قاضی اور دو بھائیوں کا عجب قصہ
قاضی اور دو بھائیوں کا عجب قصہ
اسلام علیکم پیارے دوستو پرانے زمانے میں ملکوں میں بادشاہتیں ہوا کرتی تھی بادشاہ اپنے ملک کا مطلق الانان حکمرا ہوا کرتا تھا وہ ملک کو انتظامی ضرورت کے لحاظ سے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بات کر ہر علاقے کا ایک حاکم مقرر کر دیتا تھا بڑے علاقوں کے حاکم راجی النباب کہلاتے تھے اور چھوٹے علاقوں کے زمیدار کہلاتے تھے ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس پر زمیدار کا ح
زمیدار قصبے کا سب سے بہ اثر شخص تھا اس کے بعد بادشاہ کا مقرر کیا ہوا ایک قاضی تھا جس کی حیثیت آج کل کے مجشتریٹ جیسی تھی لوگوں کو انصاف دلوانا اور مجرم کو صدا دلوانا اس کا کام تھا قصبے کی آبادی گریب لوگوں پر مستمل تھی کچھ کسان تھے جن کے خید قصبے کے باہر تھے وہ کھیتی باری کرتے تھے کچھ لوگ مبیشی پالتے تھے اور باقی لوہار کمہار موچی جلاہے بڑھائی تھے
جو مہنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے قصبے میں تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا ایک جامہ مسجد تھی جس کے امام صاحب مسجد میں ہی صبح کے وقت بچوں کو قرآن و دنیات پڑھاتے اور تھوڑا بہت حساب سکاتے تھے گاؤں کے مندر کی پاٹھ شالہ میں ہندو بچے تھوڑی بہت ویدو کی تعلیم حاصل کر لیتے تھے جامہ مسجد کے امام صاحب کا ایک ہی لڑکہ تھا جس کا نام تھا علی احمد پڑ
مسجد میں سکھائیہ جانے والا علم حاصل کرنے کے بعد وہ شہر کے مدرسے میں جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔ امام صاحب کی بھی خواہش تھی کہ لڑکہ پڑھ لکھ جائے اور سرکاری نوکری لگ جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسے شہر کے مدرسے میں پڑھنے بھیج دیا۔ علی احمد جب مدرسے کی تعلیم مکمل کر کے لٹا تو وہ قصبے کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اب کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا اس کی شان کے خلاف تھا۔
اس کے دماغ میں گرور جڑھ پکڑ گیا تھا اب وہ اپنے بچپن کے دوستوں سے بھی سیدھے مو بات نہیں کرتا تھا اس کی قسمت نے یاوری کی اسی زمانے میں قصوے کے قاضی صاحب کا انتقال ہو گیا بادشاہ کے آدمی نیا قاضی مقرر کرنے آئے تو ان کی نظر علی احمد پر پڑی زمیدار سے مشورہ کرنے کے بعد علی احمد کو قاضی مقرر کر دیا گیا اس پر طرح یہ ہوا کہ زمیدار نے اپنی بیٹی کی شادی علی احمد سے کر دی
رہنے کے لیے سرکاری مکان، سواری کے لیے گھوڑہ اور مدد کے لیے ایک منشی مفتح میں ملے۔ اب تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ گرور نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی کہ لوگوں کو انصاف دلانے کے وجہ ان پر زیادتی کرنے لگا۔ زمیدار اور کچھ خوشامت خوروں کے کہنے میں آکر غریبوں پر ظلم کرتا۔ بولے امام صاحب بہت سمجھاتے لیکن علی احمد کی آنکھوں پر تو اقتدار اور ترسی کے نشی نے چربی چ
ایک مرتبہ زمیدار کا بیٹا جو علی احمد کا سالہ تھا دوستوں کے ساتھ شکار کھیل کر واپس آ رہا تھا راستے میں ندی پر رکھ کر اس نے ہاتھمو دھویا وہیں اس کی جیپ سے پیسوں سے بھرہ ہوا بٹوہ گر گیا جو اس کے ایک لالچی دوست نے کمال کی سفائی سے اٹھا کر پار کر دیا ہاتھمو دھو کر لڑکی نے جیپ سے رمال لکالنے کے لیے ہاٹ ڈالا تو دیکھا کہ بٹوہ غایب ہے چاروں طرف تلاز شروع ہوئی
وہی ندی کے کنارے گاؤں کا کمہار اپنے مٹی کے برطن بجا رہا تھا جس دوست نے بٹوے چرائے تھا اس نے جھٹ کمہار پر اعلام ڈال دیا کہ بٹوے اس نے چرائے ہے غریب کمہار نے لاکھ کہا کہ اس نے تو بٹوے کی شکل تک نہیں دیکھی لیکن وہ لوگ نہیں مانے اور اسے پکڑ کر قازی کی عدالت میں لے گئے قازی نے گریب کمہار کی ایک نہیں سنی سالے اور اس کے دوستوں کی کہنے میں آکر کمہار کا سیدہ ہاتھ کاتنے کا حکم صادر کر دیا
قصبے والوں کی موجودگی میں سزا سنائی گئی اور کمہار کا ہاتھ کلم کر دیا گیا غریب کمہار اپنے بچاؤں کے لیے کچھ نہ کر سکا سزا کیا ملی کہ کمہار کی زندگی ہی جیسے ختم ہو گئی قصبے کے لوگ اسے چور سمجھنے لگے ہاتھ کاتنے سے روزی کا سہارا بھی چھن گیا اب وہ ایک ہاتھ سے برطن بھی نہیں بنا سکتا تھا گھر میں فاکھ ہونے لگے تو کمہار کے دونوں نو عمر لڑکوں نے مہنت مزدوری کرنے کی ٹ
چھوٹا موٹا کام کر کے وہ جیسے تیسے اتنا کمہ پاتے تھے کہ دو وقت گھر میں چھولہ جل جائے۔ دونوں لڑکے جن کا نام بندو اور بابو تھا۔ جانتے تھے کہ ان کا باب بے کسور ہے۔ بندو نے زمیدار کے بیٹے کے دوست کو بٹوگا اٹھاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ کیونکہ وہ وہیں ایک پیڑ پر بیٹھا کچے آم توڑ رہا تھا۔ اس نے کہا بھی تھا لیکن نکہ اور خانے میں ٹوٹی کی آواز کون سنتا ہے؟ اولٹا زمید
دونوں بھائیوں نے باپ کی بے عزتی کا بدلہ لینے کی ٹھانی ان کا خیال تھا کہ سارا پسور قازی جی کا تھا اگر انہوں نے ایمانداری سے چھانبین کی ہوتی اور اپنے سالے کی باتوں میں نہ آئے ہوتے تو ان کے باپ کو سزا نہ ملتی اسی اثنا میں انہیں پتہ چلا کہ قازی جی کو گھر کے گام کے لیے ایک نوکر کی ضرورت ہے
جو بازار سے سودہ سلف لائے ان کے بچوں کی دیکھبھال کرے اور گھر کا چھوٹا موٹا کام کرنے میں ان کی بیوی کی مدد کرے کمہار کے بڑے بیٹے بابو نے سوچا یہ اچھا موقع ہے کازی جی کے گھر میں رہ کر ہی وہ ان کو سبک سکھا سکتا ہے بابو کازی جی کی بیوی کے پاس گیا اور اپنی خدمات پیش کی کازی جی کی بیوی نوکر کے بغیر بڑی پریشان تھی ہر وقت اپنے میہ کے کان خاتی رہتی تھی کازی جی بھی ت
تو انہوں نے جھٹ رکھ لیا بابو بولا ساہب میری کچھ شرطہ ہے کازی جی کو بڑا غسا آیا اوقات دیکھی ہے اپنی ایک تو تجھے کام دے رہے ہیں اور اوبر سے تُو شرطہ گنوہ رہا ہے بابو جانے کو اٹھا تو بی بی نے کازی صاحب کا ہاتھ دبایا اور بولی پہلے یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے بابو بولا میرا نام گیا خان ہے بی بی بولی یہ کیسا نام ہے بابو نے جواب دیا میں کیا کروں میرے باب ما نے یہی نام ر
بیوی نے پوچا اچھا بتاؤ تمہاری شرطیں کیا ہے؟ بابو نے کہا پہلی شرط تو یہ ہے کہ میں جتنا بڑا برطن لاؤں اتنا ہی کھانا مجھے ملے بیوی نے جواب دیا چلو ٹھیک ہے آگے بولو بابو بولا دوسری شرط یہ ہے کہ سارا کام شروع میں ہی بتا دیجئے گا مقرر کیے ہوئے کام کے علاوہ ایک کام نہیں کروں گا بیوی نے کہا تمہیں گھر اور باہر کے سبھی کام کرنے ہوں گے
آخری شرد دیئے ہے کہ اگر میں نوکری چھوڑ کر جاؤں تو آپ میرے ناک کان کھٹ لیجیے گا لیکن آپ نوکری سے نکالیں گے تو میں آپ کے ناک کان کھٹ کر لے جاؤں گا قازی جی چھڑی اٹھا کر مارنے کو لپکے لیکن بیوی ہاتھ پکڑ کر الگ لے گئیں اور سمجھایا کہ لونڈا ہے سنی سنائی بول رہا ہے بکھنے دیجئے ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے
زیادہ چونچو کرے گا تو دو ہاتھ مار کر چلتا کریں گے اس وقت ہمیں ملازم کی سخت ضرورت ہے مجھ سے اب گھر کا کام نہیں ہوتا نوکر نہیں ملا تو میں مائیکے چلی جاؤں گی ناچار قازی جی نے گیا خان کو نوکر رکھ لیا اب یہ بابو جو تھا فطرتاً سیدھا اور بے بکوف لڑکا تھا باب کی بیز جتی کا بدلہ لینے نکل تو آیا قازی جی کی یہاں نوکری بھی مل گئی اور کچھ شرطیں بھی بتا دیں
لیکن اتنی اکل نہیں تھی کہ حالات کا روخ اس طرح مورتا کہ کازی جی اور ان کی بیوی کا ناک میں دم ہو جاتا کھانے کا وقت ہوا تو کازی کی بیوی نے آواز دی گیا اپنا برطن لے آو گیا خان کے پاس کوئی برطن بھانڈا تو تھا نہیں کازی جی کے گھر میں فالسے کا پیڑھ لگا ہوا تھا اس میں سے تین پتھے توڑے ایک کا دونہ بنایا اور دو کی تھالی اور لے کر پہج گیا کھانہ لےنے فالسے کے پتھے کے دونے کی گنجائش ہ
کازی جی کی بیوی نے دونے میں تھوڑی سی سبزی ڈالی ڈونہ پورا بھر گیا ایک پتہ پر ایک روٹی اور ایک پتہ پر چمچہ بھر چابل رکھ دئیے گیا خان تو بھونکا کا بھونکا رہ گیا خود اپنی جان اپنے ہی اوپر آ پڑی شکایت کرتا بھی تو کیا کرتا اوپر سے کازی جی کی بیوی نے بیتحاشا کام کروائے ہر وقت گھر اور گھر سے باہر کے کاموں کے لیے دورتے دورتے گیا خان کا کچوم
اوپر سے بھوک کے مارے آتیں الک کلہو اللہ کا ورد کرتی رہتی ہفتہ بر میں گیا خان کے کسبل لکل گئے آئے تھے باپ کی بےزستی کا بدلہ لینے لیکن خود ہی شکار ہو گئے دسوے دن قازی جی سے جا کر بولا قازی جی میں آپ کے ہاں کام نہیں کر سکتا میرا حساب کر دیجئے قازی جی بڑے خوش ہوئے کہنے لگے ناک کان کڑوانا پڑے گا گیا خان بولا بھوک کے ہڈیاں تڑوانے سے تو بہتر ہے کہ نا
قازی جی نے اپنا غصہ اتارا اس طرح لے کر کان اور ناک پر تھوڑا سا کٹھ لگا دیا اور دس دن کی تنخواہ ہاتھ پر رکھ دی بابو ارف گیا خان گھر پہنچا تو اس حال میں کہ ناک سے کون کی بوندر ٹپک رہی تھی اور کان لہو لوہان تھے ماباب دھک سے رہ گئے چھوٹے بھائی بندوں کو جب حقیقت کا حال پتہ چلا تو غصے کے مارے بل کھا کے رہ گیا لیکن کیا کرتا ہمار کا تب نے ہی بھائی سے سرز
رہے تم بدھو کے بدھو ہی جب اقل نہیں تھی تو جوکھیں اٹھانے ہی کیوں چلے تھے چلو اب دیکھنا انھی شرطوں کے بل پر قازی جی کو چھٹی کا دود نہ یاد دلائیا تو کچھ نہ کیا دو چار دن گزرے قازی جی کے گھر میں نوکر کی تلاش زوروں پر جاری تھی بندو نوکری کی تلاش میں پہنچ گیا قازی جی کی بیوی نے جھٹ نوکر رکھ لیا پوچھا تمہارا کیا نام ہے بندو بولا میرا نام آیا خان ہے
قازی جی کی بیوی بولی اجیب نام ہے ابھی دو دن پہلے ہم نے جس لڑکے کو نوکری سے نکالا تھا اس کا نام گایہ خان تھا بندو نے بتایا وہ میرا بڑا بھائی تھا میں بھی ان ہی شرطوں پر کام کروں گا جو شرطیں میرے بڑے بھائی نے رکھی تھی یعنی جتنا بڑا برطن لاوں اتنا خانہ دینا ہوگا سارے کام پہلے سے تھی کرنے ہوں گے اور اگر آپ نکالیں گے تو میں آپ کے ناک کان کھاتوں گا اور میں
قازی کو بڑا گسا آیا یہ شہر قازی کا گھر ہے تماشہ بنا رکھا ہے تم لوگوں نے تیرے بھائی کے تھوڑا سا کٹ لگایا تھا اب اگر تو نوکری چھوڑ کے گیا تو پورے کان ناک کات لوں گا بندو بولا مجھے منظور ہے لیکن آپ کو یہ شرط نامہ تحریر میں دینا ہوگا قازی کی بیوی نے اپنے میہ کو سمجھایا گسا کیوں کرتے ہیں دیکھ چکے ہیں پچھلے والے سے کتنا کم لیا تھا اور اتنا کھ
اس نے بھی کلپورزے نکالے تو یہ ہی انجام ہوگا آیا خان کو نوکری مل گئی آیا خان نے قازی سے کہا میہ جی میری یاد داشت بہت کمزور ہے بھولنے کی بیماری ہے مجھے آپ ایسا کیجئے مجھ سے جو کام کروانے ہیں ایک کاغس پر لکھ کر دے دیجئے تاکہ میں اپنا کام اتمینان سے کر سکوں بھول چوک نہ ہو قازی جی اور ان کی بیوی نے سوچ سوچ کر تمام کام کی ایک فہرست بنا دی بازار سے صودہ لانا برت
مہمانوں کی خاطر مدارت کرنا بچوں کی دیکھبھال کرنا کازی جی کہیں باہر جائیں تو ان کی ہمراہ کابی گررز کازی جی نے اپنی طرف سے سوچ سوچ کر سب ہی ضروری کام فیرست میں لکھ دئیے آیا خان نے کاغس تہ کر کے جیم میں رکھ لیا اور برطن دھونے بیٹھ گیا اتنی دیر میں کھانے کا وقت ہو گیا کازی جی کی بیوی نے کہا آیا خان اپنا برطن لے آؤ آیا خان نے فالسے کے درکت سے ڈھیر سارے
اور تنکوں سے جوڑ جوڑ کر بڑی ساری تھالی بنائی اسی طرح کئی پتھے جوڑ کر دو بڑے بڑے دونے بنائے اور پہنچ گیا کھانہ لینے کازی جی کی بیوی نے تھوڑی سی سبزی تھوڑے سے چاول دونے میں نکالے اور دو روٹیاں پتل میں رکھ دیں لیکن اتنے بڑے برتن کھالی کے کھالی رہ گئے آیا خان بولا بہ بیگم صاحب آپ نے تو میری پہلی شرط ہی پوری نہیں کی میرا برتن تو کھالی کا خالی ہے
بیگم نے سارے گھر کا خانہ اس کے برطنوں میں ڈال دیا تب کہیں جا کر اس کے برطن بھرے آیا خان نے مزے سے بیٹھ کر جتنا کھا سکتا تھا اتنا کھایا باقی محلے کے گریب بچوں کو باٹایا قازی کی بی بی کو دوبارہ خانہ پکوانا پڑا آیا خان دونوں وقت کھانے کے ایسے ہی بڑے برطن لاتا اور قازی جی کی بی بی کو دوگنا تگنا خانہ پکوانا پڑتا کام اتنا بڑا کہ خانہ پکانے والی نو
اب قازی جی کی بیوی کو خود کھانا پکانا پڑتا آیا خان سے کوئی مدد مانگتی تو وہ جھٹ سے کہہ دیتا کہ یہ کام تو اس کے کاغذ میں نہیں لکھا ہے ایک دن قازی جی کی بیوی کہیں مہلے میں تقریب میں شرکت کے لئے گئی گئی تھی قازی جی نہانے کے لئے گئے تو تولیا لے جانا بھول گئے پرانے زمانے میں گسل خانہ اور بیتل خلا رہحشی کمروں سے دور آغن کے دوسرے سرے پر بھوہ کرتے تھے قازی جی نے آیا
آیا خان نے جواب دیا ٹھے رو صاحب میں اپنا کاغز دیکھ لوں کاغز دیکھ کر بولا صاحب میرے کاغز میں یہ نہیں لکھا ہے کہ آپ نہانے جائیں تو آپ کو تولیا بھی دوں قازی جی کو بڑا غصہ آیا کچہری جانے کو دیر ہو رہی تھی ناجار بکتے جھکتے ہاتوں سے پردہ کرتے ہوئے گسل کھانے سے نکل کر بھاگے
اسی وقت آنگن کا دروازہ کھلا قازی جی کے اہلکار اور منشی گھر میں داخل ہوئے اور قازی جی کا حولیہ دیکھ کر لاحول پڑتے ہوئے باہر نکل گئے آیا خان ہستے ہستے بے حال ہوا جا رہا تھا اور قازی جی گسے میں بے حال تھے کپڑے بدل کر آئے تو بولے نکل جا میرے گھر سے فورا آیا خان نے کہا ٹھیک ہے شرط نامے کے مطابق ناک کان کٹوہ لیجئے میں چلا جاتا ہوں قازی جی بولے دک
آیا خان نے جواب دیا میہاں میں نے بھی کچی گولیاں تھوڑی ہی کھیلی ہیں مجھے پتہ تھا کہ آپ جب چاہیں مانگ کر اسے پھاڑ دیں گے اس لئے میں اسے مسجد کے امام صاحب یعنی آپ کے والد صاحب کے پاس رخوا آیا ہوں قازی جی لا جواب ہو گئے اپنے والد سے بہت ڈرتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ ان کا ساتھ نہیں دیں گے ناچار خاموشی سے کچہری چلے گئے ایک شام کو قازی جی کی بیوی کھانہ پکا رہی تھی بچے پ
انہوں نے آیا خان سے کہا کہ بچوں کو باہر کھلانے کے لیے لے جاؤ لیکن اندھیرا ہونے سے پہلے واپس گھر لے آنا تھوڑی دیر میں اندھیرا ہونے لگا تو آیا خان نے آکر کہا بیگم صاحب بچے گھر آنے کیلئے تیار نہیں ہے بیگم بولی بہلا فصلہ کے لے آؤ پانچ منٹ بعد آکر بولا بیگم صاحب بچے بہلا آبے میں نہیں آتے گھر آنے سے منع کر رہے ہیں بیگم نے کہا ارے بچے ہی تو ہیں زبردستی لے آؤ
پھر 5 منٹ بعد آکر بولا بیگم صاحب وہ زبردستی بھی نہیں آتے زمین پر مچل رہے ہیں بیگم جھلا کر بولی آئیں گے کیسے نہیں کان پکڑ کر کھیچتے ہوئے لے آؤ ذرا دیر میں آیا خان دونوں بچوں کے کان پکڑ کر خسیٹتا ہوئے گھر میں گھوسا بچوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا دونوں کان لال سرک ہو کر سوج گئے تھے کازی جی کی بی بی دھک سے رہ گئی دول کر بچوں کو سینے
میرے بچوں کے کان سجا دئیے آیا خان بولا بیگم صاحب آپ نے ہی تو کہا تھا کہ کان پکڑ کر گھسیٹھ لاو تو میں لے آیا ارے میں نے گسے میں کہہ دیا تھا میرا مطلب یہ تھوڑی تھا کہ سچ مچ ان کے کان پکڑ کر لاے بیگم صاحب میں جاہل آدمی ہوں مجھ سے سیدھی بات کیا کیجئے مجھے کیا معلوم کہ آپ کہہ کیا رہی ہیں اور آپ کا مطلب کیا ہے قازی جی کی بی بی روحانسی ہو کر بولی تمہارا بھائی تو دس دن میں بھ
تم کب جاؤگے ہم باز آئے تم سے؟ آیا خان نے جواب دیا بیگم صاحب وہ گیا خان تھا اس لئے چلا گیا میں آیا خان ہوں آ گیا ہوں تو تب ہی جاؤں گا جب آپ نکالیں گے قازی جی سے کہیئے کہ ناک کان کٹھوالیں میں ابھی چلا جاتا ہوں قازی جی کی بیوی لا جواب ہو گئیں لیکن وہ اتنا آجز آ چکی تھی کہ اپنے مائکے چلی گئیں اب تو آیا خان کے اور مزے ہو گئے اپنے ایک دوست کو خان سامہ رکھو دیا
مرضی سے کھانا پکواتا، خود کھاتا اور محلے کے گریب بچوں کو باٹتا ایک دن قازی جی کو پڑھوز کے قصبے میں کسی کام سے جانا تھا آیا خان کو سانت لے گئے قازی جی گھوڑے پر سوار تھے اور آیا خان پیچھے پیچھے دولتا ہوا جا رہا تھا دیوالی کا دن تھا کسی بچے نے پاس میں پتھاکہ پھوڑا دھماکے کی آواز سن کر گھوڑا بھڑک گیا اور سوار کو گرانے کی کوشش کرنے لگا قازی
آیا خان مجھے بچاؤ گھوڑے کی لگام پکڑو میں گرا آیا خان بولا ٹھہریے صاحب میں اپنے کاغذ میں دیکھلوں نہیں صاحب کاغذ میں یہ نہیں لکھا کہ آپ گھوڑے سے گریں تو آپ کو بچانا بھی میرے کام میں شامل ہوگا قازی جی مغل ذات بکھتے رہے اور گھوڑا ان کو گرا کر بھاگ گیا قازی جی کے پاؤں میں سخت چوٹ آئی لوگ انہیں اٹھا کر گھر لے گئے گاؤں کے وید جی نے ہڈی بٹھائی اور دواںیں
آیا خان نے خدمت تو کی لیکن تنگ کر کے چھوڑ دیا جب ٹھیک ہوئے تو آیا خان نے مشورہ دیا ساہب اب بیگم صاحب کو گھر لے آئیے زیادہ دن میں آپ کی خدمت نہیں کر سکتا ہوں بہت سے کام جو میرے کاغذ میں نہیں لکھی تھے میں نے کر دئیے کیونکہ آپ مجبور تھے اب آپ ٹھیک ہیں بی بی صاحب کو لے آئیے قازی جی نے کہا ٹھیک ہے میں صبح پہنچتا ہوں تم ابھی چلے جاؤ اور میری سسرال میں میرے آنے کی اطلاع دے دو
آیا خان اسی رات قازی جی کی سسرال جو چار میل کے فاصلے پر تھی پہنچ گیا اور ان کے سسر سے کہا کہ سبہ آپ کے داماد آ رہے ہیں دو چار دن ٹھریں گے ان کے رہنے کا انتظام کر دیجئے اور ہاں وہ بہت بیمار ہو گئے تھے گھولے سے گر گئے تھے ہڈڈیوں میں چوٹ آئی تھی وید جی نے انہیں صرف تیز نمک اور حلدی کا پتلا دلیا کھانے کو بتایا ہے تاکہ ہڈڈیوں کو سیکھ لگے حبر دار انہیں اور کچھ کھانے
زمیدار نے دامات کے لیے اپنا مہمان خانہ تیار کروا دیا اگلے دن صبح قازی جی پہچے سسرال والوں نے بڑی آؤ خغط کی مہمان خانے میں ٹھہرایا خیر و آفیت پوچھی بچے آکر باب سے مل گئے پرانے زمانے میں سسرال میں بیوی سے ملاقات کرنا انتیائی بے شرمی سمجھی جاتی تھی اسی لیے بیوی سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی کھانے کا وقت ہوا تو کھانے کے خوان سجا کر بھیجے گئے
آیا خان کے لیے دنیا کی نعمتیں سجی ہوئی تھی اور کازی جی کے لیے ایک بڑے سے پیالے میں نمک اور حلدی کا دلیا رکھا تھا کازی جی نے چخا تو ہلق سے اتارنا مشکل ہو گیا آیا خان سے بولے یار تھوڑا سا اپنا خانہ مجھے دے دے بھونک سے دم نکلا جا رہا ہے پتہ نہیں ہے لوگوں نے مجھے یہ نمک کا دلیا کیوں بھیجو با دیا آیا خان چٹھکارے بھرتا ہوا بولا نہیں صاحب اس کی نہیں ہوئی آپ اپنا خانہ کھائیں میں اپنا خانہ
دو چار وقت قازی جی کو نمک اور حلدی کا دلیا کھانا پڑا تو دست لگ گئے سسرال میں عزت کا معاملہ تھا کسی سے کچھ کہ بھی نہیں سکتے تھے سردی کا موسم تھا کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ رہی تھی قازی جی کو رات کو بار بار آنگن پار کر کے بیتل خلہ جانا پڑا تو سردی نے مزاج پوچھ لیا اگلی رات کو آیا خان نے مشورہ دیا صاحب آپ رات بھر بار بار سردی میں آنگن پار کر کے جاتے ہیں میرے دل بڑا کل
پتہ نہیں آپ کے سسرال والے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں آپ سے خیر میں تو آپ کا وہی خیر خواہ ہوں مجھ سے آپ کی حالت دیکھی نہیں جاتی میں ایک پرانا گھڑا لا کر آپ کے کمبر میں رکھ دیتا ہوں آپ رات کو اس میں فراغت کر لیں صبح صبح مجھے جگہ دیں میں گھڑا فینک آوں گا قازی جی پرشان تھے انہیں آیا خان اس وقت نیکی کا فرشتہ نظر آیا آیا خان نے ایک گھڑا لا کر رکھ دیا اور تاکیت کر دی
کہ سبا اسے چادر سے ڈھک دیں وہ فینک آئے گا رات بھر قازی جی نے گھڑے کو استعمال کیا سبا فجر کے وقت آیا خان کو جگایا آیا خان اٹھ میرے بھائی گھڑا فینکا کمرے میں بدبو بس رہی ہے اور یوں بھی پڑوز کی مسجد میں نمازی آنے شروع ہو جائیں گے تو مشکل ہو جائے گی لیکن آیا خان کو نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا ارے سونے دو صاحب پریشان مطرحو ویسے بھی میرے کاغز میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ م
اور وہ کربت بدل کر سو گیا کازی جی کو بہت گسا آیا لیکن مرتا کیا نہ کرتا خود ہی گھڑے کو چادر میں لپیٹ کر فینکنے نکلے ادھر آیا خان دول کر کازی جی کے سسور کے پاس پہچا وہ نماز کے لئے مسجد جا رہے تھے ہافتہ ہوا ان سے بولا صاحب صاحب آپ کے داماد آپ لوگوں سے ناراض ہو گئے ہیں وہ دیکھئے اپنا بوریا بستر بگل میں دبا کر گھر سے جا رہے ہیں سسور بیچارے پریشان ہو گئے
ارے میہ رک جاؤ بات تو بتاؤ کیا غلطی ہو گئی رکو تو قازی جی نے اشارے سے انہیں پیچھے آنے سے روکا تو وہ سمجھے کہ دامات صاحب تو سخت ناراض ہو گئے کیسے روکیں آگے بڑھ کر ان کا سامان چھیننے کی کوشش کی تو گھڑا گر کر ٹوٹ گیا دونوں سسر دماد غلغت میں ناہ گئے قازی جی عجب علجن میں تھے بتائیں تو کیا بتائے ہمارکت اپنی ہی تھی جو آیا خان کے مشورے پر عمل کیا شرمن
ناہدھو کر اسی دن بیوی وچوں کو لے کر گھر چلے آئے گھر آگر آیا خان سے کہا میں باز آیا تجھ جیسے نوکر سے یہ اُس طرح لے ناک کان کات اور ہمارا پیچھا چھوڑ آیا خان نے اُس طرح بند کر کے قازی جی کو دیتے ہوئے کہا قازی جی میں نمک حرام نہیں ہوں زیادہ پڑا لکھا نہیں ہوں لیکن انسانیت باقی ہے مجھ میں میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جو انسانیت کے سلاف ہو
لیکن آپ پڑھ لکھ کر اور اوچے اعدے پر پہنچ کر انسانیت کو بھول گئے انصاف کو بھول گئے جس کی قرصی پر آپ بیٹھے ہیں میں تو آپ سے اپنے باپ کی بےزدٹی کا بدلہ لینا آیا تھا یاد کیجئے اس کمہار کو جس پر چوری کا چھوٹا الظام لگایا گیا تھا اور چھانبین کیے بغیر آپ نے اپنے سالے کے کہنے میں آ کر اس کا سیدہ ہاتھ کٹوہ دیا تھا آپ کی اسلا پروائی نے ان کی زندگی برباد کر دی اس کا گھرانہ روٹیوں کو محت
اور اس کے بچوں کو پڑھائی چھوڑ کر مہنت مزدوری کرنی پڑی جبکہ چور آپ کے سالے کا دوست تھا اور میرا نام آیا خان نہیں بندو ہے میں جا رہا ہوں لیکن یاد رکھیے گا کہ انصاف کی قرصی پر بیٹھنے والا نا انصافی یا طرفداری کرتا ہے تو اسے اللہ بھی ماف نہیں کرتا بندو شرط نامہ قازی جی کے سامنے فیک کر اپنے گھر چلا آیا قازی جی کے آنکھیں کھل گئی انہیں اپنی کوتہی اور زیادتی کا اس درجے احساس ہوا
کہ وہ مارے ندامت کے کچھ بول بھی نہیں پائے۔ اگلے دن قازی جی کمہار کے گھر پہنچے، اس سے معافی مانگی اور اسے سرکاری مویشی کھانے کی دیکھوال کے لیے نوکر رکھ لیا اور اس کے دونوں بیٹوں بابو اور بندو کو کچہری میں ہرکارے اور چپراسی کی نوکری پر رکھ لیا۔ اس دن کے بعد قازی جی نے کبھی انصاف کی قرصی کا غلط استعمال نہیں کیا اور قصوے والوں کو سچا اور خرى انصاف ملنے لگا۔
What's Your Reaction?