ایک مدیکل کالج کے پروفیسر کی گاڑی خراب ہوئی تو وہ کار میکینک کی ورکشاپ پر لایا

Oct 12, 2024 - 09:50
 0  7
ایک مدیکل کالج کے پروفیسر کی گاڑی خراب ہوئی تو وہ کار میکینک کی ورکشاپ پر لایا
ایک مدیکل کالج کے پروفیسر

ایک مدیکل کالج کے پروفیسر کی گاڑی خراب ہوئی تو وہ کار میکینک کی ورکشاپ پر لایا اور پھر میکینک سے کہا کہ جلدی سے گاڑی ٹھیک کرو میکینک نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر غور کیا تو وہاں ایک انسانی لاش پڑی تھی جب پروفیسر صاحب نے کار میکینک کو خوف زدہ دیکھا تو اس سے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں یہ لاش پوس ماتم کے لیے حسپتہ لے جا رہا ہوں مدیکل کالج میں پروفیسر


کار میکینک کو شاک ہوا کہ وہ لاش ایمولنس کی بجائے گاڑی میں لے کر کیوں جا رہا ہے اس نے چپکے سے پولیس کو فون کیا اور ساتھ ساتھ گاڑی کا نمبر بھی نوٹ کر لیا اگلی صبح جب میکینک اپنی ورکشاپ پر آیا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ اس کی ورکشاپ پر ایک صبح چار اور پانچ کے درمیان باکر بھائی کو کرائچی سنڈرل جیل میں پھاسی دی گئی اور صبح گیارہ بجے اس کی لاش گھر پہنچا


فیصلے سے اپیلو تک اور پھانسی سے لاش گھر پہنچنے تک مجھے یاد نہیں کہ میں نے امی کی آنکھوں کو کبھی خشک دیکھا آنکھوں جھرنے کی طرح بے رہے تھے بھائیہ کی تدفین چھے دن کے اندر اندر امی کا بھی انتقال ہو گیا جب لاش گھر پہنچی تو پہلی دفعہ مجھے ایسے لگا جیسے امی نے رونا بند کر دیا آنسوں کے سوتے خشک ہو گئے اور ایدھی کے ایمبلنس سے باکر بھائیہ کی لاش کو اہستہ


چان پانچ مردوں نے سٹریچر کو پکڑ لیا اور اندر گھر میں پہلے سے تیار ہوئے کمرے میں لاش کو تخت پر لیٹا لیا امی مڑے تڑے ہاتوں سے میرا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں آئی اور سب سے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے غسل کرنے والے کے لیے کمرہ خالی کر دیں میری ہچکی بند ہوئی تھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں یہ تو میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ باکر بھائیہ کو پھانسی لگ جائے گی انہوں نے آ


بھائیہ کے چہرے پر ایک بڑا سا پیدائشی نشان تھا سرخ سا جو دائیں گالوں کے اوپر سے شروع ہو کر کنپٹی تک پہنچ جاتا تھا انہوں نے احستہ احستہ اس پر ہاتھ پھیرا اس کی پشانی پر آنکھوں کا بوسہ دیا اور پیدائشی نشان کو تھوڑی دیر تک چومتی رہی بھائیہ نے امی کی سی ہوئی سفیت کمیز پہنی ہوئی تھی امی نے احستہ سے کمیز کے بٹن کھولے بالکل ویسا ہی نشان بھ


امی نے احسا احسا اس کے پیدائشی نشان کو چومہ، آنکھوں سے لگایا، گالوں سے دبایا اور دوبارہ کمیس کے بٹن لگا کر چادر منا کے مو پر ڈال دی خوسال کو بلایا گیا، باکر کے جانے کا وقت ہے میں پھر ایک بار رونے لگی، مگر امی کے چیرے پر ایک اطمانان سا تھا میں نے کمرہ کھولا، امی کے ساتھ باہر آکر بیٹھ گئی زور کی نماز سے پہلے جنازہ تیار تھا


اور وہ اور آمر دونوں ہی گھر میں ایک ہر قسم کے کاموں کو نبتا کر آ رہے تھے میں امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی بچوں کو سپارے پڑھا رہی تھی دانوں پر ورد کرتے ہوئے دیکھ رہی روتی رہی امی کی آنکھیں خشک تھیں ویران جیسے کوئی سہرا بیابان ٹھیک اک بجے گھر کے مرد کلمہ پڑھتے ہوئے باکر بھائی کے جناعزے کو قبرستان لے گئے باکر بھائیہ سب سے بڑے تھے ان کے بعد دو بھائی ساج


اور پھر اس کے بعد سب سے چھوٹی میں تھیں باکر بھائی مجھ سے آٹھ سال بڑے تھے میں چھے ماں کی ہی تھی کہ ابو کا انتقال ہو گیا مجھے بتایا گیا کہ وہ بس اکسیدنٹ میں مرے تھے تیزی سے جاتی ہوئی ریز کرتی ہوئی بس فٹ پاٹ سے ٹکرائی اور اس حادثے میں سات آدمی وفاد باگئے ان میں سے ایک میرے بابا دپھی تھے


مجھے یاد نہیں کہ امی نے کبھی بھی ابو کے بارے میں مجھ سے کوئی بات کی ہو وہ ابو کے ذکر پر ہمیشہ خاموش ہو جاتی تھی یہ ساری باتیں تو مجھے خالہ جان اور مامو سے پتہ چلی یہ بھی پتہ لگایا گیا کہ ابو کے مرنے کے فوراں بات کراے کا گھر خالی کرنا پڑ گیا تھا اور امی ہم چار بچوں کے ساتھ خالہ جان کے گھر آئی


خالو بہت اچھے آدمی تھے مالدار تھے انہوں نے خالہ سے خود کہہ دیا کہ کفالت کریں گے ہم سب کی اور بہت زدہ کر کے ہمیں اپنے گھر لے آئے تھے ان کا خیال تھا کہ وہ ہم سب کو پڑھا لکھا دیں گے اس قابل بنا دیں گے کہ زندگی دوڑ میں ہم کمیاب ہو سکیں امی اور ان کے گھر والوں نے رویت کے مطابق چار بچوں کے ساتھ دوسری شادی کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا پھر یہ ہوا کہ باکر بھائی کی شرارتوں سے خالو اور خالہ


اور سب گھر والے پریشان ہو گئے مجھے بتایا گیا کہ باکر بھائیہ کی شرارتوں سے سب سے زیادہ امی غیر ضروری جانم دار تھی جس سے خالو پریشان ہو گئے وہ گھر کی چیزیں توڑ دیں سکول سے بھا گئے خالو کے پیسے چرالیں خالو کے زیور بیج دیں بچوں کو تنگ کریں بڑوں سے بتتمیزی کریں مگر مجال ہے کہ امی نے اسے کچھ کہا ہو وہ لادلے ہی تھے ان کے میں نے امی کو ہمیشہ انہیں پروٹیکٹ کرتے


ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کی جائز ناجائز ہر بات کی ہمایت کرتے ہوئے دیکھا ان میں سے کوئی بری خرابی نظر نہیں آتی تھی انہوں نے جیسے اپنے دل و دماغ میں ٹھیک کر لیا تھا کہ باکر بھائی کبھی کچھ برہ نہیں کر سکتے ان کے لیے دنیا میں وہی سب کچھ تھے ایک سال کے اندر ہی خالو نے گھر کے بڑوں کی میٹنگ بلایی اور پھر یہی فیصلہ ہوا کہ ہم سب خالو کے گھر سے مامو جان کے گھر منتقل ہو جائ


مامو جان کو جوان بیوہ بہن کا بہت درد تھا وہ تو شروع سے یہی چاہتے تھے کہ ہم سب ان کے ساتھ رہیں مگر ابو کے انتقال کے فوراں بات ماملات کچھ اس طرح سے ہوئے اور خالو جان نے کچھ اتنی بڑھ کر گرم جوشی دکھائی کہ اس وقت وہ کہہ نہیں سکتے تھے پھر خالو جان زیادہ زی حیثیت تھے خالہ جان کے بہنا پے کا دباؤ بھی یہی تھا کہ امی اُن کے گھر سے جانے کا فیصلہ کیا تھا


مامو جان کے گھر میں حالات مختلف تھے انہوں نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ باکر بھائیہ کو کچھ نہیں کہیں گے اپنی بہنوں کی فطرت کا انہیں اندازہ تھا وہ باکر بھائیہ کے سلسلے میں کچھ سننے کو تیار نہیں تھے مامو جان کی ساری توجہ اپنے بچوں اپنے دو بھائیوں اور مجھ پر رہی ہم سب اسی دسپلن کے پابند تھے جو ان بچوں کے لیے بھی تھا وقت پر کھانا سونا وقت پر سکول جانا وقت پر تویشن پڑھ


مامو جان کے گھر میں کبھی اس بات کا ہمیں احساس نہیں ہوا کہ ہم ان کے حقیقی بچے نہیں ہیں ان کی ہی مدد رہنمائی اور مستقل نظر تھی کہ جس کی بدولت ساجت نے کمپیوٹر میں ڈگری لی آمر انجینرنگ کالج میں انجینر بن کر نکلا اور میں کراشی سے ام اے کرنے کے بعد کالج میں پڑھا رہی تھی ساجت بھائی کی سعودی عرب میں نوکری کے بعد مامو نزدی کی ہم لوگوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا تھا


اور زندگی بظاہر بہت ہی پرسکون تھی باکر بھائیہ نے بڑی مشکل سے دسویں کا امتحان نجانے کتنی دفعہ فیل ہو جانے کے بعد باز کیا اس کے بعد وہ کسی پریس میں ملازم کرنے لگے پریس کی نوکری چھوڑی تو اخبار میں کام کرنا شروع کیا کبھی ورکشاپ میں کام کرتے اب اس کے بعد امی نے اپنے زیور بیچ کر بھائیہ کو کچھ پیسے دیئے تھے کہ وہ اپنا بزنیس کر لیں


اس نے اپنی ورکشاپ بنائی وہ بھی نقام ہوا تو پھر سیور کورٹ میں ملازمت کرنے لگے باکر بھائیہ کو پتہ نہیں تھا وہ کہاں ہیں کب آتے ہیں کب جاتے ہیں کتنا کماتے ہیں کہاں خرچ کرتے ہیں ان کو دنیا اور تھی اور ہم لوگوں کی دنیا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کا سامنا مامو جان سے کبھی نہ ہو اگر ہو بھی جاتا تو وہ سر جھکائے ان کی باتیں سنتے تھے نہ ہاں میں نہ ناں میں جواب دیتے پھر کئی کی دنوں تک غائب ہو جاتے تھے


امی ہمیشہ ان کا ساتھ دیتی تھی مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ امی نے مجھے ساجد کو عامر کو ہمارے حصے کا پیار نہیں دیا ہو وہ ہمیں بھی چاہتی تھی


بلکہ ٹوٹ کر چاہتی تھی وہ ہر کام میں انہیں میں کرتی ہیں وہ ہی کرتی صبح سووے رے اٹھ کر ہمیں ناشتہ دینا ہمارے لیے راتوں کو پریشان ہونا راتوں کو اٹھ کھٹ کر ہمیں سردیوں میں چادر کمبل اڑھانا ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہمارا ہوم ورک کرانا ہمارے سر پر درد، معمولی بخار، چھوٹی سی چوٹ پر تڑپ تڑپ کر جانا رات سونے سے پہلے وہ خاموشی سے ہمارے کمرے میں آتی اور دھیر


میں کبھی بھی امی کے پیار کا شمار بالکل نہیں کر سکتا وہ ہم سے بہت پیار کرتی تھی ممتع کی کوئی کمی نہیں تھی ان میں لیکن کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا تھا کہ باکر بھائی ہم سب سے ان کو زیادہ پیار ہیں ان کا کوئی خاص مقام تھا امہ کے نظر میں برا ان کی باتوں کا نہیں مان دی تھی نہ ان سے ڈانٹی تھی میں نے امی کو کبھی بھی باکر بھائیہ کے لیے کچھ برا کہتے نہیں سنا خود بھی انہیں کچھ کہا ہو وہ ہمیشہ ان کی تاریف


مجھے یاد ہے ایک دن تو غصے میں میں نے انہیں یہ بھی کہہ دیا تھا جب ایک دن انہوں نے مجھے شام کو یونویورسٹی کے ایک فنکشن میں جانے سے منع کیا ساری پابندیاں میرے لیے ہیں میرے لیے اور آپ کے بیٹے باکر کب آئیں گے کب جائیں گے کیا کریں گے کچھ نہیں کریں گے کچھ جانتی ہیں آپ ان کے لیے سب جائز ہے ان کو ازادی حاصل ہے ان کے لیے سب ٹھیک ہے کچھ نہیں کہا تھا انہوں نے دیکھتی رہی مجھے آنسوں سے ان کا چہرہ


وہ رو رہی تھی اسی وقت نا جانے کہاں سے باکر بھائی آگے انہوں نے بھی سن لیا تھا یا پتہ نہیں ہی نہیں سنہا تھا اس شام کو پہلی بار وہ مجھے چھونے گئے تھے ٹیکسی کر کے مجھے یونیورسٹی چھوڑ گئے جس وقت میں نے کہا تھا اسی وقت ٹیکسی پر آ کر مجھے واپس بھی لے گئے اس دن یونیورسٹی کے فنکشن کا مجھے بہت مزہ آیا اور ایک نئے باکر بھائی یقائق میری زندگی میں داخل ہو چکے تھے


اُڑھ کر کھولے بنا مجھے امی کا وہ چہرہ یاد ہے دوسرے دن گلے لگ کر روئی تھی ان کی ٹہڑی میڑی انگلیوں کو پکڑ کر جھکوئے ہوئے بائش آنے سے لگ کر وہ سمجھ نہیں رہی تھی ماہ سمجھ جاتی تھی میرے وجود کے ایک ایک انگ نے ان سے معافی مانگی تھی پھر کبھی بھی باکر بھائیہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی اس نے باکر بھائیہ بہت مہربان ہو گئے تھے مجھ پر


جب بھی آتے کچھ نہ کچھ لے کر آتے تھے میرے لیے جتنے دن وہ گھر میں رہتے مجھ سے باتیں کرتے میری سنتے میری بنائی ہوئی چائے پیتے میرا پکایا ہوا ناشتہ میرے ہاتھ سے بنے ہوئے پکڑے میرا بنائے ہوئے فروٹ چاٹ سب اس سے بہت پسند تھا میرا خیال اسی سے کرتے جیسے میں شہزادی ہوں مزاق میں بھی مو سے نکل جاتا اسے پورا کر لیتے شاید چھوٹی بہن اور ایک بہن ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں


مجھے تو لگتا تھا صرف پیار ہی پیار بھرا ہے ان کے دل میں دور پار کے رشتہ دار محلے والے عجیب عجیب باتیں بھی کرتے تھے ان کے بارے میں کبھی کوئی کہتا کہ یہ سمگلر ہے پولیس انفارمر ہے کسی ایجنسی کے لئے کام کرتا ہے فوجیوں سے رابطے ہیں ان کے لیاری مافیہ ان کے ساتھ ہے وغیرہ وغیرہ اغوا تاوان کے دھندے ہیں جتنی مو اتنی باتیں مگر کسی کی حمد نہیں ہوتی تھی کہ امی کے سامنے ان کے اخلاف


بچپن سے جوانی تک امی نے انھیں صرف پرٹک کیا تھا کبھی انھیں ڈانٹا نہیں تھا کبھی نہیں مارا تھا اتنی عجیب و غریب محبت تھی انھیں انھیں گھر میں خاندان میں پاس پڑوست محلے میں ہر ایک آگاہ تھا اس بات سے ساجد کی باکر بھائی سے بالکل نہیں بنتی تھی شروع شروع میں دونوں لڑتے تھے امی ہمیشہ باکر بھائیہ کی طرفداری کر کے لڑائی ختم کروات دیتی تھی دونوں کی میں نہیں سمجھتی تھی کہ ساجد


کہ ساجد بھائی باکر بھائیہ کو بلکل پسند نہیں کرتے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ ساجد بھائی نے کوشش کر کے ڈگری ملتے ہی ملک چھوڑ دیا پیسے کمانے لگے پیسے  ل


لیکن میں نے یہ دیکھا تھا وہ کبھی بھی امی سے باکر بھائی کے بارے میں بلکل کوئی بات نہیں کرتا تھا پھر ایک دن یہ سب کچھ ہو گیا باکر بھائیہ گھر پر ہی سو رہے تھے کہ رات 3 بجے یقا یق گھر میں پولیس گھس آئی اور دس پندرہ منٹوں کے اندر باکر بھائیہ کو ہتکڑیاں لگا کر اپنے ساتھ لے گئی اور غیب کر گئی سب کچھ بہت جلدی ہوا اخباروں سے پتہ چلا کہ اس رات دو اور لوگوں کو بھی گرفتار کیا گ


قتل کا الزام تھا خاصوصی عدالت میں مقدمہ چلا جہاں سزاہِ موت سنا دی گئی ہائی کوٹ، سپریم کوٹ اور صدر پاکستان سے اپیل ہوئی بائیس مہینے قیامت کی طرح گزرے امی کے آنسو رکھ نہیں رہے تھے ساجد بھائی نے اپنے روپے بھیجنے سے کبھی دیر نہیں کی جو بڑا وقیل مل سکتا تھا ہم نے کیا اور اس کے بعد جس درد پر کھٹ کٹایا امی اپنا دامن پھیلا کر کھڑی ہو گئی


مگر کچھ نہ ہو سکا ایک ہی اشارہ ملا تھا جس کی وجہ سے ہمیں بھی شک تھا کہ شاید اسی شخص نے باکر بھائی کو پکڑوائیہ جب باکر بھائی اپنی ورکشاپ پر کام کرتے تھے تو ایک آدمی گاڑی لے کر ورکشاپ پر آیا تھا باکر بھائی سے کہا کہ جلدی سے اسے ٹھیک کرو بھائی نے دیکھا کہ گاڑی کی پچلی سیٹ پر انسانی لاش رکھی ہے وہ شخص باکر بھائی کے قریب آئے اور کہا کہ پریشان ہونے کی ضر


میں مہدیکل کالج میں پروفیسر ہوں اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہوں یہ علاش ہسپتال میں پوس مارٹم کے لیے لے جا رہا ہوں جہاں پر نئے ڈاکٹر بننے والے اور ام بی بی اس کی ڈگری لینے والے طالب علم اس کا پوس مارٹم کریں گے بھائی کو اس آدمی پر بہت شک تھا اور اس نے پولیس کو اطلاع دی گاڑی کا نمبر بھی نوٹ کر لیا وہ شخص ڈاکٹر تھا یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا اور بعد میں


اس نمبر کی گاڑی بھی نہیں ملی تھی شاید بھائی پولیس کو انفارم نہ کرتے تو آج ان کی جان بچ جاتی لیکن اس بات کے زیادہ تر چانسیں ہیں کہ وہ شخص ایک کرمینل تھا باکر بھائی کو اسی نے گرفتار کروائیا تاکہ قتل کا الزام اسی پر آئے ایک نامعلوم قتل کے الزام میں اس منحوز صبح کو باکر بھائیہ کو پھانسی دی گئی آخری ملکات میں امی کا چیرہ مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا باکر بھائیہ کے چی


ان کو تکتی رہیں ملاقات کا وقت ختم ہونے پر ان کی پشانی کو چومہ ان کے چہرے سے پیدائشی داگ کو پلکوں سے چھوہ اپنے مڑے تڑے ہاتھوں سے ان کے چہرے پر پھیڑتی رہیں پھر روتی ہوئی کامتی ہوئی سکتی ہوئی گھر آ گئی باکر بھائیہ کو دفتان کا بعد امی نے کچھ نہیں کھایا روئی نہیں سوئی نہیں شروع میں زد کر کے میں نے انہیں پانی پلائیا اسے اُلٹی ہو گئی دوسرے دن انہیں ہسپتال میں داخل


پانی اور طاقت کی کمی تھی ہسپتال پہنچتے ہی انہیں گلوکوس نا جانے کیا کیا چڑھایا گیا دو تین دن تیزی سے گزرے وہ ایک لاش کی طرح بستر پر پڑھی ہوتی نا جانے دور تک کیا دیکھنے کی کوشش کرتی تھی کسی سوچ میں گم تھی کسی امید کے بغیر انہوں نے زندگی سے ناتا شاید توڑ دیا تھا اس دن میں ان کے سرحانے بیٹھی ان کا سر ڈبانے لگی دھیرے دھیرے دھیمے دھیمے ان


کہاں کہاں ڈباؤ گی سر کو کاندھوں کو ہاتھوں کو اُنگلیوں کو پیروں کو ہر طرف سے درد ہے بیٹا ہر طرف درد ہے جس ہمیں بدن میں ذہن میں روح میں روح کے اندر نجانے کہاں کہاں امی جہاں بولی وہاں ڈباؤ گی مگر خدا کے لیے کچھ کھاتو لے ایسے کیسے چلے گا ایسے کیسے ہوگا امی جان میں نے ڈلتجا کی امی سے نہیں بیٹا اب میں جاؤ


انہوں نے پھر دھیرے سے کہا میں ان کی گردن اور ٹیڑھے دائیں کاندھے کو آہستہ آہستہ سہلاتی رہی مگر درد ان کے چہرے پر بادل کی طرح چھایا ہوا تھا پھر اچانک آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ اٹھا کر انہوں نے میرے ہاتھ میں پکڑا زور سے دبایا اور پھر کہنے لگی بیٹی ایسے ہی خوبصورت ہاتھ تھے میرے ایسے ہی نرم اور گرم گرم انگلیاں تھیں میری میں یہ ٹی


اور انگلیاں لے کر بلکل نہیں آئی تھی دنیا میں میرا یہ ٹوٹا ہوا کاندہ بلکل نہیں تھا میں پوری تھی سالم سر سے لے کر پیر تک ثابت انگلیاں اور انگلیاں کے پوروں سے لے کر جسم کی ہر حڑی تک میرا سر سالم تھا میرے کاندھے شانے سب ٹھیک تھے بیٹے میں تمہاری طرح تھی بلکل خوبصورت جیسے انہوں نے سرگوشی کی تھوڑی دیر بولنا شروع کر دیا بیٹا شادی کے پہلے ہفتے سے مجھے ست


کہاں کہاں ڈباؤگی کدھر کدھر سہلاؤگی میں نے محسوس کیا کہ ان کے ہاتھ کپا رہے تھے باکر میرا بچہ تھا پہلا بچہ تم نے پوچھا نا کہ ایک دن میں کیوں اس کی طرف داری کرتی ہوں اسے کچھ نہیں کہتی سب کہتے ہیں میں جانب دار ہوں اس کی اس کا کچھ برا نہیں لگتا مجھے کیسے لگتا میرا باکر پھولوں جیسا اس کی حفاظت میں نے نہیں کی ساجد کو بچایا عامر کو بچایا تمہیں بچایا اپنے شانو پر چوٹ کھ


اپنے ہاتھوں کو ڈھال بنایا اپنی اگلیاں کی اپنے شانے چھلوائے نہ جانے کیا کیا ٹوٹا میرا میں کسی ڈاکٹر کے علاج کے بغیر تم تینوں کو بچاتی رہی لیکن اس نے تو مار کھائی پیدائیج سے پہلے بھی میری کوک کے اندر میرے جسم کے اندر میں اسے نہ بچا سکی یہ کہہ کر وہ رونے لگی اس نے مڑے تڑے ہاتھوں کو دبایا پھر آہستہ آہستہ انھیں چومتی رہی پھر سہل


بیٹا یہ جو باکر تھا میری کوک میں تو میرے شہر نے کرکٹ کے بلے سے اسے مارا تھا بالکل وہاں پر جہاں اس کا چہرہ تھا چھاتی تھی سر تھا گردن تھی وہ پیدیشی نشان مستقل درد دیتے ہوں گے میرے بچے کو بیٹے سارے حمل کے دوران میں تربتی تھی لاتوں سے گھنسوں سے کبھی پلانگ پر لیٹا کر کبھی زمین پر گرا کر نا جانے کیوں حمل کے خبر کے بعد انہوں نے میرے شہر نے میری زندگی کو لہو لہان کر دیا


تمہاری طرح معلوم کچھ نہ کرسکی، کچھ نہ کہ سکی، وہ مجھے مارتا رہا میرے ساتھ ساتھ میرے کوک کے اندر باکر کو بھی پیٹھتا رہا چوٹ کھاتا رہا، شاید روتا بھی ہوگا، مگر میں ناکام ہوئی اسے بچانے میں اپنی کوک میں حفاظت نہ کرسکی، وہ درد لیے گھومتا رہا کبھی گھر میں کبھی گھر سے باہر، یہاں تک کہ پھانسی پر چڑ گیا میرا لال اس کے بعد پھر میں بیوی نہیں رہی، رکھیل تھی


کوک سے گھر تک اپنے ہاتھوں کو ڈھال بنائی کر اپنے جسم کو پامال کر کے اس کے مرنے کی دعائیں کرتی رہی اور رو رو کر میرا باکر درد کے داغلیے درد اٹھا تا رہا درد سہتا رہا اپنی زخمی جسم کے ایک ایک انگ سے اٹھتی ہوئی ٹھیسوں کو چھیل تا رہا اب نہیں ہے صرف درد ہے بیٹا میں اپنا سر ان کی چھاتیوں پر رکھ کر بےقرار ہو کر روئی مجھے پہلی دفعہ پتا چلا کہ مہا کی انگل


کیوں انہیں میرے باپ نے تشدد کر کے توڑا تھا پھر وہ صحیح طریقے سے جُڑ نہیں رہے ہمارے پھول جیسی ماں کو کچلا گیا توڑا گیا مرورا گیا میرے باپ کا ہر ظلم وہ سہتی رہی اپنے جسم کو قربان کر کے اپنے آپ کا بلیدان کر کے ہمیں بچاتی رہی حفاظت کی ہماری کوک کے اندر بھی کوک سے باہر بھی وہ شخص جو ہمارا باپ تھا وہ میری ماں پر جسمانی تشدد کرتا رہا انہوں نے


اگلے تین دن میری آنکھوں سے آنسوں بیٹھے رہے اور ایک صبح وہ خاموشی سے ہمیں چھوڑ گئیں باکر بھائیہ کا ہمارا اپنا ترقلیے ہمیشہ کے لیے چلی گئی اب امی کو گئے ہوئے سال ہونے کو ہے اب بھی کبھی رات گائے خواب میں مجھے نظر آتی ہیں


ایک کمرے کے کونے میں دیوار سے لگی ہوئی اپنے ہاتھوں بازوں اور شانوں پر ڈنڈے کھاتی ہوئی اپنی انگلیوں ہتھیلیوں سے انھیں روکتی ہوئی اپنے کوک میں موجود بچے کو بچاتی ہوئی ڈھال بن کر شانیں تڑا کر انگلیوں بکھیری خون میں نہائی ہوئی جاگ جاتی ہو ما میری ما تُنے کتنے دوکھ اٹھائے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow