دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی

دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی

Oct 24, 2024 - 14:32
 0  4
دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی
دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی

اسلام علیکم یارے دوستو پیش خدمت ہے قصہ دو بھائی حمید اور سعید کا پرانے زمانے میں چین کے ایک گاؤں میں خشحال نام کا ایک بودہ رہا کرتا تھا مہربانوں اس کی بیوی اور حمید اور سعید اس کے دو بیٹھے تھے یہی اس کا ننہ منا خاندان تھا خشحال روز جنگل سے لکنیاں کات لاتا اور ان کو بازار میں بیچ کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا تھا


مہربانوں تو ان کی محل اور ان کی لباس دیکھ دیکھ کر گڑا کرتی تھی مگر بولا تھا نیک آدمی روخہ سوخہ جو کچھ میثتر آتا خوا بھی کر قدہ کا شکر بجالاتا اور اپنی کٹیا میں تھک ہار کر پڑا رہتا


ہاں اس کی بیوی اپنی غریبی اور پڑھوستیوں کی دولت مندی کو دیکھ دیکھ کر آئے دن خدا کو اس نا انصافی پر کوسا کرتی تھی اور جب اپنی بے بسی کو محسوس کرتی تو رو رو کر دعا مانگتی کہ خدا اسے پڑھوستیوں کی طرح رہنے کو اچھے سے اچھا مکان کھانے کو امدہ سے امدہ چیزیں اور آنے جانے کو اچھے سے اچھی سواری دے ایک روز خوشہل لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر پیٹ پر اٹھانے کو تھا


اور اس کے اٹھائی نہ اٹھے گا دو تین مرتبہ اس نے ایڈی سے چوٹی تک کا زور لگایا مگر ہلنا تھا نہ ہلا بولے نے رسی چھوڑ کر گتھے پر جو نگہ ڈالی تو اس پر ایک اڈا رکھا ہوا پایا بولے نے اڈا اٹھایا جیم میں ڈالا اور گتھے کو پھر سے اٹھانا چاہا اب تو گویا اس میں کوئی بوج ہی نہ تھا خوش حالنے شہر میں آکر لگنیاں بیٹھ ڈالی اور خوشی خوشی اڈا لئ


آج ایک اڈا ملا ہے اسے بہچانا مہربانوں پہت خوش ہوئی اور جھٹ سے ایک دکاندار کے ہاں پہنچ گئی دکاندار نے اڈے کو دیکھا بھلا اور جواب دیا اس کی قیمت سو روپیے لوگی مہربانوں حیران ہوئی اور کہا سو روپیے؟ دکاندار سمجھا قیمت کم بتا رہا ہوں مالوں ہوتا ہے بڑیا اس کی قیمت سے واقف ہے کہا اچھا ۔۔۔۔


کہیں دکاندار مجھے بے بکفت نہیں بنا رہا سمھل کر بولی اچھا تمہاری ہی بات صحیح 200 ہی دے دو دکاندار نے فوراً 200 روپیے گن کر اس کے حوالے کیئے مہربانوں روپیے سمال کر گھر پہنچی اور جت خوش آل کے سامنے 200 روپیے کا ڈھیر لگا دیا روپیوں کی چمک اور جھنکار نے خوش آل کو بھی خوش کر دیا یہ ایک آدمی تھا بولا شاید بھلے دن آ رہے ہیں خدا جب دیتا ہے تو چپر پھ


اب ہر روز بلا ناگہ یہی معاملہ پیش آنے لگا ہر روز لپلیوں کے گٹھے پر سے خوشال کو ایک اڑا مل جاتا اور محربان و دکاندار کے ہاتھ اسے دو سو روپیے میں بیچاتی نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے دیکھتے خوشال اور اس کا چھوٹا سا خاندان مالا مال ہو گیا دکاندار تھا بڑا چالا اس نے سن رکھا تھا کہ چین کے جنگلوں میں ایک پرندہ رہتا ہے اگر اس کی کلگی کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے سر پر


یعنی وہ بادشاہ ہو جاتا ہے اور جس شخص کے پاس اس کا دل ہو اسے ہر صبح اپنے تکیے کے نیچے سے 200 روپیے مل جاتے ہیں دکاندار نے دل میں سوچا کہ آؤ ان بدھوں کو بے بکوف بنائے اور ان کے ذریعے سے اس پرندے کی جس کا انڈا مل سکتا ہے کل گئی اور دل حاصل کریں دل میں یہ اٹھانی اور پہنچا خوشال کے پاس اور کہنے لگا بڑے میاں 200 روپیے روز تو کوئی چیز نہیں اگر تم وہ پرندہ پکڑ لاؤ جو یہ


تو جو مانگو گے سوپاوگے اتنا دوں گا کہ لٹائے ختم نہ ہوگا خوشال تو ابھی کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ بھی مہربانوں دکاندار کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں اور لگیں بوڑے کو پرندہ پکڑ لانے کے لیے تاکیت پر تاکیت کرنے دکاندار نے پاس سو روپ یہ پیشگی بھی دیئے اب تو بڑے میہ بھی پسیجے دوسرے دن خوشال لکڑیوں کا گٹھا بان اس کی اوٹ میں بیٹھ گیا اور جو ہی پر


پرندے نے جان بچانے کے لیے بہت زور مارا مگر بڑے میہا کی بازوں میں تو 500 روپیے نے خوب زور بھر دیا تھا زکمی بھی ہوئے مگر پرندے کو نہ چھوڑا آخر پرندہ بگل میں دوائے خوشال نے شہر کا راستہ لیا حمید اور سعید مکتم میں پڑھتے تھے ان کو پرندے کے انڈے اور دکاندار کے سودے اور تاکیت کا حال خوب معلوم تھا آج مولوی صاحب نے ان کو اس پرندے کا حال بھی سنایا اور بتایا کہ اس کی شکل و صورت یہ ہ


اور جس کے پاس اس کی کلگی ہو وہ بادشاہ بن جاتا ہے اور جس کے پاس اس کا دل ہو اس کے ہاں دولت کی ریل پیل رہتی ہے خوشال تو پرندہ مہربانوں کے حوالے کر کے لکڑیاں بیچنے شہر چلا گیا اور مہربانوں پرندے کو ایک ٹاپے کے نیچے بند کر کے کچھ سودہ خریدنے اور دکاندار کو اطلاع کرنے چلی گئی بچوں کو جو کھانا کھانے کی چھٹی ہوئی انہوں نے اس پرندے کو دیکھا اور گھر پائے کھالی اس کو زبا کیا اور ایک نے کلگ


باقی گوشت پکنے کو چولے پر چڑا دیا مہربانوں تو رستے میں ایک سہلی کے ہاں بیٹھ گئی لڑکوں نے کچھا پکا گوشت کھایا اور اسکون کو بھاگے جب وہ شام کے قریب گھر لوٹے تو کٹیا کے اندر سے لڑائی جھگڑے کی آواز آ رہی تھی وہ دروازے پر رک گئے اور سنا کہ دکان دار مارے گسے کے پاغل ہوا جا رہا ہے اور کہتا ہے کہ اچھا تمہارے بچوں کی خیر نہیں پاس سو پیشگی دیا اور اب کل گئی اور دل ن


اور پانچ گوز پر جا کر دم لیا خوشال اور محربانوں بچوں کے پوچ آنے پر اس قدر روے کے اپنے دیدے کو بیٹھے اب حمید اور سعید کا معجرہ سنیے حمید کے پاس پرنجے کی کلگی تھی اور سعید کے پاس دل تھا وہ کئی روز تک سفر کرتے رہے آخر ایک دورہے پر پہنچے وہاں پر انہوں نے ایک پتھر پر لکھا دیکھا اے دو لڑکوں دونوں ایک سڑک پر مٹ جاؤ ایسا کرو گ


جو داہینی طرف جائے گا وہ جلدھی مراد حاصل کرے گا جو باہین طرف جائے گا وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب تو ہوگا مگر مشکلوں میں پڑھ کر اور پریشانیاں سہنے کے بعد اب دونوں سوچ میں پڑے آخر انہوں نے اس لکھی ہوئے کو غیبی فیصلہ سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی ٹھانی سعید بڑا تھا اس نے ہمیں سے کہا بھائی تم چھوٹے ہو تم وہ راستہ اختیار کرو جس میں جلدھی مراد حاصل ہوگی اور میں مشکلات سے


دونوں بھائی نہائت حسرت اور محبت سے گلے ملے اور ایک دوسرے کو خدا حافظ کہ کر اپنے اپنے راستے پر چل پڑے حمید چلتا چلا تک کئی دن کی پریشانی کے بعد ایک دوسرے ملکی کی سرحت پر پہنچا وہاں کا بادشاہ مر چکا تھا اور اس ملک میں دستور تھا کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد ایک باز کو چھوڑا کرتے تھے جس شخص کے سر پر وہ باز بیٹھ جاتا وہی بادشاہ بنا لیا جاتا تھا اس ملک


وہ یا تو کسی درکت پر جا بیٹھتا یا کسی مکان پر کسی شخص کے سر پر نہیں بیٹھتا تھا اگرچہ بہت سے لوگ اپنی پگڑیوں پر بوشت کی بوٹیاں رکھے فرتے تھے آج جب باز کو چھوڑا گیا تو وہ فورا ہمید کے سر پر آن بیٹھا لوگ نیحائت حیران تھے کہ کس طرح ایک خستہ حل پیدل مسافر کو اپنا بادشاہ بنا لے انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ باز کو تین مرتبہ چھوڑا جائے چنانج


تو سب نے متفق ہو کر تسلیم کر لیا کہ یہ ہی لڑکہ ہمارا بادشاہ ہوگا اچھا اب حمید نے تو اپنی مراد پالی سعید کا دیکھیں کیا حال ہوا سعید دن بھر کوئی بارہ پوش چلا ایک قلعے کے قریب اسے شام ہو گئی قلعے کے بہر بہت سے لوگ پرشانی اور بے سر و سامانی کی حالت میں پڑے تھے سعید ان سے ملا اور اس قلعے کے اور خود ان لوگوں کی حالات معلوم کرنے لگا اس کو بتائے گیا کہ قلعے ایک جادو کی چی


اور اس میں ایک اپسورت شہزادی رہتی ہے جو شخص قلعے کی سیر کرنا چاہے اسے دو سو روپیے روزانہ ادا کرنا ہوتا ہے قلعے کی مالکا یہ رقم لے لیتی ہے قلعے میں جا کر واپس آنے کو کسی کا جی نہیں چاہتا مگر جب روپیہ ختم ہو تو شہزادی دھکے دے کر نکلوہ دیتی ہے قلعے کے باہر سب ایسے ہی ناموراد لوگ تھے جو دو سو روپیہ روزانہ لٹا کر اب کلاش بن گئے تھے مگر قلع


اور دھوپی کے کتے کی طرحیں اب نہ گھرکے تھے نہ گھاٹ کے یہ سنتے ہی سعید نے سوچا کہ کلے ہی کی سیر کریں آیا کلے کے دروازے پر دستگ دی اور اندر پہنچا رات اس نے آرام سے بسر کی اور وہاں کی اچھی اچھی چیزیں جی بھر کر دیکھی صبح سوبرے ہی ایک لونڈی پہنچی 200 روپیہ وصول کیا اور کہا اب آپ تشریف لے جائیے سعید نے چوک کر پوچا کیوں لونڈی نے کہا ساہب یہاں رہنے کی روزانہ فیز 200


آپ اپنی ساری پونجی لٹا چکے ہیں۔ سعید نے پوچھا اگر روپیاں نہ ہو اور کوئی یہاں رہنا چاہے تو؟ لوڑنی نے کہا جب روپیاں آدھا نہ ہو سکے تو مسافر کو نکال دیا جاتا ہے اگر وہ رہنے پر اصرار کرے تو شام کو قلعے کے برج سے اس کو سر کے بل نیچے گرا دیا جاتا ہے سعید نے لوڑنی سے کہا اچھا تو شہزادی سے کہہ دو جس دن صبح کو میں 200 روپیاں نہ آدھا کروں مجھے قلعے کے


میں تو جب تک قلعے کی ہر چیز کو نہ دیکھ لوں جانے کا نہیں ہر صبح سید اپنے تقیقے کے نیچے سے خادمہ کو دو سو روپیے نکال دیا کرتا تھا وہ کئی مہینے اسی طرح قلعے میں رہا اور دنیا کے سب رنجو گم بھل گیا آخر قلعے کی شہزادی نے سوچا کہ یہ کیا معاملہ ہے جب اس نے بھیت پا لیا تو چپکے سے ایک رات اس کے گلے سے وہ تاویز اتار لیا جس میں پرندے کا دل تھا اور جس کی بدولت صبح کو دو سو روپیے آ جات


تاویز کھل لینے کے بعد شہزادی نے سعید کو بہوشی کی دوا پلا کر کلے کے باہر فگوا دیا صبح میا سعید جب ہوش میں آئے تو اپنے آپ کو کلے کے باہر پایا اور جب تاویز بھی نہ ملا تو اپنا سر پیٹ کر اور کلے والیوں کی جان کو روکر رہ گئے اب میا سعید چلتے چلتے کئی منزلیں کلے سے آگے نکل آئے سفر بھی کرتے اور مہنت مشکت سے پیٹ بھی پالتے پندرہ دن کے بعد وہ ایک شہر کے باہر پہنچا


جہاں تین بھائی بیٹھے اپنے باپ کی جائداد کی تقسیم پر جھگڑ رہے تھے۔ ایک مسافر کو آتے دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنا جھگڑا اس مسافر سے تے کرالیں۔ جب سعید ان کے قریب پہنچا تو ان تینوں میں سے بڑے نے کہا میہ مسافر، ذرا ہمارا جھگڑا چکا تے جائیے، یہ تین چیزیں ہمیں باپ کی جائداد سے ملی ہیں اور ہم آپس میں ان کی تقسیم نہیں کر سکے۔ سعید نے کہا، اچھا بھائی تم تینوں میرا ف


سب نے جواب دیا ہم مان لیں گے۔ سعید نے کہا مگر یہ تو معمولی چیزیں ہیں معلوم ہوتا ہے ان میں کچھ خوبیاں ہیں مجھے سمجھا دو تاکہ میں فیصلہ ٹھیک کر سکوں۔ سب سے بڑے بھائی نے کہا صاحب یہ جو دری آپ دیکھتے ہیں یہ تو ایسی ہے کہ اگر اس پر کوئی بیٹھ جائے اور کہے مجھے فلا مقام پر پہنچا دو تو یہ ہوا میں اٹھے گی اڑے گی اور جہاں چاہو وہاں پہنچا دے گی اور یہ جو ٹھ


کہ اس میں ہاتھ ڈالو اور جو مانگو سو حاضر پاؤ اور یہ جو چھوٹی سی سرمے دانی آپ دیکھتے ہیں اس میں ایک سرما ہے جس کی ایک سلائی جو آنکھوں میں لگائے وہ سب کو دیکھے لیکن کت کسی کو نظر نہ آئے سعید نے کہا بھائی جب ہی تو میں پوچھتا تھا یہ تو نیحائت امدہ چیزیں ہیں ان کی تقسیم تو سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے میں تو تم سب کا تھوڑا سا امتحان لوں گا اور جو جس چیز کے لایق


اور وہ جو درکت سامنے کھڑا ہے اس کا پتہ تون کر لاو پہلے آنے والے کو دری، دوسرے کو تھیلا اور تیسرے کو سلمدانی مل جائے گی مگر یاد رکھو یہ تو صرف تمہاری طاقت اور فرطی کا امتحان ہے یہ چیزیں اس طرح تقسیم کرنے سے پہلے میں تمہاری عقل اور لیاقت کا بھی امتحان لوں گا اچھا تیار ہو جاؤ اس درکت کا ایک ایک پتہ لاو ایک، دو، تین جو ہی وہ تینوں بے وقوف درکت کا پتہ لانے دوڑے


تیلہ ہاتھ میں لیا۔ دری بچھا اس پر بیٹھا اور کہا چل شہزادی دل فریب کے قلعے میں۔ دری ہوا میں بلند ہوئی اور سعید نے وہ پر سے پکار کر کہا اے بے بکپوفوں اب نہ دوڑو تم میں سے کسی کو اتنی اقل نہ تھی کہ ان میں سے کسی چیز کا مالک بنتا یہ میرا مال تھا سو میں لیے جا رہا ہوں۔ سعید پھر قلعے میں آن داخل ہوا اور شہزادی دل فریب کے پاس رہنے لگا۔


ایک دن اس نے شہزادی کو اپنے پاس بلایا اور اپنے تھیلے کی بدولت اس کو ایسی دعوت کھلایا کہ وہ حیران ہی تو رہ گئی باتوں باتوں میں سعید نے اس کو اپنے پاس دری پر بٹھایا اور شطرنچ کھیلنا لگا ایک دم سعید نے کہا چلو اور دری اس کو اور شہزادی دل فریب کو لیے ہوئے کلے سے یہ جا وہ جا شہزادی بہت چلائی اور کلے والیاں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی سعید نے دل فریب سے کہا ذرا سمل کر بیٹھو


دری سے ادھر ادھر ہوئی اور تمہارا خاتمہ ہے شہزادی کے دل پر اس وقت جو گزر رہی تھی وہی جانتی تھی دری سعید کے کہنے کے مطابق این سمندر میں ایک جزیرے میں آنکھر اتری چھوٹا سا خشکی کا ٹپڑا تھا جس کے گرد میلو تک پانی ہی پانی تھا دل فریب نے کہا بری فصی مگر فریبی عورتوں کی طرح سعید کے ساتھ بہت پیار اور محبت سے رہنے لگی وہاں جو کچھ شہزادی مانگ


شہزادی نے سعید سے پوچھا آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ سعید نے محبت کی لیمیں شہزادی کو تینوں چیزوں کی کوبیاں بتا دی ایک دن سعید تو سمندر کے کنارے مود ہونے گئی شہزادی نے دری بچھائی، ٹھیلہ اور سرمدانی سمحالی اور دری سے کہا چل میرے کلے کو دری شہزادی کو لیے ہوا میں بلند ہوئی اور سعید میاں حسرت سے دیکھتے ہی رہے شہزادی نے بلندی سے پکار کر کہا اچھا تو پھر ہم چ


سعید اس ویران جزیرے میں بڑا قسمت کو رو رہا تھا ایک دن دوپہر کو ایک درخت کے نیچے جو لیٹا اور آنکھیں بند کی تو کیا سنتا ہے کہ اس درخت پر دو کبوتر آپس میں بات کر رہے ہیں ایک نے کہا یہ بیچارہ تو مارا گیا دوسرے نے کہا اس درخت میں یہ خاصیت ہے کہ اس کے ہر کام آسکے اگر وہ اس درخت کا ایک ٹکڑہ کارٹ کر اس پر بیٹھ جائے تو جس جگہ ساحل پر چاہے وہ ٹکڑہ اسے پہنچا دے گا


اگر اسی درکھت کی ایک شاک کی چھڑی بنائے کر اپنے پاس رکھے تو یہ چھڑی دو کام دے گی اگر وہ چھڑی کسی انسان کے مارے اور کہے ہشتھ تو وہ انسان ہیوان بن جائے گا اور اسی ہیوان کے مارے اور کہے آدم تو وہ انسان بن جائے گا اگر اس درکھت کے پتھے اپنے پاس رکھے تو ان کے لگانے سے اندھو کی آنکھے روشن ہو جائیں گی سعید نے یہ سب کچھ دھیان لگا کر سنہ اور اٹھتے ہی ایک لکنی تو


سمندر پر اس لکڑی کی بدولت وہ ایسا چلا جاتا تھا جیسا خشکی پر کوئی پیدل جائے کئی دن کی تکنیفوں کے بعد وہ شہزادی دل فریب کے محل میں پہنچ گیا اس کو دیکھتے ہی لونیاں چلائیں جادوگر آ گیا جادوگر آ گیا شہزادی کے حوش و حواز گم ہو گئے مگر اس نے دل میں سوچا اب تو اس کا تمام جادو میرے پاس ہے چلو تو ذرا اس کی مرمت کریں یہ کہہ کر لونیاں کے ساتھ وہ سعید پر پل پڑی اب سع


اور ہش ہش کرنا شروع کر دیا بس پھر کیا تھا شہزادی دل فریب اور چند لونیا اچھی خاصی گدہیاں بن گئیں سعید نے گدھی کے گلے سے وہ تاویز جو شہزادی پہنے ہوئے تھیں اتار لیا یہ وہی پرندے کے دل والا تاویز تھا اس کے بعد سعید نے اپنی دوسری چیزوں کے لیے قلعے کی تلاشی لی اب لونیا تو دور دور بھاگی فرر رہی تھیں کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ جسے چڑی لگی وہ گدھی بنی


سعید نے جب اپنی سبھی کھوئی ہوئی چیزوں پر قبضہ پا لیا تو شہزادی گدھی کے ایک چڑی ماری اور کہا آدم گدھی جب شہزادی دل فریب بن گئی تو سعید نے کہا اب کیا ارادہ ہے گدھی بننا چاہتی ہو یا شہزادی اگر میرے سات محبت سے رہنا چاہو تو شادی کر لو ورنہ میں کلے میں رہوں گا اور تم میرے استبل کے گھڑوں کے لیے چارہ اٹھا کر لایا کرو گی شہزادی نے کہا تم سے بچ کر نکلنا ممکن نہیں میں وعدہ کرتی ہوں


کہ آہندہ تم سے کبھی دغا نہ کروں گی اور ہم میہ بی بھی بن کر اسی قلعے میں رہا کریں گے اس کے بعد ان کی شادی ہو گئی اور وہ مزے سے رہنے لگے حمید بادشاہت کے مزیل اٹھ رہا تھا مگر اس کو مابا اور بھائی بہن کی یاد بری طرح ستاتی تھی اس نے اپنے بھائی کی تصویرہ بنائے کر ہر طرف آدمی دونائے تھے کہ اسے ڈھون کر لائے آخر ایک گروہ سعید اور شہزادی دلفرے پ کو ساتھ لے کر حمید کی بادشاہ


دونوں مدت کے بچھڑے بھائی ایک دوسرے سے مل کر نیحائت خوش ہوئے آپس میں ملنے کے بعد ان کو ماباپ یاد آ گئے حمید نے پہلے ہی ان کو لانے کے لیے آدمی بھیج دیئے تھے دوسرے دن وہ بھی پہنچ گئے مگر ان سب کو اس بات سے بڑا رنج ہوا کہ ماباپ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ بچوں کی جدائی میں رو رو کر اپنی آنکھوں کو چکے تھے ابھی سب لوگ اس پر رنج کر رہے تھے


دیکھو میں ابھی دونوں کی آنکھیں ٹھیک کیا دیتا ہوں یہ کہہ کر اس نے جزیرہ والے درکت کے پتھے ان کی آنکھوں پر ملے اور خوشحال اور محربانوں کی آنکھیں روشن ہو گئیں اب ان چاروں کو اپس میں مل کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow