قصہ شہزادی محرق

قصہ شہزادی محرق

Oct 21, 2024 - 12:30
 0  3
قصہ شہزادی محرق
قصہ شہزادی محرق


اسلام علیکم پیارے دوستو پیش خدمت ہے قصہ شہزادی محرق کسی زمانے کا ذکر ہے ایک بادشا تھا اس کی ایک ہی لڑکی تھی نیہائت حسین اور جمیل ہر فن میں تاک شہواری میں شہرا آفاک بادشا کو اور شہزادی کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا جو گھوڑہ اچھی نسل کا سودگر لاتے تھے بادشا مومانگی قیمت دے کر خرید لیتے تھے ایک دن ایک سودگر ایک سفد گھوڑہ لے کر آیا بادش


تو وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ وہ حیران رہ گئے انھوں نے ہزاروں گھوڑے دیکھے تھے مگر ایسا پیارا جانور آج تک ان کی نظر سے نہیں گزرہ تھا انھوں نے سودگر سے کہا اس کی جو قیمت تم مانگو گے ہم دیں گے سودگر نے ہاتھ باند کر عرص کیا حضور مالکم اختار ہے جو مرضی آئے مرحمت فرمائیں لیکن یہ گھوڑا عجیب و گریب ہے نہ عام گھوڑوں کی طرح گھاس کھاتا ہے نہ دانا کھاتا ہے نہ پ


چونکہ حضورﷺ کو گھڑوں کا بہت شوق ہے اس وجہ سے میں یہاں لے آیا ہوں بادشاہ اور بزیروں نے حیران ہو کر کہا فر کیا کھاتا ہے سودہ گر نے کہا حضور دانے کی جگہ تو یہ بادام پستے اکھروت کشمش کھاتا ہے اور گھانس کی جگہ زافران کھاتا ہے پانی کے بدلے دوت پیتا ہے بادشاہ نے مسکرہ کر کہا خیر کوئی بات نہیں ہم یہی چیزیں اس کو کھلائیں گے سودہ گر نے ہاںک جوڑ کر کہا


حضورِ والا کو میں دھوکہ دینا نہیں چاہتا اس میں ایک ایپ بھی ہے بادشاہ نے پوچھا ایپ کیا ہے وہ بھی بتا دو سودہگر نے کہا حضور یہ اپنی پیٹ پر کسی کو سوا نہیں ہونے دیتا اسی وجہ سے کسی نے آج تک اتنی حسین چیز کو نہیں خریدا بادشاہ نے کہا کوئی ہرج نہیں ہے ہماری سواری کے لیے اور سیکھلوں گھوڑے موجود ہے سودہگر خاموش ہو گیا بادشاہ سلامت نے وزیر سے کہا خزان جی سے کہے کر اس س


دو معماروں کو حکم دو کہ ہمارے محل کے قریب ایک صاف اور کشادہ استبل شام تک تیار ہو جائے اور سونے چاندی کی بالٹیاں بنواؤ غرز حکم کی دیر تھی من و میوہ اور سیر و جافران آگئی گوالوں کو حکم مل گیا کہ دونوں وقت تازہ دوت پہنچائے کریں دو سائز خوبصورت قیمتی لواز والے گھوڑے کی خدمت کے لیے مقرر کیے گئے شام کو خود بادشاہ سلامت نے فوٹے میں رشم کی ڈوری سے گھوڑے کو بندوایا اور


دوسرے دن شہر میں مشہور ہو گیا کہ بادشاہ سلامت نے ایسا گھوڑا خریدا ہے جو دانے کے بدلے میوہ کھاتا ہے اور گھاس کی جگہ زافران چرتا ہے۔ اس عجیب و گریب گھوڑے کو دیکھنے لوگ جوگ در جوگ آنے لگے۔ استبل کے قریب ایک مجمہ لگ گیا، مگر کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، باہر ہی سے دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ کئی دن لوگوں کا حجوم رہا۔ گھوڑے کی خبر محل میں بھی پہنچی، شہزادی پہل


اس کی تاریب سن کر اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اس نے بادشاہ سے کہا ابہ حضور میں نے سنا ہے کہ آپ نے کوئی گھڑا خریدا ہے جو میوہ کھاتا ہے اور دوت پیتا ہے مجھے اس کے دیکھنے کا شوق ہو گیا ہے کسی دن موقع دیجئے میں بھی جا کر دیکھوں بادشاہ نے کہا بیٹی ہم خود تمہیں دکھانا چاہتے تھے مگر ریایہ کو اس کے دیکھنے کا بہت شوق تھا ہم نے سوچا پہلے یہ لوگ دیکھ لیں تم اتمینان سے دیکھ ل


لیکن خبردار سباری کی کوشش مطر کرنا وہ بہت شریع جانور ہے کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا گرز دوسرے دن مہل سے لے کر استبل تک کناتیں لگوادی گئیں شہزادی میں اپنی کنیزوں اور سہلیوں کے گھوڑے کو دیکھنے آئی حقیقت میں جیسا سنا تھا، ویسا ہی پایا شہزادی نے اس کے قریب جا کر اس کی پیٹ پر ہاتھ فیرا اور خود اس کو میوہ کھلایا گھوڑے کی سباری کی وہ بہت شوکین تھی ایسا


اس نے سوچا دیکھنے میں تو بڑا سیدھا معلوم ہوتا ہے میں کوشش تو کروں زیادہ سے زیادہ گرا دے گا اس نے اپنی کنیزوں سے کہا خبر دار اپا جان سے نہ کہنا میں زرہ اس کی سواری لینا چاہتی ہوں سب نے بہت منع کیا مگر وہ بغیر کاؤٹھے بغیر زین کے کوت کر ننگی پیٹ پر سوار ہو گئی گولہ گردن چھکائے کھڑا رہا شہزادی نے اپنی ساتھ والیوں سے کہا دیکھا تم نے خامہ خان لوگوں نے بدنام کیا تھا


وہ گھوڑے پر سے اتر آئی اور پیار سے اس کی پیٹ پر ہاتھ فیرنے لگی کنیزوں کو تاکیت کر دی کہ امہ جان کے آگے بھی ذکر نہ کرنا وہ ناراض ہوں گی تھوڑی دل ٹھیکر شہزادی اپنے محل میں واپس آ گئی شام کو گھوڑے کو میوہ دیا جاتا تھا آج اس نے مو نہیں لگایا دوت کی بالٹی سامنے رکھی گئی اس نے مو فیر لیا جافران دکھائی اس پر بھی مو نہیں مارا سائیسیوں نے خیال کیا شہزادی صاح


اس وقت خواہش نہیں ہے دوسرے دن صبح بھی گھوڑے نے نہ کچھ کھایا نہ پیا گردن جھکائے کھڑا رہا سائی سیوں نے دروقہ استبل کو خبر کی وہ گھبرائیہ ہوا آیا گھوڑے کی پیٹھ تھپتپ آئی پیار کیا اپنے ہاتھ سے کھلانے پلانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی چیز کو مہنہی لگایا خاموش کھڑا رہا بادشاہ کی پسند دیدہ اور قیمتی چیز تھی اس نے پریشان رو کر وزیر سے س


سب نے اچھی طرح دیکھا وظاہر کوئی بیماری معلوم نہیں ہوئی احتیاطاً پیٹ کی سفائی کی دوایاں لکھ دی اسی وقت آدمی دور گئے ٹانکتروں نے اپنے ہاتھ سے دوا پلانے کی کوشش کی مگر گھولے نے دلتیاں مارنے شروع کر دی کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا وزیر نے جا کر بادشاہ سلام سے تمام کفیت بیان کی وہ خود تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے دوت کی بالٹی بڑھائی اس نے مو فر لیا موہ


سب ہاتھ باندے حاضر ہوئے بادشاہ نے ایک ایک سے سوال کیا، درائیہ دھمکایا کہ اگر کسی نے کوئی بتتمیزی یا لاپروائی گھوڑے کے ساتھ کی ہوگی تو اس کا سر کلم کر دیا جائے گا سب نے ہاتھ باند کر عرس کیا حضور ہم تو بہت پیار محبت سے پیش آتے ہیں دونوں وقت بالٹیاں صاف کرتے ہیں دن میں کئی کئی مرتبہ تھان کی صفائی کرتے ہیں ایک بودے سائیس نے ہاتھ باند کر عرس کیا حضور جان کی امن پ


تمہاری جان تم کو بکشی کہو کیا کہنا چاہتے ہو سائیس نے کہا حضور تخلیہ میں آرس کروں گا بادشاہ نے حکم دیا سب لوگ باہر چلے جائیں سائیس نے کہا حضور آج تیسرا دن ہے شہزادی صاحبہ گھوڑے کو دیکھنے تشریف آئیں تھیں اتفاق سے میں میبے کی بوری لے کر آ رہا تھا یہاں پردہ ہو گیا میں جلدی میں باہر نہیں جا سکا بوری کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا


شہزادی صاحبہ گھوڑے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اپنے ہاتھ سے میوہ کھلایا بڑی دیر تک اس کی پیٹ تھپکتی رہی گھوڑا خاموش گردن چھکائے کھڑا رہا انہوں نے اپنی صحیلیوں اور کنیزوں سے کہا یہ تو بڑا سیدہ اور نیک جانور معلوم ہوتا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر سواری کروں سب نے بہت منہ کیا مگر شہزادی صاحبہ گھوڑے کی سواری کی بہت شوکین ہے جھٹ اس


شہزادی صاحبہ بہت خوش ہوئی اور اس کی پیٹھ ٹھوک کر واپس چلی گئی بس حضور اس وقت سے اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور ہر وقت آنکھوں سے پانی بھیٹا رہتا ہے مالو بہت ہوتا ہے رو رہا ہے بادشاہ نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا اچھا تم جاؤ مگر خبردار کسی کے آگے ذکر نہ کرنا ورنہ تمہیں کولو میں پلوہ دیا جائے گا سائیس نے قدموں میں گر کر کہا حضور کبھی مو سے بھاپ


بادشاہ سلامت اسی وقت مہل میں آئے اور شہزادی کو بلا کر کہا بیٹی وہ گھوڑا جو ہم نے اپنی پسند کا لیا تھا تین دن سے بیمار ہے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے گردن جھکائے کھڑا رہتا ہے شہزادی افسوس کے لحجے میں بولی ابا جان یہ تو بہت برا ہوا اس کا علاج ہونا چاہیے بہت نائیاب چیز ہے بادشاہ نے کہا ہاں بیٹی مجھے بھی بہت پریشانی ہے علاج معالجہ کیسے ہو وہ کسی کو اپنے قریب ہی نہیں آنے


شہزادی نے کہا ابا وزور اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی جا کر دیکھوں مجھے تو وہ بہت پسند آیا ہے بادشاہ خود یہی چاہتے تھے کہ دیکھیں سائیس کی بات کہاں تک صحیح ہے اسی وقت پردے کا انتظام ہو گیا بادشاہ سلامت خود لڑکی کو لے کر استبل میں آئے جو ہی شہزادی پہنچی گھوڑے نے مو اٹا کر اس کی طرف دیکھا اس نے پیار سے اس کی پیٹھ ٹھپ ٹپایا اور میبا جو بالٹیوں میں رکھا تھا وہ اپنے ہ


شہزادی نے دوت کی بالٹی اس کے آگے رکھی وہ سارا دوت پی گیا زافران آگے بڑھائی وہ بھی اس نے کھالی بادشاہ خاموش کھڑے دیکھتے رہے سائیس کے کہنے کی تصدیق ہو گئی تھی شہزادی نے کہا ابہ حضور یہ تو اچھا خاصہ ہے اب فضول پریشان ہو گئے بادشاہ نے کہا ہاں بیٹا سائیسیوں کی گفلت معلوم ہوتی ہے تھوڑی دل ٹھیکر بادشاہ شہزادی کو ساتھ لے کر واپس چلے گئے دوسرے


بادشاہ سلامت کو اطلاع پہچی انہوں نے بڑے وزیر کو بلا کر تمام واقعہ سنائیا اور پوچھا بتاؤ اب کیا کرنا چاہیے وزیر نے کہا حضور یہ تو ناممکن ہے کہ شہزادی صاحبہ روز استبل جا کر گھوڑے کو اپنے ہاتھ سے کھلایا پلائے کریں بادشاہ نے کہا یہ بھی دل نہیں چاہتا کہ ایسی قیمتی اور نائب چیز کو بھوکو مار دیا جائے وزیر نے کہا اس کی آسان ترقیب یہ ہے کل دربار میں


انہیں یہ توہفہ دیا جاتا ہے اور شہزادی کے محل میں استبل بنوائی دیا جائے وہاں اس کو پہنچا دیا جائے گا سائیسیوں کا کام کنیزے کر دیا کریں گی بادشاہ کو یہ مشورہ پسند آیا دوسرے دن شہزادی کے محل کے سہن میں استبل بن کر تیار ہو گیا اور گھوڑے کو وہاں پہنچا دیا گیا شہزادی کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ لاکھوں روپیے کی چیز بابا جان نے مجھے انایت کر دی وہ روزانہ اپنے ہاتھ سے اسے


ایک کنیز جو سب سے کم درجے کی اور بد شکل تھی، وہ استبل کی سفائی کے لیے تینات کی گئی۔ شہزادی کو بھی گھوڑے سے بہت محبت ہو گئی تھی۔ اس نے استبل میں اپنے بیٹھنے کے لیے ایک تخت بچوالیا تھا اور اکثر اپنی صحیلیوں کے ساتھ وہاں بیٹھ کر شترنج کھیلا کرتی تھی۔ کئی مہینیں اسی طرح گزر گئے۔ اس عرصے میں کئی شہزادوں کے پیغام آئے مگر شہزادی نے انکار کر دیا۔ وہ سوچتی کہ اگر


میں اس کی دیکھبھال کس طرح کر سکوں گی؟ یہ تو میرے ہی ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے جس سے شادی ہوگی وہ یہ گوارہ نہیں کرے گا میرے جانے کے بعد یہ سوک کر مر جائے گا وہ اپنی صحیلیوں سے مزاک میں کہا کرتی تھی میری شادی تو گھوڑے سے ہو گئی ہے ایک دفعہ رات کو اتفاق سے شہزادی کی آنکھ کھل گئی بڑی دیر تک وہ کروٹیں بدلتی رہی آخر اٹھ کر باہر ٹہلنے لگی اور چلتے چلتے استول کی طرف ن


کہ اس کے تخت پر چمپہ لونڈی جو استول صاف کرتی تھی۔ بال کھولے بیٹھی ہے اور ایک نیحائت حسین و جمیل نوجوان اس کے پاس بیٹھا ہے۔ شہزادی کو اپنی آنکھوں پر دھوکا ہوا۔ وہ بڑی دیر تک کھڑی خاموش دیکھتی رہی۔ گھوڑا استول میں موجود نہیں تھا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا قصہ ہے۔ شہزادی نیحائت اقلماند اور حوشیار تھی۔ خاموش آ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گئی۔


آج شہزادی بہت اداز اور خاموش تھی اس نے کسی سے کچھ ذکر نہ کیا دردے سر کا بحانہ کر کے لیٹی رہی گھوڑے کو بھی کچھ نہیں کھلایا پلیا شام کو چمپا کو بلا کر اس نے رات والے آدمی کے مطالبک پوچھا وہ سہم گئی اور کہا حضور نے دیکھ لیا ہے تو مجھے بتانا ہی پڑے گا گھوڑا اصل میں کہیں کا شہزادہ ہے اس کو میرے بال بہت پسند آ گئے ہیں آدھی رات کو آدمی بن کر بیٹھتا ہے اور میرے ب


اس کے بعد پھر گھوڑا بن جاتا ہے شہزادی نے اپنا غصہ زبت کرکے کہا اگر آج تُو اپنے بال کھول کر اس کے سامنے بیٹھی تو میں تیرے بال کھات دوں گی اور بادشاہ سلامہ سے کہے کہ تُجھے تھوٹے تیروں سے اڑوڑوڑوں گی گرز اس دن نہ تو خود شہزادی استول میں گئی نہ چمپا کو جانے دیا رات کو اس کو ایک کوٹری میں بند کروہ کر کفلے ڈلوہ دیا اور اتمینان سے سو گئی دوسرے دن صبح لونڈی نے آکر ا


جاؤ چمپا کو بلا کر لاو تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے آکر جواب دیا حضور چمپا اپنی کوٹری میں نہیں ہے شہزادی خود اٹکر پہلے استول میں گئی وہاں اس کو ایک کاغز ملا وہ اٹھا کر پڑھنے لگی اس پر لکھا تھا کون آئے گا کنگن کے دیس کون کاتے گا چمپا کی کیس میں کنگن دیس کا شہزادہ ہوں مجھے ایک ایسا منتر آتا ہے جس کے عمل سے اپنا روپ بدل سکتا ہوں میں تمہارے 

یہاں پکڑا گیا۔ سودہ گر نے تمہارے والد کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ تم مجھے دیکھنے آئیں، میں پہلی نظر میں تمہارا گرویدہ ہو گیا۔ تم نے مجھے بہت آرام اور محبت سے رکھا، مگر مجھے تمہاری لونڈی چمپا کے بال بہت پسند آئے۔ کئی دن سے میں اس کے بال کھلوکر دیکھا کرتا تھا۔ کل تم نے دیکھ لیا اور چمپا کو دھمکی دی کہ اس کے بال کارٹ لوگی۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ لہذا میں


میں تمہیں زندگی بھن نہیں بھولوں گا نہ کسی دوسری لڑکی سے شادی کروں گا یہ کاغز پڑھ کر گسے کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں خون اتر آیا مگر خاموش رہی نہ اس نے ناشطہ کیا نہ شب خوابی کا لباس اتارا کاغز مٹھی میں دبا کر وہ سیدھی اپنی ماں کے پاس پہنچی بیٹی کو بے وقت آتا دیکھ کر بادشا بیگم پریشان ہو گئی انہوں نے گھبرا کر پوچھا میری بچی خیریت تو ہے تم کچ


شہزادی اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر فوٹ فوٹ کر رونا لگی انہوں نے اسے کلیجے سے لگا کر کہا بیٹی کچھ بتاؤ تو صحیح کسی نے آنکھ دکھائی ہو تو اس کی آنکھ نکلو آدھوں گی کسی نے ہنگلی اٹھائی ہو تو اس کی ہنگلی کلم کرو دوں گی میری چان تم کیوں رو رہی ہو شہزادی نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا امہ جان گھوڑا غایب ہو گیا انہوں نے بیٹی کے سر پر ہاتھ فیر کر کہا وہ جانے د


میں تو پہلے ہی سمجھتی تھی کہ وہ پرستان کا گھوڑا ہے۔ شہزادی نے اپنے آسو پہنچ کر کہا امہ جان وہ اکیلا چلا جاتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر وہ تو چمپا لونڈی کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ شہزادی نے ایک دن پہلے جو کچھ دیکھا تھا وہ اپنی ماں سے بیان کر کے پرچا ان کے آگے ڈال دیا۔ بادسہ بگم نے سیکنوں گالیاں چمپا کو دی اور کہا بیٹی تم رنج نہ کرو تمہارے بابا جان کسی مہ


وہ آجائیں گے تو چمپا مردار کو پکڑھو لیں گے۔ شہزادی نے کہا، میں نہ قسم خالی ہے جب تک چمپا کے بار نہیں کھات لوں گی، چین سے نہیں بیٹھوں گی۔ اس وقت آپ سے اجازت لینے آئی ہوں، مجھے کنگن دیس جانے کی اجازت دیجئے۔ بادشاہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا، میری بچی تم کہاں جاؤں گی؟ میری اتنی عمر آئی مگر آج پہلی دفعہ کنگن دیس کا نام سنا ہے۔ شہزادی نے کہا، اگر آپ مجھے اجاز


اپنی توہین کسی حال میں غوارہ نہیں کر سکتی باد سے بیگم نے بہت سمجھایا روئیں پیٹیں لیکن شہزادی اپنی زد پر عڑی رہی آخر ان کو خاموش ہونا پڑا قصہ مختصر دوسرے دن شہزادی نے کچھ عشرفیوں اور کچھ جوارات لیے چار مردانے جوڑے سلوائے تھوڑا سا خشک میوہ لیا اور ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مردانے بھیس میں نکل پڑی اپنی ماں سے کہہ گ


اپنے ملک کی سرحت پار کر کے اس نے بغیر پتہ نشان کے اپنا سفر جاری رکھا روز نیا دانا نیا پانی ایک جنگل چھوڑتی تھی دوسرا پپڑتی تھی رات کو اپنے گھوڑے کے آرام کے خیال سے کسی درخت کے نیچے پڑ جاتی تھی گسے میں نہ اس کو ڈر تھا نہ خوف کوئی آبادی نظر آتی تو وہ کنگن دیس کا پتہ پوچھتی مگر ہر شخص انکار کرتا کسی نے یہ نام نہیں سنا تھا ایک مہینہ اسی طرح گ


اسے یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی اپنی کوشش میں کامیاب ہوگی۔ ایک دن وہ سو کر اٹھی تو سامنے اس کو ایسا جنگل نظر آیا جس کے آگے جانا ناممکن تھا۔ گویا درختوں کی ایک دیوار تھی جس نے آگے جانے کا راستہ روک دیا تھا۔ پریشان ہوئی کہ اب کیا ہوگا؟ کیا مجھے ناکام واپس جانا پڑے گا؟ مگر ایسا تو میں ہرگز نہیں کروں گی۔ یا تو چمپا کے بال کات کر لے جاؤں گی۔ یا اسی جنگل میں درندوں کی خ


وہ اللہ کا نام لے کر کھڑی ہو گئی اور خنجر اپنی کمر سے نکال کر درختوں کی ٹہنیاں کاتنی شروع کر دیں۔ ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد اس کو اندر کچھ روشنی نظر آئی۔ آخر کار کچھ دیر کے بعد اس نے اتنا راستہ بنا لیا تھا کہ ایک آدمی آسانی سے اندر جا سکتا تھا۔ وہ بہت تھک گئی تھی۔ کچھ دیر آرام کر کے اس نے اپنے گھوڑے کو پیار کیا اور خنجر ہاتھ میں لے کر جنگل میں داخل ہو گئی۔ اس کی حیرت کی انت


اور اس میں ایک جھوپلی بنی ہوئی ہے وہ دب پاؤ جھوپلی کے قریب گئی اور اندر جا کر جھاکا وہاک کیا دیکھتی ہے کہ ہرن کی خال پر ایک ضعیف شخص جن کی پلکیں ناف پر پڑ رہی ہیں اور داری زمین تک لٹک رہی ہے آنکھے بند کیے تصوی ہزار دانہ لئے بیٹھے ہیں شہزادی مارے دہشت کے تھر تھر کامپنے لگی اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا اس کی آواز پر ان بزرگ شخص نے دونوں ہات


پھر کھنجر کو دیکھ کر پوچھا بیٹی کیا ہمیں قتل کرنے آئی ہو؟ شہزادی ڈر کے مارے ان کے قدموں پر گر پڑی اور کہا بابا بھلا کہیں ایسی گستاخی ہو سکتی ہے میں تو خود ایک کمزور لڑکی ہوں ایک ضرورت سے اپنے گھر سے نکلی ہوں بابا نے اس کے سر پر ہاتھ فیر کر کہا بیٹی تیرے اوپر کیا مسئبت پڑی ہے بیان کر شہزادی نے سارا قصہ سنایا بابا نے مسکرہ کر کہا


وہ لڑکہ ایسا ہی منچلا ہے میں نے ہی اس کو وہ منتر سکھائے تھا مگر اس نے تمہارے ساتھ دگا کی ہے اب وہ عمل بھول جائے گا شہزادی نے ہاتھ جوڑ کر کہا بابا اب مجھے کنگن دیس کا پتہ بتا دیں میں اپنی توہین کا بدلہ لوں گی بابا نے کہا مگر بیٹی کسی کو قتل نہ کرنا شہزادی نے کہا نہیں بابا میں تو صرف اپنی کنیز کے بال کھٹ کر واپس چلی جاؤں گی بابا نے کہا


اس جنگل کے آگے کنگن دیس ہے اگر تم اندر سے چلی جاؤ تو سورج گروب ہونے سے پہلے شہر میں داخل ہو جاؤ گی شہزادی نے ہاتھ جوڑ کر کہا بابا میرا گھوڑا اندر کیسے آئے گا میں بھی مشکل سے آئی ہوں بابا نے کہا جاؤ خدا کا نام لے کر اس کی راست پپڑھ کر لے آؤ شہزادی جس راستے سے اندر آئی تھی اسی راستے واپس گھوڑے کے پاس آئی اور بابا کے کہنے سے وہ گھوڑے کو لے کر داخل ہوئی اس وقت اسے


بابا نے ہاتھ کے اشارے سے شہزادی کو دوسری طرف جانے کو کہا وہ عدب سے سلام کر کے آگے بڑھی اب میدان صاف تھا وہ گھوڑے پر سوار ہو گئی تھوڑی دور گئی تھی کہ شہر پنہا کی فسیل نظر آنے لگی اس نے گھوڑے کی رفتہ اور تیس کر دی وہ خوشی سے فولی نہیں سماتی تھی اس کی منزلیں مقصود سامنے نظر آ رہی تھی ابھی سورج گروب نہیں ہوا تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو گئی نئی جگہ عجنبی لوگ سارے دن


لوگ اس نو عمر لڑکی کا فسن و جمال دیکھ کر حیراند رہ گئی پردیسی سمجھ کر ہر شخص نے اس کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی مگر اس نے سب کا شکریہ عدد کر کے کسی سرائے کا پتہ پوچھا غرز کسی اللہ کے بندے نے اس کو ایک سرائے میں پہچا دیا بی بھٹیاری نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے ٹھہرنے کے لیے ایک کٹری کھول دی پلنگ بستر ہر چیز وہاں موجود تھی شہزادی نے خدا کا شکر عد


گھوڑے کو لے جا کر استبل میں باندھا اور مو ہاں تھو کر پلنگ پر بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے بعد بھی بھٹیاری کھانہ لے کر آ گئی آلو کا سالن شرب و پانی کی طرح پتلا ایک بوٹی ایک آلو کا قتلا مسور کی دال وہ بھی دال الگ پانی الگ تنور کی موٹی موٹی دو روٹیاں شہزادی نے بھلا ایسا کھانہ کب کھایا تھا لیکن اس وقت میں ہزار نعمت معلوم ہوا خوب پیٹ بھر کر کھایا اور ٹانگیں


صبح کو جب سورچ کافی چڑ گیا تو بھی بھٹیاری نے آکر جگہیا اے میہ مسافر تم تو ایسے گھوڑے بیچ کر سوے کہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے شہزادی گھبرا کر اٹھ بیٹھی اس نے بھٹیاری سے کہا میرے گھوڑے کو دانہ گھنس دے دینا بھٹیاری نے ہزکر کہا میہ مسافر ساری عمر ان ہی کاموں میں گزری ہے میں مسافروں کی خدمت کرتی ہوں میرا میہ ان کے گھوڑوں اور خچروں کی


شہزادی نے اٹھ کر مو دھویا بھٹیاری گھڑ کا حلوہ کالا سہل لے کر آئی ایک گلاس میں دود نیلا پانی شہزادی کو دیا اس نے بہت تاریف کر کے کھایا اور بھٹیاری سے کہا میں اس شہر میں پہلی دفعہ آیا ہوں یہاں کا بادشاہ کون ہے دیایا کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے یہاں کی کون کون سی امارتیں دیکھنے کے قابل ہیں بھٹیاری نے جواب دیا میہ مصافر تم بہت خوش قسمت ہو کہ اب آئے ہو ایک مہ


ہمارے بادشاہ کا ایک ہی لڑکہ ہے وہ کئی مہینے تک گائب رہا بادشاہ سلامت نے اس کے غم میں دربار میں آنا چھوڑ دیا تھا ماباب دن رات روتے تھے رات کو سارے شہر میں اندھیرا رہتا تھا خدا خدا کر کے وہ ایک مہیدہ ہوا آیا ہے بادشاہ سلامت اور بادشاہ بیگم بہت رنجیدہ ہے شہزادی نے پوچھا رنجیدہ کیوں ہے؟ بٹیاری نے کہا


اے میہ مسافر، ماباب کو ارمان ہوتا ہے کہ اپنی اولاد کی شادی کہیں اچھی جگہ کرے مگر سنا ہے شہزادہ ایک کالی کلوٹی وارت کو لے آیا ہے اور اپنے محل میں اس کو رکھا ہے کان کنگار ہیں دیکھنے والے کہتے ہیں کنیز معلوم ہوتی ہے کسی کو وہاں جانے کا حکم نہیں بادشاہ سلامت نے آج تک اپنے محل میں نہیں آنے دیا شہزادی نے مسکرہ کر کہا اپنی اپنی پسند ہے گرز بھٹیاری سے یہ حالت سن کر اس کو


بلکہ خوشی ہوئی کہ یہاں بھی اس کو کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بی بھٹیاری نے برطن اٹھا کر جاتے ہوئے کہا میہ مصافر نہا دھو کر تیار ہو جاؤ اس کے بعد شہر کی سیر کو نکلو یہاں کا شاہی باگ دیکھنے دور دور سے لوگ آتے ہیں شہزادی نے کہا بی بھٹیاری مجھے کوئے پر نہانے کی عادت نہیں ہے کوئی پردے کی جگہ بتاؤ اس نے ٹھٹا لگا کر کہا وہ میہ مصافر تم تو عورت کی طرح ش


ابھی کمسن بھی تو ہو خیر میرے ساتھ چلو جہاں میں ناہتی ہوں وہاں جا کر ناہ لو شہزادی نے گسل کیا کپڑے بدلے اور تیار ہو کر اپنے گھوڑے کے پاس آئی اٹیاری بولی شاہی باگ میں گھوڑے کے لے جانے کی اجازت نہیں ہے یہاں سے قریب ہی ہے راستے میں کسی سے پونچ لینا ورنز شہزادی سرائے سے باہر نکلی اور پونچتی پونچتی شاہی باگ پہنچی وہاں کیا دیکھتی ہے


اس نے عزی رہ ہمدردی کہا بڑی بھی تمہاری کمر چھکی ہوئی ہے تم فول چنتے چنتے تھک گئی ہو وڑیا نے نگہ اٹھا کر دیکھا تو ایک نیحیت خوبصورت لڑکا کھڑا ہے اس نے پوچھا بیٹا تم کہاں سے آیا ہے کس کا لال ہے شہزادی نے جواب دیا امہ میں پردیسی ہوں تمہارے شہر کی بہت تاریف سنی تھی دیکھنے کے لیے آیا ہوں وڑیا نے پوچھا اچھا بیٹا تم کہاں ٹھ

سرائے میں ٹھہرا ہوں۔ اس وقت ذرا باق کی سیر کرنے چلا آیا ہوں۔ بڑیا بولی بیٹا تجھے دیکھ کر میرے دل بڑا خوش ہوا میں اکیلی رہتی ہوں تُو سرائے میں نہ ٹھہر میرے گھر چل بھٹیاریاں سیدھے سادے مسافروں کو لوٹ لیتی ہیں شہزادی نے کہا اچھا امہ تمارے ہی گھر آ جاؤں گا مگر تم اتنی مہنت کیوں کرتی ہو اب تو تمہاری ٹوکری فولوں سے پھر گئی


بیٹا مہنت نہ کروں گی تو کھاؤں گی کہاں سے اب یہاں سے جا کر کھانا پکاوں گی اس کے بعد فولوں کا گہنا بناوں گی رات کو شہزادی کے محل میں لے کر جاؤں گی اس کی بیوی کو اپنے ہاتھ سے پہنا کر آوں گی سوائے میرے وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے شہزادی سمجھ گئی ضرور بڑیا چمپا کے لیے گہنا بنا کر لے جاتی ہے گسے سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی مگر اس نے سوچا یہ بڑا اچھا موقع ہے


پولوں کی ٹوکری اس نے بڑیا کے گھر پہنچائی اور اس سے کہا امہ میرا گھوڑا بھی ہے بڑیا نے جواب دیا بیٹا دیکھ میرا گھر کا آنگن بہت بڑا ہے نیم کے درخت کے نیچے تو اپنا گھوڑا بان دینا شہزادی نے سرائے میں آکر کھانا کھایا اور اپنا تھیلہ اٹھا کر بھٹیاری سے کہا بھی بھٹیاری میں اپنی خالہ کی تلاش میں آیا تھا اتفاق سے راستے میں وہ مل گئی اب میں اس کے گھر جا رہا ہ


اس نے دو عشرفیہ بھٹیاری کو دی وہ خوشی سے نہال ہو گئی اور دعائے دینے لگی شہزادی گھوڑے پر سوار ہو کر بڑیا کے گھر آ گئی کئی دن وہ خاموش دیکھتی رہی پھر رفتہ رفتہ اس نے فول پروانے کیئے بڑیا کہا کرتی تھی بیٹا تو لڑکا ہے تیرے یہ کام نہیں ہے مگر وہ کہتی تھی نہیں امہ تمہیں تو کم نظر آتا ہے دیکھنا دو چار دن میں تم سے اچھا گہنا بنانے لگوں گا


بڑیا بھی خاموش ہو جاتی تھی ایک دن شہزادی نے خود اپنے ہاتھ سے بہت خوبصورت زیور بنایا بڑیا مالن نے کہا بیٹا تو تُو نے ایسا گہنا بنایا ہے کہ شہزادی کی بیوی ضرور پوچھے گی کہ یہ گہنا کس نے بنایا ہے میں کیا جواب دوں گی شہزادی نے کہا امہ تُم کہتے نہ میری بھانجی اپنی ساسرال سے آئی ہے اس نے بنایا ہے بڑیا خاموش ہو گئی رات کو آٹھ بجے دستور کے مطابق وہ شہزاد


فولوں کی چنگیز کھول کر اس نے گھنا نکالا شہزادی کی بیوی نے خوش ہو کر کہا آج تونہ بڑا خوبصورت گھنا بنایا ہے تیرے ہاتھ کا نہیں معلوم ہوتا سچ سچ بتا کس نے بنایا ہے بڑیا نے کہا حضور میری بھانجی اپنی ساسرال سے آئی ہے اس نے بنایا ہے شہزادی کی بیوی نے کہا مالن کل تم اپنی بھانجی کو لے کر آنا ہم اسی کے ہانسے گھنا پہنیں گے اور اسی سے اپنی چوٹی گندوائیں گے اور اس کو


وڑیا تو یہ سن کر سحم گئی اس نے دبھی زمان سے کہا حضور اس کا میا بھی ساتھ آیا ہے وہ بڑا ظالم ہے میں جا کر کہوں گی مگر وعدہ نہیں کرتی سرکار خبر نہیں آنے دے گا یا نہیں شہزادے کی بیوی نے کہا تم جانتی ہو یہاں کوئی نہیں آتا شہزادے رات کو گیارہ بجے آتے ہیں اگر تم اپنی بھانجی کو نہیں لائی تو تمہیں سزا دوں گی وڑیا نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور میں کوشش کروں گی


شہزادی کی بیوی نے کہا کوشش نہیں تم خود لے کر آنا بڑیا اچھا حضور کہتی ہوئی اپنی چنگیز اٹھا کر گرتی پرتی گھر پہنچی اور آتے ہی شہزادی سے کہا بیٹا تمہیں بے موت مار دیا اب بتا کیا ہوگا شہزادی کی بیوی نے تمہیں بلایا ہے شہزادی نے ہزکر کہا امہا گھبرانے کی کیا بات ہے تم دیکھنا میں ایسی لڑکی بنوں گا کہ کوئی بھی نہیں پہنچان سکے گا تم اتمنان سے سو ج


اس نے بھی سوچا ابھی اس کی داری موچے تو نکلی نہیں ہے لڑکیوں کے کپڑے پہن کر رات کو لڑکی ہی لگے گا دوسرے دن شہزادی نے بازار جا کر ایک لہنگہ سلوایا اور پرتی دپٹہ خوب گوٹے مسالے کا بنوایا اور خوب تیز دھار کی ایک کیچی خریدی دو پہر تک سب چیزیں لے کر گھر آئی آج اس نے بڑے اہتمام سے مکیش لگا کر فولوں کا گہنا بنائیا شہزادے کی بیوی کے لیے روز فولوں کی چوٹی بنائی ج


آج اس نے بیسوں لڑکیوں کی چوٹی بنائی اور لال سبز چنگیز میں رکھ کر سرک قپڑے سے ڈھانک دی۔ ان سب کاموں سے فارغ ہو کر اس نے اپنے ہاتھ پاومیں بجائے مہندی کے سرک رنگ لگایا اور تیل میں تھوڑی سی کالک ملا کر اپنے مو اور ہاتھ پیرو پر من لیا۔ وہ چاندھی کے زیور بھی خریت کر لائی تھی۔ آٹھ بجے تیار ہو کر جب وہ چھمچھم کرتی کوٹری سے نکلی تو بڑیا اس کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ اس نے کہا


تُو نے اپنے رنگ ساولہ کیوں کر لیا؟ شہزادی نے جواب دیا امہ، وہ دیکھ کر یہ نہیں کہتی کہ خالہ کا رنگ تو ساولہ ہے بھانجی کیسے گوری ہو گئی؟ بھیز بدلے تو پورا بدلے بڑیا خوش ہو گئی اور اس کو ساتھ لے کر شہزادے کے محل میں پہنچی شہزادی نے دیکھا کہ چمپہ بڑے ٹھارٹ سے زرنگار مسہری پر تکیئ کا سہارہ لیے پڑی ہے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا


اگر اس کا بس چلتا تو خنجر سے اسی وقت اس کا کام تمام کر دیتی مالن نے جھکر سلام کیا شہزادی کو بھی سلام کرنا پڑا شہزادی کی بیوی نے کہا مالن تمہاری بھانجی تو بڑی ٹھاٹ دار ہے مگر یہاں گھنگٹ کیوں نکالا ہے مالن نے فولوں کی چنگیز کھولتے ہوئے کہا حضور شرماتی ہے شہزادی کی بیوی فولوں کا گھنہ دیکھ کر پہت خوش ہوئی اس نے کہا آج ہم تمہاری بھانجی سے اپنے بالوں میں


شہزادی کی دلی مراد براہی چمپا اپنے بال کھول کر بیٹھ گئی شہزادی نے اپنا کام شروع کیا اس نے بڑی سفائی سے پوری چوٹی کات کر اپنے چنگیز میں رخ لی اور بڑی خوبصورتی سے فولوں کی چوٹی لگا دی اپنے کام سے فارغ ہو کر اس نے مالن سے کہا خالہ جلدی سے چلو انہوں نے تھوڑی دیر کی اجازت دی تھی شہزادی کی بیوی نے بہت سا انعام دے کر رخصت کیا اور کہا تم جب


دونوں سلام کر کے گھر واپس آئی شہزادی نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور مو ہاتھ دھو کر بڑیا سے کہا امہ گھنگٹھ نکالے نکالے سر میں درد ہونے لگا ہے میں زرا ہوا خوری کو جاتا ہوں اس نے اپنے تھیلہ اٹھایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر بڑی تیز رفتاری سے چل پڑی دو گھنٹوں میں وہ میلوں دور نکل گئی گھوڑا بھی بہت دن سے آرام کر رہا تھا اس وقت ہوا سے باتے کرنے لگا


اور اپنی مسہری پر بیٹھ کر کہا چمپا اپنے بال کھولو اس نے چوٹی کھولنی شروع کی فولوں کی لڑیاں نکال کر جو اس نے بال کھولنا چاہے تو گدی سافتھی وہ گھبرہ گئی اور شہزادی کی طرف دیکھنے لگی اس نے دوبارہ کہا فولوں کی چوٹیاں کیوں لگاتی ہے مجھے یہ سب بنا بٹی باتیں پسند نہیں میں صرف تیرے بال دیکھنا چاہتا ہوں تجھے خوب معلوم ہے جس دن شہزادی نے تیری چوٹی کھٹنے کو کہا تھا


وہ میری محسن تھی۔ اس نے پیار محبت سے رکھا تھا۔ میں بھی اسے چاہتا تھا، مگر تیرے بالوں نے مجھے احسان فراموش بنا دیا۔ چمپا خاموش گردن جھکائے بیٹھی رہی۔ شہزادہ نے زرا اونچی آواز میں کہا، کیا قصہ ہے؟ آج تُو میری حکمہ عدولی کیوں کر رہی ہے؟ چمپا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، حضور حکمہ عدولی نہیں کر رہی۔ میرے بال خبر نہیں کہاں گئے؟ شہزادہ گھبرا کر


بجائے لمبے بالوں کے صرف چھوٹے چھوٹے پٹے رہ گئے تھے اس نے جھلا کر زور سے ایک تھپڑ چمپا کے مو پر لگایا اور کہا اب تُو کس کام کی ہے مجھے تو صرف تیرے بال پسند تھے سچ سچ بتا یہاں کون آیا تھا؟ چمپا نے ڈرتے ڈرتے کہا حضور اور تو کوئی نہیں آیا بڑیا مالن کی بھانجی آئی تھی اس نے میری چوٹی گوندی تھی شہزادہ نے گسے کے لہجے میں کہا


وہ بغیر ہمارے حکم کے یہاں کیوں آئی تھی؟ ہم نے تو صرف بڑیا کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ شہزادہ گم و غسے کی حالت میں ٹھہل رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کون آیا کنگن کے دیس؟ کس نے کاتے چمپا کے کس؟ اس کی نظر دروازے پر پڑی جہاں سے مالن آتی تھی، وہاں موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا ہم آئے کنگن کے دیس، ہم نے کاتے چمپا کے کس؟ شہزادی محروق


کچھ دیر شہزادہ محبوت صاح کھڑا رہا پھر اس نے چمپا سے کہا شہزادی تیرے بال کھٹ کر لے گئی اور تجھے خبر تک نہیں ہوئی بے بکوف گدھی چمپا نے کہا حضور شہزادی تو بہت خوبصورت ہے وہ لڑکی تو بہت کالی تھی شہزادی نے غصے کے لحج میں کہا حقیقت میں جاہل آدمی کا دماغ دیکار ہوتا ہے دیکھ وہ سامنے لکھ گئی ہے شہزادہ فوراً باہر چلا گیا اس نے سپاہیوں کو فک


اور جو کوئی بھی اس کے گھر میں ہو اسے گرفتار کرلاو حکم پاتے ہی سپاہی دورے گئے آدھی رات گزر چکی تھی بڑیا لڑکے کے انتظار میں جاگ رہی تھی اچانک کئی سپاہی گھر میں گھسائے اور بڑیا کی مشکے کسنے وہ رونے چلانے لگی ارے ڈانکو آگئے مجھے بچاؤ سپاہیوں نے ڈاٹ کر کہا ہم ڈانکو نہیں ہیں شہزاد صاحب کے سپاہی ہیں ان کے حکم سے تجھے پکلنے آئ


بتا تیرے ہاں اور کون کون ہیں؟ بڑیا ڈر گئی کہ یہ اس لڑکے کی وجہ سے مسیبت آئی ہے شہزادی کی بیوی نے پہچان لیا ہوگا کہ وہ لڑکی نہیں تھی اس نے کامپتی ہوئی آواز میں کہا میرے ہاں اور کوئی نہیں ہے ایک میرا بھانجا آیا ہوا تھا آڈ بجے رات کو وہ کہیں گھومنے گیا تھا ابھی تک نہیں آیا میں اسی کے انتظار میں جاگ رہی تھی سپاہیوں نے کہا اچھا تو ہمارے ساتھ چل شہزادی نے بولایا ہے


دو سپاہی بڑیا کو لے کر شہزادہ کے پاس آئے باقی اس کے بھانجے کے انتظار میں وہیں ٹھہر گئے شہزادہ بڑیا کو سانت لے کر اپنے کمرے میں آیا اور ہنٹر اٹھا کر کہا سچ سچ بتا آج تُو کس کو اپنے سانت لے کر آئی تھی ورنہ مار مار کر تیری خال کھیچ لوں گا حضور میں اس کو نہیں لا رہی تھی مگر بیگم صاحبہ نے حکم دیا تھا کہ کل اسے ضرور لے کر آنا وہ بالکل کم عمر لڑکا تھا زنانے کپڑے پ


شہزادی نے ڈاٹ کر کہا جھوٹ کیوں بولتی ہے وہ لڑکا نہیں تھا، لڑکی تھی معلن نے ہاں جوڑ کر سارا قصہ سنایا اور کہا حضور میں تنہ رہتی ہوں پردیسی سمجھ کر رکھ لیا تھا شہزادی نے کہا اچھا صبح تمہیں فاصی دی جائے گی سپہائیوں نے بڑیا کو حولات میں بند کر دیا تمام رات شہزادہ جاکتا رہا اس کو چمپا کے بال کٹ جانے کا افسوس تھا اور شہزادی کی بہدوری پر حیرت تھی


وہ اپنے اوپر لانت ملامت کر رہا تھا اس قدر خوبصورت شہزادی کو چھوڑ کر اس کالی کلوٹی لونڈی کو کیوں منتخب کیا حقیقت میں یہ اس کی بہت توہین تھی اس کے باپ نے میرے اوپر لاکھوں روپیاں خرچ کیا شہزادی مجھے اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھی گھنٹوں میرے پاس استبل میں بیٹھی رہتی تھی کئی بڑے بڑے شہزادوں کی پیغام آئے مگر اس نے شادی سے انکار کر دیا میں نے اس کو اپنی صحی


میں نے ایک آرزی چیز کو پسند کیا بالکٹھنے کے بعد چمپا میں کوئی خوبی نہیں رہی مجھے اس کی صورت سے نفرت ہو گئی سپاہیوں نے راتھی کو ساری حقیقت کوتوال شہر کو سنا دی تھی اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ شہزاد ساہب نے حکم دیا تھا کل بلیا کو فانسی دی جائے گی صبح سووے رے کوتوال وزیر کے پاس گیا اور یہ قصہ سنایا وزیر نے کہا بغیر بادشاہ سلامت کے حکم کے کسی کو فانسی نہیں دی جا سکتی


کہ بڑیا شہزادی کی بیوی کے بلانے پر اس لڑکے کو لے کر گئی تھی۔ اس کا بھی کسور ہے۔ میں بادشاہ سلامت سے جا کر کہتا ہوں جو ان کا حکم ہوگا وہ کیا جائے گا۔ ورنس وزیر نے خاص آدمی کو بادشاہ کے پاس پھیجا اور تخلیے میں بات کرنے کو کہا۔ اسی وقت وزیر کی تلبی ہوئی۔ اس نے جو کچھ کوتوال سے سنا تھا بیان کر دیا۔ بادشاہ نے جواب دیا، تم جاؤں ہم شہزادی سے دریافت کریں گے۔ وزیر آدھا ب


بادشاہ نے اپنے افاجہ سرا کو حکم دیا شہزادے کو بلا لاؤ تھوڑی دیر میں شہزادہ تیار ہو کر آیا لیکن تمام رات جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھے سرک ہو رہی تھیں اور چہرا اداس تھا بادشاہ نے بیٹے کی طرف گور سے دیکھتے ہوئے کہا ہم نے سنا ہے تم نے بوڑی مالن کو فانسی پر لٹکانے کا حکم دیا ہے بیٹا یہ سزا بڑے جرم میں دی جاتی ہے یعنی اگر مالن نے کسی کو جان سے مار ڈالا ہے تو وہ فانسی کی مستحق ہے


شہزادہ نے کہا ابا جان وہ میرے محل میں ایک لڑکے کو لڑکی بنا کر لے گئی تھی مجھے بہت گسہ آیا میں نے سپاہیوں سے کہا کوتوال شہر سے کہ کر اس کو فانسی پر لٹک بائے جائے بادشاہ نے کہا بیٹا اگر ان معمول قسوروں پر بادشاہ اپنی ریائیہ کو فانسی دلوہ دیا کریں تو ریائیہ اس کی نافرمان ہو جائے اور ملکھ چھوڑ کر چلی جائے شہزادہ نے کوئی جواب نہیں دیا بادشاہ نے خواج


حکم کی دیر تھی فوراً مالن رسیوں میں بندی ہوئی حاضر ہوئی بادشاہ نے سب کو ہٹا دیا صرف شہزادہ بیٹھا رہا بادشاہ نے خود اس سے سوال کیا بتا لڑکہ کون تھا جس کو تُو لڑکی بنائ کر شہزادہ کی محل میں لے کر گئی تھی مالن نے جواب دیا غریب پرور ایک دن باغ میں فول چن رہی تھی وہ لڑکہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا بہت کم عمر تھا کوئی تیرہ چودہ برس کا ہوگا موچھ


کہ میں نے اپنی عمر میں ایسا حسن نہیں دیکھا مجھے وہ بہت اچھا لگا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ پردیسی ہے اور سرائی میں ٹھہرا ہے حضور میں بالکل اکیلی رہتی ہوں میں نے اس سے کہا میرے ہاں آ جائے وہ راضی ہو گیا اور اپنا گھوڑا اور کپڑے لے کر آ گیا میں شہزادہ صاحب کی دلہن کے لیے فولوں کا گہنا بنا کر لاتی تھی دو چار دن میں وہ بھی سیک گیا اور مجھ سے اچھا بنانے لگ


تو دلہن صاحبہ نے بہت پسند کیا اس لڑکے نے مجھے سکھا دیا تھا کہ کبھی وہ پوچھے تو کہہ دینا میری بھانجی سسرال سے آئی ہے اس نے بنایا ہے میں نے یہی کہہ دیا دلہن صاحبہ نے حکم دیا کہ کل اس کو لے کر آنا میں ڈر گئی بہت بحانیں کیے مگر انہوں نے کہا اگر نہیں لاتی تو ہم تجھے سزا دیں گے میں نے جا کر گھر میں کہا اس لڑکے نے مجھے سمجھایا اممہ ڈرو نہیں تھوڑی


حضور میری شامت نے گھیرا تھا میں اس کی باتوں میں آ گئی اور اپنے ساتھ اسے لے آئی مگر غریب پرور میں سامنے بیٹھی رہی اس نے تو دلہن صاحبہ سے بات تک نہیں کی گھنگٹ نکالے ان کے بال سوارتی رہی شہزادی نے گسے کے لحجے میں کہا سوارتی رہی بڑیا بولی جی سرکار اس کے بعد میں اس کو ساتھ لے کر چلی گئی وہ کپڑے بدل کر ہوا خوری کو چلا گیا بارہ بجے رات تک واپس نہیں آیا تھا میں اسی کے انت


اب حضور جو چاہیں سزا دیں شہزادہ نے پوچھا کیا وہ گھوڑے پر گیا تھا مالن نے ہاتھ جوڑ کر کہا میں اپنی کوٹری میں پڑھی تھی مجھے خبر نہیں کہاں پر گیا تھا مگر جب سپاہی مجھے پکڑ کر لائے تو اس کا گھوڑا نہیں تھا شہزادہ نے اٹھ کر بڑیا کی رسییں فول کر کہا جا تیرا قسور ماف کیا ابھی میری نظروں کے سامنے سے دور ہو جا بڑیا گرتی پڑتی ہزاروں دعائیں دیتی ہوئی چ


یا تو تم نے فانسی کی سزا تجویز کی تھی یا بالکل ماف کر دیا حالانکہ وہ زنانہ محل میں لڑکے کو لے کر گئی تھی یہ اس نے جرم کا کام کیا تھا شہزادی نے گردن جھکا کر کہا ابا جان وہ لڑکا نہیں تھا لڑکی تھی بادشاہ نے تاج جب سے کہا تمہیں کیسے خبر ہوئی؟ شہزادی نے جواب دیا ابا جان وہ شہزادی محرخ تھی مجھ سے انتقام لےنے آئی تھی میں اس کی لونڈی چمپا کو لے کر آ گیا تھا مجھے


شہزادی چمپا کی چوٹی کھٹ کر لے گئی بادشاہ نے مسکرہ کر کہا بڑی بہدل لڑکی ہے میں اس کی حمد و جرات سے بہت خوش ہوں گا مگر آج تک تم نے تفصیل سے مجھے حالات نہیں بتائے 6 مہینے تک کہاں گائب رہے تھے شہزادی نے سب مفصل حالات بتائے جنگل میں ایک بزرگے کا ملنا اور ان سے منتر کا سیکھنا پھر گھوڑا بن کر جانا وغیرہ وغیرہ کس دیر خاموش رہنے کے بعد بادشاہ


کہ شہزادی محروق کے لیے تمہارا پیغام بھیجیں تم خود گھوڑا بن کر پھر وہاں جاؤ اور شہزادی سے اور اس کے باپ سے معافی مانگو اس کے بعد ہم خود تمہاری بارات لے کر جائیں گے بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے ایک لونڈی کو شہزادی پر ترجیح دی شہزادی نے کہا ابا جان اب میں خود شرمندہ ہوں اور وہ منتر بہت یاد کرتا ہوں مگر بالکل بھول گیا باتشاہ نے کہا


اگر تم شہزادی کو پسند کرتے ہو تو اس کے باپ کو خط لکھو ورنہ کہیں اور تمہاری شادی کر دیں گے مگر چمپا کو نکال باہر کرو اس کی وجہ سے ہم اپنے برابار بالوں سے بہت شرمندہ ہیں تمہاری ما اسی گم میں گھلی جا رہی ہیں شہزادی نے جواب دیا چمپا کو میں نے رات ہی کو نکال باہر کیا تھا مجھے تو صرف اس کے بال پسند تھے اب شہزادی کا حال سنو اس نے رات و رات وہ جنگل پار کیا جہاں بابا ملے تھے


ان کی جھوپڑی بن تھی اندر چراک ٹیم ٹیمہ رہا تھا شہزادی نے سوچا اگر یہاں ٹھہرتی ہوں تو پیچھے سے شہزادے کے آدمی آکر نہ پکڑ لیں وہ اپنے گھوڑے کی راسیں پکڑ کر خاموش باہر نکل گئی اب صبح ہو گئی تھی تھوڑی دیر اس نے آرام کیا گھوڑا ابھی تھکا ہوا تھا وہ جنگل میں چرتا چکتا رہا دو پہر سے پہلے وہ پھر روانہ ہو گئی اسی طرح دو دن کی منزل ایک دن


بادشاہ بیگم اور بادشاہ لڑکی کی طرف سے مایوس ہو چکے تھے مہل میں اداسی چھائی ہوئی تھی اچانک شہزادی مہل میں دافل ہوئی کنیزیں خوشی خوشی بادشاہ بیگم کے پاس اطلاع کرنے دونی شہزادی سیدھی اپنی ما کے پاس گئی اور چمپا کی چوٹی ان کے قدموں میں ڈال کر کہا امہ جان میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی انہوں نے بیٹی کو کلی جیسی لگا لیا بادشاہ کو خبر پہنچی تو وہ فورا


تم نے ہمارے آنے کا انتظار کیا ہوتا ہم فوج لے کر چڑھائی کر دیتے شہزادی نے کہا ابا حضور وہاں کوئی نہیں جا سکتا اس نے مفصل حال سنائیا غرز اس رات کو شہر میں چراغہ ہوا غریبوں اور محتاجوں کو خیرات تقسیم کی گئی ایک ہفتے تک شہزادی نے آرام کیا مگر وہ خاموش اور اداز رہتی تھی نہ سیر و تفریسے مطلب تھا نہ شہواری اور شکار کا شوق رہا


اپنے کمرے میں مو سر لپیٹے پڑی رہتی تھی۔ اس کی صحیلیوں اور کنیزوں نے بادشاہ بیگم سے کہا، ایک دن انہوں نے شہزادی کو بلا کر کہا، ویٹی، میری اور بادشاہ سلامت کی خواہش ہے کہ تمہاری شادی کر دی جائے۔ شہزادی نے جواب دیا، امہ جان، جس دن ابا حضور نے مجھے گھوڑا انائت کیا تھا، میں نے اپنے دل میں ایت کر لیا تھا کہ میں شادی نہیں کروں گی۔ جب تک وہ جانور کے روپ میں رہا، مجھ


شاید انسان کی یہی فطرت ہے اب میں شادی نہیں کروں گی مردوں کی ذہنیت بڑی خراب ہوتی ہے اگر آپ کسی دوسرے شہزادے سے میری شادی کر دیں گی تو وہ کسی اور لونڈی کو پسند کر لے گا میری کنیزوں میں کئی بہت خوبصورت بھی ہے چمپا جیسی بد سورت کو وہ شخص نے پسند کر لیا تو اب مجھے کسی پر بھروسہ نہیں رہا میری زندگی بہت آرام سے بزر رہی ہے اب زیادہ وقت عبادتِ الہائی میں سرف کروں


جو کوئی غری معتاج ہمارے شہر میں آیا کرے گا، تین دن میں اس کو اپنے مسافر خانے میں ٹھہرائے کروں گی۔ بادشا بیگم خاموش ہو گئی۔ انہوں نے سوچا، ابھی اس کو رنجو گسہ ہے، رفتہ رفتہ ٹھیک ہو جائے گی۔ قصہ مختصر شہزادی کا لنگر خانہ بن کر تیار ہو گیا۔ مسافروں کو وہ اپنے سامنے خانہ تقسیم کرواتی تھی۔ ایک دن لنگر خانے کی دروقرن نے آکر کہا،


حضور ایک فقیرنی ایسی آئی ہے کہ کوئی مسافر اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہا پھٹے دجیاں کپڑے پہنے ہیں پاومے چھالے پڑے ہیں سر پر ایک بال نہیں ہیں کچھ بولتی چالتی نہیں بس روئے جاتی ہے شہزادی نے کہا ہمارے پاس لے کر آو اسی وقت کنیزوں نے اس کو حاضر کیا شہزادی کو دیکھتے ہی وہ قدموں پر گرپڑی اور کہا حضور میں آپ کی کنیز چمپا ہوں شہزادی دس قدم پیچھے اٹھ گئی اس نے


مگر اس کی حالتِ ذار دیکھ کر رحم آ گیا اور کہا تُو اپنی ذرنگار مسہری اور ذرد درزی کپڑے چھوڑ کر یہاں کیوں آ گئی؟ اس نے روتے ہوئے کہا حضور شہزادے کو میرے بال پسند تھے جب بال نہیں رہے تو انہوں نے ٹھوکرے مار کر نکال دیا میں جنگلوں میں ماری ماری فرتی رہی ایک دن جنگل میں ایک ضعیف آدمی ملے انہوں نے میرے سر پر ہاتھ فیر کر راستہ بتایا وہاں سے چلی تو جو تھوڑے سے


وہ حفشیوں کی طرح ہو گئے۔ سب لوڑیوں کا نیزوں نے کہا بہت اچھا ہوا۔ اپنے مالک کے سانت دگہ کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ شہزادی نے اس کو بادشاہ بگم کے پاس بھیج دیا اور کہلوایا ہم نے اس کا قصور ماف کر دیا۔ یہ اپنی سزا کو پہنچ چکی۔ وہ بھی ماف کر دیں۔ غرز وہ پھر شہزادی کی خدمت گاری میں لگا دی گئی۔ شہزادی کو اب بھی سکون نہیں ہوا تھا۔ وہ گھوڑے شہزادی سے بدلہ لینا


ایک دن بادشاہ سلامت کے پاس کنگن دیس کا ایلچی بہت سے توفے تحائف لے کر آیا اور شہزادی کا خط لا کر دیا۔ اس نے معافی مانگی تھی اور شہزادی ماہ رکھ سے شادی کی خواہش کی تھی۔ بادشاہ نے ایلچی کو تو مہمان خانے میں ٹھہرانے کا حکم دیا اور وزیر کو بلا کر مشورہ کیا۔ اس نے جواب دیا، حضور بغیر شہزادی کے مشورے کے کوئی جواب نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ گھوڑا آپ نے انہیں کو مرحمت فرمایا تھا۔ اس نے ان


وہ جو کچھ فرمائیں اس کے اوپر عمل کیا جائے بادشاہ محل میں آئے اور اپنی بیگم کو شہزادی کا خط دے کر کہا تم مہرک کو خط دکھا دو جو کچھ وہ جواب دے ہمیں بتا دینا بادشاہ بیگم نے شہزادی کو بلا کر کہا بادشاہ سلامت تمہاری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں اس نے کچھ توکف کے بات کہا امہ جان مجھے ایک رات کی محلت دی رہیے سوچ کر بتاؤں گی رات کو وہ بڑی دیر تک اس مسئلے پ


اس کو گھوڑے سے دلی لگاؤ ہو گیا تھا اس کے جانے کے بعد جو کچھ مشکلیں شہزادی نے جھلی وہ خود ہی سمجھتی تھی جنگلوں میں ماری ماری فری شادی کرنے سے انکار کر دیا اب خود شہزادہ خوایش مند تھا اور مافی مانگ رہا تھا انکار نہیں کرنا چاہیے مگر جس طرح اس نے میرے جی جلائیا ہے میں بھی اس کو جلاؤں گی اس نے اپنے دل میں ایک منصوبہ بنائیا اور مطمئن ہو کر سو گئی دوسرے دن اس نے اپنی ایک سہلی کے معرفت


کہ وہ بادشاہ سلامت سے کہہ دیں کہ اگر حقیقت میں وہ شادی کرنا چاہتا ہے تو خود آکر محروق سے بات کرے۔ شادی کے معاملے میں وہ اپنے آپ پر مختار ہے۔ قصہ مختصر، یہاں سے بھی بادشاہ نے اپنے ملک کے بہترین تحائف دے کر ایلچی کو رقصت کیا۔ شہزادہ فوراً راضی ہو گیا اور اپنے خاص خاص مشیروں کو ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔ کچھ دن کے بعد وہ شہر میں داخل ہوا۔ اتلاع ملتے ہی بادشاہ نے بزیر کو اس کے استق


اور ایک خاص محل میں اس کی ٹھرنے کا انتظام کروا دیا۔ دوسرے دن صبح شہزادی نے اپنے خاص باغ میں جہاں شہواری کی مشک کرتی تھی۔ شہزادی سے ملنے کا وقت مقرر کیا اور شاہی لباس پہن کر اپنی سہلیوں اور کنیزوں کو سانتھ لے کر باغ میں گئی۔ اس کے علاوہ چمپا کو شہزادوں کا سا لباس پہنوہ کر اس کے سر پر تاج رکھا اور ایک نہائیت قیمتی گھولے پر سوار کر کے اپنے سانتھ لیا۔


وقت مقرر پر خواجہ سراؤں نے شہزادے کو باگ میں پہنچا دیا یہاں کیا دیکھتا ہے کہ شہزادی ایک حبشی غلام کے ساتھ شہواری کی مشک کر رہی ہے وہ گسے سے کامپنے لگا اور اپنی کمر سے خنجر نکال لیا شہزادی اس کے استقبال کو آگے بڑھی چمپا اور سب کنیزوں کو وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا اس نے شہزادے کے قریب جا کر کہا آپ کی تشریف آبری سے بڑی خوشی ہوئی اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خنجر میان


مگر شہزادی کے خسن و جمال کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہیں اٹھ سکا اس نے غُس سے کے لحجے میں پوچھا تم کس کے ساتھ گھڑ دول کر رہی تھی؟ شہزادی نے مسکرہ کر کہا آپ کے غلام کے ساتھ شہزادی نے انتہائی غُس سے کی حالت میں کہا میرا غلام یہاں کیسے آیا؟ شہزادی نے ہزکر کہا جیسے میری لونڈے کی کنگن دیس گئی تھی شہزادی نے اپنے خنجر کو اٹھاتے ہوئے پوچھا کیا تم اپنے ساتھ لائی


آپ کو میری لونڈی پسند آگئی تھی مجھے آپ کا غلام پسند آگیا شہزادہ نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے کہا کیا تم نے مجھے یہاں ذلیل کرنے کو بلایا ہے پہلے میں اس غلام کا سر تن سے جدہ کروں گا پھر تمہیں ماروں گا مجھے نہیں معلوم تھا تم اس قدر ذلیل ہو شہزادہ نے مسکرہ کر کہا شہزادہ صاحب گسے میں آپ اسے بہر کیوں ہوتے ہیں عورتیں ایسی حرکت نہیں کر سکتیں وہ ایک دفعہ کسی سے محبت کرتی


مجھے گھوڑے سے محبت ہو گئی تھی اس نے میرے ساتھ دگا کی اور میری ایک ادنہ لونڈی کو لے کر چلا گیا اور مجھے اشتلال دلا کر گیا کون آئے گا کنگن کے دیس کون کٹے گا چمپا کے کیس میں خودار تھی اپنی توہین کسی حال میں برداشت نہیں کر سکتی تھی اگر آپ مجھے تانہ دے کر نہ جاتے تو میں کبھی کنگن دیس نہ جاتی اپنا تمام بکت عبادت الہی میں گزار دیتی آپ کو معلوم ہے میں بھی اپ


میری پرورش بڑے نازونیم کے ساتھ ہوئی تھی مگر میں نے کئی مہینوں جنگلوں کی خاک چھانی ہے آپ چمپا کے ساتھ ایش و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے اور میں شیروں اور بھیڑیوں کی مو میں تھیں آپ نے مجھے پہلے بھی ایک کمزور لڑکی سمجھ کر دھوکہ دیا لیکن چمپا کے بال کٹ جانے کے بعد آپ کو موکی کھانی پڑی اور اس وقت بھی آپ اپنی طاقت استعمال کرنا چاہتے ہیں مہربانی کر کے اپنا خنجر میان میں رک


اور تاج زمین پر فینکتے ہوئے کہا یہ آپ کی نور نظر چمپا ہے اگر آپ اس کو لے جانا چاہتے ہیں تو شوق سے لے جائیں مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا شہزادی نے گردن چھکا کر کہا میں تم سے بہت شرمندہ ہوں بلکہ تمہارا گناہ گار ہوں تم نے مصدر پورا پورا انتقام لے لیا تمہیں اس غلام کے ساتھ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا تھا شہزادی نے مسکرہ کر کہا


اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ گھوڑا جس کو میں اپنے ہاتھ سے کھلاتی پلاتی تھی اور زیادہ وقت اس کے استبل میں گزارتی تھی وہ چمپا کو لے کر فرار ہو گیا تو میرے دل پر کیا گزری ہوگی؟ شہزادہ نے ندامت سے کہا بار بار اس ذکر کو نہ دوراؤ میں اپنے کسور کی معافی مانگتا ہوں شہزادہ نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کنیزوں سے کہا شہزادہ صاحب کے لئے کرسی لاؤ بڑی دیر سے کھڑے


میں اپنا استبل دیکھنا چاہتا ہوں۔ شہزادی نے جواب دیا جب گھوڑا نہیں رہا تو استبل بیکار تھا اس کا میں نے مسافر خانہ بنوادیا ہے ایک دن وہاں چمپہ بھوکی پیاسی پھٹے کبڑے پہنے آئی تھی اس نے بتایا کہ اس کے بال کٹھنے کے بعد آپ نے ٹھو کریں مار کر اس کو نکال دیا ہے بڑی اپسوز کی بات ہے جب عورت دل سے اُتر جاتی ہے تو مرد اس کے ساتھ یہ سنوک کرتے ہیں شہزادہ بولا اس ذکر


اس کے مطالب تمہاری کیا راہ ہے؟ شہزادی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بات کہا آپ اب و جان سے مل کر اپنا مقصد بیان کیجئے میں ان کا حکم نہیں ٹال سکتی تھوڑی دیر شہزادہ یہاں بیٹھ کر بادشاہ سلامت کے پاس گیا اور ان سے شادی کی درخواست کی انہوں نے جواب دیا بیٹا میں تم سے مل کر بہت خوش ہوگا مگر تمہارے والد صاحب کی طرف سے پیغام آنا چاہیے اگر ہم نے تمہارے کہنے سے یہ رشتہ منظور کر


شہزادی نے گردن چھکا کر کہا ابا جان کی مرضی سے میں آیا ہوں وہ آپ سے بہت شرمندہ ہیں میں نے آپ کو اور آپ کی شہزادی کو رنج پہچایا تھا انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ اپنا قصور ماف کروا کر آو بادشاہ سلامت نے اسے سینے سے لگا کر کہا بیٹا ہم نے تمہیں ماف کیا اپنے والد کو ہمارا سلام کہنا اور کہنا کہ ہماری یہی ایک لڑکی ہے اگر آپ بزات خود بارات لے کر آئیں تو ہم یہ رشتہ کرنے کو تیار ہیں


غرض شہزادہ اسی دن روانہ ہو گیا دونوں بادشاہوں کے درمیان الچی کے ذریعے شادی کی تاریخ مقرر ہوئی اور بڑی دھوم دام سے شادی کی رسم آدھا ہوئی اور کہانی بھی ختم ہوئی پیارے دوستو کہانی کیسی لگی ہمیں کمینٹ کر کے ضرور بتائیں 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow