دھوبی کی بیٹی اور راجکمار کا عجیب قصہ

دھوبی کی بیٹی اور راجکمار کا عجیب قصہ

Oct 27, 2024 - 15:06
 0  6
دھوبی کی بیٹی اور راجکمار کا عجیب قصہ
دھوبی کی بیٹی اور راجکمار کا عجیب قصہ


اسلام علیکم پیارے دوستو بہت پرانے زمانے کی بات ہے راج پوٹانہ کے ایک شہر میں ایک راجہ تھا بڑا رحم دل اور انصاف پسند اس کے راج میں ریائے بہت خوش تھی شیر بقری ایک گھٹ پانی پیتے تھے ہر طرف امن و امان تھا راجہ کے ایک ہی بیٹا تھا بڑی مند مرادوں کا بڑا لادلہ بادشاہ نے لادلے بیٹے کی کبھی کوئی خواہش رد نہیں کیتی


راجکمار بھی یوں تو بہت سمجھ دار نیک اور ہر فن میں ماہر تھا لیکن بیجا لاد پیار نے اسے زدہ بنا دیا تھا جس چیز کو پانے کی زدہ کر لیتا اسے حاصل کر کے ہی رہتا ایک دن راجکمار شکار سے لوٹ رہا تھا فوجی اور دوسرے شکاری پیشے رہ گئے تھے راجکمار گھوڑا دوڑا تا ہوا بہت آگے نکل آیا اسے بڑی پیاس لگ رہی تھی چاروں طرف نظر دوڑا آئی تو پتہ چلا یہ دھوڑیوں کا


چاروں طرف کپڑے دھوے اور سکھائے جا رہے تھے اچانک راجکمار کی نظر ایک مکان کی طرف اٹھی چھت پر ایک لڑکی اپنے بال سکھا رہی تھی راجکمار دیکھتا ہی رہ گیا ایسا حسنت تو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا لکتا تھا آسمان سے کوئی افسرہ اتر آئی ہے گھٹاؤ جیسے کالے لمبے بالوں کے بیچ میں چاند سا چہر چمک رہا تھا ناغہاں لڑکی کی نظر بھی راجکمار پر پڑی


اور وہ فورا ہی دپٹے میں اپنے آپ کو چھپا کر نیچے اتر گئی راج کمار کو جیسے ہوسا آ گیا اتنے میں اس کے ساتھ ہی اور نوکر چاہ کر وہاں آ گئے اور مجبورا راج کمار کو واپس مہل آنا پڑا اس کی آنکھوں میں سے وہ مہینی صورت ہٹتی ہی نہیں تھی اپنے خاص ملازم کو بھیج کر پتہ کروایا تو معلوم ہوا وہ ایک دھوپی کا گھر تھا اور وہ دھوپی کی لڑکی تھی راج کمار تو اٹواتی خٹواتی لے کر پڑ گیا


کہ شادی کروں گا تو اسی لڑکی سے کروں گا ورنہ جان دے دوں گا تین ہٹے مشہور ہیں بال ہٹ، راج ہٹ اور تریہ ہٹ یہاں بال ہٹ بھی تھی اور راج ہٹ بھی راجہ کو پتہ چلا تو سوچ میں پڑ گیا لادلے بیٹے کی کبھی کوئی بات نہیں ٹالی تھی لیکن یہ بات اور تھی راجہ کی ہونے والی رانی ایک دھوپی کی بیٹی بنے یہ اسے کسی طرح غوارہ نہیں تھا دوسری طرف بیٹے کی ذد سے بھی


پردھان منتری کو بلا کر مشورہ کیا پردھان منتری پہت ہی اقل منھ بفادار اور جہاں دیدا آدمی تھا اس نے سلا دی اس وقت روکنا مناسب نہیں ہے آپ انہیں منمانی کرنے دیجئے جوانی کی زد ہے دو دن دھوپی کی بیٹی کے ساتھ رہیں گے تو اقل ٹھکانیں آ جائے گی پھر آپ شوق سے کوئی راجکماری بھیحل آئیے گا یوں بھی راجے مہاراجوں کی تو کئی کئی رانیاں ہوتی ہیں پڑی رہے گی یہ بھی


راجکمار کو بلایا اور کہا ہم تمہاری زد اور خوایش دیکھتے ہوئے تمہیں اجازت دیتے ہیں تم اس للکی سے شادی کر سکتے ہو لیکن ہم کسی طرح بھی شریق نہیں ہوں گے اور نہ ہی کوئی شاہی تامجھہم ہوگا اندہ کیا چاہے دو آنکھ ہے راجکمار کی تو دلی مراد پر آئی اسے یوں بھی دھوپی کے گھر شاہی برات لے جانے کا کوئی شوق نہیں تھا اس نے فوراً آدمی بھیج کر دھوپی کو بلایا


دونوں میہ بیوی ڈرتے کافتے پہنچے کہ نا جانے کیا غلطی ہو گئی کہ راج کمار نے بلایا ہے راج کمار نے ان سے کہا کہ ہم تمہاری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں فوراً تیاریاں کرو راج کمار نے سوچا تھا کہ دھو بھی اور دھو بھن فولے نہیں سمائیں گے راج کمار کے پیر پکڑ لیں گے کہ انہوں نے انہیں یہ عزت دی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اس کے وجہے وہ دونوں سوچ میں پڑ گئے پھر بولے راج کمار یہ


کہ آپ نے ایسا ارادہ کیا لیکن ہم اپنی بیٹی سے پوچھ کر جواب دیں گے راج کمار کو بڑا غصہ آیا کہ ایک تو ہم اس دھوپی کی عزت افزائی کر رہے ہیں اور یہ ہمارے راج کا معمولی دھوپی کہہ رہا ہے کہ پوچھ کر بتائے گا لیکن دل کا معاملہ تھا اس لئے برداشت کر گیا البتہ دھوپی سے کہہ دیا کہ ہمیں نا سننے کی عادت نہیں ہے انکار کی صورت میں تمہارے پورے خاندان کو جیل میں سڑھا دوں گا


وہ دونوں جیسے ڈرتے کامپتے آئے تھے ایسے ہی واپس چلے گئی گھر جا کر انہوں نے لڑکی سے کہا کہ راجکمار تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں اگر تم نے نہ کر دی تو ہم جان سے چلے جائیں گے لڑکی بولی ٹھیک ہے میں راضی ہوں لیکن راجکمار سے کہیئے کہ میری چار شرطیں ہیں خود آکر سن لیں اگر منظور ہوں تو بارات لے کر آجائیں اگلے دن دھو بھی راجکمار کے پاس گیا اور لڑکی کا پیغام پہنچا دیا


دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں راجکمار وصے میں سر تن سے الگ ہی نہ کر دیں دھوپی کی بیٹی اور یہ ہمت کہ راجکمار کے آگے شرطے رکے راجکمار کو بھی پہلے تو بڑا غصہ آیا چاہا کہ تلوار سے دھوپی کا کام تمام کر دے لیکن پھر ایک تو دل کی لگی دوسرے تجسس ہوا کہ دیکھے یہ دھوپی کی لڑکی کیا شرطے رکھتی ہے راجکمار اسی وقت دھوپی کے ساتھ اس کے گھر پہنچے دو کمروں کا مکان


نیچے دھو بھی اس کی ماں اور بی بی رہتے تھے اوپر کی منزل پر لڑکی رہتی تھی راج کمار پہنچے تو نیچے کمرے میں ایک طرف پردر ڈال کر لڑکی بیٹھ گئی اور بولی میری چاروں شرطیں اگر آپ کو منظور ہیں تو میں آپ سے شادی کرنے کو تیار ہوں پہلی شرط یہ ہے کہ میں آپ کے مہل میں رات نہیں گزاروں گی صبح جائے کروں گی اور شام کو واپس اپنے گھر آ جائے کروں گی راج کمار نے سوچا یہ کیا بات ہوئی


لیکن پھر خیال آیا سب کہنے کی باتیں ہیں ایک بار شادی ہو گئی تو مہل چھوڑ کر کھوڑیاں میں کون آتا ہے راجکمار بولا منظور ہے دوسری شرط بتاؤ لڑکی نے کہا دوسری شرط یہ ہے کہ آپ مجھے چھونے یا بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے راجکمار کو ہسی آ گئی شادی ہے کہ مزاق ہے سوچا سب ہو جائے گا بعد میں بولا چلو یہ بھی منظور ہے لڑکی نے کہا


میں آپ کے مہل کا پانی تک نہیں پیوں گی راجکمار نے سوچا یہ بھی بقواص ہے جب دن بھر رہے گی تو کیسے ممکن ہے کہ کچھ کھائے گی پیے گی نہیں اس نے جواب دیا مجھے یہ بھی منظور ہے لڑکی نے کہا چوٹھی شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے مجھے انگلی سے بھی چھونے کی کوشش کی تو ہمارا رشتہ ختم پھر میں کبھی واپس نہیں آوں گی راجکمار نے سوچا سب بقواص ہے ایک بار شادی ہو جائے تو ساری شرطیں دھری رہ جائیں گ


اس نے کہا مجھے تمہاری ساری شرطہ منظور ہیں لڑکی نے کہا تو پھر آپ بارات لے کر آئئئے لڑکی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے ڈھو بھی کسی مسئبت میں پڑے راجکمار دو چار دوستوں کو ساتھ لے کر بھیانے گیا اور فیرے پڑو آکر دلہن کو مہل میں لے آیا باؤ نے ساری پہن رکھی تھی اور بڑا سا گھنگٹ نکال رکھا تھا جس میں اس کا چہرہ پوری طرح چھپ گیا تھا وہ آئی اور راجکمار کے کمرے میں


پاس رکھی ہوئی قرصی پر بیٹھ گئی راجکمار بھی چپچا پاکر ایک طرف بیٹھ گیا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ نئی بہو بہاکر مہل میں آئی ہے راجارانی تو ویسے بھی شریق نہیں ہوئے تھے بس ایک راجکمار کی موچڑی باندی تھی وہ ہی ہاتھ باندے کھڑی رہی کہ کوئی حکم ہو تو وجہ آبری کرے شام ہوئی تو باندی نے آکر اتلاع دی کہ گاڑی لگ گئی ہے بہو اٹھی اور سیدھی گاڑی میں ج


اگلے دن صبح صبح انہیں کپڑوں میں اسی طرح لپٹی ہوئی آئی اور اسی قرصی پر آکر بیٹھ گئی دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ ہلی نہ جولی پتھر کے بت کی طرح بیٹھی رہی اور شام کو واپس چلی گئی ایک دن دو دن تین دن پورے چھے مہینے گزر گئے اس کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا جیسا راجکمار نے سوچا تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور راجکمار اپنی شرطوں سے بندہ ہوگا تھا


جس چہرے کو دیکھ کر ہوش و حواز، عزت سب داؤپن لگا دی تھی اس چہرے کی جھلک تک دیکھنے کو نہیں ملی دربار میں لوگ النک باتیں بناتے راجہ رانی بھی روٹھے ہوئے تھے راجکمار کی زندگی سے کھیل، تماشے، سیر و شکار، تفریس سب ختم ہو گئی ایک دن اس نے دھوپی کو بلایا اور کہا تم اپنی بیٹی کو سمجھاتے کیوں نہیں اب وہ ہماری رانی ہیں اسے محل میں رہنا چاہیے اس طرح روز رات کو چ


لوگ باتیں بناتے ہیں۔ دھو بھی ہاتھ جول کر بولا کوار کی جے ہو سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ہماری بیٹی ہے ہی نہیں ایک دن ہمارے خیلے ہی آئی اور بولی اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے مجھے اپنی بیٹی بنائ کر اپنے گھر میں رکھ لو ہمارے کوئی اولاد نہیں تھی میری بیوی کو اس کی من مہینی صورت بھا گئی ہم نے اس کو آسرہ دیا ہمارے گھر میں اوپر دھولے کپڑے رکھنے کا ایک کمرا ہے اس نے کہا


ہم نے کمرا کھالی کر دیا اس کے ساتھ ہی اس کی ایک سخی بھی آ گئی دونوں اوپر رہنے لگی ہم سے اس نے اس کے بعد کوئی باستہ ہی نہیں رکھا کہاں خاتی پیتی ہے کیا کرتی ہے ہم کچھ نہیں جانتے کبھی کبھی میری بیوی کے پاس آ کر بیٹھ جاتی تھی اسے ما کہتی تھی وہ بیچاری اسی میں خوش تھی ہمیں اس نے قسم دے دی تھی کہ کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہ بتائیں اسی لیے جب آپ نے شادی کی بات کی تو ہم چپ رہ گئے


جیسا اس نے کہا، ویسا ہی ہم نے کیا کونر، اس پر ہمارا کوئی زور نہیں ہے آپ ہماری جان بکشی کرے دھو بھی تو چلا گیا اور راج کمار عجب 65 میں پڑ گیا کرے تو کیا کرے دل ہر طرف سے اوچاٹ ہو چکا تھا آخر ایک دن کسی کو بتائے بغیر مہل سے نکل کھڑا ہوا بس اپنی رازدار باندی کو بتایا کہ میں جا رہا ہوں پتہ نہیں کہاں اور پتہ نہیں کب وابس آؤں گا


میرے پتا جی ماتا جی یا کوئی میرے بارے میں پوچھے تو کہ دینا ودیس کی یادرہ پر گئے ہیں باندی کا دل راجکمار کی حالت دیکھ دیکھ کر بہت دفتہ تھا اس نے بھی سوچا چلو اچھا ہے کچھ دن اس نرق سے تو چھوٹیں گے راجکمار کا دل دنیا سے ہی اٹھ چکا تھا وہ ہمالہ پہاڑ کی طرف نکل گیا مہینوں ادھر ادھر بھٹکتا رہا ایک رات برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑی پر رات گزارنے کے لیے کو


کہ ایک گفا میں کچھ روشنی نظر آئی ڈرتے ڈرتے اندر پہچا تو کیا دیکھا کہ بہت بوڑے سادو ڈھونی رمائے بیٹھے ہیں آنکھیں بند ہیں دارے اور سر کے بال بے تحاشا بڑے ہوئے ہیں تمام جسم پر اور پلکوں تک پر دھول جمی ہیں ایک چراک جل رہا ہے جس میں گز بھر لمبی بتی جل چکی ہے اور گز بھر ابھی اور باقی ہے انھیں دیکھ کر راجکمار کے دل کو بڑا سپون ملا وہ بھی ان کے چر


لیکن انہوں نے آنکھیں نہیں کھولیں انہوں نے سمادھی لگا رکھی انہیں کچھ خبر نہیں تھی وہ عشور کے دھیان میں ڈوبے ہوئے تھے راجکمار وہیں رہنے لگا روز صبح اٹھ کر جھرنے سے پانی لاتا سادو مہراج کے ہاتھ پاو دھوٹا بال دھوٹا بالوں میں کنگی کرتا گفا کی سفائی کرتا نیچے گھاٹی سے جنگلی پھل فول توڑ لاتا اور ان سے اپنا پیٹ بھر لیتا ایک مہینے کے بعد سادو


سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے پایا راجکمار نے انہیں پانی پلائیا جنگلی فل فول کھلائے ان کے ہاتھ پاؤں دبائے سادو مہراج بولے بچہ! تو راج بالک ہے اس یوگی کی کٹیا میں تیرا کیا کام راجکمار بولا مہراج! جب آپ یہ جانتے ہیں کہ میں راجہ کا بیٹا ہوں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ میں کیوں اور کس لئے مارا مارا پھر رہا ہوں میرے ماتہ پتہ میرے لئے پریشان ہوں گے پر می


سادھو بولے بچہ یوگیوں سے کچھ چھوپا نہیں ہے تونہ بڑی غلطی کی جو اس لڑکی سے شادی کی پر تونہ ہماری اتنے دن سیوک کی ہے تو ہم تجھے نراش نہیں کریں گے لے یہ راخ لے جا جب اسے اپنے ماثے پر ملے گا تو تو سب کو دیکھ سکے گا لیکن تجھے کوئی نہیں دیکھ پائے گا گھر جا شام کو جب وہ کنیا گھر جائے تو تونہ یہ راخ ماثے پر لگا کر اس کے ساتھ چلے جانا تجھے آپ ہی پتہ چل


کہ وہ کون ہیں اور اس کی کیا مجبوری ہے ہمارا آشیرواد تیرے ساتھ ہے تیرے من کی مراد ضرور پوری ہوگی سادھو نے اپنے چراک کی جلی ہوئی بٹی کی راقوں سے دی جسے راج کمان نے سمحل کر کپڑے میں بانت کر رکھ لیا اور سادھو کو پرنامھ کر کے چل دیا کئی دن کا سفر تے کر کے واپس اپنے محل میں پہنچا تو اس حال میں کہ کپڑے پھٹ گئے تھے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے اور بہت دبلہ اور


کمرے میں دھوپی کی لڑکی اسی طرح انھی کپڑوں میں اس کرسی پر بیٹھی تھی باندی راج کمار کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی کمار کہاں چلے گئے تھے اور یہ کیا حل بنا لیا ہے راجہ اور رانی بھی برابر آپ کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے میں یہی کہہ دیتی تھی کہ آپ یاطرہ پر گئے ہیں اور ٹھیک ہیں آج راج کمار بہت خوش تھا اس نے گرم پانی سے غسل کیا بال کٹوائے اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا اس نے باندی


کیا یہ میرے پیچھے بھی روز اسی طرح آتی تھی؟ باندی نے بتایا کہ اس کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا راجکمار نے کہا میں بہت تھکا ہوا ہوں اب ساؤں گا لیکن شام کو جب یہ گھر جانے لگے تو مجھے جگہ دینا شام کو جب دھوپی کی لڑکی کے جانے کا وقت ہوا تو باندی نے راجکمار کو جگہ دیا راجکمار نے جھٹ ماثے پر سادھو مہراج کی دی ہوئی راکھ ملی اور اس کے ساتھ ہو لیا اگلے دن صبح صبح راجکمار وا


اور باندی سے بولا آج میں اسی کمرے میں سووں گا جب وہ دھوپی کی لڑکی آکر بیٹھ جائے تو تم آکر مجھے جگانا اور مجھ سے پوچھنا کہ دن چڑھایا میں اٹھتا کیوں نہیں ہوں میں جو نہ بتانا چاہوں اسے بھی زدھ کر کے پوچھنا باندی سمجھ دار تھی سمجھ گئی کہ راجکمار کا کیا مطلب ہے جب دھوپی کی لڑکی آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی تو باندی نے آکر راجکمار کو جگانا شرو


اب تو بہو صاحبہ بھی آگئی ہیں راجکمار پہلے تو جاگا نہیں جب جاگا تو باندی کو ڈاٹھنے لگا کیا مسیبت آگئی کیوں جگا دیا مجھے میں اتنا اچھا سپنا دیکھ رہا تھا میرا سپنا توڑ دیا تونے باندی خوشامت کرنے لگی بتائیے نہ کمار کیا سپنا دیکھا آپ نے بتائیے نہ پہلے تو راجکمار تال مٹول کرتا رہا پھر بولا اچھا اب تو اتنی زد کر رہی ہے تو بتا


کہ کل رات جب یہ دھوپی کی لڑکی اٹھ کر یہاں سے گئی نا تو میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چلا یہ گاڑی میں بیٹھی تو میں بھی ساتھ بیٹھ گیا باندی بولی آپ اور ان کے ساتھ بیٹھ گئی ارے کونر کیوں بات کرتے ہیں آپ کو پاس تو آنے نہیں دیتی یہ آپ کیسے ان کے ساتھ بیٹھ گئی ارے باندی سچ میں تھوڑی سپنے میں اچھا پھر کیا ہوا؟ باندی نے پوچھا پھر کیا ہونا تھا؟ میں زور زور سے گاڑی ہلا رہا تھا


اور یہ گاری بان کو ڈاٹ رہی تھی کہ آج یہ کیسے گاری چلا رہا ہے گاری بان بیچارہ بولا راجکماری میں تو روز جیسے چلا رہا ہوں خیر جیسے تیسے ڈھوپی کا گھر آ گیا یہ ڈھوپی کی لڑکی ڈھوپی ڈھوپن کے پاس تو زرہ بھی نہیں رکھی سیدھی زینے چڑھ کر اوپر پہنچ گئی میں بھی اس کے ساتھ کمرے میں آ گیا کیا سجا سجایا کمرہ تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ ڈھوپی کا گھ


سونے چاندی کی کرسی رکھی راجہ کے مہل سے بھی زیادہ خوبصورتی سے سجا ہوا تھا میں بھی کرسی پر بیٹھ گیا باندی بولی آپ اور ان کے کمرے میں بیٹھ گئے کیوں بات کرتے ہیں کنور ارے سچ تھوڑی باندی سپنے میں اچھا اچھا بتائیے پھر کیا ہوا آپ کے سپنے میں باندی نے پوچھا ہونا کیا تھا راج کمار بولا اس دھوپی کی لڑکی نے یہ ساری جو سال بھر سے پہن کر آ رہی ہے


ایسے اتار کر فینکی جیسے کسی بھکاری کی ساڑی ہو اور اپنی نوکرانی کو آواز لگائی باندی ہمام تیار ہے باندی نے جواب دیا ہاں کماری گرم پانی تیار ہے یہ ہمام میں گھسی تو میں بھی اس کے ساتھ گھس گیا باندی پھر بولی آپ کمار آپ ان کے ساتھ ہمام میں گھس گئے کیوں بے بکوف بناتے ہیں ایسا کہیں ہو سکتا ہے افو باندی تو تو سب سچ سمجھتی ہے میں تو سپنے کی بات کر رہا تھ


چل اب نہیں سناتا تجھے اپنا سپنا راجکمار روٹ گیا سنائے نا کمار سنائے اب نہیں بولوں گی باندینہ کان پکڑے راجکمار نے کہنا شروع کیا بس پھر کیا تھا اس نے ناہنا شروع کیا میں نے سوچا چلو بہت دن سے اچھا ہمام نہیں لیا ہے لاو میں بھی ناہلوں یہ ایک کٹورہ بھر کر ڈالتی میں چار کٹورے ڈال لیتا اس کے شریر کا سابن بھی نہیں چھوٹا تھا کہ پانی ختم ہو گیا


اس نے اپنی نوکرانی کو آواز لگائی باندی آج اتنا کم پانی کیوں رکھا ہے؟ نوکرانی نے کہا کماری میں نے تو اتنا ہی پانی رکھا ہے جتنا روز رکھتی ہوں کم ہو تو آپ اور لے لیجئے وہ ایک بالٹی اور لے آئی وہ بھی میں نے ختم کر دیا پھر تیسری بار اس نے پانی منگایا خیر جیسے تیسے یہ ہمام سے نکلی اس نے نوکرانی کو آواز لگائی فوراً کھانا لاؤ بہت بھوک لگی ہے


سارا دن بھوکہ پیاسہ بیٹھنا پڑتا ہے نوک رانی چھٹ پر گئی اور آسمان کی طرف ہاتھ کر کے کھڑی ہو گئی آسمان سے ایک تھال اترا جس میں سونے چاندے کے برطنوں میں دنیا بھر کے مزیدار پکوان رکھے تھے نوک رانی نے اپنے لیے تھوڑا کھانہ نکالا اور باقی تھال لا کر اس کے سامنے پرویس دیا میں نے سوچا لاؤ آج میں بھی اس کے ساتھ کھانہ کھالوں کتنے دنوں سے جنگل جنگل گھومتے اچ


ایسا مزیدار کھانا کہ کیا بتاؤں یہ ایک نوالہ کھاتی میں چار نوالے کھا جاتا اس کا پیڈ بھی نہیں بھرا اور کھانا ختم ہو گیا اس نے پھر نوکرانی کو ڈاٹ بلایی باندی کیا ہے آج تُو کیا کر رہی ہے اتنا سا کھانا رکھا تھا میں بھوکی رہ گئی نوکرانی بیچاری حیران بولی کماری میں نے تو اتنا ہی کھانا اپنے لیے نکالا تھا جتنا روز نکالتی ہوں لیجیے آپ میرے حصے کا


کچھ گربڑ ضرور ہے راجکمار نے آپ سے بات چیت کی ہے اس پر یہ دھوپی کی لڑکی اپنی نوکرانی کو ڈاٹھنے لگی کہ تیری حمد کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی وہ مجھے کبھی نہیں چھو سکتا سُنا تُونے اس دھوپی کی لڑکی نے میرے بارے میں ایسا کہا مجھے بھی غصہ آ گیا باقی خانہ بھی یہ تھوڑا سا کھا پائی اور میں سب کھا گیا یہ بھوکی رہ گئی لیکن دل ہی دل


اس نے کپڑے بدلے نوک رانی نے اس کا سنگار کیا بال وال موٹی پروے بس کیا بتاؤں کیا لگ رہی تھی یہ یہ دھوپی کی لڑکی جو یہاں اس گندی میلی سالی میں آکر بیٹھ جاتی ہے بن سور کر یہ آکر چھت پر کھڑی ہو گئی رات 12 بجے آسمان سے ایک اڑن کھٹولہ اترا اور یہ اس پر بیٹھ گئی میں نے سوچا یہ تو کچھ بھی نہیں ہوا میں بھی پلنگ کا پائیہ پکڑ کر لیٹک گیا اتنا کہہ کر راجکمار رک گیا


کہ دھوپی کی لڑکی نے تھوڑا سا رف اُن کی طرف پھر لیا تھا باندی پوچھنے لگی پھر کیا ہوا کونر؟ کونر بولا بس سپنا ختم ہو گیا باندی زد کرنے لگی سنائیے نہ کونر ایسا ادورہ سپنا تھوڑی ہو سکتا ہے بتائیے پھر کیا ہوا راجکمار پہلے تو ٹالمٹول کرتا رہا پھر بولا پھر وہ اڑن خٹولا تو اوپر ہی اوپر اُلتا ہوا چانتاروں سے بھی اوپر


وہاں راجہ اندر کی صبحہ سجی ہوئی تھی ایک سے بڑھ کر ایک سندھر افسرائیں بیٹھی تھی یہ پہچی تو سب نے اٹھ کر اسے سمان دیا جیسے یہ کہیں کی راجکماری ہو یہ دھوپی کی لڑکی وہاں افسراؤں کی رانی تھی تھوڑی دیر میں راجہ اندر پدھارے اور ناچ رنگ کی محفل جمی ساری افسرائیں ناچی سب سے آخر میں اس کے ناچنے کا نمبر آیا یہ ناچنے کھڑی ہوئی تو میں نے سوچا اگر آج میں نے اس کے


میں نے تبلچی سے کہا لاؤ بھئیہ تم تھک گئے ہو گئے تھوڑا آرام کر لو تبلہ میں بجاتا ہوں تبلچی بیچارے کو کوئی نظر نہیں آیا لیکن وہ واقعی تھک گیا تھا تبلہ چھوڑ کر بیٹھ کر امنے لگا میں نے وہ تبلہ بجایا اور میری تھاب پر یہ ایسا ناچی کہ سماسا بن گیا راجہ اندر نے فوش ہو کر اپنا رشمی رمال اسے انام میں دیا اس نے جھوکر رمال لیا سب کو دکھایا اور تبلچی کی طرف اچھال دیا


میں نے جلدی سے لے کر جیب میں رکھ لیا اتنا کہ کر راجکمار رکھا دھوپی کی لڑکی اب پوری طرح اس کی طرف گھوم چکی تھی راجکمار نے کنکھیوں سے اسے دیکھا اور باندی کو اشارہ کیا باندی زدہ کرنے لگی دکھائیے کنوار دکھائیے ہم بھی تو دیکھیں وہ رومال کیسا تھا راجکمار بولا اے باندی سچ میں تھوڑی تھا وہ تو سپنے میں تھا سپنے کی چیز کہیں دکھائی جا سکتی ہے لیکن باندی نے زبر


کوار کی جیب سے ہانٹ ڈال کر ایک رشمی رمال نکالا کہیں یہی تو وہ رمال نہیں تھا راج کمار بنابٹی گس سے سے بولا تُو بہت زدی ہے مانتی نہیں ہاں یہی تو تھا پتہ نہیں میری جیب میں کہاں سے آ گیا دھوپی کی لڑکی کا گھنگٹ چھوٹا ہو گیا وہ پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھی باندی نے پھر زدکی سنائی یہ کوار پھر کیا ہوا کوار بولا ہونا کیا تھا


راجہ اندر نے اس سے دوبارہ ناج پیش کرنے کی فرمایش کی میں نے پھر ڈھول سمالا جتنا اچھا میں نے ڈھول بجایا اتنا ہی اچھا یہ ناجی ابکہ راجہ اندر نے خوش ہو کر اپنی انگوٹھی اسے حنام میں دی اس نے جھوکر ان کے پاو چھوے سب کو انگوٹھی دکھائی اور پھر تبلچی کے پاس ڈال دی وہ بھی میں نے اٹھا کر جیم میں رکھ لی باندی پھر زد کرنے لگی دکھائیے کمار ہمیں بھی دکھائیے


باندی تو تو مورک ہے اب ایک چیز صحیح ہو گئی اتفاق سے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ سب باتیں سچ ہی ہو جائیں لیکن باندی نہیں مانی اور راج کمار کی جیب سے وہ انگوٹھی نکال ہی لی اور پوچھا کمار کیا یہی انگوٹھی تھی؟ کمار بولا ارے ہاں یہی تو تھی لیکن میری جیم میں کہاں سے آ گئی؟ باندی نے اشارہ کیا دھو بن کی لڑکی کا گھنگڑھ اوپر اٹھ چکا تھا لیکن راج کمار اور


جیسے انہوں نے دیکھا ہی نہیں باندی نے پوچھا پھر کیا ہوا کمار راج کمار بولا ہوا یوں کہ ناج کا تیسرا دور شروع ہوا میں نے بھی ایسا تبلہ بجایا کہ جان لڑا دی اور یہ بھی ایسا ناجی کہ جس کا جواب پورے اندر لوک میں نہیں تھا ناج ختم ہوا تو راجہ اندر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے گلے سے سچے موٹیوں کی مالہ اتار کر اسے انعام میں دی مالہ بھی اس نے جھکر لی سب کو دک


وہ بھی میں نے لے کر جیب میں ڈال لی۔ سبا ہونے والی تھی، راجہ اندر دربار سے اٹھ کر گئے اور یہ بھی بھاگ کر اڑن خطولے پر بیٹھی۔ جلدی میں اپنے انعام بھی تبلچی سے نہیں لئے۔ سوچا ہوگا کل لے لے گی۔ اسے کیا پتہ کہ وہ تو سم میرے پاس تھے۔ اس کا اڑن خطولہ اڑا اور میں اس کے پائے سے لٹک کر نیچے آ گیا۔ بس یہیں تک دیکھا تھا کہ تونے آکر جگہ دیا۔ باندی بولی


ارے باندی وہ تو سپنا تھا ہار میرے پاس کہاں سے آیا؟ لیکن باندی نہیں مانی اور راجکمار کی دوسری جیب سے موتھیوں کا ہار نکالتے ہوئے پوچھا کیا یہ ہی تھا؟ اب تو دھوپی کی لڑکی کرسی سے اٹھ کر راجکمار کے پاس آگئی اور بولی کمار اب تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ میں دھوپی کی لڑکی نہیں ہوں اندرلوک کی افسرہ ہوں اب میری کہانی بھی سن لیجئے اندرلوک میں مصدر زیادہ اچھی نرتقی اور کو


راجہ اندر روز میرا ناچ دیکھ کر ہی دربار برخواست کرتے تھے ایک رات میری طبیت خراب تھی سر میں بہت درد تھا دربار سے بولابہ آیا تو میں نے منع کر دیا لیکن راجہ کو میرے بنا چین کہا دوبارہ بولابہ آیا تو مجھے غصہ آ گیا میں نے کہہ دیا راجہ سے کہنا دیہ نام کی کوئی چیز ہے ان کے پاس یا نہیں یہاں میں درد سے تڑپ رہی ہوں اور ان کو اپنے ناچ کی پڑی ہے


سندیسہ لانے والے نے جا کر جیوں کا تھیوں راجہ سے کہہ دیا راجہ اندر تو گسے میں آگ بگولہ ہو گئے فوراً مجھے بلایا میں ڈرتی کامپتی پہنچی تو انہوں نے کہا بڑا غمند ہو گیا ہے تجھے اپنے آپ پر جا میں تجھے شراب دیتا ہوں تجھے سال بھر دھرٹی پر لڑکی بن کر رہنا پڑے گا اور اپنی پہنچان چھپانی ہوگی اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ تُو افسرہ ہے یا ک


میں بہت روئی گڑھگڑھائی اور مافی مانگی راجہ نے کہا میں اپنا شراب تو واپس نہیں لے سکتا ہاں اتنا ضرور ہے تجھے روز رات کو اڑن خٹولہ بھیج کر اندر لوگ بلوالیا جائے گا لیکن سال تجھے دھرٹی پر ہی کٹھنا ہوگا میرے پر نوچے گئے اور مجھے دھرٹی پر فینک دیا گیا میرے ساتھ میری باندی کو بھی دھرٹی پر آنا پڑا میں نے اپنے لئے دھوپی کا گھر پسند کیا اور دھ


لیکن میرے بھاگ میں تو آپ کی سیوہ لکھی تھی کل میرے اگیات واس کا ایک سال پورا ہونے والا تھا مجھے میرے پنکھ مل جاتے اور میں واپس اندر لوگ چلی جاتی آپ کو میری اصلیت کبھی پتہ نہیں چلتی آپ یہی سمجھتے کہ میں نے بے وفائی کی اور بھاگ گئی لیکن سب ختم ہو گیا اب آپ ہی میرے سومی ہیں اور میں آپ کی داسی راجکمار اپنی دلہن کو لے کر راجہ اور رانی کے پاس گیا اور ساری کہانی سنائی


راجہ کو جب پتہ چلا کہ ان کی بہو دھوپی کی لڑکی نہیں بلکہ اندر لوگ کی افسرہ ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا انہوں نے دھوندھام سے اپنے بیٹے کی شادی اندر لوگ کی افسرہ کے ساتھ کی اور خوشیاں منائیں اور سب ہسی خوشی زندگی گزارنے لگے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow