حضرت شمعون نبی شمعون کی کہانی

حضرت شمعون نبی شمعون کی کہانی

Oct 12, 2024 - 11:47
 0  8
حضرت شمعون نبی شمعون کی کہانی
حضرت شمعون نبی شمعون کی کہانی


ایک ایسے نبی جنہیں اللہ نے بے مثال طاقت و قوہ سے نوازہ تھا تنے پنہا ہتیاروں سے لیس ہزاروں سپاہیوں کو دھول چٹانے والے ایک دلیر اور بے خوف نبی جنہوں نے روم کے ظالم بادشاہ کے خلاف بغاوت کی کیا اس دلیر بندے کو آپ کی بیوی نے ہی کیوں فرب دیا اور اس کا کیا انجام ہوا


قدیم زمانے میں فلسطین کے علاقے میں ایک شہر آباد تھا جس کا نام اموزیا تھا اموزیا اس وقت یونان کی وصی سلطنت کا حصہ تھا اور یہاں کے لوگ پتھروں کی بڑی بڑی ایمارتے بنائے کر بڑی شان سے رہتے تھے یونانی مذاہب اور اقاید یہاں کے لوگوں پر بہت زیادہ اثر انداز تھی لہٰذا وہ ستاروں پتھروں اور یونانی دیوتاوں کے بود بنائے کر اس کی پوجہ کیا کرتے تھے


ان کے مذہبی رہنماؤں نے مختلف دیوتاؤں کے نام رکھے ہوئے تھے جن میں بارش، توفان، سورت، چاند، رزک اور طاقت کے الگ الگ دیوی دیوتا تھے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے انہوں نے ان دیوی دیوتاؤں کے مطالق نیحائت ہی عجیب و غریب کہانیاں مشہور کر رکھی تھی اموزیا کے لوگ ان دیوی دیوتاؤں کے افسانوں کو بہت ہی دلچزبی سے سنا کرتے تھے اور ان کے اقیدت من تھے


شہر ایموزیا کے بادشاہ کا نام فوتہ تھا وہ نیحائت ہی ظالم و جابر انسان تھا جو کوئی بھی بادشاہ کا حکم نہ مانتا وہ اسے بے رحمی اور عزیت کے ساتھ مار ڈالتا وہ معمولی باتوں پر لوگوں کو قیدی بنا لیا کرتا تھا فوتہ نے بہر روم کے کنارے ایک بہت بڑا محل بنوایا تھا جہاں وہ ہر سال اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے جشن منایا کرتا


جس میں خوب ناج گانے رقص آتش بازی یہاں تک کے زناکاری بھی ہوا کرتی تھی اس ایمارت کے بڑے بڑے سطون تھے اور وہ دور سے ہی نظر آتا تھا بادشاہ کے پاس 6 ہزار سپاہیوں کا ایک طاقتور اور تربیت یافتہ فوجی لشکر تھا فوتا کو اس بات کا غرور تھا کہ اس کے پاس ایک ایسی لشکر ہے جسے دنیا کی کوئی فوج شکس نہیں دے سکتی شہر ایموزیا کے گردو نوہ میں چھوٹے بڑے بہت سارے دہات اور گاؤں آباد تھے


جن میں بنی اسرائیل کے مختلف یہوڈی قبیلے بھی بسے ہوئے تھے وہ غریب لوگ تھے اور خیتی باری کرنے کے ساتھ بھیڑ بکرییں پال کر گزارہ کرتے تھے فوتہ کے سپاہی اکسر ان دہانتوں پر حملہ کرتے اور ان کے بھیڑ بکرییں مال و ذر لوٹ لیتے ظلم کی انتہا یہ تھی کہ وہ یہوڈی مردوں کو بھی قتل کر دیتے تھے اور اورتوں کو اپنی کنیز بنا لیتے اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے بنی اسرائیل ک


بنی اسرائیل خودہ وند خدا سے دعا کرتے اور اِس ظلم سے نجات کے لیے گڑھ گڑایا کرتے۔ آخرکار ایک دن یہودیوں کے تمام بزرگ ایک جگہ جمہ ہوئے اور یہ مشورہ کیا کہ فوتہ کے خلاف ایک ایسے شخص کو کھڑا کیا جائے جو اس کی طاقت اور غرور کو چکنا چور کر دے۔


کچھ لوگوں نے ایک قافلے سے یہ سن رکھا تھا کہ قریب کے علاقے میں ایک بہت ہی طاقتور شخص رہتا ہے جو بہت ہی عبادت غزار ہے اور اکثر روزے رکھتا ہے لیکن نیہائیت ہی مذبوت اور طاقت و قوت کا مالک ہے جس نے ایک دفعہ اپنی ہاتھوں سے بغیر کسی خنجر یا تلوار کے ایک خونخار شیر کو بھی مار ڈالا ہے


چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب اس شخص کے پاس جا کر فوتہ کی شکایت کریں گے اور اس سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ ہماری مدد کرے دراصل یہ شخص اللہ کے پیغمبر حضرت شمون علیہ السلام تھے کچھ علماء انھیں نیک ولی قرار دیتے ہیں البتہ توریت و انجیل میں شمون علیہ السلام کو نبی قرار دیا گیا ہے جنہیں اللہ نے غیر معمولی طاقت سے نوادہ تھا اور ان کی یہ بے مثال طاقت ہی ان کا معجزہ تھا مورخین کے م


خود یہودی تھے اور آپ کا تعلق بنی اسرائیل کے قبیلہ بنودان سے تھا آپ کے والد کا نام منو تھا


بہرحال جب یہودی شمون علیہ السلام کے پاس پہنچے اور فوتہ کے ظلم کے مطالب بتایا تو آپ علیہ السلام نے اس ظلم کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور ان مظلوم لوگوں کے مسیحہ بن گئے پہلے تو حضرت شمون فوتہ کے دربار میں تشریف لے گئے اور اسے اور اس کے پیروکاروں کو دین کی دعوت دی آپ علیہ السلام نے اسے ظلم جبر اور شرک و بد پرستی سے توبہ کرنے کو کہا اور اسے عذابِ الہی سے ڈرائیا


لیکن اہل اموزیہ اور بادشاہ فوتہ نے شمون علیہ السلام کی دعوت کو سرے سے انکار کر دیا اور بادشاہ آپ کی جان کا دشمن بن بیٹھا لہذا شمون علیہ السلام نے اب فوتہ اور اس کے لشکر سے لڑنے کا فیصلہ کیا حضرت شمون اکیلے ہی فوتہ کے فوج سے ٹکرا گئے اور تنی تنہا اس کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں فوجیوں کو مار ڈالا


جب فوتا کو اس کی خبر ہوئی تو وہ گھرہ گیا اور حیران رہ گیا کہ کوئی انسان اس قدر طاقتور کیسے ہو سکتا ہے جو ایک ایسی فوج کو اکیلے شکس دے دے جنہیں آج تک کوئی شکس نہ دے پایا ہو فوتا نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ شمون کو ایک لوہے کے جال میں پھسا لیں لہذا جب دوسری مرتبہ جنگ ہوئی تو سپاہیوں نے آپ علیہ السلام کو جال میں پھسا دیا


لیکن شمون علیہ السلام اس قدر طاقتور تھے کہ آپ نے اس لوہے کے زنجیر نمہ رسیوں کو بھی توڑ ڈالا۔ حضرت شمون نے فوتاہ اور آپ کے فوجیوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے عام لوگوں پر ظلم ستم بند نہ کیے تو وہ اس طریقے سے نقصان اٹھاتے رہیں گے اور تباہو برباد ہو جائیں گے۔ اب شمون علیہ السلام یہودیوں کے مسیحہ بن چکے تھے اور پورے روم یونان میں آپ کی شہرت عام ہو چلی تھی۔


اب جہاں کہیں بھی فوتہ کی فوج ظلم کرنے جاتے شمون علیہ السلام وہاں پہنچ جاتے اور انھیں وہاں سے مار کر خدیر دیتے کہتے ہیں کہ شمون علیہ السلام ہر سال تقریباً چار مہینے برابر فوتہ کے فوج سے جنگ و جہاد کرتے اور باقی وقت عبادتِ الہی میں مجھول رہتے روایت ہے کہ شمون علیہ السلام کی بیوی نیحائت ہی نیک اور پارسا عورت تھی جو آپ کی حمایت کیا کرتی تھی


کافیروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ شمون کی بیوی کو فریب دے کر ہی انہیں شہید کیا جا سکتا ہے لہذا حضرت شمون کی غیر حاضری میں بادشاہ اموزیہ کا وزیر آپ کی بیوی کے پاس آیا اور کہنے لگے کہ بادشاہ فوتہ تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہے اور عیش و عشرت کی زندگی دینا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے تمہیں یہ کام کرنا ہوگا کہ اپنے شوہر شمون کو کسی بھی طرح سے مارنا ہوگا چنانچہ کافیروں کے فریب


وہ راضی ہو گئی اور اس کے دل میں مال و دنیا کی لالت جاگ اٹھی ایک رات حضرت شمون کی بیوی نے سوتے وقت حضرت شمون کو ایک زنجیر میں بان دیا جب حضرت شمون اٹھے تو ہاتھ پاؤں اٹھتے ہی زنجیر ٹوڑ گئی اس بات کی خبر بادشاہ کو پہنچی کہ شمون نے زنجیر کو بھی اپنی طاقت سے ٹور ڈالا ہے تب شاہ اموزیہ بولا کہ لوہے کی زنجیر سے اور کوئی چیز مضبوط نہیں ہے


چنانچہ کچھ دنوں بعد جب حضرت شمون لڑائی سے واپس آئے تو اپنی بیوی کے ساتھ باتے کر رہے تھے تب آپ کی بیوی نے آپ کی قوہت و طاقت اور لڑائی کی باتے شروع کر دی باتوں ہی باتوں میں آپ کی بیوی نے پوچھا کہ اے حضرت میں نے آپ کو رسی اور لوہے کی زنجیر میں باندھ کر آزمایا اور آپ نے دونوں چیزوں کو توڑ ڈالا بھلا کوئی ایسی چیز بھی ہے کہ جسے آپ کو باندھ کر رکھا جا سکے تب حضرت شمون نے کہا کہ ہاں


جس سے اگر مجھے بانگا جائے تو میں اسے توڑ نہیں سکتا لہٰذا جب رات ہوئی اور سمون علیہ السلام سو گئے تو آپ کی بیوی نے آپ کے بالوں کو کٹ دیا اور ان ہی بالوں کا رسی بنا کر آپ کے ہاتھ پاوں کو مضبوطی سے بان دیا جب وہ نیم سے اٹھے تو اپنی بیوی سے پوچھا کہ مجھے کس نے یوں باند رکھا ہے بیوی نے کہا کہ میں نے ہی باندہ ہے حضرت سمون نے کہا کہ اگر میں زرہ سا بھی ہلو یا زور کرو تو میرے جسم کی تمام ح


لیکن آپ کی بیوی نے شاہ اموزیہ کو اس بارے میں پہلے ہی خبر دی دی تھی پس اس رات بادشاہ کے سپاہیوں نے آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا انہوں نے سیمون علیہ السلام کی آنکھیں نکال لی اور زبان کارٹ کر انہیں بادشاہ کے دربار میں لے گئے


جب انہیں فوتہ کے دربار میں لائیا گیا تو اموزیہ کے لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور وہاں شدید ہنگامہ مچا ہوا تھا کوئی شخص کہتا تھا کہ اس نے میرے باپ کو مارا ہے کوئی شخص کہتا کہ یہ میرے بھائی کا قاتل ہے غرض ہر شخص جو وہاں موجود تھا کوئی نہ کوئی دعویٰ کرتا اور سب حضر شمون علیہ السلام کے دشمن تھے بادشاہ کے حکم سے شمون علیہ السلام کے ہاںک پاؤں توڑ دیئے گئے اور انھیں اٹھا کر در


اموزیہ کے لوگ اور بادشاہ فوتہ اب محل میں جشن منا رہے تھے کہ ہم شمون علیہ السلام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات پا گئے اب ہمارا کوئی دشمن نہیں لیکن ادھر حضر جبریل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے شمون علیہ السلام کو ہوا پر اٹھا لیا آپ کے ہاتھ پاؤں آنکھ اور جسم کے مختلف اذہار ٹھیک ہونے لگے


جبریل علیہ السلام نے فرمایا اے شمون اٹھ کھڑے ہو خدا کے حکم سے اور اللہ نے تمہیں بہت طاقت و قوت دی ہے پس اس ملون کے مکان کا سطون پکڑ کر تمام حصار اور مکانوں کو کھوڑ کر دریا میں ڈال دو تب شمون علیہ السلام خدا کا نام لے کر اٹھے اور اس ملون کے مہل کے مکان کا سطون پکڑ کر اس سطون کو زمین سے اکھاڑ دیا بعدشاہ عموزیہ کے مہل میں ایک توفان کھڑا ہو گیا اور زلزلہ جیسی حالت پیدا ہو گئی


اہل عموزیہ ہلاک ہو گئے اور بادشاہ بھی واثل جہنم ہوا


اس کام سے فراغت پانے کے بعد شمون علیہ السلام اپنی گھر کی طرف روانہ ہوئے شمون علیہ السلام نے وہاں اپنی بیوی کو پایا تو یہ ارادہ کیا کہ اسے قتل کر دیں لیکن جبریل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فرمایا کہ اے شمون اللہ فرماتا ہے کہ تم اپنی بیوی کو قتل نہ کرو اور نہ ہی کسی طرح کی عزیت یا سزا دو کیونکہ اس نے نادانی سے یہ سب کچھ کیا اور عورت تو ناقص الاقل ہوتی ہے


پس شاہ اموزیہ کی تخت اور بادشاہی میں شراکت کی دی گئی لالچ میں آ کر اس نے اموزیہ کی صلاح سے یہ سب کیا تھا لیکن اب اس نے توبہ کر لی ہے اور ندامت کے آنسو بھایا ہے پس تم اپنی بیوی کی غلطی کو معاف کر دو اور اس کے ساتھ پیار و محبت سے رہو


شمون علیہ السلام کے اس تاریخی واقعے سے ہمیں یہ سبک ملتا ہے کہ اگر اللہ نے کسی شخص کو کسی خاص سلحیت سے نوازہ ہے تو اسے اپنی اس خوبی یا سلحیت کو دوسروں کی مدد کیلئے صرف کرنا چاہیے کیونکہ یہی بندگی اور خلق خدا کی خدمت کا بہترین طریقہ ہے جس طرح شمون علیہ السلام نے اپنی طاقت کو ظالم بادشاہ اور اس کی فوج کے خلاف استعمال کیا اور بنی اسرائیل کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا


نیز اس واقعے میں یہ سبک بھی پوشیدہ ہے کہ اگر کسی نے ہمیں اپنی ذات سے تکلیف دی ہو تو ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا بندہ بہت پسندیدہ ہے

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow