تین دوستوں کی کہانی

تین دوستوں کی کہانی

Oct 19, 2024 - 12:01
 0  3
تین دوستوں کی کہانی
تین دوستوں کی کہانی


بسم اللہ الرحمن الرحیم محترم عزیز دوستوں اسلام علیکم ایک ملک کا بادشاہ فوت ہو گیا اس کی وفاہت کے بعد اس کا بڑا بیٹا فورا تخت پر قابض ہو گیا بادشاہ کا دوسرا بیٹا بڑے بائی سے خوف زدہ تھا اس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا


بادشاہ کا بیٹا اپنے تین دوستوں کے ساتھ بیرونے ملک روانہ ہو گیا ان دوستوں میں سے ایک تاجر کا بیٹا دوسرا کسان کا بیٹا تیسرا ایک خوبصورت نوجوان تھا راستے میں بہتر مستقبل کے بارے میں سب دوست اپنی اپنی رائے پیش کرنے لگے سب سے پہلے کسان کا بیٹا کہنے لگا میھنت سے انسان سب کچھ بنتا ہے


باقی سب باتیں بیکار ہے تاجر کے بیٹے نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور بولا اقل اور حسنہ تدبیر سب سے بڑا ہتھیار ہے یہ نہ ہو تو انسان نہ کام ہے اب نوجوان کی باری تھی وہ بولا کہ حسن و جمال سب سے بڑی نعمت ہے بادشاہ کا بیٹا اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا نہائت


تدبر و تفکیر کرنے والا انسان تھا سب کی باتیں گوڑ سے سننے کے بعد کہنے لگا سب اپنی اپنی جگہ درست ہے مگر سب سے بڑی چیز اللہ کی رزا اور قدرت ہے اس کی ذات کا فیصلہ ہی ہر چیز پر غالب ہے جب تک تمہارا اقیدہ تقدیر پر مکمل نہ ہو اس وقت تک راحت و سکون حاصل نہیں ہو سکتے


کسان کا بیٹا کہنے لگا ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں اب پتہ چلے گا کہ کس کی بات ٹھیک ہے سب اپنی رائے آزماتے ہیں یہ لوگ چلتے چلتے دوسرے ملک میں داخل ہو گئے اب یہ چاروں دوست اس شہر میں اجنبی تھے انہوں نے ایک سہرہ میں پڑھاؤ ڈالا پہلے دن انہوں نے کسان کے بیٹے کو کہا آج ہم دیکھیں گے


کہ مہنت کے کیا فائدے ہیں جاؤ اپنی مہنت سے آج کے کھانے کا انتظام کرو کسان کا بیٹا اٹھا اور جنگل کا رخ کیا لکڑیاں توڑی اور شہر میں آ کر دو درھم کی بیچ دیں ایک درھم کا کھانا لیا اور دوسرا درھم اپنے پاس محفوظ کر لیا ساتھیوں کے پاس آ کر انھیں بھی کھلایا سب نے اس کو شاباش دی


اگلے دن تاجر کے بیٹے کا نمبر تھا کہ وہ اقل اور حسنِ تدبیر کا مظاہرہ کرے وہ اٹھا اور ساحلِ سمندر پر آیا سمندر سے سمان سے لدی کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی تاجر کا بیٹا کشتی میں بیٹھ گیا دوسرے راستے سے چپکے سے لدی کشتی کے مالک کے پاس پہنچا اس سے سمان کا بھاوتاؤ کیا ادھار پر سارا سمان سو دیرم میں خرید لیا


جب وہ کشتی ساخل پر پہنچی تو مقامی تاجر انتظار میں تھے تاجر کا بیٹا ان کے پاس آیا سارا سمان گیارہ سو درم کے عوض بیچ دیا اور سو درم سمان کے مالک کو دیے باقی جیب میں ڈالے دوستوں کے لیے بہترین کھانہ لیا ان کو خوب سہر کروائی سب نے اس کے حسن تدبیر کی تریف کی اگلے دن خوب سورت نوجوان کا نمبر تھا جس کا کہنا تھا


کہ انسان خوبصورتی کے بلبوتے پر کامیاب بھی حاصل کرتا ہے دوستوں نے کہا آج ہم دیکھیں گے کہ آپ کا حسن ہم کو کیسے کھانا کھلائے گا وہ اٹھا اور شہر کی طرف روانہ ہو گیا ایک گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ گیا اوپر سے ایک خاتون نے اسے ایک کھڑکی سے جھانکا کہ ایک خوبصورت نوجوان پریشان بیٹھا


کچھ سوچ رہا ہے اس نے بلا کر کھانا کھلایا اور مسافر جان کر پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دوستوں کا قصہ سنا دیا ختون نے نوجوان کو کچھ رقم تھما دی نوجوان سب کے لیے کھانا لے آیا سب نے اس کو بھی سراحا اب بادشاہ کے بیٹے کی باری تھی سب سوچنے لگے کہ کسان کے بیٹے نے بھی مہنت کی اور تاجر نے بھی تجارت کی


نوجوان نے بھی کچھ کر ہی لیا مگر اب بادشاہ کا بیٹا جو کہتا ہے کہ اللہ کا فیصلہ اور رضا تقدیر ہر چیز پر غالب ہے یہ کیا کر کے دکھائے گا اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا اسی ملک کے بادشاہ کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا وزرا فوج اور پولیس جنازے کو کندہ دی جا رہے تھے


شہزادے کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر پولیس افیسر نے اس کو ڈانٹا کہ شرم نہیں آتی بادشاہ کا جنابہ جا رہا ہے اور تم اس طرح بیٹھے ہو بادشاہ کو دفنانے کے بعد جب پولیس افیسر واپس آیا تو دیکھا کہ شہزادہ اب بھی وہیں بیٹھا ہے تو فوراً اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا اب وہ دوست انتظار کر رہے تھے واپس نہ آ جانے کی وجہ سے کیاس عرائنیا کرنے لگے


وہ شہزادہ کو ڈونڑنے شہر کی طرف چل پڑے لیکن شہزادہ جیل میں بند تھا قبیدنا کے وزراء اور مشیروں کی ایک جماعت نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے غور و فکر کر رہے تھے کہ نئے بادشاہ بادشاہوں کے خاندان سے منتخب کیا جائے عام آدمی منتخب نہ کیا جائے مگر بادشاہ کا کوئی وارس نہیں تھا بڑے وزیر نے اعلان کروایا کہ تم میں سے کوئی ہے


جو بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو وہ ہاتھ کھڑا کر دے مگر کبینہ میں کوئی ایسا بندہ نہ تھا پھر پولیس افیسر کہنے لگا ایک بندہ ہے جس کو میں جانتا ہوں اور وہ میرے پاس جیل میں قید ہے وہ شہزادہ معلوم ہوتا ہے اس کو حاضر کرنے کا حکم ہوا شہزادے کو کبینہ کے سامنے لایا گیا اور پوچھا آپ کون ہو


شہزادہ بولا میں فلاں فلاں ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہوں باب مر گیا اور بڑا بائی بادشاہ بن گیا میں اس سے خوف زدہ تھا جان کے خوف سے ملک چھوڑ دیا تمام قبینا نے اس کی بات کو قبول کر لیا اور اس کے ہاتھ پر بیت کر لی اور اسے اپنے ملک کا بادشاہ منتخب کر لیا شہزادے کے مو سے بے ساختہ نکلا یقینن اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں پر غالب ہے


اب وزرا نے بادشاہ کو ملک کی سیر کرانے کے لیے باہر نکالا بادشاہ شہر میں گشت کر رہا تھا اور لوگ بادشاہ کے پیچھے بادشاہ زندہ بعد کے نارے بلند کرتے ہوئے جا رہے تھے ادھر شہزادے کے دوست شہر میں اس کی تلاش میں نکلے جب انہوں نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھ گئے اور بے ساختا بول اٹھے بے شک اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں سے بڑھ کر ہے


وہ بھی بادشاہ زندہ بعد کے نارے لگاتے ہوئے بادشاہ کے سات سات محل میں داخل ہو گئے بادشاہ تخت پر بیٹھا یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہو گئے بادشاہ نے ان کے سامنے کل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فیصلہ رضا طاقت ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جو جیسا گمان کرتا ہے


اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے بادشاہ نے تاجر کے بیٹے کو مشیر مقرر کر لیا اور کسان کے بیٹے کو وزیرِ ذرات کے اُہدے پر مقرر کیا اور جو خوبصورت نوجوان تھا اس سے کہا یہ آردی حسن کسی خام کا نہیں اور اسے کچھ مال تخفے میں دے کر رخصت کر دیا دوستو اس واقعے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان کی تمام تدبیریں اللہ کی قدرت کے آگے بے بس ہیں


ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی قسمت میں لکھا ہو 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow