کا ذکر آپ نے مجھ سے کیا ہے ابھی لیجیے


میں نے جلدی سے کہا اور تجوری کھول کر ہانتی دانت کا بنہ ہوا ہسین ڈبہ نکالا اس ڈبے کے اندر ہی وہ نادر ہیرے رکھی ہوئے تھے انہی میں وہ لال بھی تھا جو میں نے ایک مسیبت زدہ سے صرف بیس درہم میں ہتیا لیا تھا دونوں اوردیں حیرت دلچسپی اور خوشی سے ہیرے دیکھتی رہیں ہر ہیرے کی قیمت پوچھتی جاتی تھی میں بھلا کہاں چونکنے والا تھا میں نے بھی خوب بڑھ چڑھ کر قیمتیں بتائیں اس ل


کتنا خوبصورت پتھر ہے کیسی چمک دمک ہے بھائی یہ تو بہت قیمتی معلوم ہوتا ہے کیوں جناب کیا قیمت ہوگی اس کی محترم خاتون ایسا پتھر دنیا میں کہیں نہ ملے گا خاص شہنسہ ترکی کے خزانے کا ہے وہاں سے ایک شہزادہ نا جانے کیسے اڑا لایا اور میرے ہاتھ بیچ گیا بس اس کی قیمت نہ پوچھئے اسے لے جائیے پھر بھی کچھ تو بتائیے نا اس نے اصرار کیا صرف دو لاکھ اشرفییں


میرا خیال تھا کہ اتنی بڑے قیمت سن کر وہ مایوس ہو جائے گی لیکن اس نے خوش ہو کر کہا صرف دو لاکھ اشرفییں ہمیں یہ قیمت منظور ہے ان داموں تو ہر لال بے ہت سستا ہے قصہ مختصر اس خاتون نے لال کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے جوارات اور موٹی بھی پسند کیے میں نے اس کے پسند کی ہوئے جوار اسی ہاتی دانت کے ڈبے میں احتیاز سے رکھ دئیے اس کے بعد خانم نے مجھ سے کاغز اور کلم مانگا میں نے دونوں چیزیں پیش


اس نے کاغس پر کچھ لکھ کر وہ جواہر کے ڈبز سمیت اپنی سانتھی عورت کو دیا اور کہنے لگی اب تم جلدی سے یہ جواہر گھر لے جا کر بہن کو دکھا لاؤ مجھے اندیشہ ہے کہ ان میں سے کئی موٹی اور ہیرے وہ ناپسند کر کے واپس بھیج دے گی لیکن یہ لال اسے ضرور پسند آئے گا جب تک تم واپس آو میں یہیں دکان پر بیٹھتی ہوں یہ کہہ کر مجھ سے بولی جناب اگر آپ کو بھروسہ نہ ہو تو اپنا کوئی آدمی اس ع


جی نہیں مہترم خاتون میں نے جلدی سے کہا یہ آپ کیا فرماتی ہیں آپ پر مجھے اعتماد ہی اعتماد ہے نیہائت اطمینان سے یہ جواہر اپنے گھر پسند کروانے کیلئے بھیجوہ دیجئے غرز دوسری عورت جواہر کا ڈبہ لے کر چلی گئی اور خانم میری دکان پر بیٹھی رہی میں اپنے کام میں مسروف ہو گیا یکا یک دو راہگیروں میں میری دکان کے این سامنے کسی بات پر تقرار ہوئی پہلے تو وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیت


اس کے بعد انہوں نے تلواریں نکال لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمہشائیوں کا ایک حجوم میری دکان کے آگے جمہ ہو گیا۔ گل گپارے سے کان پڑے آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اتنے میں کوتبال سپاہیوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس نے آتے ہی دونوں لڑنے والوں کو گرفتار کر لیا اور حاکم کی عدالت میں لے چلا۔ جاتے جاتے ارد گرت کے چند دکان داروں کو بھی، گواہی دینے کے لیے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ یہ جھ


اس لئے کوتوال نے زبردستی مجھے بھی گواہی کے لیے دوسرے لوگوں میں شامل کر لیا جب میں نے جانے سے انکار کیا تو اس نے میرے ہاتھوں میں ہتکڑیاں ڈال دی اور گھسیٹھتے ہوئے لے جانے لگا یہ دیکھ کر خاتون نے جو اس وقت تک اتمینان سے اپنے بچے سمید دکان ہی میں بیٹھی تھی مصدر سے کہا جناب آپ حاکم کی عدالت میں جا کر گواہی دے آئے میں یہی بیٹھتی ہوں چلتے چلتے میں نے پڑوست کی ایک دکان پر


کہ وہ عورت جو میری دکان پر بیٹھی ہے ذرا اس پر نگہ رکھنا کسائی کو کچھ خون نہ تھی کہ معاملہ کیا ہے اور وہ عورت دکان پر کسلئے بیٹھی ہے؟ اس نے سوچا شاید اس لئے دکان کی نگرانی کو کہتا ہے کہ وہ عورت کوئی چیز نہ اٹھا لے اس نے مصدر کہہ دیا کہ وہ عورت پر نگہ رکھے گا حاکم کی عدالت میں گواہی دیکھ کر جب میں واپس اپنی دکان پر آیا تو دور ہی سے یہ دیکھ کر دل دھک دھک کرنے ل


البتہ اس کا ننہ سا بچہ ایک کمل میں لپٹا ہوا گہری نین سو رہا تھا میں نے کسائی سے پوچھا کہ وہ عورت کہاں گئی اس نے کہا تمہارے جانے کے بعد وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میں تھوڑی دیر کے لیے حاجی جلال جوہری کی دکان پر ایک کام سے جا رہی ہوں اپنا بچہ یہیں چھوڑے دیتی ہوں تم مہربانی کر کے اس کا دھیان رکھنا یہ کہے کر وہ چلی گئی اسے گئے ہوئے کتنی دیر ہوئی میں نے پوچھا بہت دیر


میں نے دکان میں جا کر کمل میں لپٹے ہوئے بچے کو دیکھا تو پیرو تلے کی زمین نکل گئی وہ چینی مٹی کا بنا ہوئے کھلونا تھا میں نے اسی وقت شور مچایا کہ دورو بھاگو میں لٹ گیا برباد ہو گیا لیکن اس فریات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا وہ فریبی عورتیں نہ جانے کہاں غایب ہو گئی تھی میں نے کسائی کو گسے میں گالیاں دی اور کہا کہ جب میں کہ کر گیا تھا کہ عورت پر نگہ رکھنا تو تم نے اسے جانے کیوں دیا


کسائی نے جواب دیا کہ میں تمہارا نوکر نہیں تھا جو اپنا کام چھوڑ کر عورت کو دیکھتا رہتا اس کا جواب سنکر میرا پاغل پن انتہا کو پہنچنے لگا لپک کر اس کی زکان سے گوشت کارڈنے کا چھورہ اٹھایا اور اس پر حملہ کر دیا کسائی بری طرح زخمی ہو گیا اور وہی پر مر گیا یہ دیکھتے ہی لوگ دولے دولے آئے اور مجھے پکڑ کر حاکم کی عدالت میں لے گئی حاکم نے سارا قصہ سن کر حکم دیا کہ اس بے ر


لیکن لوگوں نے اس سے درخواست کی کہ یہ شخص پاغل ہو چکا ہے اسے جان سے مارنا درست نہ ہوگا اس کے لیے یہی سزا بہت ہے کہ اس کی تمام جائداد اور معلو اسباب زبط کر کے اسے شہر سے باہر نکال دیا جائے یہ مشورہ حاکم کو بہت پسند آیا اسی وقت حکم دیا کہ میرے تمام معلو اسباب مکان اور دکان زبط کی جائے یہاں تک کہ تن کے کپڑے بھی اتار لیے جائے حاکم کے کارندوں نے سب کوچھین کر مجھے شہر بدر کر دیا


میں خوب رویا پیٹا مگر کسی نے ایک نہ سنی دس روز تک میں شہر کے باہر ویرانے میں بھوکا پیاسا اور ننگ ڈھڑھنگ آسمان کے نیچے پڑا رہا گیاروے دن جبکہ بھوک پیاس کے ہاتھوں میری جان لبوں پر تھی سہرا کی جانب سے ایک اونٹ سوار آیا اور میرے پاس آنکر اونٹ سے اترا اس نے مجھے کھانے کے لیے خجوریں دی پینا کو پانی دیا اور پہننے کو کپنوں کا ایک جوڑا دیا خجوریں کھا کر اور پ


اور میں نے اپنے محضن کا شکریہ ادا کیا اس نے مسکرہ کر کہا کیوں میا جوہری تم نے مجھے پہچانا میں نے وور سے اس کی صورت دیکھی لیکن کچھ یاد نہ آیا کہ اسے کہاں دیکھا تھا البت تا صورت جانی پہچانی لگتی تھی میں نے کہا بھائی ایسا لگتا ہے کہ تمہیں اس سے پہلے کہیں دیکھا ضرور ہے مگر کہاں یہ یاد نہیں آتا یہ سن کر وہ حسا اور کہنے لگا میا جوہری تمہیں وہ فٹے حالوں آدمی یاد ہے


جو ایک روز صبح صبح تمہاری دکان پر ایک لال بیجنے کیلئے آیا تھا اور تم نے بیز درہم کے بدلے میں وہ بیش قیمت لال اس سے خریدہ تھا دہشت سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے بے شک یہ اجنا بھی وہی تھا میں نے جھک کر اس کے قدموں پر سر رکھنا چاہا لیکن وہ اشل کر پرے ہٹ گیا پھر اس نے اپنی جیب سے مخمل کی ایک تھیلی نکال کر اس کا موہ کھولا تھیلی کا موہ کھلتے ہی اس میں سے سیکلوں ہزاروں


جیسا ایک لال اس اجنبی نے 20 درہم میں میرے ہاتھ میچا تھا اجنبی نے کہ کہا لگا کر کہا میہ جوری میں تمہاری دیانت داری اور ایمانداری پر اکھنے کیلئے خستہ حالت بنا کر تمہاری دکان پر گیا تھا اگر تم بے ایمانی نہ کرتے اور مجھے اس لال کی صحیح قیمت ادا کرتے تو میں حنام کے طور پر یہ تھیلی تمہیں دے دیتا مگر تم نے بے ایمانی اور دھوکے سے کام لیا اس کا نتیجہ بھی تم نے دیکھا کہ سب کچھ


اور تم اس حال کو پہنچ گئے حضور آپ کون ہے؟ میں نے تھر تھر کامتے ہوئے کہا میں جنوں کا بادشاہ ہوں کئی ہزار جن میرے غلام ہیں میرے مشغلہ یہ ہے کہ سارا دن شہروں میں گھومتا ہوں جو شخص مجھے مہنتی ایماندار اور سچا دکھائی دیتا ہے اس کی خدا کے حکم سے مدد کرتا ہوں میں نے ہی تمہارے باپ کی مدد کی تھی اس لیے کہ وہ سچا اور خرا آدمی تھا لیکن تم نے فریب اور دھوکے پر


اس لئے تمہیں سزا دینا ضروری تھا۔ جنوں کے بادشاہ کی یہ بات سن کر میں نے ہر طرح رونا اور چلانا شروع کر دیا کہ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو آئندہ اہت کرتا ہوں کہ کبھی کسی کو دھوکا نہ دوں گا کسی سے فریب نہ کروں گا میری دولت واپس کر دی جائے لیکن یہ رونا دھونا سب بیکار گیا نظر اٹھا کر دیکھا تو جنوں کا بادشاہ گائب ہو چکا تھا وہ دن اور آج کا دن دردر بھیک مانگنا میرا مقدر ہے


آئسطہ آئسطہ میری آنکھوں نے بھی جواب دی دیا اور میں اندھا ہو گیا اب تبریس کے بازاروں اور گلی کوچوں میں بھیک مانگتا ہوں اور لوگوں کو نصیعت کرتا ہوں کہ وہ میرا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں جو شخص بھی سچائی، دیانت اور ایمانداری کا راستہ چھوڑ کر دھوکے فرعب اور بےیمانی کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ ہمیشہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے رسوای ہے خدا میرے گناہ


اور میری خطائیں بقش دے پیارے دوستو یہ تھی کہانی اندھے فقیر کی کہانی اگر پسند آئی ہو تو لائک کریں شیر کریں اور کمنٹ میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار کریں اور ایسے ہی مزید دلچسپ کسے کہانیوں کے لیے ہمارے اسٹوری وائس سینٹر چینل کو بھی سبسکرائب کریں اور ساتھ ہی بیل آئیکن کے بٹن کو بھی پریس کر لیں تاکہ ہمارے آنے والے نئے بیڈیوز کی نوٹیفیکیشن آپ کو وقت پر مل سک

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow