قصہ سیحہ جادوگر کا

قصہ سیحہ جادوگر کا

Oct 19, 2024 - 11:53
 0  4
قصہ سیحہ جادوگر کا
قصہ سیحہ جادوگر کا


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت تھا قصہ سیحہ جادوگر سفیان نے جھکر نیحیت معدبانہ انداز میں ملک خسام کے بادشاہ کو سلام کیا اور ان کے سامنے معدبانہ انداز میں کھڑا ہو گیا کون ہو تم نوجوان؟ بادشاہ سلامت نے اس کی جانب گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ان کے دائے باین وزیر عظم اور سپا سالار بیٹھے ہوئے تھے


وہ بھی گور سے نوجوان کی طرف دیکھ رہے تھے دربار میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی قطعروں میں موجود شاہی کرسیوں پر بیٹھے بزیر مشیر اور درباری بلکل خاموش بیٹھے تھے ان کی نظریں بھی سوفیان پر جمی ہوئی تھی جو ابھی ابھی وہاں آیا تھا میرا نام سوفیان ہے بادشاہ سلامت اور میں ملک دمشک سے آیا ہوں نوجوان نے جس کا نام سوفیان تھا جواب دیتے ہوئے کہا اوہ تم تو خاص سے دور سے آئے ہو


بادشاہ سلامت نے کہا میں منادی سن کر آیا ہوں بادشاہ سلامت سوفیان نے کہا منادی او تو تم شہزادی مورت کے لئے آئے ہو بادشاہ سلامت نے کہا شہزادی مورت کا نام لیتے ہوئے ان کے چہر پر گم کے تاثرات نمائے ہو گئے تھے شہزادی مورت ان کی اقلوطی بیٹی تھی وہ اس قدر حسین و جمیل تھی کہ اس کے حسنے کے چرچے پوری دنیا میں فیلے ہوئے تھے


بے شمار ممالک کے بادشاہ شہزاد بزیر اور سپا سالار شہزادی مورت سے شادی کرنا چاہتے تھے بادشاہ اور ملکہ ابھی سوچھی رہے تھے کہ وہ اپنی چاند جیسی اقلوطی بیٹی کے لیے کس کا رشتہ پسند کریں کہ اچانک ایک خبر ان پر بجلی بن کر گری ایک کنیز جو شہزادی مورت کی سہلی تھی گھبرائی ہوئی ان کے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ وہ اور شہزادی مورت


چند سہلیوں کے ساتھ باہے باگ میں کھیل رہی تھی کہ اچانک وہاں ایک زوردار دھماکہ ہوا دھماکے کی آواز سن کر وہ سب ڈر گئی اسی لمحے ان کے سامنے زمین پر دھوئے کا بادل سا بنا جو تیزی سے اوپر اٹھتا چلا گیا پھر اس دھوئے نے سیح رنگ کے ایک انتہائی خوفناک اور بت شکل جادو کر کر روب دھار لیا جادوگر کے سر کے بال اور داری موچیں سب سیح تھی اس خوفناک سیح جادوگر کو دیکھ کر


اور وہ چیختی چلاتی ہوئی بھاگنے لگی کہ اچانک سیحہ جادوگرن نے دونوں ہاتھ فیلا کر ان کی طرف جھٹک دیئے اس کی انگلیوں سے بجلی کی لہرے سی نکل کر ان سب پر پڑے اور انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ پتھر کی بن گئی ہو وہ دیکھ سکتی تھی سن سکتی تھی مگر وہ نہ حرکت کر سکتی تھی اور نہ ہی ان کے مو سے کوئی آواز نکل رہی تھی سیحہ جادوگرن نے کنیزوں کے ساتھ شہزادی مورت کو بھی


پھر انہوں نے سیح جادوگر کو آگے بڑھتے دیکھا۔ سیح جادوگر نے آگے بڑھ کر شہزادی مورت کو اٹھایا اور اسے لے کر اچنیک وہاں سے غایب ہو گیا۔ اس جادوگر اور شہزادی مورت کے غایب ہوتے ہی ساری کنیزیں دوبارہ اصلی حالت میں آگئی تھیں۔ اپنی بیٹی کی گمشدگی کا سن کر ملکہ تو اسی وقت بےہوش ہو گئی تھیں جبکہ بادشاہ سلامت ان کنیزوں اور بائے باک کے محافظوں پر برس پڑے تھے۔


مگر نا جانے وہ جادوگر کون تھا، کہاں سے آیا تھا اور وہ شہزادی کو کہاں اور کیوں لے گیا تھا؟ بادشاہ سلامت کے حکم پر سپاہی کئی روز تک شہزادی مورت کو تلاش کرتے رہے مگر انہیں نہ سیحہ جادوگر کا پتہ چل سکا اور نہ شہزادی مورت کا جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت بھی گم سے نڈھال ہو گئے تھے انہوں نے درباری معاملات میں بھی دلچسپی لینے چھوڑ دی تھی پھر وزیروں اور مشیروں سے


مشوروں کے بعد بادشاہ سلامت نے نہ صرف ملک شام بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اعلان کرا دیا کہ جو کوئی شہزادی مورد کو تلاش کر کے لاے گا اس کی نہ صرف شہزادی مورد سے شادی کر دی جائے گی بلکہ ملک شام کا تخت و تاج بھی اس کے حوالے کر دیا جائے گا یہ اعلان سن کر بہت سے شہزادوں وزیرزادوں اور شہزو نوجوانوں نے قسمت آزمائی کرنا چاہی مگر صوائی ناکامی کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا تھا


وہ ایک گریب بڑھائی کا بیٹا تھا۔ سوفیان چونکے بڑھائی کا ایک نوطہ بیٹا تھا۔ اس لئے بڑھائی نے اپنے بیٹے کو بہت لات پیار سے پالا تھا۔ بڑھائی چونکے ملک دمشکے کے شاہی گھرانوں کا کام کیا کرتا تھا۔ اس لئے اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بڑھا ہو کر شاہی فوج کا سپاہی بنے۔ اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنون جنگی بھی سکانے میں کوئی کس


سوفیان نے بہت جلد گھڑ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی میں محارت حاصل کر لی تھی سوفیان چونکہ ایک خوبصورت نوجوان تھا اس لئے بڑھائی اسے نہ صرف اچھا کھانے کو دیتا تھا بلکہ اس کے لیے بہترین سے بہترین لیواز بنواتا جسے پہن کر سوفیان کسی ملک کے شہزادے سے کم نہیں لگتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے دوستوں سے شہزادہ سوفیان کے نام سے پکارتی تھے اور یہی نام اس کی پہچان بن گیا تھا


شہزادہ سفیان اپنے چند دوستوں کے ہمرا ایک مرتبہ ملکشام آ چکا تھا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملکشام کے بازار میں گھونگ فررا تھا کہ اچانک وہاں شاہی سپاہی آ گئے انہوں نے بازار سے لوگوں کو ایک طرف ہٹانے شروع کر دیا انہیں بتایا جا رہا تھا کہ اس بازار سے شہزادی مورت کی سواری گزرنے والی ہے اس لیے ہر خاص و عام کو وہاں سے ہٹایا جا رہا تھا شہزادہ سفیان نے بھی ملکشام کی شہزادی مور


اس نے جب سنہ کہ اس بازار سے شہزادی مورد کی شاہی سواری گزرنے والی ہے تو اسے شہزادی مورد کو ایک نظر دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا چنانچہ وہ سڑک کے کنارے ایک بڑی دکان کے ستون کے پاس کھڑا ہو گیا جہاں سے شہزادی مورد کی شاہی سواری کو آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا تھوڑی دیر بعد اس بازار سے شاہی دستے کے حمرہ ایک خوبصورت بگی گزرنے لگی جس میں شہزادی مورد اپنی سہلیوں اور ک


ان سب کے چہرے جالیدار نقابوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ شہزادی مورت اپنے لباس اور سر پر مخصوص تاج کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاتی تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر چونکے نقاب تھا، اس لئے شہزادہ سوفیان کو مایوسی ہونے لگی کہ وہ شہزادی مورت کی صورت نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن پھر جیسے ہی بگی اس کے قریب سے بزرنے لگی، اچانک تیز ہوا چلی اور شہزادی مورت کے مو سے اس کا نقاب الٹ گیا۔


تو وہ جیسے پلکے جھپکانا ہی بھول گیا شہزادی مورت واقعی انتہائی حسین تھی اس قدر حسین کہ شہزادہ سوفیان اس جگہ پتھر کا بتسہ بن کر رہ گیا شاہی بگی وہاں سے جا چکی تھی مگر شہزادہ سوفیان اسی طرح بت بنا کھڑا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے شہزادی مورت کا حسین چہرہ تھا جو کسی طرح ہٹھی نہیں رہا تھا اگر شہزادہ سوفیان کو اس کے دوست نہ چھنجورتے تو نہ جانے کب


شہزادہ سوفیان نے جب دیکھا کہ شہزادی مورت کی سواری وہاں سے کب کی جا چکی ہے تو اسے بہت افسوس ہوا۔ لیکن اس کے ذہن پر چوکے شہزادی مورت کا چہرہ بس چکا تھا۔ اس لئے اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جب بھی شادی کرے گا تو شہزادی مورت سے ہی کرے گا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک معمولی بڑھائی کا بیٹا ہے اور اس کی شادی کسی بھی صورت شہزادی مورت سے نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس کے باوجود وہ امید لگ


کہ ایک روز اس کی خواہش ضرور پوری ہوگی۔ شہزادہ سوفیہ نے ایک روز دمشک کے بازاروں میں ملک شام کے نکار چی کو اعلان کرتے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ شہزادی مورد کو اس کے محل سے ایک سیحہ جادوگر اٹھا کر لے گیا ہے اور جو شخص شہزادی مورد کو ڈھونڈے گا اور اس سیحہ جادوگر سے واپس لائے گا۔ بادشاہ سلامت اس کی شادی نہ صرف شہزادی مورد سے کر دیں گے بلکہ اپنا تخت و تاج بھی اس کے حوالے کر دیں گ


یہ سن کر کہ شہزادی مورت کو کوئی سیحہ جادوگر اٹھا کر لے گیا ہے شہزادہ سوفیان کو گسا تو بہت آیا مگر یہ اس کیلئے خوشی کی بات بھی تھی کہ اگر وہ شہزادی مورت کو اس سیحہ جادوگر سے آزاد کر آلاتا ہے تو اس کی شادی اس سے ہو سکتی تھی چنانچہ اس اعلان کو سنتے ہی شہزادہ سوفیان نے کمر بان لی کہ چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے وہ شہزادی مورت کی تلاش میں ضرور جائے گا اور جیسے بھی ممکن ہوگ


اسے آزاد کرلائے گا۔ اس نے اپنے ماباب سے اجازت لی، وہ چونکہ اپنے ماباب کا لڑلا تھا اس لئے انہوں نے اسے اجازت دے دی اور شہزادہ سوفیان ملک شام کی طرف روانہ ہو گیا۔ ملک شام پہنچ کر وہ سیدھا دربار میں چلا گیا اور اب وہ بادشاہ سلامت کے سامنے کھڑا تھا۔ جی ہاں بادشاہ سلامت میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں شہزادی صاحبہ کو تلاش کرنے جاؤں گا اور انھیں ہر حال میں سیاہ جادوگر سے واپس


شہزادہ صوفیان نے عزم بھرے لحجے میں کہا اگر ایسا ہو جائے تو ہم تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولیں گے بادشاہ سلامت نے روندے ہوئے لحجے میں کہا آپ بے فکر رہیں بادشاہ سلامت میں آپ سے وادہ کرتا ہوں کہ شہزادی صاحبہ کو ضرور واپس لاؤں گا شہزادہ صوفیان نے کہا اس کا عزم دیکھ کر بادشاہ سلامت کو بہت خوشی ہو رہی تھی بادشاہ سلامت کے حکم پر شہزادہ صوفیان کو شاہی مہم


اور وہاں اس کی خاطر مدارت کا تمام انتظام کر دیا گیا۔ شہزادہ سوفیان چوکِ طبیل سفرتے کر کے تھکا ہوا تھا اس لئے وہ وہاں ایک رات آرام کرنا چاہتا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ اگلے روز وہ گمشدہ شہزادی کی تلاش میں نکلے گا۔ شہزادہ سوفیان رات جب سونے کیلئے اپنے بستر پر لیٹا تو وہاں ایک خادم آ گیا۔ اس نے معدوانہ انداز میں شہزادے کو سلام کیا اور اسے بتایا کہ بادشاہ سلامت اس سے ملنے آ رہے ہیں


رات کو بادشاہ سلامت کی آمت کا سن کر شہزادہ سفیان گھبرا گیا اس نے جلدی جلدی شہانہ لباس پہنا اور بادشاہ سلامت کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر میں بادشاہ سلامت اس کے پاس پہنچ گئی وہ اکیلے تھے شہزادہ سفیان سے وہ محبث سے ملے اور وہاں موجود ایک قرصی پر بیٹھ گئی شہزادہ سفیان ان کے سامنے عدب سے کھڑا ہو گیا تو بادشاہ سلامت نے اسے بھی بیٹھنے کو کہا شہزادہ سفی


یہ جان کر ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ تم ہماری بیٹی کی تلاش کیلئے اتنی دور سے آئے ہو ہم تمہارے چہرے پر عظم اور حسلہ دیکھ رہے ہیں اور ہمیں نجانے کیوں یقین ہے کہ تم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو جاؤگے اس لئے ہم تم سے ایک خصوصی ملکات کیلئے آئے ہیں اصل بات یہ ہے کہ جو سیاہ جادوگر ہماری بیٹی کو لے گیا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے وہ کہاں سے آیا تھا اور شہزادی کو کہاں اور کس م


اس کے بارے میں ہم نے شاہی نجومی اور دوسرے بہت سے نجومیوں سے بھی حساب کتاب لگوا کر جاننے کی کوشش کی تھی مگر لاکھ حساب کتاب لگانے کے باوجود وہ نہ سیحہ جادوگر کے بارے میں کچھ جان سکے اور نہ ہی یہ پتہ لگا سکے کہ شہزادی مورت کہاں ہے جس کے وجہ سے ہم مایوس ہو چکے تھے ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ اب ہم شہزادی مورت کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے ہم یہ جاننے کے لیے تمہارے پاس آئے ہیں


کہ تم کیا سوچ کر اور کیا ذہن بنا کر یہاں آئے ہو شہزادی مورت کو تلاش کرنے کیلئے تم کیا کرو گے اور یہ کہ اگر تم کسی طرح سیاہ جادوگر تک پہنچ بھی گئے اور اس نے تم پر جادوی حملے کر دئیے تو تم اس سے بچنے کیلئے کیا کرو گے اور اس کی قید سے شہزادی مورت کو آزاد کر آکے کیسے لاؤ گے؟ بادشاہ صلامت نے مسلسل بولتے ہوئے کہا ان کی بات سنکھا شہزادہ سفیان مسکرہ دیا اس کے لئے میں آپ کو ایک چ


شہزادہ سفیان نے مسکراتے ہوئے کہا اس نے لباس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹی سی ڈیبیا نکالی اور بادشاہ سلامت کی طرف بڑھا دی کیا ہے اس میں؟ بادشاہ سلامت نے چونکر کہا اس ڈیبیا میں ایک سنہری موطی ہے شہزادہ سفیان نے جواب دیتے ہوئے کہا سنہری موطی بادشاہ سلامت کی مو سے نکلا جی ہاں بادشاہ سلامت یہ دیکھیں شہزادہ سفیان نے کہا اور اس نے ڈیبیا کو کھولا تو اس


جو مٹر کے دانے جتنا تھا اوہ بہت خوبصورت موٹی ہے یہ لیکن تم ہمیں یہ موٹی کیوں دکھا رہے ہو بادشاہ سلامت نے حیران ہوتے ہوئے کہا میں اس موٹی کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں شہزادہ سفیان نے کہا کیا؟ بادشاہ سلامت نے حیران ہو کر پوچھا مجھے یہ موٹی ایک نیک پری نے دیا تھا شہزادہ سفیان نے کہا پری نے بادشاہ سلامت نے حیرانی سے کہا جی ہاں بادشاہ سلامت


میں کچھ عرصے پہلے ایک جنگل میں گیا تھا میں دوستوں کے ساتھ جنگل میں گھوم فر رہا تھا کہ گھومتے ہوئے میں دوستوں سے دور چلا گیا اور جنگل کے وسط میں پہنچ گیا وہاں ایک خوبصورت جھیل تھی میں نے اچانک جھیل کے اوپر ایک ننی سی چڑیا کو ارتے دیکھا جس پر ایک اکاب جھپٹ رہا تھا ننی چڑیا اس اکاب سے جان بچانے کے لیے ادھر ادھر اورتی فر رہی تھی لیکن اکاب جس قدر تیزی


مجھے اس ننی چڑیا پر رحم آ گیا میرے پاس کمان اور تیر تھے میں نے فورا کمان کاندے سے اتاری اور ترکش سے تیر نکال کر کمان پر چڑھایا اور پھر میں نے اکاب پر تیر کھیچ مارا تیر اکاب کی گردن میں لگا اور اکاب پھڑ پڑا تا ہوا جھیل میں گر گیا اور ہلاک ہو گیا جیسے ہی اکاب ہلاک ہوا چڑیا ارتی ہوئی اور خوشی سے چہ چہاہتی ہوئی میرے اردھ گردھ منڈ لانے لگی اور پ


پھر ایک دھماکہ ہوا اور چڑیا کے گرد سرک رنگ کا دھوہا سچا گیا میں حیرت سے ابھی اس دھوہے کو دیکھی رہا تھا کہ اچانک اس دھوہے نے ایک خوبصورت پری کا روپ دھار لیا میں چڑیا کو اس طرح پری بنتے دیکھ کر حیران رہ گیا پری نے مجھے بتایا کہ وہ پریستان کی پری ہے وہ چڑیا بن کر انسانی دنیا کو دیکھنے آئی تھی کہ اس کے پیچھے اس کا دشمن جاگال دیو آ گیا جو اسے ہر صورت میں ہلاک کرنا چاہتا تھا


تاکہ وہ اسے اور دیووں کے شہنشاہ کو حلاق کر کے پرستان کا تخت تاج حاصل کر لے۔ میں نے تیر مار کر چونکہ اس دیو کو حلاق کر دیا تھا اس لئے پری میرا شکریہ عادہ کر رہی تھی۔ پھر اس نے مجھے جان بچانے کیلئے انعام کے طور پر یہ سنہری موٹی دیا اور کہا کہ اگر میں اس موٹی کو نگل لوں گا اور اپنے زندگی میں جوگی ساتھ خوایشیں کروں گا وہ خوایش اس موٹی کی وجہ سے پوری ہو جائیں گی چاہے اس موٹی کے ذریع


وہ مجھے مل جائے گی۔ میں اس موٹی کو حاصل کر کے بہت خوش ہوگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے جلد بازی میں اس موٹی کو نگل کر ایسی خوایش نہیں پوری کرانی چاہیے جو بعد میں میرے لیے پچتاوے کا باس بن جائے۔ از لیے میں نے اس موٹی کو مناسب وقت اور مناسب خوایش کے لیے اپنے پاس سمحل کر رکھ لیا تھا۔ اب جب میں نے شہزادی مورت کی گبشدگی کا سنا تو مجھے خیال آیا اگر میں اس موٹی کو استعمال میں لاؤں تو


اور انھیں با حفاظت سیاہ جادوگر کے قبضے سے چھڑا کر واپس لے آوں بس یہی سوچ کر میں یہاں آ گیا ہوں اب میں اس موٹی کا استعمال کروں گا اور مجھے یقین ہیں کہ نہ صرف اس موٹی کی وجہ سے سیاہ جادوگر تک پہنچ جاؤں گا بلکہ اس کے چنگل سے شہزادی صاحبہ کو بھی آزاد کرا لاؤں گا شہزادہ سوفیان نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا یہ سن کر کہ سوفیان پری کے دیئے ہوئے توفے کو اپنی خواہش پوری کرنے کی وجہ


شہزادی مورت کی تلاش اور اسے واپس لانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے بادشاہ سلامت اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے انہوں نے اٹھ کر بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا اور پھر اسے دعائیں دینے لگے وہ رات دیر تک صوفیان سے باتے کرتے رہے اور پھر وہ اسے آرام کرنے کا کہکر واپس چلے گئے اور شہزادہ صوفیان سو گیا اگلے روز ناشطہ کرنے کے بعد شہزادہ صوفیان ایک بار پھر بادشاہ سلامت سے ملا


اب وہ اس جگہ جا رہا ہے جہاں سیحہ جادوگر شہزادی مورت کو لے گیا ہے وہ جگہ جہاں بھی ہوگی وہ اس موٹی کی وجہ سے اس جگہ پہنچ جائے گا بادشاہ سلامت سے مل کر شہزادہ واپس اپنے کمرے میں آ گیا اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پھر کمرے کے وسط میں آ کر کھڑا ہو گیا اس نے آنکھیں بند کر لی میں اس جگہ پہنچنا چاہتا ہوں جہاں سیحہ جادوگر شہزادی مورت کو لے گیا ہے شہزادہ سوفیان نے ب�


اسی لمحے اسے ایک زوردار جھٹکا لگا اور وہ لڑک ہدا گیا اس سے پہلے کہ وہ گر پڑتا اس نے جلدی سے خود کو سمحن لیا جھٹکا لگنے کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی وہ خود کو بدنی گئی جگہ پر دیکھ کر بے اختیار اچھل پڑا ایک لمحہ قبل وہ شاہی مہمان خانے کے کمرے میں تھا مگر اب وہ ایک جنگل میں موجود تھا جنگل بہت گھنا اور واسیو عریز تھا ہر طرف بڑے


ایک طرف سبز جھیل تھی جو جنگل میں دور تک جاتے ہوئی دکھائی دے رہی تھی شہزادہ سوفیان نے افتکو جنگل میں دیکھ کر تیزی سے میان سے تلوار نکال لی یہ کونسی جگہ ہے؟ کیا سیاہ جادوگر شہزادی صاحبہ کو یہاں لائیا ہے؟ شہزادہ سوفیان نے حیرث سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ابھی وہ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھی رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین پر ایک سوردار دھماکہ ہوگا د


شہزادہ سوفیان بوخلا کر اور اچھل کر کئی قدم پیچھے اٹ گیا اس نے دیکھا جس جگہ دھماکہ ہوا تھا وہاں سیحہ دھونا پھیلا ہوا تھا اسی لمحے سیحہ دھونا تیزی سے اوپر اٹھا اور پھر اچنیک اس دھوے نے ایک انتہائی خوفناگ اور بد شکل انسان کا روب دھار لیا اس سیحہ انسان نے سیحہ رنگ کا لبادی نمان لباس پہن رکھا تھا اس کا رنگ بھی سیحہ تھا اور اس کے سر کے بالوں کے ساتھ ساتھ اس کی داری موچ


اس کے سر پر ہڈیاں اور ایک خوپلی جڑی ہوئی تھی وہ سیاہ انسان خونی نظروں سے شہزادہ سوفیان کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا موخلاتو شہزادہ سوفیان نے دیکھا کہ اس کی زبان اس قدر سرک تھی جیسے وہ ابھی ابھی کسی کا پون پی کر آیا ہے کون ہوں تم؟ اس خوفناک سیاہ انسان نے شہزادہ سوفیان سے مخاطب ہو کر گرجدار لہجی میں کہا پہلے تم بتاؤ تم کون ہوں؟ اور یہ کون سا جنگل ہے؟ شہزادہ سوفیان نے


اس خوفناک انسان کی طرف بے خوفی سے دیکھتے ہوئے کہا یہ شاکان جنگل ہے یہ میرا جنگل ہے اور میں تامش جادوگر ہوں خوفناک انسان نے کہا تامش جادوگر اوہ کیا تم وہی سیاہ جادوگر ہو جو ملک شام کی شہزادی مورت کو لے کر غایب ہوئے تھے شہزادہ سفیان نے کہا شہزادی مورت اوہ تو تم یہاں شہزادی مورت کے لئے آئے ہو تامش جادوگر نے چونکتے ہوئے کہا


ہاں میں یہاں شہزادی مورد کے لئے آیا ہوں تامش جادوگر تمہارے جواب سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم ہی وہ سیا جادوگر ہو جو شہزادی مورد کو لے گیا تھا اب اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو بتاؤ شہزادی مورد کہاں ہے شہزادہ سوفیان نے تلوار لے کر اس جادوگر کی طرف بڑھتے ہوئے کہا شہزادی مورد میرے پاس ہے آج رات میں اس سے شادی کرنے والا ہوں تم نے یہاں آکر بہت بڑی نادانی کی


میں اپنے جنگل میں کسی غیر شخص کو ایک لمحے کے لیے بھی برداش نہیں کر سکتا تم یہاں آتو گئے ہو مگر زندہ واپس نہیں جا سکو گے تامس جادوگر نے غرراتے ہوئے کہا میں تمہاری موت بن کر آیا ہوں بدبخت جادوگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو شہزادی مورت کو میرے حوالے کر دو ورنہ میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا شہزادہ سوفیان نے گسیلی لہجے میں کہا تم ایک معمولی انسان اور تامس جادوگ


میں صرف دھنکیا نہیں دیتا تامسی جادوگر بلکہ جو کہتا ہوں وہ کر دکھاتا ہوں شہزادہ سوفیان نے سکون بھرے لہجی میں کہا اوہ تم حد سے بڑھ رہے ہو نوجوان اب تو تمہاری موت تے ہے تم میرے ہاتھوں نہیں بچ سکو گے تم یہاں جس شہزادی مورت کے لیے آئے ہو اب میں اسی کے سامنے تمہیں ہلاک کر دوں گا اور تمہاری موت اس قدر بھیانک ہوگی جسے دیکھ کر وہ بھی کھاں پوٹھے گی تامسی جادوگر نے غرراتے ہوئ


وہ طلوار لے کر تیزی سے تامش جادوگر کی طرف بڑا جیسے طلوار کے ایک ہی وار سے وہ تامش جادوگر کے دو ٹکڑے کر دے گا لیکن اسی لمحے تامش جادوگر کے سر پر موجود خوپڑی کی آنکھیں چمکی اس کی آنکھوں سے زرد رنگ کی تیز روشنی کی لہرے سی نکل کر شہزادہ سوفیان سے ٹکرائیں شہزادہ سوفیان کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور وہ اچھل کر پیچھے جا گرہ اس کے مو سے بے اختیار چیخ ن


اسے یوں محسوس ہوگا جیسے وہ آگ میں زندہ جل رہا ہو وہ چند لمحے بری طرح چیکتا اور تلپتا رہا اور پھر بے ہوش ہو گیا جب شہزادہ کو حوش آیا تو وہ یہ دیکھ کر بری طرح چوک پڑا کہ وہ اسی جنگل میں تھا جھیل سے کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا درکھ تھا جس کی بڑی بڑی ڈالیں نکلی ہوئی تھی شہزادہ سوفیان کے دونوں ہاتھ ایک موٹی رسی کے ساتھ بند ہوئے تھے اور اس رسی کا دوسرا سرا


اس درخت کے پاس سرخ لباس میں ایک نیحائت خوبصورت لڑکی کھڑی تھی جس کے سر پر سرخ رنگ کی ٹوپی تھی۔ وہ حسرت وحری نظروں سے شہزادہ سوفیان کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس لڑکی کو دیکھتے ہی شہزادہ سوفیان پہچان گیا کہ وہ شہزادی مورت ہے۔ شہزادی مورت کے قریب وہ سیاہ تامش جادوگر بھی موجود تھا جو نیحائت خوش نظر آ رہا تھا۔ اس سے ہوش آ گیا ہے شہزادی مورت۔ اس سے خود ہی پوچھ


میں نے جادو سے اسے بےہوش کر کے یہاں بان دیا ہے اب میں اسے تمہاری آنکھوں کے سامنے ماروں گا میں اسے ایسی عبارتنات موت ماروں گا کہ آئندہ یہاں تمہارے لیے کسی کو آنے کی جو رات تک نہ ہوگی تامش جادوگر نے شہزادی مورث سے مخاطب ہو کر کہا نہیں نہیں تامش جادوگر اس نوجوان کو مت مارنا اب میں نے مجبوراً تمہارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور آج رات ہماری شادی ہونے والی ہے پھر تم کیوں ایسا کر رہے ہو


اس نوجوان کو جانے دو یہ نادان ہے یہ تمہاری جادوی طاقتوں کو نہیں جانتا جانے دو اسے شہزادی مورت نے شہزاد سفیان کی طرف ہمدردانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے تامش جادوگر سے منت بھرے لہجی میں کہا نہیں شہزادی مورت یہ یہاں سے زندہ نہیں جائے گا یہ میرا آخری فیصلہ ہے تامش جادوگر نے غررا کر کہا لیکن تامش جادوگر شہزادی مورت نے دکھ بھرے انداز میں کچھ کہنا چاہا


آپ میرے لیے اس بدبخت جادوگر سے منت نہ کریں شہزادی صاحبہ یہ جادوگر میرا کچھ نہیں بگار سکتا میں اس جادوگر کو ہلاک کرنے کے لیے آیا ہوں اور میں آپ سے وادہ کرتا ہوں کہ میں اس جادوگر کو ہلاک کر کے آپ کو واپس لے جاؤں گا شہزادہ سوفیان نے کہا وہ بندہ ہوا تھا اس کے پاس نہ اس کی طلوار تھی نہ ترکش اور نہ ہی کمان جو وہ اپنے ساتھ لائے تھا یہاں تک کہ اس کے پٹکے میں ایک کھنجر بھی تھا جسے شاید تامش جادوگر نے نکال ل


دیکھتا ہو تم شہزادی مورت کو یہاں سے کیسے لے جاتے ہو؟ تامش جادوگنگ کو راتے ہوئے کہا اس نے اپنا بایا ہاتھ اٹھا کر زور سے جھٹکا تو شہزادہ سوفیان کے پیچھے جھیل سے ایک آواز سنائی دی اسی لمح جھیل کے کنارے سے پانی میں سے ایک سیحا ناغ نکل کر باہر آنے لگا ناغ دیکھ کر شہزادی مورت کے مو سے چیخ نکل گئی شہزادہ سوفیان نے بھی ناغ کو دیکھ لیا تھا جو جھیل سے نکلتا ہوا اس


شہزادہ سوفیان نے آنکھیں بند کی اور دل ہی دل میں احفائش کی کہ اب اس پر تامش جادوگر کے کسی جادو کا اثر نہیں ہونا چاہئے پھر اس نے دوسری احفائش کی کہ سیح ناگ کا خاتمہ ہو جائے یہ احفائش کر کے اس نے آنکھیں کھول دی اس دوران ناگ جھیل سے نکل کر اس کی باہی ٹانک کے پاس آ گیا تھا پھر ناگ نے فن اٹھایا اور شہزادہ سوفیان کی ٹانک سے لپٹنے لگا اس کا جسمہ ابھی پانی سے نکل رہا تھا


شہزادہ سوفیان کی ٹانک سے لپٹھتے ہوئے اس نے جیسے ہی اپنا فن زمین پر رکھا اسی لمحے وہاں ایک دھماکا سا ہوا اور وہاں ایک سرک رنگ کا بڑا سا نیولہ آ گیا اس نیولے کو دیکھ کر تامش جادوگر بری طرح سے چوک پڑا ناغ نے جب سرک نیولے کو دیکھا تو وہ زور زور سے فنکارنے لگا اسی لمحے نیولے نے جھپٹ کر سیاہ ناغ کی گردن پکڑ لی ناغ اپنے جسم کو زور دور سے


کہ اس نے اپنے تیز دھر داتوں سے ایک لبے میں سیحاناک کی گردن پر کاتھ لیا تھا سیحاناک زمین پر گرہ اور بری طرح تڑپنے لگا شہزادہ سفیان نے پاؤں جھٹک کر اس کے بل نیچے گرائے اور دل میں کہا کہ اس کی رسییں پھل جائیں اسی لمحے شولہ سے چمکا اور اس کے ہاتھوں پر بندی ہوئی رسی یکا یک جل کر غائب ہو گئی اسے آزاد ہوتے دیکھ کر تامش جادوگر اچھل پڑا اس نے جلدی سے ایک منتر پ


اس لمحہ شہزادہ سوفیان کے گرد آگ بھڑا کھوٹھی لیکن شہزادہ سوفیان پر اس آگ نے کوئی اثر نہ کیا کیونکہ وہ سنہری موتی سے پہلے ایک خواہش کر چکا تھا کہ اب اس پر تامس جادوگر کے جادو کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے شہزادہ سوفیان بے خوفی سے آگ میں سے نکل آیا تھا اسے آگ میں سے زندہ نکلتے دیکھ کر تامس جادوگر بوخلا گیا وہ شہزادے پر جادوی وار کرنے لگا مگر اس کے کسی جادو کا شہزادے پر کوئی


شہزادہ صوفیان نے سنہری موطی سے خواہش کی کہ اس کے ہاتھ میں طلوار آجائے تو اسی لمحیں اس کے ہاتھ میں ایک طلوار آگئی شہزادہ صوفیان کے ہاتھ میں طلوار دیکھ کر تامش جادوگرن نے فضا میں ہاتھ مار کر جادو سے ایک طلوار حاصل کی اور اچل کر شہزادہ صوفیان کے سامنے آ گیا اور پھر ان دونوں نے طلواروں سے لڑنا شروع کر دیا شہزادہ صوفیان شمشیر زنی میں بے پنہا مہارت رکھتا تھا اس نے چندھی لمحوں میں اس


ناجوان تامشہ جادوگر کے سر پر موجود خوپلی توڑ دو تو یہ اسی وقت ہلاک ہو جائے گا اجانک شہزادی مورت نے چیکھتے ہوئے کہا اس کی آواز سن کر تامشہ جادوگر غزبناک انداز میں شہزادی مورت کی طرف پلٹا وہ شاید شہزادی مورت پر جادوی حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ شہزادی مورت پر جادوی حملہ کرتا شہزادہ سوفیان نے اچھل کر تلوار اس کے سر پر موجود خوپلی پر


جیسے ہی خوپڑی پٹی تامش جادوگر اچھل کر زمین پر گرا اور بری طرح تڑپنے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ساکت ہو گیا اس کے جسم میں آگ لگ گئی اور وہ جل کر راق ہو گیا شہزادہ سوفیان کی بہدوری دیکھ کر شہزادی مورد دنگ رہ گئی تھی اور جب شہزادے نے تامش جادوگر کو ہلاک کیا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا شہزادہ سوفیان نے اسے ساری حقیقت بتا دی کہ وہ یہاں کیسے پہنچا تھ


اور اس نے کس طرح ایک پری کے دیو گے سنہری موٹی سے مدد حاصل کی تھی۔ پھر وہ دونوں سنہری موٹی کی مدد سے وہاں سے غائب ہو کر ملک شام پہنچ گئے۔ بادشاہ سلامت نے شہزادہ سوفیان اور شہزادی مورت کو دیکھا تو وہ خوشی سے نہال ہو گئے۔ شہزادی مورت نے شہزادہ سوفیان کی بہدوری اور آقل مندی کے بارے میں انہیں بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے شہزادہ سوفیان کو بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔


پھر اعلان کے مطابق بادشاہ سلامت نے شہزادی مورت کی شادی شہزادہ سوفیان سے کر دی اور اپنا تخت و تاج ان دونوں کے حوالے کر دیا لیک دل شہزادہ سوفیان کو شہزادی مورت بھی مل گئی اور وہ ملک شام کا بادشاہ بھی بن گیا

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow