بادشاہ درویش اور لالچی لکڑ ہارا۔
بادشاہ درویش اور لالچی لکڑ ہارا۔
پیارے دوستو سیکڑوں برس پہلے کی بات ہے ملک ایران میں ایک لکڑھارہ رہتا تھا اس لکڑھارہ کا نام ارامشاہ تھا ارامشاہ ہاد سے زیادہ غریب تھا لکڑھارہ بچارے ہوتے ہی غریب ہیں لکڑیاں بیج کر زیادہ سے زیادہ پچیس پجاز پیسے مل جاتے ہوں گے یہی حال ارامشاہ کا تھا وہ دن رات کی میرنس سے جو کچھ
اس سے روٹی کپڑے کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے خاص انام دیا تھا اور وہ انام تھا اس کی اچھی سحت عرام شاہ بہت طاقت والا اور خوبصورت نوجوان تھا اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں بھی وہ ایسا لگتا تھا کہ کیا پوچھو اس کے علاوہ خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کی آنکھوں اور کانوں اور زبان کو اللہ تعالیٰ نے خاص کوبیاں دی تھی اس کی آنکھوں میں یہ خوبی تھی کہ وہ رات کے اندرے میں بھی
اور کئی کئی کوس ننی منی چیزیں بھی اسے نظر آجاتی تھی۔ اس کے کانوں میں یہ خوبی تھی کہ دسک اس کے فاصلے پر چڑیا کا بچہ بھی چوں کرتا تو وہ اسے بھی سن لیتا تھا۔ زبان میں یہ خوبی تھی کہ جب وہ باتیں کرتا تھا جانوروں اور پرندے گور سے اس کی باتیں سنتے تھے کیونکہ اس کی آواز بہت پیاری تھی۔ اس خوبی کے علاوہ دوسری بات یہ بھی تھی کہ وہ اپنی زبان سے چک کر ہر چیز کی اصلیت اور تاثیر کا حال بتا
اگر سوچو جب اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کو ایسی خوبیاں دی تھی تو وہ غریب کیوں تھا؟ اور واقعی ایسے آدمی کو غریب نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن بات دراصل یہ تھی کہ آرام شاہ اپنی ایناچائیوں اور خوبیوں کی طرف کبھی دھیان بھی نہیں دیتا تھا۔ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ دنیا میں روپیاں پیسا ہی سب کچھ ہے اور کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ اپنے غریب ہونے کا خیال کر کے ہر وقت اداز رہتا۔
اگر کوئی بھی کہتا کہ میاں آرامشاہ تم بڑے نصیب والے ہو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہیں ایسی اچھی سیت اور خاص خوبیاں دیں ہیں تو وہ برا سا مو بنا کر کہتا دیں ہوں گی میاں میں ان خوبیوں کو لے کر کیا کروں گا اگر ان کی جگہ بہت سارا روپیاں ملتا تو میرے کام بھی آتا ایک دن کا ذکر ہے آرامشاہ جنگل میں بیٹھا اپنے غریب ہونے پر دل ہی دل میں کر رہا تھا
کہ پاس والے درخت کی ٹہنیا زور زور سے ہلنے لگیں اور نیرالی شکل کا ایک جانور کود کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اس جانور کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو لکڑ ہارے کے مو سے زور کی چیکھ نکل گئی وہ اس جانور سے بہت ڈرہ اس کی یہ حالت دیکھ کر جانور محبت بری آواز میں بولا میاں آرام شاہ مجھ سے ڈرہ مٹ میں تمہارا دشمن نہیں دوست ہوں اور تمہاری مدد کرنے کے لیے آیا ہوں لیکن میں نے تو
لکڑھارہ حکلا کر بولا تو پھر کیا ہوا تمہیں اداز دیکھ کر میں تمہارے پاس آ گیا سچی دوستی تو اسی کا نام ہے کہ بغیر بلائے مدد کی جائے میں نے تو تمہیں اس سے پہلے نہیں دیکھا آخر تمہارا نام کیا ہے لکڑھارہ نے سوال کیا ارے میان ایسی فضول باتوں میں کیوں ورقد بربات کرتے ہو جب میں کہہ رہا ہوں تم مجھے اپنا دوست سمجھو اور جلدی سے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں
جانور کچھ دیر رکھ کر بولا یہ بات سن کر تم ضرور خوش ہوگے کہ اس وقت میں تمہاری ہر خواہش پوری کر سکتا ہوں یہاں تک اگر تم کسی ملک کے بادشاہ بننا چاہتے ہو تو میں تمہیں بادشاہ بھی بنا سکتا ہوں تو جلدی سے بتاؤ یہ سن کر لکڑ ہارے کا ڈر کم ہو گیا وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا اچھا تو پھر یوں کرو مجھے ذرا ٹھہر جاؤ جانور نے لکڑ ہارے کی بات قاڑتے ہوئے کہ
اس سے پہلے کہ تم اپنی خواہش ظاہر کرو میں ایک ضروری بات بتانا چاہتا ہوں۔ لکڑھارہ بولا بتاؤ کہاں ضروری بات ہے۔ بات یہ ہے کہ اپنے کوئی خواہش پوری کرانے کے لیے تمہیں میری ایک شرط پوری کرنا ہوگی۔ جانور نے لکڑھارہ کی درقہ گور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ شرط کیا ہے؟ لکڑھارہ نے سوال کیا۔ وہ شرط یہ ہے کہ اپنے کوئی ایک خواہش پوری کرانے کے لیے۔
تمہیں اپنی آنکھیں، کان اور زبان میرے حوالے کرنا ہوگی۔ آنکھیں، کان، زبان حوالے کرنا ہوگی۔ لکڑہارے نے خوب بھری آواز میں پوچھا۔ لکڑہارے کی یہ بات سنکر جانور زور سے ہسا اور کش دیر رکھ کر بولا بس ڈر گئے ارے میان میں کوئی یہ چیزیں تمہارے جسم سے کارٹ کر الگ تھوڑی کرلوں گا میرا مطلب تو یہ ہے کہ ان چیزوں میں جو اچھائیاں ہیں وہ تم سے چھنج جائیں گی آنکھیں، ک
تمہارے جسم کے ساتھ ہی رہیں گے لیکن تم ان سے نہ دیکھ سکو گے نہ سن سکو گے نہ بول سکو گے آخر یہ چیزیں تمہارے لیے تو بیکار ہی ہیں نا اگر میں کہوں یہ چیزیں لے کر تمہارے اس ملک کا بازشاہ بنا دو تو کیا بنا دو گے؟ لکڑہارے نے سوال کیا ہاں میں تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر سکتا ہوں تو پھر مجھے منظور ہے لکڑہارے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تم بہت اکل والے آدمی ہو
یہ کہہ کر جانور اس کی طرف سے مو پھیر کر ہسنے لگا اور بولا اچھا صبح کے وقت تم جب سو کر اٹھو گے تو تمہیں اس ملک کا باشا بنا دیا جائے گا لیکن دیکھو پھر اپنی آنکھیں کان اور زبان واپس لینے کی ذد مد کرنا ہاں ہاں کبھی نہیں کروں گا جب میں باشا بن جاؤں گا تو پھر ان چیزوں کی مجھے کیا ضرورت لکھڑھارہ خوش ہو کر بولا اچھا تو میں اب جاتا ہوں جانور نے خوشی میں دو دن چلانگ
لیکن ذرا ٹھہرو یہ تو بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟ میں ایسے اچھے دوست کا نام جاننا چاہتا ہوں میں۔ لکڑہارے نے سوال کیا اور اس کے سوال کے جواب میں دور سے آواز آئی میرا نام شیطان ہے، شیطان شیطان؟ لکڑہارے نے اپنے دل میں سوچا شیطان بچارا کتنا اچھا ہے لوگ اسے ہی سے بھرا بھلا کہتے ہیں بادشاہ بن جانے کے خیال سے وہ بہت خوش تھا
چانور کے غائب ہوتے ہی لکڑہارے کو زور کی نید آ گئی دوسری دن جاگا تو کیا دیکھتا ہے کوئی آدمی پیروں کے تلموں کو گلاب کے ٹھنڈے ٹھنڈے پھول لگا رہا ہے لکڑہارے نے ہاتھ بڑا کر چوہا تو اسے لگا میں پھولوں کے بستر یعنی سیج پر لیٹا ہوں اور چاروں طرح سے نیائید بھینی بھینی خشبو آ رہی ہے تھوڑی دیر تک خاموشی رہی اس کے بعد کسی نے پھر اس کے پیروں کے ت
اور ایک دن پہلے کی بات اس کے خیال میں آ رہی تھی۔ اس نے سوچا، ضرور میں بادشاہ بن جکا ہوں۔ یہ سوچ کر جلدی سے اس نے آنکھیں کھول دی۔ لیکن اسے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے آسپاس کی چیزیں اور اپنے لباس کو ٹوٹولنے لگا۔ نرم رشمی کپڑے اور پولوں کی سیج کو چھو کر اس سے بہت زیادہ خوشی ہوئی اور وہ سوچنے لگا۔
میں تو سچ مجھ ہی لکھڑھارے سے باشا بن گیا اسے اپنی آنکھیں کان اور زبان چھن جانے کا زیادہ بھی افسوس نہ ہوا لکھڑھارے کا خیال بالکل درست تھا وہ واقعی باشا بن گیا تھا بات اصل میں یہ ہوئی اس دن ایران کا باشا شکار کھیلنے کے لیے گیا شیطان نے کچھ ایسی ترقیب بنائی کہ باشا اپنے سات والوں سے بچھڑ کر راستہ بھول گیا اور بھٹکتا ہوا بلوچستان کی سرط کی طرف آ نکلا
اور ادھر شیطان نے کیا کیا؟ اپنے شیطانی علم کے زور سے لکڑھاہارے کو بادشاہ کی شکل کا بنا دیا۔ شاہی نوکر اپنے بادشاہ کو ڈھونٹ دے ڈھونٹے اس طرف آئے تو اسے زمین پر لیٹے ہوئے دیکھ کر سمجھے شاید بادشاہ سلامت کو نید آ گئی ہوگی، اسی لئے وہ زمین پر لیٹ کر سو گئے۔ انہوں نے جلدی جلدی پولوں کی سیج بچھائی اور نہائیت ارام سے میہ ارام شاہ کو جو اب بادشاہ بن
ہاں تو جب لکڑھارا اب اسے لکڑھارا بازشاہ کہیں گے اٹھ کر بیٹھا تو شاہی نوکر سینے پر ہاتھ رکھ کر اور سر جکا کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ان کا خیال تھا بازشاہ سلامت کوئی حکم دیں گے لیکن لکڑھارا بازشاہ کس طرح حکم دیتا وہ تو نہ دیکھ سکتا تھا نہ بول سکتا تھا اور نہ ہی کچھ سن سکتا تھا کافی دیر چپ چاپ کڑے رہنے کے بعد
شاہی نوکروں میں سے ایک نے ڈرتے ڈرتے لکڑھا رے باشا کی طرف دیکھا وہ پہلے کی طرح چپ بیٹھا مسکرہ رہا تھا یہ دیکھ کر نوکر بہت عیران ہوا اس نے کوہنی مار کر اپنے ساتھ کھڑے ہوئے دوسرے نوکر کو اشارہ کیا اس نے اپنے پاس والے نوکر کو اشارہ کیا اور اس نے اپنے پاس والے نوکر کو ٹوکا دیا اس طرح سارے نوکروں نے لکڑھا رے باشا کی طرف دیکھا آلی جا، قاد
نوکروں کے سردار نے ڈرتے ڈرتے پوچھا اور جب اس کا بھی کوئی جواب نہ ملا تو نوکروں کو پکا یقین ہو گیا کہ ہمارے باشا کو ضرور کچھ نہ کچھ ہو گیا ہے آپس میں سلام اشورہ کر کے انہوں نے لکڑ ہارے باشا کو گھوڑے پر سوار کیا اور مہل کی طرف ربانہ ہو گئے ملکہ، شہزادے، شہزادیوں اور امیر و وزیروں نے باشا کی یہ حالت دیکھ کی تو انہیں بہت افسوس ہوا ملک کے بڑے بڑے حکی
لیکن کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ بادشاہ کو کیا ہو گیا؟ دیکھنے میں تو وہ ہر طنا سید اندرست معلوم ہوتا تھا لیکن نہ کسی کی آواز سنتا تھا نہ کسی کی طرف دیکھتا تھا بس چوب چاہ ف اپنے جگہ بیٹھا مسکراتا رہتا سوچ سوچ کر حکیموں نے مشورہ دیا بادشاہ سلامت کے سامنے ناج گینے کی محفل سجائی جائے کھیل تماشوں کے مقابلے کرائے جائیں جب یہ سب کچھ بھی کیا گیا
لیکن لکڑہارے باشا نے کسی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا نہ زبان سے تاریف کا ایک عرف کہا یہ دیکھ کر سیانے حقیم مایوس ہو گئے انہوں نے صعاف لفظوں میں کہہ دیا باشا سلامت ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں کان اور زبان سے میروم ہو گئے ہیں اب نہ وہ کبھی کچھ دیکھ سکیں گے نہ کچھ بول سکیں گے اور نہ کچھ سن سکیں گے
حکیموں کا یہ جواب سن کر ملکہ اور باشا کے دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں کو بہت دکھ ہوا لیکن کیا کر سکتے تھے وہ مجبورن سبر کر کے بیٹھ گئے ادھر لکڑہارے باشا کا یہ حال ہوا کہ کچھ دن تو رشمی کیمتی لباس پہن کر اور خوشبودار مزیدار کھانے کھا کر دل میں پھولانہ سماتا اور سوچتا کہ میں بھی کتنی قسمت والا ہوں بغیر کوئی ہاتھ پیر ہلائے میں لکڑہارے سے باشا بن گیا
لیکن آہسٹا آہسٹا اس کی یہ خوشی کم ہوتی گئی ایک دن اس نے دل میں سوچا کیا ہی اچھا ہوتا اگر میں دیکھ سکتا کہ ایسا کمتی لباس پہن کر میں کیسا سیان والا لگتا ہوں پھر دوسروں کی باتیں سننے کو بھی دل چاہا بادشاہ بنا دینے کے بدلے شیطان اس کی یہ سب قواتیں چھین چکا تھا اپنی یہ کمزوری سوچ سوچ کر وہ ہر وقت کرتا رہتا کچھ دنوں کے بعد اسے اپنی زندگی سے
اسے ایسا لگتا تھا جیسے اسے ایک بڑی سی مخمری ڈبیا میں بند کر دیا گیا ہو۔ ایک دن لکڑھارہ باشا اپنی حالت پر بہت رویا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ ایک بار پھر میری وہی حالت کر دے۔ لکڑھارہ باشا یہ سب یاد کر کے آنسو بہا رہا تھا کہ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی نے آجتہ سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کے بعد آجتہ آجتہ اس کے آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا دور ہوا اور اسے
کہ ایک نورانی سورد والا فرشتہ سامنے کھڑا مسکرارہا ہے لکڑھارہ بادشاہ نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے آنکھیں ملیں جلدی جلدی آنکھیں چھپکیں اور جب یقین ہو گیا کہ یہ میرا بہم نہیں بلکہ سچمج میں میرے سامنے کوئی کھڑا ہے تو وہ چل کر کھڑا ہو گیا لکڑھارہ بادشاہ کہو شیطان کے بہکاوے میں آکر کیا ملا اس کے کانوں میں آہستہ سے آواز آئی اور یہ آواز سن کر اسے
اتنی خوشی ہوئی جو اس سے پہلے زندگی میں اسے کبھی نہ ہوئی تھی۔ وہ عدب سے سر جکا کر بولا اے عزت والے بزرگ میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں۔ مجھے پہلے اپنی آنکھوں کانوں اور زبان کی قدر معلوم نہ تھی۔ تو اب تم خدا کی نعمتوں کی قیمت جان گئے ہو فرشتے نے سوال کیا ہاں بزرگ فرشتے لکڑ ہارا باشا کامپتی ہوئے آواز میں بولا اگر اب مجھے یہ چیزیں ہمیشہ کے لیے مل جائ
تو میں اپنی آدھی سلطنت دینے کے لئے تیار ہوں صرف آدھی سلطنت فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے یہ سب نیمتے تو تمہاری ساری سلطنت بلکہ اس جیسی کئی اور سلطنتوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں اگر میں تمہارا بہت زیادہ خیال کروں تو یہ ہو سکتا ہے کہ صرف اسی سلطنت کے بلے تمہاری آنکھیں کان اور زبان واپس دے سکتا ہوں جلدی سوچ کر جواب دو
کیا تم ان چیزوں کے بدلے اپنی سلطلت دینے کو تیار ہو؟ کسی نے سچ ہی کہا ہے لالچ بری بلا ہے تھوڑی دیر پہلے لکڑھارہ باشا اپنے ان چیزوں کے بدلے ساری دنیا دینے پر راضی تھا لیکن اب اس کے دل میں خیال آیا میں نے سلطلت دے دی تو پھر لکڑھارہ کا لکڑھارہ ہی رہ جاؤں گا فرشتہ اس کی دل کی بات سمجھ کر بولا دیکھو لالچ مد کرو
اللہ تعالیٰ کی ان نیمتوں کے مقابلے میں یہ سلطنت کی کوئی حقیقت نہیں لیکن بزرگ فریشتے روپے پیسے کے بغیر بھی تو انسان گزارہ نہیں کر سکتا لکڑ ہارے کی بات سن کر فریشتے نے نفرت بھری نظروں سے گورتے ہوئے کہا اگر تم یہی سمجھتے ہو تو میں تم سے بحث نہیں کرتا جو فیصلہ کرنا ہے جلدھی کرو میں زیادہ دیر نہیں ڈھیر سکتا چاہتا آپ یہ کیجئے کہ مجھے صرف دیکھنے کی قوہ دے دیجئے
اور اس کے بدلے میری آدھی سلطنت لے لی چیئے۔ لکڑھارہ باشا خوشامت بھری آواز میں بولا، بہت اچھا، یہ کہہ کر فرشتے نے اپنی ستارے جوڑی ہوئی چڑی سے لکڑھارہ باشا کی آنکھوں کو چھووا اور نظروں سے غائب ہو گیا۔ اب لکڑھارہ باشا بہت خوش تھا، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے ہر چیز دیکھ سکتا تھا۔ بولنے اور سننے کی قوطوں کی کمی اس لئے یوں پوری کر لی تھی کہ وہ اپ
درباریوں اور گھروالوں کو عشاروں میں باتیں کرنے کا حکم دیتا تھا۔ کچھ دنوں تک اس کی زندگی ہسی خوشی گزری۔ اب قصہ یہ ہوا کہ اپنے بازشا کو گنگا اور بیرہ سمجھ کر دربار والوں نے اسے گدی سے اتارنے کی ترقیبیں سوچنا شروع کر دیں۔ دوسری طرف اس کے نوکر اور گھروالے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ خاص طور پر نوکر تو اس کا خوب مزاک اڑاتے۔ یہ تو انہیں معلوم ہی تھا کہ بازشا نہ سن سکتا ہے نہ بھ
اس لئے اس کے سامنے اس کی ہسی اڑاتے۔ لکڑہار باشا کو تو ساری زندگی بھی اس بات کا بتانا چلتا۔ ہوا یہ کہ ایک دن اس کی ننی بچی نے نوکروں اور درباریوں کی سب باتوں کا حال بتا دیا۔ یہ بات معلوم کر کے لکڑہار باشا پہلے کی طرح پھر اداز رہنے لگا۔ ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ مہل کے دو نوکروں کو اس نے اپنا مزاق اڑاتے دیکھ لیا۔ اس دن لکڑہار باشا کو بہت دکھ ہوا۔
اس نے پہلے کی طرح رو رو کر خدا سے دعا کی فرشتے کے آتے ہی بادشاہ کو کچھ کہنے کی حمد نہ ہوئی وہ کچھ دیر تک گردن جکائے سوچتا رہا پھر آجتا سے گردن اٹھا کر بولا میں اپنی باقی سلطنت کے بدلے اپنے کان واپس لینا چاہتا ہوں بہت اچھا یہ کہہ کر فرشتے نے اپنے ستاروں والی چڑی لکڑ ہارے بادشاہ کے کانوں سے چوائی اور کھڑکی کے راستے باہر نکلنے
اچھے فرشتے، خدا کے لئے زرا اور رکھ جاؤ، میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس اب کوئی سلطنت تو ہے نہیں، اگر اپنے زبان بھی واپس لینا چاہوں تو کیا کر دو گے؟ فرشتہ بولا، اس کی یہ شکل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو طاقتیں دی ہیں ان سے دوسروں کو خوش کرو، اگر تم نے دس سال کسی کو ناراض نہ کیا تو تم کو تمہاری زبان واپس مل جائے گی۔
ایک بات میں تمہیں بتاتا ہوں تندرستی اللہ کی نعمت ہے ساری دنیا کی باشاہت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں یہ کہہ کر فرشتہ غایب ہو گیا لکڑھارے باشاہ کو نیند آ گئی جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں تو اس نے اپنے پٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے خود کو جنگل میں کھڑا پایا اس نے سچے دل سے دعا کی اور بکہ ارادہ کیا کہ اب لالچ میں نہیں آئے گا اور ہمیشہ دوسروں کا بھلا کرے گا
اور دوسری طرف ایران کا اصلی باشا جو بلوش چستان کی سرد کے اس طرف آ گیا تھا اس کا انجام یہ ہوا کچھ دنوں بعد وہ اپنے وطن واپس چلا گیا اور پہلے کی طرح حکومت کرنے لگا لکڑھارے کو ابھی اس کی زبان دس سال بعد واپس مل گئی کیونکہ اس نے ان دنوں میں کسی ایک انسان یا جانور کا دل نہیں دکھایا تھا
What's Your Reaction?