چھوٹی بچی کی شکل میں بیوا عورت کی حفاظت کرنے والا کوہکاف کا امیر جنزادہ

چھوٹی بچی کی شکل میں بیوا عورت کی حفاظت کرنے والا کوہکاف کا امیر جنزادہ

Dec 2, 2024 - 21:01
 0  3
چھوٹی بچی کی شکل میں بیوا عورت کی حفاظت کرنے والا کوہکاف کا امیر جنزادہ
چھوٹی بچی کی شکل میں بیوا عورت کی حفاظت کرنے والا کوہکاف کا امیر جنزادہ


پرانا کبرستان میرے گھر سے کافی دور تھا پیدل چل چل کے جانے میں ایک ہنٹا لگ جاتا میرے چھوٹے چاروں بچے گھر تھے میرا تل بہت کھبرا رہا تھا اور بار بار ذہن میں یہی بات آرہی تھی کہ جو کام میں کرنے جا رہی ہوں وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں نجانے کیوں میں اتنی سخت دل ہو گئے تھے کہ اپنے بچوں کی بھوک اور پیاس دیکھی نہیں جاتے تھے


ان کی بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لیے اپنا ہی ایک بچہ قربان کرنے جاری تھی لیکن دل میں ایک در تھا کہ نجانے اس کی زندگی آگے کیسی ہوگی کچھ جانتی بھی نہیں تھی میں ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایک گھنٹے کا سفر تیر کرنے کے بعد میں پورا نے قبرستان پہنچ چکی تھی یہ قبرستان پورا شہر چھوڑ کر باہر والی سائر تھا جہاں پر ہر طرف کھیت ہی کھیت نظر آدھے تھے


ایک سائٹ پر بہت بڑا قبرستان تھا جس کی چار دوارے کے اندر بہت ساری قبرے ایک بیانک منظر پیش کر رہے تھے میں اس قبرستان کے اندر داخل ہوئی میری بیٹی کھبراتی ہوئی میری طرف دیکھنے لگی اور بولی مہا یہ مجھے کہاں لے کر آئی ہیں مجھے بہت دن لگ رہا ہے تب ہی یہ خوف ناک واز ہم دونوں کے کانوں سے ٹکرائی میری بیٹی مجھ سے لپٹ گئی لیکن اس وقت اپنے دوسرے بچوں کی جان بجانے کے ل


میں پیر پابا کے بتائے اسی درخت کے نیچے چلی گئی اس درخت کی گنی ٹہنیا جو زمین کو چھو رہی تھی اس کے قریب جاتے ہی اپنی بیٹی کو گلے لگا کر میں خوب روئی اور اس سے بادہ کیا کہ میں بہت جلد سے دوبارہ ملوں گی اس وقت اپنے بہن بھائیوں کی خاطر اسے یہ سب کچھ کرنا پڑے گا وہ میری طرف دیکھتی ہوئی آنسوں بھا رہی تھی اس کا چہرہ اندھیرے میں مکمل طور پر میں دیکھ نہیں سکتی تھی اسے اس درخت کے ن


اس نے مجھے بہت اوازیں دی مہاں مجھے یوں چھوڑ کر نہ جائیں لیکن میں بے بس ور سخت دل مہاں اپنی جان سے پیاری بیٹی کو وہاں چھوڑ کر قبرستان سے باہر جانے لگی تب بھی مجھے ایک زوردار چیخ سنائی تھے یہ میری بیٹی کی اواز تھیں اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑکا تھا میرا نام نبیلا ہے ہم تین بہن بھائی تھے دو بہنیں اور ہمارا ایک بھائی تھا


میرے اب با کا کپڑے کا کاروبار تھا یہ اپنی فیکٹری میں کپڑے تیار کرواتے اور بوٹیک میں سیل کرتے تھے جس سے ہمارا گھر بہت اچھے طریقے سے چل رہا تھا پیسے کی ریل پیل تھی کبھی ہم بہن بھائیوں کو پاپا نے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی تھی دیکھتے دیکھتے ہم تینوں بہن بھائی جوان ہو گئے بھائی ہم دونوں سے بڑا تھا وہ پر لکھ کر ایک انجینئر بن گیا تھا اور اپنی بی


جبکہ ہم دونوں بہنیں ابھی اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی پھر اچانک سے ابا کی موت ہو گئی تھی بڑی بہن کی مغنی پھوپھو کے کھر ہوئی تھی جبکہ میرا بھی رشتہ ڈھون رہے تھے اسی دوران ابا کی وفاعت نے ہم سب کو ٹوڑ کر رکھ دیا بھائی کو ابا کی موت کا بتایا تو انہیں بہت زیادہ دکھ ہوا لیکن وہ واپس نہیں آئے تھے کیونکہ ان کی بیوی پاکستان واپس نہیں آنا جاتی تھی ما اس وقت بہت تنہا


وہ چاہتی تھی کہ جلدرز جلد ہم دونوں بہنوں کی شادی کر دیں اب با کو مفات پائے کچھ مہینے گزرے تھے کہ میرا ایک رشتہ آیا امہ کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ بہن کی بھی شادی کرنا چاہتی تھی پھوپو زور دی رہی تھی میرا رشتہ احمد کے ساتھ تیہ ہو گیا احمد ایک سلجا ہوا اور نیک لڑکا تھا جو کہ سعودی عرب میں کام کرتا تھا جبکہ وہ پاکستان چھٹی آیا تو امہ نے ہم دونوں ب


محمد کے گھر دلہن بن کر آ گئی تھے احمد کے گھر میں دو بہنے رسکی ماہ تھیں جبکہ وہ دو بھائی تھے ایک بھائی الک تھا احمد اپنی ماہ اور بہنوں کے ساتھ رہتے تھے شادی کے بعد احمد دوبارہ سعودی عرب نہیں گئے بلکہ یہاں پر چھوٹی سی کپڑے کی دکان بنالی جسے گھر کا گزر وثر ہو رہا تھا اسی کی بدولت انہوں نے اپنی دو بہنوں کی شادی کی


پیاری سی بیٹی سے نوازہ تھا اس بیٹی کا نام میں نے جنت رکھا میری بیٹی بہت خوبصورت تھی خوبصورت میں میں بھی کم نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ میری بیٹی ہوں بہو میری شکل کی تھی اس کی گوری رنگت اس کی کالی سیاہ لمبی جھیل جیسی آنکھ ہے دونوں رقصار میں پرتا ڈیمپل اس کی خوبصورت میں مزید اضافہ کر دیتا بچپن سے ہی وہ بہت موٹی تازی اور گوری تھی


جنت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقتا فقتا مزید تین بیٹو اور ایک بیٹی سے نوازہ ہم پانچ بچوں کے ماں باپ بن گئے تھے پھر ایک دن احمد اپنی دکان سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ان کا ایک ٹرک سے اکسیدنٹ ہوا وہ موٹر سائکل پر تھے وہ ٹرک بری طرح سے انہیں کچلتا ہوا گزر گیا اس ٹرک نے ان کے دماغ کو بری طرح سے کچل دیا تھا سڑک سے ان کی بوٹیاں گٹھی کی گئی بہت بیانک موت ت


یہ دن مجھ پر قیامت بن کر ٹوٹا میرے چھوٹے چھوٹے پانچ بچے تھے جر میں جنت سب سے بڑی تھیں جنت کی عمر اس وقت صرف آٹھ سال تھیں وہ بار بار مجھ سے سوال کر دی کہ میرے اپا کہاں چلے گئے اور کب واپس آئیں گے لیکن میرے پاس کوئی بھی جواب نہیں تھا جوان بیٹے کا صدمہ میری ساس بھی برداش نہیں کر سکی اور دو ماہ بعد ہی ان کی بھی وفات ہو گئی ہمارے گھر کو چلانے والا کوئی بھی نہیں تھا


احمد کی دکان بھی نیلامہ ہو چکی تھی کیونکہ بہت سارا قرزہ انہوں نے لیا تھا یہ بات ہمارے علم میں نہیں تھی اب گھرواکو پر آگیا تھا کوئی بھی رشتہ دار ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا ابھی یہ صدمہ کم نہیں ہوا تھا کہ احمد کی بڑے بھائی نے مجھے کھر خالی کرنے کا کہہ دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ کھر ان کی کمائی سے بنا ہے اس کھر پر میرا اور میرے بچوں کا کوئی حق نہیں ہے اس نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ میں اکے چلی ج


لیکن مایکے میں بھی کوئی نہیں تھا ما وفاہت پاچھ چکی تھی باپ تو کئی سال پہلے ہی مر چکا تھا بھائی دوبائے میں رہائش پزیر تھا تو کس کے پاس جاتی؟ ایک بہن تھی جو سسرال والوں کے ظلموں سے تمکا شکار تھی اس کے تو خود اس گھر میں اس کے لئے جگہ نہیں تھی وہ مجھے کہاں رکھتی؟ اس وقت میں بہت مجبور ہو چکی تھی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کس سے مدد مانگو کیونکہ جو رشتہ دار احمد کی


جیسے ہی احمد کی آنکھیں بند ہوئی ہے اور کوئی مو موڑ گیا تھا کوئی بھی ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں تھا ایسے حالات میں میں اپنے بچوں کو بے عار و مدد کار نہیں چھوڑ سکتی تھی مجھے خود سے باہر نکل کر کمانا تھا میرا چھوٹا بیٹا اس وقت صرف ایک سال کا تھا جب میں اپنے پانچوں بچوں کو لے کر اپنے اس گھر سے نکلے تھیں ایک پرانے سے بوسیدہ محلے میں ایک گھر رینٹ پر لے لیا تھا تاکہ


لیکن اس محلے کا ماحول اس قدر خراب تھا کہ ایسے محسوس ہوتا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں میں اپنے بچوں کو کھر چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ میرے لئے بہت مشکل تھا۔ پانچ بچوں کو لے کر میں کسی کام پر بھی نہیں جا سکتی تھی۔ کیونکہ جہاں کہیں بھی کام پر جاتی۔ وہ یہ کہہ کر مجھے کام پر نہیں رکھتے تھے کہ تمہارے سات پانچ بچ ہیں۔ تم کام کیا خاک کرو گی؟ میں بہت زیادہ پری


کیوں کہ اپنے گھر سے میں جتنا بھی آٹا چاول لے کر آئی تھی وہ بھی ختم ہو چکے تھے بچوں کو کھلانے کے لیے میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں تھا چھوٹے بیٹے کو فیڈر میں پانی بھر بھر کے پلاری تھی لیکن وہ چپ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا بھوک اور پیاس سے میرے بچے تڑپ رہے تھے دل چاہتا تھا کہ جی بھر کر رولو پھر میں نے سوچ لیا کہ بچوں کو گھر میں بند کر کے خود کام کے لیے جاؤں گی کیونک


کرایا بے شک تھوڑا تھا لیکن پھر بھی ایسے تو مالک مکان نے مجھے گھر ہی نہیں رہنے دینا تھا میں نے پانچوں بچوں کو گھر پر چھوڑا اور خود کام ڈھوننے کے لئے چلی گئی دو تین گھروں میں صفائی ستھرائے کا کام شروع کیا لیکن اجانک سے ان تین گھروں سے مجھے جواب ہو گیا وہ لوگ مجھ سے کام نہیں کروانا چاہتے تھے دو تین ان کا بچہ کھوچہ کھانا لے کر بچوں کو کھیلا تی رہی جس سے بچوں کا پ


لیکن اب پھر سے وہ ہی شروع ہو گئے تھے ہمارے ساتھ والے کھر میں ہی ایک پروینا پا رہتی تھی جو دیکھنے میں کافی نیک عورت تھی ایک دن وہ میرے پاس آئی ان کے ہاتھ میں کھانے کی ایک ٹری تھیں وہ بولی یہ لے لو تم جس دن سے آئی ہو کبھی باہر نکلتے نہیں دیکھا باہر نکلو تو پتہ چلے گا محلے والے اتنے بھی بہرے نہیں ہیں یہ کھانا رکھو اپنے وچوں کو کھیلا دو


میں چھے سات دن سے دیکھ رہی تھی تمہارے بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے ایسے تو کام نہیں چلے گا آج تو یہ کھانا کھلا دو بچوں کو ایک وقت تھا جب میرے پاس بھی ایسے حالات تھے فاکے ہوتے تھے پھر ایسے کرامات ہوئی امپر کہ اس دن سے لے کر آج تک میرے گھر کبھی پیسا ختم نہیں ہوا نہ کبھی بیماری آئی مجھے تو اس پیر بابا پر بہت زیادہ یقین ہے میں ان کی بات سن کر مسکرات دی اور بولی


تو مجھے یہیں پہ ضرور ملے گا وہ اللہ جو ایک پیربابا کے عمل سے دے سکتا ہے تو جب میں اسے مانگوں گی تو وہ تب بھی مجھے دے سکتا ہے شاید میرا اللہ مجھ سے کوئی امتحان لے رہا ہے تب بھی پروین اپا ناک چڑھاتی بولی مرضی ہے بھائی تماری میرا کام تھا تو میں سلا دینا اب تم نہیں مانتی تو میں کیا کر سکتی ہوں آج تو میں کھانا دے دوں گی تمہارے بچوں نے کھا بھی لیا کل کیا کھلاو گی


ذرا گھور کرنا میری بات پر ان کی یہ بات سن کر میں خاموش ہو گئی وہ وہاں سے چلی گئی میں سچ میں اس سوچ میں پڑ گئی تھی کہ آگے آنے والی زندگی میں نا جانے کیا ہوگا یہ میرے بڑے دونوں بچے سکول جانے کے قابل تھے لیکن وہ دونوں بھی سکول نہیں جاتے تھے وجہ صرف یہی تھی کہ میرے پاس نہ تو ان کی فیز کو دینے کے لئے پیسے تھے اور نہ ہی یونیفام اور کتابوں کے لئے


تو میں انہیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھلا سکتی تھی پڑھائی لکھائی کیسے کروا تھی؟ میں اتنی جوانی میں ہی بوڑ ہی لگنے لگی روز روز کی پریشانی اور ٹنشن مجھے دن بڑا کمزور کرتی جا رہی تھی طبیعت بھی دیکھتے دیکھتے خراب ہوتی جا رہی تھی پھر میں نے سوچا کہ اگر میں بیمار پڑ گئی تو میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ پہلے ہی بہت مشکل سے گزارہ ہو رہا ہے بچے بھی می


اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ ہر بات کو سمجھنے لگے تھے لیکن میں مہا تھی مجھ سے یہ سب کچھ برداش نہیں ہوتا تھا بچوں کو بھوکا پیاسا دیکھ کر میرا دل تڑپتا رہا خود اپنی بھوک پیاس برداش کر لیتی لیکن بچوں کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہوئے مجھے خود سے شرم محسوس ہوتی تھی کہ میں ایک ایسی مہا ہوں دو وقت کا کھانا اپنے بچوں کو نہیں کھلا سکتی پھر میں نے کام ڈھوننا شروع


کوئی بھی مجھے کام پر رکھنے کیلئے تیار نہیں تھا نجانے ایسا کیا تھا کہ سب لوگ ہی مجھ سے نفرت کرنے لگے تھے شاید اس کی وجہ میرے پھٹے پرانے اور گندے کپڑے تھے جن کو دھونے کیلئے بھی میرے پاس سرف تک نہیں تھا یا پھر میری قسمت میں ہی ایسا لکھا تھا جس کی میں ہر طرف سے ناؤمید ہو گئی تھی پھر مجھے پروین آپہ کا خیال آیا کہ مجھے پروین آپہ کے مشورے پر عمل کرنا چاہیئے


میں تو ان باتوں پر یقین نہیں کرتی تھی لیکن آج جب اس حال کو پہنچ چکی تھی کہ اپنا قیدہ بھی گوھا دیا اور پروین آپا کے پاس چلی گئی اور بولی آپا جس عمل کا آپ مجھے بتا رہی تھی کہ آپ مجھے اس کے پاس لے کر جا سکتی ہے پروین آپا مسکراتی بولی بیٹھو بھائی کوئی چائے پانی پیو پھر میں تمہیں لے کر جاتی ہو پیر بابا کے پاس بہت پہنچ ہوئے وہ بزرگ ہیں ان کی قرآنات سے بہت سارے لوگ بھوک اور افلاس سے بچے


اور بہت سے بیماروں کو شفا ملی ہے مجھے تو ان پر پورا یقین ہے تم دیکھنا تمہارے بھی دن بدل جائیں گے جیسے کہ میرے بدل گئے دیکھو میرا کتنا خوبصورت خیلیل


اور اس کا ایک بیٹا اٹلی میں تھا جو بہت پیسا کماتا لیکن اس وقت میں سب کچھ بھول گئی تھی کہ پیسا دینا و لینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے یہ پیر اور عامل تو کچھ بھی نہیں کر سکتے لیکن میں کیا کرتی بچوں کی بھوک کی وجہ سے مجبور ہو گئی تھی پروینابا مجھے لے کر ایک انجان سے جگہ کی طرف چل دی میں اس وحلے میں نئی نئی آئے تھے میں تو یہاں کے لوگوں اور یہاں کی جگہوں کے بارے میں بلکل بھی نہیں جانتی تھی


پروینا پا مجھے لے کر ایک دربار میں پہنچی تھی دربار میں ہر طرف کافی رونک لگیوئی تھی وہاں پر ایک بڑی داڑھی والے بابا جی کندھے پر چادر پھیلائے ایک سائیڈ پر بیٹھے تھے ان کے ایک طرف اورتے ہیں اور ایک طرف مرد بیٹھے تھے پروینا پا مجھے لے کر وہاں جا بیٹھی اس وقت نجانے کیوں میرے زمیر مجھے بار بار ملامت کر رہا تھا لیکن میں اپنے زمیر کی سننہ ہی نہیں چاہتی تھی


کہ تبھی پروین آپہ نے مجھے جن جوڑا اٹھو تمہاری باری آگئی ہے پیر بابا بلا رہے ہیں وہ مجھے لے کر پیر بابا کے پاس گئی پیر بابا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بتاؤ بچہ کیا مشکل ہے تمہاری ہم پوری کرنے کی کوشش کریں گے کہ تمہاری مشکل بھی اسان ہو جائے تبھی میں بولی پیر بابا میرے شوہر وفاد با گئے ہیں میرے پانچ بچے ہیں مجھے کی کام نہیں ملتا میں اپنے بچوں کا


آپ کو یہ ایسا عمل کریں کہ میرے سارے کام ٹھیک ہو جائیں تب ہی پیر بابا بولے ٹھیک ہے بچا میں اسعاب لگاتا ہوں عمل بابا اکھیں بند کر کے تصبیح کے دانے پر دانا گرائے جا رہے تھے تقریباً دس منٹ ایسے ہی گزر گئے پھر پیر بابا بولے تمہارے مسئلے کا ایک ہی حل ہے جس کے لیے تمہیں اپنے دل کو سخت اور خود کو مزبوط بنانا ہوگا پیر بابا کی یہ بات سن کر میں بہت حیران ہوئی اور بولی


آپ بتائیں مجھے کیا کرنے ہوگا؟ تب ہی پیر بابا نے پروین آپہ کو اشارہ کیا کہ وہ یہاں سے اٹھ کر چلی جائیں پروین آپہ پیر بابا کے آگے سر چکاتی اپنی جگہ سے دوبارہ جا بیٹھی تھی جبکہ میں ابھی تک پیر بابا کے بالکل سامنے بیٹھی تھی تب ہی پیر بابا بولے اپنے بچوں کا پیٹ پال لے کے لیے تمہیں اپنے کسی ایک بچے کو تھوڑی دیر کے لیے خود سے دور کرنے ہوگا محران کی سے پیر بابا


میں بچے کو کسے خود سے دور کرسکتی ہوں اور کہاں بھیجوں گی؟ ہمارا تو کوئی بھی نہیں ہے پیر بابا نے کہا اس کے لیے تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم بچوں کو کہیں نہیں بھیجوں گی بلکہ اگر تم اپنے سب سے بڑے بچے اگر وہ بیٹی ہے اسے کبرستان میں کچھ دیر کے لیے چھوڑ آگی تو تمہیں ایک روڑ روپیاں ملے گا اگر تمہارا سب سے پہلا بچہ بیٹا ہے تو تمہیں ایک روڑ روپیاں ملے گا


تو تمہیں پچاس لاکھ انام ملے گا جس سے تم اپنے دوسرے بچوں کا بہسانی پیٹ پال سکتی ہو اور کچھی دیر کی تو بات ہے پیر بابا کی اس بات پر میں ہران ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہو گئی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ تب ہی پیر بابا بولے تمہارے پاس سوچنے کے لئے ٹائم ہے تم سوچ لو پھر مجھے بتا دینا میں تمہیں طریقہ بتا دوں گا اور دیکھ لینا اسی رات تم مالا مال ہو جاؤ گی


