دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی

دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی

Nov 19, 2024 - 14:55
 0  5
دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی
دو بھائیوں کی ایک دلچسپ کہانی


اسلام علیکم پیارے دوستو ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک جلہہ رہتا تھا یہ جلہہ بہت غریب تھا وہ اور اس کی بیوی صبح سے شام تک سوت کاتتے اور کپڑا بنتے مگر انہیں اتنے پیسے نہ مل پاتے کہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں اور اپنی پسند کے کپڑے پہن سکیں صبح سے شام تک کی مزدوری کے بعد جو پیسے ملتے ان سے جلہہ چاول خرید لاتا کبھی کبھی کچھ اور پیسے مل جاتے تو وہ سبز


ورنہ زیادہ طرح دونوں میہ بیوی کو چاول اور نمک پر ہی گزر بسر کرنا پڑتی جلہہ کی بیوی روز روز چاول اور نمک کھا کھا کر تنگ آ گئی اس کا دل چاہا کہ وہ بھی گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح چاول کے ساتھ مچھلی کھائے ایک دن شام کو جب جلہہہ واپس گھر آیا تو اس کی بیوی بولی سنتے ہو پڑھو س میں چار دن سے برابر مچھلی پک رہی ہے اور ہم ہے کہ چار سال ہو گئے مچھلی کی شکل تک د


جولاہ نے مچھلی کا نام سنکر ہوتوں پر زبان پھیری اور تھنڈی سانس بھر کر بولا ہاں ہاں کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو مگر کیا کیا جائے کاش میرے پاس بھی اتنے پیسے ہوتے کہ میں مچھلی خرید سکتا دیوی نے کہا میں تھوڑا تھوڑا بچا کر کچھ پیسے جمع کروں گی پھر تو تم مچھلی خرید سکو گے نا ہوں جولاہ ہاں ہز کر بولا پید بھر چاول تو ہم خرید نہیں پاتے کہاں سے پیسے بچائیں گے اور


بیوی چپ ہو رہی مگر اس نے پکہ ارادہ کر لیا کہ روزانہ کے خرچ میں سے کچھ پیسے ضرور بچائے گی اس نے خدا سے دعا مانگی کہ اے خدا میرے خوابند کی کمائی میں برکت دے اللہ نے اس کی دعا قبول کی اور کئی مہینوں کی بچت کے بعد اس نے آٹھ آنے جمع کر لئے جلاحے کو جب اس کی بیوی نے بتایا تو اسے یقین نہیں آیا مگر جب اس نے آٹھ آنے لا کر میہ کے ہاتھ پر رکھے تو وہ بہت خوش ہوا اور بازار جا کر اس نے آدھا سیر مچلی


آدم سے ار مچلی میں چھوٹی چھوٹی تین مچلیاں چڑیں جو وہ لے کر گھر آ گیا جلہہ کی بیوی نے بڑی محنث سے مچلیاں پکائیں اور پلیٹ میں نکال کر جب دونوں کھانے بیٹھے تو جھگڑا کھڑا ہو گیا جلہہ بولا تین میں سے دو مچلیاں میں کھاؤں گا بیوی بولی وہ پیسے جمع کیے میں نے میرا حق زیادہ ہے میں دو کھاؤں گی جلہہ زرہ تیز ہو کر بولا پیسے جو تم نے جمع کیے وہ بھی تو میں نے ہی کماتھ


دونوں میہ بیوی دیر تک جھگڑتے رہے آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں خاموش ہو جاتے ہیں جو سب سے پہلے بولے گا وہ ایک مچلی کھائے گا اور دوسرے کو دو مچلیاں ملیں گی اس فیصلے کے بعد دونوں نے چپ سادھلی جلحے کی بیوی نے تینوں مچلیاں پلیٹ سے واپس پتلی میں ڈال دیں اور دونوں میہ بیوی چادر اڑ کر لیٹ گئے رات گزری دوسرا دن ہوا شام ہو گئی مگر وہ دونوں بالکل خاموش رہے


دونوں کو ڈر تھا کہ جو پہلے بولے گا اسے ایک مشلی ملے گی جلحہ کے پڑوہسیوں کو فکر ہوئی کہ آخر کیا بات ہے پورا دن گزر گیا جلحہ کے گھر سے نہ چرخہ کاتنے کی آواز آئی اور نہ کسی کے بولنے کی آخر بات کیا ہے پڑوہسیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ حال پوچھیں مگر اندر سے کوئی جواب نہ ملا آخر وہ لوگ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئی رات ہو چکی تھی اندر جا کر انہوں نے دیکھا کہ ج


پڑھوسی سمجھے کہ سو رہے ہیں انھیں جگایا جھنجوڑا مگر انھوں نے آنکھے تک نہ پولی اور نہ مو سے ایک لفظ نکالا اب تو پڑھوسی بہت گھبرائے رات کافی ہو چکی تھی پڑھوسی گاؤں کے پیر جی کو بلا لائے پیر جی نے جلاہے اور اس کی بیوی کو آواز دے کر پکارا ان کے ہاتھ پیر ہلائے مگر کوئی جواب نہ ملا آخر پیر جی نے کہہ دیا کہ دونوں مر چکے ہیں انھیں فورا نہلا دھل


اتنی رات گئے کوئی پڑوسی جلہے اور اس کی بیوی کو قبرستان لے جانے پر راضی نہ ہوتا تھا پیر جی کے سمجھانے پر مشکل سے دو آدمی راضی ہوئے پیر جی نے سوچا پہلے جلہے کو پہنچا آتے ہیں پھر اس کی بیوی کو لے جائیں گے کیا کریں مجبوری ہے لیکن جو ہی ان تینوں نے جلہے کی چیار پائی اٹھائی جلہے کفن فال کر اٹھ بیٹھا اور لگا چلانے میں ایک کھالوں گا تو دو کھالے میں ایک


پیر جی کے خیال میں تو جلاہ مر چکا تھا مردے کو بولتا دیکھ کر وہ سمجھے کہ یہ جلاہ کا بھوت ہے اور کہہ رہا ہے کہ وہ پیر جی کو کھالے گا ادھر وہ دونوں آدمی بھی ڈھر گئے وہ سمجھے کہ یہ بھوت دوسرے بھوت سے کہہ رہا ہے کہ تُو ان دونوں آدمیوں کو کھالے ان تینوں نے چار پائی ڈھڑام سے زمین پر فینکی اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے جلاہ اور اس کی بیوی کا ہستے ہستے برا حال ہو گیا اب ب


اور ایک جلائے کو دیں اس لیے کہ پہلے وہی بولا تھا بہت دنوں کی بات ہے بنگلہ دیش کے ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے بڑے کا نام غفار تھا اور چھوٹے کا ستار دونوں سگے بھائی تھے مگر ان کی ہر بات ایک دوسرے سے بلکل مختلف تھی غفار بد سورت لالچی اور دھوکیباز تھا جبکہ ستار خوبصورت تندرست اور سیدھا سادہ نیک انسان تھا


جب وہ دونوں چھوٹے تھے، ما تو ان کی جب ہی اللہ کو پیاری ہو چکی تھی۔ اب خدا نے باپ کا سائیہ بھی ان کے سر سے اٹھا لیا۔ باپ بیچارہ ایک گریب دکاندار تھا، پرچون کی چھوٹی سی دکان سے بھلک کون سی ایسی بڑی آمدانی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مکان بنا لیتا، یا بہت سا سامان خرید لیتا۔ جب وہ مرہ تو اس نے اپنے دو بیٹوں کے لیے تین چیزیں چھوڑی۔ ایک بکری، ایک کمبل اور ایک ناریل


ان تینوں چیزوں کا بڑھوارہ دونوں بھائیوں میں ہونا تھا ستار سیدھا سادہ انسان تھا وہ اپنے بڑے بھائی کی چالاکی کو نہ سمجھ سکا اس کی باتوں میں آ گیا اور اس کی یہ تجویز مان لی کہ تینوں چیزوں کو آدھا آدھا کر کے دونوں بھائی استعمال میں لاے سب سے پہلے بکری کا بڑھوارہ شروع ہوا بڑے بھائی نے کہا اگر بکری کے دو ٹکڑے کر کے ہم نے آپس میں بات لئے تو بکری مر جائے گی اس لئ


چھوٹے بھائی نے سوچا کہ اگلی چیز تو اچھی ہوتی ہے دول میں جو آگے رہتا ہے انعام پاتا ہے وہ خوشی سے بکری کے اگلے حصے کا مالک بننے پر راضی ہو گیا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بڑے بھائی نے بکری کا پچھلا حصہ کیوں پسند کیا کھلی ہوئی بات ہے کہ بکری کے تھن پچھلے حصے میں ہوتے ہیں اور دودھ تھنو ہی میں ہوتا ہے


اب ہوا یوں کہ چھوٹا بھائی بیچارہ دن بھر گھانس کھاتا ندی سے پانی بھر کر لاتا اور بکری کو کھلاتا پلاتا اس لیے کہ بکری کا مو تو اس کے ہی حصے میں تھا اور بڑا بھائی ٹھارٹ سے دونوں وقت دھوٹا اور مزے لے لے کر پیتا چھوٹا بھائی ترستہ رہتا اسے ایک بوند بھی نہ ملتی اس لیے وہ دبلہ پتلا ہوتا چلا گیا اور بڑا بھائی پھول کر کپا ہو گیا پڑھوز میں ایک بولا اور نیک آدمی رہ


اسی لیے دونوں بھائی اسے مولبی چاچا کہتے تھے مولبی چاچا سے بڑے بھائی کی نا انصافی نہ دیکھی گئی اس نے ایک دن چھوٹے بھائی کو اکیلے میں بلا کر کہا پگلے! تُو اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ بکری چارہ تیرا کھاتی ہے اور دوت تیرا بڑا بھائی ہزم کر جاتا ہے میرا کہا مان اور یہ کہہ کر مولبی صاحب نے چھوٹے بھائی کے کان میں چپکے سے کچھ کہہ دیا شام کو جب بڑا بھائی گفار دوت د


بکری کو چھیڑنا شروع کر دیا بکری بدکتی ادھر ادھر پیر مارتی اور چلاتی غرز گفار کے لئے دودھونا مشکل کر دیا وہ دھنجلا کر بولا ستار یہ مات کرو ستار نے اتمینان سے کہا کیوں نہ کروں اگلا حصہ میرا ہے تم بھی تو اس کے تھنوں سے سارا دودھ نکال کر پی جاتے ہو میں تمہیں کچھ کہتا ہوں یہ کہا کر اس نے بکری کے کان مرور دیئے گفار کو آخر ہتیار ڈالنے ہی پڑے


بولا اچھا بھائی بکری کو چھیڑنا بند کرو آدھا دوت تیرا آدھا میرا نہیں ستار نے ایک چڑی بکری کی گردن پر رسیت کرتے ہوئے کہا بکری کو آدھا چارا بھی کھلانا پڑے گا مرتا کیا نہ کرتا گفار نے یہ بھی منظور کر لیا اور بکری کو آدھا چارا اور گفار کو آدھا دوت دینے لگا مگر بےیمانی اس کے دل سے اب تک نہیں گئی تھی سوچنے لگا کیا کروں اچھانک اسے کمبل کا خیال آیا


اس نے ستار سے کہا چلو کمبل کا بھی بٹوارہ ہو جائے یوں کرو دن میں اسے تم استعمال کرلیا کرو رات کو میں اڑلیا کروں گا چھوٹا بھائی ستار پھر دھوکے میں آ گیا دن کو تیز دھوپ اور کام دھام میں بھلا کون کمبل اڑے فرتا ہے ہاں رات کو اس کی ضرورت پڑتی ہے غفر مزے سے اسے اڑ کر خرنانٹے بھرتا اور بیچار ستار سردی میں ٹھٹورتا رہتا


کئی دن گزر گئے مولوی چاچا کو پھر دکھ ہوا اور اس بار انھوں نے ستار کو پہلے کی طرح ایک بڑی امدت رکیب سجا دی دوسرے دن ستار نے کیا کیا کہ جب دن ختم ہونے میں تھوڑی دیر رہ گئی تو کمل کو پانی میں بھگو دیا رات کو بڑے بھائی نے اڑنے کے لیے جب کمل اٹھایا تو اسے بڑا غصہ آیا جمکر بولا یہ کیا کیوں بھگویا کمل تم نے میری مرضی ستار نے جواب دیا دن میں میں اس کا مالک ہوں تم نے اسے میلا چیک


میں نے دھو ڈالا اور اب روز دھوں گا گفار کو دوسری بار بھی ہر ماننا پڑی اس نے کہا اچھا میرے بھائی اب ہم دونوں مل کر رات کو اسے اُلیں گے تاکہ نہ تمہیں سردی لگے نہ مجھے اب تیسری اور آخری چیز جو رہ گئی تھی وہ تھا ناریل کا درخت گفار کے دل میں پھر بے ایمانی آ گئی اس نے ستار سے چکنی چپڑی بات کر کے اسے راضی کر لیا کہ اوپر کا آدھا درخت میرا ہوگا اور نچلا حص


ستار ایک بار پھر بڑے بھائی کے دعو میں آ گیا اب ستار تو ندی سے مٹ کے بھر بھر کر پانی لاتا اور ناریل کے درکت میں ڈالتا اور گفار ٹھارٹ سے ناریل توڑ توڑ کر کھاتا دن گزرتے گئے ستار درکت میں پانی دے دے کر پریشان ہو گیا مولبی چاہچا سے ستار کی پریشانی اور گفار کی بے ایمانی نہ دیکھی گئی اس لیے کہ مولبی چاہچا خود ایماندار اور شریف آدمی تھے


نا وہ خود بے ایمانی کرتے تھے نا کسی دوسرے کو بے ایمانی کرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے انہوں نے ستار کو پھر ایک بار بڑھی آسی ترقیب بتا دی دوسرے دن گفار جب درخت پر چڑھ کر ناریل توڑ رہا تھا تو ستار نے اپنی کلھاڑی اٹھائی اور درخت کو جڑھ کے قریب سے کٹھنے لگا ارے ارے یہ کیا کرتے ہو میں گر جاؤں گا اوپر سے گفار نے چلا کر کہا میں کیا کروں ستار نے جوا


یہ کہہ کر اس نے پھر کلھاری اٹھائی اور ٹھک ٹھک لگا چوٹے مارنے اب تو گفار کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی گبرا کر بولا ہاتھ روک لو میرے بھائی میں اب کبھی تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا اور گفار نے باقی اپنا وعدہ پورا کیا اس نے ستار کو پھر کبھی دھوکہ نہیں دیا کبھی اس سے بے ایمانی نہیں کی دینمارک کے ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا جو بہت مہنتی اور ہوشیار تھا


اس لئے ہر سال بہترین فسنہ اگاتا اور ان کا سودہ بھی اس ہوشیاری سے کرتا کہ کبھی غاتے میں نہ رہتا پورے گاؤں میں یہ بات مشہور تھی کہ بھلے دنیا میں کوئی بھی دھوکا خا جائے پر ہمارے اس ہیرو کو کبھی کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا ایک سال جب فسل بونے کا وقت آیا تو کسان نے دیکھا کہ اس کے ایک خیط کے ان درمیان میں مٹی کا ایک چھوٹا سا ٹیلا اُبھرا ہویا ہے اور اس پہ گھاس فونس اور جڑی بوٹھییں لگی ہوئی ہیں


ارے یہ تو کام خراب ہو گیا یہ آلتو فالتو چیزیں تو میری فصل کا ہی ستھیا ناس کر دیں گی ابھی ان کا خاتمہ کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ درامتی سے گھنس فونس اور جڑی بوٹھیوں کی کٹائی سفائی کرنے لگا پھر اس نے ٹیلے پہ حل چلانا شروع کر دیا ابھی اس نے تھوڑا سا ہی حل چلایا تھا کہ ٹیلے اکدم لرزنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھنے لگا کسان کود کر نیچے اتر آیا اور حیرت سے


تیلا اوپر اٹھ رہا تھا اور اس کے نیچے چار سرخ رنگ کے ستون نظر آ رہے تھے اب وہ سمجھ گیا کہ وہ گلطی سے کسی ٹرول کو چھیڑھ بیٹھا ہے دینمارک کے لوگ نادیدہ بلاوں کے لیے ٹرول کا لفظ استعمال کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ خوفناک بلایں دن میں سورج کی روشنی سے ڈر کر زیر زمین ہی رہتی ہیں لیکن رات کو اپنے گھروں کی چھتیں اوپر اٹھا کر باہر نکلاتی ہیں کسان نے بھول چوک سے ایسے


کہ وہ سورج کی روشنی کی پروہ کیے بغیر اپنے گھر کی چھت اموچی کر کے دیکھنے لگا کہ کون گستاک اس کی چھت کو ہلا رہا ہے کسان نے دیکھا کہ ٹرول اپنے گھر کے این درمیان میں بیٹھا ہے تاکہ سورج کی کوئی کرن اس پہ نہ پڑ سکے وہ ٹرول بہت ہی ڈراؤنا تھا ایک نہیں اس کے تین تین سر تھے درمیان والے سر پہ کالے بال تھے اور مو پر بڑی بڑی موچ ہیں ناک پاکوڑے جیسی اور آ


دوسرے سر اور چہرے کے بال بلکل سفید تھے بڑے بڑے دات مو سے باہر نکلے ہوئے تھے تیسرا سر سبز رنگ کا تھا اور جلد مچلی جیسی تھی ناک لمبی اور نوقدار تھی اس نے ہاتوں اور پیروں میں بھیر سارے کڑے پہن رکھے تھے اور وہ اپنی چھے عدد خوفناک آنکھوں سے کسان کو گھور رہا تھا پھر وہ اپنی کرخت آواز میں چلایا تم میرے گھر کی چھت پر کیا کر رہے تھے احمق انسان میرا جی چا


تم نے مجھ سے ٹکر لے کر بہت بڑی غلطی کی ہے کسان جانتا تھا کہ یہ محض گیدر بھپکیاں ہیں دن کی روشنی میں یہ بلا باہر نکل ہی نہیں سکتی لہٰذا وہ قدر قریب ہوا اپنا ہیٹ اتارا اور سر جھکا کر کہنے لگا مجھے بالکل علم نہ تھا کہ یہ آپ کے گھر کی چھت ہے مجھے تو یہ لگا کہ میرے خیط کی اتنی اچھی زمین کھالی پڑی ہے اور اچھی زمین کو کھالی چھوڑنا حماقت ہے تم اس کے ساتھ کیا کر


میں اس پہ فصل بونے کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے ہل چلا رہا تھا کسان نے نرمی سے کہا یہ میرے گھر کی چھت ہے ٹرول چنگھڑا اس پر اگر کوئی فصل ہوگا سکتا ہے تو صرف میں اور کوئی نہیں بے شک کسان نے عدب سے جواب دیا یہ صرف آپ کا حق ہے لیکن اس کے لئے آپ کو بہت مہنت کرنا پڑے گی پھر یہ دھوپ بھی تو آپ جیسے زیر زمین رہنے والے شریف لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی تو آپ


میں رات کو یہ کام کروں گا۔ ٹرول نے جواب دیا ارے ارے آپ کیوں اتنی مسئیبت جھیلیں میں کس لئے ہوں؟ چالاند کسان نے مناسب موقع دیکھ کر جال فینکا ٹرول نے یوں ظاہر کیا جیسے غور کر رہا ہو اس کے پاس کہنے کو تین تین سر تھے مگر بھیجا ایک میں بھی نہیں تھا کسان نے دوسرا جال فینکا آپ اگر میرا احسان نہیں لیتے تو ہم ایک سودہ کر لیتے ہیں ہم ہر اس چیز کو بارٹ لیا کریں گے جو آپ کے گھ


جیسے کہ پہلی فصل کا اوپر والا حصہ میرا ہوگا اور نیچے والا آپ کا اور دوسری فصل میں نیچے والا حصہ میرا ہوگا اور اوپر والا آپ کا جبکہ مہنت بیچ پانی سب کچھ میرے ذمہ ہوگا آپ کو تو بس حصہ ملے گا کہیں یہ منظور ہے؟ ٹرول نے جھٹ سے اپنے تینوں سر ہلا دیئے حالانکہ اس نے سوچا کسی ایک سے بھی نہ تھا پھر کہنے لگا دیکھو وعدہ کرو کہ پہلی فصل کا اوپر والا حصہ تم مجھے دوگے ویس


مجھے افسوس ہے کہ میں نے خامہ خان تمہیں دھمکیاں دیں خیر اب میں سونے جا رہا ہوں آئندہ گل گپارہ مچا کر مجھے وقت بے وقت جگانے کی کوشش نہ کرنا کسان نے ٹرول کی بات مان لی اور ٹیلے کی زمین تیار کر کے اس میں گاجریں بو دیں جب فصل پکھ کر تیار ہوئی تو محایدے کے مطابق فصل کا اوپر والا حصہ یعنی پت کے ٹرول کے حصے آگئے اور نیچے والا حصہ یعنی گاجریں کسان کو مل گئیں


اگلی فصل کسان نے کیلے پہ گندم لگا دی اور فصل پکنے پہ اوپر والا حصہ یعنی گندم کسان کو ملی اور نیچے والا حصہ یعنی جڑھیں ٹرول کو مل گئی اور یوں چالا کسان خود ہمیشہ گاجریں اور گندم حاصل کرتا رہا اور جڑھیں اور پتھے ٹرول کو ملتے رہے کسان اس محایدے سے بہت خوش تھا اور خوش تو ٹرول بھی تھا بیچارے کے پاس سوچنے کے لیے دماغ تو تھا نہیں اپنی دانست میں اسے بیٹھے بٹھائے

16:24
دونوں پڑھوست ہسی خوشی زندگی کے دن گزار رہے تھے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow