قصہ لکڑہارے کی عقلمند شہزادی کا

قصہ لکڑہارے کی عقلمند شہزادی کا

Oct 25, 2024 - 13:01
 0  6
قصہ لکڑہارے کی عقلمند شہزادی کا
قصہ لکڑہارے کی عقلمند شہزادی کا


 اسلام علیکم ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملک کا بادشاہ بہت ہی ایماندار بہادر اور رحمدل انسان تھا وہ اپنی ریایا کا بہت خیال رکھتا تھا بادشاہ کی ملکہ بھی بہت اچھی خاتون تھی ملکہ ایک غریب لکڑ ہارے کی بیٹی تھی ایک دن بادشاہ شکار کھیلتے ہوئے جنگل میں بہت دور تک نکل گیا اور اچانک موسم بھی خراب ہو گیا آندھی


کسی کو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا سب سپائی اور ساتھی بچھڑ گئے جیسے جیسے شام کے سائے پھیلتے گئے بادشاہ کو واپسی کی فکر لاہک ہونے لگی لیکن بادشاہ رستہ بھٹک گیا تھا بادشاہ اب واپس نہیں جا سکتا تھا لیکن جنگل جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا جنگل میں بھی رات نہیں بیٹائی جا سکتی تھی اس لئے بادشاہ کوئی محفوظ پناہ کا تلاش کرنے لگا چلتے چلتے


تو آگے جا کے کیا دیکھتا ہے کہ یہاں تو ایک چھوٹا سا جھوپڑا ہے نیک دل بازشاہ نے دروازہ کھٹکٹ آیا اندر سے ایک بوڑا کھاستا ہوا باہر آیا بازشاہ نے بتایا کہ مصافر ہوں راستہ بھٹک گیا ہوں باہر موسم خراب ہے مجھے پناہ کی ضرورت ہے بوڑا آدمی بازشاہ کو اندر لے آیا اس کی ایک جوان خوبصورت بیٹی بھی تھی وہ دونوں باب بیٹی یہاں جنگل میں رہتے تھے


اور بوڑا لکڑیاں کارت کر شہر بیچ کر گزارہ کرتا تھا بادشاہ کے لئے لڑکی نے بہت اچھا کھانا تیار کر کے دیا کھانا سادہ تھا اور بہت مزے کا بنا ہوا تھا پھر اس کے لئے ایک اچھا ارام دے بستر بنا کے دیا بوڑے اور اس کی بیٹی نے اس کا بہت اچھا خیال رکھا صبح بادشاہ اپنے محل تو واپس آ گیا مگر اسے بوڑے لکڑ ہارے کی خوبصورت اور نیک بیٹی بہت یاد آئی جس نے اسے ا


اس کا اتنا اچھا خیال رکھا بادشاہ کی شادی اس کے اپنے چچہ کی بیٹی سے ہونی تھی پر وہ لڈکی بہت مغرور اور چالاک تھی بادشاہ نے شادی سے انکار کر دیا اور فیصلہ سنائیا کہ وہ جنگل میں موجود لکڑہارے کی بیٹی سے شادی کرے گا اور یوں بادشاہ کی شادی لکڑہارے کی بیٹی سے ہو گئی بادشاہ کی چچہزاد کو اس کا بہت رنج ہوا وہ موکی کی تلاش میں رہنے لگی بادشاہ کے ہاں پہل


اگلے سال پھر بیٹی ہوئی تب دوئے لفظوں میں بادشاہ کی چچہ نے کہا کہ حکومت لڑکہ ہی سنپالتا ہے اس لئے بادشاہ کو دوسری شادی کرنی چاہیے پر بادشاہ نہ مانا جب چچہ زیاد کی شادی کے سارے راستیں بند ہو گئے تو اس نے آجتہ آجتہ وزیر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور وزیر کو شادی کا لالج دے کر ملکہ کے کمرے میں سانپ چھڑو دیا سانپ کے ڈسنے سے ملکہ مر گئی بچ


جب چچہزاد نے اپنی دار نہ گلطی دیکھی تو ایک دن چپکے سے وزیر کے ساتھ مل کر بادشاہ کو بھی زہر دے دیا اور یوں اقتدار خود سمبار لیا بادشاہ کی ایک پرانی نوکرانی یہ سب دیکھ رہی تھی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ جل ہی شہزادیوں کو بھی مروا دے گی اس لئے نوکرانی دونوں بچیوں کو لے کر رات کے سناٹے میں کہیں دور چلی گئی یوں ایک نیک دل حکمران کی ریائے کو ایک ظالم اور مغرور حکمران مل گیا


بوڑی نوکرانی لڑکیوں کو لے کر جنگل میں آ گئی اور ان کی پربرش کرنے لگی۔ وقت گزرتا رہا اب دونوں لڑکیاں جوان ہو چکی تھی۔ اسی دوران ایک دن بوڑی نوکرانی بہت سخت بیمار ہو گئی اور مرنے کے قریب ہو گئی۔ تب اس نے دونوں کو پاس بلا کے بتایا کہ وہ درحقیقت شہزادیاں ہیں اور ان کے ماباب کے ساتھ کیا ہوا؟ نوکرانی کے مرنے کے بعد دونوں لڑکیاں اکیلی ہو گئیں۔


وہ ماباب کو یاد کر کے بہت رو دی تھی لیکن کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی یوں ہی دن گزرنے لگے ایک دن ایک شہزادہ جنگل میں شکار کھیلنے آیا اس کا وزیرزادہ بھی اس کے ساتھ تھا شہزادہ نے تیتر شکار کیے اور وزیرزادہ کو دیئے کہ ان کو اچھی سے صاف کر کے بون کر لے آؤ خود شہزادہ ایک گھنے پیڑ کے نیچے آرام کرنے لگا وزیرزادہ نے تیتر صاف کر کے ساتھ لاے مشکیزے سے دھوے


اور تھوڑا دور آگ جلا کر بھوننے لگا اس کی نظر سامنے جھوپڑی پر پڑی جہاں ایک حسین و جمیل لڑکی کھڑی ہوئی وزیرزادے کو حیرہ سے دیکھ رہی تھی وزیرزادہ بھی حیران ہوا کہ جنگل میں اتنی خوبصورت لڑکی کیسے آ گئی وہ اٹھ کر اس کے پاس پوچھنے آیا اور لڑکی سے اپنا ترا روف کروا کر پوچھنے لگا اتنے میں انہیں جن لے کی بو آئی وزیرزادہ بھا


وزیرزادہ بہت پریشان ہوا تو لڑکی نے کہا ہٹو میں تم کو بھون دیتی ہوں پھر اس لڑکی نے اسے تیتر بھون کے دے دیئے شہزادہ کافی دیر سے انتظار کر رہا تھا کہ وزیرزادہ نے اتنی دیر کیوں کر دی پہلے تو بڑی جلدی بھون لیا کرتا تھا وزیرزادہ جب بھونے ہوئے تیتر لے کر واپس آیا اور شہزادہ نے کھائے تو شہزادہ حران ہو کے وزیرزادہ سے پوچھنے لگا


کہ آج تم نے اتنے مزیدار تیتر کیسے بھون لئے؟ آج سے پہلے تو تیرے ہاتھ میں یہ لطت نہیں تھی۔ تب وزیرزادے نے اسے بتایا کہ یہاں سے تھوڑا آگے ایک جھوپڑی ہے۔ اس میں ایک حسین لڑکی رہتی ہے۔ اسی نے بھون کے دیئے ہیں۔ کیونکہ میں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا اور میرے بھونے ہوئے تیتر تو جل گئے۔ ادھر چھوٹی شہزادی واپس جھوپڑی میں آئی۔ وہ جنگل کی دوسری طرف


تو بڑی بہن نے اسے وزیرزادے کے آنے کا سارا کسا سنایا کہ کیسے وہ مجھے دیکھتا رہا اور اس کے لاے ہوئے تیتر جل گئے تب چھوٹی بہن نے بڑی بہن سے کہا کہ دیکھنا وہ اب شہزادے کو لے کر واپس آئے گا اور تم اتنی حسین ہو کہ شہزادہ تم کو پسند کر لے گا تم شہزادے کے ساتھ چلی جانا اور شادی کر لینا میرا نہ بتانا بڑی شہزادی نے ساری بات سن کر انکار کر دیا


کہ نہیں میں تم کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی لیکن چھوٹی شہزادی نہ مانی اس نے کہا میں بھی تمہارے پیچھے آ جاؤں گی پر ہمارا رشتہ دنیا کے سامنے نہیں آئے گا یہ کہتے ہوئے وہ باہر گئی اور جب واپس آئی تو اس کے پاس بہت چھوٹے چھوٹے سفید پھول تھے وہ اس نے اپنی بڑی بہن کو دیتے ہوئے کہا کہ جب شہزادہ تم کو لے کے جائے تو تم تمام راستے یہ پھول ایک ایک کر کے گراتی جانا اس طرح میں تم ت


ساری بات سمجھا کر چھوٹی شہزادی جھومپری سے نکل کر ایک درخت کی اوٹ میں ہو گئی اتنے میں شہزادہ وزیرزادے کے ساتھ آ گیا جیسے ہی اس کی نظر بڑی شہزادی پر پڑھی وہ اس پر فدہ ہو گیا شہزادے نے پوچھا کہ وہ اس جنگل میں تنہا کیا کر رہی ہے تو شہزادی نے اپنی چھوٹی بہن کی سمجھائی ہوئی باتیں شہزادے کو بتانے لگی کہ یہاں میں اپنے ماباب کے ساتھ رہتی تھی


باب میرا لکڑ ہارا تھا جنگر سے لکڑیاں کارٹ کر شہر میں بیج کر گزر بسر کرتے تھے کچھ دن پہلے ہی باب بھی دنیا سے چل بسا اب دنیا میں میرا کوئی نہیں اس لئے اکیلی رہتی ہوں شہزادہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراً شادی کی پیشکش کی اور ساتھ چلنے کو کہا تو شہزادی چلنے کو تیار ہو گئی شہزادی نے ایک گٹڑی لی جس میں سفید پھول تھے شہزادہ نے شہزادی کو اپ


اور چل دیا بڑی شہزادی ایک ایک کر کے پھول گراتی رہی ادھر چھوٹی شہزادی درخت کی اوٹ سے نکلی اور سفید پھولوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگی شہزادہ شہزادی سمید محل میں پہنچا اور سیدہ بادشاہ اور ملکہ کے پاس آیا اور ان کو شہزادی کی ساری کہانی سنائی اور بتایا کہ وہ شہزادی سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے شہزادے کی پہلی بیوی اس کی خالہ کی بیٹی تھی


بیوہ ہونے کے بعد محل میں ہی رہتی تھی جب ان ماہ بیٹھی کو پتہ چلا تو ان کو بہت غصہ آیا پر شہزادہ کی بیوی جانتی تھی کہ شہزادہ جس کام کی ٹھان لے وہ کر کے ہی رہتا ہے اس لئے اس نے بظاہر بے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ کتنا اچھا لگے گا شہزادہ کی پیر سے شادی ہوگی اور ہم سوکنے نہیں بلکہ بہنے بن کر رہیں گی


جب یہ خوشی سے اجازت دے رہی تھی تو باقی کس کو بلا کیا اطراف ہو سکتا تھا؟ یوں دھوم دام سے شہزادہ کی شادی ہو گئی چھوٹی شہزادہ پول چنتے چنتے دو دن بعد شہر میں داخل ہوئی تو شہر میں جشن کا سما تھا اس نے ایک بوڑی عورت سے پوچھا امہ کیا بات ہے ہر طرف رونک لگی ہوئی ہے تو بوڑی نے بتایا کہ ہمارے شہزادہ کو جنگل سے ایک پیاری لڑکی ملی ہے اور شہزادہ اس سے شادی کرنے


اس لئے سارا شہر تیاری کر رہا ہے لڑکی نے بوڑی سے پوچھا کہ کیا مجھے کوئی کام مل سکتا ہے میں گاؤں سے آئی ہوں میرے معاباپ نہیں ہیں اور رینے کی جگہ بھی نہیں ہے تو بوڑی عورت کہنے لگی کہ ہاں آج کل محل میں بہت کام ہے میں بھی وہیں جا رہی ہوں بوڑی عورت کی ایک بیٹی تھی جو کچھ دن پہلے ہی بیمار ہو کر مر گئی تھی اس نے چھوٹی شہزادی سے کہا تم میری بیٹی بن کر میرے پ


یہ بوڑی عورت جوانی میں مہل میں نکرانی ہوا کرتی تھی اب بڑا بکی وجہ سے کام چھوڑا ہوا تھا شہزادی نے کہا ٹھیک ہے پر امہ میں کام کرنا چاہتی ہوں کیا تم مجھے مہل میں کام دلات سکتی ہو؟ بوڑی عورت شہزادی کو لے کر مہل کی طرف چل دی جہاں ہر طرف شادیانے بج رہے تھے بوڑی امہ اس کو لے کے جب مہل میں پہنچی تو سامنے سے شہزادی کی پہلی بیوی آ رہی تھی


بوڑی اماما نے تسلیم بجاتے ہوئے بتایا یہ میری بھانجی ہے آج ہی گاؤں سے آئی ہے اس کے ماباب مر چکے ہیں اس کو محل میں کام پر رک لیں شہزادے کی پہلی بیگم نے کش دیر چھوٹی شہزادی کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچا پھر اسے ساتھ لے کر اپنے کمرے میں آ گئی اور کہنے لگی یہاں محل میں سب کنیز ملکہ کی تابع دار ہیں میں کسی کو بھی نہیں خرید سکتی تم اگر میرے لئے کام کرو


تو میں تم کو بہت سارا زیور پیسہ دوں گی۔ چھوٹی شہزادی جان چکی تھی کہ یہ شہزادی کی پہلی بیوی ہے۔ دوسرا اس کی باتوں سے اسے بھی سازش کی بو آنے لگی تھی۔ اس لئے جلدی سے بولی ہاں جی ملکہ صاحبہ میں آپ کی ہر بات مانوں گی۔ اس کی بات سن کر ملکہ مسکراتے ہوئے بولی ابھی ملکہ نہیں اس کی بہو ہوں ابھی شہزادہ بادشاہ نہیں بنا۔ اس پر اکل من شہزادی نے کہا


کہ آپ کا اقبال بلن ہو اللہ نے چاہا تو بہت جلد آپ ملکہ بن جائیں گی جس پر پہلی بیوی کہنے لگی کہ تم بہت کام کی چیز ہو بس تم آج سے اس محل میں میرے کہنے کے مطابق چلنا اس پر اقل من شہزادی کہنے لگی جی جی بالکل آپ مجھے زبردست پائیں گی شہزادے کی پہلی بیوی اس لئے بڑی شہزادی کے کمرے میں آئی اور اس سے کہنے لگی یہ آج سے تمہاری کنیز ہے


اس سے کروالینا۔ اس پر جب شہزادی نے چھوٹی شہزادی کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور جلدی سے پہلی بیوی کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی آپ کتنی اچھی ہیں۔ شہزادی کی پہلی بیوی کہنے لگی کہ محل میں بہت کام ہے میں ذرا وہ دیکھاؤں۔ اس کے جاتے ہی دونوں بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں چھوٹی نے بڑی کو نہیں بتایا کہ یہاں محل میں اس سے کیا کام لیا جائے گا۔


شہزادہ کی شادی ہو گئی سب بہت خوش تھے سوائے شہزادہ کی پہلی بیوی کے چھوٹی شہزادہ سارا دن اس کے پاس رہتی وہ دونوں مل کر سوچتی رہتی کہ کیسے دوسری بیوی سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے تھوڑے دن بعد بڑی شہزادہ امید سے ہو گئی یہ خبر بڑی بیوی کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی کیونکہ وہ اب تک شہزادہ کو اولاد نہیں دے سکی تھی ملکہ، بادشاہ اور شہزادہ بہت خ


اس لئے شہزادی کا خاص خیال رکھا جانے لگا ادھر پہلی بیوی چھوٹی شہزادی کے ساتھ مل کر سوچنے لگی کہ کیا کیا جائے چھوٹی شہزادی بہت پریشان رہنے لگی اس نے بڑی بہن سے کہا کہ یہاں سے کہیں دور چلو اب چھوٹی شہزادی اس کو یہ بھی نہیں بتا سکتی تھی کہ شہزادی کی بڑی بیوی اس سے کتنا جلتی ہے وہ اگر بتا بھی دیتی تو کسی نے یقین نہیں کرنا تھا کیونکہ بڑی بیوی سب کے س


بہت زیادہ خیال رکھتی تھی چھوٹی بیوی کا چھوٹی بہن کی بات سن کر بڑی بولی کہ سم مجھے بہت پیار کرتے ہیں تمہیں میں نے اس وقت کہا تھا کہ ساتھ چلو پر تم نہیں مانی اور کہا کہ اپنا اور میرا رشتہ سب سے چھپا کے رکھنا تم اگر ابھی کہو تمہیں شہزادے کو بتا دیتی ہوں کہ تم میری بہن ہو پر اقل من شہزادی جانتی تھی اب بتانے کا مطلب تھا کہ شہزادییں جھوٹی ہیں


اور انہوں نے جانبوچ کر اپنا رشتہ چھپایا، شاید یہ دونوں بہنیں کسی سازش کے لئے محل میں آئی ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے چھوٹی بہن نے سختی سے بڑی کو منع کر دیا کہ وہ کسی کو یہ نہیں بتائے گی۔ کچھ دنوں بعد جب ولادت کا وقت قریب آیا تو شہزادی کی پہلی بیوی نے دائی اور چھوٹی شہزادی کو بہت سے پیسے دیئے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہو تم بچے کو اٹھا کر مار دینا اور اس جگہ بلی کا بچہ رکھ دینا۔


چھوٹی شہزادی نے کہا کہ یہ کام میں بہت آسانی سے کروں گی چنانچہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوا تو بڑی شہزادی کی بےہوشی میں دائی نے بچہ چھوٹی شہزادی کو دیا کہ جا کر اس کو مار دو اور اس کی جگہ بلی کا بچہ رکھ دیا چھوٹی شہزادی جلدی سے بچے کو کپنے میں لپیٹ کر پچھلے دروازے سے گھر آئی اور بوڑی امہ سے کہا امہ یہ بچہ میری بہن کا بچہ ہے اس کا کسی سے ذکر م


اس کو بکری کا دود پلاؤ میں شام کو آکھر اس کو سنبھالتی ہوں بوڑی امہ نے کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ چھوٹی شہزادی جلدی میں تھی اور بچہ رکھ لیا شہزادی جب مہل میں واپس آئی تو وہاں عجیب صورتحال تھی دائی نے سب کو بتایا کہ شہزادی نے انسان کے بجائے بلے کے بچے کو جنم دیا ہے سب بہت افسوردہ اور حیرام تھے شہزادی رو رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی کہ یہ جھوٹ ہے


پر کوئی بھی اس سے بات نہیں کر رہا تھا چھوٹی شہزادی نے ایک بار پھر بین سے بولا کہ وہ میرے ساتھ چلے مہل والوں کو چھوڑ کر اپنی دنیا بساتے ہیں پر وہ نہ مانی کہنے لگی کہ وہ شہزادے سے بے پناہ محبت کرتی ہے اس لیے وہ شہزادے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی چھوٹی شہزادی روتے ہوئے گھر آئی اور بوڑی امہ کو سارا قصہ سنایا اس پر امہ بولی کہ اس کو اس کے حال پر چھو


اس بچے کی اچھی سی پربرش کریں گے۔ جب وقت آیا تو خود ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ وقت گزرنے لگا اسی دوران بادشاہ کی طبیت خراب ہوئی اور وہ سیحت مند نہ ہو سکا اور اس کی وفات ہو گئی۔ اب شہزادے کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ شہزادے کی ماہ شہور کے وفات کے بعد گوشہ نشین ہو گئی۔ اس لیے ساری مملکت کی ذمہ داری شہزادے جو کے بادشاہ تھا اور اس کی دونوں ملکاؤں نے سمپھال لی۔


ایک بار پھر چھوٹی ملکہ امید سے ہوئی اب کی بار بڑی ملکہ نے چھوٹی شہزادی کو بہت سا انعام دیا اور کہا کہ اب کی بار بچی کی پیدایش پر کتے کا بچہ رکھ دینا اس پر اقل من شہزادی کہنے لگی کہ ایسا نہ کریں آپ کی بھی اولاد نہیں ہے بھاشا کو ولی عہد کی بھی ضرورت ہے ملکہ بگڑ کر بولی کہ اگر کام نہیں کرنا تو چلی جاؤ میں یہ کام کسی اور سے کروالوں گی


اس پر چھوٹی شزادی فوراً بولی ارے نہیں نہیں ملکہ سائبہ میں تو مزاق کر رہی تھی چھوٹی شزادی نے ایک بار پھر چھوٹی ملکہ جوکے اس کی بہن تھی اس کو سمجھایا کہ یہاں سے چلی چلو پر چھوٹی ملکہ نے کہا کہ اب تو میں ملکہ بن گئی ہوں اور مجھے لگتا ہے تم مجھ سے جلنے لگی ہو چھوٹی شزادی اس کی کمقلی پر معتم کر کے رہ گئی بلادت کا وقت ہوا تو


چھوٹی شزادی نے بچہ پیدا ہوتے ہی اٹھا لیا اور دائی نے اس کی جگہ کتے کا بچہ رکھ دیا چھوٹی شزادی پہلے کی طرح پچھلے دروازے سے بچہ لے کر گھر آئی اور امہ کو دے دیا اور خود اُلٹے پاؤں واپس بھاگ گئی مہل میں ایک کہرام مچا ہوا تھا بڑی ملکہ نے کہا کہ مجھے تو یہ عورت لگتی ہی نہیں پہلی بار اس نے بلے کا بچہ پیدا کیا دوسری بار کتے کا


بس اب اس کو قید کیا جائے ورنہ اگلے سال نا جانے یہ کیا پیدا کرے گی بادشاہ بھی بہت مایوس ہو چکا تھا اس لئے اس نے وزیر ذادے کو جو کہ اب باپ کے جگہ وزیر بن چکا تھا حکم دیا کہ وہ ایک بڑا سا پنجرا بنوائے اور چھوٹی ملکہ کو اس میں بند کر کے شہر کے چوگ میں رکھ دیا جائے سارے لوگ آتے جاتے اس پر ٹھو ٹھو کریں گے یہ سزا اس کو تین دن دی جائے گی اس کے بعد


قید میں تا عمر ڈال دیا جائے گا وزیر نے بادشاہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ نجانے مجھے لگتا ہے چھوٹی ملکہ محسوم ہے پر بادشاہ نہ مانا آخرکار ایک بڑے پنجرے میں شزادی کو شہر کے چوک میں رکھ دیا گیا جہاں ہر آنے جانے والے لوگ اس پر تھوکتے تھے تین دن بعد چھوٹی ملکہ کو قید میں ڈال دیا گیا بڑی ملکہ نے جو چاہا تھا وہ اسے مل گیا تھا ب


وہ بہت خوش تھی۔ کبھی کبھی بازشاہ کو چھوٹی ملکہ کی یاد تو آتی تھی پر ساتھ ہی بلی اور کتے کے بچے یاد آتے تو وہ ملکہ سے نفرت کرنے لگتا۔ ادھر چھوٹی شہزادی نے ملکہ سے کہا کہ اب اس کی شادی ہے۔ اس لئے وہ مہل کا کام چھوڑ کر جا رہی ہے۔ ملکہ کو کنیزوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ چھوٹی شہزادی، بوڑی امہ اور دونوں شہزادوں کو لے کر جنگل میں واپس اپنی چھوپ


اور دونوں بچوں کی پرویرش کرنے لگے۔ پانچ سال بعد ایک دن باشا اپنے وزیر کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا۔ باشا اور وزیر اپنے گھوڑوں کو ندی کے کنارے پانی پلانے گئے۔ ابھی وہ پانی پلا ہی رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں دو نیحائیت خوبصورت بچے لکڑی کے گھوڑے لئے آئے اور آتے ہی ندی کے کنارے ان کو پانی پلانے لگے۔ اور ساتھ ہی گھانہ گا رہے تھے۔


کارٹ کا گھوڑا لوہی کی لگام چھو پانی پی لے اے میرے غلام بادشاہ کو بڑی حرانگی ہوئی وہ ان کے پاس گیا اور پیار سے بولا کہ پیارے بچوں کیا کبھی لکڑی کے گھوڑے بھی پانی پیتے ہیں اور لوہی کی بھی لگام ہوتی ہے اس پر بڑے لڑکے نے بولا کہ کیا کبھی ایک انسان عورت بھی بلی یا کتے کے بچے کو جنم دے سکتی ہے بچے کی اس بات پر بادشاہ اور وزیر دونوں چونک گئے بادشاہ نے کہا


یہ سبک تم کو کس نے پڑھایا ہے؟ اس پر بچے بولے کہ ہماری خالہ نے بادشاہ نے بچوں سے کہا کہ تماری خالہ کہاں ہے مجھے ابھی اس کے پاس لے چلو بچے بادشاہ اور وزیر کو اسی جھوپڑی میں لے کر آئے جہاں کچھ عرصہ پہلے بادشاہ آیا تھا اور شہزادی کو اپنے ساتھ لے گر گیا تھا بادشاہ یہاں اپنی پرانی کنیز کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور پوچھا کہ اے لڑکی یہ بچے کون ہیں اور یہ س


چھوٹی شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کچھ سال پہلے یہاں سے جس لڑکی کو لے کر گئی تھے میں اس کی بہن ہوں مجھے پتہ تھا کہ محلوں میں سازشیں ہوتی ہیں اس پر بادشاہ نے کہا تُو میں پیلے ہی سب کچھ کیسے پتہ تھا اس پر شہزادی بولی کہ ہم بھی کوئی عام ذات کے لوگ نہیں بلکہ ہم دونوں بہنے بھی شہزادیاں ہیں ہمارا باپ بھی آپ کی طرح بادشاہ تھا وہ ایک بار جنگل میں شکار کھیلنے آئے تھے


اور راستہ بھول کر میرے نانا جو ایک لکڑ ہارے تھے ان کے پاس پناہ لینے آئے تھے وہیں ان کو ہماری ماں پسند آ گئی اور بعد میں انہوں نے شادی کر لی مگر محل میں نہ صرف ہماری ماں کے خلاف سازش ہوئی بلکہ ہمارا باپ باشا بھی اس کا شکار ہو گیا اور سازشوں نے کیسے ہمارے ماں باپ کو مار ڈالا ہم دونوں بہنوں کو ہمارے ماں باپ کی ایک وفادار کنیز وہاں سے رات و رات لے کر


اس جنگل میں آئی، ورنہ ہم بھی زندہ نہ بچتے۔ اس لئے میں نے بہن کو منع کیا کہ وہ ہمارا رشتہ کسی سے بیان نہ کرے۔ اگر محل میں سب ٹھیک ہوتا تو کچھ عرصے بعد میں سامنے آ جاتی۔ مگر محل میں پہنچتے ہی مجھے علم ہو گیا کہ بہت جلدی بڑی شغاڑی کے خلاف سازش ہو گی۔ کیونکہ آپ کی ملکہ نے اتفاق سے مجھ سے ہی یہ سارا کام کروانا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جس کے ساتھ مل کر۔


جس کے خلاف ساجش کرنے لگی ہے وہ دونوں آپس میں بہنے ہیں تب پھر چوڑی شہزادی نے شروع سے لے کر مہل چھوڑنے اور بڑی ملکہ کی سزا تک کا سارا قصہ رو رو کر سنایا اور بتایا کہ یہ دونوں بچے کوئی اور نہیں آپ کے ولی عہد ہیں بادشاہ نے دونوں بچوں کو گلے سے لگا لیا بادشاہ اور وزیر بھی شہزادی کی کہانی سنتے ہوئے رونے لگ گئے جب شہزادی ساری کہانی سنا چکی


تو بادشاہ گسے سے کھڑا ہو گیا کہ وہ ملکہ کو نہیں چھوڑے گا اس کا سرکلم کر دے گا مگر شہزادی نے روک لیا اور کہا وہ چھوٹی ملکہ کے مجرم ہے پہلے تو آپ اسے با عزت رہا کریں اس کے بعد چھوٹی ملکہ کو اختیار دیں کہ وہ اس کے لئے سزا تجویز کرے بادشاہ کو اکلمن شہزادی کی تجویز بہت پسند آئی شہزادی جانتی تھی کہ بڑی شہزادی بہت رحم دل ہے


وہ اسے ماف کر دے گی کیونکہ سزا دینے سے بھی وہ وقت واپس نہیں آ سکتا تھا جو چھوٹی ملکہ نے قید میں گزارا تھا ایک بہن نے دوسری بہن کی جدائی اور دو بچوں نے بن ماں کے گزارا تھا بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو اپنے گھوڑوں پر بٹھایا اور وزیر جو کافی دیر سے اکل منت شہزادی کو چپکے چپکے دیکھ رہا تھا اور اس کی یہ حرکت بادشاہ سے پوشیدہ نہیں رہی تھی


اس نے مسکراتے ہوئے حکم دیا کہ وہ شہزادی کو اپنے گھوڑے پر بٹھا لے۔ بزیر بازشاہ کی بات سن کر شہزادی کو گھوڑے پر سوار کرا کے مہل کی طرف چل پڑا۔ واپس آ کر بازشاہ نے بڑی ملکہ کو بیڑیاں پہنائی اور خود جا کر قید خانے میں چھوٹی ملکہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رونے لگا اور کہا اے ملکہ! مجھے سارے واقع کا علم ہو چکا ہے۔ میں تمہیں ازاد کرنے آیا ہوں۔ ملکہ کو


بڑی ملکہ کو اس کے سامنے پیش کیا اور وزیر نے سارا قصہ سب کے سامنے چھوٹی ملکہ کو سنایا چھوٹی ملکہ بہن کو گلے لگائے قصہ سنتی رہی جب اسے یہ پتہ چلا یہ دونوں بچے اس کے اپنے بچے ہیں تو رو رو کر اس کی ہجکیاں بند گئیں وہ بچوں اور بہن کو گلے لگائے روٹی رہی آخر بادشاہ نے کہا کہ آج اس کو اختیار ہے وہ بڑی ملکہ کو سزا دے


مگر چھوٹی ملکہ نے یہ کہہ کر اسے معاف کر دیا کہ گیا ہوا وقت واپس نہیں آ سکتا دوسرا یہ سام میری قسمت میں لکھا تھا جو ضرور ہونا تھا اس لئے میں اسے کوئی سزا نہیں دوں گی جب بڑی ملکہ جو ڈر کے مارے تھرطر کھاپ رہی تھی اس نے یہ سنا تو وہ بھی روتے ہوئے چھوٹی ملکہ کے گلے لگ گئی اور کہنے لگی کہ تم نے مجھے معاف کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا


محل میں جشن کا اعلان کیا گیا اس موقع پر وزیر نے شرما تے ہوئے بادشاہ سلامت سے اپنی اور چھوٹی شزادی کی شادی کی درخواست کی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے چھوٹی شزادی کی طرف دیکھا چھوٹی شزادی نے شرما تے ہوئے گردن جکا لی کچھ دن بعد بہت بڑے جشن میں وزیر اور شزادی کی شادی کر دی گئی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow