پنچ امیر آدمی اور فقیر کی بیٹی کا قصہ

پنچ امیر آدمی اور فقیر کی بیٹی کا قصہ

Oct 26, 2024 - 10:32
 0  0
پنچ امیر آدمی اور فقیر کی بیٹی کا قصہ
پنچ امیر آدمی اور فقیر کی بیٹی کا قصہ


اسلام علیکم  پیارے دوستو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پانچ امیر آدمی گھوڑوں پر سوار ہوکر شکار کھیلنے لکلے ان کے پاس بندوقے تھیں اور بہت سی گولیاں بھی انہوں نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ کھانے پینے کا ضروری سامان لے کر جنگل میں پہنچ جائے جنگل میں ایک چھوٹی سی جگہ دے کر پانچوں امیر آدمی گھوڑوں پر سے اتر


اور ادھر ادھر سے خوشکلکڑیاں کھٹھی کر کے کھانہ پکانے لگے امیر آدمیوں نے سوچا کہ کھانہ کھا کر اسشکار کھیلنے میں لطوف آئے گا اس لئے وہ سب ایک طرف بیٹھ کر اپس میں باتیں کرنے لگے اور نوکر کھانہ پکا تا رہا ان میں سے ایک امیر آدمی بولا دوستو غریبی بہت بری چیز ہے شکر کرو خدا نے ہمیں غریب نہیں بنایا دوسرا امیر آدمی بولا بھئی سچ کہتے ہو لیکن ہمیں چون


اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم غریبوں کی مدد کریں۔ سب نے اس کے نیک اور پاک خیال پر واہوا کی اور کہنے لگے وہ انسان انسان ہی نہیں جو دوسروں کو بھوکا مرتہ دیکھ کر ان کی مدد نہ کرے۔ تیسرا امیر آدمی بولا یہ کوئی شرافت ہے کہ ایک آدمی تو سونے میں کھیلے اور دوسرا بچارہ پیٹھ بھر کر کھانا بھی نہ کھائے۔ پانچوں امیر آدمی غریب لوگوں سے ہمدردی چداتے رہے کہ اتنے میں ادھر سے ایک لکہ ڈھ


اس نے ایک سوکاوہ درکھ دے کر اسے کٹنا شروع کر دیا بچارہ بہت بڑا تھا مگر پیٹ کی خاطر وہ ہر روز جنگل سے لکڑیاں کٹ کر شہر لے جاتا وہاں سے جتنے پیسے ملتے ان سے اپنا و بیوی بچوں کا پیٹ پال تھا کلارا درکھ پر لگتا تو زور سے کھٹ کی آواز آتی امیر آدمی یہ کھٹ کھٹ سن کر بڑے غصے میں آئے اور نوکر سے کہنے لگے یہ کون نالائک ہے جو اس وقت لکڑیاں کٹ رہ


نوکر جا کر بوڑے لکڑھارے کو پکڑ لائیا پہلا میر آدمی بولا او بھٹھے خبیس کیا کر رہا تھا حضور لکڑیاں کات رہا تھا میں گریب آدمی ہوں گر میں میری ایک بڑیا ہے ہمارا کوئی بیٹا نہیں جو ہمارے لیے کمان سکے دوسرا میر آدمی بولا اب اے گدھے تمارا کوئی بیٹا نہیں تو ہمارے کان کھانے کیوں ادھر چلا آیا بوڑا ڈر سے کامپنے لگا اور بولا


حضور مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ یہاں بیٹھے ہیں ورنہ میری کیا مجال تھی جو میں یہاں آکھر لکڑیاں کھاتا تیسرا امیر آدمی بھولا جوٹ کیوں بولتا ہے اس نے جانبوج کر شرارت کی ہے چوتھا امیر آدمی بھولا اس کا دماغ درست کرنے کے لیے اس کے سر پر جھوٹے لگانے چاہئے بورا آدمی رونے لگا پانچویں امیر آدمی نے کہا خبیس مکر کرتا ہے


نوکر میرا بید نکالو، ذرا اس کی چمڑی ادھیڑ دوں۔ بوڑا لکڑ ہارا ان کے پاؤں پر گر کر معافی مانگنے لگا مگر ہر ایک امیر آدمی نے اسے ٹھوکرے ماری ابھی ابھی وہ لوگ جو کہہ رہے تھے کہ ہمیں غریبوں سے بے ہدم دردی ہے اب بے غریب بوڑے کو ٹھوکرے مار رہے تھے آخر بڑی مشکل سے بوڑے کو معافی ملی وہ روتا دھوتا اپنا کلڑا اٹھا کر جنگل میں غائب ہو گیا


پانچوں میر آدمی پھر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے پہلا میر آدمی بولا بھائی خوم بزا آ رہا ہے دوسرا میر آدمی بولا میں نے بوٹ سے ایک ایسی ٹھوکر لگائی کہ سالہ یاد ہی کرتا ہوگا تیسرا بولا مجھے تو ایسے معلوم ہوا کہ میں نے اس کی کوئی پسلی توڑ دی ہے چوتھا بولا بڑا لطف آ رہا ہے پانچوں میر آدمی بولا ہاں بہت زیادہ وہ بہت دیر تک خوش


کہ انہوں نے بوڑے کو خوب سزا دی اس کے بعد وہ پھر ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم غریبوں کے ہمدرد ہیں اور خدا کو کوس رہے تھے کہ اس نے کیوں ایک آدمی کو امیر بنایا اور دوسرے کو غریب اتنے میں نوکر نے آکر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے یہ خبر سن کر انہوں نے باتیں بند کر دیں اور کھانا کھانے کے لیے تیار ہو گئے نوکر نے طرح طرح کی چیزیں ان کے سامنے رکھی پلاؤ، زردہ، کورما، کباب


کئی قسم کے فل اور مٹھائیاں بھی تھیں وہ مزے لے لے کر کھا رہے تھے کیتنے میں ایک بھوکہ فقیر وہاں سے گزرا وہ نزدیک آکر بھولا بابا میں بھوکہ ہوں ایک روٹی خدا کے واسطے دے دو تاکہ میں اپنا پیٹ بھر لوں امیر آدمیوں کو بڑا غصہ آیا کہنے لگے شکل سے تو تو اچھا بھلا مالوں ہوتا ہے تجھے بلکل بھی بھوک نہیں ہے تو صرف ہمیں تنگ کرنے یہاں آ گیا تجھے اب


اور وہ نوکر سے بولے اس فگیر کو مرگا بنائے اور اس کی پیٹ پر بیٹھ کر گن کر دس جھوٹے لگائے۔ نوکر نے ایسا ہی کیا فگیر روٹی کے بجائے جھوٹے کھا کر وہاں سے چلا گیا اور امیر آدمی اس پر ہستے رہے۔ کھانا کھا کر ہاتھ دھوئے اور اپنی اپنی بندوقے لے کر شکار کو نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے نوکر کو وہیں چھوڑ دیا اور کہنے لگے ہم شکار کھیل کر ابھی آ رہے ہیں۔ چائے تیار کر لی


نوکر بولا جو حکم سرکار اور امیر آگنی گھوڑے دوڑا کر جنگل میں غائب ہو گئے گھوڑے دوڑا دوڑا کر وہ تھک گئے مگر انہیں شکار نہ ملا وہ ہیرن کی تلاش میں بہت دور نکل گئے آخر جب بھوک لگی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ واپس جا کر چائے پی جائے سب نے یہ بات مان لی جنگل بہت گنا تھا وہ راستہ بھول گئے انہیں کچھ پتہ نہ چلا کہ جائے تو جائے کدھر جائے وہ بہت خبر


کبھی گھوڑے دوڑا کر مشری کی طرف چلے جاتے کبھی مغرب کی طرف چلے جاتے مگر انہیں وہ جگہ نہ مل سکی جہاں سے وہ چلے تھے اب تو بھوک کے مارے ان کا برا حال تھا سفر کرنے کی وجہ سے ان کا جسم ٹوٹ رہا تھا اور اب شام ہونے کی وجہ سے جنگل میں اندھیرا ہونے لگا تھا وہ ڈرنے لگے حالانکہ ان کے پاس بندوقیں تھیں مگر پھر بھی وہ ڈرپوک تھے سوچنے لگے


اگر رات کو کوئی شیر چھپکے سے آ کر انہیں کھا گیا تو کیا ہوگا؟ کافی رات گزر گئی تو وہ گھوڑوں پر سے اتر پڑے گھوڑے چل چل کر تھک گئے تھے اور پانچوں امیر آدمی بھوک کے مارے ایک قدم آکے نہیں چل سکتے تھے وہ تھک کر زمین پر لیٹ گئے انہیں یقین ہو چکا تھا کہ آج رات وہ بھوکیں مر جائیں گے اس لئے اپنے بیوی بچوں کو یاد کر کے رونے لگے مگر بھوک کی وجہ سے رویا بھی نہیں جا س


ان کی آنکھوں سے آسو بھی نہیں نکل رہے تھے زبان سوک کر کانٹا ہو گئی تھی وہ بات کرنے کی کوشش کرتے مگر ہلک سے آواز نہ نکلتی انہیں معلوم ہو گیا اب موت کا وقت آن پہنچا اور وہ یہیں مر جائیں گے اور ان کی لاش جنگل میں رہنے والے گیدر اور بھڑیے چٹ کر جائیں گے ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے اچانک انہیں درکتوں کی طرف سے کسی کی آواز سنائی دی وہ کسی آدمی کی آواز تھی


وہ آدمی کسی کو اپنی طرف بلا رہا تھا امیر آدمی سوچنے لگے اس طرف شاید کوئی سادھو رہتا ہے جس نے شہر سے دور جنگل میں کٹیاں بنا لی تھی تاکہ وہ پرماتمہ کی یاد میں مغن رہے ان میں سے ایک نے اپنا تھوک سے ہلکتر کیا اور پوری طاقت سے چلایا بابا ادھر سے فورا آواز آئی کون ہو بیٹا تم کہاں ہو امیر آدمی جوگی کی آواز سن کر ایک بار جی اٹھے


اب انہیں بچنے کی امید نظر آ گئی جوگیوں نے تلاش کرتا کرتا نزدیک آ گیا امیر آدمیوں نے ٹوٹے پوٹے لفظوں سے بتایا بابا ہم بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں ہمیں کچھ کھانے کو دو خدا کے لیے ہماری جان بچالو گرمیں ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بیویاں ہیں اگر ہم اس چنگل میں بھوک پیاسے مر گئے تو انہیں کون سمح لے گا ہمارے بچے کس کو ابا کہا کر پوکاریں گے


اور ہماری اورتیں بیوہ ہو جائیں گی بابا ہمیں کچھ کھانے کے لئے دے دو رات کے اندھیرے میں جوگی کی شکل دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن ان امیر آدمیوں کی درد باری کہانی سن کر اس سے بڑا ترس آیا اور کہنے لگا بیٹو آو میرے ساتھ درختوں کے اس طرف میری کٹیا ہے جو کچھ میں ایک نزدیک کے گاؤں سے مانگ تانکر لائے ہوں تم خوشی سے کھا لینا میں اور میری لڑکی ایک رات کے لئے بھو


ہمیں بھوکے رہنے کی عادت ہے ایک دو دن نہیں ہم چیز سا دن تک بھی بغیر کچھ کھائے پیئے زندہ رہ سکتے ہیں آو آو میرے ساتھ آو امیر آدمی بولے مگر بابا ہم تو ایک قدم بھی نہیں چل سکتے جوگی بچارہ بورا تھا سوچنے لگا آپ کیا کرے آخر اس نے حمد کی اور ایک امیر آدمی کو پیٹھ پر لات کرا اسطا اسطا اپنی کٹیا کی طرف لے چلا اسے وہاں چھوڑ کر پھر دوس


اسی طرح اس نے پانچوں امیر آدمیوں کو اپنی چھوٹھی سی کٹیاں میں جا بٹھایا بوڑا ہونے کی وجہ سے بچارہ کمزور تھا اس لئے بہت دیر دکھ بیٹھا ہاپتا رہا پھر اس نے اپنی بیٹی کو آواز دی آیشا وہ چار روٹیاں جو میں مانگ کر لایا ہوں انہیں ہاتھ مطھ لگانا ہمارے ہاں پانچ میمان آئے ہیں وہ سب انہیں دے دو آیشا گسے میں بولی بابا ہم تو کل بھی بھوکے تھ


بوڑا پیار سے بولا کوئی بات نہیں بھٹا ہم ایک دن اور بھوکے رہ سکتے ہیں مگر ہمارے مہمان بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے انہیں بچانا اور ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے کٹیا میں ادھیرا تھا آئشا ٹھوکرے کھاتی ہوئی اندر آئی اور روٹیاں بوڑے کے ہاتھوں میں دے کر پھر باہر چلی گئی لیجی کھائیے بوڑے نے روٹیاں ان کے سامنے رکھ دیں اور وہ چینوں کی طرح جبڑ کر رو


آہستہ آسٹا ان میں زندگی آنے لگی اور وہ اٹھ بیٹھے بوڑا ان کی دلچسپی کے لیے کہانی سنانے لگا میرے مہمانوں آج مجھے ایک اجیب واقعہ پیش آیا میں جنگل میں سے گزر کر گاؤں میں جا رہا تھا کہ رستے میں مجھے پانچ امیر آدمی ملے وہ سب اچھے اچھے کھانے کھا رہے تھے مجھے بھی اس وقت بڑے زور کی بھوک لگی تھی میں نے ان سے روٹی مانگی مگر انہوں نے روٹی کے بج


اور میں جھوٹے کھا کر چپکے سے وہاں سے چلا گیا میری پیٹھ ابھی تک درد کر رہی ہے امیر آدمیوں کو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی فکیر ہے جس سے انہوں نے سزا دی تھی وہ بڑے شرمندہ ہوئے اور کہنے لگے بابا جی وہ ہم ہی تھے ہم نے ہی آپ کو سزا دی تھی ہم نے بہت بڑا گناہ کیا آپ ہمیں سزا دیجئے آپ نے تو خود بھوکے رہ کر ہمارا پیٹھ بھرا اور ہم آپ کو ایک روٹی تک نہ دے سکے


ہمیں سزا دیجئے بابا جی فکیر کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ وہ ہی لوگ ہیں تو وہ چپ ہو گیا دراصل اسے بھی شرمندگی ہو رہی تھی کہ اس نے ان کے مو پر ساری بات کہہ کر بہت برا کیا فکیر کہنے لگا میرے محمانوں میں تو ای گریب سا آدمی ہوں میں آپ کو کیا سزا دے سکتا ہوں میں نے تو آپ کے مو پر وہ بات کہہ کر گناہ کیا ہے آپ مجھے سزا دیجئے لیکن افسوس ہے


کہ اندھیرے کے وجہ سے میں آپ کو پہچان نہیں سکا ورنہ میں ایسی بات کبھی نہ کرتا کہ جس سے آپ کو تقلیف ہوتی مجھے معاف کر دیجئے امیر آدمیوں نے جب دیکھا کہ فکیر نے ان سے کتنا اچھا سلوک کیا ہے تو اس کے پانو پر گرکے اور معافی مانگنے لگے روٹی کھا کر اب ان کے جسم میں جان آ گئی تھی دوسری دن صبح امیر آدمی اپنے گھوڑوں پر بیٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہوں نے فکیر اور اس


شہر پہنچ کر انہوں نے فقیر کیلئے ایک بڑی اچھی جگہ بنا دی جہاں وہ دن رات بیٹھ کر عبادت کر سکے ایک امیر آدمی نے آیشا کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کر دی اس کے بعد وہ سب ہسی خوشی رہنے لگے پیارے دوستو آکل ایک کسان تھا کاؤں کے زمیدار نے اسے کچھ زمین دی ہوئی تھی جس پر وہ کھیتی بھاری کرتا اور جب فصل تیار ہو جاتی تو آدھی فصل زمیدار کو دے دیتا تھا اس کی


اسی لئے اسے کوئی فکر نہ تھی۔ ایک دن پڑوز کے گاؤں سے اس کی بہن اس کے لئے ایک رشتہ لائی اور بھولی آقل اب تم کوئی اور کام کر لو میں جلدی سے تمہارے شادی کر دینا چاہتی ہوں آدھی فصل سے اب گزارہ نہیں چلے گا بہن کی بات سن کر آقل بولا بہن میں شہر چلا جاتا ہوں مہنت مزوی کر کے چار پیسے کمال ہوں تو پھر شادی کروں گا پھر ایک دن وہ شہر کی جانب چل پڑا گھوڑا تو کوئی تھا نہیں


بیلوں کی جوڑی تھی وہ بھی زمیدار کی تھی جو اس نے زمیدار کو واپس کر دی اور پیدل ہی چل پڑا وہ دریا کے کنارے کنارے اداز چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے کان میں ایک تیز آواز پڑی بچاؤ بچاؤ اندھے کی دولت ڈوبنے سے بچاؤ اس نے چاروں طرف نگاد اڑائی مگر دور تک اسے کوئی نظر نہ آیا اچانک اس کے نگاہ ایک گھڑے پر پڑی جو دریا میں بیتا ہوا جا رہا


آکل نے آو دیکھا نہ تاؤ فورا دریہ میں چلانگ لگا دی اور گھڑے کو دریہ سے نکال لایا۔ گھڑے کا مو سرخ رنگ کے رمال سے بندہ ہوا تھا۔ آکل نے جب رمال کھول کر گھڑے میں جھانکا تو چوک پڑا۔ کیونکہ گھڑے میں سونے کے سکوں کے علاوہ ہیرے جوارات بھی موجود تھے۔ شام کا وقت ہو رہا تھا۔ پہلے تو آکل نے سوچا کہ گھر واپس لوڈ چلے۔ مگر گھر پہنچتے پہنچتے اسے اہدی راست


ویسے بھی وہ کافی مسافر تحقیق کرنے کے بعد خاصہ تک چکا تھا۔ کچھ فاصلے پر ایک گاؤں تھا۔ اس نے سوچا، چلو رات اسی گاؤں میں گزار لیتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی واپس گھر لوٹ جاؤں گا۔ یہ سوچتے ہوئے وہ اس گاؤں کی جانب بڑھنے لگا۔ گاؤں کی طرف ایک بڑیا بھی چلی جا رہی تھی۔ اس کی نظر جب آقل پر پڑھی تو وہ رک گئی۔ آقل جب اس کے قریب آیا تو وہ بولی، نوجون تم کہاں ج


بڑی بھی میں ایک مسافر ہوں اور رات ہو رہی تھی سوچا کہ گاؤں کے کسی گھر میں رات گزار لو صبح سووے رے پھر سفر کا آغاز کروں گا بڑیا بولی اگر یہ بات ہے تو پھر میرے گھر چلو گھر میں جو روخہ سوکا ہے کھا کر سو جانا آکل بڑیا کے ہمرا چر پڑا رات کو کھانا کھانے کے بعد جب وہ چارپائی پر لیٹا تو اس نے گھڑے کو چارپائی کے نیچے رکھ دیا اور پھر چادر تان کر سو گیا


آدھی رات کے وقت بھڑیا کی جب آنکھ کھلی تو اسے سخت پیاس محسوس ہوئی وہ گھڑے کی جانب بڑھی جو کہ ایک اونچی جگہ پر رکھا ہوا تھا اس نے جیسے ہی گھڑے کو جھکایا تاکہ مٹی کے پیالے میں پانی ڈال لے تو گھڑا اس کے کمزور ہاتھوں سے نکل کر گر پڑا اور ٹوٹ گیا چاندنی رات تھی گھر میں اور کوئی گھڑا تو مجود نہ تھا تو اس نے سوچا کیوں نہ مسافر کے گھڑے سے تھوڑا سا پانی لیا


اور مسافر کا گھڑا اسے دے دوں گی پھر جب اس نے مسافر کے گھڑے کا سامان زمین پر ڈالا تو مارے حیرت کے اس کا دل زور زور سے ڈھڑکنے لگا گھڑے میں سے نکلے ہوئے سونے کے سکے اور ہیرے جوارات چانوی رات میں جگھ بگانے لگے بڑیا نے جھٹ سے وہ تمام چیزیں ایک رمال میں باند کر گھر میں چھپا دیں اور خالی گھڑے میں کچھ اناج ڈال کر مسافر کی چارپائے کے نیچے گھڑا پہلے والی جگ


کیونکہ مسافر سے جب اس نے پوچھا تھا تو اس نے جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس میں کچھ اناج ہے۔ صبح سووے رے جب آقل کی آنکھ کھلی تو ناشتے سے فارغ ہو کر اس نے بڑیا کا شکریہ دا کیا اور گھڑا اٹھا کر اپنے گاؤں کی طرف چلا گیا۔ گھنٹوں کے سفر کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچا تو بہت خوش تھا اور پھر جیسے اس نے رمال کھول کر گھڑے کو چارپائی پر اُلٹا تو سونے کے سکوں اور ہیرے جوار


وہ سمجھ گیا یہ سب اسی مکار بڑیا کی کارستانی ہے وہ سیدہ قازی کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ بڑیا نے رات کے دھوکے سے اس کے گڑے سے سونے کے سکے اور ہیرے چوارات نکال لیا ہے قازی کے سپایی جب باقل کے بتائے ہوئے پتے پر بڑیا کے پاس پہنچے تو اس وقت بڑیا کے بیٹے کے ہاں ایک انتہ بچہ پیدا ہوا تھا بڑیا نے ان لوگوں کو یہ قصہ بتایا اور بولی قازی صاحب کو بتا دینا


کہ میرے گھر اندر پوطا پیدا ہوا ہے گھر کے کچھ ضروری کام ہیں اس لئے میں آج ہی دپیر تک حاضر ہوجاؤں گی کازی کے آدمیوں نے جب یہ بات کازی کو بتائی تو آقل چوک پڑا پھر مکار بڑیا حصوِ وعدہ دپیر کے وقت کازی کے پاس پہنچ گئی کازی نے جب اس سے کہا بڑی بھی یہ شخص کہتا ہے کہ تم نے اس کے سونے کے سکے اور ہیر جوارہ چوائے ہیں یہ سن کر بڑیا بولی حضور یہ شخص جھو


اس نے خود مجھ سے کہا تھا کہ میرے گھڑے میں اناج ہے اب یہ کیسے کہتا ہے کہ اس کے گھڑے میں سونے کے سکے اور ہیرے جوارات تھے یہ سن کر قازی نے آقل سے پوچھا تم اس بارے میں کیا کہتے ہو کیا تم نے بڑی بھی سے کہا تھا کہ تمہارے گھڑے میں اناج ہے آقل نے حسرث سے کہا حضور وہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں گھڑے میں سے سونے کے سکے اور ہیرے جوارات کو چرانہ لیا جائے اس پر بڑیا چہک کر بولی


حضور جن سکوں کے مطالعے کی یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے ہیں وہ دراصل میرے شہور کے ہیں۔ ایک دن اس نے سونے کے سکے اور جوارات دریا کے کنارے ایک گڑا کھوڑ گرس میں چھپا دیئے تھے۔ بعد میں اس کا انتقال ہو گیا۔ انہی دلوں میں دریا میں سلاب آیا اور پانی کا تیز بھاو مٹی کو پنے ساتھ بھا کر لے گیا۔ تو زمین میں گڑا یہ مٹکا نکل کر پانی میں بہنے لگا۔ یہ شخص ادھر سے گزر رہا تھا۔


میرے شعور نے آلمِ غیب سے اسے آواز دی بچاؤ بچاؤ اندھے کی دولک دوبنے سے بچاؤ جس پر اس شخص نے گھڑے کو دریا سے نکالا اور میرے گاؤں آیا میں نے مسافر سمجھ کے لئے اسے ٹھہرا دیا جب اس سے گھڑے کے مطالق پوچھا تو اس نے کہا اس میں اناج ہے رات میں پانی پینے اٹھی دوں مجھ سے میرا گھڑا ٹوٹ گیا میں نے سوچا چلو مسافر کے گھڑے سے پانی لے لوں


جب اسے کھولا تو اناج کے بدلے سونے کے سکے اور ہیر جوارات نکلے میلالچ میں آ گئی اور انھیں سمیٹ کر رمال میں چھپا دیا اور آ کر سو گئی رات خام میں میرا شہر مجھے ملا اس نے بتایا کہ سبا ہمارے بیٹے کے گھرنا بینا بچہ پیدا ہوگا مسافر کی جو دولت ہے وہ اس کا نہیں ہے وہ گھڑا میں نے دریہ کے کنارے چھپایا تھا جب وہ سلاب سے نکل کر بہنے لگا تو میں نے غیب سے اس شخص کو بتایا


کہ نابینہ کی دولت کو ڈوبلے سے بچاؤ نابینہ پوٹے کے کام آئے گی حضور عزیز اس شخص سے پوچھیں میں جھوٹ بول رہی ہوں آقل جو بڑی توجہ سے بڑیا کی باتیں سن رہا تھا بول پڑا قازی صاحب یہ بڑیا سچ ہی کہتی ہے وہ دولت میری ذاتی نہیں تھی بلکہ اس بڑیا کے پوٹے کی ہے قازی اس تمام واقعے کو سن کر بڑا حیران ہوا پھر اس نے شاہی خزانے میں سے آقل کو ایک سو شرفیاں دیں


اسے لے جا کر تم کسی کاروبار میں لگا لو خدا نے چاہا تو تم ایک دن بڑے آدمی ضرور بن چاؤ گے کازی کی یہ بات درست ثابت ہوئی ان اشرفیوں سے عاقل نے کاروبار شروع کیا جو خوب پھلا پھولا اور پھر رفتہ رفتہ عاقل کے پاس بے شمار دولت پیسہ آنے لگا وہ بہت خوش ہوا آخرکار وہ ایک دولت من شخص بن گیا اور پھر اس نے ایک نیک لڑکی سے شادی بھی کر لی اس کی حیرت تنگی اس ترقی نے تمام


پورے گاؤں کو بھی حیران کر دیا اور پھر دونوں میہ بی بھی ہسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے 

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow