ایران کی عقلمند شہزادی کی ایک دلچسپ کہانی
ایران کی عقلمند شہزادی کی ایک دلچسپ کہانی
اسلام علیکم پیارے دوستو بہت دنوں کی بات ہے ملک ایران پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا اس کے پانچ بیٹے تھے اور صرف ایک بیٹی تھی اور اس بیٹی کا نام تھا فروز اور اس فروز کو بادشاہ بہت چاہتا تھا فروز کی ما بھی اسے بہت چاہتی تھی اور اس کے پانچو بھائی بھی اسے بہت چاہتے تھے اور یہ سب اسے اس لئے بھی چاہتے تھے کہ وہ اقلوطی ل
بڑی دعاوں اور منتوں کے بعد وہ سالہ سال کی عبادت اور ریاضت کے بعد پیدا ہوئی تھی وہ اپنے سب بھائیوں سے چھوٹی تھی اس کا سب سے چھوٹا بھائی ریاض تھا اور وہ ریاض سے بھی پانچ برس چھوٹی تھی وہ بڑی خوبصورت تھی بڑی ذہین تھی اور سمجھ دار تھی اور اس کی زہانت کا اندازہ اس کے بچپن ہی سے اس کے گھروالوں کو ہو چلا تھا مثلا یہ کہ ابھی وہ تین ہی چار مہینے کی تھی کہ اس نے خود ہی ایک دن اپنی ماہ کا دود
بہت کوشش کی گئی، بہت آدھ پاؤں مارے گئے، مگر اس نے ایک گھونٹ بھی دودھ نہ پیا حالانکہ وہ بھوکی تھی اور بھوک سے بلک رہی تھی ماباب کو بڑی فکر ہوئی کہ آخر کیا بات ہے بچی دودھ کیوں نہیں پی رہی بڑے بڑی حکیموں سے مشورہ کیا گیا سب نے بچی کو آکر دیکھا سب کا خیال تھا کہ فروز بیمار ہو گئی ہے اور جبھی دودھ نہیں پی رہی مگر وہ بیمار بالکل نہیں تھی بلکہ اچھی خاصی
حکیموں نے اسے خوب اچھی طرح دیکھا اور حیران ہو کر انھوں نے فیصلہ سنا دیا کہ بچی بالکل تندرست ہے۔ اسے کوئی بیماری نہیں۔ اور یہ بھی بتایا کہ وہ ہر طرح سے بھلی چنگی ہے۔ پھر دود کیوں نہیں پی رہی؟ اور یہی ایک بات، لوگوں کی حیرانی کا باز بنی ہوئی تھی۔ اور آخر جب صبح سے شام ہو گئی تو لوگوں کی فکریں اور بڑھ گئیں۔ اور اس کی اس حالت پر سارا محل ہواس باگتا ہو گیا۔ بادشاہ کا مارے فکروں کے برا حال ہو
ملکہ کا روتے روتے برا حال تھا فروس کے بھائی اپنی بہن کی سجانک حالت پر گمسوم اور کمگین ہو گئے تھے سارے محل میں حیرانی اور پریشانی بڑھتی جا رہی تھی سارے طبیب حیران تھے اور پورا شہر رو روکن ننی شہزادی کی زندگی کے لیے خدا سے بھیک مانگ رہا تھا آخر رات کو تقریباً 8 بجے کے قریب شہزادی کے دود نہ پینے کی وجہ اس وقت معلوم ہوئی جبکہ ملکہ کی طبیت اکدم
اور وہ بات کرتے گرتے دھڑام سے زمین پر گرپڑیں۔ سارے محل میں کوہرام مچ گیا، بادشاہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ملکہ بےحس و حرکت بےہوش پڑی تھی اور حکیموں کی بھیڑھ ان کے چاروں طرف جما تھی۔ کسی کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آ رہی تھی کہ آخر یہ ملکہ کو اکدم کیا ہو گیا؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے ملکہ کا سارا جسم نیلا ہونا شروع ہو گیا۔ ملکہ کے تمام جسم میں کوئی خطرنا قسم
اس زمانے میں آج کے زمانے کی طرح اکسر اے مشین تو نہیں تھی کہ ایک سیکنٹ کے اندر یہ معلوم کرلیا جائے کہ جسم کے اندرونی حصے میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے مگر ایک بوڑے اور جہاں دیدہ حکیم کامل کی سمجھ میں کوئی بات آ گئی اور انہوں نے فوراً حکم دیا ملکہ کو ایک ڈولے میں لٹا کر لے چلو بادشاں نے بولا کہاں لے چلیں حکیم بولا دریہ کے اندر بادشاں حیران ہو کر بولا مگر کیوں ح
مجھے بیماری کی وجہ معلوم ہو گئی ہے جلدی کرو اور ہاں ساتھ میں ایک آئنا بھی لے لینا اور ان تمام چیزوں کو ساتھ لے کر اور ملکہ کو ڈولے میں ڈلوائے کر حکیم صاحب دریہ کے کنارے پہنچ گئے پادشاہ اور وزیر بھی ساتھ تھے اور دریہ کے کنارے سیکڑوں لوگوں کا مجمہ بھی تھا ڈولے کو پانی کے اندر لے چلو حکیم صاحب نے حکم دیا اور شاہی کماروں نے ڈولا پانی کے اندر پہ
بس رک جاؤ ملکہ کو اُلٹا لٹا دو حکیم صاحب نے کہا اور ملکہ کا چیرہ پانے کے اوپر جھکا دو حکیم صاحب کے حکم پر ایسا ہی کیا گیا حکیم صاحب ملکہ کے مو کے سامنے کندیل روشن کر کے اور آئنا لے کر کھڑے ہو گئے کندیل کی روشنی ملکہ کے چیرے پر پڑ رہی تھی آئنا سامنے تھا اور ملکہ کا مو کھلوہ دیا گیا اور ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ملکہ کے سارے جسم
اور دیکھتے ہی دیکھتے ملکہ کے مو سے ایک پتلی سی ناؒن تڑپ کر پانی میں گر پڑی اور یہ حایت سا دیکھ کر سب لوگ ہیران رہ گئے ملکہ صاحبہ کو اب اندر کر کے سیدھا لٹا دو حکیم صاحب نے کہا ملکہ اب بالکل تندرست ہو جوکی ہیں وہ بڑے اتمنان سے بولے اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہ گیا اور پھر ان کے حکم پر وہ لوگ ملکہ کو لے کر محل میں واپس آ گئے یہ کیسے ہوا حکیم صاحب؟ مح
اُدھر ملکہ صاحبہ کو ہوش آ چکا تھا اور وہ بالکل تندرس ہو چکی تھی۔ حکیم صاحبہ بولے اے عظیم بازشاہ ملکہ صاحبہ عرصاوا پانی میں ناغن کا ایک حسین سا بچہ پی گئی تھی۔ وہ بچہ اندر تیزی کے ساتھ بڑھتا رہا اور یہاں تک کہ وہ خوب بڑا ہو گیا اور اندر ہی اندر جوان ہو گیا اور یہ اسی ناغن کا اثر تھا کہ ملکہ صاحبہ کے جسم میں زہر پھیلنا شروع ہو گیا اور وہ اسی زہر کی وجہ سے
حکیم صاحب بولے اگر ملکہ صاحبہ کے جسم سے یہ موزی جنور فورا نہ نکال دیا جاتا تو خدا نہ خاستہ ملکہ صاحبہ کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی اور یہی وجہ تھی کہ شہزادی صاحبہ نے صبح سے دیود پینا چھوڑ دیا تھا زہر کا اثر صبح سے تھا اور وہ برابر بڑھ رہا تھا اچھا تو شہزادی اسی لئے دیود نہیں پی رہی تھی بادشاہ سلامت حیران ہو کر بولے جی حضور شہزادی ضرور کوئی بڑی طاقت ہیں
مہا کے جسم میں زہر گھل گیا ہے یہ بات انہیں کسی غیبی طاقت کے ذریعے ہم سب سے پہلے معلوم ہو گئی تھی اگر وہ ملکہ صاحبہ کا دود پے لیتی تو یقینی طور پر وہ بچ نہیں سکتی تھی اور حکیم صاحب کی زبانے یہ بات سن کر سننے والوں کو سکتا سا ہو گیا اور وہ ننی شہزادی کو خدا کا بہت بڑا معجزہ سمجھنے لگے لوگوں کی نظروں میں معصوم شہزادی کا وقار دیوی اور دیوتیاؤں کی طرح بڑھ گیا
یہ تھی بھی بڑی تاجوب اور اچھمبی کی بات اور اس پاکے کے بعد شہزادی کی شورت پورے ملک میں پھیل گئی اور دور دور سے لوگ اسے آکر دیکھنے لگے لوگ اسے اقیدت سے دیکھتے تھے اور اس کا احترام کرنے لگے وہ سب کی نظروں میں ایک مقدس دیوی سے کسی صورت کم نہیں تھی پاسچہ خود شہزادی کا احترام کرنے لگا تھا اور یہی عالم ملکا کا بھی تھا ننی شہزادی کے بھائی بھی اس کی دل سے عزت کرنے لگے تھے اور پھر ا
کہ پورے ملک میں ننی شہزادی کی عظمت اور بزرگی کے قصے دورائے جانے لگے۔ طوران کے بادشاہ نے ایران پر حملہ کر دیا اور اس اجانباک حملے سے پورا ایران گھبرا گیا۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلایا اور وزیر نے فوج کے سب سے وڑے افسر کو بلوا کر اس سے مشورے کیے۔ دشمن کی فوجیں آندھی اور توفان کی طرح ملک کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ قتل و غارت کری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور دشمن کی ف
ہزاروں سے گزر کر لاکھوں تک پہنچی تھی اور دشمن کی یہ فوجیں جنگ کے بہترین سامان سے لیس تھی اور ایران کی فوجیں ظاہر ان کا مقابلہ کر کے انہیں شکست نہیں دے سکتی تھی ننی شہزادی سے اس اسے میں مدد کیوں نہ لی جائے وزیر نے اپنی رائے دی اور اس کی اس رائے پر باشا کا حسلا بلن تو ضرور ہوا مگر وہ افسردگی کے عالم میں بولا شہزادی غریب کی بسات ہی کیا ہے وہ تو ابھی صرف سال بھر کی ہی ہے
ان معاملات میں وہ کیا مدد کر سکتی ہے؟ ہمیں ننی شہزادی سے ضرور پوچھنا چاہیے وزیر کہہ رہا تھا وہ عام بچوں سے کتن الگ ہیں وہ اس نازک موقع پر ہماری مدد ضرور کریں گی تم اپنی بہترین فوجوں کو لے جا کر دشمن کو روکنے کی کوشش کرو بادشاہ نے فوج کے کمانڈر کو حکم دیا ہم تمہاری مدد کے لیے کسی خاص فیصلے کے بعد جلد پہنچ رہے ہیں اور پھر ایران کی فوجیں
ان کی تفان خیز فوجوں کے مقابلے میں اتر آئی اور بڑی گمسان کی جنگ شروع ہو گئی ایک ایک منٹ کی خبریں میں دانے جنگ سے آ رہی تھی اور بادشاہ ان ویشتنا خبروں کو سن سن کر بکھلایا جا رہا تھا اس کی فوجوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی اس کی فوجیں برابر پسپہ ہو رہی تھی اور دشمن کی فوجیں برابر آگے بڑھ رہی تھی بادشاہ یہاں سے برابر کمک بھیج رہا تھا کہ ایک دم شہزادی بڑھ بڑھان
اور اس کے مو سے رال کے بلبلے نکل نکل کر ہوا میں اُنھنے لگے اس کے مو سے لگا تار رال کے بلبلے نکل رہے تھے سیکڑوں اور ہزاروں کی داداد میں مو سے ننے ننے بلبلے وہ نکال رہی تھی اور یہ ننے بلبلے اس کے مو سے نکل کر بڑے بڑے گھبارے بنتے جا رہے تھے اور بڑی تیزی کے ساتھ شمال کی جانب اُڑ رہے تھے اس طرف جہاں دشمن کی فوجیں ایران پر جبری قبضہ کر لینے کے لیے اگے بڑھ
دیکھتے ہی دیکھتے فضاؤں میں رال کے گبار کا تفان امڈ آیا اور یہ تفان اتنا بڑا کہ ان گباروں کے پیچھے سورت چھپ گیا اور یہ گبارے ایران کی فوجوں کے سروں پر سے گزر کر دشمن کی فوجوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے اور ان رال کے گباروں کا دشمن کی فوجوں پر گرنا تھا کہ ایک قیامت آگئی ہاتھی چنگادنے لگے گھوڑے گرگر کر مرنے لگے سپائیوں کے سر اڑ گئے اور ایک تفان خیز د
اور اب اران کی فوجے اس گہی بھی امداد پر کھڑی مسکرہ رہی تھی اور خدا کا شکر عدا کر رہی تھی اور دشمن کی فوجے پناہ ماغ رہی تھی ہاتھی دھیر ہو رہے تھے گھوڑے پڑے دم توڑ رہے تھے اور سپائیوں کے کشتے کے پشتے لگتے جا رہے تھے ان کی تلوارے ٹوٹ کر گر رہی تھی اور بھالے چکنا چور ہو رہے تھے ان کی ترقی افتا طوپ خانہ مٹی کا ڈھیر ہو گیا اور اب طوران کی فوجے سر پ
اور بلبلوں کا توفان کسی طرح سے کم نہیں ہو رہا تھا آخر طوران کا باشا رونے لگا گڑگڑانے لگا اور وہ ایران کے سپہ سلار کے قدموں میں گڑ گیا تمہیں تمہارے رب کا وستہ ہمیں معاف کر دو ہمیں اس کہر سے بچا لو وہ زور قطار رو رہا تھا اور اپنی داری کے بال نوچ رہا تھا اس کے لاکھوں کی داداد میں سپاہی میدانے جنگ میں مرے پڑے تھے سیکڑوں کی داداد میں ہاتھی ڈھیر ہو گئے تھے اور ہزاروں کی داد
جنگ کا سارا سمان راک کا ڈھیر ہو گیا تھا اس کے بچے کچھے سپائی بالکل نہاتے ہو گئے تھے اور اوندے مو پڑے خدائی کہہر سے پناہ مانگ رہے تھے ہمیں قیدی بنالو طوران کا باشا ہاں جوڑ کر بولا ہم ایران کی غلامی کا توک اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار ہیں اور پھر ان سب پر رحم کھا کر ایران کے سپا سالار نے طوران کے باشا کو قیدی بنالیا اس نے طوران کے باشا کے دونوں ہاتھ بان کر اسے اپ
اور خود گوڑے پر بیٹھ کر اسے کھینچتا ہوا اپنے باشا کے محل کی طرف لے چلا اور اب شہزادی نے اپنے مو سے رال کے بلبلے نکاننا بند کر دئیے اور سورج صاف طور پر چمکنے لگا ایران کے باشا نے تران کے باشا کو معاف کر دیا اور اس طرح ایران نے ہاری ہوئی بازی جیت لی اور تران ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایران کا غلام بن گیا اور اس کی ساری شکھی خاک میں مل گئی اور شہزادی فروز کو تمام دنیا میں دیوی اور
اور لوگ دور درا سے اسے دیکھنے کیلئے آنے لگے اور پھر دنیا میں کسی ملک کی یہ حمد کبھی نہ ہوئی کہ وہ ایران کی درف آنکھ ہٹا کر بھی دیکھ سکے ایران برابر ترقی کرتا رہا اس کے کھیٹوں میں پہلے کی بنسبت زیادہ آناچ اگنے لگا اس کے باغوں میں پھلوں کے ڈھیر لگ گئے اور ملک کا زرہ زرہ آفتاب و معتاب بن کر جگھ مگانے لگا اور پھر اس واقعے کو پندرہ سال بیت گئے اور اب شہزادی
ایک بہت خوبصورت اور بہت حسین و جمیل شہزادی کے روپ میں نکھر آئی۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ کوئی اسے نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کا حسن آفتاب بن کر تمام دنیا میں چمک اٹھا اور اس کی شورت مشکو امر کی طرح ہر جگہ پھیل گئی۔ شہزادی فروز کو اس کے باپ نے ہر طرح کی تعلیم دلوائی۔ وہ گھوڑ سواری میں اپنا سانی نہیں رکھتی تھی۔ وہ گھوڑے کی پشت پر ایک پاؤں سے کھڑی ہو ج
وہ بڑے بڑے دریاؤں کو تیر کر پار کر جائے کرتی تھی وہ میلو پانی میں تیر سکتی تھی اور اس کی تراکی میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا وہ پانی میں اس طرح تیرتی تھی جیسے کوئی خوشکی پر بھاگتا ہو وہ آواز پر آکے بند کر کے نشانہ مارتی تھی اور اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا وہ نیزہباز بھی تھی اور اس کے نیزے کا مقابلہ ملک بھر میں کوئی نہیں کر سکتا تھا وہ تلوار چلاتی
کہ دیکھنے والے دانتوں میں انگلیاں ڈبھا لیتے تھے۔ وہ ایک ہی وقت میں آٹھ دس آدمیوں سے اکیلی لڑ سکتی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ تلوار اتنی خوبی سے چلاتے تھے کہ دیکھنے والوں کو سکتا ہو جاتا تھا۔ وہ شیر کا شکار مچان پر بیڑھ کر کبھی نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس نے ہمیشہ زمین پر کھڑے رہ کر ظالم سے ظالم اور خون خوار شیروں کو ٹکانے لگایا تھا۔ وہ مست ہاتھیوں کو ایک منٹ میں کابو
اس میں بھس بھر دیا کرتی تھی اس کی پورتی اور اس کی دلیلی کا مقابلہ دنیا میں کوئی نہیں کر سکتا تھا اس کے مقابلے میں بڑے بڑے نامی شورتی آفتہ بہادر آتے ہوئے تھرت راتے تھے اور ان کا پتہ پانی ہو جاتا تھا اور ان تمام باتوں کے باوجود وہ حد درجہ نازک بھی تھی اس کے جسم میں لوش تھا اور اس کی آنکھوں میں شرموں ہی چاپ کے بردے پڑے رہتے تھے اس کا جسم نور کا بنا ہوا مالوں ہوتا تھا اور اس کی چال میں
سو سو قیمتیں مچلا کرتی تھی اور اس کی حسین و جمیل آنکھوں میں دنیا جہان کی ساری رائنائیاں قدرت نے ایک ساتھ سمو دی تھی اس کی آواز میں بلا کا سوس تھا جب وہ گنگناتی تھی تو بیٹے دریاؤں کا پانی جم جاتا تھا تمام دنیا میں اس کے حسن کا چرچا تھا اور دنیا بھر کے شہزادے اسے اپنی ملکہ بڑھانے کیلئے دن رات خواب دیکھا کرتے تھے ہر جگہ سے اس کے لئے پیام آتے تھے
اور تمام دنیا کی حکومتوں کے والی اسے اپنی انگوٹھی کا نگینا بنانے کیلئے بیچین تھے اور شہزادی فروز کے ماباب بھی اپنی بیٹی کیلئے کسی مناسب رشتے کی تلاش میں لگے ہوئے تھے اکسر میہ بیوی میں شہزادی فروز کی شادی کی بارے میں گفتگوہ ہوا کرتی تھی میں کہتی ہوں کہ اب فروز کو ہمیں بیاد دینا چاہیے ملکہ نے بادشاہ سے کہا میں بھی یہی سوچتا ہوں مگر مشکل یہ ہے کہ ہماری اس بیٹی کے لائے کوئی
رشتے تو ہر جگہ سے آ رہے ہیں مگر فروس کا ہمپلہ ایک بھی نہیں اس سوچ نے تو مجھے بلکل باگل بنا دیا ہے بادشاہ بولا وہ خود سے کسی جگہ شادی کرنا چاہتی ہے یہ بات بھی تو اس نے آج تک ہمیں نہیں بتائی بادشاہ بولا پوچھ کر دیکھو ملکہ بولی میں اس مسئلے پر اس کل سباہی باتجیت کروں گی اور پھر دوسری دن ملکہ نے شہزادی فروس کے سر پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیر کر پوچھا ب
اب تم ماشاء اللہ بڑی ہو گئی ہو اور ہم تمہاری شادی کے خواب دیکھ رہے ہیں بولو تمہاری کیا رائے ہے اس بارے میں یہ سن کر شزادی شرما گئی اور بڑے شرمیلے انداز میں بولی آپ میری ماں ہیں میں آپ کے سامنے بھلا کیا بول سکتی ہوں اور ابا جان کی مرضی میرا ایمان ہے بیٹی تمہیں کوئی پسند ہے اور یہ سننا تھا کہ شزادی شرما گئی مجھے وہی پسند ہے جو آپ کی پسند ہو
اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھاگ گئی اور پھر اس واقعے کے ایک مہینے بعد ایران کے شہنس شاہ نے دنیا بھر کے اپنے ہم مذہب بازشاہوں کی خدمت میں دعوت نامے روانہ کر دئیے انہوں نے لکھا تھا کہ شہزادی کمر کی شادی میں اُس ہی شہزادے سے کرنا چاہتا ہوں جو ہر لیاء سے میری بیٹی کے ہمپلا ہو فلا فلا تاریک کو آپ لوگ ایران میں آ کر جمع ہو میری بیٹی اپنے ہونے والے شہور کا انتخاب خود کرے گی
اسی سے میں اپنی بیٹی کا بھیا کروں گا اور اس دعوت نامے کو پا کر وقت مقررہ پر دنیا بھر کے باشا اپنے اپنے شہزادوں سمیت ایران میں آکر جمع ہو گئے ان کے ساتھ ان کی فوجیں بھی تھیں ان کے مشیر بھی تھے ایران میں موزیز مہمانوں کا تاتا بند گیا اور ہر قومت کی یہ دلی عارضو تھی کہ شہزادی فروز اس کی بہو بنے اور پھر مقررہ وقت پر یہ تقریب شروع ہوئی ایک عظیم و علشان
اور بے ہت کیمتی سادوں سامان سے سجے ہوئے شامیانے کے اندر زرنگا کرسیوں پر دنیا بھر کے ملکوں کے شہزادے آکر بیٹھ گئے ہر شہزادے کا دل اس کے سینے میں دھڑک رہا تھا ہر دل کی یہ آرزو تھی کہ شہزادی فروز جیسے انمول رتن کا مالک وہ بنے اور پھر مقررہ وقت پر شہزادی فروز جلوہ گر ہوئی اور اسے دیکھ کر اس کے روبے حسن سے شہزادوں اور دیکھنے والوں کی نگاہیں جگ گئیں د
جو کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ جتنی زیادہ خراج کی جائے اتنی ہی زیادہ اور بڑھتی ہے اور جس کی کوئی تھا نہیں ہوتی شہزادی کا یہ سوال تھا وہ بولی آپ حضرات میں سے جو شخص اس کا صحیح جواب دے گا میں اس کی کنیز بن جاؤں گی اور شہزادی کا یہ سوال سنکر شہزادوں کے موفق ہو گئے اور وہ لوگ اپنے اپنے داناؤں اور مشیروں سے مشورے کرنے لگے ایک بولا وہ دورت فن سپا گری ہے
دوسرا بولا وہ دولت طاقت ہے تیسری نے کہا وہ دولت حسن ہے چوتھا بھی بول پڑا وہ دولت اقل ہے ایک اور بولا تلوار وہ سب سے بڑا جوہر ہے وہ دولت پارس پتھر ہے وہ دولت ہرونر ہے وہ دولت پانی ہے وہ دولت ہوا ہے وہ دولت مٹی ہے جو سونا اگلتی ہے وہ دولت خدا کی عبادت ہے وہ دولت آگ ہے
مختلف شہزادے جواب دیتے رہے وہ دولت رزک ہے جو خدا ہر ایک کو دیتا ہے۔ غرض کے اس قسم کے بہت سے جواب ملے اور شہزادی ہر جواب پر نفی میں سر ہلاتی رہی اور جواب دینے والے شہزادوں پر مسکراتی رہی اور اس وقت جبکہ تمام شہزادوں کے جواب ختم ہو چکے تھے باہر سے ایک آواز آئی علم سے بڑھ کر کوئی دولت دنیا میں نہیں یہ وہ دولت ہے کہ جس کا کبھی خاتمہ نہیں ہوتا۔
باہر سے بڑے دل گداز انداز میں یہ شیر لوگوں کے کانوں سے آکر ٹکر آیا اور شہزادی کا چیرہ اس آواز پر گلنار بن گیا وہ زور سے چیکھی بے شک وہ دولت علم ہے اور یہی میرے سوال کا جواب ہے بیٹھے ہوئے تمام شہزادوں کا موفق ہو گیا اور شہزادی اپنی قرصی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی ابا جان جس نے میرے سوال کا صحیح جواب دیا میں اس کی کنیز ہوں خوا کوئی بھی ہو
اسے عزت و اعترام کے ساتھ اندر بھلایا جائے اور پھر بازشاہ کے اکم پر وزیر باہر گیا اور اپنے ساتھ ایک ایسے نوجوان کو اندر لے کر حاضر ہوا جو بےہد معمولی قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اسے دیکھ کر پورا مجمہ سناٹے میں آ گیا شہزادے اس کی حالت پر مسکرہ دئیے کون ہو تم؟ بازشاہ نے غصہ سے پوچھا اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا میں ایک تالبیلم ہوں تم کس ملک
میں ملک ہندوستان کا رہنے والا ہوں یہاں کیا لےنے آئے تھے؟ میں علم کی پیاس بجانے کے لئے دنیا کے ہر ملک کا چکر کات آیا ہوں تم نے شہزادی کے سوال پر جواب دینے کی جرد کیسے کی؟ باچھا سلامت علم دنیا کی سب سے بڑی جرد ہے وہ تالب علم کمال عدب سے بولا اور میں نے یہ جواب اس وقت دیا ہے جبکہ شہزادی صاحبہ کی سوال کا اس جگہ کوئی جواب نہیں ملا تھا اچھا تمہارا نام کیا ہے؟
میرا نام تالیس ہے تمہارا مذہب کیا ہے؟ بازشاہ سلامت علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا میرا مذہب صرف انسانیت ہے اور تالیس کے اس برجستہ جواب پر شہزادی کے مو سے بے اختیار تاریف نکل گئی اور وہ آجتہ سے بڑھ بڑھائی بے شک انسانیت سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں اور علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تمہاری مالی حالت کیا ہے؟ بازشاہ کے اس فضول سوال پر تالیس زیر علم مسکرہ دیا
علم میری سب سے بڑی دولت ہے اور اس دولت سے میں تمام زندگی اپنی پیاس بجھاتا رہوں گا تم شہزادی کو خوش رکھ سکو گے علم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی خوشی ممکن نہیں باشا سلامت تم اپنے آپ کو شہزادی کے قابل سمجھتے ہو علم سے بڑی دنیا میں کوئی قابلیت نہیں باشا سلامت اور پھر علم کے سامنے باشا لا جواب ہو گیا اور اس واقعے کے دوسرے دن ہی شہزادی فروز کی شادی بڑی دھوم دعم کے ساتھ
اور عظمت و دولت والے سارے شہزادے اپنا سا مو لے کر رہ گئے علم کی جیت ہو گئی اور دنیا کی تمام فانی عظمتوں کا جناسہ نکل گیا اور رہتی دنیا تک یہ بات زندہ رہ گئی کہ دنیا میں سچ مجھ علم سے بڑی نہ تو کوئی دولت ہے اور نہ کبھی ہو سکتی ایران کی وہ حسین و چمیل دلہن جسے بیانے کیلئے سارے ملک بیچین تھے علم کی برکت کی دفعل ایک معمولی انسان کے ساتھ بیان کر ہندوستان آ گئی
اور علم و فضل کے نام پر ہندوستان کا نام ساری دنیا میں سورج اور چاند کی طرح مشہور ہو گیا اور ہماری دلچسک بحانی اس جگہ آکر ختم ہو گئی کہ علم سے بڑھ کر دنیا کی کوئی دولت نہیں اور انسانیت دنیا کا سب سے وڑا مذہب ہے پیارے دوستو ملک روم کی شہزادی جہاں آرہا بہت ڈربوک اور بھوزدل تھی باقی ملکوں کی شہزادیوں کی طرح نہ ہی اس نے گھوڑے پر سواری سکھی تھی اور نہ ہی تلوار چلائی
اور نہ نشانے بازی سکھی تھی۔ اسے ان سب چیزوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس لئے وہ زیادہ تر شاہی باگ میں اپنی سہلیوں کے ساتھ بیٹھی رہتی۔ اگر کبھی اسے باہر نکلنا پڑتا تو وہ ایک بہادر سپائیوں کا پورا دستہ ساتھ لے کر جاتے۔ بادشاہ نے اس کا ڈر دور کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی اور شہزادی کی بھزدلی نہ گئی۔ تھکار کر بادشاہ خ
کہ شہزادی کو کہیں اکیلا نہ جانی دیا جائے ہمیشہ اس کے ساتھ بہادر سپائیوں کا ایک دستہ رہنا چاہیے تاکہ اس کی بزدری کی وجہ سے کوئی اسے نقصان نہ پہنچا دے شہزادی کو البتہ زیورات اور نئے سے نئے اور خوبصورت کپڑے پہنے کا بہت شوق تھا اسی لیے اس کے پاس انتائے خوبصورت لباسوں کی الماری بھری ہوئی تھی اس طرح بے شمار نئے ڈیزانوں کے زیورات بھی ہر وقت اس کے پاس موجود رہتے اسے پ
خاص طور پر سرخ رنگ کے پھول اسے بے ہتھ اچھے لگتے تھے۔ اسی لیے وہ بالوں میں ہمیشہ سرخ رنگ کے پھول لگائے رکھتی تھی۔ شہزادی آج بے ہتھ خوش تھی۔ کیونکہ اس کی ایک پرانی سہلی، وزیرزادی روشن، دو سال کے بعد اس سے آکر ملی تھی۔ وہ دو سال کے لیے اپنی نانی امہ کے گھر چلی گئی تھی، جو کسی اور ملک میں تھی۔ اور چونکہ روشن، شہزادی کی بہت گیری سہلی تھی۔ اسی
تو شہزادی بہت خوش ہوئی اور اس نے وزیرزادی روشن کی آمت کی خوشی میں جشن منانے کا اعلان کر دیا۔ شہزادی، یہاں شاہی محل میں جشن منانے میں کیل اتوف آئے گا؟ ایک سہیلی نے مو بناتے ہوئے کہا اور وزیرزادی روشن سمید باقی سب سہیلیوں نے بھی اس کی تاہید کر دی۔ تو پھر کہاں منایا جائے یہ جشن؟ شہزادی نے حیران ہو کر پوچھا۔ ایک سہیلی بولی، کسی جنگل میں منانا چاہیے؟
وہاں خوفناک دنیدے ہوتے ہیں، سانپ ہوتے ہیں، ہم تو کبھی بھی جنگل میں نہ جائیں گے۔ شہزادی نے خوف زدہ لیجے میں کہا، چلو جنگل نہ سہی کسی پہاڑ پر چلتے ہیں۔ دوسری صحیلی نے کہا، پہاڑ پر؟ ارے نہیں! ہمیں پہاڑ سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہاں خردری اور اوچی دیچی چٹانیں ہوتی ہیں۔ ہم اگر کسی چٹان سے گر پڑے تو ہماری ہڈیاں ٹوڑ جائیں گی۔ شہزادی چونکہ
میں بتاتی ہوں ایک جگہ مجھے یقین ہے کہ یہ جگہ شہزادی کو بھی پسند آئے گی وزیرزادی روشن نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں جلدی بتاؤ کون سی جگہ ہے سب سہلیوں نے حیران ہو کر پوچھا دریہ کے کنارے پرانے باغ میں وہاں چار دیواری بھی ہے اور جگہ بھی محفوظ ہے نہ کوئی دریندہ نہ کوئی گرنے کا خطرہ وزیرزادی روشن نے کہا ہاں وہ جگہ ٹھیک ہے وہاں ہم ہر طرح سے مح
چار دیواری سے بہر پہرے پر لگا دیں اس طرح کوئی اندر نہیں آ سکے گا شہزادی نے کہا تو ساری سہلیاں خوشی سے اچھل پڑیں چنانچہ وہاں جانے کا پروگرام بن گیا اور دوسرے دن شہزادی اپنی سہلیوں اور وزیرزادی کے ساتھ بگیوں میں سوار ہو کر دریہ کے کنارے پرانے باگ میں پہنچ گئیں یہ باگ چونکہ بے ہت پرانا تھا اسی لیے یہاں کے درخت بالکل سوک چکے تھے ان پر ایک پتہ بھی
باگ بہت وثی رقبے میں پھیلا ہوا تھا اور اس کے گرد اونچی اونچی دواریں تھیں دریا اس باگ کے اندر سے بہتا تھا شہزادی کے بہادر معافز بھی ساتھ تھے شہزادی نے ان سب کو دو چاہ دیوری سے بہر پہرے پر بٹھا دیا البتہ ان کے سردار کو اس نے اپنے ساتھ رکھ لیا تاکہ مزید حفاظت ہو سکے جس جگہ شہزادی اور اس کی سہلیاں کٹھی بیٹھی تھیں وہاں سے کچھ دور گوٹوں میں ایک پرانے درخت کے اندر
چونکہ اس باگ میں کسی خطرے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا اس لئے گوتم بڑے اتمینان سے کھڑا تھا البتہ اس نے اپنا خنجر ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا وہ بڑی دلچسپی سے شہزادی اور اس کی سہلیوں کو کھلتے کھوٹے اور ایک دوسری کے ساتھ باتے کرتے دیکھ اور سن رہا تھا کہ اچانک اس کے گلے میں کسی نے بازو ڈالا اور گوتم کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کی گردن کسی زبردہ شکنجے میں جکڑ گئی
اور دوسرے ہی لمحے اس کے سینے میں آگ کی سلاخ اتر تھی چلی گئی اور گوتم کا جسم پڑکنے لگا لیکن مارنے والے نے اب گردن کے ساتھ ساتھ اس کا مو بھی بند کر رکھا تھا اس لئے گوتم چیکھ بھی نہ سکا اسے صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ اس پر حملہ کرنے والی کوئی عورت ہے لیکن وہ شکل سے ہی کوئی بھوتنی لگ رہی تھی اور اس کے جسم میں بے پناہ طاقت تھی اس نے گوتم کے سینے میں تیز خنجر مارا تھا اور پھر گوتم کی آ
وہ ہلاک ہو چکا تھا اسی لمح شہزادی اور اس کی صحلیوں نے ایک دم زور زور سے کہکوں کی آوازیں سنی آوازیں درختوں کی طرف سے آ رہی تھی تو وہ سب در کے کھڑی ہو گئی اور پھر شہزادی کے حلق سے ایک زوردار چیخ نکلی اس نے ایک چڑیل کو خون علودہ خنجر ہاتھ میں اٹھائے کہکے لگاتے ہوئے اپنی طرف بڑھتے دیکھا اور پھر خوف کے مارے وہ بہوش ہو کر گر گئی البتہ بہوش ہوتے ہوتے
اس کے کانوں میں اس کی سہلیوں کی چیخوں کی آوازیں سنای دے رہی تھی۔ پھر جب شہزادی کی آنکھیں کھلیں تو اس کے کانوں میں وہی چیخیں گوجنے لگیں اور وہ ہل بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ لیکن دوسرے لمحے ایک بار پھر خوف سے چیخ پڑی کیونکہ اب وہ باق کے بجائے غار میں بیٹھی تھی۔ غار کا دہانہ ایک باری پتھر سے بند تھا۔ پتھر کے مختلف سمتوں سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی۔ غار میں ہر جگہ
اسی لمحہ شہزادی نے دیکھا کہ اس کے ساتھ ساتھ وزیردازی روشن بھی بہوش پڑھی ہوئی ہے تو اس نے خوف کے مارے وزیرزادی کو جنجورنا شروع کر دیا اور پھر وزیرزادی بھی چیکھتی ہی ہوش میں آ گئی ہم کہاں ہیں شہزادی؟ وہ چڑیل بھوتنی کون تھی؟ یہ تو کوئی غار ہے یہاں کتنی بدبو ہے وزیرزادی نے ہوش میں آتے ہی پاغلوں کے انداز میں چیکھتے ہوئے کہا یہاں انسانیں ڈھچے پڑے ہیں
یہ تو کسی آدم خور کی غار ہے شہزادی نے بری طرح کھاپتے ہوئے لجے میں کہا ساری سہلیاں اس چھوڑے نے لازمہ سب کو مار ڈالا ہوگا وزیرزادی نے خوف سے کھاپتے ہوئے کہا اور اسی لمحہ شہزادی اچھی آواز میں رونے لگ گئی وہ بالکل اسی طرح رو رہی تھی جیسے کوئی چھوٹی بچی خواہ میں ڈر جانے کے بعد روتی ہے اب وزیرزادی روشن کافی حت تک سمل چکی تھی وہ شہزادی کی ن
اس لئے اس نے فوراً روتی ہوئی شہزادی کو تسلی دینا شروع کر دی لیکن شہزادی تو مسلسل روے چلی جا رہی تھی شہزادی صاحبہ! اب اگر ہم نے اپنے زندگی بچانی ہے تو ہمیں بہادر بننا پڑے گا ورنہ وہ بھوتنی ہم دونوں کو بھی مار ڈالے گی وزیرزادی نے شہزادی کو سمجھاتے ہوئے کہا اور اب یہ بات شہزادی کی بھی سمجھ میں آ گئی تھی کہہ سے بہادر بنے وہ خوفناک بھوتنی ہے ش
ہم دو ہیں اور وہ ایک ہے۔ اگر ہم حمد کریں تو ہم اس کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔ ارے ہاں واقعی اس بات کا تو مجھے خیال بھی نہ آیا۔ واقعی ہم دو ہیں اور وہ ایک۔ لیکن اس کے پاس تو خنجر ہے۔ آپ فکر نہ کریں شہزادی صاحبہ۔ ہم یہاں سے نوکیلے پتھر اٹھا لیں گے۔ وزیرزادی نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ اچانہ غار کے بندہانے کے باہر سے اس بھوٹنی کے کیکو کے آواز سنای دھی۔
اور وہ دونوں جلدی سے اٹکھاں خوف سے کھامتے ہوئے غار کی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئیں۔ یہ لیجیے پتھر، بس ذرا حمد کی بات ہے۔ وزیرزادی نے جلدی سے دونوں کیلے پتھر اٹھائے اور ایک شہزادی کو دیتے ہوئے کہا شہزادی نے پتھر پکڑتھو لیا لیکن اس کا ہاتھ بری طرح کھاں پراہا تھا اور پھر غار کے دہانے پر رکھاں و باری پتھر ہٹنے لگا۔ حمد کیجئے شہزادی صاحبہ،
اور شزادی نے صرف سرا ہلا دیا ظاہر ہے اس کے سوا اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی چند لمحوں بعد ایک خوفناک دمائکے سے غار کے دہانے پر رکھا ہوا پتھر ایک طرف جا گرا اور پھر غار کے دہانے پر وہ خوفناک بھوتنی ظاہر ہوئی جس کی شکل دیکھ کر ہی خوف آتا تھا اور اس کے ہاتھ میں خون علودہ خنجر تھا میں نے تمہارے سب سپائیوں اور سہلیوں کو ہلاک کر دیا ہے میں نے ان سب کا دل بھر کر خون پیا ہے
میں تمہیں اس لئے اٹھا لائی تھی کہ بعد میں تمیناں سے تمہارا گوشت کھاؤں گی تم دونوں کا گوشت مجھے باقی سب سے نرم نرم لگا تھا بھوٹنی نے زور سے چیکھتے ہوئے کہا اسی لمحے روشن کا ہاتھ حرکت میں آیا اور اس کے ہاتھ سے نوکیلا پتھر اٹھا ہوا بھوٹنی کی پیشانی کی طرف بڑھا لیکن بھوٹنی تیزی سے ایک طرف ہٹ گئی اور روشن کا پھینکا ہوا پتھر اٹھا ہوا غار سے باہر
خوفناک انداز میں چیکھتے ہوئے ہاتھ میں پکڑاوہ خنجر پوری قوہ سے دوار کے ساتھ کڑی روشن کی طرف پھینک دیا۔ اس کے جسم میں نجانے کس کے در طاقت تھی کہ خنجر گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار سے ارتا ہوا سیدھا اس کی طرف بڑھا مگر وہ ابھی درمیان میں ہی تھا کہ شہزادی نے اپنے ہاتھ میں پکڑاوہ پتھر بودنی پر دے مارا اور پھر ایک حیرت نگیز واقعہ ہوا کہ شہزادی کا پھ
فزیرزادی روشن کی طرف بڑھتے ہوئے خنجر سے ٹکرا گیا اور وہ دونوں ایک دمارکے سے نیچے گر گئے ہو ہو، تم واقعی بہترین نشانہ باز ہو اور بہادر بھی ہو بھوتنی نے آکھیں پارتے ہوئے کہا اسی دوران وزیرزادی نے تیزی سے آگے بڑھ کر خنجر اٹھانا چاہا لیکن بھوتنی نے بھی چلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ وزیرزادی زمین پر پڑا ہوا خنجر اٹھاتی بھوتنی وزیرزادی ت
اور اس نے اسے اپنے طاقتور بازووں میں جکڑ لیا اب چونکہ غار کا دہانہ خالی ہو گیا تھا اس لئے شہزادی کو فرار ہونے کا بڑا اچھا مکہ مل گیا اور اس نے غار کے دہانے کی طرف دور لگا دی لیکن ابھی وہ دہانے تک پہنچئی تھی کہ اسے وزیرزادی روشن کی چیکھنے کی آواز سنائی تھی وزیرزادی چونکہ شہزادی کی بڑی گہری سہلی تھی اس لئے اس کی چیکھیں اس سے برداش نہ ہو سکیں اور باوجود بزدل ہ
کہ بھوتنی وزیرزادی کو زمین پر گرا کر اس کی گردن توڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے مطھ مارو۔ شہزادی نے چیکھتے ہوئے کہا اور پھر اس نے جوک کر ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور دوڑ کر آگے بڑھی اور پوری کوئے سے اس نے پتھر بھوتنی کے سر پر مار دیا۔ اس میں نجانے کہاں سے اتنی حمد آ گئی تھی۔ اسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ پتھر پوری کوئے سے بھوتنی کے سر پر ل
اور پھر اس کے جسم نے تڑپنا شروع کر دیا شہزادی نے ایک اور پتھر اٹھایا اور پوری کوئے سے تڑپتی ہوئی بھوٹنی کے سر پر مار دیا وزیرزادی روشن بے ہوش ہو چکی تھی اس لئے اسے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ جسے وہ بزدل سمجھتی تھی وہ شہزادی اس وقت کتنی بہادری سے کام کر رہی تھی دوسری ضرب نے بھوٹنی کے سر کے پرخچے اڑھا دیئے اور بھوٹنی تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو گئی بھ
شہزادی خوشی سے اچھل پڑی اس کے تصور میں بھی نہ تھا کہ وہ خالی ہاتھوں سے اس طرح خوفناک بھوٹنی کو حلاک کر سکتی ہے شہزادی نے بھوٹنی کے حلاک ہوتے ہی جلدی سے وزیرزادی کو جو جوڑنا شروع کر دیا مجھے مطمارو بچاؤ بچاؤ وزیرزادی روشن نے حوش میں آتے ہی چیکھنا شروع کر دیا فکر نہ کرو روشن ہم نے تمہیں بچا لیا ہے ہم نے بھوٹنی کو حلاک کر دیا ہے شہزادی نے مسرت
چنانچہ وہ خوشی کے مارے چیکھتی ہوئی شہزادی سے لپٹ گئی اوہ بہادر شہزادی آپ واقعی بہادر ہیں آپ نے جو کارنامہ سرنجام دیا یہ کارنامہ بڑے بڑے بہادر سرنجام نہیں دے سکتے وزیرزادی نے شہزادی سے لپٹے ہوئے بےہتھیار ہو کر کہا تو شہزادی کا چہرا خوشی سے کل اٹھا اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم واقعی بہادر ہیں اور خامہ خب اس دل بنی ہوئی تھی شہزادی نے خو
اور پھر دونوں سہلیاں اس غار سے بھار نکل آئیں انہوں نے دیکھا کہ وہ اس پرانے باق سے کشدور موجود پہاڑی کے دامن میں موجود تھیں چنانچہ وہ دونوں تیزی سے باق کی طرف بڑھنے لگیں ابھی وہ باق تک نہ پہنچی تھی کہ اچانک ایک طرف سے انہیں ایک بار پھر خوفنا قیقوں کے آوازیں سنای دینے لگیں وہ دونوں ٹھٹک کر رک گئیں اور پھر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ باق کے دانی طرف سے ایک بھوتنوم
اس کے جسم پر بڑا سا سرخ رنکا لبادہ تھا وہ جسمانی لحاظ سے انتہائی طاقتور لگ رہا تھا وہ دونوں جلدی سے ایک بڑے درخت کے تنے کی اوٹ میں ہو گئیں اس لئے کہ اس بوطن میں آدمی کی نظریں ان پر نہ پڑے اور وہ ان کے قریب سے کہ کے لگاتا ہوا گزر گیا اس کا روح سکار کی طرف تھا جہاں سے وہ نکلی تھی اور جہاں اب اس خوفناک بوطنی کی لاش پڑھی ہوئی تھی یہ اس بوطنی کا شہور لگتا ہے شہزادی نے
ہاں شہزادی اور یہ اس بھوٹنی سے زیادہ طاقتور ہے وہ بھوٹنی برال عورت تھی جبکہ یہ مرد ہے اس لئے ہمیں فوراً بھاگ جانا چاہیے وزیرزادی نے خوف سے کھاپتے ویلجے میں کہا ہم بھاگ کر کہاں جائیں گے سپاہی اور باقی سہلیاں تو ہلاک ہو چکی ہیں اور شہر یہاں سے بہت دور ہے اور اس بھوٹ کو ابھی اپنی بیوی کی موت کا بتا چل جائے گا چنانچہ یہ ہماری تلاش میں نکل پڑے گا
کہ بجائے بھاگنے کے ہم اس کا مقابلہ کریں اور اسے حلا کر کے پھر اطمینان سے واپس جائیں۔ شہزادی نے حمد بھرے لہچے میں کہا تو وزیرزادی حیرت سے شہزادی کو دیکھنے لگی۔ اسے حیرت اس بات پر تھی کہ شہزادی جو سارے ملک میں بزدل مشہور تھی، اب کس قدر بہادری کی باتیں کر رہی تھی۔ ٹھیک ہے شہزادی، واقعی ہمیں حمد اور بہادری سے کام لینا چاہیئے۔ اسی دوران وہ بھوتنوم آدمی غار کے دہانے تک پہ
وہ ان کے دیکھتے دیکھتے غار کے اندر داخل ہو گیا ہمیں دوڑ کر اس باک کے اندر چلے جانا چاہیے وہاں ہم چھپ کر اس پر سانی سے حملہ کر سکتی ہیں وزیرزادی نے کہا اور شہزادی نے اس بات میں سر ہلا دیا اور پھر ان دونوں نے باک کی طرف دوڑ لگا دی وہ چونکہ ایک انتہائی رفتار سے دوڑ رہی تھی اس لئے وہاں وہ باک کے دروازے تک پہنچ گئیں دروازے میں داخل ہوتے ہی وہ دونوں دوار کے ساتھ لکھ کر کھ
اسی لمحے انہیں دور سے بھوٹنم آدمی کے زور زور سے چیکھنے کی آواز سنائی دیں۔ انہوں نے دیکھا کہ غار کے سامنے وہی بھوٹنم آدمی ہاتھ میں خون علودہ کھنجر اٹھائے کھڑا زور زور سے چیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی وہ اس طرح ادر ادر دیکھ رہا تھا جیسے اس بھوٹنی کے مارنے والوں کو تلاش کر رہا ہو پھر ایک دم اس کی نظریں زمین پر پڑیں اور اس کے ساتھ ہی وہ چل کر اس درخت کی طرف دورنے لگا
اوہو یہ تو ہمارے پیروں کے نشان پر دوڑ رہا ہے اس نے ہمارے پیروں کے نشان دیکھ لئے ہیں اکلمن وزیرزادی فورا ہی اصلی بات سمجھ گئی آپ ایک درکھ کے پیچھے چھپ جائیں اور میں دوسرے درکھ کے پیچھے جاتی ہوں جب یہ کسی ایک کے پیچھے دوڑے گا تو دوسرا اس کے سر پر پتھر مار دے گا اس طرح لازمی کے نیچے گرے گا تو ہم اسے پتھر مال مار کر ہلاک کر دیں گے وزیرزادی
اس پر وزیرزادی نے جلدی سے ایک پتھر اٹھایا اور ایک بڑے سے درخت کی طرف دور پڑھی جبکہ شہزادی نے ایک اور پتھر اٹھایا اور قریب ہی موجود ایک درخت کے پیچھے چھپ گئی چند لمحوں بعد وہ بھوتنوم آدمی خنجر اٹھائے چیختا ہوا باگ کے دروازے میں داخل ہوا اور پھر وہاں پر ادر ادر در دیکھنے لگا اسی لمحے اچانک اس کی نظریں اُس درخت پر جم گئیں جس کے پیچھے وزیرزادی چھپی ہوئی ت
اب تم میرے ہاتھوں سے بچ کر نہیں جا سکو گی میں تمہارا خون پی جاؤں گا اس بھوتنما آدمی نے چیکھتے ہوئے کہا اور پھر تیزی سے وزیرزادی والے درد کی درد بڑھنے لگا شہزادی جس درد کے پیچھے چھپھی ہوئی تھی وہ راستے میں پڑھتا تھا پھر جیسے ہی وہ بھوتنما آدمی تیزی سے دورتا ہوا شہزادی کے قریب سے گزرا شہزادی نے اچانک اپنی ایک ٹانگ آگے کر دی اور تیز دورتا
اسی لمحہ شہزادی نے اپنے ہاتھ میں پگڑا ہوا پتھر پوری کووہ سے اس کے سر پر دے مارا ادھر وزیرزادی بھی اس بھوٹ کے نیچے گرتے ہی درکتوں کی پیچھے سے نکلی اس نے بھی اپنا ہاتھ میں پگڑا ہوا پتھر اس کی کھوپڑی پر دے مارا لیکن یہ پتھر اتنے بڑے نہ تھے کہ جن سے اس بھوٹ کی کھوپڑی ٹوٹ سکتی اس لئے وہ چیکھ مار کر اچلا اور کھڑا ہو گیا اب وزیرزادی کے سامنے اور شہ
پتھروں سے ٹگرا کر بھوتنوم آدمی کا چہرہ خاصہ زخمی ہو چکا تھا۔ وزیرزادی اسے اپنی طرف برتا دیکھ کر خوف سے چیکھتی ہوئی پلٹی اور بیتحاشا دوڑنے لگی۔ وہ بھوتنوم آدمی بھی تیزی سے اس کے پیچھے دوڑا۔ اسی دوران شہزادی کو اس بھوتنوم آدمی کے ہاتھ میں پکڑا ہوا خنجر ایک طرف پڑا ہوا نظر آ گیا۔ وہ گرنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ شہزادی نے لپک کر وہ خنجر
اس آدمی کے پیچھے دور پڑھی جبکہ پوری رفتار سے دورتا ہوا بھوٹ نومہ آدمی اپنے آپ کو بروقت سمبھان نہ سکا اس لئے تیزی سے آگے نکلتا چلا گیا لیکن وزیرزادی بہت اکل مند تھی اور حشار بھی وہ نہ صرف جھکائی دے کر ایک طرف ہٹھی بلکہ اس نے آگے بڑھتے ہوئے اس بھوٹ پر گوم کر لات ماری اور بھوٹ ایک بار پھر چیکھتا ہوا مو کے بل زمین پر گر گیا ابھی وزیرزادی اسے مارنے کے لئے ب
کہ شہزادی دورتی ہوئی اس کے قریب پہنچ گئی اور اس سے پہلے کہ وہ بھوت آدمی اٹھ کر کھڑا ہوتا شہزادی نے جک کر پوری کوئے سے خنجر اس کی پشت پر دے مارا شاید یہ اتفاق تھا یا پھر شہزادی کا نشانہ درست تھا کہ خنجر این اُس جگہ لگا کہ اس کی نوک پشتے گزر کر اس کے دل میں گز گئی چنانچہ وہ بھوت مو کے بل پڑا پڑکتا رہا اور پھر ساکت ہو گیا اب میں واقعی بہادر ہو چکی ہ
شہزادی نے بھوٹ کے مرتے ہی بے احتیار خوشی سے ناچنے لگی آپ واقعی بہادر ہے شہزادی اب میں نے آپ کو واقعی بہادر مان لیا پہلے میں سمجھتی تھی کہ شاید اتفاق سے وہ بھوٹنی آپ کے ہاتھوں مر گئی اب مجھے بُزدل نہ کہنا شہزادی نے ہستے ہوئے کہا اسی لمحے دور سے دورتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں اور وہ دونوں چونک پڑیں پھر تھوڑی دیر بعد جب گھوڑے باگ کے درو
خوشی سے اچھل پڑھی۔ ایک سپایس بھوتنی اور بھوتنومہ آدمی سے بچ کر شاہی مہل کی طرف دوڑ گیا تھا اور اس نے بازشاہ کو اطلاع دی دی تھی چنانچہ بازشاہ فوج لے کر یہاں پہنچ گیا لیکن یہاں آ کر جب اس سے معلوم ہوا کہ اس کی بیٹی نے بھوتنی اور بھوتنومہ آدمی کے ساتھ ساتھ ایک خوف نا گزدے کا مقابلہ کر کے ان کا خاتمہ کر دیا تو اس نے شہزادی کو گلے لگا لیا بازشاہ واقعی بیت خوش
کہ اس کی بیٹی شہزادی بھزدل نہ رہی تھی بلکہ بے ہت بہادر بن گئی تھی یہ خبر پورے ملک میں پہنچ گئی اور اب ہر شخص شہزادی جہاں آرہا کو بھزدل شہزادی کہنے کے بجائے بہادر شہزادی کہنے لگا بادشاہ نے بھی اس خوشی میں پورے ملک میں جشن منانے کا اعلان کر دیا اور غریبوں کو اس قدر انعام دیا کہ وہ سب بےغتیار شہزادی کو دعائیں دینے لگے اب شہزادی واقعی خوش تھی وہ ا
اسے اب کسی چیز کا کوئی ڈر نہ تھا وہ واقعی بہادر شہزادی بن گئی تھی
What's Your Reaction?