میں اتنی بات سننے کے بعد پروینابا کے پاس آ گئی اور وہ مجھ سے پوچھنے لگی کیا کہا پیر بابا نے میں آکھوں میں آسو لیے پروینابا کے طرف دیکھنے لگی وہ دوبارہ مجھ سے پوچھنے لگی کیا ہوا تھا میں تم سے پوچھ رہی ہوں کیا کہا پیر بابا نے عمل کر دیں گے نا میں نے اس بات میں سر ہلایا کیونکہ کوئی بھی میں ایسی بات نہیں کرنا چاہتی تھی جسے دوبارہ سے میرے دل پر وہی قیامت گزرے جو پیر بابا کی بات


اپنی اولاد اپنی بچی کو میں کیسے قبرستان میں چھوڑ کر آسکتی ہوں؟ وہ بھی زندہ سلامت مردہ کو تو ہر کوئی قبرستان میں دفنانے جاتا ہے لیکن اپنی زندہ پیاروں کو کون چھوڑ کر آتا ہے؟ پیر بابا نے مجھ سے ایسی ہی شرط رکھی تھی جو میں کسی طرح کو بول نہیں کر سکتے تھیں میں آکھوں میں آنسو لیے کھر پانجی پر وینہ پا اپنے گھر چلی گئی میں بہت زیادہ پریشان تھیں جنت دس سال


مجھے یہاں پریشان دے کر بولی ماما آپ کیوں پریشان ہے آپ ساتھ والی انٹی کے ساتھ کہاں گئی تھی آپ روک کیوں رہی ہے وہ پیار سے میرے آنسو ساف کرتے ہوئے مجھ سے بار بار پوچھ رہی تھے تبھی میں نے اسے گلے سے لگایا اور بولی کچھ نہیں ہوا مجھے بس ایسے ہی تمہارے بابا کی یاد آگئی تھی وہ میرے آنسو ساف کرنے لگی اور بولی ہم ہے نا آپ کے ساتھ آپ کیوں روتی ہیں ہم آپ کے ساتھ ہر طرح کے عالات میں گزارہ کریں گے


چھوٹے بہن بھائیوں کا مسئلہ ہے نا میں نے انھیں بھی سبر کرنا سکھا دیا ہے اب پریشان نہ ہو اللہ کوئی نو کوئی وسیلہ ضرور بنا دیں گے لیکن اس بات کو دو دن گزر گئے تھے میرے چھوٹے بیٹے کی طبیت بہت زیادہ خراب تھی کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے وہ بلکل بےہوشی کی حالت میں تھا نہ وہ ہلچل کر رہا تھا اور نہ ہی کوئی بات کر رہا تھا میں بہت زیادہ پریشان ہو گئی ایسے حالات میں پروینا


اور اس سے کچھ کھانے پینے کے لیے مانگا لیکن انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ جیسے پیر بابا نے کہا ہے ویسے مان لو دیکھ لینا بہت کچھ ملے گا تمہیں اگر کھانے کی بات کرتی ہو تو مانگ مانگ کر کب تک اپنے بچوں کا پیٹ پار ہوگی تم جانتی ہو کہ بکاریوں کی بھی کوئی زندگی نہیں ہوتی آج کل کے بکاریوں کو بھی لوگ جھوٹیں ہی سمجھتے اس لئے خود ہی سوچ لو کہ تم نے کیا کرنا ہے جیسے ہی میں وہاں سے پ


پروین اپا نے مجھے آز دے کر روک لیا اور بولی ٹھیک ہے آج کے دن کے لئے کچھ لے کر جاؤ کھانے کے لئے جانے کیوں مجھے تو تم پر ترس آتا ہے تمہارے بچوں پر بھی تم تو خودی ظالم ماں بنی ہوئی ہو اپنے بچوں پر ترس نہیں کھا رہی ہے اگر پیر بابا کی بات مان لو تو تمہارے بچے بھوکے نہیں مریں گے اب مجھے محسوس ہوا تھا کہ جیسے پروین اپا کو بھی اس بارے میں معلوم تھا جبکہ میں نے تو انہیں بت


چھوٹے بچے کی طبیع تبھی بھی ٹھیک نہیں تھی اگر اسے کچھ کلانیں پلانے کی کوشش بھی کرتی تو وہ علت دیتا تھا میں بہت زیادہ پرشان ہو گئی میں ساری رات جاکتے ہی گزار گئی رو رو کر بہال ہو گئی دوروں طرف سے خطرہ ہی خطرہ تھا اگر پیر بابا کی بات مان لی تو تبھی اپنا بچہ کھو دیتی اور اگر ان کی بات نہ مانتی تو ہو سکتا تھا کہ اپنے پانچو بچے کھو دیتی


حاقرکار ساری رات سوچنے کے بعد میں نے یہ بات تیہ کر لی کہ پیر بابا کی بات پر عمل کروں گی اپنے باقی چاروں بچوں کی جان بچانے کیلئے ایک بچے کو خطرے میں ڈالوں گی نا جانے میں کیسے اتنی سخت دل ہو گئی تھی اگلے دن صبح ہوتے ہی وڑی بیٹی سے کہا کہ بہن بھائیوں کا خیال رکھے اور خود باہر سے طالعہ لگا کر پیر بابا کے دربار پر جا پانچی پیر بابا مجھے دیکھ کر مسکورہ نے لگے


تب ہی میں بولی، جی پیر بابا میں آپ کی بات ماننے کے لئے تیار ہوں اب آپ مجھے بتا دیں مجھے کیا کرنو گا تب ہی پیر بابا بولے رات کے بارہ بجے اپنے سب سے بڑے بچے کو لے کر قبرستان پہنچانا میں نے سنے تمہارے بڑے بچوں میں بڑی بیٹی ہے میں نے جواب دیا جی ہاں میری بیٹے کی عمر دس سال ہے پیر بابا بولے یہ تو اچھی بات ہے تمہیں ہی اس سے فائدہ ہوگا تم جیسے ہی اپنی بچی کو چ


تو تمہارے کھر ایک کروڑ روپے آج جائے گا۔ پیر بابا کی یہ بات سنکر میں میرے مری قدموں سے کھر واپس موڑی۔ جیسے ہی کھر آئی میری بیٹی چھوٹے بہن بھائیوں کو بھیلانے میں لگی تھی کیونکہ وہ بار بار کھانا ماغ رہے تھے جبکہ چھوٹے بیٹے کی طبیت اب تک نہیں سنبل رہے تھے۔ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں تھا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جا سکوں۔ اس کی طبیت مزید خراب ہوتی


اپنی جنت کو قبرستان میں چھوڑاوں گی پھر اللہ اس کا مالک ایک بچے کی جان بچانے کی خاطر میں چار بچوں کو قربان نہیں کر سکتے تھیں ایک ایک بچے کے لئے الحقلت تکلیف محسوس کر رہی تھی بار بار جنت کی طرف دیکھتی رات ہوتے ہی پروینا پا کو میں نے سارا احوال کہہ سنایا پروینا پا نے مجھے کھانے کے لئے کچھ کھانا دے دیا میں نے بچوں کو وہ کھانا کھلایا بچوں نے خوش ہو کر کھانا کھایا اور سب ب


جبکہ میں نے جنت سے کہہ دیا کہ وہ نہ سوے اسے میرے ساتھ کہیں جانا ہے وہ بڑی حیران ہوئی کہ آج سے پہلے کبھی میں نے ایسا نہیں کہا تھا تب ہی وہ بولی ٹھیک ہے امام میں آپ کے ساتھ چلوں گی جیسے ہی رات کے بارم بجے میں نے جنت کو جگایا جو ابھی نیت کی واتی میں اتر تھے میں اسے لے کر پرانے قبرستان کی طرف چل پڑی پرانے قبرستان کے بارے میں مجھے پیر بابا نے ویٹایا تھا میں اس قبرستان کے بارے میں نہیں جانتے تھیں


یہ میرے گھر سے کافی دور پیدل چل کے ایک گھنٹا لگ جاتا تھا میرے چھوٹے چاروں بچے گھر تھے میرا دل پہلے خبر آ رہا تھا بار بار زہن میں یہی بات آ رہی تھی کہ جو کام میں کرنے جارہی ہوں وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں جانی کیوں میں اتی سخت دل ہو گئی تھی کہ اپنے بچوں کی بھوک اور پیاس دیکھی نہیں جاتی ان کی بھوک پیاس کو مٹانے کے لیے اپنا ایک بچہ قربان کرنے جاری تھی لیکن دل میں ڈر تھا کہ نجان


ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ ایک گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد میں پرانے کبرستان پہنچ چکی تھی یہ کبرستان پورا شہر چھوڑ کر باہر والی سائط پر تھا جہاں ہر طرف کھیت ہی کھیت نظر آ رہے تھے ایک سائط پر ایک بہت بڑا کبرستان جس کی چار دواری کے اندر بہت ساری کبرے ایک بیانک منظر پیش کر رہی تھی میں اس کبرستان کے اندر داخل ہوئی میری بیٹی کھبراتی ہے میری طرف دیکھنے لگی اور بولی امہ یہ


تب ہی خوف ناک، واز ہم دونوں کے کانوں سے ٹکرائی میری بیٹی مجھ سے لپت گئی لیکن اس وقت اپنے دوسرے بچوں کی جان بچانے کے لئے میں سخت دل بنی تھے میں بابا جی کے بتائی ہوئے درخت کے نیچے چلی گئی اس درخت کی گھنی ٹہنیا جو زمین کو چھوڑی تھی اس کے قریب جاتے ہی بیٹی کو گلے لگا کر خوب روئی اور اس سے وادہ کیا کہ بہت جلد اسے دوبارہ ملوں گی اس وقت اپنے بہن بھائیوں کے خاطر


اس کا چہرا میں اندھیرے میں مکمل طور پر نہیں دیکھ سکتی تھی وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی امہ! مجھے یہاں چھوڑ کر نہ جائیں مجھے بہت در میں حسوس ہو رہا ہے امہ! دیکھیں مجھے اپنے ساتھ لے جائیں میں آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گی لیکن نجانے کیوں مجھے اس پر ترس نہیں آ رہا تھا میں اسے درخت کے نیچے چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلے اس نے مجھے بہت اوازن دی امہ! مجھے یہاں چھ


پرانے قبرستان سے باہر جانے لگی تب ہی مجھے زوردار چیخ سنائی دی یہ میری بیٹی کی چیخ تھے اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑکا تھا میں اپنی معامتہ سے مجبور ہو گئی تھی اور میں اس وقت پیر بابا کی بات بھول گئی اپنی ماسوم اور جان سے پیاری بیٹی کی چیخ میرے دل کو اندر تک چیر گئی میں اکدام سے پیچھے کی طرف بھاگی لیکن جیسے ہی درخت کے نیچے پانچ کر دیکھا تو میری جان نکل گئ


اب میں ہی دردر پاغلوں کی طرح جنت کو ڈھونٹی پھیر رہی تھی اور خود پر بہت اوسا آرہا تھا دل چاہ رہا تھا کہ خود کو یہیں دفن کر لوں رو رو کر ہلکان ہو چکی تھی کبرستان میں اس انسان اور تاریک رات کی خاموشی میں میں بری طرح سے چیکھ رہی تھی اس وقت کوئی بھی میری چیکھ و وکار سننے والا نہیں تھا بار بار جنت کو پکار رہی تھی کہ جنت بیٹا کہاں ہو تم میرے پاس آ جاؤ نجانی میری جان سے پیاری بیٹی کے سات


کافی دیر وہیں بیٹھ کر میں روتے رہی اس کے بعد کھر میں جو چار بچے موجود تھے ان کا حیار آیا ایک بیٹی کو میں نے کھو دیا تھا اب میرے جو بچے کھر میں تھے میں نے انھیں دیکھنا تھا وہاں سے روتے روتے مرے مرے قدموں سے میں کھر کی طرف چل دی تھی چلتے چلتے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کس راستے پر چل رہی ہوں ایسے بے جان جسم کے ساتھ گھر پانچی تھی گھر پانچ دی دیکھا میرے چاروں بچ


میرا دل پسج کر رہ گیا چھوٹا بیٹا ایک دم سے روتا ہوا اٹھا یہ دو دن سے بہوش پڑا تھا اچانک سے اس کی طبیعت بلکل ٹھیک ہو گئی تھی اسے دیکھ کر جہاں میرے چہرے پر خوشی کے اثار نظر آئے وہیں دل پر گہرے زخم بھی نظر آئے جو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے بیٹے کی چار پائی پر جا کر بیٹھی وہیں مجھے ایک سرخ رنگ کا کپڑا نظر آیا جس میں ایک گٹری ب


ان نوٹوں کو دیکھتے میں سمجھ گئی کہ یہ میری بیٹی کا معافزہ ہے جو مجھ تک کسی نہ کسی طرح سے پہنچ آ دیا کیا آخر میں میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وہ کہاں گئی تھی؟ کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی اب مجھے یہ سارے پیسے بلکل بھی فضول لگ رہے تھے میری بیٹی کی قیمت اتنی کم تھی اب میرے پاس بہت سارے پیسے تھے لیکن میرے دل کو سکون نہیں تھا


اگلے دن میں چھوٹے بیٹے کو لے کر باقی تینوں بچوں کو چھوڑ کر پیر بابا کے دربار پھانچی تاکہ میں پیر بابا سے دریافت کر سکوں کہ میری بیٹی کہاں ہے اور اس کو یہ پیسے لوٹا دوں تاکہ اپنی بیٹی کو واپس لے سکوں نجانے میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا اگا پیر بابا نے کچھ بھی تو نہیں بتایا تھا جیسے ہی میں دربار میں پھانچی مجھے پیر بابا کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے میں نے درباریوں سے دری


کہ انہیں اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم کیونکہ وہ پیر بابا یہاں کچھ تیر پہلے ہی آئے تھے لیکن پروین اپا تو کہہ رہی تھی کہ وہ بھی اسی پیر بابا سے دم کرواتے رہی ہیں تو پھر یہ سب کچھ کیا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی میں وہ پیسوں کی گٹھری اسی طرح واپس گھر لے کر آ گئی تھی راشن بلکل ختم تھا دل میں خیال آیا کہ کچھ پیسوں کا راشن خرید لوں تاکہ بچوں کے لیے کھانا پکا ل


تو میں اپنی جنت کو واپس کیسے لے کر آوں گی؟ پروین اپا کی طرف گئی اس سے اس پیر بابا کے بارے میں پوچھا تو وہ صاف مکر گئی اور کہنے لگی یہ تو پیر بابا کا گدی نشین تھا نہ جانے یہ کہاں سے آیا تھا میں اس بارے میں نہیں جانتی اس سے پہلے جو پیر بابا تھے وہ تو وفاد پا چکے ہیں میں تو انہیں سے دم وغیرہ کرواتی تھی یہ تو ان کا گدی نشین تھا پھر پروین اپا مجھ سے بولی لیکن تم پیر بابا کے بارے میں کیوں پو


پھر میں نے بات کو ٹال دیا اور میں نے انہیں بتایا تھا کہ میں جنت کو قبرستان چھوڑ آئی تھی اور میرے کھر سے مجھے پیسے ملے کیونکہ اگر میں یہ بات انہیں بتا دیتی محلے میں یہ بات آگ کی طرح پھیل جاتی اور یہاں کے نشی اور برے لوگ میرے کھر میں ایک پیسہ نہ رہنے دیتے ہیں میں انہیں پیسوں کو واپس کر کے اپنی بیٹی کو گھر لانا چاہتی تھی لیکن نہ ہی مجھے پیربابا کا سراغ مل رہا تھا اور نہ ہی مجھے پ


اب میں اس گھر میں مزید نہیں رہنا چاہتی تھی میں اپنے بچوں کو لے کر ایک دوسری جگہ چلی گئی وہاں جا کر ایک گھر کے رائے پر لیا لیکن یہ گھر بھی اس گھر سے زیادہ دور نہیں تھا کیونکہ مجھے اسی شہر میں رہ کر اپنی بیٹی کو ڈھوننا تھا اور اس پیر بابا کا پتہ لگوانا تھا لیکن میں یہ سب کیسے کرتی؟ گھر کے حالات بھی خراب تھے آخرکار میں نے ان پیسوں میں سے کچھ پیسے خرچ کرنا شروع کر دیا دن گ


اس تمام عرصے میں ہر روز رات کے وقت میں کبرستان جاتی اور در اور خوف میرے دماغ سے نکل چکا تھا اس وقت مجھ پر صرف ایک ہی بات سوارتی کہ مجھے اپنی جنت کو ہر حال میں ڈھوننے آخر کھان جا سکتی ہے میری جنت ابھی دو منٹ بھی نہیں ہوئے تھے اسے میں اسے درخت کے نیچے چھوڑ کر گئی تھی اور وہ اچانک ایک چیخ کے ساتھ کائب ہو گئی اس بات کو تقریباً چھے مہینے گزر چکے تھے ایک دن میرے دروازے پر کس


میں نے جیسے ہی دروازہ کھلا وہاں کوئی موجود نہیں تھا میں حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی لیکن کوئی نظر نہیں آیا جیسے ہی بند دروازہ واپس کر کے پیچھے مڑھنے لگی تو نیچے ایک لفافہ نظر آیا میں نے وہ لفافہ اٹھایا اندر کمبرے میں لے آئی میرے چاروں بچے اس وقت کھر میں کھیل رہتے میں دن رات بیٹی کی یادو میں روتی اپنی بیٹی کو زندہ کبستان چھوڑ آئی تھی یہ بات میں جانتی ت


لیکن ان پیسوں سے میں بہت سے پیسے خرچ کر چکی تھی جیسے ہی لفافہ کھولا اس میں کھت موجود تھا جس میں لکھا تھا ایک بچے کے بدلے اگر ایک روڑ تم اور لینا چاہتی ہو تو ایک اور بچہ ہمیں دے دو مالہ مال ہو جاؤ گی یہ کھت پڑتی میرے جسم سے جیسے جان نکل گئی تھنڈے پسی نے میرے پورے جسم سے بہنے لگے دل تیز تیز ڈھڑک رہا تھا کہ آخر یہ لیٹر چھوڑنے والا کون تھا


دروازہ کھل کر گلی کے کونے تک گئی کہ شاید کوئی نظر آ جائے گلی میں ایک دو سے پوچھا کہ کسی کو کچھ بھی نہیں پتہ تھا لیکن کوئی بھی اس بارے میں جانتا بھی نہیں تھا میرے کھر کے سامنے یہ کریانہ سٹور تھا کریانے والے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں تو سامنے ہی ویٹھا ہوں مجھے تو آپ کی کھر کوئی آتا جاتا نظر نہیں آیا میں حیران ہو رہی تھی کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے آخر یہ لفافہ چھوڑنے والا کون


تو کوئی نہ کوئی تو سرور دیکھتا تو پھر یہ سب کیا تھا؟ میں نے تیقر لیا کہ آج رات جیسے ہی 12 بجیں کے میں قبرستان جاؤں گے ہو سکتا ہے میری بیٹی کو لے کر جو گیا ہو اسی نے یہ لفافہ چھوڑا ہو اور وہ آج رات وہاں آئے اور میرا انتظار کرے میں اپنا دوسرا بچہ لے کر آؤں گے میں اپنے سارے بچوں کو سلا کر خود رات کے 12 بجیں کھر سے نکلے تھے جیسے ہی پرانے قبرستان میں پہنچی عجیب و غریب سی آواز


اور یہ آوازیں میرے پورے جسم کو لرزانے کے لئے کافی تھی لیکن میں یہاں اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے آئی تھی جب بات معنیتا پر آتیا تو سارا در اور خوف مہا کے دل سے نکل جاتا ہے اسے پرواہ ہوتی ہے تو صرف اور صرف اپنی اولاد کی میرے ساتھ بھی آج ایسا ہی تھا میں اپنا سارا در اور خوف ایک سائی پر رکھیا ہے تلکرسی کا ورد کرتے اسی درخت کے نیچے جا پھانجی تب ہی مجھے محسوس ہوا کہ کوئ


میں ایک دم سے گھوم کر دیکھنے لگی اور بولی کون ہو تم؟ سامنے کیوں نہیں آتے؟ سامنے آو! کدھر ہے میری جنت؟ میری جنت مجھے واپس کرو! میں اپنی بیٹی کو لینے آئیوں تمہیں تمہارے سارے پیسے واپس کروں گی لیکن خدہ کا واسطہ میری جنت کو واپس کرو میں اس کے بنا نہیں رہ سکتی لیکن بالکل خاموشی تھی پھر اچانک سے چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آئی یہ آواز بالکل میرے چھوٹے بیٹے کی ط


میں ایک دم سے جھی ہی ارہم اس کو تمہیں کھر سلا آئی تھی یہ یہاں کیسے آگیا میں پاگلوں کی طرح اس درخت کے اٹھے چکر کرتی رہی لیکن مجھے کوئی نظر نہیں آیا میں بھاگتے ہی کھر کی طرف مڑی تب ہی بھاگتے بھاگتے سانس مشکل سے آرہی تھی اتنے لمبا سور با مشکل تے کیا جیسے ہی کھر پانچ ہی تو میرے اسان خط آوگے میرا چھوٹا بیٹا ارہم گھر سے گائف تھا اور وہاں اسرخ رنگ


اور پرچی پر لکھا تھا ایک بچے کے بدلے ایک روڑ تمہیں مل چکا ہے اب تمہارا ان بچوں سے کوئی تعلق نہیں رہا انہیں بھول جانے کی کوشش کرو میں بری طرح جیخ رہی تھی میری جیوکو پکار کی آواز سن کر باقی تینوں بھی جاک گئے وہ تینوں میری اٹکرت کھڑے ہوئے اور پوچھنے لگے ماما کیا بات ہے کیوں رو رہی ہیں ارحم کی در ہے جنرت تبھی بھی کہیں چلی گئی اور ارحم کہاں جلا گیا وہ اتر اتر د


کائش یہ زمانہ اتنی ظلم نہ دہا تھا کائش امارے اپنے ہمارا ساتھ نہ چھوٹے تو میرے بچے پاس ہوتے ہیں میں بری طرح سے رو رہی تھی میں نے تینوں بچوں کو اگوش میں چھوپایا کیونکہ ایک در اور خوف میرے سر پر سوار تھا کہ میرے تینوں بچے بھی مد سے دور چلے جائیں گے ان پیسوں کا اس مال و دولت کا میں نے کیا کرنے ہیں جب میرے پاس علاد ہی نہیں ہوئی پہلے صرف میری بیٹی جنت مد سے دور تھی اب ارم بھی اچان


آخر وہ پیر بابا کہاں گئے؟ میں اسے دوننے چاہتی تھی لیکن کیا کرتی؟ بچوں کو اکیلے گھر چھوڑتی تو کہیں اور کوئی آفت نہ جاتی کسی کی مدد نہیں لے سکتی تھی اس وقت جتنا خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی دل چاہتا تھا خود کشی کر لوں بچوں کو بھی ساتھ لے کر یہ دنیا ہی چھوڑ دوں یہ دنیا ساتھ نبانے والی نہیں تھی ایک امید کی قرن نظر آئے کہ ساری دنیا چھوڑ سکتی ہے لیکن اللہ کے


کہ یا اللہ کوئی وثیلا بنا میرے بچے مجھے واپس مل جائیں مجھے نہیں چاہیے یہ مال و دولت صرف اپنے بڑے خزانوں میں سے مجھے دو وقت کی روٹی دے جس سے میں بچوں کا پیٹ پال سکوں مجھے میری جنرت اور ارہم لوٹا دے میں تجھ سے مدد مانکتی ہوں کسی سے نہیں مانکتی جو مجھ سے گناہ ہوئے ہیں انہیں ماف کر دے آئیدہ میں ایسی غلطی نہیں کروں گی بہت سکون محسوس ہوا اللہ سے دعا کرنے کے بعد ا


خود ارم اور جنت کو ڈھونڈنے جاؤں گی تینوں بچوں کو سلا کر باہر سے لوک لگایا اور خود قبرستان کے طرف چل لی آج میرا مکمل یقین میرے اللہ کی ذات پر تھا میرے اللہ مجھے کبھی مایوس نہیں لوٹانے والا اسی امید پر قبرستان پانچی آیت الکرسی کا ویڈ کرتے اسی درخت کے نیچے گئی زور سے آواز لگانے لگی جنت! ارم کہاں ہوں تم؟ تب ہی مجھے کالے لباس میں دو لوگ گزبتے نظر آئے


جو بلکل بھی انسان نظر نہیں آتے تھے میں ان کے پیچھے ہولی ان کے پیچھے چلتے تھے کبرستان سے کہیں دور نکلائی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جا رہی ہوں وہ ایک اجیب و گریب جگہ پر پہنچے اس جگہ ہلکی روشنی نمودار ہو رہی تھی ان کا پیچھا کرتے میں یہاں آئی اب مجھے اہر آرہ میں سراغ لگانا تھا کہ میری جنت اور ارہم کہیں وہ دونوں بو سیدہ اور پرانے مکاند کے اندر داخل ہوئے


جیسے ہی اس کھنڈر نمائی کر کے اندر داخل ہوئی تو دیکھ کر ایران رہ گئی پائر سے کھنڈر اور بوسیدہ نظر آنے والا ہر اندر سے بہت خوبصورت تھا ہر طرف سنگ مرمر اور شیشے جوڑے تھے ایسے لگ رہا تھا کوئی تاج محلوں میں اس میں جاتی ایک عجیب سی خوشبو میرے دل میں اترہی ادھر ادھر دیکھتی آگے پڑ رہی تھی لیکن ہر طرف اپنا ہی اکت نظر آ رہا تھا سمجھ نہیں آرہی ت


کمرا بہت سجا تھا اس میں بہت سارے کھلونے تھے جنہیں میں نے آج تک دنیا میں دیکھا نہیں تھا اور وہیں ایک سائٹ پر میرے دونوں بچے کھیل رہتے تھے اور بہت خوش تھے جنت اور ارحم ایک ساتھ انہیں دیکھ کر میں خوش تھی یہ سب کچھ دیکھ کر میرے وجود میں خوشی کی لہد دوڑی میں بھاگتی اور ارحم اور جنت کی طرف گئی مجھے دیکھتے ہی جنت مجھ سے لپٹ گئی ارحم بھی خوش ہونے لگا میں نے اسے گوڑ میں اٹھایا اور


نہیں امہ آپ کے ساتھ واپس نہیں جوں گی یہ ہی رہوں گی یہاں بہت کچھ ہے یہ سنتے ہیں میں حرانگی سے جنت کی طرف دیکھنے رکھی جنت پیچھے کی طرف پھاگی میں نے جیسے ہی مڑکر دیکھا تو جنت کالے لباس والے انہی لوگوں کی طرف گئی تھی جو میرے پیچھے کھڑے تھے انہی کا پیچھا کرتے میں یہاں آئے تھے کہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی رہ گئی کہ ان میں ایک وہی پیر بابا تھے جیروں نے مجھے یہ سب کچھ کرنے کے ل


میری اولاد مجھ سے چھین دی ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟ تب ہی وہ بولا تو میں سب کچھ بتاتا ہوں تھوڑا سبر کرو ہمارا مطلب ہرگز نہیں تھا کہ تم سے تمہاری اولاد چھینے ہم بھی اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا تم کرتی ہو اس کی بات پر میں ہران ہوئی وہ دونوں میہ بیوی تھے لیکن پہلے میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا ان کی بہت بیانک شکل تھی اور یہ انسانی شکل میں تھے لیکن میں تو یہ جان گئی تھی کہ انسان نہیں ہو سکتے ت


نظر آنے والا شخص مجھے بتا رہا تھا کہ وہ انسان نہیں بلکہ جن زادہ ہے اور ساتھ اس کی بیوی تھی وہ بتا رہا تھا کہ ان کی شادی کو 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اولاد نہیں ہوئی بہت سے جناتی لاج کروائے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا جناتی عامل اور حکیم ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہم دونوں ماں باپ نہیں بن سکتے یہ دکھا میں کھائے جا رہا تھا میری بیوی بری طرح سے ٹوٹ کر بکھر چکی تھی اسے لگتا کہ


یہ کسی طرح بات ماننے کو تیار نہیں تھی کہتی تھی کہ بس مجھے اولاد لا کر دو جہاں سے مرزی چاہے کوئی انسان کا بچہ ہے کیوں نہ ہو میں اسے اپنا بچہ بنائی کر پالوں گی اور بہت پیار دوں گی میں عرانی سے ان دونوں جنات کی باتیں سن رہی تھی کہ یہ اولاد پانے کیلئے کسی کی بھی اولاد چین کر لے آئیں گے تب ہی وہ عورت میرے قدموں میں بیٹھ گئی اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگی دیکھو مجھے معاف کر دینا جس طرح تم معامتہ سے


اسی وجہ سے شہر سے دمانٹ کی تھی کہ جتنا مرسی پیسہ دولت خرچ کر دو لیکن مجھے اولاد لاتو لیکن اب یہ بات جان گئی ہو کہ اولاد جسے اللہ دیتے اس کا وہی اقدار ہوتا ہے یہ دونوں بچے تم سے چھین کر میں لے آئی اور تمہیں معلو دولت دی لیکن ان دنوں میں میں نے سکون کا ایک لمحہ نہیں گزارا بہت بے سکون رہی میرے اور میرے شہر کے دل میں پشتاوہ ہے کہ میں تم سے تمہاری اولاد کیوں چھین لائی لیکن پھر سوچتی ہو کہ میری اولاد نہیں تو


پھر جب تمہاری پکار سنائی دیتی تو دل تڑپ پڑھ تھا میں نے ایک دن بھی تمہارے بچوں کو تکلیف نہیں پہنچنے دی انہیں سینے سے لگا کر رکھا چاہو تو بیٹی سے پوچھ لو یہ تو بڑی ہے سب کچھ جانتی ہے تب ہی جنرت میرے قریب آئی اور ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی جی امہ یہ ٹھیک کہہ رہی ہے انہوں نے مجھے بہت پیار محبت دیا میں یہاں مزے کے کھانے کھاتی رہی ہوں اور بھائی سے بھی ب


ہم آپ مجھ سے ملنے آجائے کرنا ویسے بھی آپ کے پاس تو ہمیں کھانا کھلانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے بیٹی کی بات سن کر میری آنکھ ہاؤسوں سے بھر آئی تبھی جنزادی آکے بڑھی اور بولی نہیں جنت بیٹا تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتی تماری ما تمہارے بنات تڑپی ہے میں پہلی پشتاوے کی آگ میں جل رہی ہوں ہم مزید کسی کا دل دکھا کر خود کو ظالم ثابت نہیں کرنا چاہتی اس لئے تمہیں اور تمہارے بھ


بے شک تم کچھ دن کے لیے سائی لیکن ہماری بیٹی بنی ہمیشہ ہماری بیٹی رہو گی اور ارہم بیٹا رہے گا انہیں ہم صغی اولاد بنائے کر اپنے پاس رکھ رہے تھے کچھ دن کے لیے سائی ہمیں دلی سکون دیا تھا تم دونوں کو دنیا میں بہت کچھ ملے گا انسان ان دنیا میں بہت خوش ہو خورم زندگی گزارو گے یہ بات کہتی وہ جن زادی پھوٹ پھوٹ کر رو دی وہ جنت کو گلے ملی اور بولی تمہیں ب


تم تمہاری ما اور تمہارے بہن بھائی بہت آرام اور سکون سے زندگی گزاریں گے لیکن تم اپنے جنات ما باپ کو کبھی نہ بھولنا ہم بھی تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے تبھی وہ جن زادی میرے پاس آئی اور میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی میں صرف آپ سے گزاریش کرنا چاہتی ہوں میری ایک بات مان لیں ہم لوک کبھی کبھی جنت اور عرم سے ملنے آیا کریں گے بس ہم دونوں کو ان سے ملوادیا کرنا کبھی دوبارہ آپ کو یا آپ کے بچوں کو تنگ نہیں


میں یہ سوچ کر حیران تھے کہ جنات بھی اچھے ہوتے ہیں تب بھی اس نے تالی بجائی اور کالے رنگ کا بہت بڑا تھیلہ مگوایا اس نے وہ تھیلہ مجھے دیا اور بولی کہ اس میں بہت سارے ہیرے جوارہ تھے پوری زندگی نہیں خرچ کرو گے تب بھی دولت ختم نہیں ہوگی ہم وقتا فقتا ہم دنوں میابی وی تمہاری مدد بھی کرتے رہیں گے اور صرف چاند کی چودوی رات کو ہم دنوں تمہارے کھر کی چھت پر جنت اور ارہم سے ملنے آیا کریں گے


میں نے اسی دن دنوں جنات سے وادہ کیا کہ میں کبھی اپنے دنوں بچوں کو ان سے ملنے سے روکوں گی نہیں کیونکہ میں یہ بات جان گئی تھی کہ یہ برے جنات نہیں ہے۔ اچھے جنات ہیں۔ یہ میرے بچوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جب اتنے دن میرے بچوں ان کے پاس رہے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو اب کبھی بھی یہ اس سے ملنے پر انہیں کیوں کوئی نقصان پہنچائیں گے؟ اور اس دن میں نے جنات سے وادہ کیا تھا کہ ہر جاند کی چودوی رات کو بچوں کو چھت


میرے پاس بہت سارا مال و دولت ہے ہم ایک بڑے سکھر میں رہتے ہیں جنت اب 20 سال کی ہو چکی ہے ہر چاند کی چودویں تاریک کو دونوں میان بیوی عرم اور جنت کو ملنے آتے ہیں جنت مجھے بتا رہی تھی کہ ان دونوں کے پاس ایک بیٹا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سب کو جنت اور عرم کی وجہ سے انہیں ملا ہے نہیں تو وہ آج تک نہ امید ہو چکے تھے کہ ان کی کوئی علاد نہیں ہو گی اب بھی وقتن فقتن ہماری مدد کرتے رہتے ہیں حالا کہ


اب جب بھی کہیں میں کسی بیوہ بے سہارہ کو دیکھتی ہو تو ان کی مدد ضرور کرتی ہو میں نہیں چاہتی کہ کوئی بیوہ ماہ اتنی مجبور ہو کہ اپنے دوسرے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کوئی ایک بچہ قربان کرتے آپ نے میری پوری کہانی سنی اب آپ مجھے بتائیں کہ میں نے پیر بابا کی بات پر عمل کر کے غلط کیا کیا ہمیں ان عاملوں کی باتوں پر یقین کر کے خود کو کسی خطرے میں ڈالنا چاہیئے یا پھر اپنے اللہ پر یقین کر کے اپ


آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow